Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قربانی کا جانور

سید محمد اشرف

قربانی کا جانور

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    ظفر بھونچکا بیٹھا تھا۔ عائشہ نے سویوں کا پیالہ ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا، ’’پھر کیا کہا میڈم نے؟‘‘

    ’’کہا کہ لڑکا ۱۴-۱۳سال کا ہو۔ کسی اچھے گھرکاہو، گھریلو کام کاج کا تھوڑا بہت تجربہ ہو۔ آنکھ نہ ملاتا ہو۔ صاف ستھرا رہتا ہو، تنخواہ زیادہ نہ مانگے۔ ناغہ نہ کرے۔ مہینے پیچھے پگار اور روزانہ تین وقت کا کھانا بھی توملے گا۔‘‘

    ’’پھر؟‘‘

    ’’پھر کیا؟‘‘

    ’’مطلب کہیں تلاش کیا؟‘‘

    ’’تلاش کاکون سا وقت ملا۔ بقرعید کی نمازکے بعد سیدھا صاحب کو سلام کرنے چلا گیا تھا وہیں سے چلا آرہا ہوں۔ نوکراتنی آسانی سے تھوڑے ہی مل پاتے ہیں۔ پھر اتنی زیادہ شرطیں۔ مجھے تو بہت مشکل نظر آتا ہے۔‘‘ ظفر کی آواز بھرا گئی۔

    ’’آپ اتنے پریشان کیوں ہیں۔ ہم لوگ اپنا تیوہار کیوں خراب کریں۔ ایک آدھ ہفتے میں تلاش کرلیں گے۔‘‘ عائشہ نے دلاسہ دیا۔

    ’’میڈم نے کہاہے پرسوں تک انتظام ہو جانا چاہئے۔ پرانی والی بائی اپنے وطن واپس چلی گئی ہے۔‘‘ ظفر نے جواب دیا۔

    ’’ایک آدھ ہفتے گھرکا کام خود نہیں سنبھال پائیں گی کیا۔۔۔ اتنی نازک ہیں؟‘‘ عائشہ عورت بن گئی۔

    ’’تم بات سمجھتی نہیں ہو۔ بلاوجہ کی بحث کرتی ہو۔ مکان کے لیے اپلائی کیا ہے۔ عائشہ! صاحب دو چار دن کے اندرفیصلہ کرنے والے ہیں کہ مکان کس کوملے گا۔‘‘ ظفر نے سمجھایا۔ مکان کا ذکرسن کر عائشہ کے ماتھے کی سلوٹیں کھل گئیں۔ آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی، قریب بیٹھ کر پوچھا۔

    ’’ظفر تم نے وہ مکان دیکھا ہے۔ کتنے کمرے ہیں؟‘‘

    ’’دو روم ہال کچن۔ ایک چھوٹی سی بالکنی بھی۔‘‘

    ’’بالکنی بھی۔ سچ مچ؟‘‘ عائشہ کے منھ سے بس اتنا ہی نکلا اور اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے نگاہیں گھما کر پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ چودہ بائی بارہ کا چوتھے مالے کا تاریک کمرہ۔ ٹوٹے شیشے کی کھڑکی کے پاس ڈبل بیڈ جس کے نیچے ایک دوسرے سے ملا کر رکھے گئے ٹرنک اور سوٹ کیس۔ دروازے کے پاس میز پررکھا ٹی وی۔ اسی میز کے نیچے دری کے چوکور ٹکڑے پربچوں کے کورس کی کتابیں کاپیاں، کمرے کوبیچ سے دو کرتی ہوئی الگنی جس پہ لٹکے ہوئے ہرسائز کے گیلے گیلے کپڑے، بچو ں کو ڈانٹتے وقت ان کا چہرہ دیکھنے کے لیے جن کو دائیں بائیں سرکانا پڑتا ہے۔ دروازے کے پیچھے بڑوں اور بچوں کے جوتے چپلیں جن کی وجہ سے دروازہ پورا نہیں کھل پاتا تھا۔ ضروریات کے لیے دوسرے مالے پر اترکر مشترکہ غسل خانہ اور لیٹرین۔

    باتھ روم کا خیال آتے ہی اس نے نگاہیں گھمانا بند کرکے ذہن دوڑانا شروع کر دیا تھا۔ دو کمرے، ہال اور کچن الگ اوراس پر سے ایک بالکونی بھی جہاں گھر بھر کے کپڑے سکھائے جاسکتے ہیں۔ بمبئی میں تویہ عیش نہیں عیاشی ہوگی۔ کچن کے پلیٹ فارم پرچولہا رکھا ہو تو مکان گھر لگنے لگتا ہے۔ وہیں کے وہیں برتن دھونے کے لیے نل بھی ضرور ہوگا۔ سبھی سرکاری گھروں میں ہوتا ہے۔ دومالے نیچے برتن لاد کر نہیں اترنا ہوگا۔ ہال کوڈرائنگ روم بنائیں گے جیسا لکھنؤ میں رکاب گنج والے مکان میں بنایا تھا۔ اپنا فرنیچر اوردیگرسامان بھی منگالیں گے جو اسی مکان کے ایک کمرے میں بند پڑا سڑ رہا ہوگا اورجسے ہٹانے کے لیے مالک مکان کا ایک اورنئے کرایے دار کے تین خط آچکے ہیں۔

    ایک کمرہ بچوں کا۔ وہیں ان کی میزکرسی کتابیں کاپیاں اور کپڑوں کے ٹرنک۔ دوسرے کمرے میں صرف ایک الماری اورڈبل بیڈ۔ عائشہ نے چپکے سے نگاہیں اٹھاکر شوق کے ساتھ اپنے ادھیڑہوتے شوہر کو دیکھا۔ بڑے ہوتے بچوں کی موجودگی میں تو ظفر کے پاس بیٹھنے تک میں حجاب آتا ہے۔ ظفر نے کچھ سوچتے سوچتے نگاہیں اٹھائیں۔ بیوی کے رنگ بدلتے چہرے کو دیکھا، مسکرانے کی کوشش کی اور بولا، ’’میں بھی وہی سب کچھ سوچ رہا ہوں عشو۔ مگر خالی سوچنے سے کیا ہوگا۔‘‘

    ’’ایسا کرتے ہیں آج بقرعید میں کسی سے ملنے نہیں جائیں گے۔‘‘ عائشہ بولی۔ ’’بچوں کو پڑوس میں چھوڑکر شہرکا ایک چکرلگاتے ہیں کوئی نہ کوئی لڑکا مل ہی جائے گا۔ آپ بکرا بھی نہیں لائے۔‘‘

    ’’وقت ہی کہاں ملا عائشہ، بتایاتو صاحب کے یہاں سے سیدھا گھر ہی آرہا ہوں۔ ویسے بھی ہم نے پچھلے سال کب قربانی دی تھی۔‘‘

    ’’اس کا نتیجہ دیکھ تولیا۔ اچھے بھلے لکھنؤ میں بیٹھے تھے۔ اچانک آپ کوبمبئی دے مارا جہاں یہ کھٹولے برابر کا کمرہ رہنے کوملا ہے۔‘‘ ظفرچپ رہا۔ عائشہ کو یہ وار خالی جاتا نظر آیا، اس نے کچھ بلندی سے معاملہ پھر اپنے ہاتھ میں لیا۔

    ’’آپ صاحب نصاب ہیں؟‘‘

    ’’تمہارے زیور اور سرکاری فنڈ کی وجہ سے۔‘‘

    ’’ہیں تو؟‘‘

    ’’ہاں ہوں تو۔‘‘

    ’’صاحب نصاب پر قربانی فرض ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ ظفرنے مری مری آواز میں جواب دیا۔

    ’’یہ فرض پورا نہ ہو تو آخرت میں معلوم ہے کیا ہوتا ہے؟‘‘

    ’’کیا ہوتا ہے؟‘‘ ظفر نے بن کر پوچھا۔ کل ہی اس سلسلے میں عائشہ نے قربانی کی اہمیت، قربانی کے جانور کی تندرستی، عدم ادائیگی کی سزا، پل صراط کی باریکی اور تیزی، دوزخ کی آگ اور قیامت کے عذاب کا نقشہ تفصیلی جزئیات کے ساتھ کھینچا تھا۔

    ظفر نے دیکھا ایک بڑے سے میدان میں ہزار ہا ہزار خلقت جمع ہے۔ ریت کے ایک بڑے سے میدان میں ایک قد آدم ترازو رکھا ہے۔ اس کے ایک پلڑے میں اس کے نیک اعمال ہیں اور دوسرے میں بداعمالیاں۔ دوسرا پلڑا بوجھ کے سبب زمین سے لگا جا رہا ہے۔ اور وہیں سب کے درمیان مگرسب سے جدا خدائے ذوالجلال ایک نور کے پیکر کی صورت میں جلوہ گر ہے اور اس پیکر پرنگاہیں نہیں ٹھہر رہی ہیں۔ وہیں نزدیک ہی نیک اعمال کا معلن سفید پروں والا فرشتہ شرمندہ کھڑا ظفر کو دیکھا رہا ہے اور ادھرسرخ پروں والا فرشتہ بلند آواز میں اعلان کر رہا ہے کہ زرینہ خاتون کے بیٹے ظفر احمد نے فلاں سن میں صاحب نصاب ہونے کے باوجود بقرعید کے موقعے پر قربانی نہیں دی۔ اس نے بچپن میں سن رکھا تھا کہ قیامت میں لوگوں کوان کی ماں کے نام سے پکاراجائے گا۔

    سرخ فرشتے کے اس اعلان پر اس کے سارے دوست احباب کھڑے کھڑے ٹھٹھے لگا رہے ہیں، پھر وہ دوست احباب مضبوط اونٹوں، تندرست گایوں بھینسوں اورخوبصورت بکروں اور مینڈھوں پر بیٹھ کر مسکراتے ہوئے فخریہ انداز سے پل صراط پار کر رہے ہیں۔ اور جب وہ عائشہ اور بچوں کولے کر پل پار کرنے کے لیے آگے بڑھا توپل کو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز پایا۔ پہلا قدم رکھتے ہی سب کے بدن بیچ سے دو ہوگئے اور نیچے اس آگ میں گرکرانگاروں کی طرح بھڑکنے لگے جس کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے۔ اس کے دوست احباب پیچھے مڑکر نیچے دیکھتے ہوئے آپس میں کہہ رہے ہیں کہ اگر ظفر نے قربانی دی ہوتی تو اس وقت وہ بھی اسی جانور کو سواری بنا کر اطمینان سے یہ پل پار کر رہا ہوتا۔

    ’’چلو پہلے لڑکے کو تلاش کر لائیں۔‘‘ عائشہ اسے وہاں سے کھینچ لائی، ’’قربانی کا وقت تو تین دن تک رہتا ہے۔‘‘

    دوپہر سے گھومتے گھومتے شام ہوگئی۔ کئی بسیں بدلیں۔ دودفعہ ٹیکسی بھی کرنا پڑی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ وہ دونوں غروب ہوتے سورج کے سامنے حاجی علی کی درگاہ کے مقابل سمندر کی فصیل پرخاموش بیٹھے تھے۔ ۱۲۔ ۱۳ برس کا ایک لڑکا بھیک مانگتا ان کے پاس آیا۔ ظفر نے گردن موڑ کر دیکھا اور بیزاری سے منھ پھیر لیا مگرعائشہ کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

    ’’سنو ظفر اس سے بات کریں؟‘‘

    ظفرنے اسے پھر دیکھنا ضروری سمجھا۔ وہ میلے میلے کپڑے پہنے ہاتھوں میں گندی گندی پٹیاں باندھے، خالی خالی آنکھیں لیے ان کے سامنے کھڑاتھا۔ عورت مرد کو آپس میں سرگوشیاں کرتے سن کر اسے بھیک ملنے کی امید بندھ گئی تھی۔

    ’’کام کروگے گھرکا۔۔۔؟‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دے۔ ’’وہاں تین وقت کا کھانا ملے گا۔ بجلی کا پنکھا ہروقت چلے گا۔ نہانے کوملے گا۔ صاف کپڑے بھی۔‘‘ اس کی گردن پرجمے میل کو دیکھ کر اورمیڈم کے اسی عمر کے بچوں کا خیال کرکے اس نے یہ بات کہی تھی۔ لڑکے نے اس کی باتیں بہت مایوسی سے سنیں۔

    ’’نئیں۔ اپن کو اسی جگہ پہنچ دھندا کرنا ہے۔ اپنے والے سب لوگ ادھریچ ہیں۔ اماں، باپ بہنیں سب۔‘‘ وہ دونوں ہکا بکا اسے دیکھتے رہے اور وہ آگے بڑھ کر کسی دوسرے آدمی سے دھندا کرنے لگا۔ وہ دونوں بہت ناامید گھر واپس آئے اور بچوں کوان حرکتوں پر ڈانٹ کر سوگئے، جوان کے خیال کے مطابق ان کی غیرموجودگی میں بچوں نے کی ہوں گی۔ دوسرے دن آفس میں صاحب نے نوکر کے بارے میں پوچھا، ’’آپ کل تک انتظار کریں سر۔ تقریباً سارا انتظام ہوچکا ہے۔‘‘

    وہ گھبراہٹ میں جھوٹ بول گیا۔ وہ آفس کے وقت سے پہلے ہی گھرواپس آگیا۔ عائشہ دروازے پر اس کی منتظر تھی۔

    ’’بتائیے اندر کون ہے؟‘‘

    ’’کیا کوئی مہمان آیاہے؟‘‘ اس نے گھبرا کر پوچھا۔

    ’’مہمان ہی سمجھ لیجئے۔‘‘ وہ جلدی سے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرے کے وسط میں بڑی میز کے پایے سے بندھا ایک سیاہ بکرا دونوں ٹانگیں جوڑے، سرنیوڑھائے، سینگ تانے اس کا منتظر تھا۔

    ’’یہ تم نے اچھا کیا۔ مجھے تو وقت ہی نہیں مل پا رہا تھا۔‘‘ ظفر نے اطمینان کاسانس لیتے ہوئے کہا پھربکرے کا بھرپورجائزہ لیا۔ قریب آکر اس کے دونوں کان غور سے دیکھے اور ان کوچھوا۔ پھر اس کی دم دیکھی پھر آگے آکراس کے سینگوں کا بغور معائنہ کیا۔ پھر پیچھے جاکر اس کی ٹانگیں ایک ایک کر کے دیکھیں۔

    ’’کیا دیکھ رہے ہیں اتنے غور سے؟‘‘ عائشہ نے پوچھا۔

    ’’کوئی عضو کوئی حصہ کٹا پھٹا، ٹوٹا پھوٹا نہیں ہوناچاہیے۔ جانور مکمل طور سے تندرست ہونا چاہیے۔ یہ ہماری پل صراط کی سواری ہے عائشہ۔‘‘

    ’’بے شک۔‘‘ عائشہ نے خداترسی والے اندازمیں تائید کی۔ دونوں بچے بکرے کو گیہوں کے دانے اورروٹی کے ٹکڑے کھلانے لگے۔

    ’’آفس میں صاحب نے نوکر کے بارے میں پوچھا تو میرے منھ سے نکل گیاکہ تقریبا ًسارا انتظام ہوگیا ہے۔ میں جھوٹ بولنا نہیں چاہ رہا تھا مگرانجانے میں ایسا ہوگیا۔‘‘

    ’’جھوٹ کی کیا بات ہے۔ ہم لوگ کل اپنا تیوہار چھوڑکرشہر بھرمیں مارے مارے نہیں پھرتے رہے کیا؟ قربانی تک نہیں کرپائے۔ ہماری نیت تویہی رہی ناکہ نوکر مل جائے۔‘‘

    ’’نیت کاثواب صرف اللہ میاں والے کاموں میں ملتا ہے۔ صاحب اور میڈم کو نوکرچاہیے۔ نوکر تلاش کرنے کی نیت نہیں۔‘‘

    ’’تم کل کی چھٹی لے لو۔ کل دن بھرمیں کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گا۔‘‘ عائشہ نے اسے مشورہ دیا۔ ظفر کواس کی بات معقول لگی۔ نیچے جاکر اس نے پبلک بوتھ سے صاحب کے مکان پر فون کیا۔ دوسری طرف میڈم نے فون اٹھایا۔ وہ گھبرا گیا۔

    ’’دراصل بات یہ ہے میڈم کہ لڑکے کواس کے گھر سے لانے میں بہت وقت لگ جائے گا۔ اس لیے صاحب سے کل کی چھٹی کی بات کرنی تھی۔‘‘

    ’’آپ چھٹی کی فکر نہ کریں بس نوکرپانچ بجے شام تک ضرور پہنچا دیں۔ آپ کو یاد ہے نا میں نے اس کے بارے میں کیا کیا بتایا تھا۔ زیادہ سیلری تونہیں مانگتا ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ویسا ہی تلاش کیا ہے۔ جی نہیں پگار زیادہ نہیں ہے۔‘‘

    وہ جھوٹ پرجھوٹ بولتا جا رہا تھا۔ ’’صاحب کو میری مکان والی بات ضرور یاد دلا دیجئے گا پلیز۔‘‘

    ’’میں کہہ دوں گی مگر صاحب آج کل آپ سے بہت زیادہ خوش نظرنہیں آرہے۔‘‘ میڈم نے جذبے سے عاری آوازمیں اسے مطلع کیا۔ اس اطلاع سے اس کا دل بجھ گیا۔ وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ میڈم کو اس کی خاموشی پرشاید رحم آگیا۔

    ’’کل جب آپ نوکر لے کرآئیں گے تو شاید صاحب خوش ہوجائیں۔ اسی موقعے پرآپ کے جانے کے بعدمیں ریکمنڈ کردوں گی۔‘‘

    ’’تھینک یو۔ تھینک یو ویری مچ میڈم۔‘‘ فون رکھ کرجب وہ گھرمیں داخل ہوا تو ناامید نہیں تھا۔ صبح ۸ بجے سے ۴ بجے تک تلاش کرنے پر نوکرضرور مل جائے گا۔

    ’’اسے قصائی کے یہاں جاکر ذبح کرا دیجئے۔ کل معلوم نہیں وقت ملے نہ ملے۔‘‘

    ’’تم فکرمت کروعائشہ۔ ویسے بھی اب جوگیشوری تک جاتے جاتے رات ہوجائے گی۔ کل شام تک بہت وقت پڑاہے۔‘‘ ظفرنے اسے تھپتھپایا۔

    ’’بس کل مغرب تک کا وقت ہے اس کی قربانی کا۔ پھر قبول نہیں ہوگی۔ آپ جانتے ہیں کہ قیامت کے روزسفید پروں والافرشتہ ہماری وجہ سے شرمندہ ہوگا اور سرخ پروں والا فرشتہ ہمارے اعمال کی خبر فوراً اللہ تعالی کودے گا۔‘‘ عائشہ نے پھر آخرت کا نقشہ کھینچنا شروع کردیا۔

    ’’تم بے فکر رہوعائشہ۔‘‘ ظفرنے بکرے کو کونے میں باندھتے ہوئے جواب دیا۔ اور اس کی پھیلائی ہوئی گندگی کوسمیٹ کرعائشہ نے باہر رکھے کوڑے دان میں ڈال دیا اورادھر ادھر دیکھ کر اس پر آج کا اخبار ڈھک دیا۔

    صبح آٹھ بجے آٹو میں بیٹھ کر دونوں نے نقشہ بنایا کہ شہر کوکیسے کیسے کور کرنا ہے۔ بیچ بیچ میں عائشہ نئے مکان کے دروازوں اورکھڑکیوں کے پردوں کے رنگ کے بارے میں اس سے پوچھتی رہی۔ آرے ملک کالونی کے پارک کے اطراف تمام جھگیوں کے چکر لگا کر، جوگیشوری، اندھیری، سانتاکروز، کالینہ، کرلا اور پھرہائی وے پرآکر باندرہ تک کے تمام امکانی مقامات دیکھ ڈالے۔ نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔ ایک بج گیا۔ عائشہ کادل ڈوبنے لگا۔ اسے انڈین آئل کی عمارت کے پیچھے پھیلی ہوئی تمام انسانی آبادی اجنبی محسوس ہوئی۔ حد نظر تک پھیلے ہوئے مکانوں کے مکینوں کے خلاف ایک زبردست نفرت کا جذبہ اس کے دل میں شعلے بن کر اٹھا۔ وہ شعلہ آہستہ آہستہ بیٹھ گیا اور سینے میں گھٹن سی ہونے لگی۔ اس نے روہانسے اندازمیں ظفرکی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کرظفرکادل بھی کمزور ہوگیا۔ وہ دونوں وہیں ایک پلیا پر بیٹھ گیے۔ اس کے آگے آٹو نہیں جاتا۔ بمبئی میں ٹیکسی کرنی پڑے گی۔

    ’’چلو دادر تک اور دیکھ آئیں۔‘‘ ظفر نے امید بندھائی۔

    ’’آپ سوچ لیں ایسا نہ ہوکہ قربانی بھی اکارت جائے۔ اب وقت زیادہ نہیں بچا ہے۔‘‘ عائشہ نے اندیشہ ظاہر کیا۔ اس اندیشے کے طائر اس کے کانوں کے پاس بھی پھڑپھڑائے تھے مگر اس نے ہمت بندھائی۔

    ’’تم فکرمت کروعائشہ۔ دونوں کام وقت سے ہوجائیں گے۔‘‘ اس نے شوہروں والے سرپرستانہ اندازمیں تسلی دی۔ شیواجی پارک کے آس پاس اکثر بیسیوں لڑکے نظر آتے تھے مگرآج سب غائب تھے۔ آگے بڑھے توپریل کے بعد لال باغ میں بوٹ پالش کرتا ایک لڑکا نظرآیا۔ اس سے معاملت کی بات کی تو اس نے ہنس کر بتایا کہ وہ ایک دن میں اسیّ روپئے کماتا ہے۔ ظفرنے جلدی جلدی حساب لگا کر اس کی ماہانہ آمدنی کا موازنہ اپنی تنخواہ سے کیا اور گھبرا کر عائشہ کا ہاتھ پکڑ کر آگے ہو لیا۔

    بھارت ماتا والی سڑک سے ورلی پہنچے، وہاں میلہ ہوٹل کے پاس ایک سرخ بتی پر جب ٹیکسی رکی تو ایک ۱۳۔ ۱۴ برس کے سیاہ فام لڑکے نے ٹیکسی کا شیشہ ایک میلے کپڑے سے اور گندہ کیا اور ان دونوں کے سامنے آکر ہاتھ پھیلا دیے۔

    ’’کام کروگے؟ گھرکا۔‘‘ عائشہ نے شیشہ کھول کر بے تابی سے پوچھا۔

    ’’کروں گا۔‘‘

    ’’کیا کہا؟‘‘ عائشہ اور ظفر دونوں کے منھ سے ایک ساتھ نکلا۔

    ’’کروں گا۔ کیاملے گا؟‘‘

    ’’تین وقت کا کھانا، صاف کپڑے، بجلی کا پنکھا، بستر بھی ملے گا اور ساتھ میں پیسے بھی۔‘‘

    ’’پہلے کہیں کام کیا ہے؟‘‘ عائشہ نے جلدی جلدی جملے اداکیے۔

    ’’ہاں۔ پیچھو والی بلڈنگ میں گیارہ مالے پربرتن مانجھے۔‘‘

    بتی ہری ہوگئی تھی۔ دونوں جلدی جلدی ٹیکسی سے اترے، پیسے ادا کیے اور لڑکے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے تھامے فٹ پاتھ پرآئے۔ دونوں کے دل باغ باغ تھے۔ لڑکے کا گھر اس تنگ گلی میں تھا جس کی ابتدا سڑک سے ہوتی تھی اور انتہا اس جھگی پرجاکر ہوتی تھی جو لگ بھگ آدھی کے قریب سمندر کی کیچڑ کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ وہ جنوبی ہند کی ایک مزدور پیشہ عورت کا چوتھا بیٹا تھا جس کی ماں ابھی دو سال پہلے ایک شرابی کی جھگی میں آبسی تھی۔

    ’’پیسہ۔۔۔؟‘‘ ماں کے شرابی مرد نے ہاتھ نچاکر پوچھا۔

    ظفر نے گھڑی دیکھی چاربج رہے تھے۔ عائشہ نے بھی وقت دیکھ لیا۔ ظفر نے معاملت کی باتیں جلدی جلدی طے کیں اور اپنا پتہ اور سو روپیے کانوٹ دے کرلڑکے کا ہاتھ پکڑکر، ماں اور اس کے مرد کو دلاسے دیتے ہوئے تیزی سے گلی کے باہر آئے اورایک ٹیکسی رکوا کر تینوں سوار ہوئے۔ ماں گلی کے موڑ تک لڑکے کو چھوڑنے آئی تھی۔ وہ اپنی زبان میں لڑکے کو کچھ سمجھاتی جارہی تھی۔ لڑکا سر ہلا ہلا کر تمام باتوں کا اقرار کرتا جا رہا تھا۔

    ورلی سے گورے گاؤں تک ظفر نے لڑکے کا جائزہ لے کرپورا منصوبہ بنا لیا کہ کس طرح اسے دوگھنٹے کے اندر اندر اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ صاحب اورمیڈم کے سامنے پیش کرتے وقت شرمندگی نہ ہو۔ وہ اسے کچھ سمجھاتا بھی جا رہا تھا۔ ورلی سے گورے گاؤں تک عائشہ نئے ملنے والے مکان کے دروازوں اورکھڑکیوں پرپردے ٹانگتی رہی اورنئے بیڈروم کی چادر کی سلوٹوں کو دور کرتی رہی۔ ورلی سے گورے گاؤں تک لڑکا ہونقوں کی طرح بیٹھا سوچتا رہا کہ تین وقت کھانا کھانے میں کتنا مزہ آئے گا۔

    اپنی بلڈنگ میں پہنچ کر، دوسرے مالے پر بنے باتھ روم میں جاکرظفر نے اسے پہلے رن صابن سے صاف کیا اور پھرلائف بوائے سے نہلایا۔ نیل کٹر سے ناخن تراشے اورناخنوں کا میل اچھی طرح صاف کیا جو ناخن ترشنے کے باوجود انگلیوں کے سروں پر ویسا ہی جمارہ گیا تھا۔ اپنے بیٹے کے کپڑے پہنائے۔ پھرعائشہ نے اس کے بالوں میں تیل ڈال کر کنگھی کی۔ اب وہ بالکل تیار تھا۔ اوپر سے دونوں بچے بکرے کو لے کرنیچے اترے۔

    ’’پاپا پاپا ہم نے اسے آج خوب روٹی کھلائی اور خوب نہلایا اور اپنی تولیہ سے صاف کیا۔‘‘ بچوں نے داد طلب نظروں سے باپ کو دیکھا۔

    ’’جلدی کیجئے بکرا بھی ساتھ لے جائیے۔ راستے میں ذبح کرادیجئے گا۔‘‘ عائشہ بولی۔

    ’’بہت کم وقت رہ گیا۔‘‘ ظفرنے دیکھا کہ عائشہ کی آنکھوں میں سفید پروں اور سرخ پروں والے فرشتے پھڑپھڑا رہے تھے۔

    ’’تم فکرمت کرو عائشہ۔‘‘ ظفرنے حسبِ معمول اسے دلاسہ دیا۔ اور ایک ہاتھ میں بکرے کی رسی اور دوسرے میں بچے کا ہاتھ پکڑکر سیڑھیاں اترکرنیچے آگیا۔ آٹو رکشہ کے ڈرائیور کو کسی نہ کسی طرح راضی کرکے بکرے اور لڑکے کو سوارکرایا۔ گھڑی دیکھی۔ سورج ڈوبنے میں تھوڑی ہی دیر رہ گئی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں تیزہوگئیں۔

    ’’ذرا جلدی کرو ڈرائیورصاحب۔‘‘ اس نے بے تابی کے ساتھ ڈرائیور کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    ’’اپن بہت تیزچل رہا ہے صاحب۔ ایروپلین مافک۔‘‘ ظفراس کے مزاح سے لطف اندوز نہیں ہوسکا۔ چہرہ نکال کر اونچی اونچی بلڈنگوں پرسمٹی ہوئی پھیکی پھیکی سورج کی روشنی کو دیکھتا رہا۔ اچانک ایک اندیشے نے پر پھڑپھڑائے۔ کہیں دیر ہوجانے کی وجہ سے صاحب اورمیڈم نے کوئی دوسرا نوکر نہ رکھ لیا ہو۔ ہوسکتا ہے صاحب نے دفتر میں کسی اور سے بھی کہہ رکھا ہو۔ وہ یہ سوچ سوچ کر بدمزہ ہو رہا تھا۔ وہ دیر تک یہی سوچتا رہا۔ اچانک اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ٹرافک کے شورمیں پیچھے سے مغرب کی اذان کی آواز اس کے کان میں آئی ہو۔

    ’’جوگیشوری کی طرف، جوگیشوری کی طرف موڑ لو۔ بکرا قربان کرناہے ڈرائیور صاحب۔‘‘ ظفر چلایا۔

    ڈرائیور نے آٹو کنارے کر کے بتایا، ’’جوگیشوری تونکل گیا صاحب، اپن لوگ سانتا کروز کے پاس آگئے وہ دیکھو سامنے ایروپلین اڑا۔‘‘ ظفر نے دیکھا رن وے پرایک سفید پروں والا فرشتہ اس کی سمت آتے آتے ایک طرف کومڑا اور دورآسمان کی طرف اڑگیا۔ بکرے پراس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔

    ’’پھر بھی جوگیشوری چلو۔ اسے لے کرکہاں جائیں گے۔‘‘ ظفر نے کمزور آوازمیں کہا۔

    ’’قربانی کا وقت نکل گیا۔ اب اس جانور کے آدھے پیسے مل پائیں گے۔‘‘ جوگیشوری میں قصائی بولا۔

    جب وہ آدھے پیسے لے کر آٹومیں بیٹھ کرروانہ ہوا تو اس نے دیکھا سر خ پروں والا فرشتہ ہاتھ میں ننگی چھری لیے بکرے کواپنے گھرکی طرف ہانک رہا ہے۔ جس سڑک پرآٹو دوڑ رہا تھا وہ اسے بال سے زیادہ باریک اور قصائی کی چھری سے زیادہ دھاردار محسوس ہوئی۔ ایک اورخیال سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ کہیں صاحب اورمیڈم نے دیرہوجانے کی وجہ سے کسی اور کا لایا ہوا نوکرنہ رکھ لیا ہو۔ مرے مرے قدموں سے صاحب کے گھر کی سیڑھیاں چڑھ کر جب اس نے گھنٹی کا بٹن دبایا تو یہ دیکھ کر اس کا دل خوش ہوگیا کہ دروازہ کسی نوکر نے نہیں، صاحب کے بیٹے نے کھولا تھا۔

    ’’آئیے پاپا اور ممی آپ کا کتنی دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں ہیں۔‘‘ صاحب کے بیٹے نے ڈرائنگ روم کی طرف اشارہ کیا۔ لڑکے کاہاتھ پکڑکروہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ڈرائنگ روم کے وسط میں ایک نورکا پیکرجلوہ گرتھا اور اس کے نزدیک ہی سفید پروں والا فرشتہ ساڑی پہنے کھڑا تھا جو آنے والوں کو شفقت کے ساتھ مسکراکر دیکھ رہا تھا۔

    مأخذ:

    ڈار سے بچھڑے (Pg. 188)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: سید محمد اشرف
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے