Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری دنیا

نرمل ورما

دوسری دنیا

نرمل ورما

MORE BYنرمل ورما

    کئی برس پہلے میں ایک ایسی لڑکی کو جانتا تھا جو دن بھر پارک میں کھیلا کرتی تھی۔ اس پارک میں بہت سے پیڑ تھے جن میں سے بہت کم کو میں پہچانتا تھا۔ سارا دن لائبریری میں رہنے کے بعد شام کو جب میں لوٹتا تو وہ پیڑوں کے بیچ بیٹھی دکھائی دیتی۔ بہت دنوں تک ہم ایک دوسرے سے مخاطب نہیں ہوئے۔ میں لندن کے اس علاقے میں کچھ ہی دن کے لیے ٹھہرا تھا۔ ان دنوں سستے مکان کی تلاش میں میں ٹھکانے بدلتا رہتا تھا۔

    وہ بہت مفلسی کے دن تھے۔

    اب میں سوچتا ہوں کہ وہ لڑکی بھی بہت غریب رہی ہوگی۔ وہ ایک آدھا ادھڑا سویٹر پہنے رہتی اور اس کے سر پر کتھئی رنگ کا کنٹوپ ہوتا، جس کے دونوں کناروں سے اس کے بال نکلے رہتے۔ وہ آخر اکتوبر کے دن تھے جب سردیاں شروع ہونے والی تھیں، اس لیے اس کی ناک اور کان سرخ ہو جاتے۔ شروع کے یہ دن کبھی کبھی اصل سردیوں سے بھی زیادہ سخت ہوتے تھے۔

    سچ کہوں تو ٹھنڈ سے بچنے کے لیے ہی میں لائبریری آتا تھا۔ ان دنوں میرا کمرہ برف ہوجاتا تھا۔ رات کو سونے سے پہلے میں اپنے سارے سویٹر اور جرابیں پہن لیتا تھا اور رضائی کے اوپر اپنے اوورکوٹ اور چسٹر ڈال لیتا تھا لیکن ٹھنڈ پھر بھی نہیں جاتی تھی۔ کمرے میں ہیٹر تھا لیکن اسے چلانے کے لیے اس میں ایک شلنگ ڈالنا پڑتا تھا۔ پہلی بار جب میں اس کمرے میں سویا تو رات بھر اس ہیٹر میں پیسے ڈالتا رہا۔ ہر آدھے گھنٹے بعد اس کے پیٹ کی آگ خاموش کرنا پڑتی تھی۔ دوسرے دن میرے پاس ناشتے تک کے پیسے نہیں بچے تھے۔ اس کے بعد سے میں نے اس ہیٹر کو استعمال نہیں کیا۔ میں رات بھر ٹھنڈ سے کانپتا رہتا لیکن ہیٹر کی طرف سے اطمینان رہتا کہ وہ بھی بند پڑا ہے۔ وہ میز پر ٹھنڈا پڑا رہتا اور میں بستر پر اور اس طرح ہم دونوں کے بیچ سرد جنگ جاری رہتی۔

    صبح ہوتے ہی جلدی جلدی تیار ہوکر لائبریری چلا جاتا۔ پتا نہیں میری طرح کتنے لوگ وہاں آتے اور لائبریری کھلنے سے پہلے ہی دروازے کے سامنے لائن لگاکر کھڑے ہو جاتے۔ ان میں زیادہ تر بوڑھے ہوتے تھے جنہیں پنشن بہت کم ملتی تھی لیکن سردی سب سے زیادہ لگتی تھی۔ وہ میزوں پر ایک دو کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے۔ کچھ ہی دیر بعد میں دیکھتا کہ میرے دائیں بائیں سب لوگ سو رہے ہیں۔ کوئی انہیں ٹوکتا نہیں تھا۔ ایک آدھ گھنٹے بعد لائبریری کا کوئی ملازم ادھر کا چکر لگا جاتا اور کھلی ہوئی کتابوں کو بند کر دیتا۔ پھر ان لوگوں کو ہلکے سے ٹہوکا دے دیتا جن کے خزاٹے دوسروں کی نیند یا مطالعے میں خلل پیدا کرتے۔

    ایسی ہی ایک اونگھتی دوپہر میں، میں نے لائبریری کی لمبی کھڑکی سے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔ اس نے اپنا بستہ ایک بنچ پر رکھ دیا تھا او رخود پیڑوں کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ اس دن دھوپ نہیں نکلی تھی، اس لیے مجھے تعجب ہوا کہ وہ اتنی ٹھنڈ میں باہر کھیل رہی ہے۔ لڑکی بالکل اکیلی تھی۔ دوسری بنچیں خالی پڑی تھیں۔ اس دن پہلی بار مجھ میں یہ جاننے کی خلش پیدا ہوئی کہ وہ کون سے کھیل ہیں جنہیں کچھ بچے تنہائی میں کھیلتے ہیں۔

    دوپہر ہوتے ہی وہ پارک میں آ جاتی، بنچ پر اپنا بستہ رکھ دیتی اور پھر پیڑوں کے پیچھے بھاگ جاتی۔ کبھی کبھی کتاب سے سر اٹھاکر میں اس کی طرف دیکھ لیتا۔ پانچ بجتے ہی سرکاری استپال کا گجر سنائی دیتا اور گجر بجتے ہی وہ لڑکی جہاں بھی ہوتی، دوڑتی ہوئی آکر اپنی بنچ پر بیٹھ جاتی اور بستے کو گود میں لیے اس وقت تک چپ چاپ بیٹھی رہتی جب تک کہ دوسری طرف سے ایک عورت آتی ہوئی نہ دکھائی دیتی۔ میں کبھی ان خاتون کا چہرہ ٹھیک سے نہیں دیکھ سکا۔ وہ ہمیشہ نرسوں کی سفید پوشاک میں ملبوس آتی تھیں اور اس سے پہلے کہ وہ اس بنچ تک پہنچیں، وہ لڑکی تیزی سے ان کی طرف لپکتی اور انہیں بیچ ہی میں روک لیتی۔ وہ دونوں پھاٹک کی طرف مڑ جاتے اور میں انہیں اس وقت تک دیکھتا رہتا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جاتے۔

    میں کھڑکی سے باہر جہاں یہ پینٹو مائم روز دہرایا جاتا تھا، ہچکاک کے ہیرو کی طرح سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھتا رہتا۔ یہ سلسلہ شاید سردیوں تک چلتا رہتا، اگر ایک دن اچانک موسم نے کروٹ نہ بدل لی ہوتی۔

    ایک رات سوتے میں اچانک مجھے اپنی رضائی اور اس پر رکھے ہوئے کوٹ بہت بھاری معلوم ہوئے۔ میرا جسم پسینے سے شرابور تھا، جیسے میں بہت دنوں بعد بخار سے اٹھا ہوں۔ کھڑکی کھول کر باہر جھانکا تو نہ دھند نہ کہرا۔ لندن کا آسمان نیلی مخملی ڈبیا سا کھلا تھا، جس میں کسی نے ڈھیر سے تارے بھر دیے تھے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے یہ گرمیوں کی رات ہے اور میں پردیس میں نہیں، اپنے گھر کی چھت پر لیٹا ہوں۔

    اگلے روز کھل کر دھوپ نکلی تھی۔ میں زیادہ دیر تک لائبریری میں نہیں بیٹھ سکا۔ دوپہر ہوتے ہی وہاں سے باہر نکل آیا اور گھومتا ہوا اس ریستوراں میں جا پہنچا جہاں روز کھانا کھانے جاتا تھا۔ وہ ایک سستا سا یہودی ریستوراں تھا جہاں صرف ڈیڑھ شلنگ میں کوشر گوشت، دو روٹیاں اور بیئر کا ایک چھوٹا سا گلاس مل جاتا تھا۔ ریستوراں کی یہودی مالکن، جو جنگ سے پہلے لتھوانیا سے آئی تھی، ایک اونچے سے اسٹول پر بیٹھی رہتی۔ کاؤنٹر پر گلہ رکھا رہتا اور اس کے نیچے بیٹھی ہوئی ایک سفید سیامی بلی گاہکوں کو گھورتی رہتی۔ شاید وہ مجھے کچھ کچھ پہچاننے لگی تھی کیونکہ جتنی دیر میں کھانا کھاتا رہتا، اتنی دیر وہ میری ہی طرف دیکھتی رہتی۔ اُن دنوں میں سوچا کرتا کہ مفلسی، ٹھنڈ اور تنہائی کے دنوں میں بلی کاسہارا بھی بہت ہوتا ہے۔ میں یہ بھی سوچتا تھا کہ کسی دن میں بھی اسی طرح کا ایک ہندوستانی ریستوراں کھولوں گا اور ایک ساتھ تین بلیاں پالوں گا۔

    ریستوراں سے باہر آیا تو دوبارہ لائبریری جانے کی خواہش نہ ہوئی۔ اس دن ایک عرصے بعد گھر سے خط اور اخبار آئے تھے۔ میں انہیں پارک کی کھلی دھوپ میں بیٹھ کر پڑھنا چاہتا تھا۔ نظر اٹھاکر پارک کے پھولوں کو دیکھا تو مجھے بڑا تعجب ہوا۔ وہ پھول بہت چھوٹے تھے اور گھاس میں اپنا سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شاید انہیں پھولوں کے بارے میں یسوع مسیح نے کہا تھا، Lillies of the field ایسے پھول جو آنے والے دنوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔

    وہ گزری ہوئی گرمیوں کی یاد دلاتے تھے۔

    میں گھاس کے درمیان ان پھولوں پر چلنے لگا۔

    اس طرح چلنا مجھے بہت اچھا لگا۔ میں آنے والے دنوں کی فکروں سے آزاد ہو گیا اور خود کو ہلکا محسوس کرنے لگا۔ میں نے اپنے جوتے اتاردیے اور گھاس پر ننگے پاؤں چلنے لگا۔ ابھی بنچ کے پاس پہنچا ہی تھا کہ مجھے اپنی پشت پر ایک چیخ سنائی دی۔ کوئی تیزی سے بھاگتا ہوا میری طرف آ رہا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی لڑکی دکھائی دی۔ وہ پیڑ کی آڑ سے نکل کر باہر آئی اور میرا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’یو آرکاٹ!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اب آپ جا نہیں سکتے۔‘‘

    میں کچھ سمجھ نہ پایا۔ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔

    ’’آپ پکڑے گئے۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا، ’’آپ میری زمین پر کھڑے ہیں۔‘‘

    میں نے چاروں طرف دیکھا۔ گھاس پر پھول تھے، کنارے پر خالی بنچیں تھیں۔ بنچ میں تین شاداب درخت اور ایک موٹے تنے والا اوک کھڑا تھا جس کی جڑیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔

    ’’مجھے معلوم نہیں تھا۔‘‘ میں نے کہا اور مڑ کر واپس جانے لگا۔

    ’’نانا۔۔۔ آپ جا نہیں سکتے!‘‘ بچی بالکل میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، ’’وہ آپ کو جانے نہیں دیں گے۔‘‘

    ’’کون جانے نہیں دےگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    اس نے پیڑوں کی طرف اشارہ کیا جو سچ مچ سپاہی معلوم ہو رہے تھے۔۔۔ لمبے تڑنگے، ہٹے کٹے پہریدار۔ میں سوچے سمجھے بغیر ان کے غیرمرئی دام میں اسیر ہو گیا تھا۔ کچھ دیر تک چپ چاپ ہم ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔ اس کی آنکھیں مسلسل مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔ شوخ اور چوکنی۔ جب اس نے دیکھا کہ میرا بھاگنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو وہ کچھ نرم پڑی۔

    ’’آپ چھوٹنا چاہتے ہیں؟‘‘ اس نے کہا۔

    ’’کس طرح؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’انہیں کھانا کھلانا ہوگا۔ یہ بہت دنوں سے بھوکے ہیں۔‘‘ اس نے پیڑوں کی طرف اشارہ کیا جو ہوا میں سرہلا رہے تھے۔

    ’’کھانا میرے پاس نہیں ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’آپ چاہیں تو لا سکتے ہیں۔ یہ صرف پھول پتے کھاتے ہیں۔‘‘

    پھول پتوں کا لانا میرے لیے مشکل نہ تھا۔ وہ اکتوبر کے دن تھے اور پارک میں پھولوں کے علاوہ ڈھیروں پتے بکھرے ہوئے تھے۔ میں انہیں جمع کرنے کے لیے نیچے جھکا ہی تھا کہ اس نے میرا ہاتھ روک لیا۔

    ’’نہیں نہیں، یہاں سے نہیں۔ یہ میری زمین ہے۔ آپ کو وہاں جانا ہوگا۔‘‘ اس نے پارک کے خاردار تاروں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جہاں مرجھائے ہوئے پھول پتوں کا ڈھیر لگا تھا۔ میں اس ڈھیر کی طرف بڑھا ہی تھا کہ اس کی آواز سنائی دی۔

    ’’ٹھہریے، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں لیکن اگر آپ نے بھاگنے کی کوشش کی تو۔۔۔ یہیں مر جائیں گے۔‘‘ وہ رکی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی، ’’آپ مرنا چاہتے ہیں؟‘‘ میں نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔ وہ اتنا گرم اور اجلا دن تھا کہ مرنے کی خواہش مجھے بالکل نہیں ہوئی۔

    ہم دونوں خاردار تاروں تک گئے۔ میں نے رومال نکالا اور پھول پتیوں کو بٹورنے لگا۔ نجات پانے کے لیے آدمی کیا کچھ نہیں کرتا۔

    لوٹتے وقت وہ چپ رہی۔ میں کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ وہ بہت بیمار نظر آ رہی تھی، ان بچوں کی طرح سنجیدہ جو تنہائی میں خود ہی سے کھیلتے رہتے ہیں۔ جب وہ چپ رہتی تھی تو اس کے ہونٹ کھنچ جاتے تھے۔ نچلا ہونٹ تھوڑا سا باہر نکل آتا تھا جس کے اوپر سکڑی ہوئی ناک بے سہارا اسی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے بال بہت چھوٹے اور بہت کالے تھے جن میں دھلی ہوئی روئی کی طرح چھلے پڑے ہوئے تھے اور جنہیں چھونے کو ہاتھ بے اختیار آگے بڑھ جاتے تھے۔ لیکن وہ ہرطرح کے لمس سے آزاد معلوم ہوتی تھی۔

    ’’اب آپ انہیں کھانا دے سکتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور پیڑوں کے پاس آکر رک گئی۔

    ’’کیا وہ مجھے چھوڑ دیں گے؟‘‘ میں کوئی ضمانت، کوئی یقین دہانی چاہتا تھا۔ اس بار وہ مسکرائی اور میں نے پہلی بار اس کے دانتوں کو دیکھا جو حبشی لڑکیوں کی طرح بالکل سفید اور چمکیلے تھے۔ میں نے جمع کی ہوئی پتیاں رومال سے نکالیں، انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا اور برابر برابر پیڑوں کے نیچے ڈال دیا۔

    میں آزاد ہو گیا تھا اور کچھ کچھ خالی سابھی۔

    میں نے جیب سے خطوط اور اخبار نکالے اور اس بنچ پر بیٹھ گیا جس پر اس کا بستہ رکھا تھا۔ وہ سیاہ چمڑے کا بیگ تھا، جس میں اندر کتابیں بھری تھیں اور اوپر والی جیب سے آدھا کترا ہوا سیب باہر جھانک رہا تھا۔

    اچانک وہ اوجھل ہو گئی۔ میں نے چاروں طرف دیکھا تو اس کی فراک کا ایک کونا جھاڑیوں میں سے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ خرگوش کی طرح وہاں دبکی بیٹھی تھی، میری ہی طرح کے کسی بھولے بھالے مسافر پر جھپٹنے کے لیے۔ لیکن بہت دیر تک پارک میں سے کوئی نہیں گزرا۔ ہوا چلتی تو پیڑوں کے نیچے ڈھیر پتیاں بھنور کی طرح ناچنے لگتیں اور وہ اپنے شکار کو بھول کر ان پتیوں کے پیچھے بھاگنے لگتی۔

    کچھ دیر بعد وہ بنچ کے قریب آئی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا اور پھر بستے کی جیب سے سیب باہر نکال لیا۔ میں اخبار پڑھتا رہا اور اس آواز کو سنتا رہا جو سیب کترتے وقت اس کے دانتوں سے نکل رہی تھی۔ اچانک اس کی نگاہ میرے خطوں پر پڑی جو بنچ ہی پر رکھے ہوئے تھے۔ وہ سیب کھاتے کھاتے رک گئی۔

    ’’یہ آپ کے ہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’اور یہ؟‘‘ اس نے لفافے پر چپکے ہوئے ٹکٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ٹکٹ پر ہاتھی کی تصویر تھی جس کی سونڈ اوپر ہوا میں اٹھی ہوئی تھی۔ وہ اپنے دانتوں کے بیچ ہنستا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’تم کبھی چڑیا گھر گئی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ایک بار پاپا کے ساتھ گئی تھی۔ انہوں نے مجھے ایک پینی دی تھی اور ہاتھی نے میری ہتھیلی پر رکھی اس پینی کو اپنی سونڈ سے اٹھا لیا تھا۔‘‘

    ’’تم ڈری نہیں تھیں؟‘‘

    ’’نہیں۔ کیوں؟‘‘ اس نے سیب کترتے ہوئے میری طرف دیکھا۔

    ’’پاپا تمہارے ساتھ یہاں نہیں آتے؟‘‘

    ’’ایک بار آئے تھے تو تین بار پکڑے گئے۔‘‘ وہ دھیمے سے یوں ہنسی جیسے اسے میری موجودگی کا احساس ہی نہ ہو، یا جیسے کوئی اکیلے میں اس وقت مسکرا دیتا ہے جب کوئی یاد بہت سی تہیں کھول دیتی ہے۔

    اسپتال کا گجر سنائی دیا تو ہم دونوں چونکے۔ لڑکی نے بنچ سے بستہ اٹھایا اور خاموش کھڑے ہوئے پیڑوں کے قریب پہنچ گئی۔ وہ ہرپیڑ کے قریب جاتی، اسے چھوتی اور کچھ کہتی جسے صرف درخت ہی سن پاتے۔ پیڑوں سے گفتگو کرنے کے بعد وہ میرے پاس آئی اور مجھ سے ہاتھ ملایا جیسے میں بھی ان درختوں میں سے ایک ہوں۔

    پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ وہاں وہی خاتون دکھائی دیں۔ نرسوں والی سفید پوشاک ہری گھاس پر چمک رہی تھی۔ بچی انہیں دیکھتے ہی ان کی طرف دوڑی۔ میں نے غور سے دیکھا تو یہ وہی خاتون تھیں جنہیں میں لائبریری کی کھڑکی سے دیکھا کرتا تھا۔ چھوٹا قد، کندھے پر تھیلا اور بچی ہی کی طرح سیاہ گھنگھریالے بال۔ وہ دونوں مجھ سے کافی دور تھے لیکن ان کی آوازیں مجھے سنائی دے جاتی تھیں۔ لفظ صاف سمجھ میں نہ آتے، صرف دو آوازوں کی ایک آہٹ سی محسوس ہوتی۔ دونوں گھاس پر بیٹھ گئے تھے۔ بچی مجھے بھول چکی تھی۔

    میں نے جوتے پہنے، اخبار اور خط جیب میں رکھے۔ پھر سوچا ابھی کافی وقت ہے اس لیے ایک دو گھنٹے لائبریری ہی میں گزارے جائیں۔۔۔ پارک کے سحر سے دور، اپنے گوشہ تنہائی میں۔

    میں پارک کے بالکل بیچ میں تھا۔ درختوں کی چوٹیوں پر آگ سی روشن ہونے لگی تھی۔ سارا پارک سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ بیچ میں پتوں کا دریا بہہ رہا تھا، جس کی موجیں ہوا سے ہل رہی تھیں۔

    ’’کون؟ کون ہے؟‘‘ کوئی مجھے بلا رہا تھا۔ میں رکا نہیں، چلتا رہا۔ کبھی کبھی آدمی اپنے آپ کو بلانے لگتا ہے، باہر سے اندر اور اندر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لیکن یہ بلاوا اور دنوں کی طرح نہیں تھا۔ آواز مسلسل آتی رہی۔ آخر مجھے رکنا ہی پڑا۔ اس بار کسی شک کی گنجائش نہیں تھی۔ واقعی کوئی چیخ رہا تھا، ’’اسٹاپ۔۔۔ اسٹاپ۔۔۔‘‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ لڑکی دونوں ہاتھ ہوا میں ہلا رہی تھی۔ میں پھر پکڑا گیا۔ احمقوں کی طرح چند پیڑوں میں گھرا ہوا میں دوبارہ اس کی زمین پر چلا آیا تھا۔ اس بار ماں اور بیٹی دونوں ہنس رہے تھے۔

    یہ وہ دن تھے جب گرمی پڑتی نہیں تھی، صرف محسوس ہوتی تھی۔ سب جانتے تھے کہ یہ موسم زیادہ دن تک نہیں رہےگا۔ لائبریری سنسان رہنے لگی تھی۔ میرے پڑوسی پنشن یافتہ لوگ اب باہر دھوپ میں بیٹھنے لگے تھے۔ آسمان اس قدر نیلا ہوتا تھا کہ لندن کی دھوپ بھی اسے میلا نہ کر پاتی۔ پارک اس آسمان کے نیچے کسی سبز جزیرے کی طرح لیٹا رہتا۔

    گریتا (یہی اس کا نام تھا) ہمیشہ وہاں دکھائی دیتی تھی اور کبھی نظر نہ بھی آتی تو بنچ پر اس کا بستہ دیکھ کر پتا چل جاتا کہ وہ یہیں کہیں کسی کونے میں دبکی ہوئی ہے۔ میں درختوں، جھاڑیوں اور جنگلی پھولوں سے بچتاہوا آتا۔ ہر روز وہ کہیں نہ کہیں ایک خوفناک غیرمرئی پھندا چھوڑ جاتی اور پوری ہوشیاری کے باوجود جب میں اس میں پھنس جاتا تو وہ چیختی ہوئی میرے سامنے آکر کھڑی ہو جاتی۔ میں پکڑ لیا جاتا، چھوڑ دیا جاتا او رپھر پکڑ لیا جاتا۔۔۔

    یہ کھیل نہیں تھا، ایک پوری دنیا تھی۔ اس دنیا سے میرا کوئی واسطہ نہیں تھا، حالانکہ ڈرامے کے ایکسٹرا کی طرح میں کبھی کبھی اس میں شریک کر لیا جاتا تھا۔ مجھے ہمیشہ تیار رہنا پڑتا تھا کیونکہ وہ کسی بھی وقت بلا سکتی تھی۔ ایک دوپہر ہم دونوں بنچ پر بیٹھے تھے۔ اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’’ہیلو مسز ٹامس!‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’آج آپ بہت دن بعد دکھائی دیں۔ ان سے ملیے، یہ میرے انڈین دوست ہیں۔‘‘

    میں بت بنا اسے دیکھتا رہا۔۔۔ وہاں کوئی نہ تھا۔

    ’’آپ بیٹھے ہیں؟ ان سے ہاتھ ملائیے۔‘‘ اس نے مجھے جھڑکتے ہوئے کہا۔ میں نے کھڑے ہوکر ہواسے ہاتھ ملایا۔ گریتا کھسک کر میرے پاس آ گئی تاکہ کونے میں مسز ٹامس بیٹھ سکیں۔

    ’’آپ بازار جا رہی تھیں؟‘‘ اس نے خالی جگہ کو دیکھتے ہوئے کہا، ’’میں آپ کا تھیلا دیکھ کر سمجھ گئی۔ معاف کیجیےگا، میں آپ کے ساتھ چل نہیں سکتی، مجھے بہت کام ہے۔ انہیں دیکھیے (اس نے درختوں کی طرف اشارہ کیا) یہ صبح سے بھوکے ہیں۔ میں نے ابھی تک ان کے لیے کھانا بھی نہیں تیار کیا۔ آپ چائے پییں گی یا کافی؟ ہاں، آپ گھر سے پی کر آئی ہیں۔ کیا کہا؟ میں آپ کے گھر کیوں نہیں آتی؟ آج کل وقت کہاں ملتا ہے؟ صبح اسپتال جانا پڑتا ہے، دوپہر کو بچوں کے ساتھ۔۔۔ آپ تو جانتی ہی ہیں۔ میں اتوار کوآؤں گی۔ آپ جا رہی ہیں؟‘‘

    اس نے کھڑے ہوکر دوبارہ ہاتھ ملایا۔ مسز ٹامس شاید جلدی میں تھیں۔ رخصت ہوتے وقت انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔ اس لیے انتقاماً میں بھی بنچ پر ہی بیٹھا رہا۔

    کچھ دیر تک ہم چپ چاپ بیٹھے رہے۔ اچانک وہ چونک پڑی۔

    ’’آپ کچھ سن رہے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے جھنجھوڑا۔

    ’’نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’فون کی گھنٹی کتنی دیر سے بج رہی ہے۔ ذرا دیکھیے کون ہے؟‘‘

    میں اٹھ کر بنچ کے پیچھے گیا۔ گھاس پر سے ٹوٹی ٹہنی اٹھائی اور زور سے کہا، ’’ہیلو!‘‘

    ’’کون ہے؟‘‘ اس نے بےصبری سے پوچھا۔

    ’’مسز ٹامس!‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ارے، پھر مسز ٹامس؟‘‘ اس نے اس طرح جما ہی لی جیسے بہت تھکی ہوئی ہو۔ پھر آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور میرے ہاتھ سے ٹہنی چھین کر کہا، ’’ہیلو مسز ٹامس، آپ بازار سے لوٹ آئیں؟ کیا کیا لائی ہیں؟ میٹ بالز، فش فنگرز، آلو کے چپس؟‘‘ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی جا رہی تھیں۔ وہ چن چن کر ان چیزوں کے نام لے رہی تھی جو اسے سب سے زیادہ اچھی لگتی تھیں۔ پھر وہ چپ ہو گئی، جیسے مسز ٹامس نے اس کے سامنے کوئی غیرمتوقع تجویز رکھ دی ہو۔

    ’’ٹھیک ہے مسز ٹامس، میں ابھی آتی ہوں۔ نہیں، مجھے دیر نہیں لگےگی۔ میں اسی وقت بس اسٹیشن پہنچ رہی ہوں۔ گڈبائی، مسز ٹامس!‘‘ اس نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔

    ’’مسز ٹامس نے مجھے ڈنر پر بلایا ہے۔ آپ کہاں جائیں گے؟‘‘

    ’’میں سوؤں گا۔‘‘

    ’’پہلے انہیں کچھ کھلا دینا۔۔۔ نہیں تو یہ روئیں گے۔‘‘ اس نے پیڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو ٹھہری ہوئی ہوا میں ساکت کھڑے تھے۔

    وہ مسز ٹامس کے یہاں جانے کے لے تیار ہونے لگی۔ اس نے اپنے بکھرے ہوے بالوں کو سنوارا، جھوٹ موٹ کا پاؤڈر لگایا، ہتھیلی کو آئینہ بناکر اس میں خود کو دیکھا۔ کھلی ہوئی دھوپ اور پیڑوں کی چھاؤں کے بیچ بیٹھی وہ سچ مچ خوبصورت معلوم ہو رہی تھی۔ جاتے وقت اس نے ہاتھ ملایا اور جب تک وہ پیڑوں اور جھاڑیوں کے جھڑمٹ میں غائب نہیں ہو گئی، میں اسے دیکھتا رہا۔

    ایسا ہر روز ہونے لگا۔ وہ مسز ٹامس سے ملنے چلی جاتی اور میں بنچ پر لیٹا رہتا۔ مجھے تنہائی کااحساس نہ ہوتا۔ پارک کی انوکھی اور غیرمرئی آوازیں مجھے ہروقت گھیرے رہتیں۔ میں ایک دنیا سے نکل کر دوسری دنیا میں چلا جاتا۔ وہ پارک کے دور افتادہ کونوں میں بھٹکتی پھرتی۔ میں لائبریری کی کتابوں کا تکیہ بناکر بنچ پر لیٹا لندن کے بادلوں کو دیکھتا رہتا۔ وہ آسمان میں اُڑتے رہتے اور جب کوئی سفید ٹکڑا سورج کی آڑ کر لیتا تو پارک میں اندھیرا سا ہو جاتا۔

    اسی زمانے میں ایک دن، جب میں بنچ پر لیٹا تھا، مجھے اپنے قریب ایک عجیب سی آہٹ سنائی دی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں خواب میں مسز ٹامس کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ میرے قریب، بالکل قریب آکر کھڑی ہو گئی ہیں اور مجھے پکار رہی ہیں۔ میں ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھا۔ سامنے بچی کی والدہ کھڑی تھیں۔ انہوں نے گریتا کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور قدرے جھجکتے ہوئے مجھے جگا رہی تھیں۔

    ’’معاف کیجیے۔۔۔‘‘ انہوں نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’آپ سو تو نہیں رہے تھے؟‘‘

    میں کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’آج آپ جلدی آ گئیں؟‘‘ میں نے کہا۔ ان کی سفید پوشاک، کالی پیٹی اور بالوں پر بندھے اسکارف کو دیکھ کر میری آنکھیں چندھیا سی گئیں۔ معلوم ہوتا تھا وہ اسپتال سے سیدھی اسی طرف چلی آ رہی ہیں۔

    ’’ہاں، میں جلدی آ گئی۔‘‘ وہ مسکرانے لگیں، ’’ہفتے کو کام زیادہ نہیں رہتا۔ میں دوپہر میں آ جاتی ہوں۔‘‘

    وہ ویسٹ انڈیز کے اس لہجے میں بول رہی تھیں جس میں ہر لفظ کو کھینچ کر ادا کرتے ہیں اور جس میں ہر لفظ کا آخری حصہ غبارے کی طرح اڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔

    ’’میں آپ سے پوچھنے آئی تھی کہ آج آپ چائے ہمارے ساتھ پییں گے۔۔۔؟ ہم لوگ پاس ہی میں رہتے ہیں۔‘‘ ان کے لہجے میں کوئی جھجک یا دکھاوا نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ مجھے مدت سے جانتی ہوں۔ میں تیار ہو گیا۔ اپنے بیڈسٹر سے لائبریری اور پارک تک کا چکر لگانے کے سوا میں عرصے سے کسی اور کے گھر نہیں گیا تھا۔ میں قریب قریب بھول چکا تھا کہ اس سے الگ بھی کوئی اور دنیا ہے جہاں گریتا رہتی ہے، کھاتی اور سوتی ہے۔

    وہ آگے آگے چل رہی تھیں۔ کبھی کبھی مڑ کے دیکھ لیتی تھیں کہ ہم بہت پیچھے تو نہیں رہ گئے۔ گریتا کو میرا اپنے گھر آنا بہت عجیب سا لگ رہا تھا۔ عجیب مجھے بھی لگ رہا تھا۔۔۔ اس کے گھر جانا نہیں، بلکہ اس کی ماں کے ساتھ چلنا۔ اپنے قد کی وجہ سے وہ بہت کم عمر معلوم ہوتی تھیں۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے وہ اتنی چھوٹی دکھائی دے رہی تھیں کہ گمان ہوتا تھا کہ میں کسی دوسری گریتا کے ساتھ چل رہا ہوں۔

    راستے بھر وہ چپ رہیں لیکن جیسے ہی ان کا گھر سامنے آیا وہ ٹھٹک گئیں۔

    ’’آپ بھی تو کہیں پاس ہی رہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’برائیڈ اسٹریٹ پر۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’ٹیوب اسٹیشن کے بالکل سامنے۔‘‘

    ’’آپ شاید حال ہی میں آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’اس علاقے میں بہت کم انڈین رہتے ہیں۔‘‘

    وہ نیچے اترنے لگیں۔ ان کا گھر بیسمنٹ میں تھا، اس لیے ہمیں سیڑھیاں اتر کر نیچے جانا پڑا۔ بچی دروازہ کھولے کھڑی تھی۔ کمرے میں دن کے وقت بھی اندھیرا تھا۔ روشنی ہوئی تو وہاں تین چار کرسیاں نظر آئیں۔ بیچ میں ایک بہت لمبی سی خالی میز اس طرح پڑی تھی جیسے اس پر پنگ پانگ کھیلی جاتی ہو۔ دیوار سے لگا ہوا ایک صوفہ پڑا تھا، جس کے ایک کنارے پر ایک رضائی لپٹی رکھی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کھانے اور سونے کے علاوہ یہ کمرہ مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

    ’’آپ بیٹھیے۔ میں ابھی چائے بناکر لاتی ہوں۔‘‘ وہ پردہ اٹھاکر اندر چلی گئیں۔ میں اور گریتا کمرے میں اکیلے بیٹھے رہے۔ ہم دونوں پارک کے خزاں رسیدہ اجالے میں ایک دوسرے کو پہچاننے لگے تھے لیکن کمرے کے اندر نہ کوئی موسم تھا نہ کوئی طلسم۔ اس وقت گریتا ایک ایسی بچی بن گئی تھی جس کا رعب اور سحر دونوں ختم ہو چکے تھے۔

    ’’تم یہاں سوتی ہو؟‘‘ میں نے صوفے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    ’’نہیں، یہاں نہیں۔۔۔‘‘ اس نے نفی میں سر ہلایا، ’’میرا کمرہ اندر ہے، آپ دیکھیں گے؟‘‘ کچن سے آگے ایک کوٹھری تھی جو پہلے شاید گودام کے طور پر استعمال ہوتی ہوگی۔ وہاں ایک نیلی چق پڑی تھی۔ اس نے چق ہٹائی اور دبے پاؤں اندر چلی آئی۔

    ’’چپکے سے آئیے وہ سو رہا ہے۔‘‘

    ’’کون؟‘‘

    ’’شی۔۔۔‘‘ اس نے اپنی انگلی کو ہونٹوں پر رکھتے ہوئے آواز نکالی۔ میں نے سوچا کوئی اندر ہے لیکن اندر بالکل سناٹا تھا۔ کمرے کی دیواریں سبز تھیں اور ان پر جانوروں کی تصویریں چپکی تھیں۔ کونے میں اس کا کھٹولا پڑا تھا۔ اس کھٹولے میں تھگلیوں میں لپٹا ایک بھالو لیٹا تھا، گدڑی کے لال جیسا۔

    ’’وہ سو رہا ہے۔‘‘ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

    ’’اور تم؟‘‘ میں نے کہا، ’’تم یہاں نہیں سوتیں؟‘‘

    ’’یہیں سوتی ہوں۔ جب پاپا یہاں تھے تو دوسرے پلنگ پر وہ سوتے تھے۔ ماں نے اب اس پلنگ کو باہر رکھوا دیا ہے۔‘‘

    ’’کہاں رہتے ہیں وہ؟‘‘ اس بار میری آواز بھی دھیمی ہو گئی، بھالو کے ڈر سے نہیں بلکہ اس ڈر سے جو کئی دنوں سے مجھے گھیرے ہوئے تھا۔

    ’’اپنے گھر میں رہتے ہیں اور کہاں؟‘‘ اس نے قدرے تعجب سے مجھے دیکھا۔ اسے لگا جیسے مجھے پوری طرح یقین نہ آیا ہو۔ وہ اپنی میز کے پاس گئی جس پر اس کی اسکول کی کتابیں رکھی تھیں۔ میز کی دراز کھولی اور اندر سے خطوں کا پلندا باہر نکالا جس پر ریشم کا لال فیتہ بندھا تھا، گویا وہ کرسمس کا کوئی تحفہ ہو۔ وہ خطوں کو اٹھاکر میرے پاس لے آئی اور سب سے اوپر والے لفافے پر لگا ہوا ٹکٹ دکھاتے ہوئے کہا، ’’وہ یہاں رہتے ہیں۔‘‘ مجھے یاد آیا کہ وہ میری نقل کر رہی ہے۔ کچھ دن پہلے میں نے بھی پارک میں اسے اپنے ملک سے آیا ہوا خط دکھایا تھا۔

    ڈرائنگ روم سے اس کی ماں ہمیں بلا رہی تھی۔ آواز سنتے ہی وہ کمرے سے باہر چلی گئی۔ میں اس کمرے کی چیزیں دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ٹھٹک گیا۔ کھٹولے پر بھالو سو رہا تھا۔ دیواروں پر جانوروں کی آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔ بستر کے پاس ہی ایک چھوٹا سا بیسن تھا جس پر اس کا ٹوتھ برش، صابن اور کنگھا رکھا تھا۔ میں نے سوچا، سب کچھ میرے بیڈسٹر کی طرح ہے لیکن اس سے بہت مختلف۔ میں اپنا کمرہ چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتا تھا لیکن اس کا کمرہ اپنی چیزوں میں ضم معلوم ہوتا تھا۔ میز پر ریشمی ڈوری میں بندھا خطوں کا پلندا پڑا تھا، جسے جلدی میں وہ میرے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔

    ’’کمرہ دیکھ لیا آپ نے؟‘‘ گریتا کی ماں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہاں جو بھی آتا ہے، یہ سب سے پہلے اسے اپنا کمرہ دکھاتی ہے۔‘‘

    وہ کپڑے بدل آئی تھیں۔ لال چھینٹ کی اسکرٹ اور کھلا کھلا بھورے رنگ کا کارڈیگن۔ کمرہ معمولی عطر کی خوشبوؤں سے بھرا تھا۔

    ’’چائے کے نام پر آپ نے تو پوری دعوت کردی۔‘‘ میں نے میز پر سجی ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ توس، مربہ، مکھن، پنیر۔۔۔ یاد نہیں کہ اتنی بہت سی چیزیں میں نے کب دیکھی تھیں۔

    ’’اسپتال سے لے آتی ہوں۔ وہاں سستی مل جاتی ہیں۔‘‘

    وہ پریشان نظر آتی تھیں۔ ان کی ہنسی میں افسردگی شامل رہتی تھی۔ پتا نہیں بچی کہاں تھی۔ وہ اسے چیخ چیخ کر بلارہی تھیں اور چائے ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ وہ سر پکڑے بیٹھی رہیں۔ پھر یاد آیا کہ میں بھی ہوں۔

    ’’آپ شروع کیجیے، وہ باغ میں بیٹھی ہوگی۔‘‘

    ’’آپ کا اپنا باغ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’بہت چھوٹا سا۔ کچن کے پیچھے۔ جب ہم یہاں آئے تھے تو اجاڑ پڑا تھا۔ میرے شوہر نے اسے صاف کیا۔ اب تھوڑی بہت سبزی بھی اگ آتی ہے۔‘‘

    ’’آپ کے شوہر یہاں نہیں رہتے؟‘‘

    ’’انہیں یہاں کام نہیں ملا۔ دن بھر پارک میں گھومتے رہتے تھے۔ وہی عادت گریتا کو بھی پڑ گئی ہے۔۔۔‘‘

    ان کی آواز میں ہلکی سی نقاہت تھی جس میں جھنجھلاہٹ بالکل نہیں تھی لیکن یہ نقاہت اڑتی ہوئی گرد کی طرح تھی جو ہر چیز پر بیٹھ جاتی ہے۔

    ’’پارک میں تو میں بھی گھومتا ہوں۔۔۔‘‘ میں نے ان کا دکھ بانٹنا چاہا اور ہوا بھی یہی۔ وہ ہنسنے لگیں۔

    ’’آپ کی بات الگ ہے۔‘‘ انہوں نے بجھی ہوئی آواز میں کہا، ’’آپ اکیلے ہیں۔ لیکن لندن میں اگر بال بچے بھی ساتھ ہوں تو بغیر نوکری کے گزارا مشکل ہے۔‘‘

    وہ برتن صاف کرنے لگیں اور میں انہیں سمیٹ کر کچن میں رکھ آیا۔ سنک کے اوپر کھڑکی تھی جہاں سے ان کا باغ دکھائی دیتا تھا۔ بیچ میں ایک بید مجنوں کھڑا تھا، جس کی شاخیں الٹی چھتری کی تیلیوں کی طرح جھول رہی تھیں۔

    پیچھے مڑا تو گریتا کی ماں دکھائی دیں۔ وہ دروازے پر تولیہ لیے کھڑی تھیں۔

    ’’کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘

    ’’آپ کے باغ کو۔۔۔ بہت چھوٹا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں، لیکن اس درخت نے ساری جگہ گھیر رکھی ہے۔ میں اسے کٹوانا چاہتی تھی مگر وہ اپنی ضد پر اڑ گئی۔ جس دن پیڑ کٹنا تھا، وہ رات بھر روتی رہی۔‘‘ وہ چپ ہو گئیں، جیسے اس رات کو یاد کرکے رو پڑیں گی۔

    ’’کیا کہتی تھی؟‘‘

    ’’کہتی کیا تھی، اپنی ضد پر اڑی تھی۔ بہت پہلے اس کے باپ نے کہا تھا کہ پیڑ کے نیچے سمر ہاؤس بنائیں گے۔ اب آپ ہی بتائیے، یہاں خود رہنے کے لیے جگہ نہیں۔ باغ میں گڑیوں کا سمر ہاؤس کہاں سے بنے؟‘‘

    ’’سمر ہاؤس؟‘‘

    ’’ہاں۔ سمر ہاؤس، جہاں گریتا اپنے بھالو کے ساتھ رہےگی۔‘‘ وہ ہنسنے لگیں۔ ایک افسرہ سی ہنسی جو ایک خالی جگہ سے اٹھ کر دوسری خالی جگہ پر بیٹھ جاتی ہے اور بیچ کی جگہ بھی خالی چھوڑ جاتی ہے۔

    میرے جانے کا وقت ہو گیا تھا لیکن گریتا کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے آئے۔ لندن کی میلی دھوپ پڑوس کی چمنیوں پر رینگ رہی تھی۔ رخصت ہوتے وقت جب میں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے جھجکتے ہوئے کہا، ’’آپ کل خالی ہیں؟‘‘

    ’’میں تقریباً ہر روز خالی رہتا ہوں۔‘‘

    ’’کل اتوار ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’گریتا کی چھٹی ہے لیکن میری ڈیوٹی ہے۔ کیا میں اسے آپ کے پاس چھوڑ سکتی ہوں؟‘‘

    ’’کس وقت آنا ہوگا؟‘‘

    ’’نہیں، آپ تکلیف نہ کریں۔ اسپتال جاتے ہوئے میں اسے لائبریری میں چھوڑ دوں گی۔۔۔ شام کو لوٹتے وقت لے لوں گی۔‘‘

    میں نے ہاں کرلی اور سڑک پر چلا آیا۔ کچھ دور چل کر جیب سے پیسے نکال کر انہیں گننے لگا۔ یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ آج کھانے کے پیسے بچ جائیں گے۔ میں نے بچی ہوئی ریزگاری کو مٹھی میں دبایا اور گھر کی طرف چل دیا۔

    میں لائبریری کے دروازے پر کھڑا تھا۔ انہیں شاید سردی کی وجہ سے آنے میں دیر ہو گئی تھی۔ دھوپ دور دور تک نہیں تھی۔ لندن کی عمارتوں پر زرد اجالا ٹھہرا ہوا تھا۔ اس اجالے میں وہ اور بھی مفلس اور مغموم نظر آتی تھیں۔

    مجھے ان کی سفید پوشاک نظر آئی۔ دونوں پارک سے گزر کر آ رہے تھے۔ آگے آگے وہ اور ان کے پیچھے بھاگتی ہوئی گریتا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر ہوا میں ہاتھ ہلایا، بچی کو جلدی سے چوما اور اسپتال کی طرف مڑ گئیں۔ لیکن بچی کو کوئی جلدی نہیں تھی۔ وہ دھیمے قدموں سے میرے پاس آئی۔ سردی سے اس کی ناک لال ہو گئی تھی۔ اس نے کتھئی رنگ کا پوری آستینوں والا سویٹر پہن رکھا تھا اور سرپر وہی پرانی ٹوپی تھی جو پارک میں پہن کر آتی تھی۔

    وہ نڈھال سی کھڑی تھی۔

    ’’چلوگی؟‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ اس نے چپ چاپ سر ہلا دیا۔ مجھے تھوڑی سی مایوسی ہوئی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ پوچھے گی، کہاں؟ اور تب میں اسے حیرت میں ڈال دوں گا۔ لیکن اس نے کچھ نہ پوچھا اور ہم سڑک پار کرنے لگے۔ جب ہم پارک سے آگے بڑھے تو ایک بار اس نے سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا، جیسے وہ کسی محفوظ حصار سے باہر جا رہی ہو۔ میں چپ رہا اور اس نے بھی کوئی سوال نہیں کیا۔ اس وقت مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ بچے جب ماں باپ کے ساتھ نہیں ہوتے تو سارے سوالوں کی پڑیا بناکر اندھیرے گڈھے میں پھینک دیتے ہیں۔

    ٹیوب میں بیٹھ کر وہ کچھ مطمئن سی نظر آئی۔ اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا وار کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔

    ’’کیا ابھی سے رات ہو گئی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’رات؟‘‘

    ’’دیکھو باہر کتنا اندھیرا ہے۔‘‘

    ’’ہم زمین کے نیچے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ وہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر دھیرے سے کہا، ’’نیچے رات ہے، اوپر دن۔‘‘ ہم دونوں ہنسنے لگے۔ میں نے پہلے کبھی اس پر غور نہیں کیا تھا۔

    دھیرے دھیرے روشنی نظر آنے لگی۔ اوپر آسمان کا ایک ٹکڑا دکھائی دیا اور پھر اتھاہ سفیدی میں ڈوبا ہوا دن سرنگ کے باہر نکل آیا۔ ٹیوب اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ رک گئی۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’رک کیوں گئیں؟‘‘

    ’’مجھے باتھ روم جانا ہے۔‘‘

    میں ڈرا، اس لیے کہ ٹائلٹ نیچے تھا اور وہ اس حالت میں بہت دور نہیں جا سکتی تھی۔ میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور انہیں سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا۔ راہداری کے دوسرے سرے پر مردانہ ٹائلٹ دکھائی دیا۔ میں جلدی سے اسے اندر لے گیا اور دروازہ بند کرکے جب باہر آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے وہ نہیں، میں آزاد ہو رہا ہوں۔

    وہ باہر آئی تو پریشان سی نظر آئی۔

    ’’اب کیا بات ہے؟‘‘

    ’’زنجیر بہت اونچی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’ٹھہرو، میں کھینچ دیتا ہوں۔‘‘

    اس نے میرا کوٹ پکڑ لیا۔۔۔ زنجیر وہ خود کھینچنا چاہتی تھی۔ میں اس کے ساتھ اندر گیا۔ اسے دوبارہ گود میں اٹھایا اور تب تک اٹھاتا گیا جب تک اس کا ہاتھ زنجیر تک نہیں پہنچ گیا۔ ہم دونوں حیرت سے فلش میں پانی کو بہتا دیکھتے رہے، جیسے یہ عجوبہ زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔

    ہم سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اوپر آئے تو اس نے کس کر میرا ہاتھ کھینچ لیا۔ ٹریفالگر اسکوائر آگے تھا۔ چاروں طرف بھیڑ، اجالا، شور۔ میں اسے حیرت میں ڈالنا چاہتا تھا لیکن وہ ڈر گئی تھی۔ وہ اتنا ڈر گئی تھی کہ میرا جی چاہا کہ میں اسے دوبارہ نیچے لے جاؤں، ٹیوب اسٹیشن میں جہاں زمین کا اپنا محفوظ اندھیرا تھا۔ لیکن جلد ہی اس کاڈر جاتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرا ہاتھ بھی چھوڑ دیا۔ وہ اسکوائر کے انوکھے اجالے میں کھو گئی تھی۔ وہ ان شیروں کے نیچے چلی آئی تھی جو کالے پتھروں پر اپنے پنجے کھولے ہوئے بھیڑ کو گھور رہے تھے۔ بہت سے بچے کبوتروں کو دانہ ڈال رہے تھے۔

    کبوتروں کے پروں کا سایہ ایک بادل کی طرح معلوم ہوتا تھا جو کبھی ادھر ادھر اور کبھی سر کے اوپر سے نکل جاتا اور کانوں میں صرف ایک گرم، سنسناتی پھڑپھڑاہٹ باقی رہ جاتی۔

    وہ اس پھڑپھڑاہٹ کو سن رہی تھی اور مجھے بھول چکی تھی۔ میں اس کی نظر بچاکر اسکوائر کے بیچ میں چلا آیا۔ وہاں لال لکڑی کا ایک کیبن تھاجہاں دانے بکتے تھے۔ دانوں سے بھرے ایک پیالے کی قیمت چار پنس تھی۔ میں نے ایک پیالہ خریدا اور بھیڑ میں اسے ڈھونڈنے لگا۔

    وہاں کبوتروں سے گھرے ہوئے بہت سے بچے تھے لیکن وہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہی۔ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہیں ہٹی تھی۔ میں اس کے پیچھے گیا اور دانوں کا پیالہ اس کے آگے کر دیا۔ وہ مڑی اور سٹپٹاکر میری طرف دیکھا۔ بچوں میں شکرگزاری نہیں ہوتی۔ انہیں جو مل جاتا ہے لے لیتے ہیں۔ اس کا اظہار کچھ بتائے یا جتائے بغیر ہی ہو جاتا ہے۔ اس نے پیالے کو میرے ہاتھوں سے تقریباً چھینتے ہوئے کہا، ’’وہ آئیں گے؟‘‘

    ’’ضرور آئیں گے۔۔۔ انہیں بلانے کے لیے ایک دانہ ڈالنا ہوگا۔ پھر۔۔۔‘‘

    اس نے میری بات نہیں سنی۔ وہ اس طرف بھاگتی رہی جہاں اکا دکا کبوتر بھٹک رہے تھے۔ شروع میں اس نے ڈرتے ڈرتے ہتھیلی آگے بڑھائی۔ کبوتر اس کے پاس آتے ہوئے جھجک رہے تھے، جیسے اس کا ڈر کبوتروں میں بھی سما گیا ہو۔ لیکن وہ خود کو زیادہ دیر تک نہ روک سکے۔ غمزے چھوڑ کر پاس آئے، ادھر ادھر دیکھنے کا بہانہ کیا اور پھر جلدی جلدی اس کی ہتھیلی سے دانے چگنے لگے۔ اب وہ اپنا فراک پھیلاکر بیٹھ گئی تھی، ایک ہاتھ میں دونا، دوسرے ہاتھ میں دانے۔ میں اب اسے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ پروں کے شور کرتے کاسنی شامیانے نے اسے ڈھک لیا تھا۔

    میں بنچ پر بیٹھ کر فواروں کو دیکھنے لگا جن کی پھوار اڑتی ہوئی گھٹنوں تک آ جاتی تھی۔ بادل اس قدر نیچے آ گئے تھے کہ نیلسن کا سر صرف ایک سیاہ دھبا نظر آتا تھا۔

    دن گزر رہا تھا۔

    کچھ ہی دیر میں میں نے دیکھا وہ سامنے کھڑی ہے۔

    ’’میں ایک کپ اور لوں گی۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’اب نہیں۔‘‘ میں نے ذرا ہچکچاتے ہوئے کہا، ’’کافی دیر ہو چکی ہے۔ اب میں چائے پیوں گا اور تم آئس کریم کھاؤگی۔‘‘

    اس نے نفی میں سر ہلایا۔

    ’’میں ایک کپ اور لوں گی۔‘‘

    اس کے لہجے میں ضد نہیں تھی۔

    میں نے اس کے ہاتھ سے خالی کپ لے لیا اور دکان کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں دکان کے پیچھے مڑ گیا۔ وہاں بھیڑ تھی، اس کی نگاہیں مجھ تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ کونے کی آڑ میں میں نے جیب سے پیسے نکالے۔ ان میں سے چائے، آئس کریم اور ٹیوب کے کرائے کے پیسے الگ کیے۔ اب صرف دو پنس بچے تھے۔ میں نے چائے کے لیے الگ کیے ہوئے کچھ پنس اس میں ملائے اور دکان کے سامنے لگی ہوئی لائن میں شامل ہو گیا۔

    اس بار میں نے اسے کپ دیا تو اس نے میری طرف دیکھا بھی نہیں۔ وہ کپ لیے بھاگتی ہوئی اس جگہ پہنچ گئی جہاں سب سے زیادہ کبوتر تھے۔ وہ ان کے اور قریب گئی۔ کبوتر بھی اس سے مانوس ہونے لگے۔ وہ اڑتے ہوئے کبھی اس کے ہاتھوں پر، کبھی شانوں پر اور کبھی سر پر بیٹھ جاتے تھے۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کا چہرہ زرد بخار سے پیدا ہونے والے کھنچاؤ میں تحلیل ہو گیا تھا اور وہ ہاتھ جو ہمیشہ مجھے بے جان سے معلوم ہوتے تھے عجیب سی بےچینی کے ساتھ کھلنے بند ہونے لگے تھے، جیسے وہ کسی بھی وقت کبوتروں کی دھڑکنوں کو اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ اسے پتا بھی نہیں چلا کہ دانوں کی کٹوری کس وقت خالی ہوگئی۔ وہ کچھ دیر تک ہوا میں ہتھیلی کھولے بیٹھی رہی۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ کبوتر اسے چھوڑکر دوسرے بچوں کے آس پاس منڈلانے لگے ہیں۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور کسی طرف دیکھے بغیر چپ چاپ میرے پاس چلی آئی۔ مجھے لگا کہ وہ مجھ پر شک کر رہی ہے۔ وہ ایک ٹک مجھے دیکھ رہی تھی۔

    میں بنچ سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔

    ’’اب چلیں گے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’میں ایک کپ اور لوں گی۔‘‘

    ’’نہیں۔ تم دو لے چکی ہو۔‘‘ میں نے ناراض ہوتے ہوئے کہا، ’’معلوم ہے میرے پاس کتنے پیسے بچے ہیں؟‘‘

    ’’صرف ایک اور، اس کے بعد ہم چل دیں گے۔‘‘

    لوگ ہمیں دیکھنے لگے تھے اور میں اس سے دانوں کی ایک کٹوری کے لیے الجھ رہا تھا۔

    ’’گریتا، تم بہت ضدی ہو۔‘‘ میں نے اسے بنچ پر بٹھاتے ہوئے کہا۔ اب تمہیں کچھ نہیں ملےگا۔ اس نے تاثر سے عاری آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔

    ’’آپ برے آدمی ہیں، میں آپ کے ساتھ کبھی نہیں کھیلوں گی۔‘‘ مجھے محسوس ہوا جیسے اس نے میرا موازنہ کسی غیر مرئی شخص سے کیا ہو۔ میں خالی خالی سا بیٹھا رہا۔

    کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی امید باقی نہیں رہتی، صرف اپنے ہونے پر شدید حیرت ہونے لگتی ہے۔ مجھے وہ آواز سنائی دے جاتی ہے۔۔۔ اور میں اسے سن کر منھ موڑ لیتا ہوں۔

    وہ رو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میں دانوں کی خالی کٹوری تھی اور اس کی ٹوپی کھسک کر ماتھے پر آ گئی تھی۔ وہ چپ تھی لیکن یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی ہچکیاں بندھی ہوئی ہوں۔ مجھ سے یہ نہیں دیکھا گیا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے کٹوری لے لی اور قطار میں جاکر کھڑا ہو گیا۔ اس بار پیسوں کا گننا بھی یاد نہ رہا۔ حالانکہ وہ مجھ سے بہت دور تھی اور کبوتروں کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور بچوں کی چیخوں کی وجہ سے کچھ بھی سنائی نہ دیتا تھا، پھر بھی میں اس کے رونے کی آواز سن رہا تھا۔ لیکن ان سب سے دور میرے اندر کا سناٹا تھا اور اس سناٹے میں اس کی رندھی ہوئی سانسیں تھیں جنہیں میں ناقابل عبور فاصلے سے بھی سن سکتا تھا۔

    لیکن اس بار پہلے کی طرح نہیں ہوا۔ بہت دیر تک کوئی کبوتر اس کے پاس نہیں آیا۔ کچھ تو وہ گھبرائی ہوئی تھی اور کچھ اندھیرا بھی پھیلتا جا رہا تھا، اس لیے کبوتر اس کے قریب تو آتے تھے لیکن اس کی کھلی ہوئی ہتھیلی کو نظرانداز کرکے دوسرے بچوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ تھک ہار کر اس نے دانوں کی کٹوری زمین پر رکھ دی اور خود میرے پاس بنچ پر آکر بیٹھ گئی۔

    اس کے جاتے ہی کبوتر کٹوری کے اردگرد جمع ہونے لگے۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ دانوں کی کٹوری اوندھی پڑی ہے اور اس میں ایک دانہ بھی نہیں ہے۔

    ’’اب چلوگی؟‘‘ میں نے کہا۔ وہ فوراً بنچ سے اٹھ کھڑی ہوئی، جیسے وہ اتنی دیر سے اسی کا انتظار کر رہی ہو۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ ان میں ایسی تابانی تھی جو آنسوؤں کے بہہ جانے کے بعد نظر آتی ہے۔

    ان دنوں ٹریفالگر اسکوائر کے سامنے لائنز کا ریستوراں ہوا کرتا تھا، گندا اور سستا۔ سڑک پار کرکے ہم وہیں پہنچ گئے۔ اس دوران میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسوں کو گن لیا تھا۔ حساب لگاکر میں نے اس کے لیے دو ٹوسٹ منگوائے اور اپنے لیے چائے۔ آئس کریم کا خیال دل سے نکال دینا ہی مناسب تھا۔ وہ پہلی بار کسی ریستوراں میں آئی تھی اس لیے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ کچھ دیر پہلے کی ناراضگی ختم ہونے لگی ہے۔ اب ہم دوبارہ ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے۔ پھر بھی یہ قربت پہلے کی سی نہیں تھی۔

    کبوتروں کے پروں کا سایہ اب ہمارے درمیان موجود تھا۔

    ’’کیا میں بہت برا آدمی ہوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے نگاہیں اٹھاکر ایک لمحے کے لیے مجھے دیکھا، پھر جلدی سے کہا، ’’میں نے آپ کو نہیں کہا تھا۔‘‘

    ’’مجھ کو نہیں کہا تھا؟‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، ’’پھر کس کو کہا تھا؟‘‘

    ’’مسٹر ٹامس کو۔ وہ برے آدمی ہیں۔ ایک روز جب ان کے گھر گئی تو وہ مسز ٹامس کو ڈانٹ رہے تھے اور مسز ٹامس بےچاری رو رہی تھیں۔‘‘

    ’’اوہ!‘‘ میں نے کہا۔

    ’’آپ سمجھے کہ میں نے آپ کو کہا تھا؟‘‘ وہ ہنس پڑی جیسے میں نے واقعی بڑی احمقانہ بات کی ہو۔ اس کی ہنسی دیکھ کر نہ جانے کیوں میرا دل بیٹھنے لگا۔

    ’’ہم یہاں دوبارہ آئیں گے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ اس کا پوچھنا مجھے برا لگا۔ یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے کوئی لڑکی اپنے محبوب کا ذکر بار بار کرے لیکن میں اسے دوبارہ مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا، اس لیے کہ گرمیاں ابھی دور تھیں اور بیچ میں خزاں اور برف باری کے دن۔ میں نے سوچا کہ اُس وقت تک میرا جھوٹ کھل جائےگا۔

    ہم باہر آئے تو زرد سا اندھیرا پھیلا ہواتھا حالانکہ دوپہر نہیں ہوئی تھی۔ اس نے کھوئی کھوئی آنکھوں سے اسکوائر کی طرف دیکھا جہاں کبوتر اب بھی اڑ رہے تھے۔ میری جیب میں اب صرف ٹیوب کے کرائے بھر کے پیسے تھے۔ اس بار اس نے کوئی فرمائش نہیں کی۔ بچے ایک حد کے بعد بڑوں کی مفلسی نہ سہی لیکن مجبوری پہچان لیتے ہیں۔

    میں نے سوچا تھا کہ ریل میں میں اس سے سمرہاؤس کے بارے میں پوچھوں گا اور اس بید مجنوں کے بارے میں بھی جو اس کے باغ میں اکیلا کھڑا تھا۔ میں اسے دوبارہ اس کی اپنی دنیا میں لانا چاہتا تھا جہاں ہم دونوں پہلی بار ایک دوسرے سے ملے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اپنی جگہ پر بیٹھتے ہی اس پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ ٹریفالگر اسکوائر سے آئیلنگٹن تک کا فاصلہ کافی طویل تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے میرے شانوں پر اپنا سر ٹکا دیا اور نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

    اس بیچ میں نے ایک آدھ بار اس کے چہرے کو دیکھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ سوتے ہوئے وہ بالکل ویسی ہی لگ رہی تھی جیسا میں نے اسے پہلی بار پارک میں پیڑوں کے بیچ دیکھا تھا۔۔۔ ضدی، پرسکون اور مکمل۔ کبوتروں کو دانہ کھلانے کی ضد اس نے چھوڑ دی تھی۔ آنسو کب کے خشک ہوچکے تھے۔ نیند میں وہ اتنی ہی مکمل نظر آتی تھی جتنی جھاڑیوں کے بیچ اور اس وقت میرے دل میں عجیب سا خیال پیدا ہوا۔ پارک میں اس نے مجھے کئی بار پکڑا تھا، لیکن اس کے سوئے ہوئے پرسکون چہرے کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ وہ تو ہمیشہ سے اسیر ہے۔۔۔ میرے جیسے لوگ تو کبھی کبھی گرفت میں آتے ہیں۔۔۔ لیکن اسے اس کا ذرا بھی علم نہیں ہے۔

    یہ ایک طرح کا عطیہ ہے، اس لیے کہ دوسروں کو ہمیشہ نجات اور آزادی کا وہم ہوتا ہے جب کہ اس بچی کو اس طرح کا کوئی وہم نہ تھا۔ اس وقت پہلی بار میں نے اسے چھونے کی ہمت کی۔ میں دھیرے دھیرے اس کے رخساروں کو چھونے لگا جو آنسو بہنے کے بعد کچھ اس طرح گرم ہو گئے تھے جس طرح بارش کے بعد گھاس کی پتیاں گرم ہو جاتی ہیں۔

    وہ جاگی نہیں۔ ٹیوب اسٹیشن آنے تک آرام سے سوتی رہی۔

    اس رات بارش ہوئی تو مسلسل ایک ہفتے تک ہوتی رہی۔ گرمیوں کی آمد کے دن ختم ہو چکے تھے۔ سارے شہر پر پیلی دھند کی پرتیں جمع رہتیں۔ سڑک پر چلتے وقت کچھ بھی نظر نہ آتا، نہ پیڑ، نہ لیمپ پوسٹ، نہ آدمی۔

    مجھے وہ دن یاد ہیں کیونکہ انہیں دنوں مجھے نوکری ملی تھی۔ لندن میں وہ میری پہلی نوکری تھی۔ کام زیادہ ضرور تھا لیکن مشکل نہیں تھا۔ ایک پب میں کاؤنٹر کے پیچھے سات گھنٹے کھڑا رہنا پڑتا تھا، بیئر اور شراب کے گلاس دھونا پڑتے تھے، رات کے گیارہ بجتے ہی گھنٹی بجانا پڑتی تھی اور بلا نوشوں کو اٹھاکر پب کے باہر لے جانا پڑتا تھا۔ کچھ دن تک میں کہیں نکل نہیں سکا۔ گھر لوٹتے ہی بستر پر دراز ہو جاتا، جیسے پچھلے مہینوں کی نیند مجھ سے کوئی پرانا انتقام لے رہی ہو۔ آنکھ کھلتی تو پانی کی بوندیں گرتی ہوئی نظر آتیں جو گھڑی کی ٹک ٹک کی طرح برابر گرتی رہتیں۔ کبھی کبھی وہم ہونے لگتا کہ میں مر گیا ہوں اور اپنی قبر کے اندر سے بوندوں کی ٹپ ٹپ سن رہا ہوں۔

    لیکن ایک روز آسمان دکھائی دیا۔ پورا آسمان نہیں صرف نیلی سی ایک قاش اور اسے دیکھ کر اچانک مجھے پارک میں گزارے ہوئے دن یاد آ گئے۔ وہ یہودی ریستوراں کی بلی اور وہ بازار جاتی ہوئی مسز ٹامس۔ وہ میری چھٹی کا دن تھا۔ اس دن میں نے اپنے سب سے عمدہ کپڑے پہنے اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ لائبریری کھلی تھی اور سب پرانی صورتیں وہاں موجود تھیں۔ پارک خالی پڑا تھا۔ درختوں پر پچھلے دنوں کی بارش کے قطرے چمک رہے تھے۔ یہ درخت کچھ سکڑتے ہوئے نظر آتے تھے۔ شاید آنے والی سردیوں کا پتا انہیں چل گیا تھا۔

    میں دوپہر تک پارک میں گریتا کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دی۔۔۔ نہ بنچ پر نہ پیڑوں کے نیچے۔ دھیرے دھیرے زرد خزانی اجالا پھیکا پڑنے لگا۔ پانچ بجے اسپتال کا گجر سنائی دیا اور میری آنکھیں یکایک پھاٹک کی طرف اٹھ گئیں۔

    کچھ دیر تک کوئی دکھائی نہیں دیا۔ پھاٹک پر لوہے کا ہینڈل شام کی جاتی ہوئی دھوپ میں چمک رہا تھا اور اس کے پیچھے اسپتال کی لال اینٹوں والی عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ گھر جانے کے لیے ان دونوں کو پارک کے بیچ سے گزرنا ہوتا ہے۔ پھر بھی بے یقینی کے عالم میں کبھی پھاٹک کی طرف دیکھ لیتا تھا کبھی سڑک کی طرف۔ پھر یہ خیال بھی آتا کہ شاید اسپتال میں ان کی ڈیوٹی نہ ہو اور وہ دونوں گھر پر ہی موجود ہوں۔

    سڑک پر قمقمے روشن ہونے لگے۔ مجھے عجیب سی وحشت ہوئی جیسے انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہوں اور میں انہیں ٹالتا جا رہا ہوں۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ کھڑے ہوکر انتظار کرنا زیادہ آسان معلوم ہوا اور جیسے ہی میں کھڑا ہوا عین اسی وقت مجھے پھاٹک کے قریب آہٹ سی محسوس ہوئی۔ مجھے سفید پوشاک پہلے نظر آئی اور مسز پارکر کا چہرہ بعد میں۔ وہ پارک کے بیچ والے راستے پر تیز تیز قدموں سے چل رہی تھیں۔ وہ مجھے نہیں دیکھ سکی تھیں اور اگر وہ میری ہی طرف آ رہی ہوتیں تب بھی شاید دھندلکے میں مجھے نہ پہچان پاتیں۔

    میں تیزی سے چلتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا۔

    ’’مسز پارکر!‘‘ پہلی بار میں نے انہیں ان کے نام سے پکارا تھا۔ وہ رک گئیں اور حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں۔ ’’آپ یہاں؟‘‘ ابھی بھی وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھیں۔

    ’’میں یہاں دوپہر سے بیٹھا ہوں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ بھونچکا سی مجھے دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا تھا لیکن یوں لگ رہا تھاجیسے وہ اس پہچان کا مطلب نہ نکال پا رہی ہوں۔ میں مخمصے میں پڑ گیا۔ پھر نرمی سے ان سے پوچھا، ’’آج آپ اتنی دیر سے کیوں لوٹ رہی ہیں؟ پانچ کا گجر تو کب کا بج چکا ہے۔‘‘

    ’’پانچ کا گجر؟‘‘

    ’’آپ ہمیشہ پانچ بجے لوٹتی ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’اوہ!‘‘ انہیں یاد آیا، جیسے میں تاریخ میں گزرے ہوئے کسی واقعے کا ذکر کر رہا ہوں۔

    ’’آپ لندن میں ہی تھے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    ’’مجھے کام مل گیا ہے، اسی لیے اتنے دنوں تک آنہیں آ سکا۔ گریتا کیسی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    وہ ہچکچائیں۔ پل بھر کا تذبذب، جس کا کوئی مطلب نہ تھا، لیکن شام کے دھندلکے میں مجھے وہ بدشگونی سی معلوم ہوئی۔

    ’’میں آپ کو بتانا چاہتی تھی مگر مجھے آپ کا گھر نہیں معلوم تھا۔۔۔‘‘

    ’’وہ ٹھیک ہے؟‘‘

    ’’ہاں ٹھیک ہے۔‘‘ انہوں نے فوراً کہا، ’’لیکن اب یہاں نہیں ہے۔ کچھ دن پہلے اس کے باپ آئے تھے، وہ اسے لے گئے۔‘‘

    میں انہیں دیکھتا رہا۔ میرے اندر جو کچھ تھا وہ ٹھہر گیا۔ میں اس ٹھہراؤ کے اندر تھا اور وہاں سے باہر کی دنیا بالکل صاف دکھائی دیتی تھی۔ میں نے اس دنیا کو اتنا صاف پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

    ’’کب کی بات ہے؟‘‘

    ’’جس دن آپ اس کے ساتھ ٹریفالگر اسکوائر گئے تھے اس کے دوسرے ہی دن وہ آئے تھے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ انہیں وہاں کام مل گیا ہے۔‘‘

    ’’اور آپ؟ آپ یہاں اکیلی رہیں گی؟‘‘

    ’’میں نے ابھی کچھ سوچا نہیں۔‘‘ انہوں نے دھیرے سے سر اٹھایا۔ ان کی آواز میں کپکپی تھی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ان کے چہرے پر بچی کی تصویر دکھائی دی۔۔۔ اوپر اٹھا ہوا ہونٹ، بھیگی آنکھیں، ہوا میں اڑتے کبوتروں کو دیکھتی ہوئی۔

    ’’آپ کبھی گھر ضرور آئیےگا۔‘‘ انہوں نے رخصت کی اجازت مانگی اور میں نے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں ا نہیں بہت دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر کافی دیر تک وہیں بنچ پر بیٹھا رہا۔ مجھے کہیں نہیں جانا تھا، نہ ہی کسی کا انتظار کرنا تھا۔ دھیرے دھیرے درختوں پر تارے نکلنے لگے۔ میں نے پہلی بار لندن کے آسمان پر اتنے ستارے دیکھے تھے۔۔۔ صاف اور چمکتے ہوئے، جیسے بارش نے انہیں بھی دھو ڈالا ہو۔

    ’’اِٹ از ٹائم، ڈیر۔‘‘

    پارک کے چوکیدار نے دور ہی سے آواز لگائی۔ وہ پارک کے داخلی دروازے کی کنجیاں کھٹکھٹاتا ہوا پارک کے چکر لگا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی میں وہ ہر بنچ، جھاڑی اور پیڑ کے نیچے دیکھ لیتا تھا کہ کہیں کوئی رہ تو نہیں گیا۔۔۔ کوئی کھویا ہوا بچہ، کوئی شرابی یا کوئی پالتو بلی۔

    وہاں کوئی نہیں تھا۔ کوئی بھی چیز نہیں چھوٹی تھی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ اچانک ہوا چلنے لگی۔ اندھیرے میں ایک جھونکا سا آیا اور پیڑوں کی پتیاں سرسرانے لگیں۔ تب مجھے دھیمی سی ایک آواز سنائی دی، شوخ لہجے میں تنبیہ کرتی ہوئی، ’’اسٹاپ! اسٹاپ!‘‘

    میرے پاؤں بیچ پارک میں ٹھٹک گئے۔ میں نے چاروں طرف دیکھا۔ کوئی نہیں تھا۔ نہ کوئی آواز نہ کھٹکا۔ صرف درختوں کی شاخیں ہوا میں ہل رہی تھیں۔ اس وقت ایک پاگل، عریاں سی خواہش میرے اندر جاگنے لگی کہ یہیں بیٹھ جاؤں، ان درختوں کے درمیان جہاں میں پہلی بار پکڑا گیا تھا اور آگے جانے کو میرا جی نہ چاہا۔ اس بار میں قطعی اور آخری شکل میں پکڑ لیا جانا چاہتا تھا۔۔۔

    ’’اٹ از کلوزنگ ٹائم۔۔۔‘‘ اس بار چوکیدار نے بہت قریب آکر کہا اور میری طرف تجسس بھری نگاہوں سے دیکھا کہ میں وہی آدمی ہوں جو ابھی کچھ دیر پہلے بنچ پر بیٹھا تھا۔

    اس بار میں نہیں مڑا۔ پارک سے باہر آکر ہی سانس لی۔ میرا گلا سوکھ گیا تھا اور سینہ کھوکھلا معلوم ہوتا تھا۔ مجھے اپنے سامنے پب کی لالٹین جھولتی دکھائی دی۔ میں نے پیسے گننے کے لیے جیب سے پرس نکالا۔ مفلسی کے دنوں کی یہ عادت مجھ میں اب بھی موجود تھی۔ مجھے حیرت تھی کہ میرے پاس پورے دو پاؤنڈ تھے۔ مجھے یاد آیا کہ میں انہیں کبوتروں کے دانے کے لیے لایا تھا۔

    مأخذ:

    منتخب تحریریں (Pg. 25)

    • مصنف: نرمل ورما
      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2004

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے