Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو چار ملاقاتیں

تسنیم منٹو

دو چار ملاقاتیں

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    کوئی بھی گزراوقت مجھے دور کا نہیں لگتا۔ اپنی گزری زندگی میں بھی مجھے دوری یا وسعت کا احساس نہیں ہوتا۔ سبھی کچھ کل کی بات لگتا ہے لیکن آئینہ سچ بولنے میں کبھی لحاظ نہیں کرتا۔

    میں اور مجھ سے تھوڑی بڑی بہن نے رئیس خانہ پڑھی اور پھر ہم دونوں نے اپنے اپنے فہم کی سطح کے لحاظ سے اس پراظہار بھی کیا۔ اس کے بعد احمد ندیم قاسمی ہمارے پسندیدہ لکھنے والے بن گئے۔ رئیس خانہ کے بعد سناٹا، کپاس کا پھول، نیلا پتھر، بین وغیرہ۔ ان کہانیوں کے پڑھنے کے سفر میں میری عمر کا سفر بھی شامل ہے۔

    بہت عرصہ گزرگیا۔ جس میں معمول کی پڑھائی، شادی، بچے، ان کو پالنا وغیرہ شامل تھا۔ اب میرے پاس قدرے فراغت تھی اور میں کچھ کرنا چاہتی تھی۔ لہٰذا جب ویت نام کی خواتین نے انجمن جمہوریت پسند خواتین کی دعوت پرپاکستان کادورہ کیا تو میں بھی انجمن کی ممبر بن گئی۔ اور پھرباقاعدہ بائیں بازو کی سیاست میں حصہ لیا۔ مجھ سے پہلے ’’انجمن جمہوریت پسند خواتین‘‘ میں سب فعال خواتین تھیں۔ ان میں چیدہ چیدہ نام فہمیدہ بدرالسلام بٹ، سعدیہ حمید اختر، نسیم شمیم اشرف، ایلس فیض، طاہرہ مظہر علی اور ان کے علاوہ اور بھی بے شمارخواتین جو کہ ترقی پسند نظریات کی حامل تھیں، ہم میں شامل ہوتی گئیں اور ہم نے رجعت پسندی کے ہر محاذ پرنڈر ہو کر احتجاج کیا۔ بیچ میں بہت سخت مقام بھی آئے جو میں نے یہ سمجھ کر جھیل لیے کہ ’’اس طرح کے کاموں میں اس طرح تو ہوتاہے۔‘‘ جب ہم تھک تھکا کر گھرواپس آتے تو بدن کی تھکاوٹ کے ساتھ ذہن میں ایک نئے احتجاج کا پروگرام بھی کروٹیں لے رہا ہوتا۔ یہ سب چل رہا تھا کہ ایک شام مجھے احساس ہوا کہ مجھے اپنے دل ودماغ سے بھی تو کچھ نکالنا چاہیے۔ میں نے زندگی بھر کہانی پڑھی۔ ذرا خود بھی تو لکھ کر دیکھوں۔

    سو میں نے اوپر تلے تین کہانیاں لکھیں جو تخلیق میں چھپ بھی گئیں۔ لہٰذا میں خوش تھی۔ مجھے خیال آیا کہ یہ کہانیاں کسی بڑے لیکھک کو بھی دکھانی چاہئیں۔ بڑے لیکھک کی تلاش میں میں کسان ہال پہنچ گئی۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں قاسمی صاحب اور منصورہ احمد موجود تھے۔ میں سلام دعا کرکے بیٹھ گئی۔ میں خود بھی کم آمیز اور کم گو ہوں، ملاقات بھی پہلی تھی۔ لہٰذا لیے دیئے رہنے والے انداز میں بات چیت ہوئی۔ میں نے کہانیاں دیں۔ قاسمی صاحب نے رکھ لیں۔ کچھ روز بعد میں دوبارہ گئی۔ انہوں نے کہانیاں واپس کیں اور ہلکا سا تبصرہ بھی کردیا۔

    پھرکچھ عرصہ بعد میں اور میری دوست سیما پیروز قاسمی صاحب کے جی اوآر والے دفتر میں گئے۔ منصورہ اور قاسمی صاحب سیما کوپہلے سے جانتے تھے۔ لہٰذا بڑی اچھی گپ شپ کی بیٹھک رہی۔ چائے پی گئی۔ واپسی کے لیے اٹھے تو سیما قاسمی صاحب کے قریب گئیں۔ قاسمی صاحب کرسی سے اٹھے اور سیما کے کندھے پرہاتھ رکھا۔ میں نے بھی سیما کی دیکھا دیکھی قاسمی صاحب کے قریب جا کر سلام کیا۔ انہوں نے جواب میں میرے کندھے پر بھی ہاتھ رکھا اورخدا حافظ کہا۔ منصورہ اپنی کرسی سے اٹھیں اور گاڑی تک چھوڑنے آئیں۔

    اب جب میرا جی چاہتا، میں اکیلی بھی چلی جاتی۔ اسی طرح ہلکی پھلکی گپ شپ رہتی۔ میرے بیٹھے بیٹھے اور بھی کئی لوگ آتے جاتے رہتے۔ جو بھی آتا اس سے حسب دستور میرا تعارف کرواتے۔

    ایک روز جومیں گئی تو احمد فراز بیٹھے تھے۔ دوچار اور لوگ بھی تھے۔ قاسمی صاحب نے میرا تعارف میرے بھائی صاحب کے حوالے سے کروایا۔ انہوں نے بہت حیرت سے میری جانب دیکھا کہ جیسے جانتے نہیں، حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ کشور ناہید کے ساتھ فراز صاحب میرے گھر آ چکے تھے۔ اس روز میرے ہاتھ کی پکی مچھلی بہت پسند آئی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے لاہور میں اپنے بھائی صاحب کے گھر ثروت محی الدین کے ساتھ بھی دو ایک بار دیکھا تھا۔ پھر بعد میں بھائی صاحب عطاء اللہ سجاد (مرحوم) عدلیہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بطور NIRCکے چیئرمین راولپنڈی میں تعینات ہوئے تو وہاں بھی ان کی بیگم کی موجودگی میں ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ فراز صاحب نے ان سے میری پکائی ہوئی مچھلی کا ذکر کیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت دو۔ وہ ہوں ہاں کرکے رہ گئیں۔۔۔ خیر۔۔۔

    بڑا خوشگوار ماحول تھا۔ فراز صاحب بہت باتیں سنا رہے تھے۔ شبنم شکیل اور خالدہ حسین کا ذکر بھی میری دوست ہونے کے ناطے آیا۔ اس دوران میں نے دو ایک بار اٹھنے کی کوشش کی لیکن فرازصاحب نے روک لیا۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد میں اٹھ آئی۔ لطیفہ بازی ابھی جاری تھی۔

    تخلیق میں اور فنون میں میری کہانیاں چھپ رہی تھیں۔ فنون میں میری تین کہانیاں چھپیں۔ ’’حالتے رفت‘‘ معلوم نہیں میں نے کیسے لکھی۔ بھائی صاحب کے انتقال کے بعد میرا وجود شدید جذباتی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار تھا۔ بہرحال میں نے یہ کہانی لکھ ڈالی۔ اب میری خواہش تھی کہ یہ کہانی جلدی سے چھپ بھی جائے۔ میں نے منصورہ کو فون کیا کہ فنون اگرچہ نکلنے والا ہے، کیا میری کہانی کے لئے جگہ ہے؟ انہوں نے کہا، آپ ہولڈ کریں میں بابا سے پوچھتی ہوں۔ دو منٹ بعد منصورہ نے مجھ سے بات کی۔ تسنیم جی ادھر سے بہت courteousجو اب آیا ہے کہ جگہ نہیں بھی ہوگی تو ہم بنا لیں گے۔ یعنی وہ کس طریقے سے نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ یوں ’’حالتے رفت‘‘ فنون میں چھپی۔

    قاسمی صاحب کی وفات سے چند روز قبل البم کو نئی ترتیب دیتے ہوئے ایک تصویر نظر آئی۔ یہ میرا گھر ہے۔ اس تصویر میں قاسمی صاحب صوفے پہ بیٹھے ہیں۔ ان کے ایک جانب عطیہ سید ہیں دوسری طرف منصورہ احمد ہیں۔ نیچے قالین پہ میں ہوں، سیما پیروز اور زرین سلیمان ہیں۔ پھر دوکرسیوں پہ قاضی پیروز صاحب اور عابد ہیں۔ سب لوگ خوشگوار موڈ میں ہیں۔ اگرچہ مہمان مختصر تھے لیکن ڈنر بہت کامیاب رہا۔ عطیہ کے بلند و بانگ قہقہے، زرین کی بے محابا گفتگو۔ ان دنوں قاسمی صاحب پوری طرح صحت یاب تھے۔

    میری کتاب چھپ گئی۔ کتاب چھپنے کے تمام مراحل اظہر غوری صاحب نے طے کیے۔ دوستوں کے ہاتھوں میں گئی، کچھ نے مروتاًاور کچھ نے از خود تبصرے لکھے۔ اب جوابا ًمجھے شکریہ ادا کرنا تھا۔ سو میں نے پندرہ بیس اصحاب کو لنچ پر مدعو کیا۔ قاسمی صاحب اور منصورہ سب سے آخر میں آئے۔ کھانا شروع ہوا لیکن محفل کی فضا میں مجھے مسلسل کچھ کھچاؤ سا محسوس ہوتا رہا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آتی کہ اس محفل میں کون سی اور کس کے لیے کوئی ایسی ناپسندیدہ شخصیت تھی کہ ماحول کشیدہ ہی رہا۔ اس کا مجھے آج بھی دکھ ہے۔ کچھ لوگوں کو ادب یا زندگی کے دوسرے مثبت رویے نکھارتے نہیں بلکہ حسد کی چھایا ان کے چہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ دھوپ کی حدت میں پلنے بڑھنے والا پودا چھاؤں میں پڑا رہے تو وہ ڈھل جاتا ہے۔ خوبصورتی کھو بیٹھتا ہے۔

    تہذیب، تمدن، قاسمی صاحب نے سیکھا نہیں تھا، یہ ان کے Genes میں تھا اورجو چیز جینز میں ہو اس میں تصنع نہیں ہوتا۔ اٹھنے بیٹھنے میں تحمل اور بردباری تھی۔ ان کے سراپا میں نفاست تھی۔ وہ ایک رکھ رکھاؤ والے انسان تھے۔ اظہر جاوید نے شیزان کی ایک محفل میں یہ بات فخر سے کہی تھی کہ ہم خوش قسمت ہیں جو ندیم کے عہد میں زندہ ہیں۔

    پھر ایک روز قاسمی صاحب کا ایک خط ڈاک کے ذریعے مجھے ملا۔ ’’میں جو اطلاع آپ کو دے رہا ہوں، یہ آپ کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے اور لمحہ تشکر بھی کہ آپ کی کہانی ’’میں ہوں فرزانہ‘‘ کے چرائے جانے کی اطلاع ملی ہے۔ خط بالا کوٹ سے ایک صاحب نے لکھا ہے۔‘‘ قاسمی صاحب کا یہ خط میرے پاس موجود ہے۔

    اس وقت مجھے ایک مشاعرہ یاد آرہا ہے۔ یہ مشاعرہ اوپن ائیر تھیٹر میں تھا۔ اس دور میں سب کچھ بہت خالص اور معیاری ہوتا تھا، لہٰذا ادبی محفلوں میں اور مشاعروں میں جانا میں بھولتی نہیں تھی۔ مشاعرہ جاری تھا کہ قاسمی صاحب کی باری بھی آگئی۔ ان کا نام پکارا گیا۔ ابھی وہ مائیک تک پہنچے بھی نہ تھے کہ وعدوں کے پکے چند لوگ جنہیں ہوٹنگ کے لیے چند جملے رٹائے گئے تھے، چیخنا شروع ہو گئے۔ قاسمی صاحب نے چند سیکنڈ جائزہ لیا۔ ایک لفظ نہیں بولے، جوتا پہنا اور چپ چاپ اس فرشی نشست سے اتر کر باہر کا راستہ لیا۔

    الفاظ مجھے اپنی گرفت میں لے چکے تھے۔ میں ہر چیز پڑھتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب ذہن میں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ خیر مجھے ایک اور زمانہ یاد آرہا ہے۔ ایک معزز گھرانے کی دو بہنوں نے اپنے اندر کی سوچ کو وقت کے مطابق ڈھالتے ہوئے کاغذ پہ اتارا۔ اگرچہ خواتین ہمیشہ سے لکھتی آرہی تھیں، کچھ مردوں کے نام سے اور کچھ اپنے نام سے، تاہم معاشرتی دباؤ سے وہ اپنے مسائل کا کھل کر اظہار نہ کرسکتی تھیں۔ لیکن ان دونوں بہنوں نے قاسمی صاحب سے رہبری چاہی جو اس وقت ترقی پسند سوچ کے حامل لکھاری تھے۔ جب دونوں بہنوں کی کہانیاں رسالوں میں چھپنے لگیں تو اس دور کے ایک مشہور اخبار نویس کو ان خواتین کی یہ جرأت پسند نہ آئی۔ اس نے اپنے میگزین میں ان کے بارے میں ہرزہ سرائی کی اور خوب موج میں کی۔ لیکن اس کے باوجود ان دونوں بہنوں نے ادب میں بڑا نام پایا۔ مزے کی بات یہ کہ ان اخبار نویس صاحب نے تقریباً اسی زمانہ میں اپنی مشہور کتاب ’’اس بازار میں‘‘ بھی لکھی۔۔۔ خیر۔۔۔

    قاسمی صاحب کی نظریاتی اساس اپنے اردگرد کے ماحول سے وجود میں آئی تھی لہٰذا وہ ان کے ذہن اور وجود میں رچی بسی تھی۔ دکھ اور جبر کے جو مسائل انہوں نے زندگی میں طے کیے، وہ بجائے منفی روئیے پیدا کرنے کے ان کی زندگی اور ذہن میں رنگ بکھیرتے چلے گئے۔ مثلا ان کے دو شعر جو زبان زدعام ہیں،

    کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام

    ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

    قاسمی صاحب کے انتقال کے بعد میں منصورہ سے ملنے گئی تو باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں ایک سہ پہر ان کی طبیعت بہت بہتر تھی۔ مجھے کہنے لگے کچھ سناؤ۔ وہ والی نظم سناؤ، ’’اماوس جب بھی آئے چاندنی کو یاد کر لینا۔‘‘

    میں نے بھی منصورہ سے اسی نظم کی فرمائش کر دی۔ آپ بھی سنیے۔ یہ قاسمی صاحب کے بارے میں ہے۔

    عجب لہجہ اس کا پانیوں پر جھلملاتی چاندنی جیسا

    میرے دل کا سمندر جب بھنور کی زد میں آ جائے

    سبھی تاریک لہریں گھیر کر مجھ کو

    کسی پاتال کا رستہ دکھاتی ہوں

    تو وہ عیسیٰ وقت لہجہ

    مجھے پھر ساحلوں پر کھینچ لاتا ہے

    مجھے کہتا ہے دیکھو! اس بھنور کے پار بھی

    دنیا میں کچھ لمحے دھڑکتے ہیں

    انہیں بھی اپنی سانسوں میں پرودیکھو

    یہ لہریں جو کہ اندھیاروں میں دیو آثار لگتی ہیں

    انہیں تم چاندنی میں دیکھنا

    یہ کس طرح کرنوں سے مل کر معجزے تخلیق کرتی ہیں

    اماوس جب بھی آئے چاندنی کو یاد کر لینا

    منصورہ نے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے اسے خدا حافظ کہا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے