aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ڈبل لائف

عزیز احمد

ڈبل لائف

عزیز احمد

MORE BYعزیز احمد

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی، جو پیار تو کرتی ہے لیکن اظہار کرنے سے ڈرتی ہے۔ اسے اپنے نام، عزت اور کردار کی بہت پروا ہوتی ہے۔ وہ اس کے ساتھ اپنے رشتوں کو محض دوستی کا نام دیتی ہے۔ مگر جب وہ کسی دوسری لڑکی کے ساتھ گھومنے جاتا ہے تو اسے یہ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ آخرکار وہ اپنی ہر چیز سے بے پروا ہوکر اس سے اپنی محبت کا اظہار کر دیتی ہے۔‘‘

    آخر آج تم نے بےقرار ہوکر میرے گلے میں باہیں ڈال دیں! حیران ہوں کہ یہ تبدیلی کیوں؟ ذرا سوچو، دو برس پہلے کیسے گمان ہو سکتا تھا کہ تم اس طرح مجھ سے ملنے نئی دہلی کے اس ہوٹل میں آؤگی۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ ایک دفعہ جب میں نے تم سے کوالٹی میں آئس کریم کھانے کے لیے کہا تھا تو تم نے نہایت اخلاق سے جواب دیا تھا کہ تم نئی دہلی میں کسی کے ساتھ دیکھی جانا پسند نہیں کرتیں۔ تمہیں بھی تو یاد ہوگا کہ میں نے سنیما دیکھنا صرف اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ نہیں جا سکتی تھیں۔ کتنا خیال تھا تمہیں زبان خلق کا، کتنی فکر تھی تمہیں اپنے نام کی! کتنے فخر سے تم کہا کرتی تھی کہ دہلی یونیورسٹی میں تم ہی وہ تنہا لڑکی ہو جس کے متعلق لوگوں کو کبھی باتیں بتانے کا موقع نہیں ملا۔ تم اکثر کہتی تھیں کہ اگرچہ تم مجھ سے ملنا جلنا پسند کرتی ہو لیکن میری خاطر تم اپنے نیک نام کو خطرے میں نہیں ڈال سکتیں، اس لیے میرا تمہارا ساتھ باہر دیکھا جانا مناسب نہیں۔

    حیران ہوں کہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ کہاں گئے وہ تمہارے بلند آہنگ دعوے مشرقی روایات کے تحفظ؟ کیا ہوئے وہ تمہارے فلسفیانہ نظریے، مرد عورت کے صحت مند تعلقات کے متعلق، یاد تو ہوگا کہ تم اپنے کو پتھر کی وہ چٹان کہا کرتی تھیں جسے کوئی بھی سیل بہاکر نہیں لے جا سکتا۔ جس سے ٹکراکر جذبات کی بےپناہ لہریں ساکت ہو جاتی ہیں جو سرد و گرم زمانہ کے اثرات سے بےنیاز ہوتی ہے اور سچ ہے کہ میں نے کبھی تمہاری آنکھوں میں وہ چمک نہیں پائی جو میں دیکھنا چاہتا تھا، تمہارے تبسم میں کبھی وہ نکھار نہیں پیدا ہوا جس کا میں متمنی تھا، تمہاری آنکھوں کے گہرے ساکت سمندر میں نہ میری خاموش التجائیں ہلچل پیدا کر سکیں اور نہ میری بےچین آنکھیں ان کی تھاہ پا سکیں۔

    تم عجیب تھیں، بہت ہی عجیب! باتیں کرنے پر آؤ تو پھول برسایا کرو۔ نہ جی چاہے تو دو لفظوں میں ٹال دو۔ عرصے تک تو میری سمجھ میں نہ آئی کہ میں تمہارے لیے گوارا ہوں یا ناگزیر۔ میں پہلی ملاقات کبھی نہیں بھول سکتا۔ باوجود اس کے کہ وہ کاروباری تھی۔ بیگم برلاس نے جب میرا تعارف کرایا تو تمہارے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ تھی اسے رسمی ماننے کے لیے میں ہرگز تیار نہیں، اسی وقت میں نے تہیہ کر لیا کہ تم سے قریب ہوکر تمہیں دیکھوں گا۔ لیکن دوسری ملاقات میں تم نے ایسی بےرخی برتی کہ میں شرمندہ بھی ہوا اور حیران بھی۔ تم کشمیری دروازہ پر بس کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ میں ادھر سے گزرا اور میں نے تمہیں اپنی موٹر میں لے چلنے کی درخواست کی۔ تم نے مسکراتے ہوئے میری درخواست رد کر دی۔ یہ مسکراہٹ پہلی ملاقات والی مسکراہٹ سے کچھ مختلف تھی۔ خوبصورت کہنی ایک ایسے چمکتے ہوئے چاقو کے پھل کی طرح جسے ہاتھ لگاتے انگلی فگار ہو جائے۔ اس کے بعد میں بہت بے چین ہو گیا۔ اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ وہ رات میں نے آنکھوں میں کاٹ دی تو تم ہنسوگی۔ لیکن کیا خبر تمہیں پہلےہی معلوم رہا ہو کہ مجھ پر کیا بیتےگی اور شاید اسی لیے تم نے یہ کھیل کھیلا ہو۔ اس بات نے میرے مردانہ وقار کو سخت ٹھیس پہنچائی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں آئندہ تم سے کبھی نہیں ملوں گا۔

    کاش میں اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا۔ کاش تم مجھے اس پر قائم رہنے دیتیں۔ لیکن اس رات ریڈیو اسٹیشن پر تم کس قدر مختلف تھیں۔ میں ویٹنگ روم میں بیٹھا اپنی تقریر پر آخری نظر ڈال رہا تھا۔ میں نے تمہیں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تم میرے بالکل قریب آ گئیں اور بڑے تپاک سے سلام کرکے میرے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔ میں تمہارے رویے میں اس تبدیلی پر سخت متعجب ہوا۔ کس قدر بے تکلفی سے گھل مل کر باتیں کیں اس رات تم نے! ریڈیو والے تمہاری خوشامد میں لگے ہوئے تھے۔ لیکن تم نے ان کو ذرا بھی منہ نہیں لگایا۔ شاید اس دفعہ تم انہیں گرانے کی خاطر مجھے چڑھا رہی تھیں۔

    پھر تقدیر نے اپنی چال چلی اور ہم دونوں کو ایک ہی راستے پر ڈال دیا۔ ہماری تقرری ایک ہی ہسپتال میں ہو گئی اور ہم ساتھ ہی بیٹھنے لگے۔ پتہ نہیں تمہارے اوپر اس کا کیا اثر ہوا۔ لیکن میں اس تبدیلی سے بہت خوش ہوا۔ میں نے سوچا اس طرح مجھے تمہارے تکبر اور تلون سے لڑنے کا موقع ملےگا اور شاید میں تم کو راہ پر لا سکوں۔ لیکن تم نے کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔ تم سارا دن میز پر نظر گاڑے مریضوں کے چارٹ بنایا کرتیں اور میں باوجود کوشش کے کچھ کام نہ کر سکتا۔ کئی بار ایسی صورت نکلی کہ ہم لوگ ذرا سا دھیان بٹاکر بات کر سکیں۔ لیکن تم نہایت ہوشیاری سے ٹال گئیں اور مجھے ذرا موقع نہ دیا۔ آخر تنگ آکر میں نے زیادہ تر باہر رہنا شروع کر دیا۔ کبھی مریضوں کے وارڈ میں کبھی لیبوریٹری میں کبھی دوسرے ڈاکٹروں کے پاس۔ دوچار دن تو تم نے بظاہر اس تبدیلی پر توجہ نہیں کی۔ لیکن آخر شاید تم سے بھی ضبط نہ ہو سکا اور تم نے دبی زبان سے شکایت کی کہ میں سارا دن غائب رہتا ہوں اور تم اکیلی گھبرایا کرتی ہو اور میرے یہ کہنے پر کہ میں کمرے میں رہ کر بھی تو تمہاری دلجوئی کا باعث نہیں ہوتا۔ تم نے گویا شکست مانی اور اقرار کیا کہ ہم لوگوں کو کام کے ساتھ ساتھ آرام بھی جاری رکھنا چاہیے۔ تم نے خود کہا کہ اس طرح کام ہلکا ہو جاتا ہے اور دماغ کا زنگ چھٹتا رہتا ہے۔

    اس طرح ہم باتیں کرنے لگے۔ ہسپتال، مریض، ڈاکٹر، سیاست، ادب، فلسفہ، نفسیات اور موسیقی سے گزر کر موضوع کا رخ ذاتیات کی طرف ہوا۔ تعلیم، گزشتہ زندگی، ذمہ داریاں، ذاتی پسند وغیرہ زیربحث آنے لگے۔ پھر میں نے تمہاری نارنگیاں کھانی شروع کیں اور تم میرے تھرمس سے چائے پینے لگیں۔ اب تمہارے ہونٹوں کی مسکراہٹ پر غمی کی تہہ سی کھیلنے لگی۔ رفتہ رفتہ ہم بہت بات کرنے لگے۔ ہم دونوں ہی باتونی تھے، جب بھی وقت ملتا تم میری میز کے قریب والی آرام کرسی پر بیٹھ جاتیں اور ہم باتوں کے طوفان میں بہنے لگتے اور آخر ایک دن باتوں باتوں میں تم نے اقرار کیا کہ تمہیں میری باتیں پسند ہیں اور جس دن میں غیرحاضر رہتا ہوں تمہارا جی نہیں لگتا۔

    لیکن اتنی قریب رہ کر بھی تم فاصلہ پر رہیں۔ دوستی کا ذکر کرتے وقت تم ہمیشہ صحت مند کی صفت لگا دیتیں اور مجھے اس بات سے بےانتہا چڑ ہونے لگی۔ یہ دوستی کا کیا ڈھکوسلا ہے، میں سوچتا، تم کیوں نہیں اقرار کر لیتیں کہ تم عورت ہو میں مرد ہوں اور ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ پھر ہمارے راستے میں کیا ہے؟ دوستی کی یہ اکیڈیمک صورت بالکل پسند نہ تھی۔ لیکن میں اس امید پر کہ رفتہ رفتہ تمہارے سینے کا دل بھی میری طرح گوشت پوست ہو جائےگا، دوستی کی اسی شکل کو نبھاتا رہا۔

    لیکن کب تک؟ آخر تنگ آکر ایک دن میں نے تمہیں چھیڑ دیا۔ میں نے باتوں باتوں میں اپنی دوستی کو فلرٹیشن سے تعبیر کیا تو تم تنک گئیں اور بولیں کہ ہماری دوستی جنس سے بالاتر خالص دوستی ہے۔ میں نے کہا کہ محترمہ ہم کب تک اس طرح ایک دوسرے کو فریب دیتے رہیں گے۔ گلاب کو کچھ بھی نام دیجیے، گلاب ہی رہےگا۔ یقین کیجیے کہ ہمارے آپ کے تعلقات فلرٹیشن کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم دونوں کے تحت الشعور میں صرف ایک جذبہ کارفرما ہے اور وہ ہے ایک مرد اور ایک عورت کی باہمی کشش۔ میری اس جرأت رندانہ سے تمہاری جبین پرشکن ہو گئی اور میں نے بات ٹال کر موضوع بدل دیا۔

    لیکن میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اگر ہماری دوستی خالصاً صحت مند تھی تو تم کو شلیا، بملا اور شمع سے کیوں کھٹکتی تھیں۔ آج میں سوچتا ہوں کہ میں نے تمہاری خاطر ان بے چاریوں کو کتنا دکھ پہنچایا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگتا ہے۔ آخر کسی طرح وہ تم سے کم نہیں۔ وہ بھی تمہاری طرح مجھے پسند کرتی تھیں لیکن ان کے پاس اس پسند کے لیے کوئی اکیڈیمک نام نہیں تھا۔ وہ میرے جذبات سے کھیلنا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ سیدھی سادی نارمل لڑکیاں تھیں جو مجھ میں مرد دیکھتی تھیں اور مرد ہی پسند کرتی تھیں۔

    اور پہلے تو تم بھی کوشلیا کی بڑی مداح تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہیں نے اس کی تعریفیں کر کرکے میرے دل میں اس کے لیے جگہ پیدا کی۔ لیکن جب ایک دن تمہیں منیجر خان نے بتایا کہ چمسفورڈ کلب میں میں کوشلیا کے ساتھ رہا تھا تو اسی دن سے کوشلیا کے متعلق تمہاری رائے بدل گئی۔ تم اس کے زور سے بولنے کا مذاق اڑانے لگیں۔ اس کے رنگوں کا بھونڈاپن تمہیں کھٹکنے لگا اور تو اور اس کی کالج کی زندگی کی روایات بھی تم تک پہنچنے لگیں۔ جب بھی تمہیں معلوم ہوتا کہ میں اور کوشلیا کہیں ساتھ دیکھے گئے، تمہارے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ اس وقت تم کس قدر مختلف نظر آتیں۔ تمہارے جذبات سے، تمہارے آبنوسی چہرے پر احساسات کی لکیریں ابھر آتیں اور یہ بات میری بہت ہمت افزائی کرتی۔ میں سوچتا کہ تمہارے سینے میں بھی ضرور دل ہے اور وہ ضرور میرے لیے دھڑکتا ہے۔ ورنہ کوشلیا کے لیے یہ جلن کیوں ہوتی۔ تم اس بات سے اثر ہی کیوں لیتیں۔ ایک دن تم کوشلیا اور کپور کے Scandal کی بات مزے لے لے کر مجھے سنا رہی تھیں اور میں اس سے کوئی اثر لینے کے بجائے لطف اندوز ہوتا رہا۔ اس دن تم کس قدر مایوس ہوگئی تھیں۔ میں بچہ تو نہیں تھا۔ تمہاری گفتگو کا مقصد اس کا ردعمل سمجھتا تھا۔ میں جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن تم خود گھبراکر تہذیب، شرافت اور اخلاق سے مزین یہ صحت مند دوستی کا نقاب اتار پھینکوگی اور اپنی اصلی صورت میں میرے سامنے آجاؤگی اور اپنی دلآویز آغوش میرے لیے وا کروگی۔

    سب سے مزے کی بات تو یہ تھی کہ میرے لیے تم بملا سے لڑ بیٹھیں۔ وہ غریب تم پر جان دیتی تھی۔ میرے سامنے اس نے بارہا تمہاری شان میں قصیدے پڑھے۔ وہ جانتی تھی کہ میرے دل میں تمہارے لیے کیا جذبات ہیں اور ان کا احترام کرتی تھی۔ بملا کی شرافت کی تو تم بھی قائل تھیں۔ کشمیر کی شوخ بیٹی پہاڑوں کی برفانی ہواؤں کی طرح آزاد طبیعت کی مالک تھی جو دل میں سوچتی، زبان پر لاتی، صاف مجھ سے محبت کا اقرار کرتی تھی۔ لیکن کبھی اس نےتمہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کہتی تھی کہ وہ مجھے اس وقت سے پسند کرتی ہے جب میں ریڈیکل ڈیموکریٹک کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور گیا تھا۔ میری آتشیں تقریر اور اس کے دل میں دہکتے ہوئے لاوے کا درجہ حرارت ایک ہی تھا اور اسی دن سےمیری پرستش کرنے لگی تھی۔ لیکن جب میں اس سے ملا تو تم مجھ پر چھا چکی تھیں۔ راجن کو جب اس مثلث کا پتہ چلا تو وہ حیران رہ گیا۔ کہنے لگا کہ تم نے بملا کو قابو میں نہیں کیا ہے شیرنی کو پالتو بنا لیا ہے۔ اس پر سارا لاہور فدا تھا، یہ عورت نہ تھی شعلہ تھی، جدھر بھڑکتی دوچار جلا دیتی۔ سمجھ میں نہیں آتا تم میں کیا ہے۔ جو یہ تم پر ریجھ گئی۔

    ایک رات ہم کئی دوست عمر خیام میں کھانا کھا رہے تھے۔ بملابھی تھی۔ تمہارا ذکر نکل آیا تو نہ جانے کون مجھ سےہمدردی میں کہنے لگا کہ میں بہت بدنصیب تھا۔ مطلب یہ تھا کہ تم کسی پروگرام میں میرے ساتھ نہیں ہوتیں۔ بملا بولی کہ ان کی بدنصیبی جنگل کی آگ کی طرح ہے جو کسی کو جلاکر ٹھنڈی ہو جانے کے بجائے یکے بعد دیگرے قطعات کے قطعات جلاتی چلی جاتی ہے۔ جانے کتنے معصوم دل ان کی بدنصیبی کا ماتم کر رہے ہیں، لیکن بے بس ہیں۔ اس رات میں جھنجھلا اٹھا۔ مجھے تمہارے اوپر سخت غصہ آیا، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ میرا تکیہ آنسوؤں سے تر تھا۔

    دوسرے دن ہی میں بملا کے ہاں گیا۔ وہ مجھے اداس دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔ بولی، اگر تمہیں میری وجہ سے دکھ پہنچا ہے تو مجھے افسوس ہے لیکن میں تمہیں یوں برباد ہوتے کب تک دیکھوں؟ کسی کو کیا حق ہے تمہارے جذبات سے کھیلنے کا، جب وہ تمہارے ساتھ آؤٹنگ کے لیے جانا تک پسند نہیں کرتی۔ پھر میں نے وہ تمام بہانے دہرائے جو میں تمہاری زبان سے سننے کا عادی تھا۔ اس پر بملا زور زور سے ہنسنے لگی۔ ایک تلخ ہنسی، زہر میں ڈوبی ہوئی اور بولی، ’’تم نے کتنی دنیا دیکھی ہے۔ پھر بھی کتنے بھولے ہو۔ آج شام کو ہمارے ساتھ شمی کے ہاں چلو، پھر میں تمہیں بتاؤں گی کہ دنیا کیا ہے۔‘‘

    شام کو ہم دونوں ویسٹرن کورٹ پہنچے۔ شمی ہماری ہم جماعت رہی تھی۔ کہنے لگی آئیے مسٹر عاشق (وہ مجھے مذاق میں مسٹر عاشق کہتی تھی) ٹھیک وقت پر آئے۔ ذرا دیر کرتے تو گئے تھے کام سے۔ پھر ہم چائے پینے لگے۔ چند ہی منٹ گزرے تھے کہ اس نے مجھے کھڑکی کے پاس بلایا۔ خبر ہے کہ میں نے کیا دیکھا؟ تم میجر خان کی موٹر میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ میرے اوپر جیسے بجلی گر پڑی۔ کاٹو تو خون نہ تھا بدن میں۔ خان نے اتر کر دروازہ کھولا۔ تم اس کے ہاتھ کا سہارا لے کرنیچے اتریں اور ہاتھ میں ہاتھ دیے سیڑھیوں پر چڑھنے لگیں۔ میں واپس آکر بیٹھ گیا اور باوجود کوشش کے اپنے دل کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ بملا نے بتلایا کہ تم روز شام کو میجر خان کے ساتھ یہاں آتی ہو اور یہاں سے روشن آرا کلب جاتی ہو۔ اس نے کہا کہ آج ہم دونوں شمی کی طرف سے اسی کلب میں مدعو ہیں۔ اس رات میں نے دیکھا کہ تم کس طرح گلاس سے گلاس ڈبنائڈر پی رہی تھیں۔ تمہاری زندگی کا یہ پہلو میرے لیے بالکل نیا تھا اور اس نے میرے تخیلات کے گھروندے کو آن کی آن میں مٹی میں ملا دیا۔ دہری زندگی کیا ہوگی ہے۔ میں نے کتابوں میں تو پڑھا تھا لیکن اس سے دوچار کبھی نہ ہوا تھا۔ آج دہری زندگی کی زندہ مثال میرے سامنے تھی۔ میرے جذبات اور احساسات تمہاری دو زندگیوں کی چکی میں پس رہے تھے۔ اس وقت مجھ پر جو گزر ی اس کی شدت کا مجھے آج تک اندازہ ہے، لیکن اسے تسلیم کرنے کی سکت آج بھی نہیں۔ میں نے زندگی میں ایسی شکست کبھی نہ کھائی تھی اور آج اپنی آنکھوں سے اپنی شکست کا ڈھنڈورا پٹتا دیکھ رہا تھا۔ بملا اور شمی کو میری حالت کا اندازہ تھا۔ انھوں نے دوبارہ اس موضوع کو نہیں چھیڑا اور مجھے کھانے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن میرا دل بہت بےقابو ہو رہا تھا۔ میں نے ان سے اجازت لی اور تنہا نکل کھڑا ہوا۔ تھوڑی دور جاکر اچانک میرا رخ شمشاد منزل کی طرف ہو گیا۔

    باہر لان ہی پر مجھے شمع مل گئی۔ وہ سفید براق کپڑوں میں ملبوس فردوس کی حور معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں چنبیلی کے پھول تھے۔ اس نے قریب آتے ہی وہ پھول میرے اوپر برسا دیے اور اپنی عادت کے مطابق مذاق کرنے لگی۔ پھر اچانک مجھے سنجیدہ دیکھ کر وہ خاموش اور سنجیدہ ہو گئی اور میری پریشانی کا باعث پوچھنے لگی۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ میں اس کے ہاتھوں مار کھاکر آیا ہوں جس کے باعث ہمیشہ تمھیں نظرانداز کرتا رہا۔ میں نے کہا، ’’شمع میری طبیعت بہت خراب ہے، ایک پیالہ کافی پلواؤ۔‘‘

    ہم جاکر لان کے اس سرے پر بیٹھ گئے جہاں چاندنی پوری آب و تاب سے نور برسا رہی تھی۔ اتفاق سے میں بھی سفید قمیص اور سفید پتلون پہنے ہوئے تھا۔ شمع کہنے لگی، ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ چاند کی ندی میں سیماب کی دو مچھلیاں تیر رہی ہیں۔ میں نے کہا، شمع اس وقت شاعری مت کرو۔ وہ بولی فلسفیوں کی صحبت میں رہتے رہتے شاعری سے بھی نفرت ہو گئی۔ یہ تمہاری طرف اشارہ تھا۔ میرے دل پر شدید چوٹ لگی۔ میں نے کہا، خدارا، شمع اس وقت جلی کٹی باتیں نہ کرو، میرا دل بہت غمگین ہے۔ ہو سکے تو ایک گانا سناؤ۔ شمع میرے قریب آ گئی اور دھیمے دھیمے سروں میں ایک درد بھرا گیت گانے لگی۔ یاد نہیں کیا بول تھے۔ اس گیت کے لیکن اسے سن کر مجھے تسلی ہوئی اور میرا دل ہلکا ہو گیا۔ لیکن گاتے گاتے شمع کی آواز بھرانے لگی اور تھوڑی دیر میں اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور وہ مجھ سے لپٹ کر سسک سسک کر رونے لگی۔

    ذرا دیر بعد ہم اٹھ کر اوپر چلے گئے اور کافی پینے لگے۔ اس وقت ذرا دل ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے تمہارے متعلق سوچنا شروع کیا۔ تم کس قدر مختلف تھیں کوشلیا، بملا، شمی اور شمع سے۔ تم اندر سے کچھ اور باہر سے کچھ۔ یہ اندر باہر ایک سی۔ تم نے اپنے اوپر بلند آہنگ گفتگو اور عظیم فلسفیانہ نظریوں کا ملمع چڑھا کر میری آنکھوں میں چکاچوند پیدا کر دی۔ انھوں نے اپنا دل نکال کر میرے سامنے رکھ دیا اور میں ان کی قدر نہ کر سکا۔ اس وقت شمع کے سامنے میں بڑی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ اس غریب نے برسوں میری خاموش پرستش کی تھی۔ اس کی دیوانگی ضرب المثل بن گئی تھی۔ میری خاطر اس نے سوسائٹی چھوڑ کرگوشہ نشینی اختیار کی۔ رنگین اور ریشمی کپڑے پہننا چھوڑ کر سادہ اور سفید لباس پہننے لگی۔ بس گیت سیکھا کرتی اور گیت گایا کرتی۔ میں اکثر اس کے ہاں جاتا۔ جب بھی جاتا ہمہ تن محبت بن جاتی۔ گیت گاتی اور گاتے گاتے اُداس ہو جاتی۔ پھر کہتی چلیے Ridge پر چلیں اور ہم سڑک پار کرکے اجیت گڑھ کے ٹیلے پر چڑھنے لگتے اور اس کی ویران اور سنسان سڑکوں پر گھومتے رہتے۔۔۔ دیوانوں کی طرح بےمقصد بے ارادہ۔ اس طرح میں ان جراحتوں کی چارہ گری کرتا تھا جو تمہاری عجیب حرکتیں اور تمہارے نت نئے فلسفیانہ اصول میرے دل پر لگاتے تھے اور جب رات گزر جاتی تھی اور صبح آتی تھی تو یہ تمہاری اصلاح کی امید کا نیا سورج میری زندگی کے افق پر طلوع ہوتا تھا اورمیں پچھلے زخم بھول کر مستقبل کی یاد میں کھو جاتا تھا۔

    لیکن کلب والی رات کے بعد جو صبح ہوئی اس میں ایسا کوئی سورج طلوع نہیں ہوا اور میں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس ڈھونگ کو ختم کر دینے کافیصلہ کرلیا۔ پھر بھی میں نے تم سےاس انکشاف کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔

    رفتہ رفتہ میرے تمہارے تعلقات رسمی ہونے لگے تھے۔ میری گفتگو سے وہ بے تکلفی، وہ شدت اور وہ عقیدت مفقود ہونے لگی جو تم مجھ سے بطور خراج محبت وصول کرتی تھیں۔ تم نے اس تبدیلی کو محسوس کیا اور اس کی بابت دریافت کیا۔ لیکن میں تمہیں یقین دلاتا رہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔ میں تم سے ملتا بھی، باتیں بھی کرتا۔ ہم ساتھ کھاتے پیتے بھی، اٹھتے بیٹھتے بھی، لیکن یہ سب رسمی تھا۔ محض رواداری کی خاطر۔

    وقت بیتتے کیا دیر لگتی ہے اور پھر وقت بھی کیسا خونی، طوفانی، حشرانگیز! ملک کی تقسیم ہوگئی اور ہونی کو انہونی کرنے کی خاطر کیسی کیسی درندگی اور وحشت کے کھیل کھیلے گئے، گنگا اور جمنا میں اتنا پانی نہ بہا ہوگا جتنا انسانی خون گنگا جمنا کی سرزمین میں بہہ گیا۔ لاکھوں کی آبادی ادھر سے ادھر ہو گئی۔ دلی کا منظر تحلیل ہوکر کراچی میں تبدیل ہو گیا اور ایک نئی دنیا نئی امنگوں کو اپنے دامن میں لیے مستقبل کے افق پر جگمگانے لگی۔

    دلی چلی گئی لیکن دلی کی یاد دل سےنہ جا سکی۔ حالات سدھرے تو جی میں آئی کہ یادوں کے اس تاج محل پر آن کے دو پھول چڑھا آؤں اور میں پھر دلی آ گیا۔ ہائے یہ میر، مرزا داغ کی دلی نہیں رہی۔ شوبھا سنگھ اور سجن سنگھ کی دلی نہیں رہی، لیکن کیا کروں کہ یہاں کی گلی گلی میں اپنے افسانوں کے پلاٹ بکھرے ہوئے ہیں۔ یہاں کی ہوا میں دل نشیں یادیں تیر رہی ہیں۔ چپہ چپہ پر میرے ماضی کی کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔

    دو برس! ذرا سوچو کہ دو برس کا عرصہ کتنا طویل ہوتا ہے۔ پھر بھی کتنا مختصر! آدمی بدلنا شروع کر دے تو اس میں کیا سے کیا ہو جائے، جیسے صدیاں بیت گئی ہوں اور وہ کٹنے کو یوں کٹ جائے جیسے ایک پل۔ ان دوبرسوں میں مجھ پر کیا بیتی، تم نے بھول کر بھی نہ پوچھا۔ لیکن میں تمہاری پل پل کی خبر لیتا رہا۔ ہاں اس بےتعلقی اور کشیدگی کے باوجود مجھے تمہاری فکر تھی۔

    اور تمہیں بھی میرے دلی آنے کی خبر مل ہی گئی اور آج صبح نئی دلی کے اس ہوٹل میں تم مجھ سے ملنے آ گئیں۔ کتنی گرمی تھی آج تمہاری گفتگو میں۔ کتنی چمک ہے تمہاری آنکھوں میں، کیا نکھار ہے تمہارے تبسم میں۔ جیسے تم وفا کے چشمے میں غوطہ لگا آئی ہو۔ اب کیوں مجھ سے ملنے میں اندیشہ رسوائی نہیں؟ کیوں تمہیں بدنامی کا ڈر نہیں ہے۔ اب بھی تو میں وہی ہوں۔ گوشت پوست کا انسان، ایک مرد! ارے، تم نے تو بےقرار ہوکر میرے گلے میں باہیں ڈال دیں۔ یہ بات صحت مند دوستی کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ بڑی غیرصحت مندنشانی ہے، شرافت اور عزت کے لیے مہلک۔

    میری جان بڑی دیر کر دی تم نے! اب تو میں بھی دہری زندگی گزارتا ہوں، بالکل تمہاری طرح۔ دراصل اب ہی تو میں تمہارے لائق ہوا ہوں۔ آؤ ایک پیار دو، پھر ہم چل کر چائے پئیں گے۔

    مأخذ:

    کلیات عزیز احمد (Pg. 521)

    • مصنف: عزیز احمد
      • ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے