Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوغلا

MORE BYفرانز کافکا

    میرے پاس ایک عجیب الخلقت جانور ہے، آدھا بلی، آدھا بھیڑ کا بچہ۔ یہ میرے باپ کا ترکہ ہے لیکن یہ بڑھا میرے ہی زمانے میں ہے۔ پہلے یہ بلی کم اور بھیڑ بہت زیادہ تھا۔ اب یہ دونوں میں برابر برابر بٹا ہوا ہے۔

    اس کا سر اور پنجے بلی کے سے ہیں، جسامت اور بناوٹ بھیڑ کی سی۔ آنکھیں اس نے دونوں سے لی ہیں جو وحشت زدہ اور رنگ بدلتی رہتی ہیں، اور بال بھی جو نرم اور بہت گھنے ہیں اور چال ڈھال بھی جس میں قلانچیں بھرنا اور دبک کر چلنا دونوں شامل ہیں۔ دھوپ میں یہ کھڑکی کی چوکھٹ پر گٹھری بنا پڑا خر خر کیا کرتا ہے۔ باہر میدان میں یہ باؤلا سا بھاگتا پھرتا ہے اور بڑی مشکل سے پکڑ میں آتا ہے، یہ بلیوں سے بھڑکتا ہے اور بھیڑ کے بچوں پر حملہ کرنے چلتا ہے۔ چاندنی راتوں میں اسے کھپریلوں پر گھومنا بہت پسند ہے۔ یہ بلی کی بولی نہیں بول پاتا اور چوہوں سے گھن کھاتا ہے۔ مرغیوں کے ڈربے کے پاس یہ گھنٹوں گھات لگائے بیٹھا رہ سکتا ہے لیکن ابھی تک اس نے دوسرے کی جان لینے کے موقعوں کو ہاتھ سے نکل جانے دیا ہے۔

    میں اس کو دودھ دیتا ہوں۔ یہ غذا اسے سب سے زیادہ راس معلوم ہوتی ہے۔ اپنے درندوں کے سے دانتوں کے درمیان سے دودھ کے لمبے لمبے گھونٹ بھرتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ یہ بچوں کے لیے بڑے تماشے کی چیز ہے۔ اتوار کی صبح کا وقت اِن ملاقاتیوں کے لیے مخصوص ہے۔ میں اس ننھے جانور کو اپنے گھٹنوں پر لے کر بیٹھ جاتا ہوں اور پڑوس کے سارے بچے مجھے گھیر لیتے ہیں۔

    پھر عجیب ترین سوال پوچھے جاتے ہیں، جن کا کوئی بھی انسان جواب نہیں دے سکتا۔ ایسا جانور صرف ایک ہی کیوں ہے، یہ جانور دنیا بھر میں میرے ہی پاس کیوں ہے، کسی اور کے پاس کیوں نہیں ہے، کیا ایسا کوئی جانور اس سے پہلے بھی کبھی ہوا ہے، اور اگر یہ مرگیا تو کیا ہوگا۔ اکیلے اس کا دل تو نہیں گھبراتا، اس کے بچے کیوں نہیں ہیں، یہ کیا کہلاتا ہے، وغیرہ۔

    میں کبھی جواب دینے کی تکلیف نہیں کرتا بلکہ کوئی مزید وضاحت کیے بغیر اپنے مال کی نمائش پر اکتفا کرتا ہوں۔ کبھی کبھی بچے اپنے ساتھ بلیاں لے آتے ہیں۔ ایک بار تو وہ دو بھیڑ کے بچے اٹھالائے۔ لیکن ان کی امید کے برخلاف جانوروں میں باہمی شناسائی کے کوئی آثار نہیں پائے گئے۔ وہ چپ چاپ ایک دوسرے کو حیوانی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ اور ظاہراً انہوں نے ایک دوسرے کے وجود کو ایک خدا ساز حقیقت کی طرح تسلیم کرلیا۔

    میرے گھٹنوں پر بیٹھ کر اس جانور کو نہ ڈر لگتا ہے اور نہ کسی کے پیچھے دوڑنے کی ہوس ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ مزہ اس کو مجھ سے چمٹنے ہی میں آتا ہے۔ یہ ہمارے گھرانے کا، جس نے اس کی پرورش کی ہے، وفادار ہے، لیکن یہ کسی خاص وابستگی کی علامت نہیں بلکہ یہ ایک ایسے جانور کی سچی جبلت ہے جس کے سوتیلے رشتہ دار تو دنیا میں بہت ہیں لیکن سگا شاید کوئی نہیں۔ لہٰذا جو تحفظ اس کو ہمارے یہاں نصیب ہے اس کویہ اپنے حق میں برکت سمجھتا ہے۔

    کبھی کبھی تو مجھے بڑی ہنسی آتی ہے، جب یہ مجھے چاروں طرف سے سونگھتا پھرتا ہے اور میری ٹانگوں میں گول مول ہوکر پڑتا ہے اور پھر کسی طرح مجھے چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتا۔ بھیڑ اور بلی ہونے پر قناعت کرنے کے بجائے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتا بننے پر بھی تلا ہوا ہے۔ ایک بار جیسا کہ اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، میں کچھ کاروباری دشواریوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل میں بری طرح الجھ گیا اور میں نے ہر چیز کو تج دینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں اسی کیفیت میں اپنے کمرے کے ا ندر جھولا کرسی میں پڑا ہوا تھا۔ جانور میرے گھٹنوں پر تھا۔ میری نظر نیچے پڑی تو دیکھا کہ اس کی مونچھ کے لمبے لمبے بالوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں۔ یہ میرے آنسو تھے یا جانور کے آنسو تھے؟ کیا بھیڑ کی روح والی اس بلی کے دل میں انسانی جذبات بھی تھے؟ مجھے اپنے باپ سے زیادہ میراث نہیں ملی لیکن یہ ترکہ دیکھنے کے قابل ہے۔

    اس میں دونوں جانوروں کا اضطراب ہے۔ بلی کا بھی اور بھیڑ کا بھی، گو خود یہ جانور ایک دوسرے سے متغائر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کھال اس کے جسم پر تنگی کرتی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ آرام کرسی پر چھلانگ مار کر میرے پاس آجاتا ہے۔ اپنی اگلی ٹانگیں میرے کندھے پر ٹیک دیتا ہے اور اپنی تھوتھنی میرے کان سے لگادیتا ہے۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجھ سے کچھ کہہ رہا ہے اور سچ مچ یہ اس کے بعد اپنا سر گھماتا ہے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کی بات نے کیا اثر کیا، مجھ پر نظریں جمادیتا ہے۔ اور اس کی خاطر سے میں ایسا ظاہر کرتا ہوں کہ میں اس کی بات سمجھ گیا اور سرہلادیتا ہوں۔ تب یہ فرش پر کود پڑتا ہے اور خوشی سے ناچنے لگتا ہے۔

    قصائی کا چھرا شاید اس جانور کو چھٹکارا دلادے، لیکن میں اس کو اس سے محروم رکھوں گا، اس لیے کہ یہ میرا ورثہ ہے۔ اس کو انتظار کرنا ہوگا حتی کہ اس کی جان خود ہی اس کے جسم سے نکل جائے، حالانکہ یہ کبھی کبھی مجھ کو انسان کی سی ہوشیار آنکھ سے گھورنے لگتا ہے، جو مجھے وہ کام کرڈالنے کے لیے للکارتی ہے جس کے بارے میں ہم دونوں سوچ رہے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے