Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری موت

عوض سعید

دوسری موت

عوض سعید

MORE BYعوض سعید

    آج خلاف معمول ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی جوزف نے اپنے کمرے کا جائزہ لیا، ڈرائنگ روم کا چوبی دروازہ جس پر ہلکے آسمانی رنگ کا پینٹ چڑھا ہوتا تھا اس پر صلیب کے نشان کو کسی نے بے طرح کھرچ دیا تھا، عقبی کھڑکی کے دونوں شیشوں پر ہلکی ہلکی خراشیں آ گئی تھیں، بستر پر سلوٹیں پڑی تھیں اور ارک کے سفید تکیے کے غلاف پر جابجا خون کے سرخ سرخ دھبے تھے۔

    ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اسپرنگ کے گدے وار پلنگ کے نیچے سے ایک کالے رنگ کی بھیانک بلی جوزف کے پیروں کے پاس آ کر لوٹنے لگی، اس کے کان کٹے ہوئے تھے اور کانوں کے لٹکتے ہوئے حصوں سے خون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔

    جوزف جو اونچے پورے قد کا ایک وجیہ انسان تھا، ایک لمحے کے لیے بلی کو اس عالم میں دیکھ کر خوفزدہ ہو کر رہ گیا۔ اس نے ہاتھوں سے صلیب کا نشان بناتے ہوئے سامنے والے چرچ کی طرف دیکھا جہاں یسوع مسیح کا اسٹیچو کھڑا تھا جیسے مسیح نے جوزف کے دل کی دھڑکنوں کو قریب سے سن لیا ہو۔

    اس نے سلک کی دھلی دھلائی بش شرٹ اور ٹیری وول کی پتلون پہن رکھی تھی، اس کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی چمک تھی جنھیں دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے سارے جہاں کی کلفتیں اس کی آنکھوں میں بے اختیار سمٹ آئی ہوں۔ وہ کھڑا کھڑا مریل سی بیمار بلی کو بغور دیکھتا رہا اور پھر وہ آپ ہی آپ بڑبڑایا:

    ’’خون کتنا ارزاں ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

    دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر سرمئی بادلوں کے قافلے قطار اندر قطار دوڑنے لگے۔ پھر اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں، ڈرائنگ روم کی کھڑکیوں کے شیشے ہوا کے طوفانی جھونکوں کی تاب نہ لاکر ٹوٹ پھوٹ گئے۔ وہ کمرے سے ہوتا ہوا باغیچے میں پہنچا۔ ہری ہری گھاس مسلی ہوئی تھی، دیوار سے لپٹی ہوئی انگور کی لانبی بیل بھی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکی تھی۔

    جوزف ایک سیدھا سادہ کرسچین تھا جس کی دل موہ لینے والی شخصیت نے اسے عام انسان سے بہت اونچا کر دیا تھا۔ اسے اپنی جنم بھومی پر ایسا ہی فخر تھا جیسے کسی ماں کو اپنے لائق سپوت پر ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں کئی طوفان آئے تھے لیکن اس کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے تھے لیکن پچھلے دنوں سے طوفانی ہوائیں چل رہی تھیں اس کی نوعیت کچھ اور تھی، یوں لگتا تھا جیسے اس کے اطراف زہریلی گیس کے غبارے اڑ رہے ہوں، اسے ان اڑنے والے غباروں سے نفرت تھی جن میں انسانی زندگی کی حرارت سلب کرنے کی پوری قوت تھی۔

    کیا سوچ رہے ہو جوزف؟ وہ دیکھو! اس لانبی ڈاڑھی والے بوڑھے کی طرف جس کے اطراف کئی نوجوان ہاتھ باندھے مودبانہ انداز میں کھڑے ہیں۔ وہ تمھاری بیوی لوسی اور ننھے اسٹیفن کے لیے زہر ہے، ایک ایسا زہر جو آہستہ آہستہ جسم میں داخل ہو کر تمھیں موت کے غار کی طرف لے جائےگا۔ یہی بہتر ہے کہ تم اپنی اس جنم بھومی کو چھوڑ دو۔

    جوزف کے اندر کے انسان نے کہا ’’نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، میں اس بوڑھے ابلیس کا گا گھونٹ دوں گا۔ یہ لہلہاتے ہوئے خوب صورت کھیت گیہوں کی نازک بالیاں سر اونچا کیے مجھے پکار رہی ہیں۔ نہ جاؤ جوزف! نہ جاؤ!‘‘

    ’’پاگل نہ بنو جوزف۔ تمھیں اپنا نہیں تو اپنے بیٹے اسٹیفن کا خیال رکھنا ہوگا، اس سرزمین پر تمھارا جینا اب دوبھر ہوگا، میری بات مانو جوزف یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘

    پھر ایک منحوس دن ایسا ہولناک طوفان آیا کہ جوزف کے قدم لڑکھڑا گئے، وہ لوسی کی آغوش میں سر رکھ کر بچوں کی طرح سسکیاں بھر کر رونے لگا۔

    ’’کیا لوسی! سچ مچ ہمیں اس جنم بھومی کو چھوڑنا پڑےگا؟‘‘

    ’’ہاں جوزف!‘‘

    جوزف چپ چاپ لوسی کے چہرے کو تکتا رہا، اس کی بلند چوڑی پیشانی پر آئی ہوئی تردد کی گہری لکیریں صاف اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ آج اس کی زندگی میں ایک اہم موڑ آنے والا ہے، اُس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا، نوجوان، بوڑھے ابلیس کے آگے ابھی تک حلقہ بنائے کھڑے تھے۔

    ’’صبح سے پہلے یہ گھر ہمیں چھوڑ دینا چاہیے جوزف، کل جیکب کی ساری فیملی بھی ہجرت کر چکی ہے۔‘‘ لوسی نے درد بھری آواز میں کہا۔

    اس بھرے پرے گھر کی ایک ایک چیز کو سنوارنے کے لیے جوزف نے جو محنت کی تھی اسے یوں چھوڑ کر جاتے ہوئے اسے بڑے دکھ کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے آخری بار حسرت بھری نگاہوں سے اپنے گھر کی طرف دیکھا اور اسٹیفن کو گود میں اٹھائے باہرسے نکل پڑا۔ لوسی کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی اٹیچی تھی جس میں کپڑوں کے علاوہ تھوڑے بہت پیسے بھی تھے۔ جب جوزف باغیچہ کے پچھلے حصے سے نکل کر سڑک کے کنارے پر آیا تو اس کا دل ڈوب گیا،اسے اپنا ایک ایک قدم من من بھر وزنی لگ رہا تھا، لوسی بھی یوں چل رہی تھی جیسے اس کا سب کچھ لٹ چکا ہو۔

    فضا کے ذرے ذرے پر سکوت طاری تھا، سامنے سرو کے لانبے درختوں پر پرندے یوں چپ چاپ بیٹھے تھے جیسے انھیں بھی اس افسانۂ غم سے تعلق ہے۔ دوسرے دن جب جوزف شرنارتھیوں کے کیمپ میں داخل ہوا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ لوسی بھی اداس اداس تھی اور ننھا اسٹیفن رو رہا تھا۔ ’’ڈیڈی! ہم یہاں نہیں رہیں گے۔۔۔ وہ بنگلہ کہاں ہے جہاں ہم پہلے رہا کرتے تھے، وہ باغ۔۔۔ وہ پانی کا خوبصورت چشمہ۔۔۔ ہمیں وہیں لے چلیے ڈیڈی! ہمیں وہیں لے چلیے۔‘‘

    ’’اسٹیفن وہ دیکھو اس پار جو خوبصورت مکانات تعمیر ہو رہے ہیں نا وہ ہمارے لیے ہی بنائے جا رہے ہیں۔‘‘

    ننھے اسٹیفن کی نگاہیں اچانک مہاجر کالونی کی طرف پلٹیں جہاں باز آباد کاری کا کام تیزی سے ہو رہا تھا۔

    اسٹیفن مچل سا گیا۔ ’’ہم کل ہی یہاں سے نئے مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ ڈیڈی! یہاں میرا دم گھٹا جا رہا ہے۔‘‘

    ’’ہاں بیٹے ضرور جائیں گے۔‘‘

    ’’وہ دیکھو ڈیڈی دروازے پر کون کھڑا ہے؟ اسٹیفن نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔‘‘

    ’’وہ آدمی ہمارے لیے کھانا لایا ہے بیٹے۔‘‘

    ’’ہم بھکاری تھوڑی ہی ہیں ڈیڈی جو وہ ہمارے لیے کھانا لے کر آیا ہے۔‘‘ اسٹیفن نے بڑی معصومیت سے کہا۔

    ’’نہیں بیٹے ہم بھکاری کیوں ہونے چلے، آج ہم پناہ گزیں کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں نا اس لیے وہ آدمی ہمارے لیے کھانا لے آیا ہے اور کل جب ہم سروس سے لگ جائیں گے تو خود پکا لیا کریں گے۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر جوزف نے اُس آدمی کے ہاتھ سے کھانے کے برتن لے لیے جو اسٹیفن کی باتیں سن کر مسکرا رہا تھا، اس کی آنکھوں میں آنسو امنڈ آئے تھے۔

    وہ جوزف کے ہاتھ میں کھانے کے برتن تھما کر آگے بڑھ گیا۔ جب چلا گیا تو جوزف نے لوسی کو آواز دی، لوسی دھیرے سے اٹھ کر جوزف کے برابر بیٹھ گئی۔ اسٹیفن بھی مسکراتا ہوا لوسی کی گود میں آ بیٹھا۔ جوزف نے جب پہلا نوالہ اٹھایا تو اسٹیفن نے منہ کھول کر کہا۔ ’’ڈیڈی پہلے ہم بعد میں آپ‘‘ جب وہ تینوں سیر ہو کر کھا چکے تو لوسی نے اسٹیفن کو اپنے بستر پر لا کر سلا دیا، جب وہ میٹھی نیند سو گیا تو لوسی نے جوزف سے کہا۔ ’’ذرا آسمان کی طرف تو دیکھو۔‘‘ جوزف نے آگے بڑھ کر آسمان کی طرف دیکھا، درمیانی تاریخوں کا روشن چاند آسمان کے اوپر اٹھتا ہی چلا جا رہا تھا اور دودھیا چاندنی مہاجر کالونی کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔ اچانک اسے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی شے اس کے پیروں سے لپٹ گئی ہے اس کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکل گئی، اس کے قریب ہی کٹے کانوں والی کالی بلی کانپتی ہوئی کھڑی تھی!

    افسانہ: ۸

    کتبہ

    بات صرف اتنی تھی کہ ایک بہت بڑے شاعر کی قبر کتبے سے محروم تھی، اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی گئی اور جب کتبے کی تجویز منظور ہو گئی تو کنوینر نے خالی نگاہوں سے مجمع کی طرف دیکھا، لوگ آہستہ آہستہ کھسک رہے تھے۔

    ’’کتبے کے لیے پیسہ چاہیے۔‘‘

    ’’بالکل چاہیے صاحب! بھلا بغیر پیسے کے کہیں کتبہ بھی تیار ہوا ہے؟‘‘

    ’’لیکن سوال صلیب بدوش ہونے کا ہے۔‘‘

    ’’بھلے مانس سیدھی زبان میں کیوں بات نہیں کرتے۔‘‘

    ’’ہاں بھئی! ہماری زبان جب تک ادق رہے گی بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔‘‘

    ’’بیل چڑھانے کے لیے پانی بھی تو چاہیے۔‘‘

    ’’پانی کی ہمارے دیس میں کیا کمی ہے۔‘‘

    ’’آپ کا مطلب سیلاب سے ہے نا؟‘‘

    ’’ساتھیو! جس مقصد کے لیے ہم جمع ہوئے ہیں وہ پورا ہوتا دکھا ئی نہیں دیتا۔‘‘

    ’’یقیناً پورا ہوگا جی۔۔۔ آپ کام تو شروع کروا دیں۔۔۔‘‘

    ’’لیکن سوال تو پیسوں کا ہے، افسوس کہ ایک ایسے دور میں جب کہ قبریں مٹ رہی ہیں۔۔۔‘‘

    ’’تو مٹا کریں۔‘‘

    ’’کیا بک رہے ہو۔‘‘

    ’’تمھیں یہاں کس نے بلایا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’میں بنفسِ نفیس آنے کا عادی ہوں، میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں،’’ اتنے برس کے بعد کتبے کا خیال کیوں آیا، پھر ایسی صورت میں جب کہ شاعر نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کی قبر پر کسی قسم کا کتبہ نہ ہو۔

    ’’شاعر مرتا کب ہے، وہ تو مرمر کر جیتا ہے۔‘‘

    ’’کتبہ یقینی لگےگا؟‘‘

    ’’بالکل بجا۔‘‘

    ’’شاعر کی قبر کہاں ہے؟‘‘

    ’’قبرستان میں۔‘‘

    ’’عجیب بہروپیوں سے سابقہ پڑا ہے۔‘‘

    ’’قبر تو ظاہر ہے قبرستان ہی میں ہوگی، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ قبر کس محلے کے قبرستان میں واقع ہے؟‘‘

    ’’حیف کیا زمانہ آ گیا کہ لوگ مشہور شاعر کے مدفن سے واقف نہیں۔‘‘

    ’’اسی لیے تو کتبے کی ضرورت ہے۔‘‘

    ’’اتنی دیر سے بحث ہو رہی ہے کیا شام کی چائے نہیں ملےگی۔۔۔؟‘‘

    ’’ضرور ملےگی صاحب۔‘‘

    ’’کیا تم نے چاند دیکھا ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں بھئی! دیکھا ہے۔۔۔ بالکل الٹا ہو کر رہ گیا ہے۔۔۔‘‘

    ’’یہ شگون اچھا نہیں ہے۔‘‘

    ’’ذرا یہاں سے کھسک جاؤ۔۔۔ یہ بڑے وہمی لوگ ہیں۔‘‘

    ’’کیا روزی سے ملاقات ہوئی تھی؟‘‘

    ’’ہوئی تو تھی۔‘‘

    ’’تو پھر کیا کہا اس نے؟‘‘

    ’’کورٹ شپ کو ابھی لانگ ہونا چاہیے۔‘‘

    ’’ساتھیو! کتبے کی بات تو ادھوری رہ گئی۔۔۔‘‘

    ’’وہ بات جو طے ہو چکی ہے وہ ادھوری کس طرح رہ سکتی ہے؟‘‘

    ’’تو کل سے کام شروع کروا دیں۔‘‘

    ’’بالکل۔۔۔ یقیناً۔۔۔‘‘

    ’’ذرا ٹھہرئیے قبر کی شناخت کون کرےگا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں بھئی! یہ کتبے سے زیادہ اہم سوال ہے۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی غریب ادیب کی قبر پر ہمارے شاعر کا کتبہ چڑھا دیا جائے۔۔۔‘‘

    ’’ساتھیو! یہ مسئلہ بھی حل ہو جائےگا، ہماری محفل میں علامہ برکت بھی تو ہیں، وہ ان کے جنم جنم کے ساتھی تھے۔‘‘

    ’’یار خالی پیٹ میں چائے زہر کی طرح چبھ رہی ہے۔‘‘

    ’’گھر سے کھاکر کیوں نہیں آتے؟‘‘

    ’’جی نہیں چاہا۔‘‘

    ’’اب یہاں سے کہاں چلیں گے۔‘‘

    ’’فردوس‘‘

    ’’وہاں کیا کام ہے؟‘‘

    ’’مجھے ایک عزیز سے ملنا ہے۔‘‘

    ’’کیا میں بھی تمھارے ساتھ چل سکتا ہوں۔‘‘

    ’’اگر اس طرح ایک کے پیچھے ایک سب ہی باہر نکل جائیں تو یہاں کون رہےگا؟‘‘

    ’’تم اس کی فکر نہ کرو، یہاں کافی لوگ ہیں، ہر آدمی ہماری طرح تھوڑا ہی ہوتا ہے؟‘‘

    ’’آدمی بہر حال آدمی ہوتا ہے۔‘‘

    ’’چلو، اچھا ہوا ہم انسان ہونے سے بال بال بچ گئے۔‘‘

    ’’یہ لوگ تو صرف چائے ہی پر ٹرخا رہے ہیں۔۔۔‘‘

    ’’کیا کھانا بھی تناول فرمانے کا ارادہ ہے۔۔۔؟‘‘

    ’’وہ برآمدے میں کون صاحب کھڑے ہیں۔۔۔؟‘‘

    ’’کوئی بھی ہوگا یار! میری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘

    ’’تمھیں چائے کی پڑی ہے، مجھے گھر جلد لوٹنا ہے، محلے کی فضا خراب ہے۔‘‘

    ’’موسم بھی خراب ہے۔‘‘

    ’’ساتھیو! میں نے آپ کا بہت وقت لیا خدا کا شکر ہے کہ یہ مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو گیا۔‘‘

    دوسرے دن لوگوں نے دیکھا۔۔۔ برسوں بعد شاعر کی قبر پھول سے لدی ہوئی تھی، اطراف میں لوہے کی رنگین جالی لگوا دی گئی تھی اور سنگ مرمر کا صاف و شفاف کتبہ سر اونچا کیے کھڑا تھا۔۔۔ لیکن سب سے عجیب بات یہ تھی کہ شاعرِ مرحوم کے پہلو میں دفنائے ہوئے ایک آدمی کی قبر کا کتبہ غائب تھا۔۔۔!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے