Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک حلفیہ بیان

اقبال مجید

ایک حلفیہ بیان

اقبال مجید

MORE BYاقبال مجید

    میں مقدس کتابوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ سچ سچ بیان کروں گا۔اس سچائی میں آپ کو شریک کرلوں گا جو صرف سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔

    یہ ایک رات کی بات ہے۔

    یہ ایک ایسی رات کی بات ہے جب میں اکیلا اپنے بستر پر لیٹا تھا اور دیوا پر ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ بند تھا۔ روشن دان کھلا تھا۔ بارش کاموسم تھا۔ ٹیوب لائٹ پر بہت سےچھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے۔ یقینا یہ برساتی کیڑے تھے۔ تب ہی میرے سر کے اوپر سے مسہری اور کمرے کی چھت کے درمیان فضا میں بھنبھنا ہٹ کی آواز کے ساتھ کسی قدر بڑے کیڑے کے اُڑنے کی آواز آئی اور پھر مسہری کے برابر فرش پر پٹ سے کسی کے گرنے کی آواز۔۔۔ یہ آواز اتنی واضح تھی کہ میرا دھیان اس کی طرف چلا گیا۔

    کیا گرا تھا۔۔۔؟ آپ ضرور یہ سوال کریں گے؟ اگر میں چاہوں تو اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ کو دوسری باتوں میں کافی دیر الجھائے رکھ سکتا ہوں لیکن آپ خود پہلے سے بہت الجھے ہوئے ہیں اور وقت کم ہے اور صبر و تحمل سے آپ سب ہی گھبراتے ہیں اور فوراً اصل معاملات تک پہنچنے کی آپ میں ظالمانہ حد تک عادت پڑچکی ہے۔

    اور یہ کہ آپ کو جزئیات سے نہیں اصل سے دلچسپی زیادہ ہے اور یہ بھی کہ سچائی کو آپ دوٹوک ہی پسند کرتے ہیں اس لیے۔۔۔ اس لیے میں تمام تہذیبوں اور قوموں اور انسانی برادریوں کے تمام تر خداؤں کو حاضرو ناظر جان کر قسم کھاتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کو صحیح اور ٹھیک بتا دوں گا۔

    یہ ایک رات کی بات ہے۔

    یہ ایک اندھیری سنسان برسات کی رات کی بات ہے۔

    یہ ایک ایسی رات کی بات ہے جب میں فرش پر کسی چیز کے گرنے کی آواز سن کر اس کی طرف مخاطب ہو گیا تھا ۔میں نے دیکھا مسہری کے قریب بس مشکل سے ایک میٹر دور ایک کالے رنگ کا بدہیئت، بدشکل، بدرو، بدقماش، بدنظر، بدطینت کیڑا پیٹھ کے بل الٹا پڑا ہوا تھا۔ اس کیڑے کے موٹے، بھدّے اور گول گول سے چھوٹے سے جسم پر غالباً دو پر بھی تھے۔ چھوٹے سے باریک دو پر۔ ان پروں کی لمبائی اس کے ڈیل ڈول کو دیکھتے ہوئے بہت ہی چھوٹی تھی۔ اس کی کئی ٹانگیں تھیں۔ چار بھی ہو سکتی تھیں یا چھ بھی انہیں گنا اس لیے نہیں جا سکتا تھا کہ وہ انہیں برابر چلائے جا رہا تھا۔ پیٹھ کے بل فرش پر پڑا ہوا اور وہ برابر اپنے پیر چلائے جارہا تھا۔ میں اسے چپ چاپ مسہری پر لیٹے لیٹے دیکھتا رہا۔

    چکنا فرش

    کیڑے کی پیٹھ بھی شاید چکنی تھی۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پھر کیا ہوا۔۔۔؟

    آپ میں سے بہت سے نہیں بھی جانتے ہوں گے۔

    ٹانگیں بےحد باریک۔ بھدا جسم اور اس پر جسم کا خاص وزن، بس وہ ٹانگیں چلائے جارہا تھا۔ دو منٹ، پانچ منٹ، دس منٹ، وہ مستقل اپنے کو پلٹنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔

    دراصل یہ ایک کوشش کی بات ہے۔

    یہ ایک لگاتار، ایک ہی جگہ پڑ کر چکنے فرش سے بےنیاز ہوکر کی جانے والی کوشش کی بات ہے۔

    یہ ایک اندھیری بے معنی رات میں بے مقصد کوشش کی بات ہے۔

    جب پیٹھ چکنی ہو۔

    فرش چکنا ہو

    پر چھوٹے ہوں

    ٹانگیں باریک ہوں

    اور ان کی دسترس میں فضا تو ہو زمین نہ ہو

    (رپیٹ)

    اور ان کی دسترس میں فضا تو ہو زمین نہ ہو۔

    اس کے بعد پھر ایک عجیب بات ہوئی۔

    کیا بات ہوئی۔۔۔؟ آپ سوال ضرور کریں گے۔

    اگر میں چاہوں تو آپ کے اس سوال کو پس پشت ڈال کر آپ کو بہت دیر تک دیگر معاملات میں الجھا سکتا ہوں کیونکہ اب مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے آپ کی دلچسپی اس کیڑے میں کچھ بڑھ گئی۔ کیونکہ اس طرح کے کیڑے آپ نے بھی ضرور دیکھے ہوں گے جو ایک بار پیٹھ کے بل الٹ جائیں تو پھر سیدھے نہیں ہو پاتے۔ اس لیے۔۔۔

    اس لیے میں انسان کے خون میں دوڑتے ہوئے ایسے تمام سرچشموں کی قسم کھاکر کہتا ہوں جو اس میں تجسس، استعجاب، حیرت اور رمز کشائی کے لمحات جگاتے ہیں اور میں ان آسمانی طاقتوں کو حاضر و ناظر جان کر اپنا بیان آگے بڑھاتا ہوں جو طاقتیں ہر ذی روح میں جبربرداشت کرنے کی صلاحیتیں بخشتی ہیں جو اسے وسوسوں اور اندیشوں کی کالی برسات جیسی راتوں میں چپکا پڑا رہنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ کیڑا برابر، رکے بغیر اپنی ٹانگیں فضا میں اچھال رہا تھا۔ اپنے پَروں کو بھی نیچے سے نکالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے اس کی یہ کوشش دیکھتے ہوئے اب لگ بھگ ایک گھنٹہ ہوچکا تھا۔ سب کچھ بھول کر میں اسے دیکھ رہا تھا کہ یکا یک مجھے خیال آیا۔

    یہ حرام زادہ بدعقل اور بدرح ہے۔

    یہ کمینہ اپنے آس پاس کی دنیا سے اب بھی واقف نہیں۔

    یہ ذلیل یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ اس کمرے میں اکیلا نہیں ہے۔

    اگر اس خبیث کو یہ احساس ہو جائے کہ یہ غیرمحفوظ ہے اور جتنی جلد ممکن ہو اس کو موجودہ صورتحال سے چھٹکارا پا لینا چاہئے تو شاید یہ کچھ اور تدبیر کرے، شاید اپنے کو سیدھا الٹ لینے کے لیے کچھ اور جتن کرے۔ شاید یہ خوف زدہ ہوکر اپنی کوششوں کو اس قدر تیز کر دے کہ اس کے سیدھے ہو جانے کا کوئی راستہ نکل آئے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن تھا جب وہ خائف ہو جائے، اس کو یہ احساس ہو جائے کہ وہاں اس کے قریب یا آس پاس کچھ اور بھی ہے۔ کوئی ایسی چیز جس سے اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    یہ سوچ کر میں مسہری پر سے اترا۔ اس کے قریب گیا۔ اپنا داہنا پیر اس کے پاس لایا۔

    اور پھر اس کے قریب ہی زمین پر پیر کو دو ایک بار تھپتھپایا۔

    تب ہی ایک عجیب بات ہوئی۔

    میرا خیال ہے کہ وہ بات مجھے آپ کو بغیر کسی بکواس کے بتا دینا چاہئے اس لیے۔۔۔

    اس لیے میں دنیا کے تمام کمزور و نحیف، لاچار، مجبور اور نادار انسانوں کی قسم کھاکر اور انہیں حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا ہے وہ سچ سچ بتاؤں گا۔ میرا سچ نہیں بلکہ آپ کا بھی سچ ہوگا۔ کیونکہ اب جو کچھ میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ مجھے پوری امید ہے کہ آپ نے بھی دیکھا ہے اس لیے۔۔۔

    اس لیے میں ان سارے تجربوں، محسوسات اور انسانی رویوں کی قسم کھاکر کہتا ہوں جو میرے ہی نہیں بلکہ آپ کے بھی تجربے، محسوسات اور رویے ہیں کہ میرے پیر کی دھمک کی آواز سے اس کیڑے پر ایک عجیب اثر ہوا۔ وہ یکایک جیسے بے سدھ ہو گیا۔ اس کی ٹانگیں چلنا بند ہو گئیں اور وہ بالکل بےحرکت اس طرح بن گیا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔

    دراصل یہ ایک بے سدھ اور اپنے کو مردہ ظاہر کردینے والے کیڑے کی بات ہے۔

    کسی باہری خوف کے تحت اپنے کو پرسکوت، پرامن اور INEFFECTIVE ظاہر کر دینے والے ایک وجود کی بات ہے وہ بات جو ایک برسات کی رات سے شروع ہوئی۔

    جو ایک اندھیری سنسان رات میں ایک الٹے پڑے ہوئے کیڑے کہانی بن گئی۔

    جو اس کیڑے کو ذرا سے باہری خوف کے سبب مردہ بن کر پڑے رہنے کا ناٹک سکھا گئی اس لیے۔۔۔

    اس لیے میں تاریخ کے ان سارے معزول، شکست خوردہ، ہزیمت یافتہ، بدنصیب، پٹے اور ہارے ہوئے ظل سبحانیوں، عالیجاہوں، راجوں مہاراجوں، شمشیر زنوں اور فوجی جرنیلوں کی قبروں اور سمادھیوں پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہوں کہ اس برساتی کیڑے کا وہ ناٹک دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اس کو ایک ٹھوکر مار دی، ٹھوکر سے وہ تقریباً چند فٹ دور پھسلتا چلا گیا۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سوڈے کی بوتل کا ڈھکن ہو، اسی طرح بے جان، بےحرکت وہ پڑا رہا جیسے سمجھانا چاہ رہا ہو۔

    ’’یار تم کس چکر میں ہو۔ میں بھی کوڑا کرکٹ ہوں۔۔۔ اپنا کام کرو یا اپنا کام۔‘‘

    وہ بےحس و حرکت پڑا تھا۔ اب کمرے کی دیوار اس سے ایک آدھ فٹ ہی دور تھی۔ میں پھر اس کے قریب گیا۔ پیر سے اس کو پھر ادھر ادھر کیا۔ وہ ہر بار اس طرح بےحس و حرکت چپ چاپ ٹھوکر سے ادھر ادھر ہوتا رہا۔ آخر کو میں مسہری پر آکر لیٹ رہا۔

    تقریباً ایک گھنٹے بعد مجھے پھر اس کا خیال آیا۔ دیکھا تو پھر جلدی جلدی وہ اپنی ٹانگیں چلا رہا تھا۔

    میں نے پھر اس کو باہری خطرے سے پیر تھپتھپاکر آگاہ کیا۔ وہ پھر مردہ بن گیا۔

    ایک گھنٹے بعد وہ پھر پیر چلا رہا تھا۔

    میں نے پھر اس کو احساس دلایا باہر خطرہ ہے، وہ پھر دم سادھ گیا۔

    تو ہوا یہ کہ یا تو اس کے پیر بہت تیز چلتے تھے یا ساکت ہوجاتے تھے۔ پیٹھ جہاں تھی وہیں تھی اور اس لیے۔۔۔

    اس لیے میں دنیا کے ان سارے اداکاروں، اس کا رموژوں، نقادوں، بازیگروں، بہروپیوں، بھانڈوں، نٹوں اور کرتب بازوں کے بین الاقوامی تماشوں، اداکاریوں اور کھیلوں کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہی کچھ آپ بھی دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں لیکن اسے بیان نہیں کرپاتے ہیں، اس کو بیان کردوں گا اور ایک لفظ جھوٹ نہیں بولوں گا۔

    صبح جب میری آنکھ کھلی وہ کیڑا مجھ کو اسی جگہ ملا۔ اس کے پیر اسی طرح فضا میں تیزی کے ساتھ چل رہے تھے۔ وہ اسی طرح پیٹھ کے بل پڑا ہوا تھا۔ پھر اس کے بعد ایک عجیب بات ہو گئی۔

    کیا بات ہوئی۔۔۔؟ میرے خیال میں اب آپ یہ سوال نہیں کریں گے۔ کیونکہ ایسی حالت میں کوئی عجیب بات نہیں ہو سکتی۔

    کیونکہ یہ ساری بات ایک اندھیری بےمعنی رات میں ایک ایسی بےحصول کوشش کی بات ہے جب کہ پیٹھ چکنی ہو، فرش چکنا ہو، پر چھوٹے ہوں، ٹانگیں باریک ہوں اور ان کی دسترس میں زمین نہ ہو اس لیے۔۔۔ اس لیے میں یونان کی عظیم المیہ داستانوں کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جن میں ظالم بھی اتنا ہی لائق احترام ہے کہ جتنا مظلوم کیونکہ ’’ٹریجڈی‘‘ وہی ہے جس میں کسی کے لیے کوئی راہ فرار نہ ہو۔ جہاں پیٹھ بےقصور ہو اور فرش بھی۔ اس لیے میں ان ساری حکایتوں کی قسم کھاتا ہوں کہ جن میں انسان اپنے درد اور اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کو سینے سے لگائے تڑپتا رہا اس لیے کہ میلوڈرا ماکی گنجائش نہ تھی کیونکہ فرار کی کوئی راہ نہ تھی۔ اس لیے میں صرف اتنا ہی آپ کو بتاؤں گا کہ جو سچ ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں۔

    مأخذ:

    ایک حلفیہ بیان اور دوسرے افسانے (Pg. 113)

    • مصنف: اقبال مجید
      • ناشر: اقبال مجید

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے