Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گیدڑ اور عرب

فرانز کافکا

گیدڑ اور عرب

فرانز کافکا

MORE BYفرانز کافکا

    ہم نخلستان میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے۔ میرے ساتھی سو رہے تھے۔ ایک عرب کا لمبا سفید ہیولا پاس سے گزرا۔ وہ اونٹوں کی دیکھ بھال کرتا رہا تھا اور اپنے سونے کے ٹھکانے پر جارہا تھا۔

    میں گھاس پر پیٹھ کے بل دراز ہوگیا۔ میں نے سونے کی کوشش کی، نہیں سوسکا۔ دور پر ایک گیدڑ نے ہانک لگائی۔ میں پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اور جو کچھ اتنی دور تھا، یک بہ یک بالکل پاس آگیا۔ گیدڑ میرے چاروں طرف پلے پڑ رہے تھے، آنکھوں کی مدھم سنہری چمک ظاہر اور پھر غائب ہوتی ہوئی۔ لچک دار جسم بڑی چستی اور ہم آہنگی کے ساتھ، جیسے کوڑے کی پھٹکار پر جنبش کرتے ہوئے۔

    میری پشت کی طرف سے ایک گیدڑ میری بغل کے نیچے ٹہوکا دیتا ہوا مجھ سے بالکل بھڑکر نکلا جیسے مجھ سے گرمی حاصل کرنا چاہتا ہو، پھر وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا،

    ’’میں دور و نزدیک کا سب سے معمر گیدڑ ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار یہاں آپ سے ملاقات ہوہی گئی۔ میں تو قریب قریب مایوس ہوگیا تھا، اس لیے کہ ہم لوگ قرنوں سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں، میری ماں کو آپ کا انتظار رہا، اور اس کی ماں کو، اور سارے گیدڑوں کی مادرِ اوّل تک تمام ماؤں کو۔ یہ حقیقت ہے، آپ یقین کریں۔‘‘

    ’’تعجب ہے۔‘‘ میں نے کہا، مجھے اس الاؤ کو جلانے کا بھی خیال نہیں رہا جو گیدڑوں کو بھگانے کے لیے بالکل تیار تھا۔ ’’مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا۔ یہ محض اتفاق ہے کہ میں شمال سے ادھر آنکلا ہوں، اور میں تمہارے ملک کا مختصر سا دورہ کر رہا ہوں۔ اچھا تو تم گیدڑ لوگ کیا چاہتے ہو؟‘‘

    اس نہایت دوستانہ پرسش سے جیسے گیدڑوں کی ہمت بڑھ گئی، میرے گرد ان کا حلقہ تنگ ہوگیا۔ سب کے سب منھ کھولے ہانپ رہے تھے۔

    ’’ہمیں معلوم ہے‘‘ سب سے زیادہ عمر والا بولا، ’’کہ آپ شمال سے آئے ہیں، اسی بات پر ہم نے اپنی امیدیں منحصر کی ہیں۔ آپ اہل شمال میں وہ فراست ہے جو عربوں میں نہیں پائی جاتی۔ مجھے کہنے دیجیے کہ ان کی ٹھس اور گستاخ فطرت میں سے فراست کی ایک چنگاری بھی نہیں نکل سکتی۔ وہ غذا کی خاطر جانوروں کو ذبح کرڈالتے ہیں اور ان کی آلایش کو پھینک دیتے ہیں۔‘‘

    ’’اتنا چلاکر نہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’پاس ہی عرب سو رہے ہیں۔‘‘

    ’’آپ واقعی یہاں اجنبی ہیں۔‘‘ گیدڑ بولا، ’’ورنہ آپ کومعلوم ہوتا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی کوئی گیدڑ کسی عرب سے خوف زدہ نہیں ہوا ہے۔ ہم ان سے کیوں ڈریں؟ کیا یہی بدنصیبی ہمارے لیے بہت نہیں ہے کہ ہم کو ایسی مخلوق کے درمیان بن باس ملا ہے؟‘‘

    ’’ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے۔ جو معاملات میرے اپنے حلقہ اثر سے اتنے باہر ہوں، میں ان پر فیصلہ دینے کا مجاز نہیں ہوں، مجھے تو یہ بڑا پرانا قضیہ معلوم ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں یہ خون میں شامل ہوچکا ہے اور شاید خون ہی کے ساتھ ختم ہوسکے۔‘‘

    ’’آپ نہایت سمجھ دار ہیں۔‘‘ بوڑھے گیدڑ نے کہا، اور وہ سب اور زور زور سے ہانپنے لگے۔ ان کے پھیپھڑوں سے ہوا باہر آنے لگی حالانکہ وہ ساکت کھڑے تھے۔ ان کے کھلے ہوئے جبڑوں سے ایک طرح کی بو آرہی تھی، جسے برداشت کرنے کے لیے مجھے بار بار دانت بھینچنا پڑتے تھے۔ ’’آپ نہایت سمجھ دار ہیں، ابھی آپ نے جو کہا وہ ہماری قدیم روایات سے مطابقت رکھتا ہے۔ لہٰذا ہم ان کا خون کھینچ لیں گے اور قضیہ ختم ہوجائے گا۔‘‘

    ’’اوہو!‘‘ میں نے اپنے ارادے سے زیادہ جوش کے ساتھ کہا، ’’وہ اپنا بچاؤ کریں گے، وہ اپنی تفنگوں سے تمہیں درجنوں کے حساب میں مار گرائیں گے۔‘‘

    ’’آپ کو ہمارے بارے میں غلط فہمی ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہ ایک انسانی کمزوری ہے جو ظاہراً شمال بعید میں بھی جڑ پکڑے ہوئے ہے۔ ہم انہیں قتل کرنے کی تھوڑی سوچ رہے ہیں۔ نیل کاسارا پانی بھی ہم کو ان سے پاک نہیں کرسکتا۔ ان کے تو زندہ گوشت کی جھلک ہی سے ہم مجبور ہوجاتے ہیں کہ دم دبائیں اور کھلی ہوا میں بھاگ جائیں، صحرا کی طرف، جو محض اسی سبب سے ہمارا مسکن بن گیا ہے۔‘‘

    اور آس پاس کے تمام گیدڑوں نے جن میں دور دور سے آئے ہوئے بہت سے نووارد بھی شامل ہوگئے تھے، اپنی تھوتھنیاں اپنی اگلی ٹانگوں پر رکھ دیں اور انہیں پنجوں سے پونچھنے لگے۔ کچھ ایسا لگتا تھا کہ وہ اپنے غصے کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اتنا شدید تھا کہ میرا جی چاہنے لگا ان کے سروں پر سے پھاند پھوند کر نکل جاؤں۔

    ’’تو پھر تمہارا کیا کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا، لیکن میں کھڑا نہیں ہوسکا، دو کم سن گیدڑوں نے میرے کوٹ اور قمیص میں اپنے دانت گاڑ رکھے تھے، میں بیٹھے رہنے پر مجبور تھا۔

    ’’یہ آپ کے خدام ہیں۔‘‘ بوڑھے گیدڑ نے وضاحت کی، ’’اعزاز کی علامت۔‘‘

    ’’نہیں، انہیں چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ میں کبھی بوڑھے گیدڑ اور کبھی کمسن گیدڑوں کی طرف مڑتا ہوا چیخا۔

    ’’بالکل چھوڑدیں گے۔‘‘ بوڑھا والا کہنے لگا، کیونکہ آپ کی یہی مرضی ہے مگر اس میں ذرا وقت لگے گا، اس لیے کہ انہوں نے بہت اندر تک دانت اتاردیے ہیں جیسا کہ ہمارا طریقہ ہے۔ جب تک آپ ہماری عرضداشت کی سماعت فرمائیں۔‘‘

    ’’تمہارے طرز عمل نے مجھے اس کو منظور کرنے کے حق میں نہیں رکھا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اس کی وجہ سے آپ ہم کو بدتمیز نہ سمجھ لیجیے گا۔‘‘ وہ بولا اور اب جاکر پہلی بار اس نے اپنی آواز کے قدرتی رونے پن سے کام لیا، ‘‘ ہم ادنی جانور ہیں، ہمارے پاس دانتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اچھا یا برا جو کام بھی کرنا ہوتا ہے، ہم اپنے دانتوں ہی سے انجام دے پاتے ہیں۔‘‘

    ’’خیر، تو تم چاہتے کیا ہو؟‘‘ میں نے زیادہ دھیمے پڑے بغیر پوچھا۔

    ’’حضور!‘‘ وہ چلایا اور سارے گیدڑ مل کر چیخنے لگے۔ اس میں کسی نغمے کی برائے نام سی کیفیت تھی۔‘‘ حضور، ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ اس قضیے کو ختم کرائیے جو دنیا کو تقسیم کیے ہوئے ہے۔ آپ عین وہی ہستی ہیں جس کے لیے ہمارے اجداد نے پیشین گوئی کی تھی کہ یہ کام انجام دینے کے لیے پیدا ہوگی۔ اب ہم عربوں کے ہاتھوں پریشان ہونا نہیں چاہتے، ہم سانس لینے بھر کی گنجائش چاہتے ہیں، ایسا مطلع چاہتے ہیں جو ان سے صاف ہو۔ ان کے ہاتھوں ذبح ہوتی ہوئی بھیڑوں کا ممیانا نہیں سننا چاہتے۔ ہر حیوان قدرتی موت مرے، جب تک ہم مرے ہوئے ڈنگروں کو چچوڑ کر ان کی ہڈیاں نہ صاف کردیں اس وقت تک کوئی مداخلت نہ ہو۔ صاف ستھری زندگی، صفائی ستھرائی کے سوا ہم کچھ نہیں چاہتے۔۔۔‘‘

    اور اب وہ سب کے سب رو رہے تھے اور سسکیاں بھر رہے تھے۔ ایسی دنیا میں جینا کیوں کر گوارا کرسکتا ہے، اے رحم دل، اے پاک باطن؟ نجاست ان کا سفید ہے، نجاست ان کا سیاہ ہے، ان کی داڑھیاں الحذر! اُن کے حلقہ چشم پر نگاہ پڑتے ہی تھوک دینے کو جی چاہتا ہے اور جب وہ ہاتھ اوپر کرتے ہیں تو جہنم کی تیرگی ان کی بغلوں میں منھ پھاڑے نظر آتی ہے۔ لہٰذا حضور، لہذا حضور والا! اپنے قوی ہاتھوں سے کام لے کر ان کے حلقوم اس قینچی سے چیر دیجیے۔‘‘

    اور اس کے سر کی جنبش کے جواب میں ایک گیدڑ لپک کر ایک چھوٹی سلائی والی پرانی زنگ خوردہ قینچی لیے ہوئے آیا جو اس کی ایک کچلی میں جھول رہی تھی۔

    ’’اخاہ، تو آخر قینچی آہی گئی، اور یہی روک دینے کا وقت ہے۔‘‘ ہمارے عرب قافلہ سالار نے جو ہماری طرف بڑھ آیا تھا اور اب اپنا کوڑا پھٹکار رہا تھا، چیخ کر کہا۔

    گیدڑ ہڑبڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن کچھ دور جاکر پلٹے اور جمگھٹا لگاکر کھڑے ہوگئے، سارے جانور اس طرح آپس میں گتھے ہوئے تھے جیسے بیابان کی آسیبی روشنی کے ہالے نے انہیں چھوٹے سے گھیرے میں کیل کر رکھ دیا ہو۔

    ’’تو صاحب آپ کو بھی یہ تماشا دکھایا گیا۔‘‘ عرب نے، جس حدتک اس کی قومی کم آمیزی اجازت دے سکتی تھی، شوخی سے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’یعنی تم کو معلوم ہے کہ یہ جانور کیا کرنا چاہتے ہیں؟‘‘

    ’’بالکل۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہ تو مشہور بات ہے، جب تک عرب ہیں، یہ قینچی صحرا میں گھوم رہی ہے اور جب تک ہمارے دن پورے نہیں ہوجاتے اسی طرح ہمارے ساتھ ساتھ گھومتی رہے گی۔ ہر یورپ والے کے آگے یہ قینچی اس امرعظیم کی انجام دہی کے واسطے لائی جاتی ہے، ہر یورپ والا عین وہی شخص ہوا کرتا ہے جسے مشیت نے ان کے لیے منتخب کیا ہوتا ہے۔ یہ جانور! ان کی امیدیں احمقانہ ترین ہوتی ہیں۔ یہ محض بے وقوف ہیں، ایک دم بے وقوف۔ اسی لیے تو یہ ہم کو اچھے لگتے ہیں، یہ ہمارے کتے ہیں، آپ لوگوں کے کسی بھی کتے سے بہتر۔ اچھا اب ذرا دیکھیے گا، کل رات ایک اونٹ مرا ہے اور میں اسے یہاں اٹھوالایا ہوں۔‘‘

    چار آدمی اونٹ کا بھاری مردہ اٹھاکر لائے اور انہوں نے اسے ہمارے سامنے ڈال دیا۔ اس کا زمین کاچھونا تھا کہ گیدڑ زور زور سے بولنے لگے۔ ان میں سے ہر ایک نے پیٹ کے بل رینگتے ہوئے آگے کھسکنا شروع کردیا جیسے وہ کسی ڈور میں باندھ کر زبردستی گھسیٹے جارہے ہوں۔ انہوں نے عربوں کو فراموش کردیا تھا، اپنی نفرت کو فراموش کردیا تھا۔ متعفن لاشے کے سب کچھ محو کردینے والے پیش دست وجود نے ان کو مسحور کرلیا تھا۔ ایک گیدڑ تو اونٹ کے گلے تک پہنچ کر ایک شریان میں دانت اتار بھی چکا تھا۔ کسی تیز پچکاری کی طرح جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی آگ بجھانے کے عزم اور امید کے ساتھ، اس کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی اور کام میں لگی ہوئی تھی۔ پلک جھپکتے میں لاشے کے اوپر انبار ہوکر وہ سب ایک ساتھ جٹے ہوئے تھے۔

    اور اب قافلہ سالار نے اپنا کاٹ دار کوڑا گھماگھماکر داہنے بائیں سے ان کی پیٹھوں پر برسانا شروع کیا۔ انہوں نے سراٹھائے، وہ مزے میں آکر متوالے ہو رہے تھے، انہوں نے عربوں کو اپنے سامنے کھڑے دیکھا، اپنی تھوتھنیوں پر کوڑے کی مار محسوس کی، وہ اچھل اچھل کر کچھ پیچھے ہوگئے۔ لیکن اتنی دیر میں اونٹ کا خون جگہ جگہ اکٹھا ہوگیا تھا اور اس کے ابخرات اٹھ اٹھ کر آسمان کی طرف جارہے تھے۔ لاشہ جابجا سے پھٹ کر کھل گیا تھا۔ ان سے رہا نہیں گیا۔ وہ پھر پلٹ پڑے، عرب سالار نے ایک بار پھر کوڑا اٹھایا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’آپ کا خیال ٹھیک ہے صاحب۔‘‘ اس نے کہا، ’’ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں، اس کے علاوہ اب پڑاؤ اٹھانے کا بھی وقت ہو رہا ہے۔ غرض یہ کہ آپ نے ان کو دیکھ لیا۔ خوب ہی جانور ہیں، ہیں نا؟ اور یہ ہم سے کیسی نفرت کرتے ہیں!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے