Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فرض شناس

دیپک بدکی

فرض شناس

دیپک بدکی

MORE BYدیپک بدکی

    میں اپنے دفتر میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ آج کوئی منحوس خبر ضرور ملنے والی ہے۔ کوئی کابوسی ڈر تھا جو مجھے پریشان کر رہا تھا۔ دن ہی کچھ ایسے تھے کہ ذہن ہر دم منفی خیالات میں گرفتار رہتا تھا۔ ہڑتالیں، جلسے جلوس، سرکاری کرفیو، سِول کرفیو، گولی باری، بم دھماکے، انکاونٹر، ناکہ بندی، ہلاکتیں اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔! جان ہتھیلی پر رکھ کر دفتر چلا جاتا اور جب تک شام کو گھر نہ لوٹتاکسی نہ کسی بُرے حادثے کا منتظر رہتا۔

    سارا ماحول اچانک بگڑ گیا تھا۔ کوئی آدمی ایک دو مہینے قبل کشمیر میں رہ کے گیا ہوتا وہ اس بات پر یقین ہی نہ کرتا کہ وادی میں ہر سو موت کے سائے منڈلاتے پھرتے ہیں۔ ہر روز مظاہرے ہوتے، لمبے لمبے جلوس نکلتے اوریو این او کے دفتر میں حاضری دی جاتی۔ ایسے مظاہروں کا ہنگامی طور پر انتظام کرنا بعید از قیاس تھا۔ ممکن ہے کہ اس کارروائی کا منصوبہ خفیہ طور پر بہت عرصہ پہلے بنایا جا چکا ہو۔ ایک منظم کوشش کے تحت انتظامیہ کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ کئی ریاستی اور غیر ریاستی ہستیوں کو اغوا کر لیا گیا جن میں سے کئی لوگ زندہ واپس نہیں آئے جب کہ کئی لوگوں کے متعلقین نے تاوان دے کر ان کی جان چھڑوائی۔

    تخریبی کار روائیوں کے لیے ڈاک خانے بہت آسانی سے نشانہ بن جاتے ہیں۔ مشتعل بھیڑ جہاں کہیں لال لیٹر بکس دیکھتی ہے اسے اکھاڑ پھینکتی ہے، جہاں کہیں ڈاک خانے پر نگاہ پڑتی ہے اسے لوٹ پاٹ کر تباہ کر تی ہے اور جہاں کہیں لال ڈاک گاڑی نظر آتی ہے اسے نذر آتش کرتی ہے۔ اس کے باوجود فرض شناس ڈاک ملازم اپنی ڈیوٹی پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں اور محکمے کی جائیداد کی حفاظت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ کشمیر میں بھی ایسا ہی کچھ ہوتا رہا۔ تقریباً پینسٹھ ڈاک خانے یا تو جلائے گئے یا پھر ان کو لوٹا گیا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی بُری خبر ضرور مل جاتی۔

    اس روز میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور کسی انجان شخص نے مجھے بتایا کہ خانیار کے ڈاک خانے میں بم پھٹ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ ان دنوں میں ڈائریکٹر تھا اور پوسٹ ماسٹر جنرل، جو علالت کے باعث دہلی چلا گیا تھا، کی غیرحاضری میں پورے سرکل کی ذمے داری سنبھالے ہوئے تھا۔ موقعے پر جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ایسے مشکوک حالات میں کئی افسر یرغمال بنائے گئے تھے۔ لیکن دوسری جانب ڈاک خانے کے ملازمین کا سوال تھا۔ نہ جانے کس حال میں ہوں گے؟ کہیں کوئی زخمی تو نہیں ہوا؟ یہ سبھی خیالات یکے بعد دیگرے میرے ذہن کو مختل کر رہے تھے۔ میرے روبرو یونین کا ایک لیڈر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بھی پریشاں ہو گیا۔ میں نے آب دیکھا نہ تاب، ڈرائیور کو سندیسہ بھیجا کہ کار گیراج سے باہر نکالے اور پھر یونین لیڈر کے ساتھ خانیار چلا گیا۔

    پندرہ بیس منٹوں میں ہم خانیار پوسٹ آفس پہنچ گئے۔ ڈاک خانہ دوسری منزل پر تھا اور اوپر جانے کے لیے ایک لکڑی کی سیڑھی تھی۔ بم اسی سیڑھی کے نیچے رکھا گیا تھا۔ بم کے پھٹ جانے سے پہلی منزل کو شدید نقصان پہنچ چکا تھا مگر دوسری منزل پر زیادہ اثر نہیں ہوا تھا۔ البتہ سیڑھی زمین سے اکھڑ چکی تھی اور جھولے کی طرح لٹک رہی تھی۔ اس پر بھاری وزن پڑنے سے ہو سکتا تھا کہ وہ اوپر سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑتی۔ با ایں ہمہ ڈاک خانے کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں اسی لٹکتی ہوئی سیڑھی کا سہارا لے کر لنگور کی مانند ایک، دو اور تین چھلانگیں مار کر اوپر پہنچ گیا۔ میرے ساتھ کھڑا یونین لیڈر، جو عمر میں مجھ سے کافی بڑا تھا، چلاتا رہا۔

    ‘’سر، سر، ایسا مت کیجیے، یہ سیڑھی ٹوٹ جائےگی اور آپ کو چوٹ لگ جائےگی۔ سر، پلیز ایسا مت کریں۔ میں ابھی باہر سے کوئی سیڑھی لے کر آتا ہوں۔’‘

    لیکن مجھ پر جنون سوار ہو چکا تھا۔ سو اپنی فکر کرنے کے بغیر میں اوپر دوسری منزل پر پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد یونین لیڈر نے قریبی دکان سے ایک سیڑھی کا انتظام کرایا اور خود بھی اوپر پوسٹ آفس میں پہنچ گیا۔

    دوسری منزل پر پوسٹ ماسٹرسلطان ڈار اپنے سینے کو بائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے اس روز کا حساب رف اکاونٹ میں ملانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ بہت پریشان نظر آ رہا تھا۔ اس کے سینے میں شدید درد اٹھ رہا تھا مگر وہ اس سے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دونوں ہاتھ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو چکی تھیں۔ پھر بھی وہ تندہی سے اپنا کام مکمل کرنے میں جٹا ہوا تھا۔ ہڑ بڑی میں اس کو آمدن، خرچہ اور باقی رقم کا حساب نہیں مل پا رہا تھا۔ بہت کوشش کرنے کے باوجود کہیں کوئی گڑبڑ ضرور تھی۔ جونہی اس نے مجھے دیکھا وہ زیادہ ہی پریشان ہو گیا۔ اسے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ کہیں افسر ایسا نہ سمجھے کہ اس نے کوئی خورد بُرد کی ہے۔ میں نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا:

    ’’سلطان ڈار، زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، حساب آج نہیں تو کل مل جائے گا۔ فی الحال تم میرے گاڑی لے کر گھر چلے جاؤ اور وہاں سے فوراً کسی ڈاکٹر کے پاس حاضری دو۔ مجھے تمھاری حالت تشویش ناک لگ رہی ہے۔ جتنا کچھ کیش ہے اسے ہم جمع کروا دیں گے۔ تم مطمئن رہو۔ پھر کل آ کر آج کا حساب لکھ لینا۔ ڈاک خانے کی فکر مت کرو، ہم خود ہی تالا لگا کر جائیں گے۔’‘

    لیکن سلطان ڈار کی فرض شناسی کا یہ عالم تھا کہ وہ میری بات ماننے کو راضی نہ ہوا۔ اس کی بغل میں ڈاک خانے کا گروپ ڈی میل بیگ بنا رہا تھا۔ اس نے سبھی رجسٹریاں، پارسل اور منی آرڈر مع ان کی لسٹوں کے تھیلے میں ڈال دیے۔ پھر عام چٹھیاں، پوسٹ کارڈ اور پارسل تھیلے کے حوالے کر دیے۔ اس کے بعد وہ پوسٹ ماسٹر کا انتظار کرنے لگا تاکہ اس میں ڈیلی اکاونٹ کی کاپی ڈال دے۔ اُدھر یونین لیڈر نے بھی سلطان ڈار سے درخواست کی کہ وہ ہٹ کر حساب کی کتاب اس کے حوالے کر دے تاکہ وہ اس کے بدلے حساب ملا نے کی کوشش کرےگا۔ مگر سلطان ڈار پر اس وقت نہ جانے کون سا بھوت چڑھا ہوا تھا کہ وہ کسی کی سننے کو تیار ہی نہ ہوا۔

    یہ پہلی بار تھی جب میں کسی ڈاک بابو کی فرض شناسی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے تعجب ہو رہا تھا۔ میں اندر ہی اندر سوچنے لگا کہ اس کی جگہ میں ہوتا تو کب کا گھر چلا گیا ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، تادیبی کار روائی ہوتی۔ ایسی حالت تو نہ ہوتی۔ یہ غریب لوگ بھی کتنے سیدھے سادے ہوتے ہیں۔ فرض کی خاطر اپنی جان سے کھیل جاتے ہیں۔

    یونین لیڈر اور مجھے، دونوں کو اس کے سینے میں اٹھ رہے درد کا اندازہ ہو رہا تھا۔ مجھے شک تھا کہ اس کو کہیں ہارٹ اٹیک نہ آیا ہو۔ مگر اس نے اپنی صحت کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ البتہ وہ پریشان تھا کہ اس کا حساب نہیں مل رہا ہے۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر بتر تھی۔ چہرے پر تھکاوٹ کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔ کئی بار وہ اپنی چھاتی کو ایسے دباتا کہ شاید اسی سے درد میں کچھ کمی ہو جائے۔ مگر مجھے لگ رہا تھا کہ وہ شدید درد سے اندر ہی اندر چھٹپٹا رہا ہے پھر بھی ظاہر کرنے سے خود کو روک رہا ہے۔

    کچھ وقفے کے بعد گروپ ڈی نے اسے پوچھا کہ حساب میں کتنے روپے کا فرق آ رہا ہے۔ پوسٹ ماسٹر نے جواب دیا۔ ’’دو سو تیس روپے کم ہو رہے ہیں۔’‘

    گروپ ڈی جھٹ سے بول پڑا۔ ‘’آپ نے صبح کوئلہ خریدنے کے لیے مجھے دو سو تیس روپے دیے تھے۔ میں نے اس کی رسید لا کر آپ کو دی تھی جو آپ نے اس جرنل میں رکھ دی۔’‘

    پوسٹ ماسٹر کو دفعتاً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے جھٹ جرنل ٹٹولا، اس میں سے رسید نکالی اور اس کا اندراج حساب میں کر لیا اور اس طرح رف اکاونٹ ملا لیا۔ پھر ڈیلی اکاونٹ میں نقل اتار کر اس کی کاپی گروپ ڈی کو دے دی۔ گروپ ڈی نے میل بیگ بند کر لیا۔ یونین لیڈر نے اس دن کا کیش اور میل بیگ ہیڈ آفس میں جمع کرنے کا ذمہ لے لیا۔ میں نے سلطان ڈار سے کہا کہ میں اس کو گھر پر چھوڑ کر واپس چلا جاؤں گا مگر اتنی دیر میں اس کا کوئی رشتے دار سکوٹر لے کر پہنچ گیا اور وہ اس کو اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ جاتے وقت میں نے دوبارہ سلطان ڈار کو تاکید کر لی کہ وہ گھر پہنچتے ہی ہسپتال چلا جائے۔ اس کے بعد ہیڈ آفس میں کیش اور میل بیگ جمع کروا کے میں اپنے آفس چلا گیا۔

    دفتر پہنچ کر مجھے سلطان ڈار پر ترس بھی آ رہا تھا اور فخر بھی محسوس ہو رہا تھا۔ شدید درد کے باوجود اس نے حساب میں دو سو تیس روپے کی کمی کو ڈھونڈنے کے لیے کم سے کم ایک گھنٹہ صرف کر دیا۔ اتنی دیر میں وہ ہسپتال پہنچ چکا ہوتا اور اس کے مرض کا فوری علاج ہو جاتا۔ اگر اس کے سینے میں اٹھا درد عارضۂ قلب کی وجہ سے تھا تو اس کو بچانے کی کوششیں کی جاتیں۔ جہاں تک حساب ملانے کا تعلق تھا، وہ دوسرے دن بھی ملایا جا سکتا تھا کیونکہ میں نے اس کی اجازت دی تھی۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا، حساب نہ ملنے پر جیب سے دو سو تیس روپے دینے پڑتے۔ دوسری جانب مجھے اس کی فرض شناسی پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔ وہ سرکار کے روپے کو امانت سمجھ رہا تھا اور تب تک اپنی کرسی سے نہیں ہلا جب تک پائی پائی کا حساب نہیں ملا۔ یوں تو جذبۂ دیانت داری ڈاک خانے کے اکثر و بیشتر ملازمین میں ملتا ہے مگر ایسی انتہائی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔

    دوسرے روز میں نے ایک پبلک ریلیشنز انسپکٹر کو سلطان ڈار کی خبر لانے کے لیے اس کے گھر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے اطلاع دی: ’’سر، سلطان ڈار کو کل رات ہی ہسپتال میں بھرتی کرایا جا چکا ہے۔ دہشت گردی کے سبب آج کل ہسپتالوں کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ اِدھر ہر طرف دھماکے ہو رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ گھائلوں کو لایا جا رہا ہے۔ ادھر ڈاکٹروں اور نرسوں کا کہیں کچھ پتا ہی نہ چل رہا ہے۔ نصف سے زیادہ ڈاکٹر وادی چھوڑ کر بھاگ چکے ہیں۔ انتظامیہ ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ اس لیے مریضوں کی دیکھ بھال نہیں ہو رہی ہے۔ سلطان ڈار بھی اسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔’‘

    اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت بالکل نہ تھا کیونکہ ہسپتالوں کی صورت حال کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ سیکورٹی کے باعث میں اس کی عیادت کے لیے نہ تو اس کے گھر جا سکا اور نہ ہی ہسپتال۔ صرف مقامی اسٹاف کو اس کی خبر لانے کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجتا رہا۔

    دو دنوں کے بعد خبر ملی کہ سلطان ڈار خدا کے پاس پہنچ چکا ہے۔ مجھے سن کر بہت افسوس ہوا۔ میری آنکھوں کے سامنے اس کی تصویر ابھر آئی۔ چہرے پر شکنوں کا جال اور پسینے، ذہن میں الجھنیں، بائیاں ہاتھ سینے پر اور دائیں ہاتھ سے قلم گھسیٹنے کی کوشش۔۔۔!

    اسی روز میں نے سلطان ڈار کو ڈاک سیوا ایوارڈ دلوانے کا قصد کر لیا۔ اس کی فائیل بنائی گئی مگر کچھ روز کے بعد ہی سرکل آفس کے اکثر ملازم وادی چھوڑ کر چلے گئے۔ دفتر مہینے بھر بند رہا اور پھر آدھا مقامی ہیڈ آفس شفٹ ہوا اور آدھا جموں چلا گیا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور اس کے بعد سلطان ڈار کی فائیل کہیں بھی نہ ملی۔ چنانچہ وہ بیچارا اکیلا چلنے والا ملازم تھا جو کسی یونین سے زیادہ نزدیکی سے وابستگی نہیں رکھتا تھا اس لیے کسی یونین والے نے اس کے کیس کی پیروی نہیں کی۔

    مجھے آج تک اس بات کا جواب نہیں ملا کہ اس کا کیس کیوں دبا دیا گیا؟ کیا یہ افراتفری کی وجہ سے ہوا یا فرقہ وارانہ ذہنیت کی وجہ سے یا پھر اس کی تجرد پسندی کے سبب؟ ایک فرض شناس ڈاک بابو کی قربانی کا نہ اس کے رفیق کاروں کو احساس ہوا اور نہ ہی کسی یونین لیڈر کو۔ وہ اکیلا ہی آخری سفر پر چل پڑا مگر مجھے یقین ہے کہ اس کے اعمال اس کو جنت کا دعوے دار ضرور بنائیں گے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے