Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حکیم جی

MORE BYکوثر چاند پوری

    ہم اپنے ایک معزز دوست کے دولت خانہ پر مقیم تھے کہ شامت اعمال سے ہمیں بخار آ گیا۔ ہمارے دوست بہت پریشان ہوئے۔ اگرچہ ہم علالت سے زیادہ متاثر نہ تھے مگر ہمارے میزبان ’’جناب عظیم‘‘ کے حواس پراگندہ ہوئے جا رہے تھے۔ ممکن ہے ان کو یہ خطرہ ہو کہ میزبانی کی تکالیف میں کہیں ’’تجہیز و تکفین‘‘ کی زحمت نہ شامل ہو جائے (اور آئندہ جو واقعات پیش آئے، ان کو دیکھتے ہوئے عظیم کا یہ خطرہ بیجا بھی نہ تھا) یا شاید پرہیزی کھانا پکانے میں ان کی بیگم صاحبہ کو تکلیف ہوتی ہو اور وہ مہمان اور میزبان دونوں کو صلوٰتیں سناتی ہوں۔

    بہرحال اسی پریشانی میں انہوں نے ہمیں ایک اہلکار کے سپرد کر دیا۔ اہلکار صاحب نے آتے ہی ہماری نبض دیکھی اور بہت غور کے بعد فرمایا فصلی بخار کا اثر ہے۔ میں پیر صاحب والا سفوف دیے دیتا ہوں۔ پسینہ آکر بخار اتر جائےگا۔ پیرصاحب والے سفوف کا نام سن کر ہم ذرا متحیر ہوئے، کیونکہ ان کی تشخیص میں بھی ہم پر کسی آسیب یا بھوت کا سایہ نہ تھا بلکہ صرف ’’فصلی بخار‘‘ تھا۔ ایسی صورت میں اگر حکیم اجمل خاں والا سفوف دیا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ہم نے عظیم سے کہا، بھائی! یہ کون حضرت ہیں؟ فرمانے لگے، میرے دفتر میں محرر ہیں۔ ہم نے کہا، کیا اس ملک میں علاج معالجہ کا کام محرر لوگ کرتے ہیں؟

    نہیں بھائی! ان کے باپ حکیم تھے۔ ان کو بھی اس فن میں کچھ شُدبُد ہے۔ عظیم نے ہمیں مطمئن کرتے ہوئے کہا۔

    ہم نے کہا خدا خیر ہی کرے۔ ظاہری حالات اچھے نہیں ہیں۔ علامت تو مخدوش نہیں ہے مگر حکیم بہت خطرناک معلوم ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر میں حکیم جی نے ایک پڑیا پیر صاحب والے سفوف کی بھیج دی۔ کھول کر دیکھا تو حقیقتاً اس میں دوا تھی۔ پیر صاحب کی کرامت یا بزرگی کا بظاہر کوئی اثر نہ تھا۔ عظیم نے سر پر سوار ہوکر سفوف ہمیں کھلا دیا۔

    اگرچہ ہمیں پیر صاحب والے سفوف کی نسبت بہت سے شبہات تھے مگر عظیم اپنے محرر کی وکالت کر رہے تھے۔ ہم نے محض ان کے اعتماد پر سفوف تو کھا لیا لیکن محرر صاحب کے حالات کی تفتیش شروع کر دی۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وہ اپنے باپ کے مرنے پر ان کی تمام کتابوں کے مالک ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایک صحرا گرد فقیر نے، جن سے محرر صاحب بیعت بھی ہو چکے ہیں، ان کو چند نسخے دیے ہیں اور انہی پر ان کی طبابت کا دارومدار ہے۔ ہم نے کہا، خدا ہی مالک ہے یہاں کے باشندوں کا، جہاں فقیروں کے تلامذہ مطب کرتے ہیں۔ اگر کہا جاتا کہ کسی حاذق الملک یا شفاء الملک نے ان نسخوں کی ترتیب میں ماہر بنا دیا ہے تو ہمیں اطمینان ہو جاتا، مگر فقیر چاہے دنیا بھر کے فنون سے واقف ہو جائے لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ شاعری اور طبابت اس کے بس کی بات نہیں۔

    اور دستور یہ ہے کہ جب کسی نسخہ کی جادو اثری ثابت کرنی ہوتی ہے تو اس کو کسی مشہور عالم طبیب کی طرف منسوب کرنا اتنا مؤثر نہیں ہوتا جتنا کسی فقیر یا سادھو کے نام سے اس کا اشتہار دینا سودمند ہوتا ہے۔ بھلا ایک بوریہ نشین اور عزلت گزین شخص کو شعر و سخن یا علاج معالجہ سے کیا واسطہ؟ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کے منہ سے نکلا ہوا شعر، عام اس سے کہ وہ فن کے نقطۂ خیال سے کتنا ہی لغو اور بیہودہ کیوں نہ ہو، نہایت مستند اور رموز تصوف کا حامل سمجھا جاتا ہے اور لغویت اس میں جس قدر زیادہ ہوتی ہے، اتنے ہی تصوف کے نکات کی آمیزش بڑھ جاتی ہے۔

    اسی طرح ہمارے ایک دوست کا مقولہ ہے کہ جو شعر سمجھ میں نہ آئے، اسے بے تکلف تصوف میں ڈوبا ہوا شعر کہہ دو۔ اسی طرح فقیر کی بیاض کا ہر مہمل اور نقصان دہ نسخہ ’’پیام شفا‘‘ سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے بلکہ نسخہ کی اہمیت بڑھانے کے لیے کسی نہ کسی بزرگ، فقیر، سنیاسی یا سادھو کا حوالہ دینا اب قریب قریب لازمی ہو گیا ہے۔

    بہرکیف سفوف کھانے کے ایک گھنٹہ بعد ہمارا دماغ چکرانے لگا۔ آنکھیں اوپر کو چڑھنے لگیں اور کائنات گھومتی ہوئی نظر آنے لگی۔ ہم بہت گھبرائے اور ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ وہی حالت ہے جس کو ’’سکرات موت‘‘ کہتے ہیں۔ یسٰین شریف تو پوری ہمیں یاد نہ تھی، کلمہ کا ورد البتہ ہم جلدی جلدی کرنے لگے۔ اس کے بعد ہم اپنی رائے میں گویا مر گئے اور ہمیں معلوم نہیں کہ کیا ہوا۔ کوئی دو بجے ہمیں ہوش آیا تو دیکھا کہ ایک صاحب زور زور سے سرپر تیل کی مالش کر رہے ہیں۔ دوسرے صاحب ہمارے منہ سے منہ ملائے ہوئے کچھ پڑھ کر ہم پر بار بار پھونک رہے ہیں۔

    اس منظر میں ہمارے لیے سب سے زیادہ دلچسپ چیز پڑھنے والے صاحب کی داڑھی تھی جو ان کے ہونٹوں کی حرکت کے ساتھ نہایت لطیف انداز میں ہل رہی تھی۔ اس وقت ہمارے دل پر گھبراہٹ بہت زیادہ تھی، زبان پر پیاس کی شدت سے کانٹے کھڑے ہوئے تھے۔ ہم نے دونوں ہاتھوں سے ان بزرگ کی داڑھی پکڑ کر کہا، پانی پلائیے مگر ٹھنڈا ہو! انہوں نے دو تین دفعہ زور زور سے چھو، چھو کرنے کے بعد احتیاط سے اپنی ’’سندبزرگی‘‘ کو ہمارے ہاتھوں کی گرفت سے آزاد کیا اور پھر ٹھنڈے پانی کا گلاس بھر کر ہمیں دیا۔ پانی پیتے ہی ذرا جان میں جان آئی اور ہم نے عظیم کو بلاکر کہا، میاں عظیم! تم کیوں ہماری جان کے دشمن ہوئے ہو؟

    کیوں، کیا بات ہے؟ عظیم نے شرمندگی کے ساتھ پیشانی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

    عظیم بیہوشی کے عالم میں ہماری نگرانی بہت غور سے کر رہے تھے اور خدا جانے کتنی مرتبہ حکیم جی کو بلا چکے تھے۔ انھوں نے پھر ہماری تسکین کی غرض سے بلایا اس ’’ملک الموت‘‘ کو۔ انھوں نے نبض دیکھنا چاہی۔ ہم نے ہاتھ کھینچ کر کہا، مہربانی فرمائیے۔ نبض آپ کو دیکھنا نہیں آتی۔ اس نمائش کی کیا ضرورت ہے؟ آپ تو یہ بتائیے کہ آپ نے ہمیں کون سا زہر کھلایا ہے اور کس جاہل پیر نے آپ کو یہ نسخہ بتایا ہے؟

    لاحول پڑھیے، توبہ کیجیے۔ ایسی باتیں منہ سے نہ نکالیے۔ حکیم جی نے غصہ سے جواب دیا۔

    جی ہاں، لاحول بھی پڑھوں گا اور ضرورت ہوئی تو تنبیہ الغافلین (یہ ہماری پہاڑی چھڑی کا نام ہے) سے بھی کام لوں گا۔ سچ سچ بتائیے اس سفوف میں کیا ہے؟ ہم نے ذرا سختی سے پوچھا۔

    ہوتا کیا جوز ماثل او رطباشیر وغیرہ کی آمیزش سے بنایا جاتا ہے۔ طباشیر سے تو خیر ہم واقف تھے۔ مگر جو زماثل کے معنی شاید ہمارے استاد کو بھی معلوم نہ ہوں گے۔ ہم نے حکیم جی سے دریافت کیا کہ جوزماثل کی ہندی کیا ہے۔ انہو ں نے بھویں سکوڑ کر فرمایا، ہندی کی چندی میں نہیں کر سکتا۔

    ہم نے عظیم سے کہا کہ جو زماثل کے معنی معلوم کرو، ورنہ ہم چلے۔ ایک صاحب نے کہا غیاث اللغات دیکھنی چاہیے۔ مگر ہم نے اس کی تردید کی اور کہا کہ یہ دوا کا نام ہے، کوئی طبی کتاب ہونی چاہیے۔ عظیم نے کسی کے یہاں سے بڑی تلاش کے بعد ایک پھٹی پرانی کتاب ’’بستان المفردات‘‘ منگائی۔ حالانکہ یہ کتاب ہمارے معالج کے پاس بھی تھی مگر انہوں نے محض نیک نیتی کے باعث کتاب کا دکھانا پسند نہ کیا۔ الغرض کتاب دیکھی گئی تو جوزماثل کے معنی لکھے تھے ’’دھتورہ‘‘ اور خوراک بتائی گئی تھی دو رتی، حالانکہ ہم نے کوئی ۵ ماشہ کی پڑیا کھائی تھی۔ اب یہ تحقیق ہو گیا کہ ہمیں دھتورہ دیا گیا ہے اور وہ بھی خوراک سے بہت زیادہ۔

    حکیم جی دھتورہ کا نام سن کر گھبرا گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ انھوں نے کبھی اس سفوف کو بنایا نہ تھا۔ ان کے والد مرحوم ہی کے زمانہ کا رکھا ہوا تھا اور ہماری رائے میں جوزماثل سے وہ خود بھی واقف نہ تھے۔ صرف شیشی پر سفوف جوزماثل لکھا دیکھ لیا ہوگا اور بیاض میں اس کے اجزاء پڑھ لیے ہوں گے اور دوا کی اہمیت بڑھانے کی غرض سے نام رکھ دیا ہوگا، ’’پیرصاحب والا سفوف۔‘‘

    ہم نے عظیم سے کہا، بھائی تم نے دھتورہ دینے کو ہمیں بلایا تھا۔ اگر ہم سے ایسے ہی تنگ آ گئے تھے تو حکیم جی سے کہہ کر تھورا سا سنکھیا ہی کھلا دیا ہوتا۔ تم ماشاء اللہ تحصیل دار ہو۔ ایک آدمی کو مار ڈالنا تمہارے لیے کیا مشکل ہے۔

    عظیم نے تیز نگاہوں سے حکیم جی کو دیکھا تو حکیم جی نے فرمایا، جناب دواءً کسی چیز کا کھانا کیا برا ہے؟

    جی ہاں بشرطیکہ ارادہ قتل اس میں شامل نہ ہو اور آپ نے تو مجھے غذاءً کھلایا تھا۔ یہ سفوف دواءً دیا جاتا تو اس کی مقدار خوراک دوا ہی برابر ہوتی۔

    عظیم نے اپنے محرر کو بہت سخت و سست کہا اور ہدایت کر دی کہ آئندہ کسی شریف آدمی کو یہ سفوف نہ دینا، ورنہ جیل خانہ بھجوا دوں گا۔

    اس حادثہ کے بعد عظیم کی رائے بھی نہ تھی کہ ہمیں آئندہ محرر صاحب کا تختۂ مشق بنائے رکھیں۔ فوراً تحقیقات شروع ہوئی کہ قرب و جوار میں بھی کوئی صاحب ہیں، قبرستان آباد کرنے والے۔

    کسی نے کہا گوبند رام کو بلا لیا جائے، اعظم پور سے۔ وہ بہت اچھے حکیم ہیں۔ عظیم نے فوراً سپاہی بھیج دیا۔

    سفید دھوتی اور سفید ہی انگرکھا پہنے ہوئے اور چار پانچ گز کپڑا گلے میں لپیٹے ہوئے ایک بہت بڑے پیٹ والے حکیم جی، جن کے سر پر چھت نما لال پگڑی بندھی ہوئی تھی، تقریباً آٹھ بجے شب کو نازل ہوئے اور چونکہ ہم تک پہنچنے میں انہوں نے ایک طویل زینہ کو بھی عبور کیا تھا، اس لیے جنگلی بھینسے کی طرح پھنکارتے ہوئے ہماری مسہری کے پاس تشریف لائے۔

    یہ واقعی بالکل حکیم جی تھے (حکیم صاحب نہیں) اور اس نواح میں حکیم جی ہی کے نام سے مشہور تھے۔ لوگوں کو ان سے بہت عقیدت تھی۔ حکیم جی نے بڑے غور سے نبض دیکھ کر فرمایا، ’’کوٹھا‘‘ (بمعنی معدہ) جی ہاں صاف نہیں ہے اور واقعی یہی تھا کہ ہمیں کئی روز سے قبض کی شکایت تھی۔ ہمیں ان کی تشخیص سے کامل اتفاق ہو گیا۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بلامبالغہ آنولہ کی برابر کوئی چھ سات گولیاں نکالیں اور فرمایا کہ دو گولیاں ابھی کھاکر سو رہو۔ دو صبح کو کھا لینا، خوب کھل کر دست ہو جائیں گے اور طبیعت صاف ہو جائےگی۔ ہم نے حکیم جی سے دریافت کیا کہ یہ گولیاں تنہا میں ہی کھاؤں یا عظیم اور ان کی بیگم صاحبہ کو بھی کھلاؤں۔ حکیم جی نے ہنس کر کہا بیمار آپ ہیں یا کوئی اور؟ ہم نے عرض کیا بیمار تو یہ گنہگار ہے مگر آپ نے ہمارے جثہ کا بھی لحاظ فرما لیا ہے یا ویسے ہی گھوڑوں والی خوراک دے دی ہے؟

    جی ہاں میں نے سب کچھ دیکھ لیا۔ جثہ تو خیر آپ کے ہے ہی نہیں، ناڑی دیکھ لی ہے اور ناڑی ہی دیکھی جاتی ہے۔ حکیم جی نے جثہ کے معنی غالباً داڑھی کے لیے ہوں گے، کیونکہ اور تو ہمارے سب چیزیں تھیں صرف داڑھی ہی نہ تھی۔

    ہمیں اس علاقہ کے حکیم جیوں سے ڈر تو بہت لگتا تھا مگر ضرورت سے مجبور تھے۔ چنانچہ ہم نے ڈرتے ڈرتے حکیم جی کی دی ہوئی دو گولیاں نگل لیں اور چار بطور سند اپنے پاس محفوظ رکھیں۔

    رات کو گیارہ بجے تک ہم اور عظیم نئے حکیم جی کے متعلق گفتگو کرتے رہے اور سونے کے متعلق جب عظیم کی بیگم صاحبہ کا تقاضا ہوا تو ہم نے یہ فیصلہ کر دیا کہ عظیم بھی ہمارے پاس سوئیں گے تاکہ حکیم جی کی دوا کا کوئی مضر اثر ہو تو فوراً خبر لی جا سکے۔

    ہم سوتے سوتے دفعتاً اٹھ کر بیٹھ گئے۔ پیٹ میں سخت جلن ہو رہی تھی اور دل گھبرا رہا تھا۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ پیٹ میں ہانڈی پک رہی ہے۔ گھڑی دیکھی تو تین بجے تھے، پہلے پہلے تو ضبط کرتے رہے۔ جب قوت برداشت نہ رہی تو عظیم کو اٹھاکر کیفیت بیان کی۔ عظیم نے کہا اجابت کے بعد یہ باتیں جاتی رہیں گی اور غالباً دو ا کا عمل شروع ہو گیا۔ میری رائے میں تم تیار ہو جاؤ! ہمیں ایک دم سے محسوس ہوا کہ بیت الخلا پہنچ جانا چاہیے۔ ہم کود کر مسہری کے نیچے آ گئے۔

    عظیم نے جلدی سے لالٹین اٹھاکر ہمیں دی اور ہم لوٹے کی تلاش میں مصروف ہوگئے۔ حالانکہ ملازم نے احتیاطاً لوٹا پہلے ہی منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا۔ ہمارے پاس وقت زیادہ نہ تھا۔ ہم نہایت اضطراب کے ساتھ لوٹا! لوٹا! جلدی عظیم لوٹا! کہتے ہوئے بیت الخلا کی طرف لپکے بلکہ دوڑے۔ وہاں پہنچتے ہی ہم ایک قدمچہ پر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ایک مسلسل متواتر اور مفصل اجابت کا گویا تانتا بندھ گیا جو کسی طرح ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ جسم کی رگیں کھنچ رہی ہیں اور ان میں ہر چیز الوداع کہتی ہوئی تیزی سے نکلی چلی آ رہی ہے، اسی دوران میں ایک زبردست قے بھی ہوئی جس نے ہمارے رہے سہے حواس بھی غائب کر دیے۔ قے کی صدائے مہیب سن کر عظیم نے پکارا کیا حال ہے؟ ہم نے جواب دیا، مار لیا عظیم آفات اراضی و سماوی نے! کیا قے بھی ہوگئی؟ عظیم نے دریافت کیا۔ جی ہاں! مادہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ صرف اسہال سے کیا ہوتا!

    ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیری آ گئی۔ سر چکرانے لگامگر اجابت کا سلسلہ منقطع نہ ہوا۔ آخر ہم نے خود ہی بند کیا اور طوعاً و کرہاً کھڑے ہوکر کمربند باندھا لیکن پیر کانپنے لگے اور ایسا محسوس ہوا کہ اب گرے۔ عظیم۔۔۔ جلدی۔۔۔ کی خوفناک اور بھرائی ہوئی آواز ہمارے منہ سے نکلی اور ہم دھڑ سے زمین پر آ رہے۔۔۔ اس کے بعد جو آنکھ کھلی یعنی ہوش آیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہم بیت الخلا کے فرش پر دراز ہیں اور عظیم معہ اپنے ایک ملازم کے ہمیں ہوش میں لانے کی سعی کر رہے ہیں۔

    ہم نے پوچھا کہاں ہیں ہم! جواب ملا۔۔۔ پاخانہ میں! سبحان اللہ اعمال بھی ایسے ہی تھے۔۔۔ پھر یہاں کب تک پڑے رہیں گے۔ نکالو عظیم یہاں سے! عظیم اور ان کے ملازم نے بڑی مشکل سے ہمیں مسہری تک پہنچایا۔ لیکن ہم اپنی تر ’’دامنی‘‘ کے باعث مسہری پر لیٹنے کے قابل نہ تھے۔ کمرے میں فرش پر ہی لیٹ گئے۔ عظیم بہت نادم تھے۔ پوچھنے لگے اب کیسے ہو؟ ہم نے کہا اپنی سخت جانی سے زندہ ہیں ورنہ قاعدہ سے زندگی ختم ہو چکی! کہو تو وہ دو بھی کھا لوں اور حکم ہو تو بقیہ اور بھی! قصہ تو ختم ہو اس گنہگار کا۔

    عظیم کی گردن شرمندگی کے بار سے جھک گئی اور اس نے خفگی سے کہا، قادر! قادر! بلاؤ تو ذرا ان حکیم جی کو! ہم نے کہا بس رہنے دو۔ عظیم اس بلائے ناگہانی کو خدا جانے اب کیا کھلائے اور ہمیں مجبوراً کھانا پڑے۔

    اجی میں اس کم بخت کو پہلے درست تو کر دوں، عظیم نے کہا۔ اگر واقعی انسان کو درست کرنے کی کوئی کل تمہارے پاس ہے تو پہلے ہمیں درست کردو یا درست کرا دو۔ ہم نے فرش پر پڑے پڑے کہا اور عظیم خدا کے لیے پانی منگاؤ۔ بہت سا پینے کے لیے بھی اور غسل کے لیے بھی!

    فوراً برا سا ٹب لایا گیا اور ہماری جاندار نعش کو تحصیل کے دو تین سپاہیوں نے مل کر اس میں ڈال دیا۔ دیر تک ہم ٹب میں غوطے لگاتے رہے۔ جب ذرا سکون ہوا تو عظیم نے بکس کھول کر کپڑے نکالے اور گویا ہماری تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔ اس کام میں صبح ہو گئی۔

    دھوپ نکلنے سے پہلے حکیم جی لال لال قشقہ پیشانی پر لگائے ہوئے آئے۔ خیریت سے عظیم اس وقت اندر تھے۔ ورنہ خدا جانے وہ حکیم صاحب کے ساتھ کیا سلوک کرتے۔ ہماری نگاہ حکیم جی کے قبہ نما پیٹ پر پڑ گئی جو دھوتی کے اگلے حصہ پر لٹکا ہوا تھا اور اس کو ہم دیکھتے ہی بے اختیار ہنس پڑے۔ حکیم جی نے بڑے پریم سے پوچھا، کہیے طبیعت تو آنند ہے آپ کی؟ جی ہاں ایسی آنند کہ آج تک کبھی نہ ہوئی تھی۔ آخر گھنٹہ بھر تک آنند بھون میں پڑے رہے۔ اب بھی نہ ہوئی طبیعت آنند!

    حکیم جی نے اپنی ذہانت سے جلدی اندازہ لگا لیا کہ معاملہ دگرگوں ہے۔ گھبراکر پوچھنے لگے تحصیلدار صاحب کہاں ہیں؟ ہم نے کہا آپ کی تلاش میں گئے ہیں دو سپاہی لے کر! میری تلاش میں؟ کیا دوش ہوا مجھ سے حضور!

    کچھ نہیں صرف اقدام قتل کا جرم عائد ہوتا ہے! اور اگر دو گولیاں آپ کی حسب ہدایت اور کھالی جاتیں تو قصہ ہی تمام تھا جناب حکیم جی! سمجھے کچھ!

    حکیم جی عاجزی سے فرمانے لگے، میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں دیہاتیوں کا علاج کرتا ہوں۔ بڑے آدمیوں کی دوا میرے پاس نہیں ہے مگر کسی نے میری بات پر کان نہ دھرا اور زبردستی لے آئے مجھے۔ میں کب آتا تھا اپنی خوشی سے۔

    اتنے میں عظیم بھی آ گیا اندر سے اور ہم نے حکیم جی کو مسہری کے سرہانے بٹھا لیا تاکہ عظیم کہیں آتے ہی حملہ نہ کر بیٹھیں۔ عظیم نے موت کے فرشتہ کو جو ہمارے سرہانے دیکھا تو دانت پیس کر کہنے لگے، کیسے آئے تم یہاں جاہل؟

    ہم نے بلایا ہے عظیم، اب ٹھنڈائی کا نسخہ لکھوائیں گے ان سے!

    ہاں گرمی بھی بہت چھوڑی ہے انہوں نے باقی، جواب ٹھنڈائی کی ضرورت پڑی تمہیں۔

    حکیم جی نے ٹھنڈائی کا نام سن کر ہمارے کان کے پاس منہ لاکر کہا، دہی دکھائیے دہی!

    مگر ان کی آواز قابو میں نہ تھی۔ اگرچہ انہوں نے اپنی دانست میں بہت آہستہ سے کہا لیکن عظیم نے اچھی طرح سن لیا ان کے اس جملہ کو۔ عظیم آنکھیں نکال کر چیخے، تو کیا جمال گوٹہ کھلا دیا تم نے ان کو؟

    جمال گوٹہ جناب نہیں تو! جمال گوٹہ!

    پھر دہی کھلانے کے کیا معنی؟

    جوان آدمی ہیں جناب، دہی ذرا ٹھنڈا ہوتا ہے۔

    جس دن ہم پر یہ مصیبت نازل ہوئی، اسی روز تحصیل کے چار پانچ سپاہی بھی حکیم جی کی گولی کا شکار ہو چکے تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ حکیم جی رسوئی جا کر بیٹھے تو ان کے گرو معتقدین کا ہجوم ہو گیا۔ قبض، بدہضمی اور قلت اشتہا و غیرہ اس قسم کی شکایات ہیں کہ زبردستی بھی لوگ ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جہاں کسی حکیم جی کو دیکھا اور قبض کا خیال آیا۔ چنانچہ حکیم جی کی خدمت میں اکثر مریضوں نے قبض کی شکایت کی۔ حکیم جی نے وہی گولیاں سب کو دے دیں اور کہہ دیا کہ کھاکر سو رہو۔ وقت ایسا تھا کہ قریب قریب سب ہی کھانے سے فاروغ ہو چکے تھے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے متعدد آدمیوں نے گولیاں کھا لیں۔

    کوئی نصف گھنٹہ کے بعد اس مجمع میں سے ایک آدمی اٹھا اور ایک طرف جاکر اس نے اَو او کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہلے تو لوگوں کو گمان ہوا کہ کھانے میں کوئی خرابی ہو گئی ہوگی۔ مگر ایک دوسرے صاحب اٹھے اور وہ بھی دیوار کی جڑ میں بیٹھ کر بکرے کی بولی بولنے لگے۔ آخر جتنے احمقوں نے گولیاں کھائی تھیں سب ہی کا یہ حشر ہوا۔ بہت غنیمت ہوا کہ یہ لوگ آسانی کے ساتھ اس بلائے عظیم کے نیچے سے نکل گئے ورنہ ان کے ہضم کی قوت ہم جیسی ہوتی تو یقیناً ان کو بھی موت و حیات کی کشمکش سے دوچار ہونا پڑتا، تاہم اتنا ضرور ہوا کہ ایک صاحب رات بھر پلنگ سے اٹھ اٹھ کر بھاگتے رہے اور صبح کو جب ان سے حال پوچھا گیا تو انھوں نے بیان کیا کہ ہزاروں عورتیں رات کو میری کوٹھری میں ناچتی رہیں۔ عظیم نے سب کو آدھ آدھ سیر دہی پلوایا اور جو صاحب شب کو ناچ گانے کا لطف اٹھاتے رہے تھے ان کو ہماری رائے سے ٹب میں بٹھا دیا گیا اور خدا کے فضل سے ان کو اس علاج سے بہت فائدہ ہوا۔

    ان لوگوں کی خوش قسمتی تھی کہ گولیاں جلد نکل گئیں اور کسی مستقل نقصان کااثر ان کے جسم میں نہ رہا ورنہ ہمارا داہنا کان بالکل بہرہ ہو گیا ہے۔ اس کان سے کچھ سنائی نہیں دیتا البتہ شائیں شائیں کی آواز ہر وقت آتی رہتی ہے۔ ہم اگرچہ بخیریت اپنے مکان پر پہنچ چکے ہیں لیکن جو احباب ہمارے ’’بہرے پن‘‘ کے راز سے واقف ہوتے جاتے ہیں وہ طرح طرح سے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اچھا ہوا آنکھیں دکھنے نہ آئیں ورنہ حکیم جی ایک محلہ ہی ویران کرکے چھوڑتے۔ کوئی صاحب فرماتے ہیں بھائی خیریت ہوئی گولی کان پر ہی گزری اگر کہیں ایک پیر بیکار ہو جاتا تو زبردستی گھسیٹتے پھرتے۔ ہم سب کی باتیں سنتے ہیں اور حکیم جی کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں۔ خدا کرے ان کی وہ بیاض، جس میں گولیوں کا نسخہ درج ہے، گم ہو جائے تاکہ مخلوق آئندہ ان کی حماقت کا شکار نہ ہو۔

    کہتے ہیں صاحب ضرورت دیوانہ ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اہل ضرورت بھی دیوانہ ہوتا ہے اور جس بستی میں وہ رہتا ہے اس کے تمام باشندے بھی پاگل ہو جاتے ہیں۔ ہم جس قصبہ میں مقیم تھے وہ زیادہ بڑا نہ تھا اور صبح کے دس بجے تک ہمارا اور عظیم کے سپاہیوں کا واقعہ سب کے کانوں تک پہنچ چکا تھا۔ لیکن پھر بھی اہل ضرورت تھے کہ حکیم جی کے پاس آ جا رہے تھے اور کوئی نہ تھا جو ان کو کنوئیں میں گرنے سے باز رکھتا اور حکیم جی کی جرأت ملاحظہ ہو کہ وہ بےتکلف دوا دے رہے تھے۔

    ایک غریب مزدور جو پانچ چھ روز سے داڑھ کے درد کی تکلیف میں مبتلا تھا، حکیم جی کے پاس آیا اور ان سے نہایت عاجزی سے کہا حکیم جی دو روپے دوں گا میری داڑھ نکال دو۔ حکیم نے داڑھ کو دیکھ کر کہا، بہت جمی ہوئی ہے ہلتی نہیں ہے، دوا دیے دیتا ہوں درد جاتا رہےگا۔ مگر وہ تو شامت اس کے سر پر سوار تھی اور باوجود ہ کہ صیاد نے اس کے شکار سے اغماض کیا مگر وہ خود ہی جال میں پھنس گیا۔ اس نے اصرار کیا کہ دوائیں تو میں بہت لگا چکا ہوں لیکن آرام نہیں ہوا، تم تو مرض کی جڑ ہی نکال دو۔ حکیم جی نے مجبور ہوکر ایک پرانا زنگ آلود زنبور نکالا اور مریض کو پاس بلاکر کہا، کھولو منہ، مریض نے منہ کھول دیا۔ حکیم جی نے زنبور منہ میں گھسیڑ کر داڑھ کو گٹھ لیا۔ مریض نے بہت اوں اوں کی مگر یہ موقعہ رعایت کا نہ تھا۔ حکیم جی نے زمین پر گھٹنے ٹیک کر جو زور لگایا تو ایک ہی منٹ میں داڑھ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ غریب معمول پہلے تو تھوڑی دیر تک بول نہ سکا۔ جب ذرا خون کا سیلان کم ہوا تو حکیم جی کو ڈانٹ کر کہا، ارے دشٹ کہیں کے راکشش! اچھی داڑھ نکال دی، درد والی چھوڑ دی۔

    یہ ایسی بدیہی غلطی تھی کہ یہاں حکیم جی کی ہر تاویل بیکار تھی۔ ہر شخص دیکھ کر بتا سکتا تھا کہ حکیم جی نے غلطی کی۔ حکیم جی بہت پریشان ہوئے مگر انہوں نے حواس ٹھیک کرکے کہا، بھائی درد کوئی نظر آنے والی چیز نہیں ہے، میں نے تو وہ داڑھ نکال دی جو تونے بتائی تھی۔ اگر دوسری تھی تو پہلے ہی تجھے کہہ دینا چاہیے تھا۔

    کہنے کا موقع ہی کب ملا؟ میں تو بہت اوں، اوں کرتا رہا مگر تونے سنا بھی ہو، دشٹ کہیں کے!

    حکیم جی غالباً پہلی مرتبہ اس غلطی کے مرتکب نہ ہوئے تھے بلکہ وہ اچھے خاصے تجربہ کار تھے۔ انہوں نے ایک ماہر شکاری کی طرح اپنے معمول کو سمجھایا کہ گھبراؤ نہیں، یہ مرض ہی ایسا ہے کہ تمہارے سارے دانت نکلوانے پڑیں گے۔ ابھی تکلیف کا اثر باقی ہے۔ دو تین روز گزر جانے دو، پھر میں دوسری داڑھ بھی نکال دوں گا اور اگر اس کے بعد تمہیں اور دانت نکلوانے کی ضرورت پیش آئےگی تو میں تمام دانت بغیر کسی معاوضہ کے اکھاڑ دوں گا۔ اس وقت کی فیس بھی معاف کرتا ہوں۔ میں ایسا سخت دل آدمی نہیں ہوں کہ زبردستی روپے کے پیچھے کسی کی آتما دکھاؤں، پرتما نے مجھے سب کچھ دے رکھا ہے۔ حکیم جی کی اس تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا اور مریض کلیجہ مسوس کر خاموش ہو گیا۔ دوسرے لوگ جو موقعہ واردات پر موجود تھے، انہوں نے بھی حکیم جی کی نرم دلی اور ان کے ضبط و تحمل کی تعریف کی۔ بہرحال معاملہ بخیر و خوبی ختم ہو گیا۔

    خدا خدا کرکے ہم دوہفتہ کے بعد اس قابل ہوئے کہ لاری میں بیٹھ کر سیدھے برہان پور پہنچے (خدا گنج نہیں) اور وہاں سے جو ریل میں سوار ہوئے تو غازی آباد پہنچ کر دم لیا۔ ہم نے خدا کا بڑا شکر کیا کہ اپنے دانت صحیح و سالم ساتھ لے آئے، ورنہ اگر خدانخواستہ ہمارے بھی کسی دانت میں درد ہو جاتا تو حکیم جی ہم پر بھی خوب مشق ستم کرتے اور انسانی حسن و جمال کی ایک خاص چیز ہمارے ساتھ سے جاتی رہتی۔ ایسی صورت میں ممکن تھا کہ یہ مقدمہ احباب کے مذاق سے گزر کر سنجیدگی کے ساتھ ہماری ’’ہوم گورنمنٹ‘‘ کے زیر غور آ جاتا اور وہ خدا جانے کس طرح ہماری نیازمندیوں کو آزمانے کی کوشش کرتی۔ الحمدللہ کہ بہراپن نظر آنے والا مرض نہیں ہے اور پھر دوسرا کان ہمارا درست ہے، ہم بڑی ہوشیاری سے باتیں سنتے ہیں اور حتی الامکان کسی پر اپنے مرض کا حال کھلنے نہیں دیتے۔ البتہ ہم کبھی کبھی باتیں سنتے سنتے بےاختیاری کے ساتھ اپنا تندرست کان بولنے والے کی طرف جھکا دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں صرف سمجھدار آدمی ہی کو شبہ ہوتا ہے کہ نصیب دشمناں ہم ثقل سماعت کی وجہ سے یہ حرکت کر رہے ہیں یا کسی اور وجہ سے!

    عظیم کئی روز تک بیتابانہ ہماری خیریت مزاج معلوم کرتے رہے، گویا انھیں خطرہ تھا کہ ہم زندہ نہ بچیں گے اور ہماری موت کا الزام قانوناً انہی پر عائد ہوگا۔ لیکن ہم ان کے اطمینان کے لیے اپنی حیات مستعار کی رسید انہیں بھیجتے رہتے ہیں اور وہ خوش ہیں کہ ہم نے اپنی نصف سامعہ کے عوض بچا لیا!

    جی ہاں! یعنی کان تو خدا کے فضل سے موجود ہی ہیں۔ صرف قوت کا سوال ہے۔ بہت ممکن ہے کہ وہ مشق کے بعد دوسرے کان میں منتقل ہو جائے یا روغن بادام کی مداومت سے پھر عود کر آئے۔ آخر خدا میں تو سب طرح کی قوت ہے، ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ، تیل مت ڈالو، ’’ہوالسمیع العلیم‘‘ سو مرتبہ رات کو سوتے وقت پڑھ کر کان میں پھونک لیا کرو۔ ہم تو اپنے اوپر یہ عمل کر نہیں سکتے، البتہ کوئی دوسرا آدمی مہربانی کرے تو ممکن ہے کہ ہم سننے لگیں۔ لیکن بدقسمتی سے کان کا بہراپن سوائے بدایوں کے اشتہاری طبیب کے کسی کے نزدیک بھی اہم نہیں۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ عظیم نے اپنی قیام گاہ پر کوشش کرکے ایک باقاعدہ طبیب کو بلا لیا ہے گویا اپنی زندگی کا بیمہ کرا لیا ہے، ورنہ ہم تو زندہ بچ کر نکل آئے تھے لیکن عظیم اور ان کی بیگم صاحبہ کی طرف رات دن فکرمند رہتے ہیں۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے