aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کھوکھلا پہیا

طارق چھتاری

کھوکھلا پہیا

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    ’’ہم تو خدا کے بنائے ہوئے پہیے ہیں، کھوکھلے پہیے۔۔۔ وہ جس طرح چاہتا ہے گھماتا ہے اور اگر ہم گھومنے سے انکار کریں۔۔۔

    انکار؟

    انکار کیسے کر سکتے ہیں، ہمیں تو گھومتے ہی رہنا ہے، کبھی مرضی سے اورکبھی مرضی کے بغیر۔‘‘

    وہ ہر شام دھندے پر نکلنے سے پہلے یہی سوچا کرتا۔

    اس نے لونی لگی کچی دیوار میں ٹھکی کھونٹی سے پرانا جھولا اتارا اور دھندے کے اوزار ٹٹول کر دیکھنے لگا۔ ہتھوڑی، چھینی، سنڈاسی، چھوٹی سی کدال اور ایک آنکڑا۔’’سب ٹھیک ہے۔‘‘

    سب ٹھیک تھا مگر اس نے ایک بار پھر جھولے میں جھانک کر دیکھا۔ غروب ہوتے سورج کی مدھم روشنی میں اوزار دکھائی دیے۔ آنکڑا منہ اٹھائے اسے تک رہا تھا۔ اسے لگا کہ ابھی آنکڑا اچھل کر اس کی قمیص کے دامن میں پھنس جائےگا۔ پھر وہ اور اس کاننگا بدن۔۔۔! سوکھی کھال کے اندر پسلیاں پھڑ پھڑانے لگیں۔ وہ سہم گیا اور جلدی سے جھولا بند کر دیا۔ اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے، قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہے، اسی لیے آنکڑے سے ڈر جاتا ہے۔

    وہ دھندے پر جا رہا ہے۔ بغل میں جھولا اور ہاتھ میں پتلی چھڑی ہے۔ اسے کدھر جانا ہے کیا معلوم؟ ابھی دوچار گائوں یوں ہی بھٹکے گا پھر آدھی رات ہو جائےگی، کام بن گیا تو ٹھیک، ورنہ صبح ہوتے ہوتے گھر واپس۔

    گھر؟

    گھر تو بسنے سے پہلے ہی اجڑ گیا تھا۔ تو کیا ہوا درودیوار تو سلامت ہیں۔

    اسے دور کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا بلب چمک رہا ہے۔

    ’’یہ تو پہیا ہے، بلکہ گاڑی ہے۔‘‘

    ایک بچے نے لکڑی کے چھوٹے چھوٹے دوپہیوں میں ڈنڈا باندھ کر گاڑی بنا رکھی تھی۔ دونوں پہیوں کے بیچ بیٹری کے دوسیل کھپچیوں میں ستلی سے لپیٹ کر رکھ دیے تھے اور بجلی کے لمبے تار میں چھوٹا بلب لگا کر ڈنڈے میں لٹکا دیا تھا۔

    ’’واہ رے خداہم سچ مچ کھوکھلے پہیے ہیں، تو جس طرح چاہتا ہے ہمیں گھماتا ہے۔‘‘

    اسے یاد آیا بچپن میں بنجاروں والے کنویں پر ایک پہیا ملا تھا جو بالکل کھوکھلا تھا۔ عام پہیوں سے الگ پائپ کا بنایہ پہیا شاید کسی پرانی مشین کا بڑا پرزہ ہو، مگر یہ بات اب تک سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ وہ کھوکھلا کیوں تھا، کیا ہمیشہ سے کھوکھلا تھا؟ کھوکھلا تھا بھی یا نہیں؟ یا پھر۔۔۔!

    اس نے دیکھا کہ بچہ بلب لگی گاڑی کوبہت آہستہ آہستہ ڈھکیل رہا ہے۔

    ’’ارے اس میں تو لوہے کے دو تار بھی بندھے ہیں۔‘‘

    بچے نے ایک تار کھینچا۔ گاڑی کے دونوں پہیے ایک جانب مڑ گئے۔ دوسرا تار کھینچا تو گاڑی رک گئی۔ یہ بریک تھا۔

    ’’ہاتھ سے ڈھکیلنے پر اور وہ بھی اتنا آہستہ، پہیے کو بریک کی ضرورت؟‘‘

    یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی۔

    ’’کیا یہ سمجھنے کے لیے بچہ بننا پڑےگا؟‘‘

    ’’مگر کیوں؟ کیاوہ کبھی بچہ نہیں تھا؟‘‘

    بچپن میں جب وہ زنگ آلود لوہے کے کھوکھلے پہیے کو مکاکے ٹھٹھیرے سے ڈھکیلتے ہوئے بہت تیز دوڑتا ہوا مدرسے سے گھر واپس آتا تو اس کے پہیے کو نہ تو کہیں بریک کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی وہ آج کی طرح دھیمے چلتا۔ اگر کبھی وہ اس پرانے زنگ آلود کھوکھلے پہیے کو آہستہ چلانے کی کوشش کرتا بھی تو پہیا دو چار چکر لے کر گر جاتا۔ پہیے کے سہارے وہ کتنی جلدی گھر واپس آ جاتا تھا۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو اس کے بعد کی نسل نے سرکنڈے یا مکا کے ٹھٹھیرے کے بجائے لوہے کے آنکڑے بنالیے اور سب پہیے دھیمے چلنے لگے۔ جب جوان ہوا تو پہیوں میں آنکڑے اس طرح جڑدیے گئے کہ پہیے اپنی فطری رفتار کھو بیٹھے۔۔۔ اور اب جب کہ وہ بوڑھا ہے، موڑنے اور بریک لگانے کے لیے تار بھی کس دیے گئے ہیں۔ اب اسے بچوں کے ان پہیوں سے نفرت ہونے لگی۔ پہیوں سے ہی کیوں، قصبے کی زمین سے اگتی ہوئی نئی نئی بلند عمارتوںسے بھی تو اسے نفرت ہے۔ جب عمارتیں کم تھیں تو پہیے تیز چلتے تھے اور جب پہیے تیز چلتے تھے تواس کا دھندا بھی اچھا چلتا تھا۔ اسے اچھی طرح یاد ہے، ایک روز وہ پوکھر کے کنارے اداس بیٹھا تھا کہ شکورا تیلی کا جنازہ گزرا۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ جب جنازہ قبرستان کے احاطے میں داخل ہو گیا تو ایک عمر رسیدہ تجربےکار شخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

    ’’کسی دھندے سے لگا ہے؟‘‘

    بولا کچھ نہیں بس نفی میں گردن ہلا دی۔

    ’’چل اٹھ، یہ لے جھولا۔‘‘

    وہ اٹھا، شکوراتیلی کی قبر کھول کر تختہ ہٹایا اور اس میں آنکڑا ڈال دیا۔ چند ہی لمحوں میں بہت قیمتی اور ملائم کپڑا اس کے ہاتھوں میں لپٹا ہوا تھا۔ پھر کیاتھا، وہ کفن کھسوٹنے میں ماہر ہو گیا۔ رات ہی رات میں دس دس کوس کے مردوں کے کفن کھسوٹ لاتا۔

    ’’تیرا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے گاڑی والے بچے سے پوچھا۔

    بچے نے جواب دیا۔ ’’سلیم‘‘

    ’’تو حاجی وحید کا ناتی ہے؟‘‘

    بچہ کچھ کہے بغیر، آہستہ آہستہ گاڑی ڈھکیلتا آگے بڑھ گیا۔

    ’’حاجی وحید!‘‘ ہاں وہی وحید پہلوان، جن کی اب دو منزلہ عمارت ہے، یہیں ان کا کچا مکان تھا۔ اسارے میں اپنے چیلوں کو لیے بیٹھے رہتے۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانا پینا چلتا رہتا۔ کبھی بادام، کبھی دیسی گھی میں بنا انڈے کی زردی کا حلوا۔ دیسی گھی تو وہ پانی کی طرح اوک سے پی جاتے۔ پھر انھوں نے اسارے کی جگہ بیٹھک بنوالی اور دیسی گھی پینا بند کر دیا ۔جب پچھلا کوٹھا تڑواکر دو کمرے بنوائے تو زردی کا حلوا بھی بند ہو گیا۔ اورجب ان کی لکڑی کی ٹال آرا مشین کا کارخانہ بنی تو چیلے چپاٹے غائب۔ اب ان کے بچے شہر میں پڑھتے تھے اور وہ بیٹھک میں پڑے کھانستے رہتے تھے اورایک دن ان کا انتقال ہو گیا تو اس نے کفن چرانے کے لیے ان کی قبر میں آنکڑا ڈالا۔

    ’’آج تو بہت قیمتی کپڑا ملےگا۔ اس دفعہ کپڑا رام سروپ بزاز کے ہاں نہیں بیچوں گا۔ بےایمان بہت کم پیسے دیتا ہے۔ مگر رام سروپ بھی کیا کرے، اب قبرسے نکلتا ہی کتنا باریک اور خراب کپڑا ہے۔ جس دن اخبار میں یہ خبر چھپی کہ ہمارا قصبہ تحصیل ہو گیا ہے، اس دن دل شاد پٹواری کی قبر سے کتنا مہین کفن نکلا تھا۔ رام سروپ نے تو اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ مگر پھر مان ہی گیا۔ آخر تھا تواسی کی دکان سے خرایدا ہوا۔ لیکن حاجی وحید کے بیٹوںنے تو بڑا قیمتی کفن پہنایا ہوگا۔‘‘

    اس نے چھڑی میں آنکڑا کسا اور تختہ ہٹاکر قبر میں ڈال دیا۔ دو تین جھٹکے مارے پھر آہستہ آہستہ کھینچا۔ دیکھا تو کپڑا کیا تھا چیتھڑا تھا۔

    ’’رام سروپ تو دو آنے کو بھی نہیں پوچھےگا۔‘‘

    اس وقت اسے یاد آیا کہ استاد نے بتایا تھا۔ بہت دنوں کی بات ہے جب اس قصبے میں سب مکان کچے تھے اور برسات میں ہرآدمی کا چھپر ٹپکتا تھا۔ اس وقت استاد کے دادا نے جس قبر سے کفن چرایا تھا، اس میں سونے چاندی کے تاروں سے بنا ایک دوشالہ نکلا تھا۔

    بچہ گاڑی لے کر حاجی وحید کی دو منزلہ عمارت میں گھس گیا۔ کافی اندھیرا ہو چکا تھا۔ ’’ابھی اسے کئی گائوں گھومنا پڑےگا، شاید کہیں موت ہوئی ہو۔‘‘ خیرات پور، نارائن پور اور گنگا گڑھ ہوتا ہوا جب ویرپور کے قبرستان کے قریب پہنچا تو قبرستان میں روشنی نظرآئی ۔سکون کی سانس لی اورقبرستان کے باہر پلیا پربیٹھ گیا۔ لوگ مردے کو دفن کرکے واپس جا رہے تھے۔ اس نے چھپ کر واپس جاتے لوگوں کو دیکھا۔ ان کے چہروں پر نہ غم کے آثار تھے اور نہ موت کا خوف۔

    ’’یہ کون سی جگہ؟ یہ سچ مچ ویرپور کا قبرستان ہے یا وہ کسی اوردنیا میں آن بھٹکا ہے۔‘‘

    چاروں طرف نظریں گھمائیں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

    ’’کوئی بھی جگہ ہو مجھے کیا؟ ہے تو قبرستان ہی اور قبرستان بھی نہ ہو تو کیا ہوا، قبر تو ہے، جس میں ابھی ابھی کچھ لوگ مردے کو دفنا کر واپس گئے ہیں۔‘‘

    ’’چنبیلی مہک رہی ہے، لگتا ہے امیروں کا قبرستان ہے اور جولوگ دفنا کرگئے ہیں ان کے کپڑوںسے بھی عجیب عجیب خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔‘‘

    اس نے جھولے کو ٹٹولا، آنکڑا نکال کر چھڑی میں لگایا اور تازہ قبر کی تلاش میں چل دیا۔ قبر ملی تواس پر ببول کی ٹہنی کے بجائے گلاب کی شاخ اڑسی ہوئی تھی اور مٹی کیوڑے سے مہک رہی تھی۔ اس نے کدال نکالی اور قبر کے ایک کونے کو کھودنے لگا۔ وہ جتنا کھودتا خوشبو تیز ہوتی جاتی۔ اچانک ’’ٹن‘‘ سے آواز ہوئی۔ وہ اچھل گیا۔ اسے لگا کہ کدال لوہے کے کھوکھلے پہیے سے جالگی ہے۔ کدال پھرماری، آواز اور تیز ہوئی۔ وہ دوقدم پیچھے ہٹ گیا۔

    ’’اے خدا میں کہاں آن پہنچا ہوں؟ یہ لوگ کون تھے جومردے کو دفن کر گئے ہیں اور یہ آواز۔۔۔ یہ آواز کیسی ہے، کیا مٹی پتھرا گئی ہے یا میری عقل پر پتھر پڑگئے ہیں۔‘‘

    اس نے ہمت کی اور ایک بار پھر کدال ماری۔ اب اس کی سمجھ میں آ گیا کہ تختے کی جگہ پتھر کی پٹیا رکھی ہے۔

    ’’آج تو برسوں بعد حسرت پوری ہوگی، کسی امیر کی قبر ہے، شاید سونے چاندی والا دوشالہ بھی ہو۔‘‘

    اس نے ہاتھ سے پتھر کو کھسکا نا چاہا مگر پتھر بہت بھاری تھا۔ ’’وہ یہی تو چاہتا ہے کہ پتھر بہت بھاری ہو۔ ہلکا پھلکا پتھر رکھنے والے مردے کو دوشالہ کیا اڑھائیں گے۔‘‘

    اب اس نے جھولے سے چھینی ہتھوڑی نکال کرپتھر میں چھید کرنا شروع کر دیا۔ مٹی میں دبے پتھر کو کاٹنے کی بھنچی بھنچی آواز قبرستان کے سکوت کو توڑ رہی تھی۔ جب آواز تیز ہوتی ہے تو وہ کانپ جاتا ہے۔

    ’’کون؟‘‘

    ’’ارے یہ تو میرا وہم ہے۔ یہاں اندھیرے کے سواکون ہو سکتا ہے۔ بستی یہاں سے کوس بھر دور ہے۔‘‘

    پتھر بہت موٹا ہے۔ وہ پسینے میں شرابور ہو چکا ہے۔ قبر کی ساری مٹی کھود کر پتھر ہٹا دینا زیادہ آسان ہے۔

    ’’مگر پھاوڑا۔۔۔؟‘‘

    اس نے اپنے چاروں طرف دیکھا کہ شاید گورکن اپنا پھاوڑا بھول گیا ہو۔ کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ایک سیاہ غار۔۔۔ آنکھوں کے سامنے گول گول دائرے تیرنے لگے اور سر چکرانے لگا۔ پھر اس نے کدال اٹھائی اور پوری طاقت سے پتھر کے کونے پر دے ماری۔ پتھر چٹخ کر ٹوٹ گیا۔ اس نے آنکڑے والی چھڑی آڑے ترچھے بڑے سے چھید کے اندر ڈال دی۔ مگر اس کے پائوں الٹے پڑ رہے تھے۔ بیری کے سوکھے جھاڑنے اسے آ دبوچا۔

    ’’اف اتنا خوف؟ آخر بیس سال سے یہی کام کر رہا ہوں۔‘‘

    اس کے ہاتھ بری طرح کانپ رہے تھے۔ دل کو تسلی دی۔

    ’’یہ تو خوشی سے کانپ رہے ہیں، خوف کیسا۔‘‘

    وہ کپکپاتے ہاتھوں سے آنکڑے میں کفن پھنسانے کی کوشش کرنے لگا۔ آنکڑا بار بار کسی چیز میں لگ کر پھسل جاتا۔

    ’’شاید دوشالہ بہت دبیز ہے۔‘‘

    اس نے بڑی مہارت کے ساتھ زور لگاکر آنکڑے کے منہ کو کپڑے میں اٹکانے کی کوشش کی۔ محسوس ہوا کہ کوئی موٹی سی چیز آنکڑے میں پھنس گئی ہے۔ اس نے کھینچنا چاہا مگر آنکڑا نہیں کھنچا۔

    ’’بہت موٹا کپڑا ہے۔‘‘

    پھر زور سے جھٹکا دیا۔ اب آنکڑا پتھر کے چھیدسے باہر آ چکا تھا۔۔۔

    آنکڑے کو چھوا‘‘

    تو اس کے ہاتھ میں کوئی لجلِجی سی چیز آ گئی۔ یہ مردے کے جسم کی نچی ہوئی کھال تھی۔ وہ چیخ پڑا اور بےتحاشا بھاگنے لگا۔ وہ اپنی سمت بھول چکا تھا ۔وہ کب سے بھاگ رہا ہے؟ برسوں سے۔۔۔ صدیوں سے۔۔۔؟ یہ تو یاد نہیں مگر اب وہ جہاں آن پہنچا ہے۔ جگمگاتی روشنیوں والا کوئی بہت بڑا شہر ہے۔ اسے دورسے دھواں اگلتی چمنیاں نظر آ رہی ہیں۔ چمنیاں لوہے کی ہیں، مگر کھوکھلے پہیے والے زنگ آلود لوہے کی نہیں۔

    اب وہ شہر کے باہر عیسائیوں کے قبرستان کے قریب کھڑا ہے اور بری طرح ہانپ رہا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لی ہیں اورجب آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ شہر کی جانب سے گیس کی لالٹینوں کے ساتھ برات آ رہی ہے۔

    ’’برات؟ نہیں یہ تو عیسائیوں کا جنازہ ہے۔‘‘

    اسے اپنے استاد کی بات یاد آئی۔

    ’’جب کوئی عیسائی مرتا ہے تو اسے سونے کی زنجیر، گھڑی اور قیمتی کپڑے پہناکر تابوت میں بند کیا جاتا ہے۔‘‘

    ’’کیا سچ مچ آج بھی سونے کی زنجیر اور گھڑی پہناتے ہیں عیسائی لوگ؟‘‘

    ’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘

    اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ چمکتا ہوا ایک بڑاستارہ نظر آیا۔

    ’’ارے یہی تو ہے اپنی قسمت کا ستارہ ۔ کتنے دنوں بعد چمکا ہے۔‘‘

    اطمینان کی سانس لی اور قبرستان کے ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔

    ’’ان لوگوں کے چہروں پر خوف کیوں ہے؟‘‘

    ’’شاید موت کا خوف ہو۔‘‘

    ’’مگر کسی کے چہرے پر رنج والم کا نام ونشان بھی نہیں۔‘‘

    ’’استاد نے بتایا تھا کہ عیسائی کسی کی موت پر روتے پیٹتے نہیں ہیں۔ بس کالے کپڑے پہن لیتے ہیں۔‘‘

    اس نے دیکھا کہ قبر میں اتارتے وقت تابوت ایک طرف کو جھک گیا ہے۔

    ’’شاید تابوت کے اندربہت بھاری بھرکم مردہ ہے جو قیمتی سامان کے بوجھ سے ادھر ادھر لڑھک رہا ہے۔‘‘

    اب تابوت مٹی سے ڈھکا جا چکا تھا اور سینے پر کر اس کانشان بناتے لوگ قبرستان سے باہر نکل گئے تھے مگر دوچار لوگ اب بھی وہاں کھڑے تھے۔

    ’’ارے یہ لوگ اس طرح چپکے چپکے کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘

    اس نے کان لگاکر سننا چاہا مگر باتیں اتنی آہستہ ہو رہی تھیں کہ شاید بات کرنے والا بھی اپنی بات نہیں سن پا رہا تھا۔ سننے کی بہت کوشش کی مگر وہ صرف اتنا سن پایا

    ’’اب کوئی فکر کی بات نہیں سب یہی سمجھیں گے کہ۔۔۔‘‘

    پھر ان میں سے ایک نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکال کر سامنے کھڑے شخص کو دیے۔ دوسرے نے اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی باقی لوگ ادھر ادھر چلے گئے۔ وہ جلدی سے قبر کے پاس پہنچ گیا اور کدال سے مٹی کھودنے لگا۔ کدال سے کھود کھود کر اس نے قبر کی ساری مٹی کو پھوکا کر دیا تھا۔ کچھ ہی دیرمیں تابوت نظر آ گیا۔ مٹی ہٹائی اور تابوت کو چھوکر دیکھا۔ اس پر پیتل کی پتیاں جڑی ہوئی تھیں۔

    ’’اف تابوت بھی اتنا قیمتی!‘‘

    اس کے منہ سے نکلا۔ اپنی آواز کی باز گشت اجنبی آوازوں میں تبدیل ہوکر اسے سنائی دی تو اس نے چونک کر چاروں طرف دیکھا اور جلدی سے تابوت کی ایک کیل اکھاڑ دی۔ پھر کیل کو آنکھوں کے قریب لاکر اس طرح دیکھنے لگا کہ کہیں یہ کیل سونے کی تو نہیں ۔مگررات کی تاریکی میں اسے کچھ نظر نہ آیا۔

    ’’اندر کتنا خوبصورت مردہ ہوگا۔۔۔ تندرست ،صحت مند، گھڑی اورسونے کی زنجیر پہنے اور دوشالہ۔۔۔ نہیں بھی ہوا تو سونے کی زنجیر تو ہوگی ہی۔۔۔ جب وزیر خاں حج کر کے لوٹے تھے تو انھوںنے ایک ہاتھ کے بجائے دونوں ہاتھوں میں گھڑیاں پہن رکھی تھیں اور پھر عیسائیوں کی توبات ہی کچھ اور ہے، چارچار گھڑیاں بھی پہنا سکتے ہیں مردے کو۔‘‘

    وہ ہاتھوں میں چار چار گھڑیاں پہنے، گلے میں سونے کی موٹی زنجیر ڈالے اور سونے چاندی کے تاروں سے بنا، نگینے جڑا، بھاری دوشالہ اوڑھے بڑے بڑے شہروں کی چوڑی سڑکوں پر ٹہل رہا ہے۔

    بڑے سے بڑا سنار بھی اس کی زنجیر اور دوشالہ خریدنے کو تیار نہیں۔ خریدے بھی کیسے؟ کس کے پاس ہے اتنا روپیہ؟ اتنا قیمتی سامان توکوئی راجا ہی خرید سکتا ہے۔ اسے لگا کہ پیچھے سے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے۔

    ’’پولیس!‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    اس نے دیکھا کہ نہ اس کے کندھوں پر دوشالہ ہے اور نہ گلے میں سونے کی زنجیر۔ وہ تابوت کے پاس تنہا بیٹھا تھا۔ سامنے زمین پر قبر کی مٹی کے بچے کھچے ڈھیلے بکھرے پڑے تھے اور آسمان پر بڑا تارہ چمک رہا تھا۔ اس نے بہت احترام سے تابوت پر ہاتھ پھیرا۔ پیتل کی پتر کے نقوش ابھرے محسوس ہوئے تواس کی اکھڑی ہوئی سانسیں قابو میں آنے لگیں اور وہ انگلیوں کو ڈھیلا کرکے دھیرے دھیرے تابوت کو سہلانے لگا۔

    ’’اب دیر کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔ کھل جا سم سم ۔‘‘

    اس نے تابوت کے اوپر کا تختہ ہٹایا اور جلدی سے مردے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑکر اٹھانا چاہا مگرجب اس کے ہاتھ مردے کے بجاے تابوت کے نچلے تختے پر جالگے تو وہ لر زگیا۔ تابوت خالی تھا۔ بالکل خالی۔۔۔ وہ چیخا اور پھر چکرا کر اس طرح گر گیا جیسے کسی نے اسی کی کدال اس کے سر پر دے ماری ہو۔

    وہ اتنا ہلکا کیوں ہو گیا ہے؟ شاید اس کے جسم سے بہت کچھ نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔ وہ اندرسے بالکل خالی ہو چکا ہے۔ اس کی پسلیاں گلنے لگی ہیں۔ ایک ایک کرکے سب گلتی جا رہی ہیں، گوشت بھی سڑچکا ہے اور کھال پر زنگ لگ گیا ہے۔ اب وہ بالکل کھوکھلا ہو چکا تھا۔

    ’’اے خدا جو باہر ہے وہی اندر ہے اور جو۔۔۔‘‘

    اس نے سوچا اور وہاں سے بھاگنے کے لیے زور لگایا۔ وہ بھاگ تو نہ سکا مگر زمین پر لڑھک پڑا اور اتنا تیز لڑھکنے لگا کہ اگر رکنا بھی چاہے تو نہ رک سکے۔ وہ لڑھکتا رہا۔ چھوٹے بڑے آڑے ترچے راستوں پر لڑھکتا رہا۔

    اسے محسوس ہوا کہ وہ زنگ آلود لوہے کا کھوکھلا پہیا ہے اور کوئی شخص اسے مکا کے ٹھٹھیرے سے مار مار کر تیزی سے لڑھکا رہا ہے۔ وہ لڑھکتا رہا، اس مردے کی مانند جو تابوت میں تھا ہی نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے