Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھر ہوا یہ۔۔۔

شہناز پروین

پھر ہوا یہ۔۔۔

شہناز پروین

MORE BYشہناز پروین

    پھر ہوا یہ کہ اس نگری کے بہت سے باشندے ایک ایک کرکے غائب ہونے لگے، پہلے پہلے یہ ایک سانحہ سا محسوس ہوا، پھر حادثہ، پھر واقعہ اور پھر معمول، ہر روز جیسے کوئی جادو کی چھڑی گھماتا اور شہر کے بہت سے لوگ اچانک غائب ہو جاتے۔

    حق نواز کے ذہن میں بچپن کی ایک سحر آگیں یاد محفوظ تھی، اس نے سن رکھا تھا کہ برمودھا ٹرائی اینگل کی زون میں جو بھی آجاتا غائب ہو جاتا، بڑے بڑے جہاز اس گرداب میں داخل ہونے کے بعدکسی غیرمعمولی کشش کے تحت اس کی زد میں آ جاتے ان کا برسوں پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں گئے، اس موضوع پر بہت سی سائنس فکشنز لکھی گئیں، آہستہ آہستہ ساری مسٹری حل ہو گئی مگر بچپن کی اس یاد میں جو کشش اور فسوں تھا وہ اتنا افسانوی تھا کہ اس کے اثرسے نکلنا ممکن نہیں تھا۔

    جب لوگوں کے غائب ہونے کی خبریں عام ہونے لگیں تو سب کے ذہن میں یہی بات آئی کہ شاید کسی نامعلوم زون سے کوئی انجانی مخلوق وارد ہوتی ہے اور اپنی پسندیدہ ہستیوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ لوگوں کے منہ بند تھے ،جو بھی اس واردات پر اظہارِ خیال کرنے کی کوشش کرتا وہ راتوں رات اٹھا لیا جاتا۔ عجیب بات یہ تھی کہ پہلے پہل شہر کے جوان رعنا اس کا شکار ہوئے پھر تو حد ہوگئی آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچے بھی نا دیدہ ہاتھوں کے ظلم کا شکار ہونے لگے، اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ ان نادیدہ ہاتھوں کا پتا معلوم کرکے ہی دم لےگا، وہ کون لوگ ہیں جو ہماری نگری کو اجاڑ دینا چاہتے ہیں، بعض اوقات تو سب کی آنکھوں کے سامنے ایک ایک نہیں بہت سے لوگ اٹھا لیے جاتے لیکن گواہی دینے کو کوئی تیار نہیں ہوتا، موت کی طرح اٹل سمجھ کر لوگوں نے اسے اپنا مقدر قرار دے لیا تھا۔ کبھی کبھی تو اس کا دل بھی چاہتا کہ اوروں کی طرح خاموشی اختیار کر لے لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا کہ کل وہ خود بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔

    وہ اسی خیال میں گم تھا کہ محلے کے تین چار بچے بھاگتے ہوئے نظر آئے، وہ حیران رہ گیا ان میں سے ایک ننھے منے سے بچے کے ہاتھوں میں ایک انسانی کھوپڑی تھی، بالکل ثابت، بچہ اس کو بےخوف و خطر اٹھائے ہوئے تھا، دوسرے بچے حیرت سے دیکھ رہے تھے،

    ’’یہ کیا ہے؟ کہاں سے لائے ہو، پھینکو اسے،‘‘

    اس کی گھگگھی بندھ گئی،

    ’’انکل ہم قبرستان میں کھیل رہے تھے اور ہماری گیند گڑھے میں چلی گئی تھی، ہم نے اس چھوٹو کو گیند لانے کے لیے بھیجا اس نے گڑھے میں ہاتھ ڈالا تو یہ اسکل ملا، یہ ہمیں دکھانے کے لیے لے آیا اور اب ہم اپنے دوستوں کو اس سے ڈرائینگے، ابھی گھر میں چھپانے کے لیے جا رہے ہیں۔‘‘

    ہمارے گھر سے قریب ایک بہت پرانا قبرستان تھا جو اب بند کر دیا گیا تھا، اس محلے میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کوئی میدان نہیں تھا اس لیے انھوں نے اس پرانے قبرستان کو کھیل کا میدان بنا لیا تھا، بچوں کا شور سن کر بہت سے اہلِ محلہ نکل کر سامنے آئے، انھوں نے بچوں کو ڈرا یا دھمکایا اور آیندہ وہاں کھیلنے سے بھی منع کردیا، پھر ایک بزرگ نے کھوپڑی دیکھ کر کہا یہ زیادہ پرانی نہیں ہے، اس کا مطلب ہے وہاں اور بھی انسانی اعضاء ہوں گے، بچے اور بڑے سب نے جگہ جگہ سے مٹی ہٹانا شروع کی تو وہاں سے بہت سی کھوپڑیاں اور دیگر انسانی اعضاء ملتے گئے۔ انھوں نے کہا، ’’ذرا پہچانو تو سہی یہ کن کی کھوپڑیاں ہیں، یہ ہمارے تمھارے عزیزوں کی ہیں۔۔۔‘‘ ہر طرف سے ہنسی کی آوازیں آنے لگیں۔

    ’’بابا جی کھوپڑیاں اپنا حسب نسب نہیں بتاتیں، یہ بھی نہیں بتا تیں کہ ان کا آبائی وطن کیا تھا۔‘‘

    کچھ دنوں تک اہلِ محلہ پر خوف کے سائے منڈلاتے رہے اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔ جب سب اس بات کوبھول گئے تو عامل کن کھجورا اور بھولو نک کٹے کی شہ رگ پھڑکی، دونوں نے ایک دوسرے کو غور سے دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک معاہدہ بھی ہو گیا۔

    پھر رات کے سناٹے میں موت کے تاجر آتے اور ان کھوپڑیوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے، چن چن کر کھوپڑیاں اور دوسرے اعضاء گن کرکے تقسیم کیے جاتے اور راتوں رات نامعلوم مقامات پر لے جائے جاتے، کچھ عرصے تک بہت سکون رہا پھر یکایک سا رے شہر میں خوف کے پہرے بٹھا دیے گئے۔۔۔

    اب عامل کن کھجورا اور بھولو نک کٹا کے ساتھ شیرا فولاد، ہیبت جلاد اور جیرا بلیڈ بھی شامل ہو گئے۔

    شہر میں ہر قتل کے بعد پولیس کی مدد سے بوریوں میں اعضاء تلاش کر لیتے اور جوڑ توڑ کر مقتولوں کے حلیوں سے منسوب کرکے قاتل کی تلاش شروع کر دیتے۔

    ’’تو کیا قاتل پکڑے جاتے‘‘؟

    ’’قاتل بھی کبھی پکڑے جاتے ہیں؟ ہاں پولس اپنے ساتھ تعاون نہ کرنے والے بہت سے بےگناہوں سے زبردستی نا کردہ قتل کا اعتراف کروانے میں کامیاب ہو جاتی، ایسے دل خراش سانحوں سے ملک کے تمام شرفا، زردار اور حق پرستوں کے اعصاب شدید تناؤ کا شکار ہو جاتے اور پھر ملک کا بہت بڑا اور اہم طبقہ چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے کبھی علاج اور کبھی ذہنی سکون کی خاطر بیرون ملک سدھار جاتا۔

    ’’پھر ملک کا نظام کون چلاتا؟‘‘

    ’’ملک کا نظام سنبھالنے کے لیے مقرر کردہ قائم مقام کافی ہوتے۔‘‘

    ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    پھر ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے پرانا اسٹاک ختم ہو گیا اور یہیں سے نئی کہانی نے جنم لیا۔

    ’’یعنی‘‘؟

    ’’بس کچھ نہیں تازہ اسٹاک کی تلاش میں سرگرداں قائم مقام اطلاعات حاصل کرتے رہتے ہیں، شہر میں موت اور خوف کا رقص جاری ہے، اس دن سے سارے عام لوگ اپنے اپنے سروں کی آپ حفاظت کر رہے ہیں او ر رات کو بھی ہلمٹ پہن کر سوتے ہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے