Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرم ہوا

نوشابہ خاتون

گرم ہوا

نوشابہ خاتون

MORE BYنوشابہ خاتون

    یہ کیسی دیوارہے جو میرے بچوں کے بیچ حائل ہے ۔ یہ کیسابٹوارہ ہے جس نے بھائی کو بھائی سے اور ماں کو بیٹے سے جدا کر دیاہے۔“

    برسہا برس نے گزرجانے کے بعد بھی دادی امّاں اس کرب سے چھٹکارا نہیں پاسکی تھیں۔ بٹوارے کے بعد جب منجھلے اورچھوٹے چچا نے یہاں سے جانے کا قصد کیا تو دادی امّاں کو بھی ساتھ چلنے کے لیے زور دیا لیکن وہ کسی قیمت پر بھی جانے کے لیے رضا مند نہ ہوئیں۔ کہنے لگیں ۔

    ”یہی ہمارا آبائی وطن ہے ۔یہیں ہماری جڑیں ہیں۔ اس سر زمین پر سالہاسال ہمارے بزرگوں نے راج کیا ہے۔ یہاں ہماری عظمتوں کی نشانیاں ہیں۔یہاں کے ذرے ذرے سے مجھے پیار ہے۔ ان ہواؤں ، ان فضاؤں میںمیرے اپنوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں کے در و دیوار سے ہماری بہت ساری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ ا س جنت نشاں وطن کو چھوڑ نا کیاوطن سے غداری نہیں؟جو وطن کو چھوڑ جاتے ہیں انھیںخدا کی ذات پر یقین نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں دوسری جگہ انھیں سکون ملے گا، تحفظ ملے گا اور عزت و توقیر ملے گی۔ وہ یہ نہیں سوچتے جو ہماری قسمت میںلکھ دیا گیا ہے وہ تو ہو کر ہی رہنا ہے ۔ چاہے ہم دنیا کے کسی حصّے میں بھی چلے جائیں۔ نابا بانا! بے نام ونشاں بن کر مجھے در در کی ٹھو کریں نہیںکھانی۔

    یہ ان کا حتمی فیصلہ تھا۔ ان کے ارادے میں ایک عزم ، ایک استقلال تھا۔ ابّا کو بھی دادی امّاں کے خیالات سے اتفاق تھا۔ وہ کہتے ۔

    ”جہاںپیدا ہوئے ہیں وہیں جینا، وہیںمرنا ہے ۔“

    وہ حیران تھے۔

    ”یہ کیسی گرم ہوا چلی جس نے جڑ ہیاکھاڑ دی۔ ایک بھگڈر سی مچی ہے ۔ جیسے انسان انسان نہ رہ کر بھیڑ بکری بن چکا ہے۔ دادی امّاں نے کہا۔

    ”بھیڑ بکری بھی اپنے کھونٹے پرشیربن کر رہتے ہیں ۔“

    اور اگر کھونٹا ہی کمزور ہوجائے ؟“

    چھوٹے چچا کب خاموش رہنے والے تھے۔

    ”تو اسے مضبوط کرنا ہے نہ کہاکھاڑ پھینکنا ہے ؟“

    دادی امّاں دلیل پر دلیل دیئے جارہی تھیں۔

    لیکن ان کے بیٹوں پر تو جانے کی دھن سوار تھی سوکوئی بات ان کے ارادے کو متزلزل نہ کرسکی۔ وہ دادی امّاں کو جدائی کے کرب میں مبتلا کر گئے۔ بیٹوں کی جدائی کو انھوں نے دل سے ایسا لگایا کہ بالکل گم صم ہوکر رہ گئیں ورنہ اپنے وقت کی وہ ایک زندہ دل خاتون تھیں۔ خوش مزاج خوش اخلاق اور خوش گفتار تھیں۔ امّی بتاتی ہیں کہ اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک کے بے شمار رنگین اور سنگین قصّے وہ مزہ لے لے کر سناتیں۔ اور اب تو جب بھی بات کر تیں تو صرف ان کی، جوان سے دور ہوگئے تھے۔ اوروہ جوگئے تو پھر ادھر کا رخ نہ کیا۔ انھیں قدم جمانے اور اپنی حیثیت بنانے میں سالوں سال بیت گئے۔

    اس زمانے میں انٹر نیٹ عام نہ تھا بلکہ شاید تھا ہی نہیں۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گرام بھی لوگ خال خال ہی استعمال کرتے تھے۔ ہاں ہر ماہ وہ خط لکھوانا نہ بھولتیں اور ہر بار تقریبا ًایک ہی جیسا مضمون رہتا۔

    ”عزیز از جان بیٹے خوش رہو!

    کیسے ہو ؟ میری جان تو تم سب میں اٹکی رہتی ہے۔ تم یہاںسے گئے کیا کہ میرے دل کے دو ٹکرے ہوگئے۔ اب میرا حال کیا پوچھتے ہو بس تم سب سے ملنے کی آس میں جیے جارہی ہوں۔ میں تمھارے پاس جا نہیںسکتی کہ ان بوڑھی ہڈیوں میں ا تنی دور دراز کا سفر طے کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ ہوسکے تم ہی آنے کی کوشش کرو۔ اب میرے چل چلاؤ کا وقت آگیا ہے۔ مرنے سے پہلے ایک آخری بار تم لوگوں کو دیکھنا چاہتی ہوں ۔ اب زیادہ جینے کی تمنا بھی نہیںکہ زمانے کیاٹھاپٹک نے اندر تو ڑ پھوڑ سی مچادی ہے ۔ دل کی عجیب کیفیت ہے ۔سننے میں آتاہے کہ وہاں اس سے بھی برے حالات ہیں۔ خدا تم لوگوںکو اپنے امان میں رکھے۔( آمین)

    ہر خط دعا سلام پر اختتام پذیر ہوتا۔

    خط بھیجنے کے دوسرے ہی دن سے جواب کا انتظار شروع ہوجاتا۔ یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا تھا۔یہاں تک کہ لڑائی چھڑ گئی لیکن دادی امّاں یہ پوچھنا نہ بھولیتیں۔

    بیٹا!تیرے چچا کا کوئی خط وط آیا ہے ؟“

    ”دادی امّاں !میںنے آپ کو کتنی بار سمجھا یا ہے کہ لڑائی چھڑ گئی ہے۔ اب خط و کتابت ، ٹیلی فون ، ٹیلی گرام سب کچھ بندہوگیا ہے ۔ بلکہ ریڈیو پر وہاں کی خبریں سننے پر بھی روک لگادی گئی ہے ۔“

    ”یہ کیسا ظلم ہے؟ خود لڑیں بھڑیں لیکن یہ اپنے پرایوں کی خیر خیریت سننے پر کیوں روک لگادی ہے؟؟“

    ”یہی قانون ہے دادی امّاں۔“

    ”بھاڑ میںجائے یہ قانون۔“ پھر تھوڑے وقفے کے بعدپوچھا۔

    ”یہ لڑائی کتنے دن چلے گی بیٹی؟“ ان کی آواز کرب میںڈوبی تھی ۔

    لڑائی کی کوئی انتہا ہے دادی امّاں! یہ تو چلتی ہی رہے گی ۔ جب جب کوئی مسئلہ کھڑا ہوگا۔“

    ”اف! اب ملک کتنے حصوں میںتقسیم ہوگا اور دل کے کتنے ٹکرے ہوںگے؟“

    ان کے چہرے پر فکر کی واضح لکریں تھیںجیسے انھیں کوئی الہام ہوا ہو۔ ان کی سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ کس کے حق میں دعا کریں۔ ان کے دل کا ایک ٹکرا وہاں تھاتو دوسرا یہاں۔ کوئی جیتے کوئی ہارے اس سے انھیں کوئی مطلب نہ تھا۔ وہ تو یہ دعا کر رہی تھیں کہ راستہ کھل جائے اوربچےان سے آن ملیں۔

    اب دادی امّاں صبح شام ریڈیو کے سامنے خبریں سننے کے لیے بیٹھ جاتیں۔ ہاتھوں میں تسبیح ہوتی۔ لب ہلتے رہتے اور آنکھوں کے کٹورے اس طرح لبالب بھرجاتے جیسے اب چھلکے کہ تب۔ وہ مجسم دعا بنی رہتیں۔ ایک صبح ریڈیو کے سامنے وہ بے حس و حرکت پڑی ہوئی پائی گئیں۔

    شاید انھوں نے جنگ بندی کا اعلان سن لیا تھا۔ اور اتنی بڑی خوشی سہہ نہ سکی تھیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے