Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک دن کا مہمان

نرمل ورما

ایک دن کا مہمان

نرمل ورما

MORE BYنرمل ورما

    اس نے اپنا سوٹ کیس دروازے کے آگے رکھ دیا۔ گھنٹی کا بٹن دبایا اور انتظار کرنے لگا۔ مکان میں خاموشی تھی۔ کوئی ہلچل نہیں ہوئی۔ ایک لمحے کے لیے اسے گمان ہوا کہ شاید گھر میں کوئی نہیں ہے اور وہ خالی مکان کے سامنے کھڑا ہے۔ اس نے رومال نکال کر پسینہ پونچھا، اپنا ایربیگ سوٹ کیس کے اوپر رکھ دیا۔ دوبارہ بٹن دبایا اور کان لگاکر سننے لگا۔ برآمدے کے پیچھے کوئی کھلی کھڑکی ہوا میں ہچکولے کھا رہی تھی۔

    وہ پیچھے ہٹ کر اوپر دیکھنے لگا۔ وہ دومنزلہ مکان تھا۔ گلی کے دوسرے مکانوں کی طرح، کالی چھت، انگریزی کے ’’وی‘‘ کی شکل میں دونوں طرف سے ڈھلان والا اور بیچ میں پتھر کی دیوار، جس کی پیشانی پر مکان نمبر ایک کالی بندی کی طرح چمک رہا تھا۔ اوپر کی کھڑکیاں بند تھیں اور پردے گرے ہوئے تھے۔

    کہاں جا سکتے ہیں اس وقت؟ اس نے سوچا۔

    وہ مکان کے پچھواڑے گیا۔ وہی لان، فینس اور جھاڑیاں تھیں جو اس نے دوسال پہلے دیکھی تھیں۔ بیچ میں وِلو اپنی ٹہنیاں جھکائے کسی کالے بوڑھے ریچھ کی طرح اونگھ رہا تھا۔ لیکن گیراج کھلا اور خالی پڑا تھا۔ وہ کار میں کہیں گئے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے ساری صبح اس کا انتظار کیا ہو اور اب کسی کام سے باہر نکل گئے ہوں۔ لیکن دروازے پر اس کے لیے ایک چٹ تو چھوڑ ہی سکتے تھے۔

    وہ پھر سامنے کے دروازے پر لوٹ آیا۔ اگست کی چلچلاتی دھوپ اس کی آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔ سارا جسم پسینے سے چو رہا تھا۔ وہ برآمدے ہی میں اپنے سوٹ کیس پر بیٹھ گیا۔ اچانک اسے لگا سڑک کے پار مکانوں کی کھڑکیوں سے کچھ چہرے باہر جھانک رہے ہیں، اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس نے سنا تھا انگریز لوگ دوسروں کی نجی چنتاؤں میں دخل نہیں دیتے، لیکن وہ مکان سے باہر برآمدے میں بیٹھا تھا جہاں پرائیویسی کا کوئی مطلب نہیں تھا، اس لیے وہ لوگ بلا جھجکے، پوری بے باکی سے اسے گھور رہے تھے۔

    لیکن شاید ان کے تجسس کی ایک دوسری وجہ تھی۔ اس چھوٹے سے انگریزی قصباتی شہر میں لگ بھگ سب ایک دوسرے کو پہچانتے تھے اور وہ نہ صرف اپنی شکل صورت سے بلکہ ڈھیلے ڈھالے ہندوستانی سوٹ میں کافی عجیب مخلوق دکھائی دے رہا ہوگا۔ اس کے تڑے مڑے لباس اور گرد اور پسینے سے لت پت چہرے سے کوئی یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ ابھی تین دن پہلے اس نے فرینکفرٹ کی کانفرنس میں پیپر پڑھا تھا۔ میں ایک لٹا پٹا ایشین امیگرنٹ دکھائی دے رہا ہوں گا، اس نے سوچا اور اچانک کھڑا ہو گیا۔ جیسے کھڑے ہوکر انتظار کرنا زیادہ آسان ہو۔ اس بار بنا سوچے سمجھے اس نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک دم ہکا بکا ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔ ہاتھ لگتے ہی دروازہ پھٹ سے کھل گیا تھا۔ سیڑھیوں پر پیروں کی چاپ سنائی دی اور دوسرے ہی لمحے وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔

    وہ بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تھی اور اس سے چمٹ گئی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ پوچھتا، ’’کیا تم اندر تھیں؟‘‘ اور وہ پوچھتی، ’’تم باہر کھڑے تھے؟‘‘ اس نے اپنے دھول بھرے لشتم پشتم ہاتھوں سے اس کے دبلے کندھوں کو پکڑ لیا اور لڑکی کا سر نیچے جھک آیا اور اس نے اپنا منھ اس کے بالوں پر رکھ دیا۔

    پڑوسیوں نے ایک ایک کرکے اپنی کھڑکیاں بند کر دیں۔

    لڑکی نے دھیرے سے اسے اپنے سے الگ کر دیا، ’’باہر کب سے کھڑے تھے؟‘‘

    ’’پچھلے دوسال سے۔‘‘

    ’’واہ!‘‘ لڑکی ہنسنے لگی۔ اسے اپنے باپ کی ایسی ہی باتیں بوڑم جان پڑتی تھیں۔

    ’’میں نے دوبارہ گھنٹی بجائی۔ تم لوگ کہاں تھے؟‘‘

    ’’گھنٹی خراب ہے۔ اسی لیے میں نے دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔‘‘

    ’’تمہیں مجھے فون پر بتانا چاہیے تھا۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے آگے پیچھے دوڑ رہا ہوں۔‘‘

    ’’میں تمہیں بتانے والی تھی، لیکن بیچ میں لائن کٹ گئی۔ تم نے اور پیسے کیوں نہیں ڈالے؟‘‘

    ’’میرے پاس صرف دس پیسے تھے۔۔۔ وہ عورت کافی چڑیل تھی۔‘‘

    ’’کون عورت؟‘‘ لڑکی نے اس کا بیگ اٹھایا۔

    ’’وہی جس نے ہمیں بیچ میں کاٹ دیا۔‘‘

    آدمی اپنا سوٹ کیس بیچ ڈرائنگ روم میں گھسیٹ لایا۔ لڑکی شوق سے بیگ کے اندر جھانک رہی تھی۔ سگریٹ کے پیکٹ، اسکاچ کی لمبی بوتل، چاکلیٹ کے بنڈل۔۔۔ وہ ساری چیزیں جو اس نے اتنی ہڑبڑی میں فرینکفرٹ کے ایرپورٹ پر ڈیوٹی فری شاپ سے خریدی تھیں، اب بیگ سے اوپر جھانک رہی تھیں۔

    ’’تم نے اپنے بال کٹوا لیے؟‘‘ آدمی نے پہلی بار چین سے لڑکی کا چہرہ دیکھا۔

    ’’ہاں، صرف چھٹیوں کے لیے۔ کیسے لگتے ہیں؟‘‘

    ’’اگر تم میری بیٹی نہ ہوتیں تو میں سمجھتا کوئی لفنگی گھر میں گھس آئی ہے۔‘‘

    ’’اوہ پاپا!‘‘ لڑکی نے ہنستے ہوئے بیگ سے چاکلیٹ نکالی، ریپر کھولا، پھر اس کی طرف بڑھا دی۔

    ’’سوئس چاکلیٹ۔‘‘ اس نے اسے ہوا میں جھلاتے ہوئے کہا۔

    ’’میرے لیے ایک گلاس پانی لا سکتی ہو؟‘‘

    ’’ٹھہرو، میں چائے بناتی ہوں۔‘‘

    ’’چائے بعد میں۔۔۔‘‘ وہ اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں کچھ ٹٹولنے لگا۔۔۔ نوٹ بک، والٹ، پاسپورٹ، سب چیزیں باہر نکل آئیں، آخر میں اسے ٹیبلٹس کی ڈبیا ملی جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا۔

    لڑکی پانی کا گلاس لے کر آئی اور اس سے پوچھا، ’’کیسی دوائی ہے؟‘‘

    ’’جرمن۔۔۔‘‘ اس نے کہا، ’’بہت اثر کرتی ہے۔‘‘

    اس نے ٹیبلٹ پانی کے ساتھ نگل لی، پھر صوفے پر بیٹھ گیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اس نے سوچا تھا۔ وہی کمرہ، شیشے کا دروازہ، کھلے ہوئے پردوں کے درمیان سے نظر آتا و ہی چوکور ہرے رومال جیسا لان، ٹی وی کے اسکرین پر اڑتے ہوئے پرندوں کا سایہ، جوباہر اڑتے تھے پر گمان یہ ہوتا تھا جیسے اندر ہی ہوں۔

    وہ کچن کی دہلیز پر آیا۔ گیس کے چولھوں کے پیچھے لڑکی کی پیٹھ دکھائی دے رہی تھی۔ کارڈ رائے کی کالی جینز اور سفید قمیص، جس کی آستینیں کہنیوں پر جھول رہی تھیں۔ وہ بہت ہلکی پھلکی اور چھوئی موئی سی دکھائی دے رہی تھی۔

    ’’ماما کہاں ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ شاید اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ لڑکی نے اسے نہیں سنالیکن اسے لگا جیسے لڑکی کی گردن کچھ اوپر اٹھی تھی۔ ’’ماما کیا اوپر ہیں؟‘‘ اس نے دوبارہ کہا اور لڑکی ویسے ہی ساکت کھڑی رہی تو اسے یوں لگا کہ اس نے پہلی دفعہ بھی اس کے سوال کو سن لیا تھا۔

    ’’کیا وہ باہر گئی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ لڑکی نے بہت دھیرے، ہلکے انداز میں سرہلایا، جس کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا تھا۔

    ’’پاپا، تم کچھ میری مدد کرو گے؟‘‘

    وہ لپک کر کچن میں چلا آیا، ’’بتاؤ، کیا کام ہے؟‘‘

    ’’تم چائے کی کیتلی لے کر اندر جاؤ، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘

    ’’بس!‘‘ اس نے مایوس سے لہجے میں کہا۔

    ’’ہاں، پیالے اور پلیٹیں بھی لیتے جاؤ۔‘‘

    وہ سب چیزیں لے کر اندر کمرے میں چلا آیا۔ وہ دوبارہ کچن میں جانا چاہتا تھا لیکن لڑکی کے ڈر سے وہیں صوفے پر بیٹھا رہا۔ کچن سے کچھ تلنے کی خوشبو آ رہی تھی۔ لڑکی اس کے لیے کچھ بنا رہی تھی اور وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا تھا۔ ایک بار خیال آیا کچن میں جاکر اسے منع کر آئے کہ وہ کچھ نہیں کھائےگا لیکن دوسرے ہی لمحے بھوک نے اسے پکڑ لیا۔ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بوسٹن اسٹیشن کے کیفے ٹیریا میں اتنی لمبی کیو لگی تھی کہ وہ ٹکٹ لے کر سیدھا ٹرین میں گھس گیا تھا۔ سوچا تھا ڈائننگ کار میں کچھ کھاپی لےگا لیکن وہ دوپہر سے پہلے نہیں کھلتی تھی۔ سچ پوچھا جائے تو اس نے آخری کھانا کل شام فرینکفرٹ میں کھایا تھا اور جب رات کو لندن پہنچا تو اپنے ہوٹل کی بار میں پیتا رہا تھا۔

    تیسرے گلاس کے بعد اس نے جیب سے نوٹ بک نکالی، نمبر دیکھا اور باہر کے ٹیلی فون بوتھ میں جاکر فون ملایا۔ پہلی دفعہ میں پتا نہیں چلا اس کی بیوی کی آواز ہے یا بچی کی۔ اس کی بیوی نے فون اٹھایا ہوگا، کیوں کہ کچھ دیر تک فون کا سناٹا اس کے کان میں جھنجھناتا رہا تھا۔ پھر اس نے سنا وہ اوپر سے بچی کو بلا رہی ہے اور اسی وقت اس نے گھڑی دیکھی۔ اسے خیال آیا، اس وقت وہ سو رہی ہوگی۔ وہ فون نیچے رکھنا چاہتا تھا کہ اسی وقت اسے بچی کی آواز سنائی دی۔ وہ آدھی نیند میں تھی۔ کچھ دیر تک اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ انڈیا سے بول رہا ہے یا فرینکفرٹ یا لندن سے۔ وہ اسے اپنی جگہ بتاہی رہا تھا کہ تین منٹ ختم ہوگئے اور اس کے پاس اتنی ریزگاری بھی نہیں تھی کہ لائن کو کٹنے سے بچا سکتا۔ اسے تسلی صرف اتنی تھی کہ وہ نیند، گھبراہٹ اور نشے کے باوجود یہ بتانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ وہ کل ان کے شہر پہنچ رہا ہے۔ کل یعنی آج۔

    وہ اچھے لمحے تھے۔ باہر انگلینڈ کی پیلی اور ملائم دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ گھر کے اندر تھا۔ اس کے دل میں گرمی کی لہریں اٹھنے لگیں۔ ہوائی اڈوں کی بھاگ دوڑ، ہوٹلوں کی حیل حجت، ٹرینوں ٹیکسیوں کی ہڑبڑاہٹ۔۔۔ وہ ان سب سے دور ہوگیا تھا۔ وہ گھر کے اندر تھا۔ اپنا خود کا گھر نہ سہی، پھر بھی ایک گھر۔ کھڑکیاں، پردے، صوفہ، ٹی وی۔ وہ عرصے تک ان چیزوں کے بیچ رہا تھا اور ہر چیز کی تاریخ سے واقف تھا۔ ہر دو تین سال بعد جب وہ آتا تو سوچتا تھا، بچی کتنی بڑی ہو گئی ہوگی اور بیوی؟ وہ کتنی بدل گئی ہوگی! لیکن یہ چیزیں اس دن سے ایک ہی جگہ ٹھہر گئی تھیں جس دن اس نے گھر چھوڑا تھا۔ گویا وہ اس کے ساتھ جاتی تھیں اور ساتھ ہی لوٹ آتی تھیں۔

    ’’پاپا، تم نے چائے نہیں ڈالی؟‘‘ وہ کچن سے دوپلیٹیں لے کر آئی۔ ایک میں ٹوسٹ اور مکھن تھا اور دوسرے میں تلے ہوئے ساسجز۔

    ’’میں تمہارا انتظار کر رہا تھا۔‘‘

    ’’چائے ڈالو، نہیں تو بالکل ٹھنڈی ہو جائےگی۔‘‘

    وہ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی، ’’ٹی وی کھول دوں؟ دیکھو گے؟‘‘

    ’’ابھی نہیں۔۔۔ سنو، تمہیں میرے اسٹیمپس مل گئے تھے؟‘‘

    ’’ہاں پاپا، تھینکس!‘‘ وہ ٹوسٹوں پر مکھن لگا رہی تھی۔

    ’’لیکن تم نے چٹھی ایک بھی نہیں لکھی!‘‘

    ’’میں نے ایک لکھی تھی لیکن جب تمہارا ٹیلی گرام آیا تو میں نے سوچا، اب تم آرہے ہو تو چٹھی بھیجنے کی کیا ضرورت۔‘‘

    ’’تم سچ مچ گا گا ہو!‘‘

    لڑکی نے اس کی طرف دیکھا اور ہنسنے لگی۔ یہ اس کا چڑ والا نام تھا جو باپ نے برسوں پہلے، اس وقت رکھا تھا، جب وہ اس کے ساتھ گھر میں رہتا تھا۔ وہ بہت چھوٹی تھی اور اس نے ہندوستان کا نام بھی نہیں سنا تھا۔ بچی کی ہنسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اس کے قریب جھک آیا، جیسے وہ کوئی شوخ چڑیا ہو، جس کو صرف محفوظ لمحے کے دھوکے میں پکڑا جا سکتا ہو۔

    ’’ممی کب لوٹیں گی؟‘‘

    سوال اتنا اچانک تھا کہ لڑکی جھوٹ نہیں بول سکی۔

    ’’وہ اوپر اپنے کمرے میں ہیں۔‘‘

    ’’اوپر؟ لیکن تم نے تو کہا تھا۔۔۔‘‘

    کرچ، کرچ، کرچ۔ وہ جلے ہوئے ٹوسٹ کو چاقو سے کرید رہی تھی جیسے اس کے ساتھ ساتھ اس کے سوال کو بھی کھرچ دینا چاہتی ہو۔ ہنسی اب بھی تھی لیکن اب وہ برف میں جمے ہوئے کیڑے کی طرح اس کے ہونٹوں پر چپکی ہوئی تھی۔

    ’’کیا انہیں معلوم ہے کہ میں یہاں ہوں؟‘‘

    لڑکی نے ٹوسٹ پر مکھن لگایا، پھر جیم۔ پھر پلیٹ اس کے سامنے رکھ دی۔

    ’’ہاں، معلوم ہے۔‘‘

    ’’کیا وہ نیچے آکر ہمارے ساتھ چائے نہیں پییں گی؟‘‘

    لڑکی دوسری پلیٹ میں ساسج سجانے لگی۔ پھر اسے کچھ یاد آیا۔ وہ باورچی خانے میں گئی اور اپنے ساتھ مسٹرڈ اور کیچپ کی بوتلیں لے آئی۔

    ’’میں اوپر جاکر پوچھ آتا ہوں۔‘‘ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جیسے اس سے اپنی کارروائی کی تائید چاہتا ہو۔ جب وہ کچھ نہیں بولی تو وہ زینے کی طرف جانے لگا۔

    ’’پلیز پاپا!‘‘

    اس کے پاؤں ٹھٹک گئے۔

    ’’آپ پھر ان سے لڑنا چاہتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے کچھ غصے سے اسے دیکھا۔

    ’’لڑنا؟‘‘ وہ شرم کے مارے جھینپ کر ہنسنے لگا، ’’میں یہاں دوہزار میل چل کر ان سے لڑنے آیا ہوں؟‘‘

    ’’پھرآپ میرے پاس بیٹھیے۔‘‘ لڑکی کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ وہ اپنی ماں کی طرف تھی لیکن باپ کے لیے بھی سنگ دل نہیں تھی۔ وہ اسے پرچاتی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی، ’’میں تمہارے پاس ہوں۔ کیا یہ کافی نہیں ہے؟‘‘

    وہ کھانے لگا، ٹوٹس، ساسجز، ٹن کے ابلے ہوئے مٹر۔ اس کی بھوک اڑ گئی تھی لیکن لڑکی کی نگاہیں اس پر لگی تھیں۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی اور کچھ سوچ رہی تھی۔ کبھی کبھی ٹوسٹ کا ایک ٹکڑا منھ میں ڈال لیتی اور پھر چائے پینے لگتی۔ پھر اس کی طرف دیکھتی اور چپ چاپ مسکرانے لگتی۔ اسے دلاسا دیتی، سب کچھ ٹھیک ہے، تمہاری ذمے داری مجھ پر ہے اور جب تک میں ہوں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔

    ڈر نہیں تھا۔ ہاں، ٹیبلٹ کا اثر رہا ہوگا یا پھر سفر کی تھکن۔ وہ کچھ دیر کے لیے لڑکی کی نظروں کے سامنے سے ہٹنا چاہتا تھا، اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتا تھا۔

    ’’میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ لڑکی نے شک بھری نظروں سے اسے دیکھا، ’’کیا باتھ روم جاؤگے؟‘‘ وہ اس کے ساتھ ساتھ غسل خانے تک چلی آئی اور جب اس نے دروازہ بند کرلیا تو بھی اسے لگا کہ وہ دروازے کے پیچھے کھڑی ہے۔

    اس نے بیسن میں اپنا منھ ڈال دیا اور نلکا کھول دیا۔ پانی جھر جھر کرتا اس کے چہرے پر بہنے لگا۔ وہ سسکنے سا لگا، ادھورے سے الفاظ اس کے کھوکھلے سینے سے باہر نکلنے لگے، جیسے اندر جمی ہوئی کائی باہر نکال رہا ہو۔ الٹی، جو سیدھی دل سے باہر آتی ہے۔ وہ ٹیبلٹ جو کچھ دیر پہلے کھائی تھی، اب پیلے چورے کی طرح بیسن کے سنگ مرمر پر تیر رہی تھی۔ پھر اس نے نل بند کر دیا اور رومال نکال کر منھ صاف کیا۔ باتھ روم کی کھونٹی پر عورت کے میلے کپڑے لٹکے ہوئے تھے۔ پلاسٹک کی ایک چوڑی بالٹی میں انڈرویئر اور بریزیئر صابن میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کھڑکی کھلی تھی اور باغ کا پچھواڑا دھوپ میں چمک رہا تھا۔ کہیں کسی دوسرے باغ سے گھاس کٹنے کی دھیمی سی گھرر گھرر کی آواز قریب آ رہی تھی۔

    وہ جلدی سے باتھ روم کا دروازہ بند کرکے کمرے میں چلا آیا۔ سارے گھر میں سناٹا تھا۔ وہ کچن میں آیا تو لڑکی دکھائی نہیں دی۔ وہ ڈرائنگ روم میں لوٹا تو وہ بھی خالی پڑا تھا۔ اسے شک ہوا کہ وہ اوپر والے کمرے میں اپنی ماں کے پاس بیٹھی ہے۔ ایک عجیب سے خوف نے اسے جکڑ لیا۔ گھر جتنا پرسکون تھا، اتنا ہی اسے اندیشے سے بھرا ہوا محسوس ہونے لگا۔ وہ کونے میں گیا جہاں اس کا سوٹ کیس رکھا تھا۔ وہ جلدی جلدی اسے کھولنے لگا۔ اس نے اپنے کانفرنس کے نوٹس اور کاغذات الگ کیے، ان کے نیچے سے وہ سارا سامان نکالنے لگا جو دلی سے اپنے ساتھ لایا تھا۔

    ایمپوریم کا راجستھانی لہنگا (لڑکی کے لیے)، تانبے اور پیتل کے ٹرنکٹس جو اس نے فٹ پاتھ پر تبتی لاماہپیوں سے خریدے تھے، پشمینے کی کشمیری شال (بچی کی ماں کے لیے)، ایک لال گجراتی زری دار سلیپر جسے بچی اور ماں دونوں پہن سکتے تھے، ہینڈلوم کے بیڈ کور، ہندوستانی ٹکٹوں کا البم اور ایک بہت بڑی باتصویر کتاب ’’بنارس دی اٹرنل سٹی۔‘‘ فرش پر دھیرے دھیرے ایک چھوٹا سا ہندوستان جمع ہو گیا تھا، جسے وہ ہر دفعہ یورپ جاتے وقت اپنے ساتھ اٹھا لاتا تھا۔

    اچانک اس کے ہاتھ ٹھٹک گئے۔ وہ کچھ دیر تک چیزوں کے ڈھیر کو دیکھتا رہا۔ کمرے کے فرش پر پڑی وہ بالکل یتیم اور قابل رحم دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے دل میں پاگلوں جیسی ایک خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ان کو کمرے میں جوں کاتوں چھوڑکر بھاگ کھڑا ہو۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلےگا کہ وہ کہاں چلا گیا۔ لڑکی تھوڑا بہت ضرور حیران ہوگی لیکن وہ بھی برسوں سے ایسے ہی اچانک اس سے ملتی رہی تھی اور بلاوجہ بچھڑتی بھی رہی تھی۔ “You are a coming and going man.” وہ اس سے کہا کرتی تھی۔ پہلے ناراضگی سے اور بعد میں ہنسی مذاق کے طور پر۔ اسے کمرے میں بیٹھا نہ پاکر لڑکی کو زیادہ صدمہ نہیں ہوگا۔ وہ اوپر جائے گی اور ماں سے کہے گی، ’’اب تم نیچے آسکتی ہو۔ وہ چلے گئے۔‘‘ پھر وہ دونوں ایک ساتھ نیچے آئیں گی اور انہیں سکون ہوگا کہ اب ان دونوں کے علاوہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔

    ’’پاپا!‘‘ وہ چونک گیا جیسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔ اس نے کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ لڑکی کی طرف دیکھا۔ وہ کمرے کی دہلیز پر کھڑی تھی اور کھلے ہوئے سوٹ کیس کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی جادو کی پٹاری ہو، جس نے اپنے پیٹ سے اچانک رنگ برنگی چیزوں کو الٹ دیا ہو۔ لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی خوشی نہیں تھی، ایک شرم سی تھی۔ جب بچے اپنے بڑوں کو کوئی ایسی ٹرک کرتے دیکھتے ہیں، جس کا راز انہیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے تو وہ اپنی جھینپ کو چھپانے کے لیے کچھ زیادہ ہی بےتاب ہو جاتے ہیں۔

    ’’اتنی چیزیں؟‘‘ وہ آدمی کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی، ’’کیسے لانے دیں؟ سنا ہے آج کل کسٹم والے بہت تنگ کرتے ہیں۔‘‘

    ’’نہیں اس دفعہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔‘‘ آدمی نے جوش میں آکر کہا، ’’شاید اس لیے کہ میں سیدھا فرینکفرٹ سے آ رہا تھا۔ انہیں صرف ایک چیز پر شک ہوا تھا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے لڑکی کی طرف دیکھا۔

    ’’کس چیز پر؟‘‘ لڑکی نے اس بار سچ مچ بے چین ہوکر پوچھا۔ اس نے اپنے بیگ سے دال سیو کا ڈبا نکالا اور اسے کھول کر میز پر رکھ دیا۔ لڑکی نے جھجکتے ہوئے دوچار دانے اٹھائے اورانہیں سونگھنے لگی، ’’کیا ہے یہ؟‘‘ اس نے بڑے تجسس کے ساتھ آدمی کی طرف دیکھا۔

    ’’وہ بھی اسی طرح سونگھ رہے تھے۔‘‘ وہ ہنسنے لگا، ’’انہیں ڈر تھا کہ کہیں اس میں چرس گانجا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’ہیش؟‘‘ لڑکی کی آنکھیں پھیل گئیں، ’’کیا اس میں سچ میچ ہیش ملی ہوئی ہے؟‘‘

    ’’کھاکر دیکھو۔‘‘

    لڑکی نے کچھ دال موٹھ منھ میں ڈالی اور اسے چبانے لگی۔ پھر پریشان ہوکر سی سی کرنے لگی۔

    ’’مرچیں ہوں گی۔ تھوک دو!‘‘ آدمی نے کچھ گھبراکر کہا۔

    لیکن لڑکی نے انہیں نگل لیا تھا اور وہ چھلکتی ہوئی آنکھوں سے باپ کو دیکھنے لگی۔

    ’’تم بھی پاگل ہو۔ سب نگل بیٹھیں!‘‘ آدمی نے جلدی سے اسے پانی کا گلاس دیا جو وہ اس کے لیے لائی تھی۔

    ’’مجھے پسند ہے یہ!‘‘ لڑکی نے جلدی سے پانی پیا اور اپنی قمیص کی مڑی ہوئی آستینوں سے آنکھیں پونچھنے لگی۔ پھر مسکراتے ہوئے آدمی کی طرف دیکھا۔ “I love it! وہ کئی باتیں صرف اس آدمی کا دل رکھنے کے لیے کرتی تھی، ان کے درمیان بہت کم وقفہ ہوتا تھا اور وہ اس کے پاس پہنچنے کے لیے ایسے شارٹ کٹ لیتی تھی جنہیں پار کرنے میں دوسرے بچوں کو مہینے لگ جاتے ہیں۔

    ’’کیا انہوں نے بھی اسے چکھ کر دیکھا تھا؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔

    ’’نہیں، ان میں اتنی ہمت کہاں تھی۔ انہوں نے صرف میرا سوٹ کیس کھولا، کاغذات کو الٹا پلٹا اور جب انہیں پتا چلا کہ میں کانفرنس سے آ رہا ہوں تو انہوں نے کہا،‘‘ ’’Mister, you may go‘‘

    ’’کیا کہا انہوں نے؟‘‘ لڑکی ہنس رہی تھی۔

    ’’انہوں نے کہا، ’’Mister, you may go. Like an Indian crow‘‘

    آدمی نے پراسرار نگاہوں سے اسے دیکھا۔

    ’’کیا ہے یہ؟‘‘ لڑکی ہنستی رہی۔

    جب وہ بہت چھوٹی تھی اور آدمی کے ساتھ پارک میں گھومنے جاتی تھی تو وہ یہ سر پھرا کھیل کھیلتے تھے۔ وہ درخت کی طرف دیکھ کر پوچھتا، “Oh dear, is there anything to see?” اور لڑکی چاروں طرف دیکھ کر کہتی، “Yes dear, there is a crow over the tree.” آدمی تعجب سے اس کی طرف دیکھتا، ’’کیا ہے یہ؟‘‘ اور وہ فتح مندانہ جوش سے کہتی، “A poem!

    “A poem! ”جیسے بڑھتی ہوئی عمر میں چھوٹے ہوئے بچپن کا سایہ سرک آیا ہو۔ پارک کی ہوا، درخت اور ہنسی مذاق۔ وہ باپ کی انگلی پکڑکر اچانک ایک ایسی جگہ آ گئی جسے وہ مدت ہوئی چھوڑ چکی تھی، ہاں کبھی کبھار، رات کو سوتے ہوئے، خوابوں میں ضرور دکھائی دے جاتی تھی۔

    ’’میں تمہارے لیے کچھ انڈین سکے لایا ہوں۔ تم نے پچھلی بار کہا تھا نا؟‘‘

    ’’دکھاؤ کہاں ہیں!‘‘ لڑکی نے کچھ ضرورت سے زیادہ ہی شوق دکھاتے ہوئے کہا۔

    آدمی نے سلمہ ستاروں سے جڑی ہوئی ایک لال تھیلی اٹھائی جیسی ہپی لوگ اپنے پاسپورٹ رکھنے کے لیے خریدتے تھے۔ لڑکی نے اسے اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور ہوا میں جھلانے لگی۔ تھیلی میں رکھی چونیاں اٹھنیاں چھنچھنانے لگیں۔ پھر اس نے تھیلی کا منھ کھولا اور سارے پیسوں کو میز پر بکھیر دیا۔

    ’’کیا ہندوستان میں سب لوگوں کے پاس ایسے ہی سکے ہوتے ہیں؟‘‘

    وہ ہنسنے لگا، ’’اور کیا سب کے لیے الگ الگ بنیں گے؟‘‘

    ’’لیکن غریب۔۔۔‘‘ اس نے آدمی کو دیکھا، ’’میں نے ایک رات ٹی وی پر انہیں د یکھا تھا۔۔۔‘‘ وہ سکوں کو بھول گئی اور کچھ تعجب سے فرش پر بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھنے لگی۔ اس وقت پہلی بار آدمی کو لگا جیسے وہ لڑکی جو اس کے سامنے بیٹھی ہے کوئی غیر ہے۔ پہچان کا فریم وہی ہے جو اس نے دوسال پہلے دیکھا تھا، لیکن اندر کی تصوید بدل گئی ہے۔ مگر وہ بدلی نہیں تھی، صرف کہیں اور چلی گئی تھی۔ وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتے، ان انجانی منزلوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے جو ان کی غیرموجودگی کی بنیادوں پر اوپر ہی اوپر بنتی رہتی ہیں۔ لڑکی اپنے بچپن کے تہہ خانے میں جاکر ہی اپنے باپ سے مل سکتی تھی، لیکن کبھی کبھی اسے چھوڑ کر دوسرے کمروں میں چلی جاتی تھی جن کے بارے میں آدمی کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

    ’’پاپا!‘‘ لڑکی نے اس کی طرف دیکھا، ’’کیا میں ان چیزوں کو سمیٹ کر رکھ دوں؟‘‘

    ’’کیوں، اتنی جلدی کیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، جلدی نہیں۔۔۔ لیکن ماما آکر دیکھیں گی تو۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں ہلکی سی گھبراہٹ تھی جیسے وہ ہوا میں چھپا کوئی خطرہ دیکھ رہی ہو۔

    ’’آئیں گی تو کیا؟‘‘ آدمی نے تعجب سے لڑکی کی طرف دیکھا۔

    ’’پاپا، دھیرے بولو!‘‘ لڑکی نے اوپر کمرے کی طرف دیکھا۔ وہاں سناٹا تھا۔ جیسے گھر کا جسم دو حصو ں میں بٹا ہوا تھا، ایک حصہ سنسان پڑا ہوا اور دوسرا وہ جس میں وہ دونوں بیٹھے تھے۔ اس وقت اسے ایسا لگا جیسے لڑکی ناٹک کی کٹھ پتلی ہے اور کسی دھاگے سے بندھی ہوئی ہے۔ جیسے جیسے وہ دھاگا کھینچتا ہے، ویسے ویسے ہی وہ ہلتی ہے لیکن وہ خود نہ دھاگے کو دیکھ سکتا ہے، نہ اسے جو دھاگا ہلاتا ہے۔۔۔

    وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی نے خوف زدہ ہوکر اسے دیکھا، ’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

    ’’وہ نیچے نہیں آئیں گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’انہیں معلوم ہے آپ یہاں ہیں۔‘‘ لڑکی نے کچھ خفگی سے کہا۔

    ’’اسی لیے وہ نہیں آنا چاہتیں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ لڑکی نے کہا، ’’بلکہ اس لیے کہ وہ کبھی بھی آ سکتی ہیں۔‘‘

    کیسے پاگل ہیں، اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکتے، ’’آپ بیٹھیے۔ میں ابھی ان سب چیزوں کو سمیٹ لیتی ہوں۔‘‘

    وہ فرش پراکڑوں بیٹھ گئی، بڑی صفائی سے ہر چیز کو اٹھاکر کونے میں رکھنے لگی۔ مخمل کی جوتی، پشمینے کی شال، گجراتی ایمپوریم کا بیڈکور۔ اس کی پیٹھ باپ کی طرف تھی لیکن وہ اس کے ہاتھ دیکھ سکتا تھا۔ پتلے اور سانولے، بالکل اپنی ماں کی طرح، ویسے ہی بے نیاز اور ٹھنڈے، جو اس کی لائی ہوئی چیزوں کو اپنائیت سے پکڑتے نہیں تھے، بس بےدلی کے انداز میں الگ ہٹا دیتے تھے۔ وہ ایک ایسی بچی کے ہاتھ تھے جس نے صرف ماں کی محدود اور محفوظ شفقت کو چھونا سیکھا تھا، مرد کے جذبے اور درد کے وفور کو نہیں، جو پاپ کے سیکس کی کالی اندھیری گپھا سے امڈتے ہوئے باہر آتے ہیں۔

    اچانک لڑکی کے ہاتھ ٹھٹک گئے۔ اسے لگا کوئی دروازے کی گھنٹی بجا رہا ہے لیکن دوسرے ہی لمحے فون کا خیال آیا جو اپنی مخصوص جگہ رکھا تھا اور زنجیر سے بندھے پلے کی طرح زور زور سے چیخ رہا تھا۔ لڑکی نے چیزیں ویسے ہی چھوڑ دیں، لپکتی ہوئی سیڑھیوں کے پاس گئی اور فون اٹھایا۔ ایک لمحے تک کچھ سنائی نہیں دیا، پھر وہ چلائی، ’’ماما، آپ کا فون!‘‘

    بچی زینے کے بینسڑوں کے ساتھ سہارا لیے کھڑی تھی، ہاتھ میں فون جھلاتی ہوئی۔ اوپر کا دروازہ کھلا اور زینہ ہلنے لگا۔ کوئی نیچے آرہا تھا۔ پھر ایک سرلڑکی کے چہرے پر جھکا، گندھا ہوا جوڑا اور فون کے درمیان ایک پورا چہرہ ابھر آیا۔

    ’’کس کا ہے؟‘‘ عورت نے اپنے لٹکتے ہوئے جوڑے کو پیچھے کی طرف ہٹاتے ہوئے لڑکی کے ہاتھ سے فون کھینچ لیا۔ آدمی کرسی سے اٹھا۔ لڑکی نے اس کی طرف دیکھا۔

    ’’ہیلو!‘‘ عورت نے کہا، ’’ہیلو، ہیلو!‘‘ عورت کی آواز اونچی ہوئی اور تب اسے پتا چلا کہ یہ اس عورت کی آواز ہے جو اس کی بیوی تھی۔ وہ اسے برسوں بعد بھی سیکڑوں آوازوں کی بھیڑ میں پہچان سکتا تھا۔ اونچی یچ پر ہلکا سا کپکپاتی ہوئی، ہمیشہ ہی سخت، زخمی پریشان۔ اس کے جسم کی واحد چیز جو جسم سے پرے آدمی کی روح پر خون کی کھرونچ سی کھینچ جاتی تھی۔ وہ جیسے اٹھا تھا، ویسے ہی بیٹھ گیا۔

    لڑکی مسکرا رہی تھی۔ وہ ہینگر کے آئینے میں آدمی کا چہرہ دیکھ رہی تھی اور وہ چہرہ کچھ ویسا ہی بے ڈول دکھائی دے رہا تھا جیسے عمر کے آئینے میں عورت کی آواز۔ الٹا، ٹیرھا، پہیلی جیسا پراسرار۔ یہ تینوں افراد انجانے میں چار اکائیوں میں بٹ گئے تھے۔ لڑکی، اس کی ماں، وہ خود اور اس کی بیوی۔ گھر جب گرہستی میں بدلتا ہے تو اپنے آپ پھیلتا جاتا ہے۔۔۔

    ’’تم جینی سے بات کروگی؟‘‘ عورت نے لڑکی سے کہا اور لڑکی جیسے اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ اچھل کر اوپر والی سیڑھی پر آئی اور ماں سے ٹیلی فون لے لیا، ’’ہیلو جینی، اٹس می!‘‘

    وہ دو سیڑھیاں نیچے اتری۔ اب آدمی اسے پورے کا پورا دیکھ سکتا تھا۔

    ’’بیٹھو۔۔۔‘‘ آدمی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آواز میں ایک بےبس سی التجا تھی، جیسے اسے ڈر ہو کہ کہیں اسے دیکھ کر وہ الٹے پاؤں لوٹ نہ جائے۔ لمحہ بھر وہ تذبذب میں کھڑی رہی۔ اب واپس مڑنا بےمعنی تھا لیکن اس طرح اس کے سامنے کھڑے رہنے کی بھی تو کوئی تک نہیں تھی۔ وہ اسٹول کھینچ کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی۔

    ’’کب آئے؟‘‘ اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ آدمی کو لگا ٹیلی فون پر کوئی اور عورت بول رہی تھی۔

    ’’کافی دیر ہو گئی۔۔۔ مجھے تو پتا بھی نہ تھا کہ تم اوپر کمرے میں ہو۔‘‘

    عورت چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔

    آدمی نے جیب سے رومال نکالا، پسینہ پونچھا اور مسکرانے کی کوشش میں مسکرانے لگا۔

    ’’میں بہت دیر باہر کھڑا رہا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ گھنٹی خراب ہے۔ گیراج خالی پڑا تھا۔ میں نے سوچا تم دونوں کہیں باہر گئے ہو۔۔۔ تمہاری کار؟‘‘ اسے معلوم تھا، پھر بھی اس نے پوچھا۔

    ’’سروسنگ کے لیے گئی ہے۔‘‘ عورت نے کہا۔ وہ ہمیشہ سے اس کی چھوٹی، بےکار کی باتوں سے نفرت کرتی آئی تھی، جب کہ آدمی کے لیے یہ باتیں کچھ ایسے تنکوں کا کام دیتی تھیں، جن کے سہارے ڈوبنے سے بچا جا سکتا ہو۔ کم سے کم کچھ دیر کے لیے۔

    ’’تمہیں میرا ٹیلی گرام مل گیا تھا؟ میں فرینکفرٹ آیا تھا، اسی ٹکٹ پر یہاں آ گیا۔ کچھ پاؤنڈ زیادہ دینے پڑے۔ میں نے تمہیں وہاں سے فون بھی کیا لیکن تم دونوں کہیں باہر تھے۔۔۔‘‘

    ’’کب؟‘‘ عورت نے ہلکے سے جوش کے ساتھ اس کی طرف دیکھا، ’’ہم دونوں گھر میں تھے۔‘‘

    ’’گھنٹی بج رہی تھی لیکن کسی نے اٹھایا نہیں۔ ہو سکتا ہے آپریٹر میری انگریزی نہ سمجھ سکی ہو اور غلط نمبر دے دیا ہو۔ لیکن سنو۔۔۔‘‘ وہ ہنسنے لگا۔ ’’ایک عجیب بات ہوئی۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر مجھے ایک عورت ملی جو پیچھے سے بالکل تمہاری طرح دکھائی دے رہی تھی۔ یہ تو اچھا ہوا، میں نے اسے بلایا نہیں۔۔۔ ہندوستان سے باہر ہندوستانی عورتیں ایک جیسی ہی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔‘‘ وہ بولے جارہاتھا۔ وہ اس آدمی کی طرح تھا جو آنکھوں پر پٹی باندھ کر تنی ہوئی رسی پر چلتا ہے۔ عورت کہیں بہت نیچے تھی، ایک خواب میں، جسے وہ بہت پہلے جانتا تھا لیکن اب اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس کے سامنے کیوں بیٹھا ہے۔

    وہ چپ ہو گیا۔ اسے خیال آیا کہ اتنی دیر سے وہ صرف اپنی ہی آواز سن رہا ہے۔ اس کے سامنے بیٹھی عورت بالکل چپ تھی۔ وہ اس کی طرف بہت ٹھنڈی اور مایوس نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘ آدمی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    ’’میں نے تم کو منع کیا تھا۔ تم سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’کاہے کے لیے؟ تم نے کاہے کے لیے منع کیا تھا؟‘‘

    ’’میں تم سے کچھ نہیں چاہتی۔۔۔ تم میرے گھر یہ سب کیوں لاتے ہو؟ کیا فائدہ ہے ان کا؟‘‘

    ایک لمحے کو وہ نہیں سمجھا کہ کون سی چیزیں۔ پھر اس کی نگاہیں فرش پر پڑیں۔ شانتی نکیتن کا پرس، ڈاک ٹکٹوں کاالبم، دال موٹھ کا ڈبا۔ وہ چیزیں اب بہت لٹی پٹی دکھائی دے رہی تھیں۔ جس حال میں وہ کرسی پر بیٹھا تھا، اسی طرح وہ فرش پر بکھری ہوئی تھیں۔

    ’’کون سی زیادہ ہیں؟‘‘ اس نے کھسیاتے ہوئے کہا، ’’انہیں نہ لاتا تو آدھا سوٹ کیس خالی پڑا رہتا۔‘‘

    ’’لیکن میں تم سے کچھ نہیں چاہتی۔۔۔ تم کیا اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے؟‘‘

    عورت کی آواز کانپتی ہوئی اوپر اٹھی، جس کے پیچھے نہ جانے کتنے جھگڑوں کا درد اور کتنی نرکوں کا پانی بھرا تھا جو بند ٹوٹتے ہی جیسے پاس آنے لگا، ایک ایک انچ آگے بڑھتا ہوا۔ اس نے رومال نکالا اور پسینے میں شرابور ا پنا چہرہ پونچھنے لگا۔

    ’’کیا تمہیں میرا اتنی سی دیر کے لیے آنا بھی برا لگتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ اس کا چہرہ تن گیا، پھر وہ ایک عجیب تکان کے ساتھ ڈھیلی پڑ گئی، ’’میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتی، بس!‘‘

    کیا یہ اتنا آسان ہے؟ وہ کسی ضدی لڑکے کی طرح اسے دیکھنے لگا جو بات سمجھ لینے کے بعد بھی بہانہ کرتا ہے کہ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

    ’’وکو!‘‘ اس نے دھیرے سے کہا، ’’پلیز!‘‘

    ’’مجھے معاف کرو۔۔۔‘‘ عورت نے کہا۔

    ’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘

    ’’لیو می اَلون۔۔۔ اس سے زیادہ میں کچھ اور نہیں چاہتی۔‘‘

    ’’میں بچی سے ملنے بھی نہیں آ سکتا؟‘‘

    ’’اس گھر میں نہیں۔ تم اس سے کہیں باہر مل سکتے ہو۔‘‘

    ’’باہر؟‘‘ آدمی نے چونک کر سر اٹھایا، ’’باہر کہاں؟‘‘ اس لمحے وہ بھول گیا کہ باہر پوری دنیا پھیلی ہوئی ہے، پارک، سڑکیں، ہوٹل کے کمرے، اس کی اپنی دنیا۔ بچی کہاں کہاں اس کے ساتھ گھسٹےگی!

    وہ فون پر ہنس رہی تھی، کچھ کہہ رہی تھی، ’’نہیں، میں آج نہیں آ سکتی۔ ڈیڈی گھر میں ہیں، ابھی ابھی آئے ہیں۔۔۔ نہیں، مجھے معلوم نہیں۔۔۔ میں نے پوچھا نہیں۔۔۔‘‘ کیا نہیں معلوم؟ شاید اس کی سہیلی نے پوچھا تھا کہ وہ کتنے دن رہےگا۔ سامنے بیٹھی عورت بھی شاید یہی جاننا چاہتی تھی۔۔۔ کتنا وقت، کتنی گھڑیاں، کتنی تکلیف ابھی اور اس کے ساتھ بھگتنی پڑےگی؟

    شام کی آخری دھوپ اندر آرہی تھی۔ ٹی وی کا اسکرین چمک رہا تھا لیکن وہ خالی تھا اور اس میں صرف عورت کا سایہ بیٹھا تھا، جیسے خبریں شروع ہونے سے پہلے اناؤنسر کی پرچھائیں دکھائی دیتی ہے۔ پہلے کمزور اور دھندلی، پھر دھیرے دھیرے برائٹ ہوتی ہوئی۔ وہ سانس روکے انتظار کر رہا تھا کہ وہ کچھ کہےگی، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ پچھلے برسوں سے صرف ایک نیوز ریل ہے جو ہر بار ملنے پر ایک پرانے درد کا ٹیپ کھولنے لگتی ہے جس کاتعلق کسی دوسری زندگی سے ہے۔ چیزیں اور لوگ کتنے مختلف ہیں۔ برسوں بعد بھی گھر، کتابیں اور کمرے ویسے ہی رہتے ہیں جیسا تم چھوڑ گئے تھے۔ لیکن لوگ؟ وہ اسی دن سے مرنے لگتے ہیں جس دن سے الگ ہو جاتے ہیں۔ مرتے نہیں، بلکہ ایک دوسری زندگی جینے لگتے ہیں جو دھیرے دھیرے اس زندگی کا گلاگھونٹ دیتی ہے جو تم نے ایک ساتھ گزاری تھی۔۔۔

    ’’میں صرف بچی سے نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہکلانے لگا، ’’میں تم سے بھی ملنے آیا تھا۔‘‘

    ’’مجھ سے؟‘‘ عورت کے چہرے پر ہنسی، حقارت، حیرانی ایک ساتھ امڈ آئیں، ’’تمہاری جھوٹ کی عادت ابھی تک نہیں گئی؟‘‘

    ’’تم سے جھوٹ بول کر اب مجھے کیا ملےگا؟‘‘

    ’’معلوم نہیں تمہیں کیا ملےگا۔ مجھے جو ملا ہے اسے میں بھگت رہی ہوں۔‘‘ اس نے ایک ٹھہری ہوئی ٹھنڈی نظر سے باہر دیکھا، ’’مجھے اگر تمہارے بارے میں پہلے سے کچھ معلوم ہوتا تو میں کچھ کر سکتی تھی۔‘‘

    ’’کیا کر سکتی تھیں؟‘‘ ایک ٹھنڈی سی جھرجھری نے آدمی کو پکڑ لیا۔

    ’’کچھ بھی۔ میں تمہاری طرح اکیلی نہیں رہ سکتی۔ لیکن اب، اس عمر میں۔۔۔ اب کوئی میری طرف دیکھتا بھی نہیں۔‘‘

    ’’وکو!‘‘ اس نے ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’مت لو میرا نام۔۔۔ وہ سب ختم ہو گیا۔‘‘

    وہ رو رہی تھی، بالکل بے نیاز، اس کا گزرے ہوئے آدمی اور آنے والی امید سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ آنسو جو کسی ایک وجہ سے نہیں بلکہ پورا بند ٹوٹ جانے سے آتے ہیں، ایک ڈھلتی ہوئی زندگی میں نالے کی طرح بہتے ہوئے۔ عورت بار بار انہیں اپنے ہاتھ سے جھٹک دیتی تھی۔۔۔

    بچی کب سے فون کے پاس چپ بیٹھی تھی۔ وہ زینے کی سب سے نچلی سیڑھی پر بیٹھی، خشک آنکھوں سے روتی ہوئی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی سب کوششیں ناکام ہو گئی تھیں لیکن اس کے چہرے پر ناامیدی نہیں تھی۔ ہر کنبے کے اپنے بدخواب ہوتے ہیں جو ایک پہیے میں متواتر گھومتے ہیں۔ وہ اس میں ہاتھ نہیں ڈالتی تھی۔ اتنی کم عمر میں وہ اتنی بڑی سچائی کو جان گئی تھی کہ انسان کے اندر اور باہر کے منظر میں ایک عجیب یکسانی ہے۔ وہ جب تک اپنا چکر پورا نہیں کر لیتے، انہیں روکنا بےمعنی ہے۔

    وہ آدمی کی طرف دیکھے بغیر ماں کے پاس گئی۔ کچھ کہا، جو اس کے لیے نہیں تھا۔ عورت نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا، بالکل اپنے سے لگاکر۔ کاؤچ پر بیٹھی وہ دونوں دو بہنیں سی لگ رہی تھیں۔ وہ اسے بھول گئی تھیں۔ کچھ دیر پہلے جو جوار اٹھا تھا اس میں گھر ڈوب گیا تھا، لیکن اب پانی واپس لوٹ گیا تھا اور اب آدمی وہیں تھا جہاں اسے ہونا چاہیے تھا۔۔۔ کنارے پر۔ اسے یہ ایشور کا کرم محسوس ہوا۔۔۔ وہ دونوں کے بیچ بیٹھا ہے، نظر سے اوجھل۔ برسوں سے اس کی یہ تمنا رہی تھی کہ وہ ماں اور بیٹی کے بیچ نظر سے اوجھل بیٹھا رہے۔ صرف ایشور ہی اپنی دَیا میں پوشیدہ رہتا ہے، یہ اسے معلوم تھا۔ مگر جو آدمی گڑھے میں سب سے نچلی سطح پر جیتا ہے، اسے بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ ماں اور بچی نے اسے الگ چھوڑ دیا تھا۔ اس کامطلب اسے نظرانداز کرنا نہیں تھا۔ اس کی طرف سے منھ موڑ کر انہوں نے اسے اپنے پر چھوڑ دیا تھا، ٹھیک وہیں جہاں اس نے برسوں پہلے گھر چھوڑا تھا۔ لڑکی ماں کو چھوڑ کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔

    ’’ہمارا باغ دیکھنے چلوگے؟‘‘ اس نے کہا۔

    ’’ابھی؟‘‘ اس نے کچھ تعجب سے لڑکی کو دیکھا۔ وہ کچھ بے تاب اور اتاؤلی سی دکھائی دے رہی تھی، جیسے اس سے کچھ کہنا چاہتی ہو جسے کمرے کے اندر کہنا ناممکن ہو۔

    ’’چلو۔‘‘ آدمی نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’لیکن پہلے ان چیزوں کو اوپر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ہم انہیں بعد میں سمیٹ لیں گے۔‘‘

    ’’بعد میں کب؟‘‘ آدمی نے کچھ شک کے ساتھ پوچھا۔

    ’’آپ چلیے تو!‘‘ لڑکی نے لگ بھگ اسے گھسیٹتے ہوئے کہا۔

    ’’ان سے کہو اپنا سامان سوٹ کیس میں رکھ لیں۔‘‘ عورت کی آواز سنائی دی۔

    اسے لگا جیسے کسی نے اچانک پیچھے سے دھکا دیا ہو۔ وہ چونک کر پیچھے مڑا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’مجھے ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

    اس کے اندر شدید آندھی اٹھنے لگی، ’’میں نہیں لے جاؤں گا۔ تم چاہو تو انہیں باہر پھینک سکتی ہو۔‘‘

    ’’باہر؟‘‘ عورت کی آواز تھرتھرا رہی تھی، ’’میں ان کے ساتھ تمہیں بھی باہرپھینک سکتی ہوں۔‘‘ رونے کے بعد اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ گالوں کا گیلا پن سوکھے کانچ سا جم گیا تھا، جو پونچھے ہوئے نہیں سوکھے ہوئے آنسوؤں سے ابھر کر آتا ہے۔

    ’’کیا ہم باغ دیکھنے نہیں چلیں گے؟‘‘ بچی نے اس کا ہاتھ کھینچا اور وہ اس کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ گھاس کی کیاریاں اور درخت کسی گونگی فلم کی طرح چل رہے تھے۔ صرف اس کی بیوی کی آواز کرخت کمنٹری کی طرح گونج رہی تھی۔۔۔ باہر، باہر۔

    ’’آپ ممی کے ساتھ بحث کیوں کرتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے کہا۔

    ’’میں نے بحث کہاں کی ہے؟‘‘ اس نے بچی کو دیکھا، جیسے وہ بھی اس کی دشمن ہو۔

    ’’آپ کرتے ہیں!‘‘ لڑکی کا لہجہ عجیب ہٹیلا سا ہو گیا تھا۔ وہ انگریزی میں ’’یو‘‘ کہتی تھی جس کا مطلب پیار میں ’’تم‘‘ ہوتا تھا اور ناراضگی میں ’’آپ‘‘ ۔ انگریزی میں پروناؤن کایہ دہرا پن باپ بیٹی کے رشتے کو ہوا میں لٹکائے رکھتا تھا، کبھی بہت قریب کبھی بہت دور، جس کاصحیح اندازہ اسے لڑکی کی ٹون کو ٹٹول کر کرنا پڑتا تھا۔ ایک عجیب سے ڈر نے آدمی کو پکڑ لیا۔ وہ ایک ہی وقت میں ماں اور بچی دونوں کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔

    ’’بڑا پیار ا باغ ہے۔‘‘ اس نے اس کو پھسلاتے ہوئے کہا، ’’کیا مالی آتا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، مالی نہیں ہے۔‘‘ لڑکی نے پرجوش ہوکر کہا، ’’میں شام کو پانی دیتی ہوں اور چھٹی کے دن ممی گھاس کاٹتی ہیں۔۔۔ ارے ادھر آؤ! میں تمہیں ایک چیز دکھاتی ہوں۔‘‘

    وہ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ لان بہت چھوٹا تھا، ہرا، پیلا، مخملی۔ پیچھے گیراج تھا اور دونوں طرف جھاڑیوں کی فینس لگی ہوئی تھی۔ بیچ میں ایک گھنا بوڑھا وِلو کا پیڑ کھڑا تھا۔ لڑکی پیڑ کے پیچھے چھپ سی گئی، پھر اس کی آواز سنائی دی، ’’کہاں ہو تم؟‘‘

    وہ چپ چاپ دبے پاؤں پیڑ کے پیچھے چلا آیا اور حیران سا کھڑا رہا۔ وِو اور فینس کے بیچ کالی لکڑی کا باڑا تھا جس کے دروازے سے ایک خرگوش باہر جھانک رہا تھا۔ دوسرا خرگوش لڑکی کی گود میں تھا۔ وہ اسے یوں سہلا رہی تھی جیسے وہ ان کا گولا ہو، جو کبھی بھی ہاتھ سے چھوٹ کر جھاڑیوں میں گم ہو جائےگا۔

    ’’یہ ہم نے ابھی پالے ہیں۔۔۔ پہلے دو تھے، اب چار۔‘‘

    ’’باقی کہاں ہیں؟‘‘

    ’’باڑے کے اندر۔ وہ ابھی بہت چھوٹے ہیں۔‘‘

    پہلے اس کا جی خرگوش کو چھونے کو ہوا مگر اس کا ہاتھ اپنے آپ بچی کے سر پر چلا گیا اور وہ دھیرے دھیرے اس کے بھورے، چھوٹے بالوں سے کھیلنے لگا۔ لڑکی چپ کھڑی رہی۔ خرگوش اپنی ناک سکیڑتا ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’پاپا؟‘‘ لڑکی نے سر اٹھائے بغیر دھیرے سے کہا، ’’کیا آپ نے ڈے ریٹرن کا ٹکٹ لیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔ کیوں؟‘‘

    ’’ایسے ہی۔ یہاں واپسی کا ٹکٹ بہت سستا مل جاتا ہے۔‘‘

    کیا اس نے یہی پوچھنے کے لیے اسے یہاں بلایا تھا۔ اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ لڑکی کے سر سے ہٹا لیا۔

    ’’آپ رات کو کہاں رہیں گے؟‘‘ لڑکی کا لہجہ بالکل جذبات سے عاری تھا۔

    ’’اگر میں یہاں رہوں تو؟‘‘

    لڑکی نے دھیرے سے خرگوش کو باڑے میں رکھ دیا اور کھٹ سے دروازہ بند کر دیا۔

    ’’میں مذاق کر رہا تھا۔‘‘ اس نے ہنس کر کہا، ’’میں آخری ٹرین سے لوٹ جاؤں گا۔‘‘ لڑکی نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا، ’’یہاں دو تین اچھے ہوٹل بھی ہیں۔۔۔میں ابھی فون کرکے پوچھ لیتی ہوں۔‘‘ بچی کا لہجہ بہت کومل ہو گیا۔ یہ جانتے ہی کہ وہ رات کو گھر میں نہیں ٹھہرےگا، وہ ماں سے ہٹ کر آدمی کے ساتھ ہوگئی۔ دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑا، اسے ویسے ہی سہلانے لگی جیسے ابھی کچھ دیر پہلے خرگوش کو سہلا رہی تھی لیکن آدمی کا ہاتھ پسینے میں تربتر تھا۔

    ’’سنو، میں اگلی چھٹیوں میں انڈیا آؤں گی۔ اس با رپکا ہے۔‘‘

    اسے کچھ تعجب ہوا کہ آدمی نے کچھ نہیں کہا۔ صرف باڑے میں خرگوشوں کی کھٹر پٹر سنائی دے رہی تھی۔

    ’’پاپا۔۔۔تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘

    ’’تم ہر سال یہی کہتی ہو۔‘‘

    ’’کہتی ہوں۔۔۔لیکن اس بار میں آؤں گی، ڈونٹ یو بلیومی؟‘‘

    ’’اندر چلیں؟ ممی حیران ہو رہی ہوں گی کہ ہم کہاں رہ گئے۔‘‘

    اگست کا اندھیرا چپ چاپ چلا آیا تھا۔ ہوا میں وِلوکی پتیاں سرسرا رہی تھیں۔ کمروں کے پردے گرادیے گئے تھے لیکن کچن کا دروازہ کھلا تھا۔ لڑکی بھاگتی ہوئی اندر گئی اور سنک کا نل کھول کر ہاتھ دھونے لگی۔ وہ اس کے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا۔ سنک کے اوپر آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔۔۔روکھی گرد، بڑھی ہوئی داڑھی اور سرخ آنکھوں کے بیچ اس کی طرف حیرت سے دیکھتا ہوا۔۔۔نہیں، تمہارے لیے کوئی امید نہیں۔۔۔

    ’’پاپا، کیا تم اب بھی اپنے آپ سے بولتے ہو؟‘‘ لڑکی نے پانی میں بھیگا اپنا چہرہ اٹھایا۔ وہ شیشے میں اسے دیکھ رہی تھی۔

    ’’ہاں، لیکن اب مجھے کوئی سنتا نہیں۔‘‘ اس نے دھیرے سے بچی کے کندھے پر ہاتھ رکھا، ’’کیا فرج میں سوڈا ہوگا؟‘‘

    ’’تم اندر چلو، میں ابھی لاتی ہوں۔‘‘

    کمرے میں کوئی نہ تھا۔ اس کی چیزیں بٹور دی گئی تھیں۔ سوٹ کیس کونے میں کھڑا تھا۔ جب وہ باغ میں تھے، اس کی بیوی نے شاید ان سب چیزوں کو دیکھا ہوگا، انہیں چھوا ہوگا۔ وہ اس سے چاہے کتنی ناراض کیوں نہ ہو، چیزوں کی بات الگ تھی۔ وہ انہیں اوپر نہیں لے گئی تھی لیکن انہیں دوبارہ سوٹ کیس میں ڈالنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اس نے انہیں اپنی قسمت پر چھوڑ دیا تھا۔

    کچھ دیر بعد جب بچی سوڈا اور گلاس لے کر آئی تو اسے فوراً پتا نہیں چلا کہ وہ کہاں بیٹھا ہے۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔۔پورا اندھیرا نہیں، صرف اتنا جس میں کمرے بیٹھا آدمی چیزوں کے بیچ چیز جیسا دکھائی دیتا ہے۔

    ’’پاپا، تم نے بتی نہیں جلائی؟‘‘

    ’’ابھی جلاتا ہوں۔‘‘ وہ اٹھا او رسوئچ کو ڈھونڈنے لگا۔ بچی نے سوڈا اور گلاس میز پر رکھ دیا اور ٹیبل لیمپ جلا دیا۔

    ’’ممی کہاں ہیں؟‘‘

    ’’وہ نہا رہی ہیں۔ ابھی آتی ہیں۔‘‘

    اس نے اپنے بیگ سے وسکی نکالی جو فرینکفرٹ کے ایرپورٹ پر خریدی تھی۔ گلاس میں ڈالتے ہوئے اس کے ہاتھ ٹھٹک گئے۔

    ’’تمہاری جنجرایل کہاں ہے؟‘‘

    ’’میں ابھی اصلی بیئر پیتی ہوں۔‘‘ لڑکی نے ہنس کر اس کی طرف دیکھا، ’’تمہیں برف چاہیے؟‘‘

    ’’نہیں۔ لیکن تم جا کہاں رہی ہو؟‘‘

    ’’باڑے میں کھانا ڈالنے۔ نہیں تو وہ ایک دوسرے کو مار کھائیں گے۔‘‘

    وہ باہر گئی تو کھلے دروازے سے باغ کااندھیرا دکھائی دیا، تاروں کی پیلی تلچھٹ میں جھلملاتا ہوا۔ ہوا نہیں تھی۔ باہر کا سناٹا گھر کی دکھائی نہ دینے والی آوازوں کے اندر سے چھن کر آتا تھا۔ اسے لگاوہ اپنے گھر میں بیٹھا ہے اور جو کبھی برسوں پہلے ہوتا تھا، وہی اب ہو رہا ہے۔ وہ شاور کے نیچے گنگناتی رہتی تھی اور جب بالوں پر تولیا صافے کی طرح باندھ کر باہر نکلتی تھی، تب پانی کی بوندیں باتھ روم سے لے کر اس کے کمرے تک ایک لکیر بناتی جاتی تھیں۔ پنانہیں وہ لکیریں بیچ میں کہاں سوکھ گئیں؟ کون سی جگہ، کس خاص موڑ پر وہ چیز ہاتھ سے چھوٹ گئی جسے وہ دوبارہ کبھی نہیں پکڑ سکا۔

    اس نے کچھ اور وسکی ڈالی، حالانکہ گلاس ابھی خالی نہیں ہوا تھا۔ اسے کچھ عجیب لگا کہ پچھلی رات بھی یہی گھڑی تھی جب وہ پی رہا تھا لیکن تب وہ ہوا میں تھا۔ جب اسے ایئرہوسٹس کی آواز سنائی دی کہ ہم چینل پار کر رہے ہیں، تو اس نے ہوائی جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا تھا، نہ سمندر، نہ لائٹ ہاؤس، صرف اندھیرا، اندھیرے میں بہتا ہوا اندھیرا، پھر کچھ بھی نہیں اور تب نیچے اندھیرے میں جھانکتے ہوئے اسے خیال آیا کہ وہ چینل جو نیچے کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا، اصل میں کہیں اندر ہے۔ اس کی ایک زندگی سے دوسری زندگی تک پھیلا ہوا، جسے وہ ہمیشہ پار کرتا رہےگا، کبھی ادھرکبھی ادھر، کہیں کا بھی نہیں، نہ کہیں سے آتا ہوا نہ کہیں پہنچتا ہوا۔۔۔

    وہ الگ کھڑی تھی زینے کے نیچے۔ نہانے کے بعد اس نے ایک لمبی میکسی پہن لی تھی۔ بال کھلے تھے۔ چہرہ بہت دھلا ہوا اور چمکیلا سا لگ رہا تھا۔ وہ میز پر رکھے اس کے گلاس کو دیکھ رہی تھی۔ اس کا چہرہ شانت تھا، جیسے شاور نے نہ صرف اس کے چہرے کو بلکہ اس کے اضطراب کو بھی دھو ڈالا تھا۔

    ’’برف بھی رکھی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’نہیں، میں نے سوڈا لے لیا۔ تمہارے لیے ایک بنا دوں؟‘‘

    ’’اس نے سر ہلایا، جس کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ گرم پانی سے نہانے کے بعد اسے کچھ ٹھنڈا پینا اچھا لگتا تھا۔ اتنے عرصے بعد بھی وہ اس کی عادتیں نہیں بھولا تھا، بلکہ ان عادتوں ہی کے سہارے ان دونوں کے درمیان پرانی پہچان لوٹ آتی تھی۔ وہ کچن میں گیا اور اس کے لیے ایک گلاس لے آیا۔ اس میں تھوڑی سی برف ڈالی۔ جب وسکی ملانے لگا تو اس کی آواز سنائی دی، ’’بس، اتنی کافی ہے۔‘‘

    وہ دھلی ہوئی آواز تھی جس میں کوئی رنگ نہیں تھا، نہ پیار کا نہ ناراضگی کا۔ ایک پرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز۔ وہ سیڑھیوں سے ہٹ کر کرسی کے پاس چلی آئی تھی۔

    ’’تم بیٹھوگی نہیں؟‘‘ اس نے کچھ فکرمند ہوکر پوچھا۔

    اس نے اپنا گلاس اٹھایا اور وہیں اسٹول پر بیٹھ گئی جہاں دوپہر کو بیٹھی تھی۔۔۔ٹی وی کے پاس لیکن ٹیبل لیمپ سے دور، جہاں صرف روشنی کی ایک باریک سی جھلک اس تک پہنچ رہی تھی۔ کچھ دیر تک دونوں میں سے کوئی نہیں بولا۔ پھر عورت کی آواز سنائی دی، ’’گھر میں سب لوگ کیسے ہیں؟‘‘

    ’’ٹھیک ہیں۔ یہ ساری چیزیں انہوں نے ہی بھیجی ہیں۔‘‘

    ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ عورت نے کچھ تھکی ہوئی آواز میں کہا، ’’کیوں ان بے چاروں کو تنگ کرتے ہو؟ تم ڈھو ڈھو کر ان چیزوں کو یہاں لاتے ہو اور وہ یہاں بےکار پڑی رہتی ہیں۔‘‘

    ’’وہ یہی کر سکتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’تم برسوں سے وہاں نہیں گئیں۔ وہ بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘

    ’’اب جانے کا کچھ فائدہ ہے؟‘‘ اس نے گلاس سے لمبا گھونٹ لیا، ’’میرا اب ان سے کوئی رشتہ نہیں۔‘‘

    ’’تم بچی کے ساتھ تو آ سکتی ہو۔ اس نے اب تک ہندوستان نہیں دیکھا۔‘‘

    وہ کچھ دیر چپ رہی، پھر دھیرے سے کہا، ’’اگلے سال وہ چودہ سال کی ہو جائےگی۔ قانون کے مطابق تب وہ کہیں بھی جا سکتی ہے۔‘‘

    ’’میں قانون کی بات نہیں کر رہا۔ تمہارے بغیر وہ کہیں نہیں جائےگی۔‘‘

    عورت نے گلاس کی بھیگی سطح سے آدمی کو دیکھا۔

    ’’میرا بس چلے تو اسے کبھی وہاں نہ بھیجوں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ آدمی نے اس کی طرف دیکھا۔

    وہ دھیرے سے ہنسی، ’’کیا ہم دو ہندوستانی اس کے لیے کافی نہیں ہیں؟‘‘

    وہ بیٹھا رہا۔ کچھ دیر بعد کچن کادروازہ کھلا، لڑکی اندر آئی۔ چپ چاپ دونوں کو دیکھا اور پھر زینے کے پاس چلی گئی جہاں ٹیلی فون رکھا تھا۔

    ’’کسے کر رہی ہو؟‘‘ عورت نے پوچھا۔

    لڑکی چپ رہی۔ فون کا ڈائل گھمانے لگی۔

    آدمی اٹھا، اس کی طرف دیکھا، ’’تھورا سا اور لوگی؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ اس نے سر ہلایا۔ آدمی دھیرے دھیرے اپنے گلاس میں ڈالنے لگا۔

    ’’کیا بہت پینے لگے ہو؟‘‘ عورت نے کہا۔

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ آدمی نے سر ہلاکر کہا، ’’سفر میں کچھ زیادہ ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’میں نے سوچا تھا اب تک تم نے گھر بسا لیا ہوگا۔‘‘

    ’’کیسے؟‘‘ اس نے عورت کو دیکھا، ’’تمہیں یہ گمان کیسے ہوا؟‘‘

    عورت کچھ دیر خالی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی، ’’کیوں، اس لڑکی کا کیا ہوا؟ وہ تمہارے ساتھ نہیں رہتی؟‘‘ عورت کے لہجے میں کوئی تیزی نہیں تھی، نہ جھگڑے کا کوئی سایہ تھا۔ جیسے دو آدمی مدت بعد کسی ایسے واقعے کا ذکر کر رہے ہوں، جس نے ایک جھٹکے میں دونوں کو الگ الگ کناروں پر پھینک دیا تھا۔

    ’’میں اکیلا رہتا ہوں۔۔۔ماں کے ساتھ۔‘‘ اس نے کہا۔

    عورت نے ذرا تعجب سے اسے دیکھا، ’’کیا بات ہوئی؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔میں شاید ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہوں۔‘‘ اس کا لہجے غیر معمولی طور پر دھیما ہو گیا، جیسے وہ اسے اپنی کسی پوشیدہ بیماری کے بارے میں بتا رہا ہو۔ ’’تم حیران ہو؟ لیکن ایسے لوگ ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا، محبت کے بارے میں، اعتماد اور دھوکے کے بارے میں، کوئی بہت بڑا سچ جو بہت سے جھوٹوں سے مل کر بنتا ہے، وسکی کی دھند میں بجلی کی طرح کوندتا ہے اور دوسرے ہی لمحے ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں غائب ہو جاتا ہے۔

    لڑکی شاید اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ ٹیلی فون سے اٹھ کر آدمی کے پاس آئی۔ ایک بار ماں کو دیکھا، وہ ٹیبل لیمپ کے پیچھے اندھیرے کے آدھے کونے میں چھپ گئی تھی اور آدمی؟ وہ گلاس کا صرف ایک ڈبڈباتا ہوا دھبا بن کر رہ گیا تھا۔

    ’’پاپا!‘‘ لڑکی کے ہاتھ میں کاغذ کا پرزہ تھا، ’’یہ ہوٹل کا نام ہے۔ ٹیکسی تمہیں دس منٹ میں پہنچا دےگی۔‘‘

    اس نے لڑکی کو اپنے پاس کھینچ لیا اور کاغذ جیب میں رکھ لیا۔ کچھ دیر تک تینوں چپ بیٹھے رہے جیسے برسوں پہلے، سفر پر نکلنے سے پہلے، گھر کے سب افراد ایک ساتھ سمٹ کر چپ بیٹھ جاتے تھے۔ باہر سے تارے نکل آئے تھے جن میں بوڑھا وِلو، جھاڑیاں اور خرگوشوں کا باڑا ایک ساکت پیلے منظر میں پاس سرک آئے تھے۔

    اس نے اپنا گلاس میز پر رکھا، پھر دھیرے سے لڑکی کو چوما، اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور جب لڑکی نے دروازہ کھولا تو وہ لمحہ بھر کو دہلیز پر ٹھٹک گیا۔ ’’میں چلتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ پتا نہیں یہ بات اس نے کس سے کہی تھی، مگر جہاں وہ بیٹھی تھی وہاں سے کوئی آواز نہیں آئی۔ وہاں اتنی ہی گھنی خاموشی تھی جتنی اندھیرے میں، جہاں وہ جا رہا تھا۔

    مأخذ:

    ہندی کہانیاں (Pg. 123)

      • ناشر: آج کی کتابیں، کراچی
      • سن اشاعت: 2002

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے