Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گورکن

مسعود مفتی

گورکن

مسعود مفتی

MORE BYمسعود مفتی

    کہانی کی کہانی

    قبروں کے درمیان زندگی گزارنے والے ایک گورکن کی کہانی، جو پچھلے ایک ہفتے سے خالی ہے کہ کوئی میت آئی ہی نہیں جس کی وہ قبر تیار کر سکے اور اپنی مزدوری پوری کرے۔ وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اللہ کسی کو بے موت مار دے۔ قبرستان کے باہر بنی کوٹھری میں بیٹھا وہ اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں غور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ وہ کیسے خوشگوار دن تھے۔ تبھی ایک سائیکل سوار اس کے پاس آتا ہے اور اسے ایک بچے کی قبر تیار کرنے کے لیے کہہ کر چلا جاتا ہے۔ گورکن اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے آج کی روزی کا انتظام کر دیا۔ بعد میں گورکن کو پتہ چلتا ہے کہ وہ جس بچے کی قبر تیار کر رہا ہے وہ کسی اور کی نہیں، اس کے اپنے بچے کی قبر ہے، جو پتنگ اڑاتا ہوا چھت سے گر کر مر گیا ہے۔

    ’’یا مولا! کسی کو بےموت ہی مارڈال۔‘‘

    اللہ بخش نے منہ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا اور لمبی سیدھی سڑک کو مایوسی سے دیکھنے لگا۔ جس پر کوئی آدمی نظر نہ آتا۔ دور بس سٹاپ پر دو چار آدمی کھڑے تھے۔ کھمبے کے نیچے پان سگریٹ والا اکڑوں بیٹھا تھا۔ لیکن اس سے پچھلے موڑ سے کوئی سائیکل سوار نہ آتا تھا۔ جو اس کے دل کی امید بندھاتا۔ عام طور پر جب بھی کوئی سائیکل سوار تیزی سے موڑ کاٹتا اللہ بخش کی آنکھیں اسی پر جم جاتیں۔ ٹاھلی کے پچھلے چار درختوں تک اس کے پڈال زور سے چلتے اور اگر پانچویں کیکر پر آ کر قدم رک جاتے اور سائیکل شہد کی دھار کی طرح نرمی سے پھسلنے لگتی تو اللہ بخش کی آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتیں اور حقے کی نے پر اس کے ہونٹ کھلے رہ جاتے۔ پھر دو سو گز آگے آکر جب سائیکل سڑک سے پھسل کر پگڈنڈی پر اترتا تو اللہ بخش بےاختیار پکار اٹھتا۔

    ’’مولا تیرا شکر ہے۔‘‘

    اور چند لمحوں میں آنے والا سائیکل کو قبرستان کی کچی دیوار سے ٹکا کر اسے کسی کی موت کی خبر سناتا۔ وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے قبر کا سائز پوچھتا تو آنے والا یا تو اسے فٹ کا حساب بتاتا یا جیب سے مروڑے ہوئے کاغذ پر لپٹا ہوا دھاگا نکال کر اللہ بخش کے حوالے کرتا۔ اس کا دل دھاگا کھولتے کھولتے اچھلتا رہتا۔ کہ نامعلوم کس سائز کی قبر تیار کرنا پڑے اور اس کے کتنے پیسے ملیں۔ دھاگے کا ایک سرا ہاتھ میں پکڑ کر وہ بازو سیدھا کھڑا کرتا اور لٹکے ہوئے دھاگے کے نچلے سرے کو دیکھتا ہوا بڑے کاروباری انداز میں پوچھتا۔

    ’’اور کب لاؤگے جی میت؟‘‘

    آنے والا میت کا لفظ سن کر کانپ سا جاتا لیکن اللہ بخش خیال کیے بغیر جواب لے کر کدال سنبھالنے لگتا۔

    یہ عجیب اتفاق تھا کہ پچھلے ایک ہفتہ سے کوئی مردہ نہیں آیا تھا اور اللہ بخش کی آمدنی کا بھرپور وسیلہ بند تھا۔ پھر بارش بھی ہوتی رہی تھی۔ کوئی اللہ والا فاتحہ کو بھی نہیں آتا تھا۔ دو ایک آئے بھی لیکن اسے کچھ دیے بغیر چلے گئے۔ وہ سوچتا تھا، پچیس ہزار کی آبادی اور ایک بھی موت نہیں ہوئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کمیٹی نے کوئی اور قبرستان بنوا دیا ہو۔اس نے سکریٹری کو خوش تو بڑا رکھا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے دوسرے قبرستان کی سکیم ہر دفعہ کمیٹی سے نامنظور ہو جاتی تھی۔ لیکن جہنم میں جائیں سب ڈاکٹر جو ستر اسی سال کے کھوسٹ لوگو ں کو بھی بار بار موت سے بچا لیتے ہیں اور اپنی آمدنی کے لالچ میں دوسروں کی روزی مارتے ہیں۔ اس نے گردن ہلا کر نفرت سے زمین پر تھوکا۔ پوٹلی اٹھائی۔ اس میں سے تمباکو کی پتی نکال کر ہاتھوں میں مسلی۔ چھوٹی سی چلم زمین پر مار کر راکھ جھاڑی۔ اس میں پتی جمائی۔ اوپر حقہ کی نے سے پانی کے دو قطرے ٹپکائے اور منہ نلکی سے لگا کر ماچس چلم پر لگائی۔ تیلی کا شعلہ ایسے چلم پر چپکا جیسے بچہ کتے سے ڈر کر ماں کی چھاتی میں چھپتا ہے۔ اللہ بخش نے ’’کھول‘‘ کرکے بہت سا دھواں منہ سے اگل دیا اور پکار اٹھا۔

    ’’توبہ میری۔ اتنا مندا کبھی نہ دیکھا تھا۔ پتہ نہیں ملک الموت بھی کہیں مر گیا ہے۔‘‘

    اللہ بخش بیزار تھا کیوں کہ پچھلے دس دن سے اس نے گھر میں کوئی پیسے نہ دیے تھے۔ ایک دو دفعہ وہ گھر گیا لیکن خالی ہاتھ۔ اس کے دس سالہ بچے شرفونے پتنگ کے لیے پیسے مانگے تو وہ نہ دے سکا۔ حالانکہ پتنگ کے لیے اس نے کبھی انکار نہ کیا تھا۔ ساری عمر اس نے خود خوب پتنگ بازی کی تھی۔ ہر وقت قبرستان میں رہنے والا قبروں سے تو بات نہ کر سکتا تھا۔ اس کا باپ اسے وہیں چھوڑ کر خود ادھر ادھر چلا جاتا اور اگر اسے پتہ چلتا کہ بعد میں اللہ بخش غیر حاضر رہا ہے۔ تو وہ اسے شہتوت کی سینٹی سے مارتا۔

    ’’ابے ماں کے خصم! جنازے کا بھی کوئی اعتبار ہے۔ تو کیا سمجھتا ہے کہ موت کے بھی دفتری ٹیم (TIME) ہیں۔‘‘

    اس لیے اللہ بخش قبرستان میں ہی اچک اچک کر پتنگ اڑاتا رہتا۔ اب تو پچاس برس کی عمر میں وہ یہ شغل چھوڑ چکا تھا۔ لیکن اپنے لڑکے شرفو کو پتنگ اڑاتے دیکھ کر اس کا دل بھی اچھلنے لگتا۔ اس لیے وہ اسے کبھی نہ روکتا۔ بلکہ پیچ لڑانے کے ڈھنگ بتایا کرتا۔

    لیکن اللہ بخش کو سب سے زیادہ دکھ یہی تھا کہ اسے تنگ دستی کی وجہ سے بچے کو پیسوں سے انکار کرنا پڑا۔ اس لیے وہ دو تین روز سے گھر بھی نہ گیا تھا اور قبرستان کی کوٹھڑی میں ہی رہتا تھا۔ البتہ بیوی اور دس سالہ لڑکے شرفو کو شہر میں رکھا تھا۔ جہاں بندو چاچا ان کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ دوسرے چوتھے روز اللہ بخش گھڑی بھر کو چلا جاتا۔ بیوی کو دھوتی کی ڈب سے روپے کھول کر دیتا۔ شرفو کے پتنگ کو دو چار تنکے مارتا۔ چاچے بندو کی دکان پرچلم کے چار کش لیتا۔ بازار میں اڑوس پڑوس کی بات کرتا اور پھر واپس قبرستان آ جاتا جہاں کیکر اور دھریک کے درختوں کے جھنڈ میں اس کی کوٹھڑی تھی اور حقہ تھا۔ کسی کے مرنے کی خبر آتی تو وہ قبر کھودنے، جنازے کا انتظار کرنے، وضو کے لیے کوزے اکٹھے کرنے اور قبر پر انڈیلنے کے لیے پانی کے گھڑے بھرنے میں مصروف رہتا۔ کوئی لوگ عزیزوں کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے آتے تو وہ بھی وہاں جا پہنچتا اور اس پریت سے قبر پر سے خشک پتے ہٹاتا اور مٹی کے ڈھیلے ارد گرد جماتا جیسے قبرستان میں وہ سب سے زیادہ اسی قبر کا خیال رکھتا ہے۔ فاتحہ والے اسے کچھ دے دیتے تو قبر کی سب دلچسپی بھول کر انھیں وہیں چھوڑتے ہوئے کوٹھڑی میں آ کر حقہ پینے لگتا۔

    اللہ بخش نے اسی کوٹھڑی میں پچاس سال پہلے جنم لیا تھا۔ جب یہاں تھوڑی سی قبریں تھیں۔ انہی قبروں کی ڈھیریوں کے سہارے اس نے چلنا سیکھا تھا۔ ماں سے روٹھ کر یا باپ سے ڈر کر وہ پکی قبروں کے بڑے کتبوں کے پیچھے چھپ جایا کرتا تھا۔ قبرستان کے روایتی ڈر کا اسے کبھی احساس بھی نہ ہوا تھا۔ خواہ تاروں بھری ٹھنڈی رات ہو یا بجلیاں برساتے طوفانی اندھیرے لئے جب اس نے شعور سنبھالا۔ تو ہر طرف قبریں دیکھیں جن میں کبھی کبھار جنازے آیا کرتے تھے۔ دس پندرہ خاموش سے آدمی اور چار پانچ شور کرتی عورتیں۔ بڑکے پیڑ کے نیچے جنازہ رکھا جاتا۔ لائن بنائی جاتی۔ جس میں سے مولوی صاحب ضرور ایک کو آگے پیچھے کرتے۔ پھر مولوی صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد لمبی آواز میں چلاتے تو پیچھے کھڑے لوگ اپنی آوارہ نظریں سمیٹ کر سامنے والوں کی ایڑیاں دیکھنے لگتے۔ اس کا باپ اچھی بھلی تیار شدہ قبروں سے خواہ مخواہ مٹی ادھر ادھر کرتا رہتا اور وہ باپ کے اشارے کا منتظر درخت کی اوٹ میں چھپا رہتا۔ جیےب ہی مردہ لحد میں اتارا جاتا۔ اللہ بخش لپک کر چار پائی سے نئے لٹھے کی سفید چادر اٹھا کر سیدھا ماں کو دے آتا۔ جو پہلے ہی انتظار میں ہوتی۔ مہینے ڈیڑھ بعد اس کا باپ ساری چادریں لے کر حاجی کریم اللہ کپڑے والے کی دکان پر جاتا اور روپے ڈب میں ڈال کر دہکتے ہوئے چہرے سے واپس آتا۔

    خدا بخش کو احساس ہی نہ تھا کہ موت کیا ہوتی ہے؟ یہ اس کے لیے کا روبار تھا دوسرے کی موت میں اس کی زندگی تھی اور ان کی زندگی سے اس کے اپنے مرنے کا ڈر تھا اس لیے وہ ہمیشہ چاہتا تھا کہ دوسرے ایسے ہی مرتے رہیں۔ جیسے کہ تیس سال پہلے ہیضے میں مرتے تھے۔ کیا دن تھے وہ بھی!!! ایک کے بعد دوسرا۔ دوسرے کے لیے اسے علیحدہ مزدور لگانے پڑے۔ ان دنوں تو وہ خاصا افسر بن گیا تھا۔ دس مزدور اس نے رکھ لیے تھے اور خود ہاتھ میں ڈنڈا لیے ان کی نگرانی کرتا رہتا۔ انھیں کدالیں بھی اپنے پاس سے خرید کر دیں۔ اب تک وہی اس کے کام آ رہی تھیں۔ اتنی آمدنی ہوئی تھی ان دنوں کہ اس نے ٹھاٹھ سے اپنی شادی رچائی۔ ورنہ تو اتنے نک چڑھے گورکن کی بیٹی کا رشتہ اسے کون دیتا تھا اور جب بیوی پہلی مرتبہ آ ئی تو سب قبروں پر دیے روشن کیے تھے۔ کیا بہار تھی وہ بھی۔ اور اب تو نئی نئی دواؤں کی وجہ سے کوئی وبا آتی ہی نہ تھی۔ اسی لیے وہ گزشتہ برس سے بائیں آنکھ کے موتیے کا آپریشن بھی نہ کر سکا تھا۔

    ویسے اپنے کاروبار میں اللہ بخش کافی ہوشیار تھا۔ قبرستان کے باہر بورڈ لگا تھا کہ چھوٹی میت کی قبر کی کھدائی پانچ روپے اور بڑی قبر کی کھدائی دس روپے ہے۔ لیکن بورڈ کے حروف اس نے بڑی چابکدستی سے بیچ بیچ میں سے مٹا دیے تھے اور عام طورپر پندرہ روپے فیس لیا کرتا تھا۔ اگر کوئی اعتراض کرتا تو کہتا:

    ’’بادشا ہو! ادھر بورڈ لگا ہے خود دیکھ لو۔‘‘

    دیکھنے والا اگرچلا بھی جاتا تو کچھ نظر نہ آتا۔ زنگ آلود سطح کو انگلیوں سے صاف کرنے پر اگر کسی حرف کا بچا کھچا کونا نظر آ جاتا اور وہ کوشش سے پڑھ بھی لیتا تو اللہ بخش کہتا۔

    ’’جوناب! دیکھتے نہیں عرصہ سے بارش نہیں ہوئی۔ پتھر کی طرح زمین سخت ہے۔دو آدمی ساتھ لگا ئیں گے تب ہی قبر تیار ہوگی۔ان کو بھی تو مزدوری دینا ہے۔‘‘

    اور اگر کبھی بارش ہوئی ہوتی تو کہتا،’’جوناب، آپ کو کیا پتہ کتنا مشکل کام ہے،مٹی اتنی نرم ہے کہ بار بار کنارے اندر گر جاتے ہیں۔دو آدمی ساتھ لگانا پڑیں گے۔‘‘

    لاش قبر میں اتارنے کے بعد جب سب لوگ ایک مٹھی مٹی کی پھینک دیتے تو وہ بڑی تندہی سے کدال چلاکر ڈھیری بناتا۔ دونوں ہاتھوں سے سطح ہموار کرتا۔ دو ٹین پانی کے چھڑکتا اور مردے کے وارث سے دس پندرہ قد م دور چلا جاتا۔

    ’’جوناب اگر حکم ہو تو ڈھیری جمانے کے لیے دو چار دن ماشکی سے پانی ڈلوا دوں۔‘‘وہ فاصلہ کا فائد ہ اٹھاتے ہوئے پکار کر کہتا۔

    دو ایک بزرگ فورا ’’ہاں ‘‘پکار اٹھتے اور وارث کی جیب کا بوجھ اور ہلکا ہو جاتا۔

    ’’اور جوناب اگر حکم ہو توپہلی تین جمعراتوں کو پنج تن پاک کا دیا بھی جلا ؤں؟‘‘

    متوفی کے خاندان سے تعلقات کا دعوی کرنے والے چند لوگ ہاں ہاں پکار اٹھتے اور وارث کی پیشانی سکڑ جاتی۔

    اللہ بخش پہلے دس پندرہ دن ہر نئ قبر کا خاص خیال رکھتا کیونکہ رشتہ دار آتے رہتے تھے۔ بعد ازاں ہر جمعرات کو اور پھر تہواروں کو قبر درست کیا کرتا۔ زندوں کا مردوں سے واسطہ ہی اتنا ہوتا تھا۔ اس کے بعد اللہ بخش بیل یا گدھے کو قبر کے اوپرسےگزار دیتا،جس سے کنارے ٹوٹ جاتے، چوٹی دب جاتی اور ایک آدھ گڈھا پڑ جاتا۔ اگلی دفعہ آنے والا رشتہ دار خفا ہوتا اور خفگی کے بعد آئندہ احتیاط کے آرڈ ر کی قیمت بھی ادا کر جاتا۔ مرنے والوں کے گھروں سے جمعرات اور تہواروں کا کھانا علیحدہ تھا۔

    اسکے مانگنے کے بھی قواعد تھے۔ مرنے والے بچوں کی ماں سے مانگو۔ جوانوں کے باپ سے مانگو۔ساس سے کبھی نہ مانگو۔ بوڑھوں کے سب سے بڑے بیٹے سے مانگو۔ رونے والوں کی باری ہوتی ہے۔ ایک شخص شدت سے روتا ہے اور باقی اسے چپ کراتے ہیں۔ اس کے چپ ہونے پر دوسرا اسکی جگہ لے لیتا ہے۔ جو شخص بار بار رو ئے،اس سے کچھ نہ مانگو، کیونکہ وہ سب سے ز یادہ ہوشیار ہے اور کچھ نہ دیگا۔ ایسے وقت میں مانگوجب دینے والا دو چار آد میوں میں کھڑا ہو۔ چالیسویں پر جتنا لے سکتے ھو لو کیونکہ بعد ازاں بہت کم لوگ قبر کی خبر لیتے ہیں۔

    وہ اپنی تفریح کا سامان بھی موت سے کیا کرتا تھا۔ فلاں آدمی روتا کیسے تھا۔جیسے آٹے کی چکی ٹھو ٹھو کر رہی ہو۔ آج پھر مولوی شیر علی جنازے کے ساتھ آیا تھا۔ عجب طریقے سے دعا پڑھتا ہے یہ بھی۔ جیسے را ئے طوطا بول رہا ہو۔ یہ بوڑھا بھی خوب آدمی تھا۔ رونا تو آتا نہ تھا۔ خواہ مخواہ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے منہ بسوڑ رہا تھا۔ جیسے پیٹ میں درد ہو۔ کتنی مضحکہ خیز شکل بن جاتی تھی اس کی اور وہ کوٹھڑی میں پڑا حقہ پر منھ جما ئے پہروں ہنسا کرتا۔ اگر کسی ساس یا سسر کی دو بہوئیں اپنے خاندانوں سمیت آ جاتیں تو اسے بڑا لطف آتا۔ دونوں بہوئیں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رونے کی کوشش کرتیں اور اتنا شور کرتیں کہ وہ حقہ پر ہونٹ جماکر مسکراہٹ چھپانے لگتا۔ اس دن اسے آمد نی بھی ہو جاتی۔ جب مو ٹی عورتیں قبروں سے لپٹ کر روتیں تو وہ پیچھے کھڑا انکی ہلتی ہوئی پشت کی تھراہٹ پر دل ہی دل میں ہنستا جاتا، جیسے آگ پر پڑی ہوئی کیتلی کا ڈھکن اچھلتا رہتا ہے۔

    جوانی کے دنوں میں اللہ بخش ہمیشہ اس موقع کی تاڑ میں رہتا۔جب برادری کی بہت سی عورتیں اکٹھی فاتحہ خوانی کے لیےآ تیں۔ ان کے سوگ کا انداز خاندانی سیاست کے تناسب سے متعین ہوتا تھا۔ بعض تو ایسی اداکاری کرتیں کہ پیٹتے پیٹتے بےحال ہو جاتیں، برقعہ غا ئب۔ دوپٹہ پہلے بازووں میں الجھتا، پھر اڑ کر سامنے والے کیکر پر جا گرتا۔ گریباں کھل جاتے اور اللہ بخش۔۔۔ دیکھتا ہی جاتا۔ بعض اوقات ان میں سے ایک آدھ غش کھا کر گر پڑتی اور باقیوں کی چیخیں اسے مدد کو بلاتیں۔ وہ دوڑ کر چارپائی اٹھا لاتا اور بعض دفعہ اسے خود ہی اسے اٹھاکر چارپائی پر ڈالنا پڑتا۔ تب وہ کوٹھڑی میں حقہ پیتے ہوئے گھنٹوں اس موقعہ کا ذہنی طور پر مزا لیتا رہتا۔ ایک عورت سے تو اس کا معاشقہ بھی چل نکلا تھا۔ وہ دو ایک دفعہ قبر پر آکر بے ہوش ہوئی اور اللہ بخش نے اسے سنبھالا اور بعد ازاں کافی عرصہ اسے بغیر بےہوش ہوئے سنبھالتا رھا۔

    اللہ بخش کے لےب موت نہ تو حادثہ تھی اور نہ المیہ۔ غمزدہ چہرے۔ ابلتے ہوئے آنسو۔ دبی ہوئی سسکیاں۔ فاتحہ کے لیے اٹھے ہوئے پر خلوص ہاتھ اور پھٹی پھٹی آنکھیں اس کے دل میں کوئی تاثر پیدا نہ کرتی تھیں۔ جب مردے کو لحد میں اتارنے سے پہلے کفن کھول کر چہرہ دکھایا جاتا تو ایک کہرام مچ جاتا۔ لیکن اللہ بخش اس وقت بھی قبر میں سے پاؤ پاؤ مٹی نکالتا رہتا۔ اور لوگوں کو کنارے سے پرے ہٹاتا رہتا۔ بوڑھے والدین اپنی جواں مرگ اولادوں کی قبروں پر آئیں۔ یامعصوم بچے اپنی ماں کی تربت سے لپٹ کر ’’امی امی‘‘ پکاریں، یا کسی لطیف رشتے والی ہستی دنیا کی نظروں سے چھپ کر کسی ڈھیری پر چپ چاپ آنسو بہاتی رہے، وہ ان سب کی دلی حالت سے بے پرواہ پیےپ بٹورنے کی فکر میں رہتا۔ قبر کھودنے میں بھی وہ کبھی ملول نہ ہوا تھا۔ بلکہ کدال چلاتے ہوئے ماہیا کے بول الاپتا رہتا اور اگر کبھی زیادہ پیسوں کے ملنے کا یقین ہوتا تو ہر دو چار ہاتھ چلانے کے بعد کدال سر پر اٹھا کر قبر میں ہی ناچنے لگتا اور جب لحد تیار ہو جاتی تو اندر نرم نرم مٹی پر بیٹھ کر حقہ پیتا رہتا۔ ایک دن بندو چچا اسے پوچھتے پوچھتے قبر کے کنارے تک آ گیا۔

    ’’اوبخشا۔ تو جندگی میں ہی قبر میں گھس پڑا۔ باہر بیٹھ کر حقہ نہیں پی سکتا کیا؟‘‘

    اللہ بخش نے نتھےت پھلا کر دھواں باہر پھینکا اور کھانس کر بولا، ’’ہماری تو جندگی ہی قبروں میں ہے چاچا۔ گڑھا کھودتے رہیں تو اپنے پیٹ کا گڑھا بھرتا ہے۔‘‘

    ’’تجھے ڈر بھی نہیں آتا اس میں بیٹھے بیٹھے؟‘‘

    ’’ڈر کاہے کا پگلے۔ تانگے کا کوچبان بھی تو رات گھر آکر گھوڑے سے دو لاڈ کر لیتا ہے۔ ہم کیوں نہ دم بھر کو لاڈ کریں اس سے۔‘‘

    اسی طرح الہک بخش کی ساری عمر قبروں سے لاڈ کرتے گزری تھی۔ لیکن پچھلے ہفتہ بھر سے قبر کھودنا ملی ہی نہ تھی۔ وہ پیار کس سے کرتا۔ سارا سارا دن اونگھتے گزر جاتا۔ چلم پی پی کر اس کی چھاتی پکنے لگی تھی۔ سڑک کی طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔

    ’’یا مولا کسی کو بے موت ہی مار ڈال۔‘‘ قبل دوپہر کا تیز سورج اس کی پیشانی پر چمک رہا تھا۔

    سہ پہر کے قریب اللہ بخش حقہ سینے سے چموڑے دھیرے دھیرے کش لے رہا تھا۔ اس کی نظریں سڑک کی طرف لگی تھیں اور انگلیوں میں گھاس کے تنکے مروڑ رہا تھا۔ معاً ایک سائیکل سوار تیزی سے موڑ مڑا۔ اللہ بخش کے ہونٹ کش لگانے سے پہلے کھلے رہ گئے۔ سائیکل آگے آ رہی تھی اور وہ ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ پانچویں کیکر کے پاس آ کر سوار نے پیڈل روک لیے۔ اللہ بخش کا سانس رک گیا۔۔۔ سائیکل پھسلتی آئی اور۔۔۔ اور۔۔۔ سڑک سے ہٹ کر پٹڑی پر اتر آئی۔

    ’’شکر ہے مولا تیرا۔‘‘ اللہ بخش اچھل پڑا ’’سن لی تونے مجھ غریب کی۔‘‘

    سائیکل سوار قریب آیا لیکن اترا نہیں۔ وہ پندرہ سولہ برس کا لڑکا تھا۔ دروازے کے پاس آ کر اس نے تیزی سے پیڈل الٹے گھمائے اور موڑ مڑتے ہوئے ہاتھ ہلا کر بولا۔

    ’’جلدی سے چار فٹ کی قبر تیار کر دو۔‘‘

    اور یہ جا وہ جا۔

    اللہ بخش کے ہاتھ سے حقہ لڑھک گیا۔ تھوڑا اٹھتے ہوئے وہ پکارا۔

    ’’ارے سن تو۔‘‘

    لیکن لڑکے نے مڑ کر ہاتھ ہلایا اور پکارا:

    ’’جلدی کرو۔‘‘

    پھر تیزی سے آٹا گوندھنے کی طرح پیڈل مارتا نکل گیا۔

    لمحہ بھر کو اللہ بخش کو غصہ آیا۔ مگر پھر ایک دم اس پر خوشی غالب آ گئی۔ ساری رگوں میں ایک دم پھرتی جاگ پڑی اور وہ کدال اٹھا کر قبرستان کے سرے کی طرف لپکا۔ زمین پر کدال جما کر دونوں سروں پر نشان لگایا۔

    ’’یہ تین فٹ ہوئے!‘‘ وہ بولا۔

    پھر کدال کا اگلا پھل ٹکا کر دوسرا نشان لگایا۔

    ’’یہ پورے چار اور۔۔۔ یہ ہوئی ایک بالشت۔‘‘ نشان لگا کر اس نے ہاتھوں میں تھوکا اور جب کدال اٹھانے لگا تو ملول سا ہو گیا۔

    ’’مولا جی سات روز بعد بھیجا بھی تو ایک دانہ ہی ۔‘‘

    دانہ سے مراد بچہ کی لاش تھی اور یہ چیز مایوس کن تھی کیوں کہ اللہ بخش کا زندگی بھر دستور رہاتھا کہ بچے کی میت کی قبر کی کھدائی کے علاوہ اور کوئی بخشیش نہ لیا کرتا تھا۔

    ’’جس گھر کا بوٹا ہی ٹوٹ گیا جی۔ اس کو اور کیا توڑیں۔‘‘

    وہ اپنے واقف لوگوں سے کہا کرتا۔ اس لیے آج وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ روپے لے سکتا تھا۔ جو بہت کم تھے۔ اپنی بیوی کو خرچے کے علاوہ شرفو کو پتنگ کے لیے تو کچھ دینا تھا۔

    اللہ بخش کے ہاتھ جھپا جھپ چلتے گئے۔ کدال سر پر اٹھا کر دونوں بازو پورے زور سے زمین پر مارتا اور رکا ہوا سانس بآواز بلند چھوڑتا۔ ایک گھنٹہ میں اس نے قبر تیار کر لی۔ پہلے کدال پر جما جما کر مٹی باہر پھینکی اور پھر ہاتھوں سے سمیٹ سمیٹ کر باہر ڈالنے لگا۔ اب کا م کی تیز رفتاری گزر جانے کے بعد اس کو تھوڑا تھوڑا غصہ آنے لگا کہ صرف بچہ کو میں مرا جب کہ اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ تھوڑی دیر تک وہ دل ہی دل میں جھنجھلاتا رہا کہ اللہ کے کارخانے میں کیا بوڑھوں کی کمی تھی۔ جو عزرائیل کو بچہ ہی ملا اور پھر اس نے فیصلہ کیا کہ بلا سے دانہ ہی ہو۔ لیکن آج تو میں کبھی بخشیش نہ چھوڑوں گا۔ جب مولا ہم پر رحم نہیں کرتا۔ تو ہم دوسروں پر کیوں کریں یہ فیصہہ کر کے اس نے دھم سے کدال کو زمین میں دھنسا دیا اور بڑے اعتماد سے حقہ میں چلم بھرنے لگا۔

    اتنے میں بندو چاچا آتا دکھائی دیا۔

    ’’ادھر ہی آ جاؤ چاچا۔ چلم بھی تیار ہے۔‘‘ اس نے ہاتھ ہلا کر پکارا۔ چاچا چلتا چلتا وہیں پہنچ گیا۔ اللہ بخش کش لگا رہا تھا۔ اس لیے بولا نہیں۔ بندو نے قبر کا جائزہ لیا اوربولا:

    ’’قبر بن گئی ہے؟‘‘

    اللہ بخش نے اس غیرضروری سوال کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور حقہ کی نلکی بندو کی طرف موڑتا ہوا کھوں کھوں کرنے لگا۔

    ’’آؤ بخشا ذرا شہر چلیں۔‘‘

    ’’واہ شہر کیسے چلیں ابھی تو جنازہ آنے والا ہے۔‘‘

    ’’ہاں وہ جنازہ ہی تو لانا ہے۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟‘‘

    ’’اب کیا کہوں بخشا۔ اللہ کی رضا ہے۔ شرفو پتنگ اڑاتے اڑاتے کوٹھے سے گر کر مر گیا ہے۔ میں نے لڑکے سے کہا تھا کہ اللہ بخش کو نہ بتانا میں خود ہی آکر بتاؤں گا۔‘‘

    اللہ بخش ایک دم سن سا ہو گیا۔ اسے پہلی دفعہ پتہ چلا موت کیا ہوتی ہے۔ وہ ایک دم چیخ مار کر اٹھا اور کدال اٹھا کر دھمادھم مٹی قبر میں گرانے لگا۔

    مأخذ:

    (Pg. 43)

    • مصنف: مسعود مفتی
      • ناشر: اقرا
      • سن اشاعت: 1979

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے