Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک قدیم مخطوطہ

فرانز کافکا

ایک قدیم مخطوطہ

فرانز کافکا

MORE BYفرانز کافکا

    ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک کے دفاعی نظام میں بہت سی کوتاہیاں رہنے دی گئی ہیں۔ اب تک ہم نے اس معاملے سے کوئی سروکار نہیں رکھا تھا اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں لگے رہتے تھے لیکن حال میں جو باتیں ہونے لگی ہیں، انہوں نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔

    شاہی محل کے سامنے والے چوک میں میری جوتے بنانے کی دوکان ہے۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ جوں ہی میں دوکان کھولتا ہوں، مجھے چوک کو آنے والی ہر سڑک کے ناکے پر مسلح سپاہی تعینات نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ہمارے سپاہی نہیں ہیں۔ بظاہر یہ شمال کے صحرانشین ہیں۔ کسی ایسے طریقے سے، جو میری سمجھ سے باہر ہے، یہ صحرانشین دارالسلطنت کے اندر گھس آئے ہیں، حالانکہ دارالسلطنت سرحد سے بہت فاصلے پر ہے۔ کچھ بھی ہو، یہ سپاہی یہاں موجود ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر صبح ان کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    جیسی کہ ان کی سرشت ہے، یہ کھلے آسمان کے نیچے پڑاؤ ڈالتے ہیں، اس لیے کہ انہیں مکانوں سے نفرت ہے۔ یہ سپاہی تلواروں پر باڑھ رکھنے، تیروں کی نوکیں بنانے اور گھڑسواری کی مشقیں کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ یہ پرامن چوک، جس کی صفائی ستھرائی کا ہمیشہ خاص خیال رکھا جاتا تھا، اس کو ان صحرائیوں نے صحیح معنوں میں اصطبل بناکر رکھ دیا ہے۔ کچھ کچھ وقفے کے بعد ہم لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنی دوکانوں سے جھپٹ کر باہر نکلیں اور کم از کم بدترین ہی غلاظتوں کو ہٹادیں۔ لیکن ایسا بھی کم ہوپاتا ہے، اس لیے کہ ہماری محنت کا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اور اس کے علاوہ اس کوشش میں اس کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں ہم گھوڑوں کی ٹاپوں تلے نہ آجائیں یا کوڑوں کی مار سے اپاہج نہ ہوجائیں۔

    ان صحرائیوں سے گفتگو کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ ہماری زبان نہیں جانتے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی اپنی زبان بھی برائے نام ہی ہے۔ ان کا آپس میں بولنے کا انداز بہت کچھ کووں سے ملتا ہوا ہے۔ کووں کی تیز کریہہ چیخ کی سی کوئی نہ کوئی آواز برابر ہمارے کانوں میں آتی رہتی ہے۔ ہمارا رہن سہن اور ہمارے رسم و رواج ان کی سمجھ میں نہیں آتے، اور ان کو انہیں سمجھنے کی فکر بھی نہیں ہے۔ اسی لیے اگر ہم ان سے اشاروں میں بات کرتے ہیں تو وہ اسے بھی سمجھنے پر تیار نہیں ہوتے۔ آپ ان کے سامنے اشارے کرتے رہیے، یہاں تک کہ آپ کے جبڑے بیٹھ جائیں اور کلائیوں کی ہڈیاں اتر جائیں، پھر بھی وہ آپ کی بات نہیں سمجھیں گے، کبھی نہیں سمجھیں گے۔

    اکثر وہ طرح طرح کے منھ بنانے لگتے ہیں۔ اس وقت ان کی پتلیاں پھرجاتی ہیں اور ان کے ہونٹوں پر جھاگ آجاتا ہے، لیکن اس سے ان کی مراد کچھ نہیں ہوتی، دھمکی بھی نہیں۔ وہ ایسا بس اس لیے کرتے ہیں کہ یہی ان کی فطرت ہے۔ ان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، لے لیتے ہیں۔ آپ اس کو استحصال بالجبر بھی نہیں کہہ سکتے۔ بس وہ کسی چیز پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور آپ چپ چاپ وہ چیز ان کے لیے چھوڑ کر الگ ہٹ جاتے ہیں۔

    میرے یہاں سے بھی وہ بہت سا بڑھیا مال لے چکے ہیں۔ لیکن میں اس کی شکایت بھی نہیں کرسکتا، اس لیے کہ میں دیکھتا ہوں کہ مثلاً قصاب ہی بیچارے پر کیا گزرتی ہے۔ جیسے ہی وہ گوشت لے کر آتا ہے، وحشی سارے کا سارا گوشت اس سے لپک لیتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ ان کے گھوڑے بھی خوب گوشت کھاتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھوڑا اور سوار دونوں برابر لیٹے ہیں اور گوشت کا ایک ہی لوتھڑا، ایک اس سرے سے، ایک اس سرے سے بھنبھوڑ رہے ہیں۔ قصاب کے اوسان گم ہیں لیکن اس کی اتنی ہمت نہیں پڑتی کہ گوشت لانا بند کردے۔ ہم لوگ بہرحال اس کی مشکل سمجھتے ہیں اور اس کے لیے کام چلانے بھر روپے کا بندوبست کردیتے ہیں۔ اگر ان وحشیوں کو گوشت نہ ملے تو نہ جانے وہ کیا سوچیں۔ یوں بھی جب کہ ان کو روزانہ گوشت مل رہا ہے، معلوم نہیں وہ کیا سوچتے ہوں۔

    ابھی کچھ دن ہوئے، قصاب کو خیال آیا کہ اور کچھ نہیں تو جانور کاٹنے ہی کے جھنجھٹ سے چھٹکارا پالیا جائے۔ چنانچہ ایک صبح وہ ایک زندہ بیل لے آیا۔ لیکن ایسا کرنے کی جرأت وہ پھر کبھی نہ کرے گا۔ میں اپنے سارے کپڑوں، کمبلوں، گدوں میں سردیے دوکان کے اندر فرش پر پورے ایک گھنٹے تک پڑا رہا تھا، محض اس لیے کہ مجھے مرتے ہوئے بیل کا ڈکرانا نہ سنائی دے، جس پر وحشی ہر طرف سے ٹوٹ پڑ رہے تھے اور اس کا جیتا گوشت دانتوں سے نوچ نوچ کر کھارہے تھے۔ خاموشی ہوجانے کے بہت دیر بعد میں باہر آنے کی ہمت کرسکا۔ وہ سب کے سب چھک کر بیل کے ڈھانچے کے اردگرد پڑے ہوئے تھے جیسے شراب کے پیپے کے گرد شرابی۔

    یہی و موقع تھا جب مجھے خیال سا ہوا کہ میں نے حقیقتاً بادشاہ سلامت کو محل کے ایک دریچے میں کھڑے دیکھا ہے۔ عام طور پر وہ محل کے اندر والے باغ میں گزارتے ہیں۔ لیکن اس موقعے پر وہ ایک دریچے میں کھڑے ہوئے تھے۔ یا کم از کم مجھ کو ایسا ہی لگا۔۔۔ اور سرجھکائے دیکھ رہے تھے کہ ان کے محل کے سامنے کیا ہو رہا ہے۔

    ’’آخر ہونا کیا ہے؟‘‘ ہم سب خود سے پوچھتے ہیں۔ ہم کب تک یہ بوجھ اور اذیت اٹھاسکتے ہیں۔ شہنشاہ کے محل نے ان وحشیوں کو یہاں کھینچ بلایا ہے لیکن اب اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کو واپس کیوں کر بھگایا جائے۔ پھاٹک بند پڑا ہے۔ فوجی محافظ جو ہمیشہ اوپچی بن کر باہر نکلا کرتے تھے، اب سلاخوں دار کھڑکیوں کے پیچھے رہتے ہیں۔ ملک کی حفاظت ہم کاریگروں اور بیوپاریوں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ لیکن یہ کام ہمارے بس کا نہیں ہے، نہ کبھی ہم نے اس کی اہلیت کا دعویٰ کیا۔ یہ کوئی نہ کوئی غلط فہمی ہے اور یہی ہم کو تباہ کرکے رہے گی۔

    مأخذ:

    کافکا کے افسانے (Pg. 29)

    • مصنف: فرانز کافکا
      • ناشر: نیر مسعود
      • سن اشاعت: 1978

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے