- کتاب فہرست 186151
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال2015
طرز زندگی22 طب931 تحریکات297 ناول4855 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی13
- اشاریہ5
- اشعار68
- دیوان1465
- دوہا50
- رزمیہ106
- شرح201
- گیت62
- غزل1193
- ہائیکو12
- حمد47
- مزاحیہ37
- انتخاب1603
- کہہ مکرنی6
- کلیات692
- ماہیہ19
- مجموعہ5064
- مرثیہ384
- مثنوی848
- مسدس58
- نعت568
- نظم1253
- دیگر76
- پہیلی16
- قصیدہ190
- قوالی17
- قطعہ65
- رباعی300
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت26
طارق چھتاری کے افسانے
باغ کا دروازہ
گرمیوں کی تاروں بھری رات نے گھر کے بڑے آنگن کو شبنم کے چھڑکائو سے ٹھنڈا کر دیا تھا۔ جیسے ہی دادی جان نے تسبیح تکیے کے نیچے رکھی نوروز کود کر ان کے پلنگ پر جا پہنچا۔ ’’دادی جان جب سبھی شہزادے باغ کی رکھوالی میں ناکام ہو گئے تو چھوٹے شہزادے نے بادشاہ
لکیر
آج سورج غروب ہونے سے پہلے بادلوں بھرے آسمان پر عجب طرح کا رنگ چھا گیا تھا۔ یہ رنگ سرخ بھی تھا اور زرد بھی۔ ان دونوں رنگوں نے آسمان کودرمیان سے تقسیم کر دیا تھا۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے، وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر
نیم پلیٹ
’’کیا نام تھا اس کا؟ اف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدارناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹاکر پھینک دیااور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ’’یہ کیا ہوگیا ہے مجھے، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہوگا کچھ نام وام، نہیں یاد آتا تو کیا کروں، لیکن نام تو یاد
بندوق
شیخ سلیم الدین عشاء کی نماز کے بعد حویلی کے دالان میں بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ان کابیٹا غلام حیدر بھی مونڈھا کھینچ کران کے پاس ہی آن بیٹھا۔ ’’ابا حضوران دنوں فضا ٹھیک نہیں ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ بازار میں کچھ مشکوک چہرے آپ کا تعاقب کرتے ہیں۔ وہ قصبے سے
آدھی سیڑھیاں
سعیدہ بیگم اپنے کمرے سے نکل کر دہرے دالان سے ہوتے ہوئے احمد کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’اٹھ گئے بیٹے؟‘‘ ’’جی امی جان۔۔۔‘‘ احمد آنکھیں ملتا ہوا بستر سے اترکر کھڑا ہو گیا۔ ’’آفتابے میں گرم پانی رکھ دیا ہے، جائو منہ دھولو۔‘‘ احمد نے منہ دھو
آن بان
’’کیا؟ ہری سنگھ کی شادی ہو رہی ہے؟ ارے کسی نے یوں ہی اڑا دی ہوگی۔‘‘ ’’اجی نہ چودھری صاحب، بات سولہو آنہ پکی ہے۔‘‘سندر نے کہا۔ ’’مگر بھئی، یہ ہوا کیسے؟‘‘ ’’کان میں اڑتی اڑتی پڑی ہے کہ گھٹیا والے ننوانے بات لگائی ہے۔‘‘ سندر گردن کا میل چھڑاتے
شیشے کی کرچیں
وارڈ کے سب مریض گہری نیند سوتے رہے اوروہ صبح کے انتظار میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ صبح ہوتے ہی مریمؔ اپنی ٹیم کے ساتھ سفید ایپرن پہنے، گلے میں آلہ لٹکائے آہستہ سے آئے گی اور پوچھےگی۔ ’’کوئی پرابلم ؟‘‘ ’’جی نہیں ڈاکٹر۔۔۔‘‘وہ ہمیشہ یہی کہتا
غم سے نجات پائے کیوں
شکستہ دیوار و در، ہر سو بیاباں، قیامت خیز یہ منظر کہ بوسیدہ محراب کے نیچے شطرنجی بچھا کر مرزا نوشہ نے سیاہ مہروں کو بساط پر یوں سجایا گویا ان کی فتح لازم ہو اور مدِّ مقابل کی شکست ملزوم۔مرزا نے فرغل سمیٹا اور دوزانو بیٹھ کر پیادے کو ایک خانہ آگے بڑھا
تین سال
علی جان کو اپنے ماتھے پر بندھے سہرے کی لڑیاں لوہے کی زنجیروں سے بھی زیادہ وزنی اور خوفناک لگ رہی تھیں۔ وہ پھولوں میں منہ چھپائے کچھ اس طرح سہما ہوا بیٹھا تھا جیسے چڑیا کا بچہ سر پر باز کواڑتے دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ مرزا مجید اپنے ساتھ
کھوکھلا پہیا
’’ہم تو خدا کے بنائے ہوئے پہیے ہیں، کھوکھلے پہیے۔۔۔ وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے اور اگر ہم گھومنے سے انکار کریں۔۔۔ انکار؟ انکار کیسے کر سکتے ہیں، ہمیں تو گھومتے ہی رہنا ہے، کبھی مرضی سے اورکبھی مرضی کے بغیر۔‘‘ وہ ہر شام دھندے پر نکلنے سے پہلے
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
ادب اطفال2015
-