- کتاب فہرست 181552
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1656
طب567 تحریکات257 ناول3438 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی9
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1334
- دوہا61
- رزمیہ92
- شرح150
- گیت87
- غزل750
- ہائیکو11
- حمد32
- مزاحیہ38
- انتخاب1389
- کہہ مکرنی7
- کلیات635
- ماہیہ16
- مجموعہ4012
- مرثیہ332
- مثنوی683
- مسدس44
- نعت429
- نظم1023
- دیگر46
- پہیلی14
- قصیدہ143
- قوالی9
- قطعہ52
- رباعی258
- مخمس18
- ریختی17
- باقیات27
- سلام28
- سہرا8
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی20
- ترجمہ80
- واسوخت24
فرانز کافکا کے افسانے
پل
میں سردی سے اکڑ گیا تھا۔ میں ایک پل تھا۔ میں ایک درے پر پڑا ہوا تھا۔ میرے پیر درے کے ایک طرف تھے، ہاتھوں کی انگلیاں دوسری طرف جمی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنے آپ کو بھربھری مٹی میں مضبوطی کے ساتھ بھینچ رکھا تھا۔ میرے دونوں پہلوؤں پر میرے کوٹ کے دامن پھڑپھڑا
ایک قدیم مخطوطہ
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے دفاعی نظام میں بہت سی کوتاہیاں رہنے دی گئی ہیں۔ اب تک ہم نے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں رکھا تھا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگے رہتے تھے لیکن حال میں جو باتیں ہونے لگی ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔ شاہی
نیا وکیل
ہمارے یہاں ایک نیا وکیل آیا ہے، ڈاکٹر بُسفیلس۔ اس کے حلیے میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے آپ کو یہ خیال آسکے کہ وہ کسی زمانے میں سکندر مقدونی کا گھوڑا تھا۔ ہاں، اگر آپ اس کی کہانی سے واقف ہوں تو البتہ آپ کو کچھ کچھ ایسا محسوس ہوسکتا ہے۔ لیکن ابھی ایک
قصبے کا ڈاکٹر
میں بڑی الجھن میں تھا۔ دس میل دور کے ایک گاؤں میں ایک بہت بیمار مریض میری راہ دیکھ رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان کے تمام وسیع خلاؤں کو تیز برفانی طوفان نے پر کر رکھا تھا۔ میرے پاس ایک گھوڑا گاڑی تھی، یہ بڑے پہیوں والی ہلکی گاڑی تھی جو ہماری دیہاتی
بے خیالی میں کھڑکی سے دیکھنا
آخر یہ بہار کے دن جو سرپر چلے آرہے ہیں ہم ان کا کیا کریں؟ آج سویرے سویرے آسمان کا رنگ مٹیالا تھا لیکن اب اگر آپ کھڑکی پر جاتے ہیں تو آپ کو تعجب ہوتا ہے اور آپ دریچے کے کھٹکے پر اپنا رخسار رکھ دیتے ہیں۔ سورج ڈوب چلا ہے۔ لیکن نیچے وہ آپ کو ایک ننھی بچی
شکاری گریکس
بندرگاہ کی دیوار پر دو لڑکے بیٹھے ہوئے پانسے کھیل رہے تھے۔ تاریخی یادگار کی سیڑھیوں پر بیٹھا ایک شخص اخبار پڑھ رہا تھا اور اس سورما کے سایے میں سستا رہا تھا جو تلوار علم کیے ہوئے تھا۔ ایک لڑکی چشمے سے بالٹی بھر رہی تھی۔ ایک پھل والا اپنی ترازو کے پاس
خانہ دار کی پریشانیاں
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’اودرادِک‘‘ اصلاً سلانی زبان کا لفظ ہے اور اسی بنیاد پر وہ اس کی تاویل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اس کی اصل جرمن ہے اور سلانی زبان کا اس پر صرف اثر پڑا ہے۔ ان دونوں تاویلوں کے تذبذب کی وجہ سے یہ
لباس
اکثر جب میں ایسے لباس دیکھتا ہوں جن میں طرح طرح کی چنٹیں دی ہوئی، گوٹیں ٹکی ہوئی اور جھالریں لگی ہوئی ہوتی ہیں، جو حسین جسموں پر نہایت چست بیٹھتے ہیں، تو میں سوچتا ہوں کہ وہ اپنی ہمواری زیادہ عرصے تک برقرار نہ رکھ پائیں گے، ان میں ایسی شکنیں پڑجائیں
گیلری میں
اگر سرکس میں کسی مریل مدقوق سی کرتب دکھانے والی کو کوئی کوڑا گھماتا ہوا بے درد رِنگ ماسٹر کسی بدلگام گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھاکر مجبور کرتا کہ وہ کبھی سیر نہ ہونے والے تماشائیوں کے سامنے مہینوں تک رکے بغیر چکر پر چکر لگائے جائے، گھوڑے پر زناٹے کے ساتھ گھومتی
فیصلہ: ف کے لیے ایک کہانی
بھری بہار میں اتوار کی ایک صبح تھی۔ دریا کے کنارے ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے بودے مکان جن میں رنگ اور بلندی کے سوا کوئی اور فرق مشکل ہی سے نظر آتا تھا، ان میں سے ایک کی پہلی منزل پر اپنے نجی کمرے میں ایک نوجوان تاجر جارج بنڈمان بیٹھا ہوا تھا۔
درخت
ایسا ہے کہ ہم برف میں درختوں کے تنوں کی طرح ہیں۔ دیکھنے میں وہ ڈھیلے ڈھالے پڑے ہوتے ہیں اور ایک ہلکا سا دھکا انہیں لڑھکانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ نہیں، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ زمین میں پینٹھے ہوئے ہیں۔ مگر دیکھیے نا، خود یہ بھی دکھاوا ہی
حویلی کے پھاٹک پر دستک
گرمی کا موسم تھا، تپتا ہوا دن۔ اپنی بہن کے ساتھ گھر لوٹتے ہوئے میں ایک بہت بڑے مکان کے پھاٹک کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اب میں یہ نہیں بتاسکتا کہ میری بہن نے پھاٹک پر شرارتاً دستک دے دی تھی یا بے خیالی میں اس کی طرف اپنا ہاتھ صرف بڑھایا تھا اور دستک سرے
ریڈ انڈین ہونے کی خواہش
کاش کوئی ریڈ انڈین ہی ہوتا، ہر دم چوکنا اور ایک دوڑتے ہوئے گھوڑے پر سوار، ہوا کے سامنے جھکا ہوا۔ مرتعش زمین کے اوپر جھٹکے کھاتا تھرتھراتا ہوا، یہاں تک کہ وہ اپنے مہمیز پھینک دیتا، اس لیے کہ مہمیزوں کی حاجت ہی نہ ہوتی، لگا میں گرادیتا، اس لیے کہ
دوغلا
میرے پاس ایک عجیب الخلقت جانور ہے، آدھا بلی، آدھا بھیڑ کا بچہ۔ یہ میرے باپ کا ترکہ ہے لیکن یہ بڑھا میرے ہی زمانے میں ہے۔ پہلے یہ بلی کم اور بھیڑ بہت زیادہ تھا۔ اب یہ دونوں میں برابر برابر بٹا ہوا ہے۔ اس کا سر اور پنجے بلی کے سے ہیں، جسامت اور بناوٹ
ایک چھوٹی سی کہانی
’’افسوس!‘‘ چوہے نے کہا، ’’دنیا روزبروز چھوٹی ہوتی جارہی ہے۔ شروع شروع میں تو یہ اتنی بڑی تھی کہ مجھے خوف آتا تھا۔ میں بھاگتا رہا، بھاگتا رہا، اور جب آخر کار مجھ کو دور پرداہنے بائیں دیواریں دکھائی دینے لگیں تو میں بہت خوش ہوا تھا۔ لیکن یہ لمبی دیواریں
ایک عام خلفشار
ایک عام تجربہ، اس کے نتیجے میں ایک عام خلفشار۔ الف کو ب کے ساتھ مقام ج پر کچھ اہم تجارتی معاملت کرنا ہے۔ ابتدائی بات چیت کے لیے وہ مقام ج جاتا ہے۔ وہ دس منٹ میں راستہ طے کرلیتاہے اور واپسی میں بھی اسے اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ واپس آکر گھروالوں کو وہ اپنی
بالٹی سوار
سارا کوئلہ ختم، بالٹی خالی، بیلچہ بے مصرف، آتش دان ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہوا، کمرہ منجمد ہوتا ہوا، کھڑکی کے باہر بتیاں ٹھٹھری ہوئیں، پالے میں لپٹی ہوئیں، آسمان ہر اس شخص کے مقابلے پر روپہلی سپر بناہوا جو اس سے مدد کا طلب گار ہو۔ مجھے کوئلہ مہیا
اگلا گاؤں
میرے دادا کہا کرتے تھے! ’’زندگی حیرت خیز حدتک مختصر ہے۔ میں تو جب اپنی زندگی پر نظر کرتا ہوں تو یہ اتنی قلیل معلوم ہوتی ہے کہ مثال کے طور پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی نوجوان اس اندیشے کے بغیر اگلے گاؤں کو روانہ ہونے کا ارادہ کس طرح کرسکتا ہے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi
GET YOUR PASS
-
ادب اطفال1656
-