Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دس بیگھے کھیت

طارق چھتاری

دس بیگھے کھیت

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    چھدا چمار، جس نے اپنی زندگی کے تیس سال بےفکری سے گہری نیند سوکر گزار دیے تھے، آج رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ وہ بار بار اٹھ کر اپنے شلوکے کی جیب میں ہاتھ ڈال کر دیکھتا اور جب ان روپیوں کو محفوظ پاتا جو ٹھاکر ویدرام سے بیل خریدنے کے لیے ادھار لے کر آیا تھا تو سکون کی سانس لیتا اور پھر اپنے پھٹے ہوئے کھیس کو اوڑھ کر لیٹ جاتا۔ سردیوں کی رات تھی، کڑکڑاتا جاڑا او رپھٹا ہوا گاڑھے کا کھیس۔

    آج اسے پہلی بار کھیس کے پھٹے ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ یہ وہی کھیس تھا جو کئی سال پہلے ٹھاکر ویدرام نے دیا تھا اور وہ اب تک اس کھیس کو کشمیری اون کے کمبل سے زیادہ گرم محسوس کرتا آیا تھا مگر آج سردی پھٹے ہوئے کھیس سے گھس گھس کر اس کے جسم کو گلائے دے رہی تھی۔ وہ رات بھر اپنے سر کو گھٹنوں میں دبائے گٹھری بنا پڑا رہا۔ اس طرح لیٹنے سے اسے سردی بھی کم محسوس ہو رہی تھی اور اس کے شلوکے کی جیب بھی محفوظ ہو گئی تھی۔

    چھدا ایک محنتی مزدور تھا۔ گاؤں کے کسانوں کے ہاں مزدوری کرتا اور خوش رہتا۔ وہ کسی کا پابند نہیں تھا اور نہ ہی اس پر کسی ذمہ داری کا بوجھ تھا۔ دراصل وہ پابند ہونا بھی نہیں چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی کسان کے یہاں جم کر ماہوار نوکری نہیں کر سکتا تھا اور پھر وہ ہل کا کام بھی نہیں سنبھال پاتا۔ اس نے تو زندگی بھر پھاوڑے اور کھرپی کا ہی کام کیا تھا۔

    چھدا چمار ٹھاکر ویدرام کا چہیتا مزدور تھا۔ آڑے ترچھے وقتوں میں ٹھاکر ویدرام ہی چھدا چمار کے کام آتے۔ روپیہ پیسا، کپڑا لتا، اناج گڑ، جس چیز کی بھی ضرورت پڑتی، ٹھاکر ویدرام اسے مزدوری کی پیشگی سمجھ کر دے دیتے اور اس کے بدلے میں ضرورت پڑنے پر کام کراتے رہتے۔ چھدا کی صورت پر ٹھاکر جی کو دیکھتے ہی ایسی چمک آ جاتی جیسے ٹمٹماتا ہوا دیا تیل کی دھار کو دیکھتے ہی تیز لو کے ساتھ چمکنے لگتا ہے۔ وہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد گاؤں بھر میں سانڈ کی طرح گھومتا پھرتا، ملہار گاتا اپنے ہم جولیو ں میں جا بیٹھتا اور بڑے فخر سے کہتا، ’’اوپر پرماتما اور نیچے ٹھاکر جی۔ پھر وہ پھکرچوں کرے۔۔۔‘‘

    زمینداری ختم ہونے کے بعد چک بندی کا دور دورہ شروع ہوا۔ گاؤں میں چک بندی دفتر کھولا گیا۔ نائب قانون گو اور لیکھ پال تو گاؤں میں ہی رہنے لگے۔ اے سی او صاحب بھی روزانہ دفتر پہنچ جاتے اور کبھی کبھی سی او صاحب بھی دورے پر آ جاتے۔ جن لوگوں کی زمینیں الگ الگ تھیں، انہیں ایک ہی جگہ زمین دے کر چک بنا دیے گئے۔ چک بندی کے وقت چار فی صد زمین کٹوتی میں کاٹ کر چک بنائے گئے تھے۔ کٹوتی کی زمینوں کو سرکار نے بےزمین اچھوتوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ جب تک یہ زمین ہریجنوں اور جاٹوں میں تقسیم نہ ہو جائیں، گرام سماج کے سپرد کر دی گئی تھیں۔

    ٹھاکر ویدرام کی زمین بھی الگ الگ کھیتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ کچے دس بیگھے کا ایک کھیت، جو دوسرے کھیتوں سے خاصے فاصلے پر تھا، ان کی زمین کا سب سے اپجاؤ کھیت تھا۔ جب یہ کھیت چک بندی کے دوران بچت میں نکل گیا تو ٹھاکر ویدرام کو بہت ملال ہوا۔ اس کھیت کو ٹھاکر بڑی محنت سے جوتتے، بوتے، پانی وقت پر دیتے اور کھاد۔۔۔ کھاد تو اس کھیت میں آنکھ بند کرکے ڈالتے۔ کھیت سڑک کے کنارے تھا، اس لیے اس میں جو بھی پیدا ہوتا، اس کی خبر قرب و جوار کے تمام گاؤں والوں کو رہتی۔ جب کوئی راہ گیر گزرتا تو تھوڑی دیر کھیت کی مینڈ پر بیٹھتا، اس کا جائزہ لیتا اور پھر یہ کہتا ہوا وہاں سے اٹھتا، ’’کھیت تو جے ہے۔ جا میں مالک کتنو کھاد ڈلوات ہے جو دھرتی سیاہ پڑی رہت ہے۔ گیہوں تو بارہ من بیگھا سے کم نہ ہوت ہوں گے۔‘‘

    یہ آخری فصل تھی۔ اس کے بعد کھیت پر ٹھاکر ویدرام کا قبضہ نہیں رہےگا۔ وہ کھیت کی مینڈ پر بیٹھے چلم پی رہے تھے۔ گیہوں کی فصل تیار کھڑی تھی۔ اس برس تو گیہوں کی بالیاں ٹھاکر ویدرام کو ہر سال سے زیادہ بڑی اور موٹی نظر آ رہی تھیں۔ ٹھاکر ویدرام کی حسرت بھری نظریں کھیت میں لہلہاتے پودوں کے ساتھ ہچکولے کھانے لگیں۔ اس فصل کے بعد کھیت پر اپنا حق نہ رہنے کا خیال آتے ہی وہ ایک گہری سانس کے ساتھ چلم کے دھوئیں کو اندر لیتے اور پھر بری طرح کھانسنے لگتے۔ جس طرح پانی ڈوبتے ہوئے انسان کی روح نکل جانے کے بعد اس کی لاش کو اوپر پھینک دیتا ہے، اسی طرح وہ تمام مناظر جو برسوں سے کھیت میں زندہ دبے ہوئے تھے، بےروح ہوکر ابھر آئے۔ اب ٹھاکر ویدرام سر پر گلابی صافہ باندھے، ہاتھ میں لمبی اور مضبوط، سرسوں کا تیل پلائی ہوئی لاٹھی لیے کھیت کے بیچوں بیچ کھڑے بھولا سے کہہ رہے تھے، ’’جرا گہرا کونٹر مار، دیکھت نہ ہے کھیت کی گھاس تک نہ ٹوٹ رہی ہے، اوپر ہی اوپر جوتے جات ہے۔‘‘

    بھولا بےچارہ اس سے گہرا اور کیا جوتتا، بیلوں کی جان نکلی جارہی تھی اور پھر پورے گاؤں میں بھولا سے اچھا ہل واہا کوئی دوسرا تھا بھی نہیں۔ کھیت جت جانے کے بعد سہاگا چلا تو ٹھاکر ویدرام نے پٹرے پر چار آدمیوں کو کھڑا کردیا تاکہ ڈھیلے پھوٹ کر ریت بن جائیں۔ دسیوں بار کھیت کو جوتنے کے بعد کھاد سے پاٹ دیا گیا۔ دوسرے کسانوں نے جب اتنا کھاد پڑتے دیکھا تو آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔

    ’’جتنی کھاد ٹھاکر جی دس بیگھے میں ڈلوات ہیں، اتنی تو ہماری پوری پچاس بیگھے میں نہ ڈلپاوت ہے۔ یا کھیت کو ٹھاکر جی دل کھول کے کموات ہیں اور اتنی لاگت لگات ہیں کہ گریب گربا اگر اتنی لاگت لگائے تو ایک بیگھا بھی نہ کر سکے۔‘‘

    کسی راہ گیر نے ٹھاکر ویدرام کو پالاگن کی تو سارے مناظر بکھر کر کھیت کی لہراتی فصل میں جذب ہو گئے اور انہوں نے گھوم کر اس آدمی کو دیکھا جو کہہ رہا تھا، ’’ٹھاکر جی گیہوں کی پھسل کے بعد یا میں کا بواؤگے؟‘‘ ٹھاکر ویدرام نے اسے جواب دیے بغیر چلم کا لمبا سا گھونٹ لیا اور کھانسنے لگے۔ ٹھاکر جی کو خاموش دیکھ کر راہ گیر جیسے خود سے ہی باتیں کرنے لگا، ’’ٹھاکر جی اپنی سگری دھرتی سے جادہ یا میں ہی لاگت لگات ہیں۔ یہ دھرتی بھی تو سونا اگلے ہے۔ گیہوں کے بعد یا میں دھان بڑے جور کے ہوں گے۔‘‘

    ٹھاکر ویدرام کی کھانسی جیسے اندر ہی رہ گئی اور وہ چلم کو کھیت کی مینڈ پر الٹ کر اس آدمی سے کچھ کہے بغیر وہاں سے چل دیے مگر کچھ سوچ کر پلٹے اور پیر سے چلم کی آگ بجھانے لگے۔

    گیہوں کی فصل کٹ جانے کے بعد اس کھیت پر ٹھاکر ویدرام کا دخل نہیں رہا اور وہ گرام سماج کے ماتحت بغیر جتائی بوائی کے کئی سالوں تک پڑا پڑا بنجر ہو گیا۔

    آج اس دس بیگھے کھیت میں پرانے مکھیا اور موجودہ پردھان اپنے ساتھ گاؤں کے کچھ بڑے بوڑھوں کو لیے کھڑے تھے۔ ان کے علاوہ پٹواری اور نائب قانون گو بھی وہاں موجود تھے۔ ٹھاکر ویدرام کو بھی بلا لیا گیا۔ پنچایت بیٹھی اور پنچوں نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے نائب قانون گو سے کہا کہ اس کھیت کو چھدا چمار کے نام لکھوا دیا جائے۔ اس کے پاس زمین بھی نہیں ہے اور آدمی بھی محنتی ہے۔ اس کھیت کو اچھی طرح جوت کما سکےگا۔ ٹھاکر ویدرام نے اس کی تائید کی۔ لہٰذا چھدا چمار کو بلاکر لگان جمع کرنے کو کہا گیا تاکہ اندراج کے رجسٹر میں اس کا نام چڑھ چکے۔ چھدا دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور اپنی کل پونجی اپنی پتنی کی ایک ہنسلی، جو چاندی کی تھی، لاکر پنچوں کے سامنے رکھ دی۔ پردھان نے اسے خرید لیا اور لگان کے روپیے وصول کرکے اس کے نام کا اندراج کر لیا گیا۔

    مندر کا گھنٹا بجا۔ چھدا کی گھروالی نے اٹھ کر چکی پیسنا شروع کر دی۔ دوسرے گھروں سے بھی چکی چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد چڑیوں کا چہچہانا شروع ہو گیا۔ چھدا، جو رات بھر پھٹے کھیس میں لپٹا اپنے شلوکے کی جیب کو پکڑے کروٹیں بدلتا رہا تھا، دھوتی، کرتا، شلوکا اور انگوچھا لے کر بمبے کی طرف نکل گیا او رپیتم پوری کی پینٹھ سے بیل خریدنے کے لیے جانے کی تیاری میں کپڑوں کو بمبے کی پکی پلیا پر پیٹ پیٹ کر دھونے لگا۔ جلدی جلدی کپڑے بمبے کی پٹری پر سوکھنے کے لیے پھیلا دیے اور دوڑ کر اپنی گھر والی کے پاس جا پہنچا۔

    ’’دیکھ آج پینٹھ جانا ہے، ایک لتا میں چار روٹی اور ایک بڑی سی گڑ کی ڈلی تیار رکھیو۔ میں ابھی حال اپنے کپڑا لے کر آوت ہوں۔‘‘

    چھدا کپڑے سوکھنے کے انتظار میں تھوڑی دیر بمبے پر ادھر ادھر ٹہلتا رہا اور پھر جب اس سے صبر نہ ہوسکا تو آدھے گیلے اور آدھے سوکھے کپڑے لے کر گھر کی طرف تیز تیز قدموں سے چل دیا۔ کپڑے پہنے، جوتیوں پر تیل چپڑا اور کپڑے میں بندھی روٹیاں لے کر پینٹھ کے لیے روانہ ہو گیا۔ کوئی ایک کوس چلا ہوگا کہ ویدرام سے ادھار لیے روپیوں کے گھر پر چھوٹ جانے کا خیال آ گیا اور سرپٹ بھاگتا ہوا گھر واپس آیا۔ روپیوں کو دھوتی کی گانٹھ میں مضبوطی سے باندھا، دھوتی میں لانگ لگائی اور تیز چلنے میں رکاوٹ ڈالنے کے ڈر سے جوتیوں کو ہاتھ میں لے لیا۔

    چھدا کی بیوی نے شام کو جلدی ہی کھانا تیار کر لیا تھا۔ آج اس نے چھدا کے لیے مکا کی روٹی کا ملیدہ بھی بنایا تھا۔ جب سورج غروب ہونے تک چھدا نہیں آیا تو وہ پریشان ہونے لگی اور طرح طرح کے برے خیالات اس کے ذہن میں ابھرنے لگے۔ وہ رات میں گھر پہنچا تو محلے کے کچھ لوگ اس کی پتنی کو تسلی دے رہے تھے۔ چھدا کو دیکھتے ہی سب لوگوں نے اس پر سوالات کی بوچھار کر دی۔

    ’’تم اتنی رات گئے تک کا کرت رہے؟‘‘

    ’’تیری سکل اتنی اتری بھئی چوں ہے؟‘‘

    ’’تم کھالی ہاتھ چوں آئے؟ تمرے بیل کہاں ہیں؟‘‘

    چھدا نے پورا قصہ سنایا اور سر پٹخ پٹخ کر کہنے لگا، ’’آج دلالوں کے چکر میں پھنس کر میری گانٹھ کٹ گئی بھیا۔۔۔ ہائے میرے روپیا۔۔۔‘‘

    گیہوں کی بوائی کا وقت آ گیا تھا۔ دوسرے کھیتوں میں گیہوں بوئے جا چکے تھے۔ چھدا چمار کے کھیت میں تو ابھی ایک بار بھی ہل نہیں نکلا تھا۔ آخر کار وہ بھولا کے پاس گیا اور بولا، ’’بھیا بھولا۔۔۔ ہم بڑے دکھی ہیں۔ ٹھاکرجی سے بیل کھریدنے کو روپیے ادھار لیے اور جیب کٹواکر، لوٹ کر ہم گھر کو آئے۔ اب کس منہ سے ان کے پاس روپیے مانگن جائیں۔ تم ہی ہمری مدد کرو۔ بس ایک بار ہمرے کھیت میں ہل نکال دو۔ روپیے پھسل پر لے لینا۔‘‘

    بھولا نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’بھیا دس بیگھے کی جتائی، وہ بھی تم پھسل پر دوگے۔ اچھا تم ایسا کرو جب تمرے بیل آجائیں تو ہمرے کھیت میں ایک بار جتائی کر دیجیو۔ حساب برابر۔۔۔‘‘

    چھدا خوشی سے سرہلانے لگا۔

    ’’اچھا بھیا، ٹھیک ہت ہے، ٹھیک ہت ہے۔۔۔‘‘

    ایک جتائی تو بھولا نے کر دی مگر گیہوں بونے کے لیے تو دسیوں بار کھیت کو جوتنا پڑتا ہے اور پھر کھیت بھی ایسا جو کئی سال سے نہ جتا ہو او رپڑے پڑے بنجر ہو گیا ہو۔ چھدا نے بھولا کی بہت خوشامد کی مگر اس کے پاس ایک تو اتنی فرصت نہیں تھی، دوسرے وہ بھی غریب آدمی تھا، اتنا کہاں تھا اس کے پاس کہ دوسرے کا کھیت بغیر پیسے کے ہی جوتتا رہے۔ کھیت میں دیسی کھاد ڈالنے کا تو چھدا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، ہاں انگریزی کھاد کا ایک کٹا خریدنے کے لیے پردھان سے کچھ روپیے ادھار لے آیا تھا۔ بیج بھی ایک پڑوسی سے بازار بھاؤ سے کچھ مہنگا ادھار لے لیا تھا۔ دس بیگھے کھیت میں کم سے کم تین کٹے یوریا کھاد، دو کٹے ڈی اے پی اور ایک کٹا پوٹیشیم کھاد کا ہونا ضروری تھا مگر اس کے پاس تو صرف ایک ہی کٹے کے پیسے تھے۔ وہ اپنی چلم لے کر کھیت کی مینڈ پر جابیٹھا اور لمبے لمبے کش لگانے لگا۔

    اب اس کی چلم کی آگ بجھ چکی تھی۔ اس نے جب چلم میں پھونک ماری تو راکھ اڑکر اس کی آنکھوں میں گھس گئی۔ وہ بڑبڑانے لگا، ’’یا سے تو پہلے ہی کھوس تھے چھدا راجا۔ جمین دار بنوگے، دور کے ڈھول سہانے، جب پاس جاؤ تو پتا چلت ہے۔ کھیتی کرنا تو ٹھاکرن ہی کے کام ہیں۔ گریبوں کے بس کی تو وہی مجوری ہے، گریب تو اسی میں کھوس رہت ہیں۔ اتنی لاگت کہاں دھری ہے ان کے پاس جو یا میں لگائیں۔ واہ رے پٹواری کھوب پھانسا ہمیں جمین داری کے کھواب دکھاکے۔۔۔‘‘

    ’’کیا بات ہے چھدا، کیسے اداس بیٹھے ہو؟‘‘ پیچھے سے پٹواری نے آواز دی۔ چھدا نے گھوم کر دیکھا، دل شاد پٹواری کھڑا مسکرا رہا تھا۔ چھدا کو اس کی مسکراہٹ زہر لگ رہی تھی۔ اس نے اپنی تمام مصیبتیں اور دشواریاں پٹواری کو ایک ایک کرکے گنا دیں اور پھر پوچھا، ’’اب تم ہی بتاؤ میں کا کروں پٹواری ساب؟‘‘

    دل شاد پٹواری نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’دیکھ چھدا، سرکار نے یہ زمینیں بھوم ہین اچھوتوں کو اس لیے دی ہیں کہ وہ بھی دوسرے کسانوں کی طرح زمین والے ہو جائیں اور خوش حالی کی زندگی بسر کر سکیں۔ ہمارے ملک کا اتیہاس بتاتا ہے کہ یہاں ہمیشہ سے اچھوتوں کو جانوروں سے بھی زیادہ بدتر اور پست سمجھا جاتا رہا ہے۔ گاندھی جی نے چھواچھوت کو دور کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور آج ہماری سرکار اچھوتوں کو زمین دے کر، انہیں خوش حال بناکر، اس نعرے پر عمل کرنا چاہتی ہے۔ سرکار نے یہ بھی سوچا ہے کہ وہ اچھوت جو اب تک محنت مزدوری کی بناپر ہی گزر بسر کرتے آئے تھے، ان کے پاس بیج اور دوسرے سامان کے لیے پیسا نہیں ہوگا، اس لیے سرکار نے قصبوں میں بینک بھی کھلواے ہیں، جہاں سے بیل، بیج اور کھاد آسانی سے مل سکتا ہے۔ تم بھی پیتم پور جاکر بینک سے مدد لو اور فائدہ اٹھاؤ۔ اس طرح بیٹھے رہوگے تو کوئی کام نہیں بنےگا۔ آج تو چھٹی ہے، کل صبح جاکر بینک کے منیجر سے ملنا، وہ تمہیں سب طریقے بتا دیں گے۔‘‘

    دوسرے دن علی الصباح اٹھ کر پیتم پور کو روانہ ہوتے وقت اس نے سوچا تھا کہ اس دن تو وہ پیتم پور میں دلالوں کے چکر میں آ گیا تھا لیکن آج وہیں سے بیل، کھاد اور بیج لے کر لوٹےگا۔ پیتم پور پہنچ کر جب ا س نے بینک کے دروازے پر تالا پڑا دیکھا تو بوکھلاہٹ میں ایک آدمی کو پکڑ کر پوچھنے لگا، ’’چوں بھیا، جے بنک چوں بند ہے؟‘‘ اس آدمی نے اوپر سے نیچے تک اس کا جائزہ لیا اور اس کی حالت پر ترس کھاتے ہوئے کہا، ’’بینک دس بجے کھتا ہے اور ابھی سات بجے ہیں۔ تم کہیں بیٹھ کر دس بجے تک آرام کر لو۔ کس گاؤں سے آئے ہو بھیا؟‘‘

    چھدا چمار جیسے اپنے گاؤں کانام ہی بھول گیا تھا۔ کبھی اس کے منہ سے ’’بنک‘‘ نکلتا، کبھی ’’بیل‘‘ اور وہ ہکلاتا ہی رہ گیا۔ سات بجے سے دس بجے تک کے تین گھنٹے اس کے لیے تین جنم سے زیادہ طویل ہو گئے تھے اور وہ ان تین گھنٹوں میں جانے کتنی بار اپنی فصل بو اور کاٹ چکا تھا۔

    دس بجے بینک کا دروازہ کھلا۔ چھدا کی جان میں جان آئی اور وہ لپک کر منیجر صاحب کے پاس جا پہنچا۔

    ’’منیجر ساب، ہمرے لیے ایک بیلن کی جوڑی، چار کٹا کھاد اور گیہوں کا بیج ترنت دے دو۔‘‘ منیجر صاحب اس کا منہ تکنے لگے اور پھر بولے، ’’دیکھو پہلے تم یہ بتاؤ کہ کس گاؤں کے رہنے والے ہو؟‘‘ چھدا نے اپنی دھوتی سنبھالتے ہوئے کہا، ’’یہاں سے تنک دوری پر ایک گاؤں ہے نونٹرا کھیرا۔ وہیں کے ہم نواسی ہیں۔‘‘

    منیجر نے اسے سمجھایا، ’’یہ فارم لو، اس پر اپنا اور اپنے پتا کا نام لکھو اور یہ بھی لکھو کہ تمہارے پاس کتنی زمین ہے۔ اس کے بعد اس پر گاؤں کے دو ذمہ دار آدمیوں کی گواہی دلواؤ۔ یہ لے جاؤ، کل یہ کام کرا کے لے آنا۔‘‘ چھدا نے فارم کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے پوچھا، ’’تو منیجر ساب، کل سامان مل سکت ہے؟‘‘

    منیجر صاحب نے کہا، ’’نہیں بھئی۔۔۔ پہلے تو کل تم اس فارم کو ہمارے پاس جمع کر دینا۔ ہم ایک ہفتے کے اندر اندر گواہو ں کی تصدیق کر لیں گے۔ اس کے بعد اپنی زمین کا کچہری جاکر خسرہ اور کھتونی نکلوا لانا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے دونوں گواہو ں کی زمینوں کے بھی انتخاب نکلواتے لانا۔ اس میں تمہارے کچھ روپیے خرچ ہوں گے۔ یہ لاکر ہمارے پاس جمع کر دینا۔ پھر ویر پور بلاک سے ایک سلپ لے آنا۔ اس میں یہ لکھا ہوگا کہ ان کے اوپر بلاک کا کوئی قرضہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کو آپریٹو بینک سے بھی کلیرینس لیتے آنا۔‘‘

    چھدا چمار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ منیجر صاحب کی شکل گھورے جا رہا تھا۔ منیجر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’پھر ہم ان کو ہیڈ آفس بھیج کر دس پندرہ دن میں لون منظور کر والیں گے۔ اس کے بعد تم جس دکان سے سامان خریدنا چاہو، اس کا بل لاکر ہمیں دے دینا۔ ہم اس دکان دار کے نام چیک کاٹ دیں گے۔ تمہیں سامان مل جائےگا۔‘‘

    چھدا منیجر کی شکل تکتا ہی رہ گیا او ریہاں سے بھی مایوس ہوکر وہ نہ جانے کس کس طرح اپنے گاؤں پہنچا۔ دوسرے کھیتوں میں گیہوں کی فصل ایک ایک بالشت کی ہو چکی تھی اور چھدا چمار کا کھیت ابھی یوں ہی پڑا تھا۔ کئی بار بھولا کے گھر کے چکر لگائے، اس کی خوشامد کی، ہاتھ پیر جوڑے تب جاکر وہ بوائی کے لیے تیار ہوا اور گیہوں بغیر کھاد کے ہی بو دیے گئے۔ روپیے جو پردھان سے کھاد کے لیے ادھار لیے تھے، وہ بھی اتنے دنوں میں کھاپی کر برابر کر دیے۔ اب گھر میں فاقے ہونے لگے تھے۔ نرائی ڈسائی کے لیے پیسے تو تھے نہیں جو مزدوروں سے کراتا، لہٰذا وہ اور اس کی گھر والی کھیت میں کھرپی لیے دن دن بھر بیٹھے رہتے۔ اسے کھیت سے اتنی فرصت ہی نہیں مل پاتی جو کسی دوسرے کے یہاں جاکر مزدوری کرتا۔ گھروالی پڑوس سے ادھار لیتے لیتے تنگ آ چکی تھی۔ کبھی ایک دو دن کو فرصت ملتی تو چھدا کسی کی مزدوری پر نکل جاتا مگر کھیت میں نرائی ڈسائی، رہٹ سے پانی لگانا، جانوروں سے فصل بچانا، یہ سب بھی تواسے ہی کرنا تھا۔

    فصل تیار ہو گئی۔ کٹنے کا وقت آ گیا۔ دونوں میاں بیوی فصل کاٹنے میں جٹ گئے۔ چھدا چمار کے کان ہر راہ گیر کے منہ سے یہ سنتے سنتے پک گئے، ’’یہ وہی کھیت ہے جا میں بارہ من بیگھا کے گیہوں کٹت رہے۔ اب تو بیس سیر بیگھا کے بھی ہے جائیں تو بڑی بات ہے۔ یا کھیت کی تمام گامن میں چرچا تھی، یا سے اچھا پورے ہار میں کوئی اور کھیت نہ ہت ہو۔ جانے کون کے ہاتھو ں یہ کھیت لگ گیو ہ ستیاناس ہے گیو کھیت کو۔۔۔‘‘

    جب بھی وہ یہ سنتا تو اسے لگتا کہ لوگ کہہ رہے ہیں، ’’یہ وہی چھدا چمار ہے جو کبھی سانڈ کی طرح ادھر ادھر گاؤں بھر میں گاتا پھرتا تھا اور آج اپنے قرض داروں سے منھ چھپائے چوروں کی طرح چھپتا پھرتا ہے۔‘‘

    فصل کاٹ کر کھیت کے کونے پر ڈھیر لگا دیا گیا۔ اسے کھوندنے کے لیے بیلوں کی ضرورت تھی، لہٰذا پھر ایک بار بھولا کی مدد لینا پڑی اور آٹھ دن میں گیہوں الگ اور بھوسا الگ ہو گیا۔ گیہوں تولے گئے تو وہی پانچ من، یعنی بیس سیر بیگھا کی پیداوار۔ جتنی لاگت آئی تھی، اس سے بھی کم۔

    چھدا وہیں گیہوں کے ڈھیر کے سامنے اپنا ماتھا پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے نظر اٹھاکر سڑک کی طرف دیکھا تو اسے ٹھاکر وید رام کی گیہوں سے لدی گاڑی جاتی ہوئی نظر آئی۔ اس نے گردن جھکالی اور سوچنے لگا، ’’اتنے روپیے ٹھاکر جی کے، بھولا کے پیسے، پردھان کی رقم اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

    ٹھاکر وید رام کی گاڑی جب اس کے برابر سے گزری تو اس نے د یکھا کہ گاڑی بری طرح لدی ہوئی ہے اور بوجھ سے دونوں بیلوں کی گردنیں جھکی جا رہی ہیں۔ وہ دیرتک بیلوں کی جھکی ہوئی گردنوں کو دیکھتا رہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے