Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

غم سے نجات پائے کیوں

طارق چھتاری

غم سے نجات پائے کیوں

طارق چھتاری

MORE BYطارق چھتاری

    شکستہ دیوار و در، ہر سُو بیاباں، قیامت خیز یہ منظر کہ بوسیدہ محراب کے نیچے شطرنجی بچھاکر مرزا نوشہ نے سیاہ مہروں کو بساط پر یوں سجایا گویا ان کی فتح لازم ہو اور مدِّ مقابل کی شکست ملزوم۔مرزا نے فرغل سمیٹا اور دوزانو بیٹھ کر پیادے کو ایک خانہ آگے بڑھا دیا۔ دوسری جانب کا سفید پیادہ ایک ساتھ دو خانے آگے بڑھ گیا۔

    ’’یہ کیا ہوا اور کیوں کر ہوا؟‘‘ انھوں نے سوال کرنا چاہا لیکن جب نظر اٹھا کر دیکھا تو پایا کہ وہاں کوئی نہیں ہے۔

    ’’معلوم ہوتا ہے سفید پیادے خود مختار ہیں۔‘‘

    دراصل چال چلنے والا سب کی نظروں سے پوشیدہ تھا اور اس نے کھیل کے بیشتر اصول بھی تبدیل کر دیے تھے۔ اس کا پیادہ ہمیشہ پہلی چال دوخانے چلتا تھا۔

    مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ نے چار چھ چالوں میں ہی قلعہ بنالیا اور وزیر، ہاتھی، اونٹ اور ڈھائی چال چلنے والے گھوڑے کی پاسبانی میں اپنے بادشاہ کو محفوظ کرلیا۔ وقت کے بازی گرنے کیا چال چلی کہ سفید مہرے ’’بِشپ، نائٹ، روک اور پَون‘‘ اس طرح اپنا اپنا مقام متعین کرنے لگے کہ کوئین قلعے کی سب سے طاقتور محافظ بن گئی۔ دنیا کو بازیچۂ اطفال سمجھنے والے اسداللہ، خان بہادر، نظامِ جنگ نہایت احتیاط اور دور اندیشی کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے مگر جانے کیسے بساط الٹ گئی۔ چوسر بچھائی تو سب گوٹیاں بکھر گئیں اور پیچھے سے آکر شہر کوتوال نے نجم الدولہ، دبیرالملک مرزا غالب کو قمار خانہ چلانے کے جرم میں گرفتار کرلیا کہ کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف۔ فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں۔

    ستم زدگاں کے مکان کی طرح تنگ قید خانۂ فرنگ کی ہیبت ناک دیواریں، موٹی موٹی آہنی سلاخیں، نیچی چھت اور چھت سے لگے روشن دان کہ جن سے روشنی کی بجائے کمرے میں تاریکی داخل ہوتی تھی۔ کوئی پوچھے کہ یہ قیدی کون ہے تو تم ہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟ یہی کہ ایک قمار باز، تماش بین اور بادہ خوار کہ و تیرہ جس کا آوارگی یا یہ کہ شاعر، ولی اور فلسفی، جس کی آنکھ سے لہو ٹپکتا ہے اور دل جسم کے ساتھ جل کر راکھ ہوگیا ہے۔ مدّتِ قید چھ ماہ قرار پائی ہے اور رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ سشن جج باوجودے کہ اس کا دوست ہے اور اکثر صحبتوں میں بے تکلّفانہ ملتا ہے، اس نے بھی اِغماض اور تغافل اختیار کیا۔ صدر میں اپیل کی مگر کسی نے نہ سنی اور وہی حکم بحال رہا۔

    اب مرزا غالب کسی محفل سخن میں نہیں، جیل خانے میں تھے۔ وہ بے قراری کہ ہائے ہائے۔ چار و ناچار کیا کرتے، کبھی صبر کیا اور کبھی شکوہ۔ زندگی کچھ اس ڈھب سے گزر رہی تھی کہ رات میں چاند گرہن لگتا اور دن میں سورج سوانیزے پر اُتر آتا۔ آنکھیں نہ بند ہوتی تھیں اور نہ کھلتی تھیں کہ ایک شب نیم باز آنکھوں سے خواب دیکھا، عمائدینِ شہر اور منتخب شعرا جمع ہیں، محفل شباب پر ہے۔ اِدھر محمد ابراہیم ذوق، نواب ضیاالدین نیّر، مفتی صدرالدین آزردہ، امام بخش صہبائی تو اُدھر سید غلام علی وحشت، حکیم مومن خاں مومن، نواب شیفتہ، لالہ مہیش داس اور ہرگوپال تفتہ۔ سامنے تاجدارِ ہندوستان ابوظفر سراج الدین بہادر شاہ۔

    شہنشاہِ فلک منظر، بہادر شاہ ظفر اٹھتے ہیں اور چھ پارچے کا خلعت مع تین رقومِ جواہر یعنی جِیغہ، سرپیچ اور حمائلِ مرواریدایک نقرئی طشت میں رکھ کر غالبِ خستہ کی طرف بڑھتے ہیں۔ مرزا کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں کہ محسوس ہوا، شاہ نے اپنا دستِ شفقت ان کی پیشانی پر رکھ دیا ہے اوراس کے بعد ایک بے کس ضعیف بادشاہ کی کانپتی ہوئی آواز ان کے کانوں میں پڑی۔

    ’’مرزا نوشہ اٹھو۔‘‘

    مرزا اسداللہ خاں غالب کی آنکھ کھل گئی۔ سامنے قید خانے کا دربان کھڑا تھا۔

    ’’میرے بھائی سنتے ہو؟ ذرا نزدیک تو آؤ، کچھ تو بتلاؤ کہ میں کس جرم میں گرفتار ہوا؟‘‘

    دربان آخر کیا جواب دیتا۔ قریب آیا اور بولا، ’’کچھ درکار ہے کیا؟‘‘

    ’’بے شک۔‘‘

    ’’کیا چاہیے حضور؟‘‘

    ’’محض ایک تپائی۔‘‘

    ’’تپائی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’مطمئن رہو دربان۔‘‘

    ’’کیا فرار ہونا چاہتے ہیں یا پھندا لگاکر مرنا؟‘‘

    ’’فرار کی حاجت نہیں اور موت میری قسمت نہیں کہ اس کا ایک دن معیّن ہے۔‘‘

    دربان باہر نکلا، سلاخوں کی زنجیر میں تالا لگایا اور تھوڑی دیر بعد لکڑی کی ایک چھوٹی میز لے کر آگیا۔

    ’’بہت مشکل سے لایاہوں مرزا صاحب۔‘‘

    ’’جیتے رہو، آفریں، صد ہزار آفریں۔‘‘

    دربان مرزا کی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا لیکن چھپ کر دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر وہ اس میز کا کیا کریں گے؟ غالب روزن کو تکتے رہے، دیرتک تکا کیے، بالآخر صبح ہوئی اور سورج نکل آیا۔ حبس گزیدہ غالب نے دیوار کے سہارے میز لگائی اور اس پر چڑھ گئے۔ دربان چوکنّا ہوگیا۔ وہ ایک ہی جست میں مرزا کو گرفت میں لینا چاہتا تھا، مگر کچھ ایسا دیکھا کہ بے حس و حرکت بُت بنا کھڑا رہا۔ دراصل سوختہ ساماں مرزا غالب کا چہرہ یکایک آتش رنگ ہو گیا تھا وہ پھر لمحے بھر میں ہی سیاہ پڑھ گیا، گویا ان کا دل سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا ہو۔ مرزا غالب بمشکل تمام میز سے اترے۔ چہرہ فق تھا اور جسم لرز رہا تھا۔ دربان قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ مرزا نے جبیں سے پسینہ پونچھا اور خلا میں گھورنے لگے۔ گمان گزرا کہ وہ اپنے کو اپنا غیر تصور کر رہے ہیں۔

    ’’مزا صاحب آپ کی اس حیرانی و پریشانی کا سبب۔۔۔؟‘‘

    ’’کیا تم جانتے ہو دربان کہ باہر ہوا کیا ہے؟‘‘ اتنا کہا اور روشن دان پر نگاہ جمادی۔

    ’’آپ نے باہر ایساکیا دیکھ لیا مرزا صاحب کہ آپ کی یہ حالت۔۔۔‘‘

    ’’ابھی میرے حواس درست نہیں، یکتائے روزگار یہ غالب فی الوقت تنہائی چاہتا ہے۔‘‘

    دربان چلا گیا، لیکن وہ ہر روز دیکھتا کہ مرزا غالب روشن دان سے باہر جھانکتے ہیں اور اسی کیفیت سے گزرتے ہیں۔ دربان تجربے کار تھا، اسے پورا یقین تھا کہ مرزا قید کی تنہائی سے گھبرا گئے ہیں۔ کھلی فضا میں سانس لینے اور انسانوں کے درمیان جانے کی خواہش ہی ان کی اس حالت کا سبب ہے۔ ان کے لیے تو نہ وہ زمانہ رہا، نہ وہ لوگ، جن کے ساتھ شطرنج اور چوسر کی بازیاں لگتی تھیں اور ساغر و مینا کی محفلیں جمتی تھیں۔

    اب مرزا غالب کی سزا کے تین ماہ مکمّل ہو گئے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا، شب کی آمد آمد تھی۔ ابھی مشعلیں روشن نہیں کی گئی تھیں۔ مرزا رنج کے خوگر ہو چکے تھے اوران کی تمام مشکلیں آسان ہو گئی تھیں۔ وہ گاؤ تکیے پر نیم دراز تھے کہ اسی پل لوہے کا دروازہ کھلا۔ دو سائے رینگتے ہوئے نظر آئے۔ ایک نے قدم بڑھا کر آبنوسی کشتی میز پر رکھ دی۔ اس میں کشمش، بادام اور اخروٹ سے بھرا پیالا اور ولایتی شراب کا شیشہ رکھا تھا۔

    ’’دربان! تمھارے ہم راہ کون ہے؟‘‘

    ’’حضور، نواب مصطفیٰ خاں۔‘‘

    غالب کے چہرے پر شادمانی کے نقوش ابھر آئے۔

    ’’تو اے کہ شیفتہ و حسرتی لقب داری۔‘‘

    ’’آداب مرزا نوشہ!‘‘

    کسی نے مشعل جلادی اور کمرہ روشنی سے بھر گیا۔

    ’’گویا کہ آج رحمتِ حق بشر کی شکل میں آئی ہے۔‘‘ مرزا غالب نے کہا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔ نواب صاحب جہانگیر آباد مصطفیٰ خاں شیفتہ کو بھی اپنے بوریے پر بٹھالیا۔

    ’’مرزا صاحب آپ کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘

    ’’اب نہ اچھی خبر سے خوشی ہوتی ہے اور نہ بری خبر سے آزردگی۔‘‘ غالب تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر بولے، ’’میں واقف ہوں کہ شیفتہ نے ہمیشہ مجھ سے دوستی اور مہربانی کا برتاؤ کیا ہے۔‘‘

    ’’مرزا صاحب یہ آپ کا حق ہے۔‘‘

    ’’مِنّت کش ہوں تمھارا۔‘‘

    نواب شیفتہ نے مرزا صاحب کو رہائی کا پروانہ دکھاتے ہوئے کہا، ’’آدھی میعاد گزرنے کے بعد مجسٹریٹ کو رحم آیا اور صدر میں آپ کی رہائی کی رپورٹ کی اور وہاں سے حکم رہائی کا آگیا۔‘‘

    مرزا اسداللہ خاں غالب بجائے خوش ہونے کے فکر مند نظر آنے لگے۔

    ’’ہائے یہ کیا غضب ہوا۔‘‘ علاوہ اس کے کچھ نہ کہہ سکے۔

    ’’سنا ہے کہ جب رحم دل حاکموں نے مجسٹریٹ کو آپ کی آزادہ روی سے مطلع کیا تو مجسٹریٹ نے خود بخود رہائی کی رپورٹ بھیج دی۔‘‘

    یہ سننا تھا کہ سپاہ گری سے منسلک اپنے خاندان پر نازاں مرزا اسداللہ خاں غالب پر لرزہ طاری ہوگیا۔ گلے کی تمام رگیں تن گئیں۔ خوف اور دہشت کا یہ عالم تھاکہ جیسے مالیخولیا کا دورہ پڑ گیا ہو۔ شیفتہ نے یہ منظر دیکھا تو ششدر رہ گئے، خود کو سنبھالا اور آہستہ سے بولے، ’’مرزا صاحب آپ کو رہائی ملی ہے۔ سزا کی مدّت نصف ہوئی ہے، اس میں توسیع نہیں۔‘‘

    ’’شیفتہ وہ آوازیں سنو۔‘‘

    ’’کون سی آوازیں۔ وہ آوازیں جہاں رقص و سرود کی محفل ہے۔ ساز ہے آواز ہے اور آپ کی غزل۔کیا آپ وہاں جانا نہیں چاہتے مرزا نوشہ؟‘‘ شیفتہ نے ان کو معمول پر لانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ غالب کو نہیں معلوم تھا کہ وہ جنوں میں کیا کیا کچھ بک رہے ہیں۔

    ’’آخر آپ کا مُدّعا کیا ہے مرزا نوشہ؟‘‘

    وہ خاموش رہے تو دربان نے آگے بڑھ کر کہا، ’’نواب صاحب معافی پاؤں تو کچھ کہوں؟‘‘

    ’’ہاں بتاؤ کہ ہوا کیا ہے؟‘‘

    ’’مرزا صاحب روزانہ اس جھروکے سے باہر جھانکتے ہیں اور پھر۔۔۔‘‘ وہ اپنی بات مکمّل بھی نہیں کر پایا تھا کہ مرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب گویا ہوئے، ’’بھائی شیفتہ تم کہتے ہو میں یہاں تین ماہ سے ہوں، میں کہتا ہوں صدہا سال گزر گئے۔‘‘

    ’’کیا سیکڑوں برس؟‘‘

    ’’ہاں میرے بھائی! اب یہی میری جائے پناہ ہے۔ کیا تم نہیں جانتے ہو قید خانے میں تو سب خیریت ہے، لیکن باہر پوری کائنات مشکوک ہے۔ یہ دنیا دیارِ غیر معلوم ہوتی ہے اور ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی ہماری خبر نہیں آتی۔اہلِ خرد کو سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ آتش ہے، دھواں ہے، غبار ہے، گویا ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔‘‘

    شیفتہ نے مرزا کا ہاتھ تھام لیا اور بولے، ’’لیکن مرزا صاحب یہ ایک قید خانہ ہے۔‘‘

    ’’اور وہ کیا ہے باہر؟ شیفتہ یہاں سزا ہے تو وہاں قضا ہے میرے بھائی! وہاں کوہِ گراں گردش میں ہیں، جن سے ٹکراکر انسانوں کے سرپاش پاش ہوجاتے ہیں۔‘‘

    ’’یہ آپ کا وہم ہے مرزا صاحب۔‘‘

    ’’نہیں شیفتہ یہ وہ منظر ہے جو خود اپنا ناظر ہے، جو غائب بھی ہے اور حاضر بھی۔‘‘ شیفتہ خاموش تھے اور مرزا بول رہے تھے۔

    ’’مقدّس صحیفوں کے حرف مٹنے لگے ہیں۔ چھاپ تلک سب چھین لی گئی ہیں۔ کوہِ قاف کی پریوں کے بال و پر نوچ لیے گئے ہیں اور سارا عالم حشر کا میدان بن گیا ہے۔ ارژنگ، عظیم مصوّر کانگار خانہ، ویران ہے، جب کہ اسلحہ خانوں کے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو کو قتل کردیا گیا ہے۔ میرابائی اور حبہّ خاتون گرفتار کر لی گئی ہیں اور ہر موڑ پر کالی داس، رومی، عمر خیام اور شیکسپیئر سر کے بل کھڑے ہیں۔ بدھ اور مہاویر کی تعلیمات کے نئے معنی تلاش کیے جارہے ہیں۔ فرید بابا اور نانک گرو افسردہ ہیں۔ خزاں کی حکمرانی ہے اور اب گھر کی دیواروں پر بھی سبزہ نہیں اگتا۔ ہائے ہائے وہ شہرِ فسوں کہ ذکر آتے ہی جس کا سینے پر اِک تیر لگتا تھا۔ آہ۔۔۔‘‘

    غالب کی زباں سے آہ نکلی اور وہ دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہوگئے، پھر لڑکھڑا کر زمین پر یوں گرے جیسے سارے عالم کی بلند اور عظیم الشان تاریخی عمارتیں گر کر ریزہ ریزہ ہوگئی ہوں۔ نجم الدولہ، دبیر الملک، نظامِ جنگ، خان بہادر مرزا اسداللہ خاں غالب نے ایک ہچکی لی اور موت کی آغوش میں چلے گئے۔ غالب کی لاش فرش پر پڑی تھی اور وہ قید خانے کے تاریک گوشے میں بیٹھے تماشائے اہل جہاں دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کی لاش ہزار لاشوں میں تبدیل ہوگئی۔

    ’’یا الٰہی، یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘

    سارا جہاں محوِ حیرت تھا کہ شاعروں اور فن کاروں، فلسفیوں اور دانشوروں، صوفیوں اور سنتوں کی بے شمار لاشیں قیدخانے کی سنگلاخ زمین پر بکھری پڑی تھیں اور قیدخانۂ فرنگ کا دربان اپنی جگہ اسی طرح تعینات تھا لیکن سخن فہم اور غالب کے طرف دار نواب مصطفیٰ خان شیفتہ وہاں سے غائب تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے