Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک چھوٹی سی پرانی پریم کہانی

ویکوم محمد بشیر

ایک چھوٹی سی پرانی پریم کہانی

ویکوم محمد بشیر

MORE BYویکوم محمد بشیر

    یہ واقعہ تقریباً بیس برس قبل ہوا تھا مگر مجھے اس طرح یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ان دنوں والی چستی اور ہمت کہاں چلی گئی۔ اس زمانے میں صرف ایک قوت ہوا کرتی تھی۔ جوانی کی امنگ اور بس۔ دل نے جو کہا وہ کر گذرے۔ اے حسن اور اندھے یقین کی عمر! میں تجھے سلام کرتا ہوں۔

    مفلسی تھی۔۔۔ مستقل مفلسی۔ بھوک ہر چیز کی، پیاس ہر چیز کی۔ ہم کسی سے، کسی نامعلوم چیز سے خفا تھے، شدید طور پر خفا۔ آدرش پسندی کی حسین تابناکی میں ہم مست تھے۔ ہر چیز ہماری مرضی کے مطابق ہوگی، ہم دنیا کو پھر سے بنائیں گے، ہم کائنات کو خون سے دھوکر صاف اور نیا کر دیں گے! ہم خدا کے منکر تھے، ہم انقلابی تھے۔ میں ایک ایسے گروہ کا لیڈر تھا جسے قتل کرنے میں بھی کوئی تکلف نہیں تھا۔ اے دہشت پسندی اور خنجر و بندوق کی عمر! میں تجھے سلام کرتا ہوں۔

    میرے قلم سے آگ اور بارود نکلتی تھی۔ بربادی اور تاراجی مقصدحیات تھی۔ ان نظریات سے سرشار کوئی تین سو نوجوان ہوں گے۔ ہم ایک اخبار نکالتے تھے جس کا ایڈیٹر میں تھا۔

    اخبار کا دفتر ماچس کی ڈبیا سے شایدہی کچھ بڑا ہو۔

    ہم رہتے بھی وہیں تھے۔ ہمارے شب و روز سوچنے میں گذرتے تھے۔ ہم لکھتے تھے۔ ہمارے دن اور ہماری راتیں بحث مباحثو ں میں گذرتی تھیں۔ ہم دن رات منصوبے بناتے تھے۔

    میری بات اور میری تحریر صحیفہ آسمانی کی بات اور صحیفہ آسمانی کی تحریر سمجھی جاتی تھی۔ میرا انتہائی احترام کیا جاتا تھا اور میں متفقہ لیڈر تھا۔ مگر اس کے باوجود مجھے اپنے دل میں کسی اہم چیز کی ضرورت اور کمی محسوس ہوتی تھی اور افسردگی کی رمق کے ساتھ ساتھ مجھے کچھ یوں محسوس ہوتا جیسے میری سانس گھٹ رہی ہو۔

    ایسی کیفیت دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے مناسب نہیں تھی۔ اس سب کے باوجود میرے اندر گانے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ میرے دل میں دو قسم کے جذبات آپس میں نبرد آزماتھے۔ سانس لینے میں دشواری کا بڑا غالب احساس تھا۔

    جب کبھی ایسا محسو س ہوتا کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے میں صحن میں نکل جاتا۔ میں دیوار کے قریب کھڑا ہو جاتا اور سامنے پھیلی ہوئی وسیع و عریض دنیا پر نظر دوڑاتا۔ ایسے ہی کھڑے ہوئے ایک دن میں نے ایک نہایت حسین لڑکی دیکھی۔

    ’’سبحان اللہ۔۔۔‘‘

    ا س کی محبت میں گرفتار ہونے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ اے چاہے جانے کے لیے تخلیق کی ہوئی دیوی! میں تیرے سامنے سر جھکاتا ہوں۔

    میں وہاں کھڑا اس کی طرف تک رہا تھا اور میرے دل میں گیت تھے۔ میرا سارا عمل عبادت کا، پوجا کا عمل تھا۔

    وہ اس سب سے بےخبر تھی۔۔۔ اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں تھا۔

    میرا اسے دیکھنا محض اتفاق تھا۔ میں ایک خاص جگہ پر کھڑا ہوا ایک خاص سمت میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مجھے نظر آ گئی۔ اچانک مجھے لگاکہ جہاں میں کھڑا تھا اور جہاں سے میں نے اسے دیکھا تھا وہ جگہ ایک مقدس اور متبرک جگہ ہو گئی۔ میں کہنیاں دیوار پر اور انگلیاں سر پر رکھے ہوئے کھڑا تھا اور مشرق کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دیوار کی طرف دوسری کیلوں کا ایک باغ تھا۔ باغ کے چاروں طرف ایک نیچی چہار دیواری بنی ہوئی تھی۔ اس کے پرے بڑی سڑک تھی جو شمال سے جنوب کی طرف جاتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف دو منزلہ عمارتیں تھیں۔

    میرے بائیں طرف ایک گندا نالہ تھا جوشہر کو دو حصوں میں بانٹتا ہوا مشرق سے مغرب کی طرف بہتا تھا۔ نہر کے دونوں طرف اونچی دیوار تھیں۔ نہر کے دوسری طرف پہلے ناریل کا ایک درخت ہوتا تھا۔ لوگوں نے دیوار درخت کے بالکل قریب بنا دی تھی۔ بعد کو درخت کاٹ دیا گیا۔ درخت کے کٹ جانے کی وجہ سے دیوار میں ایک رخنہ آ گیا۔

    میں نے اسے اسی رخنے سے دیکھا تھا۔ گوری اور نہایت متناسب جسم والی حسین لڑکی۔ چولی میں کسی ہوئی ا س کی سخت اور گول چھاتیاں نمایاں تھیں۔ وہ وہاں کھڑی ہوئی خواب دیکھ رہی تھی اور اس کے بال شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔

    اتنی محویت سے وہ کیا خواب دیکھ رہی ہے؟ کیا وہ مجھے نہیں دیکھ سکتی؟ وہ میری طرف کیوں نہیں دیکھتی؟

    میں نے وہیں کھڑے کھڑے کھنکھارا۔ ایک دفعہ نہیں، دس دفعہ بھی نہیں۔ یہ تو کھانسی کا ایک سلسلہ تھا۔

    بےسود۔ اس نے سنا بھی نہیں۔ وہ میری کھانسی کی آواز سنتی کیوں نہیں؟

    اس کے بعد زندگی کھانسی کا ایک سلسلہ ہوکر رہ گئی۔ جاؤ، جاکر مقدس مقام پر کھڑے ہو جاؤ، دیوار کی دراڑ سے جھانکو، وہ آس پاس ہے کہیں؟ اگر ہوتی تو میں فوراً کھانسنا شروع کر دیتا۔ میں مختلف اقسام کی کھانسیوں کا ذخیرہ لیے وہاں کھڑا رہتا۔ کبھی کبھی وہ گوشت پوست میں، بجلی کے ایک کوندے کی طرح نظر آ جاتی اور فورا ہی کھانسیوں کی کبھی نہ ٹوٹنے والی ایک لے شروع ہو جاتی۔ مگر بےنتیجہ۔ اس نے میری کھانسیوں کی آواز نہیں سنی۔ اس نے میری طرف کبھی نہیں دیکھا۔

    ڈیڑھ مہینہ اسی طرح گذر گیا۔ اس وقت تک میں اس گھر اور اس کے پاس پڑوس کے بارے میں کافی کچھ جان جا چکا تھا۔ ان میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ وہ گھربار والے عزت دار لوگ تھے اور باعزت زندگی گذار رہے تھے۔

    میں جس کی پوجا کرتا تھا وہ ایک نوکرانی تھی۔

    اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا محبت جھونپڑی اور محل کے باہمی فرق جیسے چھوٹے چھوٹے امتیازات کو خاطر میں لاتی ہے؟ محبت تو دائمی ہوتی ہے، مقدس ہوتی ہے!

    بہرحال اس نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ میں اس کے وجود کے افق پر نمودار نہیں ہوا تھا۔

    میں وہاں اپنی کھانسیوں اور کھنکھاروں کا ذخیرہ لیے کھڑا رہا۔ بالآخر میں نامراد اور مایوس ہو گیا۔ میری تمام کھانسیاں اور کھنکھاریں ضائع ہو گئیں۔ میری دنیا تاریک ہو گئی۔

    حیرت! حیرت! اس نے مجھے دیکھا! چاندسی صورت نے تسکین دینے والی، زندگی بخشنے والی کرنیں بھیجیں۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے دیکھ کر ہنسی۔ میں ہنس نہیں سکا۔ ہنسی کیا کمزوری کی علامت نہیں ہے؟ مگر میرے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہو گئی۔ میں نے ایک خزانہ پا لیا تھا۔ میری دیوی نے میری موجودگی کو تسلیم کرنے کی عنایت کی تھی۔۔۔ میں خوش نصیب ہوا۔

    میرا دکھ غائب ہو گیا۔ میں اپنی سرگرمیوں میں مزید توانائی اور شدت کے ساتھ کود پڑا۔

    ہم ہر روز ایک دوسرے کو دیکھتے۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی۔ میں نے بھی ہنسنا سیکھ لیا تھا۔

    پیار محبت سے لبریز دن گذرتے رہے۔

    ایک شام جھٹپٹے کے وقت بوندا باندی ہونے لگی۔ نیکر اور سویٹر میں ملبوس، نہر کے اپنی طرف والے کنارے پر کھڑا میں دیوار کے رخنے میں سے جھانک رہا تھا۔ ایک خنجر میری کمر سے بندھا ہوا تھا۔ ایک دہشت گرد کوکسی نہ کسی مہلک ہتھیار سے ہر وقت لیس رہنا چاہیے۔۔۔ ہے نا؟‘‘

    میں اپنی محبو ب کا انتظار کر رہا تھا۔ مکان سے آنے جانے والے لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ جب کوئی آتا تو میں یوں جھک جاتا جیسے مجھے پیشاب کرنا ہو۔ غرض اسی طرح جھکتے اور کھڑے ہوتے میں وہاں کچھ دیر انتظار کرتا رہا۔ اچانک دیوار کے رخنے پر سفیدی سی چھا گئی۔ میرے سارے جسم میں ایک حرارت سی دوڑ گئی۔ میرا دل بہت زور سے دھڑکا۔ میرا حلق خشک ہو گیا۔ میں نے ایک مسحور کن شیریں آواز سنی۔ ’’تم بارش میں کیوں کھڑے ہو؟‘‘

    ’’ارے کوئی بات نہیں۔‘‘

    جذباتی لمحے سرعت کے ساتھ گذرتے رہے۔ اس سب سے بےخبر، بجلی کے قمقموں سے روشن سڑک پر سے لوگ گذرتے رہے۔ سبزے میں کہیں کسی سانپ نے ایک مینڈک کو پکڑ رکھا تھا۔ میں نے مینڈک کی کربناک ٹرٹر سنی۔ تاریکی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ نظر آنے والی چیزیں کم سے کم ہوتی جا رہی تھیں۔ اس نے پوچھا، ’’کیا تم چلے گئے؟‘‘

    ’’نہیں۔ کیا میں ادھرآؤں؟‘‘

    ’’کس لیے؟‘‘

    ’’یوں ہی۔‘‘

    ’’نہیں!‘‘

    ’’میں آؤں گا!‘‘

    ’’ہمارے پاس کتا ہے!‘‘

    ’’کوئی بات نہیں۔‘‘

    ’’وہ لوگ اب کھانا کھانے آ رہے ہوں گے۔‘‘

    ’’اس سے کیا ہوتا ہے؟ میں آرہا ہوں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔‘‘

    وہ بھاگی۔ دیوار کے رخنے پر پھر سیاہی چھا گئی۔

    میں دیوار کے اوپر بیٹھ گیا۔ سڑک سے آنے والی روشنی نہر پر بھی پڑ رہی تھی اور دیوار کے اوپر بھی۔ میں نے آہستہ سے نہر میں اترنے کی کوشش کی۔ میری ٹانگیں زمین تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ میں نے اپنے پنجے نیچے ٹکائے اور دیوار ہاتھوں سے چھوڑ دی۔ نہر میں گھٹنے گھٹنے کیچڑ تھا اور کمر تک پانی۔ مجھے ایسا لگا کہ نہر میں خاردار جھاڑیاں اور ٹوٹے ہوئے شیشوں کے ٹکڑے بھی تھے۔ کیچڑ کی وجہ سے میرے پاؤں بہت بوجھل ہو گئے تھے جیسے ان میں پتھر باندھ دیے گئے ہوں۔ میں نے آگے کھسکنا شروع کیا اور نہر کے بیچ میں پہنچ گیا۔ میں وہاں پھیلی ہوئی روشنی میں کھڑ ا ہو گیا۔ ایک ایک قدم آگے بڑھانا دشوار ہو رہا تھا۔ میں کیچڑ میں پھنسا ہوا تھا۔ لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ بہرحال مجھے آگے بڑھنا تھا، کسی نہ کسی طرح بڑھا۔ بمشکل تمام، بہت آہستہ آہستہ میں نہر کے دوسرے کنارے تک پہنچ گیا۔ میں نے نظر اوپر اٹھائی اور مبہوت رہ گیا۔

    پانی کے اندر سے ایک دیوار اٹھ آئی۔۔۔ آسمان کو چھوتی ہوئی دیوار۔۔۔ اب کیا کیا جائے؟ میں دیوار پر کیسے چڑھوں؟ کیا واپس لوٹ جاؤں؟ نہیں، مجھے اوپر تو جانا ہی ہوگا۔ دیوار پر، میری دسترس سے پرے، پیپل کی ایک جھاڑی لگی ہوئی تھی۔

    میں نے اچھل کر جھاڑی کو پکڑنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنے آپ کو دیوار پر بیٹھا ہوا پایا۔

    ’’ارے!‘‘ اسے حیرت ہوئی۔

    مگر میں اب بھی اس سے بہت دور تھا۔ نیچے کود بھی نہیں سکتا تھا۔ ذرا فاصلے پر، گھر کی مغربی جانب ایک چھوٹی دیوار تھی۔ یہ دیوار نیچی تھی۔ میں دیوار کے اوپر بلی کی طرح چلتا رہا اور پڑوس کے گھر کے احاطے میں کودنے کی راہ نکال لی۔ وہاں میں نے مویشیوں کا ایک باڑا دیکھا۔ وہاں سے گذرتے میں سوکھی پتیاں میرے پیروں کے نیچے کھڑکھڑ کرتی رہیں۔

    میں نے زمین پر پھونک پھونک کر قدم رکھنے شروع کیے یہاں تک کہ اس نیچی دیوار تک پہنچ گیا۔ وہ خاموشی کے ساتھ دیوار کی دوسری طرف آ گئی۔

    میں نے آہستہ سے اپنے ہاتھ دیوار کے دوسری طرف بڑھائے اور اس کے کندھوں کو پکڑ کر اسے دیوار کے اوپر لے آیا۔ اس کی چولی، کسی نکیلے پتھر سے رگڑ کھانے کی وجہ سے چر سے پھٹ گئی۔

    اور پھر میری محبوب نے کچھ اس طرح میرے منھ پر دو زوردار تھپڑ مارے:

    اس نے کہا، ’’ارے، وہ لوگ کھانا کھانے آ رہے ہوں گے۔ تم چلے جاؤ!‘‘ جب اس نے یہ بات کہی تو اس کی بدبودار سانس میری ناک میں آئی اور میرے چہرے پریوں لگی جیسے کسی نے بہت تاک کر تھپڑمار دیا ہو۔ تعفن سے میرا سر جھک گیا۔

    میں پیچھے ہٹا۔ بہت سی جھاڑیاں میرے پاؤں تلے دب سی گئیں۔ دور کہیں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔

    اس نے پھر کہا، ’’چلے جاؤ!‘‘ اور یہ کہہ کر وہ دیوار سے کو دی اور چلی گئی۔

    کتوں نے بھو نکنا شروع کیا۔ اتنے بہت سارے کتے تھے وہاں؟

    میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا نیچی دیوار پر چڑھا، وہاں سے اونچی دیوار پر پہنچا۔ میں آگے چلتا گیا یہاں تک کہ اچانک دیوار اور صحن تیز روشنی میں ڈوب گئے۔

    میرے سامنے پردہ تھا توصرف ایک کیلے کے پتے کا۔ پتا ہوا سے ہلےگا اور میں پھر روشنی میں نظر آنے لگوں گا۔

    اسی وقت میں نے دیکھا کہ میرے کچھ کامریڈ ساتھی میرے کمرے کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے بڑی آسانی سے مجھے دیکھ لیا ہوتا، لیکن انہوں نے نظر نہیں اٹھائی۔ وہ مجھ پر شبہ کیسے کر سکتے ہیں؟

    دو یا تین عورتیں اور دو مرد آپس میں باتیں کرتے ہوئے نیچے صحن میں آئے۔ ان میں سے سب سے کم عمر آگے بڑھا اور اس طرف آیا جدھر میں دیوار پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ مجھے پکڑنے آ رہا تھا۔ یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ اف کیسی بےعزتی!

    ’’تو وہاں کیا کر رہا ہے بدمعاش؟‘‘ مجھے پکڑ کر وہ مجھ سے پوچھےگا۔

    ایک بھیڑ جمع ہو جائےگی۔ ’’ارے یہ اس آتش بیاں اخبار کا ایڈیٹر ہے نا؟‘‘

    یااللہ! اب تک میں نے تیرے بارے میں جو کچھ کہاہے سب غلط ہے۔ مہربانی کرکے مجھے اس صورت حال سے نکال لے۔ مجھے اس کی نظر سے بچا لے!

    میں نے خنجر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اگر اس نے مجھے پکڑ لیا تو میں اسی خنجر سے اپنا گلا کاٹ لوں گا۔ اے اللہ، اسے اندھا کر دے۔۔۔ تھوڑی ہی دیر کے لیے اس کی بینائی چھین لے۔

    میرے کامریڈ مجھے زور زور سے آواز دے رہے تھے۔ وہ اپنے لیڈر سے ملنا چاہتے تھے۔ اے قادر مطلق، مجھے رسوا نہ کر!

    نوجوان آدمی جوصحن میں داخل ہوکر میری طرف آیا تھا، جھکا اور پیشاب کرنے لگا۔ پیشاب کرنے بعد وہ چلا گیا۔

    مجھے لگا جیسے میرے ہاتھ پیروں سے جان نکل گئی ہو۔ کوئی چیز جیسے میرے اندر مر گئی تھی۔ مجھے پھر ٹھیک سے یادنہیں کہ بعد کو کیا ہوا۔ دھندلا دھندلا سا کچھ یاد آتا ہے کہ میں نہر میں کودا، میرا سارا جسم جگہ جگہ سے چھل گیا تھا۔ میں کیچڑ میں لت پت، دیوار پر چڑھ کر اپنے کامریڈوں کے سامنے آیا تھا۔

    مجھے دیکھ کر وہ لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ وہ سمجھے کہ ان کے لیڈر صاحب کوئی بڑی مہم سرکر کے آئے ہیں۔ وہ اس کا اندازہ نہیں کر پائے کہ میں محبت سے ایک کامیاب لڑائی لڑکر آ رہا ہوں۔ اس لیے اے میرے اللہ، میری مدد کر!

    میں صابن لگاکر خوب اچھی طرح نہایا، کپڑے بدلے، بالوں میں کنگھا کیا اور جاکر حسب معمول اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے چیلوں کو سارا قصہ سنایا۔ ساری کہانی سننے کے بعدان لوگوں نے کہا، ’’ہمیں یہ جگہ فوراً چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

    ہم نے وہ جگہ چھوڑ دی۔

    رات کے سناٹے میں ہم نے اس مسکن محبت کو خیرباد کہا۔ اس لیے۔۔۔ اور اسی لیے۔۔۔ اے پریم کے زمانے، اے محبت کی عمر! تونے مجھ کو رسوا نہیں کیا، اس لیے میں تیرے سامنے سر جھکاتا ہوں!

    مأخذ:

    منتخب کہانیاں (Pg. 45)

    • مصنف: ویکوم محمد بشیر
      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے