aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دلہن کی ڈائری

سدرشن

دلہن کی ڈائری

سدرشن

MORE BYسدرشن

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک ایسی نئی نویلی دلہن کی کہانی ہے، جو سسرال جانے کے بعد شروع شروع میں تو ہر کسی کی بہت تعریف کرتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اسے ہر کسی میں کمیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ حد تو تب ہو جاتی ہے جب وہ اپنے شوہر اور جیٹھانی پر شک کرنے لگتی ہے۔ لیکن جب اسے حقیقت کا پتہ چلتا ہے تو اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔‘‘

    ۳ ستمبر ۱۹۲۱ء
    پرماتما کا لاکھ لاکھ شکر ہے، جو اس قدر عمدہ گھر ملا۔ گھر کاہے کو ہے۔ اچھا خاصہ محل ہے۔ کسی شے کی کمی نہیں، سبھی کچھ ہے ، سچ تو یہ ہے کہ میری قسمت کھل گئی ہے۔ مجھے سورگ مل گیا ہے۔ میں جو کچھ چاہتی تھی۔ بیاہ سے پہلے میں نے پرماتما سے ہاتھ باندھ کر جس جس چیز کے لئے دعا کی تھی۔ مجھے اس سے بھی زیادہ مل گیا۔ گھر سے وداع ہوتے وقت جو پریشانی، جو فکر، جو اضطراب تھا، اب نام کو بھی نہیں۔ میری ساس بہت ہنس مکھ ہیں۔ ہمیشہ چہرہ شگفتہ رہتا ہے۔ مجھے دیکھ کر بےحد خوش ہوئیں اور بولیں۔ یہ تو بڑی بہو سے بھی خوبصورت ہے۔ دیکھ کر بھوک مٹتی ہے۔ دن میں کئی کئی مرتبہ آ کر دریافت کرتی ہیں۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہو مانگ لینا۔ شرم نہ کرنا۔ یہ تیرا گھر ہے۔ کھانا کھانے کے وقت سامنے آ بیٹھتی ہیں اور بہت اصرار سے کھلاتی ہیں۔ دوپہر کو باجہ لا کر سامنے رکھ دیتی ہیں اور کہتی ہیں بجا۔ لاکھ انکار کرتی ہوں لیکن کون سنتا ہے؟ ہار کر بجانا پڑتا ہے۔ اس وقت ان کا چہرہ خوشی سے منور ہو جاتا ہے۔ اتنی محبت، اتنی عزت اپنے گھر میں بھی نہ تھی۔ سسر جی بھولے ناتھ ہیں۔ ساس جو چاہیں، کریں۔ کیا مجال جو کسی بات میں دخل دے جائیں؟ دونوں وقت کھانا کھانے آتے ہیں اور پھر مردانہ میں چلے جاتےہیں۔ البتہ اس قدر دونوں وقت پوچھ لیتے ہیں۔ چھوٹی بہو اداس تو نہیں ہو گئی۔ ساس جی مسکرا کر جواب دیتی ہیں تم اپنا حقہ پیو۔ تمہاری چھوٹی بہو کے لئے میں کافی ہوں۔ جٹھیانی جی بھی بہت خوش مزاج ہیں۔ چند ہی دن میں مجھ سے شیر و شکر کی طرح گھل مل گئی ہیں۔ سارے سارے دن پاس بیٹھی رہتی ہیں۔ رات کو بھی دس بجے سے پہلے پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ جیٹھ جی بمبئی میں کہیں ملازم ہیں۔ پانچ سو کے قریب تنخواہ پاتے ہیں۔

    باقی رہ گئے وہ۔ ان کے متعلق کیا لکھوں۔ نہایت خوش مذاق آدمی ہیں۔ بات بات میں ہنستے ہیں اور ہنساتے ہیں۔ ایسا ہنس مکھ، ایسا شریف مزاج ایسا بذلہ سنج آدمی میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔ جیسے مسکراتی ہوئی تصویر ہو جو کبھی غمگین نہیں ہوتی۔ مصور نے ایک بار مسکراتے ہوئے بنا دیا۔ اب سدا مسکرا رہی ہے۔ یہی حالت ان کی ہے۔ اپنی بھابی سے بہت پیار ہے۔ آتے ہیں تو دروازے ہی سے بھابی، بھابی چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کی ایک ایک بات کی تعریف کرتے ہیں کہتے۔ ایسی بھابی شہر بھر میں کسی کی نہ ہوگی۔ بھابی بھی ان کو بہت چاہتی ہیں۔ ان کی ذرا ذرا سی بات کا خیال رکھتی ہیں۔ ان کی یہ پاکیزہ محبت دیکھ کر میں کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتی ہوں۔ یہ بھابی دیور کی محبت نہیں۔ ماں بیٹے کا پیار ہے۔ یہ دنیوی رشتہ نہیں۔ بہن بھائی کا تعلق ہے۔ کیسا پاکیزہ! کیسا اونچے درجہ کا! کیسا من کو موہ لینے والا۔

    ۲۷ ستمبر ۱۹۲۱ء
    آج مجھے سسرال میں آئے ہوئے پورا ایک مہینہ گزر گیا۔ اس دوران میں ایک مرتبہ بھی محسوس نہیں ہوا کہ میں کسی غیرجگہ میں ہوں۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اپنے گھر میں بیٹھی ہوں۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ میری قدر و قیمت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ اب میری بھی اپنی الگ ہستی ہے۔ اس کے علاوہ میری دنیا میں ایک نئے وجود کا اضافہ ہوا ہے اور یہ وجود چند ہی دنوں میں میری ہستی کا ایک جز و بن گیا ہے۔ وہ مجھے کتنا چاہتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر ان کی کیا حالت ہوتی ہے؟ مجھے دیکھ کر شرارت سے کس طرح مسکراتے ہیں؟ گھر کا کوئی آدمی آ جائے۔ تو کس طرح بھولے بھالے بن کر دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں؟ یہ باتیں ایسی نہیں کہ ان پر غور کروں اور سینہ میں مسرت کی ولولہ انگیز گدگدی نہ ہو نے لگے۔ الگ جا بیٹھوں جب بھی ادھر سے گزرنے کا بہانہ بنا لیتے ہیں۔اور ظاہر یہ کرتے ہیں کہ ان کا میری طرف دھیان ہی نہیں ہے حالانکہ ان کی واحد آرزو یہ ہوتی ہے کہ کسی صورت آنکھیں چار ہو جائیں۔ خود میری یہ حالت ہے کہ چاہتی ہوں، پاس ہی بیٹھے رہیں اور باتیں کرتے رہیں۔ میں تو یہ بھی نہیں چاہتی کہ وہ دفتر بھی جائیں۔ ان کی غیر حاضری میں دل اداس سا ہو جاتا ہے۔ جب ان کے آنے کا وقت ہوتا ہے تو نگاہیں بار بار دروازے کی طرف اٹھنے لگتی ہیں۔ جانتی ہوں گھر کے لوگ کنکھیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ضرور دل میں ہنستے ہوں گے۔ شاید سوچتے ہوں، کیسی بےحیا ہے۔ ذرا خیال نہیں کرتی۔ لیکن کیا کروں دل نہیں مانتا۔ کبھی کبھی ایسا شبہ ہوتا ہے، گویا ان کو برسوں سے جانتی ہوں۔ گویا ہم دونوں ہمیشہ ایک ساتھ رہے ہیں۔ کبھی ایک دن کے لئے بھی علیحدہ نہیں ہوئے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے، ’’پرکاش! تم نے مجھ پر جادو تو نہیں کر دیا۔ جی چاہتا ہے۔ دن رات تمہارے پاس ہی بیٹھا رہوں۔ جی چاہتا ہے ہر وقت تمہیں ہی دیکھتا رہوں۔‘‘ میرا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔ کیا جواب دیتی، سر جھکا کر چپکی ہو رہی۔ پھر آہستہ سے میرا ہاتھ پکڑ کر بولے، ’’تمہیں یہاں کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ صاف صاف کہہ دو۔‘‘میں نے سر اٹھا کر جواب دیا، ’’مجھے ذرا بھی تکلیف نہیں۔‘‘ اس وقت میری آنکھیں ان کی آنکھوں سے مل گئیں۔ کیسے شرارتی ہیں! اتنی سی بات پر مسکرانے لگے۔ میں شرما گئی اور ہاتھ چھڑا کر ایک طرف ہٹ گئی۔

    مگر انہوں نے اپنا ہاتھ پھر آگے بڑھا دیا اور بولے، ’’میم صاحبہ شیک ہینڈ کرو۔‘‘

    میں نے ان کا ہاتھ پرے جھٹک دیا اور منہ پھیر لیا۔

    اس پر نہایت سنجیدگی سے، جیسے لیکچر دے رہے ہوں، بلند آواز میں بولے، ’’صاحبان! آپ اس امر کے گواہ ہیں کہ ہماری میم صاحبہ نے اس جگہ، روز روشن میں ہماری توہین کی ہے اور ہمارا نہایت ہی نازک ہاتھ دکھا دیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر عورتوں کی آزادی پر بندشیں عائد نہ کی گئیں تو ہندوستان کے معزز شوہروں کو سخت مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑےگا۔‘‘

    اتنے میں باہر کسی کے پاؤں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے گھونگھٹ منہ پر کھینچ لیا اور دروازہ کی طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی۔یہ ان کی بھابی تھیں۔ کھانس کر کمرہ میں آ گئیں اور مسکرا کر بولیں، ’’کیوں کنہیا! کیا ہو رہا ہے؟ اور یہ تیرا چہرہ سرخ کیوں ہو رہا ہے؟‘‘

    میرا خیال تھا وہ شرم سے سر نہ اٹھا سکیں گے۔ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا۔ مگر میرا خیال غلط نکلا انہوں نے تڑسے جواب دیا، ’’اس عورت نے تھپڑ مارا ہے؟‘‘

    بھابی ہنس پڑیں مگر میرا تو ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ لوٹی جاتی تھی۔ میں نے دوپٹہ کا انچل منہ میں ٹھونس لیا۔ مگر ہنسی رکتی نہ تھی۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کر کے بھائی سے پوچھا، ’’کیوں بھابی! اس غریب کو کچھ کھانے کو بھی ملتا ہے یا نہیں؟ میرا خیال ہے نہیں ملتا۔ جبھی تو کپڑے کھاتی رہتی ہے۔ دیکھ لو آدھا دوپٹہ کھا چکی ہے۔‘‘

    بھابی: ’’اب تو سامنے بیٹھ کر کھلایا کر۔‘‘

    وہ: ’’افسوس! ہماری میم صاحبہ کی کوئی پروا نہیں کرتا۔‘‘

    بھابی: ’’اس کام کے لئے اکیلا تو کافی ہے۔‘‘

    وہ: ’’نہ بھابی مجھ سے یہ کام نہ ہو سکےگا۔ کون کام بھی کرے تھپڑ بھی کھائے۔‘‘

    بھابی: ’’تو اس کے سوائے اور کسی قابل ہے ہی نہیں۔ یہ کام بھی نہ کرے گا تو اور کیا کرےگا؟‘‘

    وہ: ’’اس عورت سے باجا سیکھا کروں گا۔ کیوں پروفیسر صاحب! آپ کو ہمیں شاگرد بنانے میں کسی قسم کا اعتراض تو نہیں ہے؟

    میں ہنستی بھی تھی اور حیران بھی تھی کہ کیسے آدمی ہیں۔ ذرا نہیں شرماتے۔ بھابی نے کہا، ’’تو گانا کیا خاک سیکھے گا۔ تیرے نصیبوں میں یہ شے نہیں۔‘‘

    وہ: ’’واہ نصیبوں میں کیوں نہیں؟ کیا یہ ہماری بیوی نہیں ہے؟ جب چاہیں باجہ بجنے لگے، جب چاہیں ہمارا کمرہ شیریں نغموں سے گونجنے لگے۔ اب تم جانو۔ ہم ٹھہرے بڑے آدمی۔ ہمیں خود اس سرد روی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہ بیٹھ کر گائے گی۔ ہم آرام کرسی پر لیٹ کر سنیں گے۔ کیوں بھابی!

    اس فقرہ میں کیسی محبت تھی، کیسی یگانگت۔ میرے جسم میں مسرت کی بجلی سی دوڑ گئی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے دنیا کی تمام خوشیاں میرے ہی لئے ہیں۔ جیسے میرے چاروں طرف محبت کے پھول کھلے ہوئے ہیں۔

    ۱۳ نومبر ۱۹۲۱ء
    وائے نصیب! کیا سمجھا تھا، کیا ہو گیا؟ اس سے تو مر جانا ہی اچھا لیکن مجھے موت بھی نہیں آتی۔ جو اس مصیبت کی زندگی سے نجات ملے۔ جب دیکھو بھابی! جہاں دیکھو بھابی! آخر صبر کی بھی کوئی حد ہے۔ جی چاہتا ہے گھر کو آگ لگا کر کہیں نکل جاؤں۔ سکھ نہ ہوگا۔ مگر چھاتی پر کوئی مونگ دلنے والا بھی تو نہ ہوگا۔ مانگ کر کھا لوں گی۔ کسی اسکول میں لڑکیاں پڑھا کر گزارہ کر لوں گی۔ لیکن اس گھر میں نہ رہوں گی۔ میں بھی کیسی سادہ لوح ہوں۔ بھابی بھابی کہتے زبان تھکتی تھی۔ یہ خیال ہی نہ تھا کہ در پردہ میری سوت بنی ہوئی ہے۔ اس دن کیسی محنت اور محبت سے کھانا تیار کیا تھا۔ دو گھنٹے انتظار میں بیٹھی رہی۔ کھانے بیٹھے تو پوچھا کیسا بنا؟ میری تعریف تو کیا کرنا تھی۔ بھابی کا بکھان لے بیٹھے۔ بولے کھانا تو بھابی بناتی ہے۔ اس کے پکے ہوئے کھانے میں جو لذت جو حلاوت ہے، وہ مجھے اور کہیں نہیں ملتی۔ مجھے زہر چڑھ گیا۔ جی چاہتا تھا، سر دیوار کے ساتھ دے ماروں۔ تعریف کے دو کلمے کہہ دیتے، تو ان کا کیا بگڑ جاتا؟ میرا حوصلہ بڑھ جاتا۔ میں بھی سمجھتی، میری محنت کی داد دینے والا کوئی ہے لیکن نہیں مجھے جلاتے ہیں۔ مجھے جلانے میں انہیں مزہ ملتا ہے۔ کبھی بھابی کی چیز کی بھی مذمت کر دیں۔ پھر دیکھیں کیسا آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔ بولنے نہ دے۔ منہ بند کر دے۔ بات کرنے کی روادار نہ ہو۔ ایک میں ہوں، کہ جو کہتے ہیں سر جھکاکر سن لیتی ہوں۔ جبھی تو روز بروز شیر ہو جاتے ہیں۔

    پرسوں بھابی نے کہا، ’’پرکاش! لڑکے کے لئے ایک فراک سی دے۔ پہلے تو دل میں خیال آیا کہ کہہ دوں کہ مجھے فرصت نہیں۔ خود ہی نہ سی لو لیکن پھر سوچا، چلو سی دو۔ دو تین گھنٹے تک مشین چلاتی رہی جب تیار ہوا تو اعتراض شروع کر دئے۔ یہ کاٹ غلط ہے، یہ سلائی موٹی ہے۔ لیس ٹھیک نہیں لگی اور یہ پھل تھا میری تین گھنٹے کی محنت کا کوئی پوچھے کیا سلائی دے کر سلایا تھا جو اس قدر باریک باتیں دیکھنے چلی تھی۔ ان سے کہا تو انہوں نے بھی بھابی کی حمایت کی۔ بولے ٹھیک کہتی ہے خود بہت اچھا سیتی ہے۔ اس کے ہاتھ کے سلے ہوئے کپڑے دیکھو تو دنگ رہ جاؤ۔ کوئی قابل درزی بھی ایسی سلائی کر سکتا ہوگا۔ مجھے اس میں شبہ ہے ۔ جبھی اسے تمہارا سلا ہوا فراق پسند نہیں آیا۔ اب کوئی کام بتائے، تو صاف کہہ دوں گی۔ رانی تمہارے ہاتھوں میں مہندی نہیں لگی ہے۔ خود کرلو۔ کام بھی کروں، پھر تمہاری جلی کٹی بھی سنوں، اتنی روا داری مجھ میں نہیں ہے۔

    کل رات سنیما دیکھنے گئے۔ دو مقامات ایسے آئے، جہاں مضمون ذرا صاف نہ تھا۔ میری جو بدبختی آئی تو ان سے پوچھ بیٹھی۔ بس ان کو موقع مل گیا۔ لگے بھابی کی تعریف کرنے۔بھابی کبھی نہیں پوچھتی۔سارا مضمون خود بخود سمجھ لیتی ہے۔ نہایت ذہین ہے۔ سنیما کی باریک سے باریک باتوں کو بھی ایسا سمجھتی ہے کہ تم سے کیا کہوں۔ وہ تو کسی سنیما کمپنی کی ڈائریکٹر بن سکتی ہے۔ پرکاش! شاید تم اسے مبالغہ سمجھو لیکن یہ امر حقیقت ہے کہ بھابی کا مذاق ادبی بھی بہت بلند اور پاکیزہ ہے۔ یہ سننا تھا کہ میرے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ لیکن کیا کر سکتی تھی؟ باقی وقت جب تک بیٹھی رہی رویا کی۔ لیکن وہ مزےسے تصویریں دیکھتے رہے۔بھابی ایک آنسو بھی کرا دے تو ساری رات نیند نہ آئے۔ دس مرتبہ اٹھ کر دیکھیں سو گئی ہے یا نہیں۔ ایک میں ہوں کہ رو رو کر اندھی بھی ہو جاؤں جب بھی امید نہیں کہ اٹھ کر جھوٹوں دو میٹھے لفظ ہی کہہ دیں۔ انہیں باتوں نے تو میری زندگی کی خوشیاں برباد کر دی ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہوں گے۔ میں بالکل اندھیرے میں ہوں لیکن ان کا خیال غلط ہے۔ میری نگاہوں نے سب کچھ بھانپ لیا ہے۔ منہ سے نہ بولوں یہ اور بات ہے مگر سمجھتی سب کچھ ہوں۔

    ہائے افسوس! میرا گھر میری آنکھوں کے سامنے جل رہا ہے اور میں کچھ کر نہیں سکتی۔ انسانی بے بسی کی ایسی مثال کسی نے کم دیکھی ہوگی۔

    ۲۴ نومبر ۱۹۲۱ء
    میرا شبہ درست نکلا۔

    اب میرے لئے دنیا میں باقی کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے۔ میں کامل طور پر تباہ ہو گئی۔ میں نے غریب سے غریب اور کنگال سے کنگال عورتیں دیکھی ہیں۔ مگر مجھ سے وہ بھی خوش نصیب ہیں۔ ان کے پاس زیور نہیں ہیں۔ بیش قیمت کپڑے نہیں ہیں لیکن ان کے پاس دل کا قرار اور امن کی نیند تو ہے۔ میرے پاس وہ بھی نہیں۔ وہ پیٹ بھرنے کے لئے شب و روز محنت و مزدوری کرتی ہیں۔ اس کے باوجود بعض دفعہ انہیں فاقہ کشی کرنا پڑتی ہے۔ بعض ایسی بھی ہیں جن کے شوہر قمار بازی کی قبیح عادت میں گرفتار ہیں۔ بعض کو شراب کا چسکا ہے لیکن انہیں کم از کم اس قدر تسلی ہے کہ شوہر ہمارے اور محض ہمارے ہیں۔ ان پر کسی ودسری عورت کا حق نہیں۔ وہ کسی دوسری عورت کی خاطر ہم سے لڑنے کو تیار نہ ہوں گے۔ لیکن میری زندگی اس مسرت سے بھی محروم، میرا دل اس لذت سے بھی نا آشنا ہے۔ ہائے افسوس! میرے پاس سب کچھ ہے لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔

    وہ اب بھی بدستور سابق بات بات میں بھابی کا ذکر کرتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں بس گئی ہے۔ اس کے سوائے وہاں اور کسی کے لئے گنجائش ہی نہیں ہے۔ میں ان کے دل میں اسی طرح رہتی ہوں جیسے چند دن کے لئے کوئی مہمان آ جائے۔ صاحب خانہ اسے ٹھہرا لیتا ہے، اس کی خاطر تواضع بھی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہنستا کھیلتا بھی ہے لیکن دل میں ہمیشہ کڑھتا رہتا ہے کہ اب یہ چلا کیوں نہیں جاتا؟ آخر کب تک پڑا رہے گا؟ منہ سے کہے یا نہ کہے۔ چہرہ صاف کہہ دیتا ہے کہ اب یہ خوش نہیں ہے لیکن صاحب خانہ کی بیوی بعض وقت صاف صاف کہہ دیتی ہے۔ میں بھی اسی طرح کا بے بلایا مہمان ہوں۔ جسے کھانا کپڑا سبھی دیتے ہیں، عزت سے کوئی بھی نہیں دیکھتا۔ مائکے چلی جاؤں۔ نہ آنکھوں سے دیکھوں گی۔ نہ دل میں جلن ہوگی۔ گھر والے تو پہلے ہی بلا رہے ہیں لیکن ایک سہیلی نے رائے دی۔ یہ حماقت نہ کر بیٹھتا۔ نہیں بعد میں روئےگی۔ بات معقول ہے۔ میں نے روانگی کا ارادہ ترک کر دیا۔

    اب بھابی بھی سمجھ گئی ہے کہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔ وہ پہلے کا سا ارتباط نہیں رہا۔ اب مجھ سے کھنچی کھچی رہتی ہے۔ ایسے جیسے میں نے ان کو کوئی بہت بڑا نقصان پہچایا ہو۔ میری طرف جب کبھی دیکھتی ہے۔ قہر کی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ ماں جی بھی ناخوش رہتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے بھابی نے ان کے بھی کان بھر دیئے۔ ورنہ میں نے انہیں شکایت کا کبھی موقعہ نہیں دیا۔ شاید اگر میں ایک مرتبہ ان کے سامنے جا کر درد دل کا اظہار کردوں تو ان کا طرز عمل تبدیل ہو جائے لیکن کیوں؟ وہ مجھ سے کیوں نہ پوچھیں کہ تجھے کیا تکلیف ہے؟ یقیناً میری پیش قدمی میری کمزوری سمجھی جائےگی۔ میں انہیں دکھا دوں گی کہ میں تم میں سے کسی کی بھی پروا نہیں کرتی۔ تم مجھ سے ایک گزدور بھاگو۔ میں تم سے چار گز دور بھاگوں گی۔

    چار دن سے بیمار پڑے ہیں۔ روز ڈاکٹر آتا ہے لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ پرماتما کرے جلد تندرست ہو جائیں۔ میری دنیا انہیں کے دم سے قائم ہے۔ چار پائی پر پڑے دیکھتی ہوں تو کلیجہ کانپ جاتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے، جیسے مدت سے بیمار ہیں۔ ماں جی دن میں ایک دو مرتبہ آ کر دیکھ جاتی ہیں لیکن بھابی کبھی نہیں آئی۔ کیسی سنگ دل ہے۔ ایک ہی مکان میں رہتے ہیں۔ پھر بھی یہ بے پروائی!

    خیر مضائقہ نہیں۔

    ۲۷ نومبر۱۹۲۱ء
    کل بخار اور بھی تیز ہو گیا۔ سارے دن بے ہوش پڑے رہے۔ ایک مرتبہ بھی آنکھ نہ کھولی۔ میں پاس بیٹھی روتی رہی۔ ماں جی قریباً سارا دن میرے ہی کمرہ میں بیٹھی رہیں اور مجھے تسلی دیتی رہیں۔ لیکن میرے دل میں جانے کیا ہو رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا، جیسے کوئی جانور میرے کلیجہ کو پنجوں سے کرید رہا ہے۔ جیسے میرا دل اتھاہ تاریکی میں ڈوبا جا رہا ہے۔ جیسے دنیا میں میرے لئے یاس کے سوائے اور کچھ باقی نہیں رہ گیا۔

    ان کے زرد کمزور چہرہ کی طرف دیکھ کر ڈر لگتا تھا۔ آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آتے تھے۔ بار بار سوچتی تھی۔ کیا ہونے والا ہے؟ کبھی کبھی ایک ایسا ہولناک اور سیاہ تصور آ کر روبرو کھڑا ہو جاتا تھا کہ آنکھوں تلے اندھیرا چھا جاتا تھا اور در و دیوار گھومتے نظر آتے تھے۔ ماں جی نے مجھے اندوہگیں دیکھا تو ان کی ساری خفگی آن واحد میں دور ہو گئی۔ دیر تک مجھے گود میں لئے بیٹھی رہیں اور پیار کرتی رہیں۔ گویا میں چھوٹی سی لڑکی تھی جو ماں کی گود میں بیٹھی اس کی محبت سے کھیل رہی ہو۔ یہ محبت کتنی پاکیزہ تھی کتنی دل کی گہرائیوں سے نکلتی تھی۔ اسے لکھنا آسان نہیں۔ اسے کوئی مصور بھی بیان نہیں کر سکتا۔ اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مجھے بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ میری ساس نہیں ہے، ماں ہے۔ ایسی ساس کو خفگی کا موقعہ دینا میری حماقت تھی۔ کاش پہلے ہوش آ جاتا تو اتنے دن نہ جلتی، نہ جلاتی، لیکن بھابی نے کمرہ میں پاؤں بھی نہ رکھا۔ البتہ لڑکے کو ایک دو مرتبہ کمرہ میں بھیجا کہ دیکھ آ کیا حال ہے؟ ایسی سنگدلی بھی کس کام کی؟ وہ اسے اتنا چاہتے ہیں۔ ان بی بی کو پروا ہی نہیں ہے۔ شاید ڈرتی ہو کہ کمرہ میں چلی گئی تو کہیں خود بیمار نہ ہو جائے۔

    جب شام ہوئی تو اسے بیمار دیور کا خیال آیا لڑکے کو گود میں لئے ہوئے آ کر ان کے پلنگ کے پاس کھڑی ہو گئی اور بولی، ’’کیوں پرکاش! ماں جی کہتی ہیں۔ آج سارے دن ہوش نہیں آیا۔ اب کیا حال ہے؟ کچھ بخار ہلکا ہوا یا نہیں؟‘‘

    مجھے ایسا معلوم ہوا۔ جیسے پیٹ سے آگ کا ایک شعلہ اٹھ کر منہ کی طرف آ رہا ہے لیکن اسے دبا کر کہا، ’’ابھی تک تو ہلکا نہیں ہوا۔ ہو جائےگا۔‘‘

    بھابی نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا اور گھبرا گئی، بولی، ’’اتنا کمزور ہو گیا ہے؟ مجھے یہ خیال نہ تھا۔‘‘

    میں: (رکھائی سے) ’’بیمار ہو کر کمزور نہ ہو ں گے تو کیا موٹے ہو جائیں گے۔بخار اتر جائے، یہی غنیمت ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ کھڑی کب تک رہوگی؟‘‘

    بھابی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے لڑکے کو کرسی پر بٹھا دیا اور خود پلنگ پر جھک کر ان کو بغور دیکھنے لگی۔ معاً انہوں نے کروٹ بدلی اور بے ہوشی کے عالم میں کہا، ’’بھابی!‘‘

    بھابی نے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’کیوں گنھیا! میں تیرے پاس کھڑی ہوں۔‘‘

    انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔ بھابی کی طرف دیکھا اور کراہ کر بولے، ’’سر پھٹا جاتا ہے۔ بھابی! بڑی تکلیف ہے۔‘‘

    یہ کہہ کر انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔

    بھابی: ’’پرکاش سے کہوں، تیرا سر دبا دے؟‘‘

    وہ: (پھر آنکھیں کھول کر) تیرے ہاتھ نہیں کیا؟ جو تو پرکاش سے کہےگی۔ وہ بیچاری تو دن رات میرے پاس بیٹھی رہتی ہے۔ تجھ سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا تو جا اپنے کمرہ میں بیٹھ! ماں جی کہاں ہیں؟‘‘

    بھابی ان کے پلنگ پر بیٹھ گئی اور چپ چاپ سر دابنے لگی۔ شاید کوئی اسے مبالغہ سمجھے لیکن یہ مبالغہ نہیں ہے۔ بھابی جتنے زور سے ان کا سر دابتی تھی اس سے دگنے بلکہ سہ گنے زور سے میرا کلیجہ دبا جا رہا تھا۔ سینہ میں آگ سی لگی ہوئی تھی۔ جی چاہتا تھا خود کشی کرکے مر جاؤں۔ کس قدر افسوسناک امر ہے۔ جس کے لئے ہم دن کا آرام اور رات کی نیند حرام کر دیں۔ وہ بیگانوں کے سامنےہماری یوں توہین کرے اور اغیار پر اپنا حق جتائے۔

    اتنے میں انہوں نے بھابی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بولے، ’’اب میرا بخار بہت جلد اتر جائے گا بھابی! اگر تو نے میرا بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو میں اب تک کبھی کا تندرست ہو چکا ہوتا۔ چلی تھی ہیکڑی جتانے۔ آخر جھک مار کر ہار ماننی پڑی یا نہیں؟‘‘

    میرے تن بدن میں اور بھی آگ لگ گئی۔

    بھابی نے ایک مرتبہ میری طرف دیکھا اور پھر ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’ہاں با با! سو دفعہ ہار مانی۔ تم یہ بخار اتارو۔‘‘

    اب مجھ سے برداشت نہ ہو سکا۔ اٹھ کر باہر چلی گئی اور رونے لگی۔ لیکن میرے آنسو دیکھنے والا کون تھا؟

    ۵ دسمبر ۱۹۲۱ء
    میرے آنسو دیکھنے والا میرا پرماتما تھا۔ اس نے میری بےبسی اور تنہائی کو دیکھا۔ اس نے میرے چاروں طرف چھائی ہوئی تاریکی کو دیکھا اور میری زندگی کی کالی رات میں امید و مسرت کی صبح کا اجالا بھیج کر مجھے جلا لیا۔

    ۲۷ نومبر کی رات تھی۔ میں مرنے کی تیاریاں کر رہی تھی۔ مرنے کے لئے یا زہر کی ضرورت ہے، یا ریل گاڑی کی پٹری پر سر رکھنے کی یا پستول کی یا پھانسی کے رسے کی۔ میرے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ میرے سامنے صرف ایک ہی رستہ کھلا تھا۔ نہایت آسان۔ نہایت سیدھا سادا۔ چھت پر سے گود پڑوں اور روز روز کی جاں کاہ مصیبتوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر لوں۔ میں چھت کے کنارے کھڑی تھی۔ ذرا آگے بڑھتی، تو موت سے ہمکنار ہو جاتی۔ ذرا پیچھے ہٹ جاتی تو زندہ بچ رہتی۔ موت اور زندگی کو اس قدر قریب میں نے کبھی نہ پایا تھا۔ صرف ایک قدم کا فاصلہ تھا۔ آگے موت تھی، پیچھے زندگی۔ لیکن میرے لئے موت میں زندگی کا سکون تھا، زندگی میں موت کی جلن۔ میں نے دل کڑا کر کے آگے قدم اٹھایااور پنجے کی طرف جھانک کر دیکھا وہاں موت کا سکون اور اندھیرا تھا۔ میرا دل کانپ گیا۔ موت کا جو پر تنویر اور بے خود بنا دینے والا تصور میں نے ذہن میں قائم کیا تھا۔ وہ اس اتھاہ اندھیرے میں نہ جانے کہاں غائب ہو گیا؟ شاعرانہ حقیقت کا سایہ تاریکی میں نظر نہ آیا۔ میرے پاؤں رگ گئے۔ موت بھی دنیا کی دیگر چیزوں کی طرح دور سے خوبصورت دکھائی دیتی ہے لیکن جب اس کے قریب پہنچتے ہیں تو اس کا حسن ڈر اور سہم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

    میں وہیں موت اور زندگی کے عین درمیان بیٹھ گئی اور صورت حال پر غور کر نے لگی۔ اب کیا کروں؟ زندگی ناقابل برداشت تھی۔ موت ناقابل عبور۔ کدھر جاؤں، امید کی زندگی اور زندگی کی امید کو کہاں تلاش کروں؟ میرے لئے اس وسیع دنیا میں کہیں بھی جگہ نہ تھی۔ معاً موت نے پھر اپنے بازو پھیلائے اور مسکرائی۔ میں پھر مرنے کو آمادہ ہو گئی۔ نامرادوں کے لئے موت کے سوائے دوسرا ہمدرد کون ہے؟

    یکایک خیال آیا۔ چل کر بھابی سے دو دو باتیں کر لوں۔ اس کو ایسی جلی کٹی سناؤں کہ تلملا اٹھے۔ کیا یاد کرےگی؟ کہ کسی نے کھری کھری سنائی تھیں۔ ساری عاشقی معشوقی بھول جائے گی۔ اتنا سا منہ نکل آئےگا۔

    میں نیچے اتر آئی اور بھابی کے کمرہ کی طرف چلی، اس وقت اگر وہ سامنے آ جاتی، تو میری شعلہ بار آنکھیں اسے غصہ کی آگ میں جلا کر بھسم کر دیتیں لیکن۔

    میں نے دیکھا وہ آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ میرا کلیجہ سن سے ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی ہیبت ناک راز بے نقاب ہونے کو ہے۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے چلی۔ دیکھوں یہ کہاں جاتی ہے؟ کس کے پاس؟کس غرض سے؟ ضرور کوئی خاص بات ہے، کوئی چھپی ہوئی غرض۔ کوئی گناہ آلود مقصد۔ جس کے لئے ایسا وقت موزوں سمجھا گیا ہے۔ میں انہیں خیالات میں محو اس کے پیچھے چلی جاتی تھی کہ وہ ہمارے گھر کے پاس ہی جو مندر ہے۔ اس کے اندر چلی گئی اور دیوی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ میں باہر چھپی ہوئی اس کی پرارتھنا کا ایک ایک لفظ سن رہی تھی۔ اس نے لرزتی ہوئی آواز اور روتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔ دیوی ماتا! میرے بیٹے کو شفا دے۔ وہ میرا دیور ہے لیکن میں نے اسے سدا بیٹا سمجھاہے۔ اس کی نادان بیوی کا خیال کر۔ اس کی عمر کچی ہے۔ اس کی آنکھوں کی بے رونقی، دل کی بے قراری دیکھ اور اس کا سہاگ بنائے رکھ۔ میں نے اسے بچپن سے کھلایا ہے، میرے حال پر رحم کر اور اسے لمبی عمر دے۔ دیوی ماتا! میں مر جاؤں مگر وہ زندہ رہے۔ یہی میری پرارتھنا ہے۔

    میری آنکھوں کے سامنے سےپردہ اٹھ گیا۔ اب حقیقت میرے سامنے بے نقاب کھڑی تھی۔ کس قدر جان بخش، کتنی روح پرور، کیسی پر تنویر۔ اس کی مسکراہٹ نے میرے من کے کواڑ کھول دئے۔ بھابی اندر دیوی کے سامنے اوندھے منہ گر کر رو رہی تھی۔ میں باہر تاریکی میں اپنے گھٹنوں کے بل کھڑی افسوس، ندامت اور خوشی کے ملے جلے آنسو بہا رہی تھی جو روحانی حظ ان آنسوؤں میں تھا، وہ بڑی سے بڑی خوشی میں بھی نہیں۔

    دوسرے دن میں اور بھابی ان کے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھیں۔ آج وہ مجھے عورت نہ معلوم ہوتی تھی۔ دیوی معلوم ہوتی تھی جو دنیا کی رہنمائی کے لئے سورگ سے اتر آئی ہو۔ اب میں نے اس کی روح دیکھ لی تھی۔ اب میں نے اس کا دل پڑھ لیا تھا۔ اب میں نے اس کا پیار پا لیا تھا۔ اب وہ بدگمانی نام کو نہ رہی تھی۔ انہوں نے بھابی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’آج تم پھر اس کمرہ میں چلی آئی۔ کیا تمہیں پرکاش کا ڈر نہیں؟‘‘

    بھابی: ’’ڈر تو ہے لیکن تمہاری محبت نہیں مانتی۔‘‘

    وہ: ’’کیا مزے سے میری چارپائی پر بیٹھی ہے۔ کوئی دیکھ لے تو کیا کہے۔ کیوں پر کاش!‘‘

    میں: ’’کہنا کیا ہے جو ماں بیٹے کی آنکھیں بھی نہ پہچانے اس کا اپنا من کھوٹا ہوگا۔‘‘

    وہ: ’’اس کو کمرہ سے نکال دوں تو کیسا رہے؟‘‘

    میں: ’’مگر یہ تو میرے دل میں بیٹھ گئیں۔ وہاں سے کون نکالےگا؟ انہوں نے میری طرف پر معنی انداز سے دیکھا اور کہا ارے! دل میں اسے بٹھا لیا تو مجھے کہاں بٹھاؤگی؟‘‘

    میں: ’’تمہارے لئے اس دیوی کا دل کم نہیں ہے جو آرام تمہیں وہاں مل سکتا ہے اور کہیں نہ ملےگا؟‘‘

    بھابی نے میری طرف محبت کی نگاہوں سے دیکھا اور پھر ان کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

    میں سورگ میں پہنچ گئی۔

    مأخذ:

    سولہ سنگار (Pg. 48)

    • مصنف: سدرشن
      • ناشر: لاجپت رائے اینڈ سنز، لاہور
      • سن اشاعت: 1938

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے