Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گل و گلزار سے آگے

تسنیم منٹو

گل و گلزار سے آگے

تسنیم منٹو

MORE BYتسنیم منٹو

    فقیر جو کہ دانش رکھتا تھا۔ اس نے چالیس بھیڑوں کے مالک گڈرئیے کو نصیحت کی،

    ’’جس مہم پہ تم جا رہے ہو اس میں علامتوں پر نظر رکھنا۔‘‘

    زندگی کا سفر ایک مہم ہے۔ علامتوں پہ نظر رکھنے کی صلاحیت کے باوجود اس کی وسعت اور حجم بے کراں ہے۔ جو سالوں، مہینوں، دنوں اور تینوں پہروں اور رات کے اردگرد چلتا ہے۔ اس گزرے وقت کو شمار کرنے کی کوشش کریں تو اس کا حجم ذہن میں سماتا نہیں۔ زندگی کا یہ چلن انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ وقت تھمتا نہیں تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ گزرتا ہی نہیں۔ کوئی بھی گزرتا لمحہ وقت کی مداخلت سے محفوظ نہیں۔ تو زمانہ بعید کا ذکر یوں ہے کہ میں یہی کوئی تین چار سال کی رہی ہوں گی۔ دھندلا دھندلا مجھے سب یاد ہے۔ پھر بعد میں واقعات دہرانے سے سارے سین میرے ذہن میں پختہ اور شفاف ہوتے چلے گئے۔

    اس صبح بلکہ علی الصبح ہی گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ میری نانی جی لال ساٹن کے سوٹ میں چمک دمک رہی تھیں۔ مجھے بھی ریشمی فراک، چوڑیدار پاجامہ، تلے کا کھسہ، میری بڑی خالہ نے پہنایا تھا۔ میں بار بار شیشہ دیکھتی تھی۔ اور اپنے ملائم کپڑوں کو ملائمیت سے چھوتی تھی۔ یہ میرے بڑے ماموں کی شادی کا دن تھا۔ جس شہر میں ہم پہنچے تھے وہ پتھروں کی گلیوں والا شہر تھا۔ اس کی نالیاں چوڑی اور لال پتھروں سے بنی تھیں۔

    ان نالیوں میں شفاف پانی بہتا تھا۔ ان کے کنارے اونچے تھے کہ پانی نالی کے اندر ہی رہے۔ جس گھر میں ہم بارات لے کر اترے تھے ایک پہاڑی کی مچان پر تھا اور اس کا نام جموں تھا۔ یہاں کی عورتیں سفید چمکتی رنگت اور خوبصورت نقش و نگار رکھتی تھیں۔ یہ عورتیں تیز رنگوں کے لباس میں ملبوس، ادھر ادھر آجا رہی تھیں۔ یہ ڈگری اور ملی جلی پنجابی میں بات کرتی تھیں۔ یہ نئی رنگدار اور جاندار فضا میرے لئے بہت خوش کن تھی۔

    میں نہر کے کنارے پتھروں سے کھیل رہی تھی کہ میرے نانا جی پریشانی سے مجھے ڈھونڈتے ہوئے آئے اور پوچھا کہ آپ نے کھانا کھایا؟ چلیے کھانا کھاتے ہیں میں جلدی سے کھانا کھا آئی او رپھر اسی مچان پر آکر بیٹھ گئی۔ میں بہت محویتسے سب مناظر دیکھ رہی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور سورج کا رنگ لال ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ چار مرد اپنے کندھوں پر ایک گھر نما چیز کو اٹھائے ہوئے آئے اور اسے آہستگی سے زمین پر رکھ دیا۔ میں مچان سے کودتی ہوئی نیچے اتری اور ایک آدمی سے پوچھاکہ یہ کیا ہے؟ ’’یہ ڈولی ہے۔ اس میں دلہن کو بٹھا کر گاڑی تک لے جانا ہے۔‘‘ میں ڈولی کے پاس سے ہلی نہیں تا وقتیکہ دلہن کو اس میں بٹھا دیا گیا۔ خوشی اور اداسی ایک ساتھ چل رہے تھے۔ میں پردہ اٹھاتی دلہن کو جھانکتی۔ میرے بار بار ایسا کرنے سے دلہن نے اشارے سے مجھے بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا۔

    اس کپڑے کے بنے گھر میںشبرات کی پھلجڑیوں کی رونق اور روشنی تھی۔ دلہن کا سراپا رنگ و نور کے ہالے میں سانس لیتا تھا۔ یہاں بے حد اجالا تھا۔ خوشبو تھی، میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ میں نے یہ بہار پہلے نہیں دیکھی تھی۔ مجھے رونا آنے لگا کہ یہ تو کوئی پریوں کا دیس ہے۔ میں اپنے گھر جاؤں گی۔ میں بسورنے ہی لگی تھی کہ نانا جی نے پردہ اٹھا کر اندر جھانکا۔ وہ مجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ بولے اچھا اچھا تو آپ یہاں خود ہی پہنچ گئی ہیں۔ میں اس کپڑے کے کمرے سے فورا نکلنا چاہتی تھی۔ میں لپک کر نانا جی کی بانہوں میں چلی گئی۔

    دلہن کے آنے سے ہم سب ایک تمتماتی مسرت کے حصار میں تھے۔ ہنسی، مذاق، قہقہے، عجب ماحول تھا۔ دلہن کا ہر روز ایک نیا جوڑا۔ موتیے کے پھول، ہاتھوں میں گجرے، زمین پہ چھڑکاؤ۔ تخت پر نانی جی کا جائے نماز۔ بیت کی کرسیوں پہ بیٹھے حقہ پیتے ہوئے نانا جی اور سفید کھڑکھڑاتا کرتہ شلوار پہنے وہیں پر موجود ماماجی۔ یہ شامیں بڑی خواب ناک تھیں۔ ایسی ہی ایک شام کو میں نانا جی کے پاس کھڑی ہو گئی۔ اور بولی، ’’نانا جی! دلہن کے کپڑے سانس لیتے ہیں۔‘‘ وہ ہنس دئیے اور پاس بیٹھے ماموں جی سے کہا سنو یہ کیا کہہ رہی ہے۔ ماموں جی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مسکرا کر پوچھا کہ آپ کو کیسے لگا کہ لباس سانس لیتا ہے؟ میں نے جواب میں کہا کہ میں چٹکی میں جب دلہن کے دوپٹے کو ملتی ہوں تو اس کی سرسر سے مجھے لگتا ہے کہ وہ سانس لیتا ہے۔ ماموں جی نے مجھے غور سے دیکھا، پیار کیا اور کہا اتنی بڑی بڑی باتیں مت کیا کریں۔

    میری آنکھوں میں ستائش اور میرے ذہن میں لفظوں کی تلاش رہتی لیکن الفاظ میں مرتب نہیں کر سکتی تھی۔ دلہن کا بھرپور جلوہ، کالی جاڑ جٹ کی ساڑھی پر مقیش کے دانے بکھرے ہوئے۔ ڈیڑھ بالشت کے بارڈر والی ساڑھی۔ گھنے بال او رپیچھے لمبی چوٹی، پھولوں کا گہنا، کانوں میں بالے، ہاتھوں میں چوڑیاں، کبھی وہ مجھے ملکہلگتیں، کبھی شہزاد ی لیکن اکثر پری لگتیں۔ اس عمر میں میرے پاس حسن کو جانچنے کے یہی معیار تھے۔

    میں نے کہا تھا، نہ کہ میں بہت چھوٹی نہیں تھی۔ کچھ کچھ جانتی اور کچھ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتی تھی۔ میں زیادہ بولتی نہیں تھی اور میرے سارے سوال میرے اندر سے پھوٹتے اور اردگر دسے جواب حاصل کر کے میرے اندر جمع ہوتے رہتے۔

    قدرت کی اس سچائی سے کسے انکار کی جرأت ہے کہ ’’سب دن ایک سماں نہیں تھا۔‘‘ نہ معلوم کیا ہوا کہ چار لوگ ایک ایک کر کے گھر سے چلے گئے۔ گویا ایک لائن میں لگے تھے۔ میرا دلار، پیار تمام ہوا۔ خالی گھر بھائیں بھائیں کرتے ہیں۔ میری اماں نہیں تھیں اور اگر اماں نہ ہوں تو ابا ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے۔ اس گھر میں میرے لیے محبت، خیال، آرام، آسائش سب کچھ تھا لیکن کچھ ایسا تھا جو نہیں تھا۔ اور وہی جو ’’نہیں‘‘ تھا، اس کو میں تلاش کرتی تھی۔ یونہی خلا کے گہرے کنویں میں غوطے کھاتے کھاتے میں کچھ اور سمجھدار ہو گئی۔ سکول، پھر کالج اور پھر یونیورسٹی سے واپس آتی تو ماموں جی نے میرے لیے کچھ نہ کچھ رکھا ہوتا۔ مجھے بہت شوق سے دیتے اور کہتے کھالو، بہت مزے کا ہے۔ حتیٰ کہ گرمیوں میں وہ شربت بنوا کر فرج میں رکھواتے اور خود نکال کر مجھے دیتے اور کہتے لو جلدی سے پی لو۔ مجھے ہنسی آجاتی کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے تو کبھی اپنے لیے اہتمام نہیں کیا، میرے لیے کیسے کر لیتے ہیں۔ اتنا سب کچھ تھا۔ لیکن میرے نانا جی اور نانی جی کے جانے کے بعد اس گھر سے میری وابستگی گہنا گئی تھی۔ مجھے اپنا آپ کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اس گھر میں مہمان ہوں۔ میرا ماسٹرز مکمل ہو چکا تھا۔ ماموں جی نے اس تنہائی کو بھانپ لیا۔ ایک روز انہوں نے اچانک پوچھا، ’’آپ پڑھنے کے لیے باہر جانا چاہتی ہیں؟‘‘ میں حیرت سے اچھل پڑی۔

    پانچ سال میں میرا تھیسس مکمل ہوا۔ جس روز ڈاکٹریٹ کی ڈگری میرے ہاتھ میں آئی میرے پیروں تلے زمین بھربھری نہ رہی۔ ’’ڈاکٹر۔‘‘ میری شناخت، میری انفرادیت، میرے ہاتھوں میں تھی۔ شاید یہی وہ ’’نہیں‘‘ تھا جسے میں نے پالیا تھا۔ میرے وجود میں ایک سرشاری تھی۔

    جاب بھی مل گئی۔ ماموں جی کو بتایا۔ بہت خوش ہوئے۔ مجھے خط لکھا کہ میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکا، اس کا مجھے ملال ہے لیکن تم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو گئی ہو، اس کے لیے مجھے تم پر فخر ہے۔ انسان اپنے پیچھے کچھ اور چھوڑ کر آتا ہے مگر سامنے معروضی حقائق کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ اور دل و دماغ میں خیالات کا جل تھل فرد کو بے چین رکھتا ہے۔ لیکن تم بے صبر نہ ہونا۔ اپنی شخصیت اپنے وجود کو سنواتی رہنا۔ میں تمہیں یاد کرتا رہتا ہوں۔ خوش رہا کرو۔ تمہارا ماموں جی۔‘‘

    وہ جو تھی اک شخص کے تصور سے

    اب وہ رعنائی خیال کہاں!

    اطلاع ملی کہ ماموں جی چلے گئے ہیں۔ سناٹے نے مجھے بے چین کر دیا۔ یہ تو کبھی سوچا نہیں تھاکہ یوں بھی ہو سکتا ہے۔ میری زندگی کا ایک مضبوط ستون ڈھے گیا۔ میں ایک دفعہ پھر اکیلی ہو گئی۔ میرا وجود عرصہ دراز تک لرزتا رہا۔ پاکستان جانے کو دل چاہا ہی نہیں۔ میں اپنی شناخت، اپنا تعارف، وطن میں موجود کس کا نام لے کر کراؤں گی؟

    اس واقعہ کے بعد ایک لمبا عرصہ خود کو مصروف رکھنے کی جدوجہد میں گزر گیا۔ یہ اکتوبر تھا۔ اس موسم میں درختوں سے پتے جھڑنے لگتے ہیں۔ تنہائی اور سردی نے مجھے اس قدر خوفزدہ کیا کہ میں نے دو ہفتہ کی چھٹی پاکستان میں گزارنے کا ارادہ کر لیا۔ اگلے روز میں نے اپنی دوست عفت کو فون کر دیا کہ میں دو ہفتے کی چھٹیاں تمہارے پاس گزارنے آرہی ہوں۔ نہ معلوم اسے کیا ہوا کہ فون پر رونے لگی اور کہا کہ تم ضرور آؤ۔ ہم ساری ساری رات جاگ کر باتیں کریں گے۔ روئیں گے بھی ہنسیں گے بھی۔ تم ضرور آؤ۔ دیکھو نا اس خبر پہ روناہی آیا جا رہا ہے۔ فون پہ مجھے اس کے پیار کرنے کی آواز سنائی دی اور میں نے فون بند کر دیا۔

    ان کو گئے نو سال ہو چکے ہیں اور میں اس گھر میں ٹھیک نو سال بعد ہی آئی ہوں۔ میں نے بیل کی۔ ایک ناموس چہرے والا ملازم بیل کی آواز پر نمودار ہوا۔

    ’’تم نئے ہو؟‘‘ جی میں بہت پرانا نہیں۔ نیا سمجھ لیں۔ میں نے یہ اس لیے پوچھا کہ اس گھر میں ملازم آدھی آدھی صدی گزار چکے تھے۔ پورچ خالی تھا گویا گھر پر کوئی بھی نہیں تھا۔ میں نے ملازم سے پوچھا، ’’بیگم صاحبہ گھر پر ہیں؟‘‘ ’’جی، وہ گھر پہ ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر بعد چائے کے لیے جاگیں گی۔‘‘ میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیںدیا اور گیٹ سے دائیں ہاتھ والے لان کی جانب چلی گئی۔ لان بالکل بنجر تھا۔ نہ دانہ چگنے والے مور، نہ چہچہاتی چڑیاں، نہ جالیوں میں بند مرغیاں نہ دیواروں اور چھتوں پر سنوری ہوئی انگور کی بیل نہ انگور۔ امرود کے درخت نہ کالا گلاب، نہ ہار سنگھار کا درخت کہ جس کی خوشبو ہوا کا ہاتھ پکڑ کر سارے گھر میں گھومتی تھی۔ لگتا تھا کوئی ایسا جھکڑ چلا ہے جو اس گھر کی مالکن کے سارے پیارے معصوم شوق گرد میں لپیٹ لے اڑا ہے۔

    ملازم اندر جاتے ہوئے دروازہ قدرے کھلا چھوڑ گیا تھا۔ میں ایک پٹ کو ہٹا کر گھر کے اندر داخل ہو گئی۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا اور اندر ملگجا اندھیرا تھا۔ لابی میں آکر میں نے دوسرا پٹ بھی کھول دیا۔ لیکن چند لمحوں کے لیے میں گھبرا گئی کہ میں کسی اور گھر میں تو نہیں آگئی!

    یہاں نہ وہ بھاری بھرکم صوفہ تھا جس پہ اس گھر کا مالک بیٹھتا تھا، نہ وہ لکڑی کا تخت جس کے ساتھ دیوار پہ لگی گھنٹی بجا کے ملازم کو بلایا جا سکے۔ نہ اخبار رکھنے کی بیضوی میزنہ فون رکھنے کی چھوٹی سی تپائی۔ نہ کارنس کے دونوں جانب جھنگ سے منگوائے ہوئے گھنگھروؤں والے دو پیڑھے۔ ہر چیز نئی تھی۔ پرانی نسل سب کی سب پس پردہ جا چکی تھی اورا ب ہر دیوار پہ تیسری پود کی شادیوں کی تصویریں تھیں اور ان کے نومولود بچوں کی۔ لابی شیشے کے بڑے بڑے گلداروں اور باہر سے لائی گئی اشیا سے سجی تھی۔ مجھے بوکھلانے کیلئے یہ تمام منظر کافی تھا۔ وقت نے ایسی تیزی سے کروٹ لی تھی کہ اس گھر کی صورت کجلا گئی تھی۔

    ملازم مجھے مامی جی کے لئے نئے بنے کمرے میں لے گیا۔ ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔ صوفہ، کرسیاں، ٹی وی، اے سی۔ آسائش کا سب سامان تھا۔ کمرے کی لمبی دیوار میں ایک بڑی سی کھڑکی بھی تھی مگر اس کھڑکی کے باہر ان کے شوق کا کوئی سامان نہیں تھا۔ نہ کوئی ہری ٹہنی تھی نہ سبز پتہ۔ یہ تنگ راستہ ملازموں کے رہائشی کوارٹروں کی جانب کا تھا۔ کونے میں رکھی گول میز پر ماموں جی کی خوبصورت تصویر تھی۔

    میں نے مامی جی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا اور بتایا کہ میں تمکنت ہوں۔ ’’اچھا؟ تمو؟‘‘ میں اپنا پیار کا نام سن کر ٹھٹکی کیونکہ وہ ہمیشہ مجھے پورے نام سے بلاتی تھیں جبکہ سب گھر والے مجھے ’’تمو‘‘ پکارتے تھے۔ وہ میری موجودگی سے خوش تھیں اور باتیں کرنا چاہتی تھیں۔ میں نے سب کا فرداً فرداً پوچھا۔ مجھے کافی بلند آواز سے بولنا پڑا اور سبھی جملوں کو دہرانا پڑا۔ وہ بہت اونچا سننے لگی تھیں۔ ماحول کی اجنبیت اور میرے اندر کی اداسی نے مجھے پوری طرح جکڑ رکھا تھا اور اس اندیشے کے پیش نظر کہ اپنے انہی تاثرات کے ساتھ مجھے گھر کے باقی لوگوں سے ملنا پڑے گا، میں نے رخصت کی اجازت چاہی۔

    ’’کھانا کھا کر جانا، چائے پی کر جانا‘‘ سات دہائیوں سے دہرائے جانے والا جملہ انہوں نے بے ساختہ دہرایا۔ وہ بھول چکی تھیں کہ میں نے کچھ ہی دیر پہلے چائے ان کے ساتھ پی تھی۔ ایک بڑے پہاڑ کو یوں ڈھیہا ہوا دیکھ کر میرا دکھ کچھ اور بڑھ گیا۔ میں نے ایک دفعہ پھر ان کے ہاتھوں کو دبایا، ماتھا چوما، اپنے اندر کا دکھ بھی ان کی جھولی میں انڈیلا اور روکھی سوکھی آنکھیں لیے گھر سے باہر آگئی۔

    اس گھر میں میں نے چوبیس سال گزارے تھے لیکن اس لمحے مجھے لگا کہ یہ زمانہ میں نے گویا ایک پلیٹ فارم پر گزارا تھا۔

    تبدیلی ناگزیر ہے۔ بشر مقدر کو قبولتا رہے گا۔ میں جانتی ہوں کہ مقدر دبے پاؤں بشر سے قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے۔ تو پھر میں رنجیدہ کیوں ہوں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

    بولیے