aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈھائی سیر آٹا

حیات اللہ انصاری

ڈھائی سیر آٹا

حیات اللہ انصاری

MORE BYحیات اللہ انصاری

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک مزدور کی کہانی ہے، جو بہت مشکل سے اپنی کنبے کا پیٹ بھر پاتا ہے۔ ایک روز کام سے لوٹتے ہوئے اسے سڑک پر ڈھائی سیر آٹا پڑا ہوا مل جاتا ہے۔ وہ آٹے کو سمیٹتا ہے اور گھر لے آتا ہے۔ اس آٹے کی بھی اپنی ہی کہانی ہوتی ہے۔ وہ آٹا ایک مدت بعد اس کے اور اس کے بچوں کے چہرے پر خوشی اور راحت کا احساس دلا تا ہے۔‘‘

    پروائی چل رہی تھی اس لیے مولا کو بائی نے پکڑ رکھا تھا اور وہ آٹھ دس روز سے کام پر نہیں جا سکا تھا۔ دو تین روز تک جو دو چار پیسے جمع تھے، وہ خرچ ہوئے اور پھر ادھار پر کام چلتا رہا۔ دو چار روز کے بعد بنیا بھی حیلے حوالے کرنے لگا۔ مجبوراً ایک دن مولا ٹانگ میں ذرا آرام پاکر صبح تڑکے ٹوکری لے کرمزدوروں کے بازار گیا۔ جن کاریگروں کے ساتھ کام کر چکا تھا، ان میں سے ایک نے جس کا کام لگا ہوا تھا، اس کو ساتھ لے لیا۔ یہ دن بھراینٹ گارا ڈھوتا رہا۔ شام کو ساڑھے چار آنے پیسے ملے جسے لے کر گھر چلا۔ راستے میں ایک آنہ بنیے کو قرض کا ادا کیا، ایک آنہ مکان کے کرایہ کے لیے رکھ لیا اور ایک پیسہ کل کے چنیے کے لیے بچا لیا۔ باقی بچے نو پیسے۔ اس میں سے ایک پیسے کے آلو، ایک کا باجرے کا آٹا، پانچ پیسے کے ڈیڑھ سیر چاول اور ایک پیسے کی دال، ایک پیسے کی لکڑی لے کر ایک لمبی سی گلی میں گھس گیا جو آگے چل کر اتنی تنگ ہو گئی تھی کہ وہاں ابھی سے اندھیرا تھا۔ اس گلی میں برابر کئی کئی کوٹھڑیاں بنی تھیں۔ دو ایک سے دھواں نکل رہا تھا جو ٹھنڈا ہو کر گلی میں بھر رہا تھا۔ ان میں سے ایک کوٹھڑی کے سامنے مولا کی بیوی منی جس سے شادی تو نہیں ہوئی تھی مگر پندرہ برس سے تعلقات میاں بیوی ہی کے ایسے تھے، دو لڑکیاں اور ان دونوں سے چھوٹے دو لڑکے جاڑے کے مارے پاس پاس بیٹھے مولا کا انتظار کر رہے تھے۔ سبھوں نے خوش ہوکر اس کو گھیر لیا۔ یہ تھکا ہوا بہت تھا۔ آتے ہی ٹاٹ پر لیٹ گیا اور پوٹلی رکھ کر بولا،

    ’’سب لیتا آیا ہوں‘‘

    بیوی چولہے کے پاس گئی جو اس کوٹھڑی میں ایک طرف بنا ہوا تھا، آگ سلگائی اور دال چاول پکنے کو چڑھا دیے۔ لڑکے اور لڑکیاں چولہے کو گھیر کر بیٹھ گئے اور دال چاول پکنے کی دل خوش کن کھدر کھدر سننے لگے۔ ان لوگوں کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راگنی نہیں ہو سکتی تھی۔

    کمرے میں سیل اور میلے کپڑوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اب وہاں دھواں بھی بھرنے لگا مگرسب کادھیان چولہے کی طرف تھا۔ لڑکے بھوک سے پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ دال چاول جلد سے جلد پک جائیں، اس لیے وہ بار بار بہت سی لکڑی چولہے میں لگا دیتے۔ یہ دیکھ کر ان کی ماں ڈانٹ بتاتی۔

    ’’کم بختو! کل کھانا کیسے پکےگا؟‘‘

    بڑی لڑکی جس کی پلکیں بال خورے نے غائب کر دی تھیں، چولہے کے پاس بیٹھی برابر بدن کھجلاتی جاتی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد لکڑی کی ڈوئی سے دال اور چاول نکال کر چٹکی سے ملتی تھی۔ اس وقت لڑکے پوچھتے تھے۔

    ’’کتنی دیر ہے؟‘‘

    ’’بس تھوڑی دیر او ر ہے۔‘‘

    یہی جواب آدھ گھنٹہ تک چلتا رہا۔ مولا ایک پرانی دری اوڑھے جس میں سینکڑوں چھید تھے، ٹاٹ پر چپ چاپ لیٹا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بولا،

    ’’جیسے نیند آ رہی ہے۔‘‘

    اتنے میں کسی کے چیخنے اور رونے کی آواز آنے لگی۔ کوئی مزدور تھا جو تاڑی پی کر اپنی بیوی کو مارتا تھا۔ جب غل غپاڑہ زیادہ ہوتا تھا تو آس پاس کے لوگ جا کر معاملہ رفع دفع کرا دیتے تھے۔ اس وقت یہ غل سن کی منی بولی،

    ’’ان لوگوں کے یہاں روز روز یہی رہتا ہے۔ نہ معلوم کیسے کمینے ہیں۔‘‘

    مولا، ’’ہونہہ۔۔۔ چاول گلے نہیں اب تک؟‘‘

    منی نے دیکھا تو چاول گل گئے تھے۔ اس نے اتار کر ایک طرف رکھ دیے۔ ہانڈی بند تھی مگر ابال میں ہانڈی کے کگروں پر کچھ چاول آ گئے تھے۔ چھوٹے لڑکے ببو نے ان میں سے دو تین چاول پونچھ کر کھا لیے۔ دوسرا لڑکا منو فوراً بولا،

    ’’ہونہہ۔ میں بھی۔‘‘

    اس نے اور زیادہ کھا لیے۔ اس پردونوں میں لڑائی ہونے ہی والی تھی کہ منی نے دونوں کو ڈانٹا،

    ’’کم بختوں میں ذرا صبر نہیں۔ میں کہتی ہوں۔۔۔‘‘

    تھوڑی دیر لڑکے منی کی بات پوری ہونے کے منتظر رہے۔ جب وہ کچھ نہیں بولی تو پھر کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب دال کا سب کوبڑی بے صبری سے انتظار تھا۔ آخر ایک لڑکی بولی،

    ’’اماں اب گھونٹ دو۔‘‘

    ماں نے دال کو دیکھا تو وہ تھوڑی بہت گل گئی تھی۔ زائد انتظار کون کرتا۔ اس نے دال گھونٹ کر نمک ڈالا اور اتار لی پھرتین تامچینی کی پلیٹیں جن کی چینی تقریباً بالکل اڑ چکی تھی اور ایک مٹی کی رکابی سامنے رکھی۔ پہلے ایک بڑی پلیٹ میں چاول نکالے اور اس پر دال ڈال کر مولا کے سامنے رکھ دیے۔ مولا بہت بےصبری سے کھانے لگا۔ سب بچے اب ٹکٹکی باندھ کر منی کے ہاتھوں کی حرکت دیکھ رہے تھے۔ اس نے مٹی کی تھالی میں چاول نکال کر دونوں لڑکیوں کے بیچ میں رکھ دیے اور پھرتا مچینی کی پلیٹوں میں برابر برابر چاول نکالے، اس پر دال ڈالنے لگی۔

    ببو، ’’منو کی پلیٹ میں اتنا اور ہماری پلیٹ میں اتنا۔‘‘

    منی نے تھوڑی سی دال اس کی پلیٹ میں اور ڈال دی۔

    منو، ’’اماں ہم بھی۔‘‘

    ماں نے دو چار چاول اس کی پلیٹ میں بھی ڈال دئیے اور پھر باقی چاولوں کو دال کی ہانڈی میں الٹ کر کھانے لگی۔ ابھی چولہے میں کچھ کوئلے باقی تھے جن کی ہلکی ہلکی روشنی میں ان لوگوں کے چہرے اور چلتے ہوئے جبڑے دکھائی دے رہے تھے۔ چھوٹے لڑکے کھاتے جاتے اور پلیٹ کی طرف دیکھ کر اندازہ کرتے جاتے کہ ابھی اتنا اور ہے، اتنا اور ہے۔ آخر منو اپنی پلیٹ پونچھ کر بولا،

    ’’بس کھا چکے۔‘‘

    مولا بھی چاول ختم کر چکا اور بولا،

    ’’چاولوں میں خدا نے بڑی برکت دی ہے۔ ذرا سے کھالو اور پیٹ بھر گیا اور روٹی کا یہ ہے کہ سیر بھر آٹے کی ہو تو کچھ نہیں اور دو سیر ہو تو کچھ نہیں۔‘‘

    ببو، ’’اماں! صبح کیا پکےگا؟‘‘

    اماں، ’’میں کہتی ہوں ان لوگوں کی نیت کبھی نہیں بھرتی۔ ابھی کھا چکا ہے اور ابھی پوچھ رہا ہے کہ کل کیا پکےگا۔‘‘

    منی نے بانس کے پلنگ کے نیچے سے جو کوٹھڑی کا چوتھائی حصہ گھیرے ہوئے تھا، ایک پان دان نکالا، جس کا پیندا گھس گیا تھا اور سب کلھیاں ایک دفتی پر رکھی ہوئی تھیں۔ یہ پان دان منی کی ماں کا تھا اور اس کو بہت پیارا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ میں کسی گھر میں اوپر کا کام کاج کرنے کو نوکر ہو جائوں تو سب سے پہلے اسی کو ٹھیک کرائوں گی۔ منی نے ایک پان کے چار ٹکڑے کیے۔ ایک خود کھایا، ایک مولا کو دیا اور دونوں لڑکیوں کو۔ پھر کوٹھڑی کے بیچ میں ایک ٹاٹ کا پردہ ڈال دیا جس سے اس کے دو حصے ہو گئے۔ ایک طرف پلنگ ہو گیا اور دوسری طرف ٹاٹ کا فرش۔ پلنگ پر منی اور مولا لیٹ گئے اور ٹاٹ پر دونوں لڑکے اور دونوں لڑکیاں۔ سردی تیز ہو گئی تھی۔ مولا اور منی نے تو وہی دری اوڑھ لی۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں کسی نے موٹی چادر اور کسی نے ٹاٹ کا ٹکڑا دہرا کر کے اوڑھ لیا اور پھر چڑیا کے بچوں کی طرح ایک دوسرے سے چپک کر لیٹ رہے۔ کوٹھڑی کے دروازے سے ٹھنڈی ہوا آ رہی تھی، اس لیے مولا نے اٹھ کر اس کو بند کر دیا، ہوا کی آمدورفت بند ہو گئی اور کوٹھڑی میں حبس کی وجہ سے گرمی ہو گئی۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد منی بولی،

    ’’آج منشی جی پھر آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ نواب صاحب نے حکم دیا ہے کہ جس پر کرایہ چڑھا ہو، اسکو کوٹھڑی سے فوراً نکال دو۔‘‘

    مولا، ’’نکال دیں گے، نکال دیں گے، جب سنو، یہی ہے۔ آئیں، آکر نکالیں۔ ہم جاڑوں میں بچوں کو لے کر کہاں جائیں۔ ہو اکریں وہ بڑے آدمی۔ ہم تو نہیں نکلیں گے۔ کہہ دو جب کرایہ جمع ہو جائےگا۔ دے دیں گے۔ ضروردیں گے۔ مر جائیں تو بات دوسری ہے۔ بڑے آئے ہیں نکالنے والے۔‘‘

    اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے خاموشی ہو گئی پھر مولا بولا،

    ’’منشی جی کے یہاں کی نوکری کاپتہ چلا۔‘‘

    منی، ’’وہ کہتے ہیں چھوٹی لڑکی سے میرا کام نہیں چلےگا۔ ایسی لڑکی ہو جو جھاڑو بہارو کرے اور دو گھڑے پانی اٹھا کر رکھ دے۔‘‘

    اس کے بعد منی ذرا رکی پھر آواز نیچی کرکے بولی،

    ’’میں کہتی ہوں کہ جوان لڑکی کو کیسے بھیج دوں۔ اس موئی کا بھی دیدہ ہوائی ہے۔ پانی بھرنے جاتی ہے توٹھٹھا کرتی ہوئی۔‘‘

    مولا، ’’جائےگی تو حرام زادی اپنے سے جائےگی۔ ایک چلی گئی تو کیا کر لیا؟ لڑکا ہوتی تو چار آنہ روز کما لاتی۔‘‘

    مولا کی بڑی لڑکی بھاگ گئی تھی اور سال بھر سے پتہ نہیں تھا۔

    منی، ’’کیا کر لیا؟ موئی تھی ہی ایسی۔ ایسی نہ ہوتی تو جاتی کیوں؟ لڑکے کب اچھے نکلتے ہیں؟ کس نے لاکرماں باپ کو کھلایا ہے؟ ادھر کمانے کے قابل ہوئے، ادھر چل دئیے۔ بھورے کو دیکھو۔ ٹھیلا چلاتا ہے۔ دس آنے روز پاتا ہے اور سب اڑا دیتا ہے۔‘‘

    منی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہو گئی اور پھر گہری خاموشی چھا گئی جس کو کبھی کبھی ان لوگوں کی کھانسی کی آواز توڑدیتی تھی۔ ابھی آٹھ ہی بجے تھے۔ بازار میں چہل پہل تھی مگر یہاں سوتا پڑ گیا۔

    جب مولا کی آنکھ کھلی تو اس نے منی کو جاگتا پایا۔ وہ پانچ منٹ تک یونہی پڑا رہا، پھر کراہتا ہوا اٹھا اور بولا،

    ’’سردی کے مارے جان نکلی جاتی ہے۔ بدن جیسے تختہ ہو گیا۔ بیڑی کہاں ہے؟‘‘

    منی نے اٹھ کر ایک کونے سے ایک بیڑی کا بنڈل اور دیا سلائی کی ڈبیہ نکال کر دی۔ مولا نے ایک بیڑی سلگائی اور پینے لگا۔ بیڑی جب تک چٹکی سے پکڑنے کے قابل رہی اس نے ہاتھ سے نہیں چھوڑی، پھر پلنگ سے اٹھا اور لوٹا لے کے باہر چلا گیا۔ پندرہ منٹ کے بعد سردی سے کانپتا ہوا اندر آیا اور لوٹا رکھ کر بولا،

    ’’ ایک بیڑی اور۔ اتنا دن چڑھ آیا، دھوپ کا پتہ نہیں۔‘‘

    مولا نے ایک بیڑی اور سلگائی پھر ٹوکری اٹھا کر بیڑی پیتا ہوا باہر چلا گیا۔

    مولا کے جانے کے دو گھنٹے بعد منی لڑکوں اور لڑکیوں کو لے کر باہر نکلی اور کوٹھڑی میں کنڈی لگا کر ٹہلنے چلی۔ کچھ دور پر دوسرے مزدوروں کی عورتیں دھوپ میں بیٹھی بک بک کر رہی تھیں، یہ جاکر ان میں شریک ہو گئی۔ لڑکے اور چھوٹی لڑکی آنکھ بچا کر ادھر ادھر ہو رہے۔

    تین چار گھنٹے کے بعد منو آیا اور ماں سے کہنے لگا،

    ’’ماں رے! بھوک لگی ہے۔‘‘

    منی ویسے ہی باتوں میں مشغول رہی۔ گویا یہ سننے والی بات ہی نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ببو آیا اور اس نے بھی اسی فقرے کو سنایا مگر منی نے ادھر بھی توجہ نہ کی۔ اس وقت وہ کسی شریف گھرانے کی عورتوں کی بدچلنی بہت جوش و خروش سے بیان کر رہی تھی۔ اس جوش میں یہ فخر پوشیدہ تھا کہ چھوٹی ذات سہی مگر میں ایسی نہیں ہوں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا یا دونوں کے دونوں اپنی صدا لگا دیتے۔ اسی طرح ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اب چھوٹی لڑکی بھی کہیں سے آئی اور ماں کے پاس بیٹھ گئی، پھر چپکے سے بولی،

    ’’اماں چلو۔‘‘

    منی، ’’ابھی سویرا ہے۔ ذرا ٹھہرو۔‘‘

    دس منٹ اور گزرے اب تو ببو ماں کا کندھا پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور رونی آواز سے رٹ لگا دی۔

    ’’کھانا دو۔ کھانا دو۔ کھانا دو۔‘‘

    منی تھوڑی دیر تک یہ ریں ریں سنتی رہی، پھر اس کو ڈانٹ دیا جس پر ببو بھوں بھوں رونے لگا۔ آخر یہ بڑبڑائی ہوئی اٹھی۔

    ’’میں کہتی ہوں۔ یہ سب غارت ہوں یا میں غارت ہوں، زندگی دوبھر ہے۔‘‘

    منی نے کوٹھڑی میں آکر آگ سلگائی اور باجرے کے آٹے کی پانچ ٹکیاں پکائیں۔ دو چھوٹی اور تین بڑی، ان پر ذرا ذرا سا گڑ رکھ کر چھوٹی دونوں لڑکوں کو دیں اور بڑی ایک خود لی اور دو دونوں لڑکیوں کو دیں۔ ان لوگوں کا کھانا تین چار منٹ کے اندر اندر ہی ختم ہو گیا اور پھر یہ سب لوگ گھومنے چلے گئے۔

    شام کو مولا جب مزدوری کے پیسے لیے پلٹ رہا تھا تو اس کی نگاہ گلی کے کونے پر پڑی۔ دیکھا تو دو ڈھائی سیر آٹا یوں ہی پڑا ہوا ہے۔ اس نے قریب جا کر آٹے کو چٹکی میں اٹھا لیا۔ گویا یہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ آنکھیں دھوکا تو نہیں دے رہی ہیں۔ جب یقین آ گیا تو متحیر کھڑا رہ گیا۔ دل کہتا تھا کہ اٹھا لے چلو۔ مگر ایک تو یہ ڈر تھا کہ شاید کوئی کچھ کہے اور دوسری یہ جھجک کہ اس کے ساتھی مزدور بھی پیچھے آ رہے ہوں گے۔ اگر وہ مجھے آٹا اٹھاتے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔ آخر اٹھانے کی ہمت نہیں پڑی اور یہ چل کھڑا ہوا مگر ہر قدم پر رفتار سست ہوتی جاتی۔ دس قدم چل کر بھونچکا سا کھڑا ہو گیا جیسے چوراہے پر پہنچ کر راستہ بھول گیا ہو۔ سوچ رہا تھا کہ کوئی دوسرا مزدور اس آٹے کو ضرور اٹھا لےگا۔ مجھے نہیں ملےگا اور اس کو مل جائےگا۔ رفتہ رفتہ یہ خیال اتنا گہرا ہو گیا کہ مولا خیالی آٹا اٹھانے والے مزدور کو حد سے زیادہ رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور یہ سوچتا ہوا آٹے کی طرف واپس آیا کہ بلا سے کوئی ہنسے تو ہنس لے، بیوی بچے تو آٹا پا کر خوش ہو جائیں گے۔ مولا کے قدم اتنی جواں مردی سے آٹے کی طرف بڑھ رہے تھے گویا وہ کسی ڈوبتے لڑکے کو دریا سے نکالنے جا رہا ہے۔ آٹے کے پاس پہنچ کر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اپنا انگوچھا پھیلا دیا اور آٹا اٹھانے لگا۔ ساتھ ہی ساتھ بڑبڑاتا جاتا تھا۔

    ’’کیا لوگ ہیں! اناج اس طرح پھینک دیا۔ پیروں تلے الگ آئے، نالی میں الگ جائے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ مرغی چرغی کھا لیں۔‘‘

    جس بات کا ڈر تھا وہی ہوئی۔ پانچ چھ مزدوروں کی ایک ٹولی پاس سے گزری اور یہ عجب تماشا دیکھ کر چار مزدور کھڑے ہو گئے۔

    ایک، ’’کیا مل گیا مولا۔‘‘

    مولا، ’’کچھ نہیں۔ خراب آٹاہے مگر ہے اناج۔ پیروں تلے آرہاتھا۔ میں نے کہا مرغی بکری کھا لیں توسوارت ہو جائے۔‘‘

    دوسرا، ’’کیا گلی کی پڑی ہوئی چیز! کہیں نظر گذر نہ ہو۔‘‘

    پہلا، ’’اٹھا لے مولا، اٹھا لے، اس کوبکنے دے، کام آ جائےگا۔‘‘

    مولا گردن جھکائے اپنے کام میں مشغول رہا۔ یہ لوگ چل کھڑے ہوئے۔ کچھ ہی دور پہنچ کر ایک مزدور نے تان لگائی،

    ’’سو سے برا تو ایک سے بہتر بنا دیا۔‘‘

    دوسرا اس کے تان ہی کی اثنا میں بولا،

    ’’غریب ہی سہی مگر ہم گلی سے گرا پڑا نہیں اٹھاتے۔‘‘

    یہ مزدور بڑائی کی لے رہے تھے مگر حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو مولا کی خوش نصیبی پر کہ اتنا آٹا یوں ہی پڑا مل گیا، رشک و حسد ہو رہا تھا۔

    اس آٹے کا بھی عجب قصہ ہوا۔

    دس بجنے کے قریب تھے مگر کھانا ابھی تک تیار نہیں ہوا تھا۔ شوکت میاں اسکول جانے کو تیار تھے۔ ان کی پھوپھی نے جلدی جلدی دو چار روٹیاں ڈلوا دیں اور چار کباب تل دیے پھر جلدی سے ان کو میز پر چن، شوکت میاں کو کھانا کھانے کے لیے آواز دی، شوکت میاں ایک ہاتھ میں کتابیں لیے دوسرے ہاتھ سے شیروانی کے بٹن لگاتے کھانے کے کمرے میں گھس گئے اور بلا ہاتھ دھوئے کھانا شروع کر دیا۔ مگر پہلا ہی نوالہ منہ میں رکھا تھا کہ ایسا منہ بگاڑ لیا گویا کونین پی گئے ہوں۔ جلدی سے وہ نوالہ پانی کے سہارے پیٹ میں پہنچا دیا اور پھر روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا توڑکر منہ میں رکھا۔ چبایا اور پھر منہ بگاڑ کر بولے،

    ’’پھوپھی جان! آٹا خراب ہے۔‘‘

    ’’آٹا خراب ہے! کیا؟‘‘

    ’’شاید اکرا گیا۔‘‘

    پھوپھی نے بھی روٹی کا ذرا سا ٹکڑا منہ میں رکھا، پھر بولیں،

    ’’تمہاری باتیں! اکرا گیا! کچھ روٹیاں جلدی پکنے سے دھواں گئیں۔‘‘

    شوکت میاں نے کچھ جواب نہیں دیا۔ جلدی سے کتابیں اٹھا کر بھاگتے ہوئے باہر چلے گئے۔

    بیگم صاحبہ دھوپ میں بیٹھی کچھ سی رہی تھیں۔ اپنے بیٹے کو اتنی جلدی کھانے کے کمرے سے نکلتے دیکھ کر بولیں،

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    شوکت میاں کی پھوپھی، ’’کچھ نہیں۔ ذرا روٹیاں دھواں گئیں۔‘‘

    بیگم صاحبہ، ’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ شوکت میاں کب تک فاقے سے اسکول جاتے رہیں گے۔ ذرا روٹیاں میں تو دیکھوں!‘‘

    شوکت میاں کی پھوپھی ایک پلیٹ میں روٹی رکھ کر سامنے لائیں۔ بیگم صاحبہ نے ذرا سا ٹکڑا منہ میں رکھا اور بولیں،

    ’’یہ دھواں گئی ہیں۔ میں کہتی ہوں بہن تم کو کب عقل آئےگی۔ اکرایا ہوا آٹا میرے بچے کے سامنے رکھ دیا۔ جہاں میں ذرا غافل ہوئی، بس دلدر پنا ہونے لگتا ہے۔‘‘

    اس فقرہ کا نشانہ پھوپھی تھیں۔ یہ بےچاری شوکت میاں کے باپ کی خالہ زاد بہن تھیں۔ دس برس سے بیوہ تھیں اور ان کا یا ان کی لڑکی کا بجز اس گھر کے اور کوئی سہارا نہیں تھا۔ بظاہر تو یہ ایک غریب بہن کی طرح رکھی جاتی تھیں مگر حقیقت میں یہ ’’صدر ماما‘‘ یا نوکروں کے انچارج کی خدمات انجام دیتی تھیں اور ہر قسم کی بدنظمی کی براہ راست ذمہ دار تھیں۔ بیگم صاحبہ کا الزام سن کر بولیں،

    ’’اے میں نے تو بھلے کی سوچی تھی۔ چھوٹی مٹکی میں آٹا تھا۔ میں نے کہا یہ کیوں پڑا رہے۔ کام ہی آ جائے۔‘‘

    ’’یہ نہ ہوا کہ دیکھ لیتیں آٹا کیسا ہے؟ وہ توروٹی کی صورت سے معلوم ہوتا ہے، خیراتن۔‘‘

    ان کی آواز پچیس گز کا فاصلہ طے کر کے اسی کڑک سے باورچی خانے پہنچی۔

    خیراتن، ’’جی بیگم صاحبہ۔۔۔ پکا رہی ہوں۔‘‘

    بیگم صاحبہ، ’’سب آٹا نالی میں پھینک دے۔ بڑے گگرے سے آٹا نکال کر پکا۔‘‘

    شوکت میاں کی پھوپھی اس حکم کی تعمیل کرانے دوڑیں اور باورچی خانے میں آکر بڑبڑانے لگیں۔

    ’’نالی میں پھینک دو۔ نالی میں پھینک دو۔ سچ ہے کہ جب چیز ہوتی ہے تو اس کی قدر نہیں ہوتی۔ اناج بڑی چیز ہے بہن، بڑی چیز۔‘‘

    خیراتن، ’’ہاں گندھا گندھا یا آٹا۔ سب محنت اکارت۔‘‘

    شوکت میاں کی پھوپھو، ’’تم پھینکو وینکو نہیں۔ لیتی جائو بکری کوکھلا دینا۔ ہاں اوردیکھ مٹکی میں ابھی ڈھائی سیر آٹا ہوگا۔۔۔ دو آنے دس پیسے کا مال ہے۔ وہ بھی تم لیتی جائو۔ میں پھینکوا کر کیا کروں گی۔‘‘

    حیراتن چاہتی تو تھی کہ آٹالے جائے مگر یہ سوچ کرکہ پھوپھی مری بچھیا برہمن کے نام کرکے احسان کرنا چاہتی ہیں۔ بولی،

    ’’ہاں آٹا لے جا کر کسی کونے میں ڈال دوں گی۔ پیروں تلے نہ آئے۔ اب ہے کس کام کا۔‘‘

    پھوپھی نے اس ڈرسے زیادہ باتیں نہیں کیں کہ کہیں خیراتن آٹالے جانے سے بالکل ہی انکار نہ کر دے اور اس طرح ذرا سا احسان کرنے کا جو موقع مل رہا ہے وہ بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ فوراً کوٹھڑی کے اندر جا کر آٹا اپنے ایک میلے دوپٹے میں باندھ لائیں اور بولیں،

    ’’ذرا دوپٹے کا خیال رکھنا۔ پھٹنے نہ پائے اور شام ہی کو اپنے ساتھ لیتی آنا۔‘‘

    خیراتن نے پوٹلی کی طرف ایک نظر ڈالی اور جیسے کام کر رہی تھی کرتی رہی۔ جب گھر جانے لگی تو پکی ہوئی روٹیاں۔ گوندھا ہوا آٹا اور آٹے کی پوٹلی سب سامان لے کر گھر آئی۔ خیراتن کی بڑی لڑکی نے، جوشوہر سے لڑائی ہونے کی وجہ سے مستقل ماں کے پاس رہتی تھی، اس سامان کا حال پوچھا۔ جب خیراتن نے قصہ بیان کیا تو اس نے روٹی چکھی اور پھر بولی،

    ’’کھانے کے قابل نہیں۔ کڑوا ہو گیا۔‘‘

    ’’بکری کھا لےگی۔‘‘

    ’’اس کا دودھ نہ گھٹ جائےگا؟‘‘

    خیراتن نے اٹھ کر روٹیاں بکری کے سامنے ڈال دیں۔ اس نے ایک روٹی تو کھا لی مگر اس کے بعد منہ ہٹا لیا۔ پھر ان لوگوں نے لاکھ چمکارا مگر وہ ادھر متوجہ بھی نہیں ہوئی اور ہوتی کیسے؟ وہ تو بیگم کے یہاں کے بچے کھچے مرغن کھانوں پر پلی تھی۔ اس وقت بھی پیٹ اسی سے بھرا تھا۔

    اب خیراتن سوچ میں پڑ گئی کہ آخر آٹے کا مصرف کیا ہو۔ بیٹی نے تجویز پیش کی۔

    ’’دلارے کی نظر اتار کر چوراہے پر ڈال دو۔‘‘

    یہ تجویز معقول تھی۔ اگر آدھ سیر تک آٹا ہوتا تو اس پر ضرور عمل کیا جاتا مگراک دم سے ڈھائی سیر آٹا اس طرح پھینکنے پر خیراتن کے دل نے گواہی نہیں دی۔

    رات کو جب خیراتن کام کاج سے واپس آئی اور اطمینان سے کھانا کھا کر لیٹی تو یہ مسئلہ اٹھا کہ آٹے کا کیا ہو۔ دوستوں اور عزیزوں کی فہرست دہرائی مگر کوئی کام آتا شخص نظر نہ آیا۔ صبح ایک فقیر نے صدا لگائی۔ خیراتن نے موقع غنیمت جانا اور فوراً پائو بھر آٹا نکال کر بھیک دینے لگی۔ فقیر تھا شہر کا۔ آٹا دیکھ کر بولا،

    ’’مائی فقیر کو خراب چیز نہ دیا کرو۔ اللہ بھلا کرے۔‘‘

    یہ کہہ کر چلتا ہوا۔ خیراتن آٹا لیے بڑبڑاتی اندر آئی۔

    ’’موئے موٹے فقیر۔ بھیک مانگنے چلے ہیں۔‘‘

    اب پھر وہی مسئلہ۔ آٹے کا کیا ہو؟ سہ پہر کو ایک عورت دو بچوں کو ساتھ لیے ان کے گھر میں آئی اور اس نے اپنی کتھا یوں سنائی،

    ’’میں کوئٹہ کی رہنے والی ہوں۔ زلزلے میں میرا سب کچھ تباہ ہو گیا۔ میرے باغ تھے۔ بڑے بڑے مکانات تھے۔ شوہر اور لڑکے تھے مگر سب تباہ ہو گئے اور میں دکھیا در بدر گھوم رہی ہوں۔‘‘

    خیراتن کو اور اس کی بیٹی کو ان تینوں کے حال پر بڑا ترس آیا اور سب آٹا اٹھا کر یکمشت ان لوگوں کو دے دیا۔ عورت غریب ان آدمیوں سے خلاف توقع اتنا آٹا پاکر متعجب ہوئی مگر عورت تھی۔ ان عورتوں کے خلوص میں اس کو شک ہوا۔ ذرا دور، گلی میں جا کر اس نے پوٹلی کھولی اور جب حقیقت معلوم ہوئی تو خوب بڑبڑائی، کوسنے دیے اور آٹا گلی میں ڈال کر چلتی ہوئی۔ اس کو خراب آٹے کی کیا پرواہ ہوتی؟ اس کی جیب میں آج کی تحصیل کے روپیہ کھنک رہے تھے۔

    شام کے وقت منی مولا کا انتظار کر رہی تھی اور ببو اس کے کندھے سے لگا ریں ریں کر رہا تھا۔

    ’’اماں بھوک لگی ہے، اماں بھوک لگی ہے۔‘‘

    منی، ’’دوپہر کو تمہیں اور منو کو برابر کی ٹکیاں دی تھیں۔ دیکھو وہ کہاں روتا ہے۔‘‘

    منو ایک لال کنکوے کا پھٹا کاغذ سر پر لپیٹے ایک لکڑی ہاتھ میں لیے سپاہی بنا ٹہل رہا تھا۔ یہ سن کر بولا،

    ’’اماں کل اور کم دینا۔ تب بھی ہم نہیں روئیں گے۔‘‘

    منی، ’’اب بتا ببو۔ وہ دیکھو کتنا اچھا لڑکا ہے۔‘‘

    ببو غیرت میں آکر خاموش ہو گیا مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی ریں ریں کرنے لگا۔ اب منی کہنے لگی،

    ’’رو نہیں۔ دیکھو تمہارے ابا آتے ہوں گے اور تمہارے لیے چیز لاتے ہوں گے۔‘‘

    اتنے میں مولا آٹے کا پوٹلا لیے کوٹھڑی میں داخل ہوا۔ منی نے پوٹلا کھولا اور دیکھ کر حیرت سے بولی،

    ’’گیہوں کا آٹا۔۔۔ کہاں ملا؟‘‘

    جب سے مولا بیمار تھا ان لوگوں نے گیہوں کی روٹی نہیں کھائی تھی۔ اسے دیکھ کر سب خوش ہو گئے۔

    مولا، ’’مل گیا۔ دیکھو کتنا ہے؟‘‘

    منی دوڑ کر کہیں سے ترازو مانگ لائی اور آٹا تولنے کے لیے بیٹھی۔ ایک سیر تولا اور اس کو ایک کپڑے میں رکھ دیا پھر دوسری بار ترازو بھرا۔ نتیجہ دیکھنے کو سب انتہائی ذوق و شوق سے منتظر تھے جیسے لڑکے اسکول میں امتحان کا نتیجہ سننے کے۔ آخر منی بولی،

    ’’سوا دو سیر سے کم نہ ہوگا۔ کتنا اچھا آٹا ہے۔ چل چھوکری۔ دیکھ اس کے گھن چن۔ پہلے چراغ جلا۔ اندھیرا بہت ہے۔‘‘

    ایک لڑکی نے دوڑ کر ایک میلی سی لالٹین اٹھا کر جلائی اور پھر دونوں بیٹھ کر گھن چننے لگیں۔ دونوں چھوٹے لڑکے غل مچانے لگے۔

    ’’گیہوں کا آٹا۔۔۔ گیہوں کا آٹا۔‘‘

    منی تھوڑی دیر چپ رہی، پھر چلا کر بولی،

    ’’چپ رہو کم بختو، کان پھاڑے ڈالتے ہو۔‘‘

    اس کے بعد خاموشی طاری ہو گئی۔ تھوڑی دیر تک چھوٹی لڑکی کے کھانسنے کی آواز یا بڑی لڑکی کے بدن کھجلانے کی کھرکھر کے سوا کوئی آواز نہ آئی۔ پانچ منٹ بعد منی نے حکم سنایا۔

    ’’بس اب صاف ہو گیا۔ آدھا آٹا کل کے لیے رکھ دو۔‘‘

    مولا، ’’اب رکھوگی کیا۔ آج ہی پکا لو۔ سب جی بھر کے کھا لیں۔‘‘

    دونوں لڑکے، ’’ہاں، ہاں۔۔۔ میری اماں۔‘‘

    منی آٹا گوندھنے لگی۔ آٹے میں اب بھی گھن موجود تھے۔ انہیں دیکھ کر اسکو کچھ شک ہوا۔ اس نے آٹا نکال کر چکھا پھر ذرا منہ بنا کر بولی،

    ’’نمک ڈال کر پکانے والاہے۔ دو پیسے کا تیل لے آئو تو آج پوریاں پکیں۔ دو پیسے کے آلو بھی لے آئو۔۔۔ ارے لڑکو، ذرا جا کر بفاتی کے یہاں سے کڑاہی تو لانا۔‘‘

    دونوں لڑکے بے تابانہ کڑاہی لینے دوڑے اور ان کے پیچھے چھوٹی لڑکی چلی۔ مولا بنیے کے یہاں سامان خریدنے گیا۔ ذرا دیر میں لڑکی کڑاہی لے کر آ پہنچی اور پیچھے پیچھے دونوں لڑکے چیختے ہوئے،

    ’’ہم لے جائیں گے۔ ہم لے جائیں گے۔‘‘

    منی نے کوٹھڑی کے باہر نکل کر کڑاہی مانجی۔ مولا لکڑی وغیرہ لے کر آیا۔ لڑکیوں نے آگ بنائی۔ سب لڑکے چولہا گھیر کر بیٹھے اور کڑاہی چڑھائی گئی۔ منی نے ایک مٹی کی رکابی میں ایک بڑی سی روٹی بنائی۔ کڑاہی میں دو قطرے تیل ڈالا۔ جب وہ کڑ کڑانے لگا تو اس نے روٹی ڈال دی۔ وہ چر سے بولی۔ تیل کی بو کوٹھڑی میں پھیل گئی۔ لڑکے کھانسنے لگے۔ پوریاں پکتے دیکھ کر سب کے چہروں پر بحالی آ گئی۔

    منو، ’’آہاہا۔ کیسی اچھی خوشبو نکلی۔‘‘

    منی نے روٹی دوسری طرف الٹی۔

    منو، ’’کیسی لال لال۔ اماں یہ ہم کھائیں گے۔‘‘

    ببو، ’’نہیں ہم۔ ہم۔‘‘

    منی نے پوری اتاری، پھر کڑاہی میں دو قطرے ٹپکائے اور دوسری پوری ڈال دی۔ اسی طرح اس نے ایک گھنٹے میں دھیمی دھیمی آنچ میں سب پوریاں نکال لیں۔ کھانے میں بہت دیر ہو گئی تھی مگر خوشی میں کسی کو محسوس نہیں ہوا۔ پوریاں پکا کر منی چلائی،

    ’’ارے آلو لائو۔ آلو لائو۔ کسی نے ابھی تک کاٹے ہی نہیں، میں کہتی ہوں یہ چھوکریاں کسی کام کی نہیں۔ سب کھڑی تماشا دیکھ رہی ہیں۔‘‘

    جلدی جلدی آلو کے پتلے پتلے قتلے کاٹے گئے اور پھر کڑاہی میں پکنے کے لیے چڑھا دئیے گئے۔ یہ انتظار بے شک کھل گیا۔ سب خاموش بیٹھے چولہے کو تاک رہے تھے۔ صرف کھانسی کی آواز خاموشی توڑ دیتی تھی۔ آخر آلو تیار ہو گئے۔ تیار کیا ہو گئے ذرا ملائم پڑ گئے۔ منی نے مٹی کی رکابیاں نکالیں اور سب میں دو دو پوریاں اور ان پر تھوڑے تھوڑے آلو رکھ کر سب کے سامنے بڑھا دیئے۔ اب جوان لوگوں نے خیال کیا تو ببو سو رہا تھا۔

    منی، ’’ببو اٹھ، اٹھ، دیکھ پوریاں تیار ہو گئیں۔‘‘

    لڑکیاں، ’’اے ببو۔ ببو۔‘‘

    ببو آنکھیں ملتا ہوا اٹھا اور رونے کی نیت سے پورامنہ کھول کر ایک چیخ لگائی مگر ابھی چیخ پوری نہیں ہوئی تھی کہ اس کی نگاہ پوریوں پر پڑ گئی۔ جن کو دیکھ کر رونا بھول گیا۔ سب ہنس ہنس کر پوریاں کھانے لگے۔

    منو، ’’اہاہا۔ کتنے مزے کی ہیں۔‘‘

    چھوٹی لڑکی، ’’اماں سالن ہوتا!‘‘

    بڑی لڑکی، ’’ہاں اور پلائو متنجن نہ ہوتا۔ گدھی۔‘‘

    پھر خاموشی ہو گئی۔ یہ لوگ خوب مزے لے لے کر کھا رہے تھے جس سے اچھا خاصا شور پیدا ہو گیا تھا۔ جب پوریاں ختم ہو گئیں تو منی نے آدھی آدھی سب کواور دیں اور خود بھی لی۔ اب مولا نے آٹا ملنے کا قصہ بیان کیا۔ اس پر منی بولی یہ بھی خدا کی دین ہے۔ میں ببو سے کہہ رہی تھی کہ آج تمہارے ابا چیز لاتے ہوں گے۔

    ببو، ’’اماں ہم گرما گرم پوری والے بنیں گے اور خوب پوریاں کھائیں گے۔‘‘

    منو، ’’ہم سپاہی بنیں گے اور سب کو پکڑ پکڑ کر جیل خانے بھیجا کریں گے۔‘‘

    ببو، ’’ہم تم کو پو ریاں نہیں دیں گے۔‘‘

    منو، ’’ہم تم کو خوب پیٹیں گے اور پکڑ کر تھانے میں بند کر دیں گے۔‘‘

    ببو، ’’ہم۔۔۔ ہم تمکو۔‘‘

    ببو کی سمجھ میں نہیں آیا، کہ کیا کہے۔ ان نے منو کا منہ چڑھا دیا۔ اس پر منو نے ایک گھونسا رسید کیا۔ مولانے دونوں کو ڈانٹا۔

    ’’کم بختو! آج توخوب ٹھونس ٹھونس کر کھایا ہے، آج تو چپ رہو۔‘‘

    دونوں خاموش ہو گئے۔ مولابولا،

    ’’خدا ایسا ہی روز پیٹ بھر دے۔‘‘

    جب یہ لوگ سونے لیٹے تو ببو بولا،

    ’’اماں، آج تو کہانی کہو۔‘‘

    لڑکیاں، ’’ہاں، ہاں۔۔۔ بادشاہ زادے والی۔‘‘

    منی کی بھی طبیعت مگن تھی۔ وہ کہنے لگی،

    ’’ایک تھا بادشاہ۔۔۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔۔۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے