Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک گھر کی کہانی

ابن کنول

ایک گھر کی کہانی

ابن کنول

MORE BYابن کنول

    وہ بالکل تنہا تھا۔

    لیکن کچھ دن پہلے وہ تنہا نہیں تھا۔

    اور اب وہ تنہائی کے ڈراونے جنگل سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر اس جاندار سے پوچھتا جو اس جیسا تھا ۔ ’’ کیا شہر میں اب بھی انسانوں کا قتل ہو رہا ہے؟ کیا اب بھی شہر جل رہا ہے ؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ایک لمبے عرصہ تک وہ اپنے سوالوں کا یہ جواب پاکر ٹوٹنے سا لگا تھا کہ پھر ایک اور راہ گیر اُدھر سے گزرا تو وہ اس کی طرف لپکا لیکن اسی لمحے ٹھہر گیا اور تیز تیز آنکھوں سے دیکھنے لگا کہ راہ گیر کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار تو نہیں اور جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ خالی ہاتھ ہے تو آگے بڑھ کر اس نے پھر وہی سوال کیے

    ’’نہیں۔‘‘

    یہ جواب سُن کر وہ سکتے میں آ گیا اور اتنی دیر تک گم سم کھڑا رہا کہ راہ گیر کافی دورجا چکا تھا شاید اُسے اِس جواب کی توقع نہیں تھی ۔ وہ ایک بار پھر اس شخص کی طرف دوڑا او ر استفسار کیا۔

    ’’کیا ان مکانوں کے مکین جن کی دیواریں اپنی جگہ پر موجود ہیں جن کی چھتیں ٹوٹی نہیں ہیں ، شہر کی سڑکوں پر آزادی سے گھومنے لگے ؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    اس جواب سے وہ اتنا خوش ہوا کہ جتنا خوش ہونے کی طاقت اس میں باقی رہ گئی تھی ۔ اور پھر وہ واپس اس درخت کے نیچے لوٹ آیا جس کو کئی روز سے اس نے اپنی رہائش گاہ بنا رکھا تھا ۔ درخت کے نیچے رومال میں بندھی چند چیزوں کو کھول کر د یکھنے لگا ۔ ربر کی گڑیا۔

    ’’ابوّ ! ابوّ! ہم بھی عیدگاہ چلیں گے۔‘‘

    ’’نہیں بیٹا آپ تھک جائیں گی۔ بتائیے ہم آپ کے لیے میلے سے کیا لائیں۔‘‘

    ’’وہ—وہ—ربر کی گڑیا ۔ اچھی سی جو جھک کر سلام بھی کرتی ہے۔‘‘

    ’’بس—اور کچھ۔‘‘

    ’’اور—کچھ نہیں—بس آپ جلدی آئیےگا۔‘‘

    ’’ہاں ہم جلدی آئیں گے۔‘‘

    اس نے گڑیا کو اٹھایا تو وہ جھک کر سلام کر نے لگا۔ اس کا دل شہر جانے کے لیے بےچین ہوا تھا ۔ جلدی جلدی رومال باندھا اور مضبوطی سے تھام لیا۔

    شہر کی جانب بڑھنے کے لیے اس نے پہلا قدم اٹھایا ہی تھا کہ اسے تنہائی کا احساس ہوا لیکن جب وہ گھر سے چلا تھا تب تنہا نہیں تھا ۔ اس کے دوبیٹے اس کے ساتھ تھے۔ اس نے اپنا بایاں ہاتھ دیکھا جس کی انگلی کو پکڑے ہوئے اس کا چھوٹا بیٹا اس کے ہمراہ چل رہا تھا ۔ لیکن اب وہ ہاتھ ہی اس کے جسم پر نہیں تھا ۔ شاید وہ جلتے ہوئے شہر میں کہیں رہ گیا تھا۔ لیکن اس کا بیٹا؟

    ’’ابوّ—ابوّ یہ رومال میرے سر پر باندھ دیجیے۔‘‘

    ’’لاؤ— یہیں کھڑے رہنا اور ا کرتے وقت کسی طرف نہیں دیکھنا۔‘‘

    ’’نہیں دیکھوں گا۔ لیکن آپ ہمارے لیے باجا خریدیں گے نا۔‘‘

    ’’ہاں ! ہاں! کیوں نہیں ۔ پہلے اﷲ اﷲ کر لو۔‘‘

    ’’پھر گھر چل کر سوئیاں کھائیں گے نا —بہت ساری‘‘

    ’’ہاں بھئی بہت ساری کھانا لیکن اب توچپ چاپ بیٹھے رہو۔ دیکھو تمہارے بھائی جان بھی تو نہیں بول رہے۔‘‘

    اُس کا بڑا بیٹا —وہ بھی تو گھر سے اس کے ساتھ چلا تھا ۔ اس کا دایاں بازو۔ اس کی دائیں جانب اپنے رب کا۔ سب کے رب کا شکر ادار کرنے کے لیے دست بستہ ایستادہ تھا اور اس نے سجدۂ شکر ادا بھی کیا تھا ۔ لیکن اُس نے اور اُن سب بندہائے خدانے اپنے رب کے آگے ابھی دست دعا بلند نہیں کئے تھے کہ امن پسند فوج کے اس دستہ نے جو ان عبادت کرنے والوں کی حفاظت کے لیے تعینات اور ان کے ہاتھوں میں چنگاریاں اگلنے والے ہتھیار تھے۔ چنگاریاں اگلنے والے ہتھیاروں سے عبادت گاہ کے اندر چنگاریاں برسائیں اور وہ چنگاریاں معصوم بچوں اور مردوں کے جسموں میں اتر کر ان کے نئے ملبوسات کو لہو سے رنگتی چلی گئیں۔ وہ سبھی پناہ گاہوں کی تلاش میں بھاگنے لگے تھے۔ بجز اِس کے وہ کر بھی کیا سکتے تھے کہ وہ سب کسی فساد کے ادارے سے عبادت گاہ میں نہیں آئے تھے اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اُن کے ساتھ اُن کے معصوم بچے ہیں جو اس منتشر مجمع میں چینٹیوں کی طرح کچلے جا رہے تھے اور ان کی ننھی ننّھی چیخیں فضاؤں کا سینہ چیرتی ہوئی خلا میں گم ہو رہی تھیں کہ ان کا سننے والا کوئی نہیں تھا۔

    اس کا بڑا بیٹا —وہ بھی بھاگا تھا اور اس افراتفری اور شور وغل کے عالم میں بھی وہ اپنے بیٹے کی چینخ پہچان گیا تھا کہ اس کے جسم میں کئی چنگاریاں اتر گئی تھیں

    لیکن وہ اس کے گرے ہوئے چند سالوں میں جو ان ہونے والے جسم کو اٹھا نہیں سکا اور اس بھیڑ میں کہ جہاں ہر شخص پناہ گاہ کامتلاشی تھا وہ اپنے بایاں بازوں بھی کھو بیٹھا۔ جواس کے چھوٹے بیٹے کی سواری تھی اوراب سوار اور سواری دونوں گم ہو چکے تھے۔

    سب کچھ چند لمحوں میں ختم ہو گیا ۔ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ جو کچھ باقی بچا تھا وہ اسے دیکھنے کے لیے بستی کی طرف بھاگا۔ اس کی بیوی۔

    ’’سنیے عید گاہ سے سیدھے گھر آ جائےگا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ملنے والے آنا شروع ہو جائیں گے نا۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔ لیکن میٹھے کے ساتھ نمکین وغیرہ بھی سب تیار رکھنا اور ہاں آج تو نئے کپڑے وغیرہ پہن کر تم بھی تیار ہو جاتا۔‘‘

    ہٹیے بھی۔ مجھے کون سا کہیں جانا ہے۔‘‘

    ’’نہیں جاناتو کیا ہوا۔ ہم تو دیکھنے کے لیے موجود ہیں۔‘‘

    ’’اچھا اچھا بس کیجیے۔ اب دیر ہو رہی ہے ۔ بچے انتظار میں کھڑے ہیں اور ذرا گڈّو کا خیال رکھیے گا بھیڑ میں کہیں اِدھر اُدھر نہ ہو جائے۔‘‘

    ہر شخص ا پنے گھر کی طرف دوڑ رہا تھا جیسے اگر اس نے ذر ابھی کوتاہی کی تو پھر کبھی نہ پہنچ سکےگا۔ سڑکوں سے دوڑتا ہوا خوف و ہراس گلیوں اور گھروں میں داخل ہو چکا تھا۔

    وہ اپنے گھر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اور بچوں کی سانسیں خوف کے دھوئیں سے گھٹنے لگی ہیں۔ شیرینی سے بھرے ہوئے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ کر فرش پر بکھر چکے ہیں اور اس کے چہرے کی بدحواسی، جسم کے زخم اور تنہا گھر میں آئے ہوئے دیکھ کر اس کی بیوی کی چیخ اٹھی۔

    ’’میرے بچّے کہاں ہیں؟ کہاں ہیں میرے بچےّ؟ وہ تو اپنے رب کے سامنے سجدہ کرنے گئے تھے۔‘‘

    سب کچھ ختم ہو گیا۔ سب کچھ۔ اب جو کچھ ہے اُسے بچانے کی فکر کرو۔ ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ تم اندر سے سب دروازے اور کھڑکیاں بند کر لو۔‘‘

    ’’خدا کے لیے آپ باہر نہ جائیے۔‘‘

    ’’میں ابھی آتا ہوں۔‘‘

    اور جب تک وہ آیا تھا تب تک سارے شہر میں نظر بندی کا اعلان ہو چکا تھا۔ امن پسند فوج کا وہ دستہ جن کے ہاتھوں میں چنگاریاں اگلتے ہوئے ہتھیار تھے پورے شہر پر منڈلانے لگے اور پھر یوں ہوا کہ ہتھیاروں سے چنگاریاں برسنے لگیں۔ مکانوں سے شعلے بلند ہونے لگے۔ مقید مکینوں کی چیخیں آگ سے شعلوں اور گرتی ہوئی دیواروں میں گھٹ گئیں۔ اس نے دور سے دیکھا۔

    اس کے گھر کی چھت زمین کی آغوش میں سما گئی تھی۔ دیواریں اپنی پیشانیوں کو سجدے میں گرا چکی تھیں۔ دروازوں کے پہرے آگے کے شعلوں نے ختم کر دیے تھے اور اسی لمحے اسے تاریخ کے وہ اوراق یاد آ گئے تھے جن میں ہلاکو، چنگیز، نادر شاہ اور انگریزوں کا ذکر تھا۔

    وہ گھر سے باہر نکل گیا تھا اوراب دوبارہ نہیں جاسکا۔ گھر ہی ختم ہو گیا تھا۔ کتنے برس اور کتنا خون پسینہ اس کی تعمیر میں صرف ہوا تھا لیکن سب ایک پل میں․․․

    اس نے چاہا کہ دوڑ کر اپنے گھر کے جلتے ہوئے شعلوں سے لپٹ جائے اور اپنی بیوی بچوں کو گری ہوئی چھت کے نیچے سے نکال لائے۔

    لیکن—

    اپنی مرضی سے ایک قدم بڑھانے کے حقوق چھین لیے گئے تھے۔ ناُمیدی اور مایوسی کے عالم میں وہ اپنی جان بچانے کے لیے ا طرف کو بھاگا اور بھاگتا چلا گیا۔

    پھر وہ ہر ایک سے پوچھتا کہ سڑکوں پر نکلنے کی آزادی حاصل ہوئی یا نہیں تاکہ وہ اپنے گھر کی گری ہوئی چھت کے نیچے سے اپنی بیوی اور بچوں کو نکالے۔ اسے نئے کپڑوں میں دیکھے۔ اپنی بچی کو ربڑ کی گڑیا دے۔ امن پسند فوج اب بھی سڑکوں پر گشت کر رہی تھی۔ اور چنگاریاں اگلنے والے ہتھیار منتظر تھے کہ کب کوئی اپنے جسم سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دے اورکب وہ چنگاریاں اگلیں۔

    وہ خود کو دوسری آنکھوں سے چُراتا ہوا جب اپنے مکان کے جلے ہوئے ملبے کے پاس پہنچا تو کچھ دیر کے لیے اُس کی آنکھیں ایک جگہ ٹھہر گئیں۔ جسم کی حرکت بند سی ہو گئی۔ بعد چند لمحے گذر جانے کے وہ راکھ اور مٹی کے ڈھیر پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ جیسے اس ملبے میں وہ اپنا مکان ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر ایک جگہ بیٹھ کر مٹی اور اینٹوں کو ہٹانے لگا جیسے اپنی اور بچوں کو تلاش کر رہا ہو۔ بہت دیر تک وہ یونہی کُریدتا رہا۔ اچانک وہ دھماکہ کی آواز سے چونک پڑا۔ پرندے اپنی شاخوں سے اُڑ کر آسمان میں پھیل گئے۔ مکانوں کی کھڑکیاں اور دروازے بند ہونے لگے۔ ایک بار پھر کچھ مکانوں سے آگ اُٹھی۔ محافظین جواسی لمحے کے انتظار میں تھے۔ اپنے ہاتھوں میں لگے ہوئے ہتھیاروں سے چنگاریاں برسانے لگے وہ یہ دیکھ کر اُٹھ کھڑا ہوا مضبوطی سے رومال میں بندھی ہوئی گڑیا کو تھام لیا اور اتنی تیز ایک جانب کو بھاگا۔ اتنی تیز کہ اُسے پتہ نہیں چلا کہ کب کئی چنگاریاں بیک وقت اس کے جسم میں اُتر گئیں اور کب اس کا جسم بہت پیچھے جلتے ہوئے شہر میں رہ گیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے