Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہوا کے دوش پر

انور سجاد

ہوا کے دوش پر

انور سجاد

MORE BYانور سجاد

    وہ اندھا دھند ہوائی جہاز جا رہا تھا۔

    اس کے کانوں میں اسکواڈرن لیڈر کی آواز گونج رہی تھی کہ وہ اتنے فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا ہے۔ اس کی رفتار اتنے سومیل فی گھنٹہ ہے اور وہ کافی اڑان کر چکا ہے اس لیے اسے اب نیچے اتر آنا چاہیے۔ مگر اس نے سنی ان سنی کر دی۔ دو ایک دفعہ اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ لینڈ نہیں کرےگا تو اس کو ملازم سے الگ کر دیا جائےگا لیکن اس کے کانوں پر سے آواز پھسلتی رہی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ کے کان مینڈک ایسی آواز سن سن کر پک گئے تھے۔ اس نے ہیڈ فون اتار کر پرے پھینک دیا۔ اسکواڈرن لیڈر چلاتا رہا۔ اس کا ہاتھ تھراٹل کو آگے کی طرف دھکیلتا رہا اور ہوائی جہاز کی رفتار بڑھتی رہی۔

    رہ رہ کر اسے یاسمین کا خیال آ رہا تھا۔ ویسے اسے ایئر فورس میں بھرتی ہوئے اتنا عرصہ ہو چکا تھا کہ اس نے اس کے متعلق کبھی نہ سوچا تھا۔ مگر نہ جانے وہ آج اسے کس طرح یاد آرہی تھی کہ وہ اس وقت پڑھنے کے بہانے پٹھان لونڈے جلیس سے محبت کر رہی ہوگی۔ اس کی ممی بڑے اطمینان سے ڈرائنگ روم میں فائر اسکرین کے پاس آرام کرسی پر بیٹھی سوئیٹر بن رہی ہوں گی اور اس کے ڈیڈی دنیا و مافیہاسے بے خبر وسکی کا ایک پیگ چڑھائے خمار میں بیٹھے نوکروں کو گالیاں پلا رہے ہوں گے۔

    بادل اپنے سینوں میں نامعلوم مقصد چھپائے، فضا میں گھوم رہے ہوں گے اور وہ نیند کا سہارا لےکر باہر باغیچے میں املتاس کے درخت کے نیچے جلیس کے زانوں پر سر رکھے، ہونٹوں پر کوئی انجان سا نغمہ تیرا رہی ہوگی۔ پھر اس چغد نے آہستہ سے اپنے کوٹ کی جیب سے چاندی کی بنی ہوئی نسوار کی ڈبیا نکالی ہوگی اور اس کی نظروں سے بچ کر ایک چٹکی نسوار اپنے نچلے ہونٹ میں رکھ کر ایک بڑی سی پیک پیچھے جھاڑیوں میں پھینکی ہوگی اور ڈبیا جیب میں رکھ کر کوٹ سے ہاتھ صاف کرنے کے بعد اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگ گیا ہوگا۔ (تاکہ انگلیوں سے لگی ہوئی باقی نسوار بھی جھڑ جائے) ڈیڈی بھی گالیاں بک جھک کے اخبار ہاتھ میں لیے ڈرائنگ روم سے ممی کو لے کر سونے چلے گئے ہوں گے جیسے اس کے وہاں ہوتے ہوئے وہ انہیں سلانے کے لیے لے جایا کرتے تھے۔۔۔ کوئی اسے بھی تھپک تھپک کر سلانے لگا۔ سو جا میرے آرٹسٹ سو جا۔۔۔ سو جا فلائٹ لیفٹیننٹ سو جا۔۔۔ سو جا میرے پیارے قربانی کے بکرے سوجا۔

    اس کی یاسمین کے کنبے سے یوں ہی واقفیت ہو گئی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک دفعہ آرٹ کونسل میں مصوری کی نمائش ہوئی جس میں زبیر نے بھی چند شاہکار پیش کیے۔ اس کی بنائی ہوئی تصویریں ممی کو بہت پسند آئیں۔ ایک تصویر پر اسے اول انعام بھی ملا تھا۔ انہوں نے یہ تصویر خریدلی اور نمائش کے صدر سے کہا کہ وہ زبیر سے ملنا چاہتی ہیں۔ چنانچہ اسے، جو اس وقت ساتھ والے کافی ہاؤس میں بیٹھا پیالی پر پیالی چڑھا رہا تھا، بلایا گیا، جب انہوں نے دیکھا کہ تصویر کے خالق کی عمر صرف بیس بائیس سال ہے تو حیران رہ گئیں اور ساتھ ہی اس کا حلیہ دیکھ کر مسکرا بھی دیں۔ ماشاء اللہ کیا حلیہ تھا۔ گریبان کھلا ہوا، بال بکھرے ہوئے، ناک کی چونچ پر کافی کی کریم جمی تھی اوراس پر طرہ یہ کہ کالی عینک ناک پر سوارتھی جس کا ایک شیشہ مکمل طور پر غائب تھا۔

    دراصل قصور اس کا بھی نہ تھا کیونکہ وہ اس وقت بیٹھا ہوا نسیم کو پیشہ ور آرٹسٹ بن کر دکھا رہا تھا اور اسی طرح اٹھ کر چلا آیا۔ سامنے پرے ہوئے آئینے میں اپنا عکس دکھا رہا تھا۔ عینک اتارکر جیب میں ڈال لی اور قمیض کے بٹن بند کرنے میں مشغول ہو گیا۔ ممی نے اپنے پرس سے چھوٹا سارومال نکالا اور اس کی ناک پر لگی ہوئی کریم صاف کر دی۔ یاسمین پر اس کی نظر پڑی تو وہ اسے گھور رہی تھی۔ وہ اور زیادہ کھسیانا ہو گیا اور دوسری طرف منہ کر کے مسکرانے لگا۔ مختصر سی رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ مصوری کی بہت دلدادہ ہیں اور خود بھی تھوڑی بہت جھک مارتی ہیں۔ مگر مہارت حاصل نہیں ہوئی۔ اس لیے وہ اس سے مصوری سیکھیں گی۔ اس نے معذرت چاہی مگر وہ نہ مانیں اور پرس میں سے کارڈ نکال کر اسے پکڑاتے ہوئے کہا ’’میں کل شام پانچ بجے تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘ اور وہ اس پر لکھا ہوا ایڈرس پڑھنے لگا۔ ’’بیگم علی مشتاق؟ ہیں! ۳۱ لنکن روڈ!‘‘ ملک کی عظیم ترین ادیبہ! اس نے سر اٹھایا تو وہ واپس جا رہی تھیں۔ انکار کی گنجائش نہ رہی۔ اس نے سر کھجاتے ہوئے کارڈ جیب میں ڈال لیا اور واپس آرٹ کونسل کے کافی ہاؤس کی طرف لپکا۔ اس نے کرسی کھینچی اور دھپ سے بیٹھ گیا۔

    ’’خیر تو ہے، سانس پھولا ہوا ہے۔‘‘ نسیم نے اپنے پاؤں سے پیالی ہٹالی۔

    ’’بھئی نسیم! اب لطف رہےگا۔‘‘ اس نے ایک ثابت، ابلا ہوا انڈا منہ میں رکھا۔

    ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

    ’’بیرا۔۔۔! یہ کافی گرم کرکے لاؤ۔۔۔ جانتے ہو کون تھی؟‘‘

    ’’تھی؟‘‘ وہ چیخا، ’’کون تھی؟‘‘

    ’’بیگم علی مشاق یعنی میری دوست رینو کی خالہ۔۔۔ اور ’روبی‘ کی مصنفہ، ابے جا منہ دھوکے رکھ، وہ تجھے کیوں بلانے لگیں؟‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں تمام الفاظ کہہ دیے۔

    ’’منہ تو دھلا دھلایا ہے۔ بلکہ ابھی ابھی نہاکر آیا ہوں۔ تم نہ مانو۔‘‘ اس نے کارڈ جیب سے نکال کر اس کے ہاتھ میں تھمادیا، ’’کل شام پانچ بجے اپائنٹمنٹ ہے۔‘‘

    ’’اچھا! حیرانی کی بات ہے۔ آخر بلایا کیوں ہے؟‘‘

    ’’اندھوں میں کانا راجہ۔‘‘ نسیم کی آنکھوں میں مذاق ناچنے لگا، ’’یعنی تم مصوری سکھاؤگے۔ خیر چھوڑو۔ ساتھ یاسمین ہوگی۔‘‘

    ’’شاید!‘‘

    ’’وہی ہوگی۔ اول تو وہ گھر سے نکلتی ہی نہیں۔ اگر باہر نکلےگی تو ممی کے ساتھ۔۔۔ کیا وہ گل یاسمین کے پودے کی طرح نازک تھی؟‘‘

    ’’ہوں۔۔۔ ہوں۔‘‘ اس نے سرہلایا۔

    ’’تو پھر یقیناً وہی ہوگی۔۔۔ اماں یار ذرا سنبھل کے جانا لڑکیوں کے معاملے میں تمہارا دل ویسے بھی کمزور ہے۔ اس نے سگریٹ کی ڈبیہ میز پر پھینکی جو پھسلتی ہوئی زبیر کے پاس جا پہنچی۔‘’کہوتو رینو سے سفارش کروا دوں؟‘‘

    ’’ضرورت پڑی تو۔‘‘ اس نے مسکراکر سگریٹ سلگا لیا۔

    بیراگرم کافی میز پر رکھ کر اور پھر جھک کر نہایت ہی عاجزی سے مڑا جیسے وہ ان کا قرض دار ہو۔ زبیر نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ہم ذہنی طور پر کتنے مفلوج ہوتے ہیں۔۔۔ اپنے آپ کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔‘‘

    ’’تمہیں کیا۔۔۔ یہ سالے پیدا ہی دوسروں کے سامنے جھکنے کے لیے ہوئے ہیں۔ یقیناً اس کا باپ بھی بیرا ہوگا اور اس کا بیٹا بھی بیرا ہی بنےگا۔ ان باتوں کو چھوڑو۔ آؤ پیار محبت کی باتیں کریں۔ لڑکیوں کی باتیں کریں۔‘‘

    اور وہ پیار اور محبت کی باتیں کرتے رہے اور سگریٹ پھونکتے رہے۔

    اس کی آنکھوں کے سامنے بھی دھوئیں ایسا سرمئی غبار چھا گیا۔ جو بعد میں مٹیالا ہو گیا۔ دیکھتے دیکھتے چاروں طرف دھند چھا گئی اور وہ طوفان کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس نے رفتار اور بھی تیز کرکے رخ آسمان کی طرف پھیر دیا اور جہاز بڑی سرعت سے تیزرو طوفان کا سینہ چیرتا ہوا زمین کے نیچے چھوڑ گیا۔ سکواڈرن لیڈر چلاچلا کر تھک چکا تھا اور اپنے کمرے میں آرام کر رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر مسکراتا ہوا آرٹ کونسل کے بغل والے کافی ہاؤس پہنچ گیا اور نسیم کو کل کی کارروائی سنانے لگا۔

    ’’جناب کل خوب خاطر تواضع ہوئی۔‘‘ اس نے چہک کر کہا۔

    ’’مگر سر پر بال تو اب بھی موجود ہیں۔‘‘

    ’’مذاق چھوڑو۔۔۔ یہاں کسی کامستقبل سنور رہا ہے اور تم۔۔۔‘‘ وہ روسا دیا۔

    ’’Don’t cry‘‘ اس نے تھپکی دی، ’’اچھا پھر۔‘‘

    ’’بڑا اچھا کنبہ ہے۔‘‘ اس کے ماتھے کی تمام سلوٹیں نکل گئیں جیسے کسی نے استری پھیر دی ہو۔

    ’’اچھی جگہ ہاتھ مارا ہے۔‘‘

    ’’قسمت نے یاوری کی ہے۔‘‘

    ’’اب تو تم پہاڑ پر نہیں جاؤگے؟‘‘

    ’’اس صحت افزا مقام کو چھوڑ کر کون جاتا ہے۔‘‘

    ’’یاسمین سے باتیں ہوئی تھیں؟‘‘

    ’’نہیں۔۔۔ آئندہ ہوا کریں گی۔ میں اور ممی بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ آئی کہنے لگی کہ ابھی تک آپ نے مجھے سائنس کا ٹیچر نہیں رکھ کے دیا اور ممی جھوم کر کہنے لگیں۔ بیٹا! تم ایم ایس سی میں پڑھتے ہو۔ ذرا یاسمین کو زولوجی پڑھا دیا کروناں۔ ایک گھنٹے کے بجائے دو گھنٹے سہی اور میں تھوڑی سی ظاہری پس و پیش کے بعد مان گیا۔‘‘ وہ پائپ میں تمباکو بھرتے ہوئے بولا۔

    بہت دیر تک یہی باتیں ہوتی رہیں۔ جب پانچ بج گئے تو دونوں باہر نکلے۔

    ’’اچھا مسٹر چل دیے۔‘‘ زبیر نے ایم جی سپورٹس کار کی پچھلی سیٹ پر اپنا کوٹ پھینکا، ’’تمہیں رینو کے یہاں لفٹ دے دوں؟‘‘

    ’’نہیں بھئی۔‘‘ اس نے سائیکل پکڑی۔۔۔ ’’پہلے میں گھر جاؤں گا۔ آج صبح سے نہیں گیا۔ پھر وہاں سے اپنی کار پر۔۔۔‘‘

    ’’ہمارا گھر نہیں ہے؟ ہم بھی صبح سے نکلے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’تمہارا کیا گھر بار ہے۔۔۔ ایک باپ ہی باپ ہے۔ اسے بھی دفتر سے چھٹی نہیں ملتی۔ صبح دس بجے جاتا ہے۔ شام کو لوٹتا ہے۔۔۔ کولہو کے بیل کی طرح۔۔۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ آخری الفاظ پر وہ بڑبڑا گیا۔

    ’’تو پھر۔۔۔‘‘

    ’’کل کالج سے یہیں آ جائیں گے۔ میں کل سائیکل نہیں لاؤں گا۔ کار پر رینو کی طرف سیدھے یہیں سے چلیں گے۔‘‘

    پھر اس نے کار اسٹارٹ کی اور کار اضطراب سے پھنکارتی ہوئی گول اور چھوٹے لان کے گرد گھومتی ہوئی پورچ میں جاکھڑی ہوئی۔ ممی باغیچے میں کھڑی ہوئی، کچھ پینٹ کر رہی تھیں۔

    وہ ممی کو پینٹنگ سکھاتا رہا اور یاسمین کو پڑھاتا رہا۔۔۔ دن گزرتے رہے اور یاسمین کے ساتھ اس کے تعلقات بڑھتے گئے، جس قسم کے تعلقات کی اسے امید تھی۔ وہ دونوں اپنی اپنی تقدیروں کو رینو اور یاسمین کی مسکراہٹوں میں جگمگاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔

    اور ممی مسکراتی اور ساڑھی کے پلو کو ہاتھ میں مسلتی ہوئی باغیچے میں آئیں۔

    ’’اندر چل کر بیٹھو بیٹا۔ باہر سردی ہے۔‘‘

    ’’آداب ممی۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں سردی۔‘‘ وہ اپنے پٹھے اکڑاتے ہوئے بولا۔

    ’’ابھی گرم خون ہے نا۔۔۔ اسی لیے۔ میں کہتی ہوں چلو اندر۔‘‘

    ’’مگر آپ منظر کشی اندر کس طرح کریں گی؟‘‘

    ’’نہیں۔ آج موڈ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے انگڑائی لی۔

    اور وہ دونوں ڈرائنگ روم میں آ گئے۔

    ’’وہاں فائر اسکرین کے پاس بیٹھو اور مجھے ماؤتھ آرگن سناؤ۔ تاکہ میں ایک بار پھر اپنی آباد کی ہوئی دنیا میں پہنچ جاؤں۔‘‘

    وہ فائر اسکرین کے پاس بیٹھ گیا اور سانس ماؤتھ آرگن کے سروں میں ڈھلنے لگے۔ کبھی کبھی تو وہ ممی کی اس قسم کی باتوں سے بہت جھنجلایا کرتا تھا۔ مثلاً تم مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہو اور وہ سوچتا۔ کیا علی مشتاق صاحب سے بھی زیادہ؟ پھر مجھے تم سے شدید محبت ہے۔ واہ علی مشتاق صاحب کے ہوتے ہوئے مجھ سے محبت کیوں ہونے لگی۔ ابھی تو خیر سے وہ زندہ ہیں۔ مادرانہ شفقت ہوگی۔۔۔ اور یا پھر بےجا تعریف۔ تم کتنے خوبرو ہو، تمہارا جسم بالکل اسی نسبت سے تراشا گیا ہے۔ جس نسبت سے یونانی دیوتاؤں کے مجسمے۔ تمہاری نیلی نیلی آنکھیں بےحد خوبصورت ہیں۔ ٹیگور کو تو ساری عمر نیلی آنکھوں کی تلاش رہی کاش آج بنگال کا مہاکوی زندہ ہوتا جو کہتا تھا۔ ’’کہاں ہیں وہ نیلی جھیل ایسی آنکھیں جن میں میرا ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے‘‘ تومیں اسے کہتی دیکھ لو، جن آنکھوں کی تمہیں تازیست تلاش رہی، آج میں ان آنکھوں میں غوطہ زن ہوں۔‘‘

    اس وقت وہ بالکل ٹیگور معلوم ہوتیں۔ اسی طرح پر جلال چہرہ، کندھوں پر بال بکھرے ہوئے اور آنکھوں میں اداس مسکراہٹ۔ فرق تھا تو صرف داڑھی کا۔ اس نے یہ راز نسیم کو بھی نہ بتایا اور یہ وجہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ بہت حیران ہوتا کہ یہ کس قسم کی ہیں۔ اس کی امی تو اس کے چھٹ پن ہی میں فوت ہو گئی تھیں اور اسے مادری شفقت کی پہچان نہ تھی۔ وہ ممی کے متعلق سوائے ممی کے اور کوئی رائے قائم کرنا گناہ سمجھتا تھا اس لیے وہ اس قسم کے بیہودہ خیالوں کو ذہن میں آتے ہی شیشے کی طرح چکناچور کر دیتا تھا۔

    ’’ممی۔۔۔! آج یاسمین کہاں گئی ہے؟‘‘ اس نے ماؤتھ آرگن بجانا بند کر دیا۔

    ’’کیوں؟ اس کے بغیر دل نہیں لگ رہا ہے۔‘‘

    اور وہ پھر شرما گیا۔

    ’’جی آج اسے پڑھنا نہیں؟‘‘ وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگا۔

    ’’اس کو آج میں نے جان بوجھ کر رینو کی طرف بھیج دیا ہے۔‘‘

    ’’تم سے باتیں کرنی تھیں۔‘‘ ان کی آنکھوں میں خمار اور آواز میں لوچ تھا۔ وہ اٹھ کر زبیر کے اس قدر قریب بیٹھ گئیں کہ سانس اس کے چہرے پر ہوائی لمس کی طرح پھرنے لگے۔

    وہ حیران ہو گیا۔

    ’’خاموش کیوں ہو؟‘‘

    اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور ہونٹ سل گئے۔

    ’’میں چاہتی ہوں کہ تمہارے ساتھ۔۔۔‘‘

    وہ بھاگنے کی تیاری کرنے لگا۔

    ’’کہ تمہارے ساتھ یاسمین کی شادی کر دوں۔‘‘

    وہ زمین میں گڑ گیا۔ اس کو ایسا محسوس ہوا گویا کسی نے اسے زہریلا شہد چٹا دیا ہو۔ اس نے یوں ہی ممی کے متعلق اتنی ذلیل رائے قائم کی۔

    ’’بیٹا! کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

    ’’جی کچھ نہیں۔‘‘ اس نے حواس درست کیے اور زمین میں گڑا ہوا باہر نکلنے لگا۔

    ’’تو پھر کیا خیال ہے تمہارا؟‘‘

    ’’یہ تو آپ کی مہربانی ہے۔‘‘

    ’’میں تمہارے ڈیڈی سے ملی تھی۔ انہیں تو میں نے راضی کر لیا ہے کہ ایم ایس سی کے بعد شادی ہو جائےگی۔ میں نے سوچا تمہاری رائے بھی لے لی جائے، کوئی ہرج نہیں۔‘‘

    ’’آپ ماؤتھ آرگن سنیے۔‘‘

    اس نے پلکیں جھکاکر ماؤتھ آرگن بجانا شروع کر دیا اور ممی مسکرا پڑیں۔

    تھوڑی دیر میں چائے آ گئی اور ممی اس کے لیے چائے بنانے لگیں۔ چائے پی کر زبیر جانے ہی والا تھا کہ کار کاہارن سنائی دیا اور ممی نے بتایا کہ یاسمین آ گئی ہے۔ وہ جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے لگی کہ مشتاق صاحب بل ڈاگ کی طرح غرائے کہ تیزی سے نہ چڑھو ورنہ گر جاؤگی۔ اس نے پروانہ کی اور ڈرائنگ روم میں پہنچ گئی۔

    ’’آؤ یاسمین۔۔۔ ٹیچر صاحب انتظار کر کرکے تھک گئے ہیں۔ کیوں بیری؟‘‘

    ’’اجی نہیں۔‘‘ وہ بولا۔

    آج تو وہ زبیر کی آنکھوں میں کھب رہی تھی۔ سفید شلوار، سفید قمیض، کالاسویٹر، کالا دوپٹہ جو ڈھلک کر اس کے سینے پر آ رہا تھا اور پاؤں میں کالی سویڈ کی بنی ہوئی سلیم شاہی جوتی۔ ایسے معلوم ہوتی تھی جیسے چاند کاایک کونہ چھوٹی سی کالی بدلی میں چھپ گیا ہے۔۔۔ وہ زبیر کے ساتھ بیٹھ گئی اور ممی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

    ’’دیکھو بیری! میں اور میاں کلب جا رہے ہیں۔ گھنٹے دو گھنٹے تک لوٹیں گے۔ جب تک تم یہیں بیٹھنا۔‘‘

    ’’ابا گھر پہ انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

    ’’ان سے کہہ دینا کہ تم میری طرف تھے۔‘‘

    ’’جیسا آپ فرمائیں۔‘‘

    اور وہ چلی گئیں۔۔۔ یاسمین باتوں باتوں میں وہیں کوچ پر زبیر کی رانوں پر سررکھ کر دراز ہو گئی اور وہ حسب عادت آہستہ آہستہ اس کے نرم نرم ریشم کی طرح ملائم بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ اس نے اپنی شادی کے متعلق اسے خوشخبری سنائی تو وہ بہت خوش ہوئی۔ پھر اس نے غزل کی فرمائش کی اور زبیر نہایت ہی اچھی غزل گانے لگا۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ اس وقت وہ بالکل وینس معلوم ہو رہی تھی۔ غزل ختم کرنے کے بعد وہ بولا، ’’تمہارے بال بہت اچھے ہیں۔‘‘

    وہ سو گئی تھی۔۔۔ اس نے نہایت ملائمت سے اس کے گال کو چاروں انگلیوں اور انگوٹھے کے درمیان پکڑ کر آہستہ سے ہلایا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور سہمے ہوئے ہاتھ اس کے بازو پر پھیرنے لگی۔

    ’’سو گئی تھیں؟‘‘

    ’’جی ویسے ہی ذرا آنکھ لگ گئی تھی۔ میں نے بڑے اچھے اچھے خواب دیکھے ہیں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ اس نے برے اشتیاق سے پوچھا۔

    ’’جب یہ خواب پورے ہو جائیں گے تو آپ کو خود ہی پتہ چل جائےگا۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘

    پھر اس نے اس کے بالوں کی بہت تعریف کی۔۔۔ اور ممی کی واپسی تک وہیں بیٹھا رہا۔ پھر کھانا کھا کے لوٹ آیا۔ دن بڑی ہمواری سے گزرتے گئے۔

    یاسمین نے زبیر کو اپنے گلہری کی دم ایسے ملائم بالوں کا بنایا ہوا پینٹنگ برش تحفہ دیا۔۔۔ یاسمین کی سال گرہ پر زبیر نے اس کی تصویر خود بناکر پیش کی اور نسیم نے بھی چند اچھی اچھی کتابیں دیں۔ محفل میں اس کی تصویر کو سراہا گیا۔ لوگوں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ تصویر میں صرف روح کی کمی ہے اور زبیر کی روح پھڑپھڑانے لگی۔ کاش وہ روح پھونک سکتا۔ پھر وہ یاسمین سے علیحدگی میں ملاتو اس نے تصویر کو سامنے رکھ کر بتایاکہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ آئینے میں اپنا عکس دیکھ رہی ہے۔ اس نے بھی کہا کہ کمی صرف روح کی ہے۔

    وہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ ولی اللہ ہوتا۔ وہ قم باذن اللہ کہتا اور تصویر میں حرکت پیدا ہو جاتی اور دوسری یاسمین اس کے سامنے کھڑی ہو جاتی۔ شاید اس نے اپنے دل میں دو ایک مرتبہ کہا بھی مگر تصویر میں حرکت پیدا نہ ہوئی۔ البتہ یاسمین جو کتنی ہی دیر سے کھڑی اس کے منہ کو تکے جا رہی تھی ہلی اور ڈرائنگ روم میں جاکر چغتائی کی پینٹنگ کی جگہ اپنی تصویر لٹکا دی۔

    پھر جیسے اس کے سامنے ونڈ سکرین پر یاسمین کی تصویر لٹک رہی ہو۔ اس نے اپنی سیٹ سے لپک کر اسے پکڑنا چاہا لیکن اس کاہاتھ شیشے سے ٹکرا گیا۔ اس نے چونک کر اپنے آپ کو سنبھالا اور جہاز پہاڑیوں سے ٹکراتا ٹکراتا بچا۔

    ایک دن وہ بڑی تیزی سے کار چلا رہا تھا کہ ایک موٹر پر اس کے سامنے تانگہ آ گیا۔ اس نے بدحواس ہوکر سٹیئرنگ جو گھمایا تو کار بجلی کے کھمبے سے ٹکرا گئی اور وہ شدید زخمی ہو گیا۔ دو ایک دن تک ممی نے اس کا انتظار کیا۔ پھر وہ خود ہی اس کے گھر چلی آئی اور ان کے ساتھ یاسمین بھی تھی۔ زبیر کے ابا سرہانے بیٹھے اس کا سر دبا رہے تھے اور وہ تقریباً پٹیوں میں چھپا ہوا لیٹا تھا۔ علیک سلیک کے بعد انہوں نے بڑی کوشش سے اجازت حاصل کر لی کہ یاسمین اس کی تیمارداری کرےگی۔ چند دنوں میں وہ اچھا ہو گیا۔ نسیم نے اسے خوشخبری سنائی کہ اگلی اتوار کو اس کی شادی رینو سے ہو رہی ہے۔ سارا ہفتہ وہ سامان خریدتے رہے حتی کہ وہ خودرینو کو ساتھ لے جاکر اس کی پسند کی چیزیں خریدتے رہے۔ دن گزرتے گئے اور نسیم کی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہو گیا۔ وہ دونوں چوتھے ہی دن لندن چلے گئے کیونکہ نسیم کو ذوآلوجی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے حکومت نے وظیفہ دیا تھا۔ جس دن وہ لندن جا رہے تھے، اسی دن نسیم کے کہنے پر اس نے یاسمین کو انگوٹھی بھی دی۔

    ہوائی اڈے سے واپسی پر یاسمین نے زبیر کو بتایا کہ کل اس کے ایک قلمی دوست اس سے ملنے والے ہیں۔ جو دراصل پشاور کے ہیں۔

    اس نے کہا، ’’یاسمین! قلمی دوست بڑی مہلک چیز ہے۔‘‘

    ’’کیوں؟ کس کے لیے؟‘‘

    ’’میرے لیے۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ تو محض میرے دوست ہیں۔ دوست بنانا کوئی بری بات نہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دی،‘‘ اس کا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’جلیس۔‘‘

    ’’کتنا پیارا نام ہے۔‘‘

    ’’مگر زبیر سے پیارا نہیں۔‘‘

    راتیں دنوں میں اور دن راتوں میں ڈھلتے رہے۔ اسے زبیر سے زیادہ کوئی نام پیارا نہ لگا۔ جلیس اس کے دوست کی حیثیت سے ان کے یہاں آنے جانے لگا۔ ممی نے برا بھی نہ مانا۔ زبیر کو کئی دفعہ دھچکا لگا مگر وہ اسے برابر ایقین دلاتی رہی۔ آخر اس کی فطرت میں کسی کو کوئی دخل نہ تھا، اس پر غالب آگئی اور وہ جلیس کو زبیر پر ترجیح دینے لگی جس طرح وہ اچانک زبیر کو اکرام سے زیادہ اچھا سمجھنے لگی تھی۔

    خزاں کی ایک اداس شام کو زبیر بہت خوش خوش گیا کہ آج ممی نہیں ہیں، ذرا باتیں کریں گے لطف رہےگا۔ اس نے چپکے سے کار کھڑی کی اور آہستہ آہستہ اس کے کمرے کی طرف جانے لگا کہ اسے ایک دم ڈرائےگا مگر دروازے کے پاس جاکر وہ ٹھٹک کر رہ گیا۔ آج سے دو سال پہلے کی باتیں جو اس نے اس کے ساتھ کی تھیں، وہی جلیس کے سامنے دہرائی جا رہی تھیں۔ وہ واپس چلا آیا۔ کار کا دروازہ کھولنے ہی والا تھا کہ اس کی دی ہوئی انگوٹھی اس کے پیروں میں آ گری۔ اس نے آہستہ سے جھک کر اسے اٹھایا، اپنی جیب میں ڈال لیا اور چلا آیا۔

    وہ اب کسی کے دامن میں چھپنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس نے یاسمین کی فطرت کو برہنے ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس نے گھر آتے ہی یاسمین کو دیا ہوا پینٹنگ برش ایک ڈبے میں بند کرکے ایک خط کے ساتھ پارسل کر دیا۔ دوسرے ہی دن اس نے ایئرفورس میں بھرتی کے لیے درخواست دے دی۔ انٹرویو وغیرہ ہوا۔ جب وہ جی، ڈی پائلٹ بھرتی ہوکر جا رہا تھا تو یاسمین نے فائر برتھ کے پاس کھڑے ہوکر اس کا خط اٹھارہویں دفعہ پڑھا۔ ’’ہونہہ کہتا ہے اتنا عرصہ تم میری زندگی سے کھیلتی رہیں۔ اب میں اپنی زندگی سے کھیلوں گا۔۔۔ تو کھیلو۔ تمہیں منع کون کرتا ہے۔ ہر انسان کو حق ہے جو چاہے کرے۔ میں تمہیں روکنے والی کون ہوں۔‘‘ اور پھر خط کو برش سمیت آگ میں جھونک دیا۔

    وہ زندگی اور موت کے سنگم پر کھڑا سوچ رہا تھا کہ ایک قدم آگے بڑھے تو موت ہے ورنہ زندگی۔۔۔ ’’نہیں۔ میں ہمیشہ زندگی سے بھاگتا رہاہوں۔۔۔ میں بھگوڑا ہوں۔‘‘ کوئی اس کے کانوں میں چیخ چیخ کر کہنے لگا۔ ہوائی جہاز دھاڑنے لگا۔ اس بار وہ نہیں بھاگےگا۔ جب وہ اپنی ذہنی الجھنوں سے ڈر کے بھاگا تو اس نے عورت کا سہارا لیا تھا۔ مگر اس نے پناہ دے کر اس کی زندگی کو اور بھی الجھا دیا تھا۔ پھر اس نے ہوابازی کی زندگی کو اپنایا۔ اب وہ اسے کبھی نہیں چھوڑےگا۔ حتی کہ اس کو آخری زندگی بلانے کے لیے آ جائےگی اور وہ اس ابدی زندگی کی کمر میں بازو حمائل کرکے ناچتا، کودتا ہنستا، کھیلتا چلا جائےگا۔

    اس نے ہوائی جہاز لینڈ کرلیا اور مسکراتا ہوا نیچے اترا۔ اسکواڈرن لیڈر کو سلام کرنے کے بعد اس نے ٹوپی اتاری اور رومال سے صاف کرنے لگا۔ اس نے تھوڑی سی ڈانٹ پلائی اور سب ٹھیک ہو گیا۔ دراصل وہ زبیر پر بہت مہربان تھااور اسے اپنا ہی بیٹا سمجھتا تھا۔ وہ ایروڈروم کے بلیئرڈ سیلون میں چلے گئے اور شام تک بیئر ڈھکیلتے رہے۔ پھر وہ اپنے گھر چلا گیا اور زبیر ریستوران میں جا بیٹھا اور سوچنے لگا کہ وہ ایک بار پھر ۳۱ لنکن روڈ جائےگا اور یاسمین سے اس تمام واقعے کی وجہ دریافت کرےگا۔ ہو سکتا ہے اس نے مذاق کیا ہو۔ اسے پتہ بھی تو تھا میں شام کو آنے والا ہوں۔ اس لیے وہ کوئی دوسرا وقت مقرر کر سکتی تھی۔۔۔ شرارتی لڑکی نے ضرور مذاق کیا ہے۔۔۔ نہیں اگر اس نے مذاق کیا ہوتا تو ضرور خط میں ازالہ کرتی۔۔۔ مگر میں نے اسے ایڈریس بھی تو نہیں لکھا۔

    گھر سے تو میں بھاگا ہوا ہوں۔۔۔ ابا جان مجھے کتنا ناہنجار سمجھتے ہوں گے۔ انہیں کتنا صدمہ ہوا ہوگا۔ اس نے بیرے کو چائے کے لیے کہہ کر سگریٹ سلگا لیا اور ایئرہوسٹس داخل ہوئی۔ اس نے زبیر کو انگریزی کا ایک ہفتہ وار رسالہ دیا اور اس نے مسکراکر پکڑ لیا۔ آج وہ بات بات پر کھل رہا تھا۔ اس کو شکوہ تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہنس کر بات نہیں کرتا۔ مگر آج اس نے اس کے ساتھ بہت سی باتیں کیں۔ تھوری دیر بعد وہ خوش ہوکر کہنے لگی۔ ’’اب بس کیجیے۔۔۔ تھوڑی سی باتیں کل کے لیے چھوڑ دیجیے۔‘‘ اور وہ چلی گئی۔

    اس نے چائے کا گھونٹ پی کر رسالہ کھولا اور پڑھنے لگا۔ جب Couples کے صفحے پر پہنچا جہاں تازہ شادی شدہ جوڑوں کی تصویریں چھپی ہوتی ہیں، تو وہ ہر ایک جوڑے کو مسکراکر دیکھ رہا تھا۔ آخر میں آکر اس کی نگاہیں اٹک کر رہ گئیں اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر بھونک دیا ہو۔ جلیس ایم اے اور یاسمین ایک دوسرے سے کندھا ملائے کھڑے مسکرا رہے تھے۔ گویا اس کامنہ چڑا رہے ہوں۔ وہ اٹھا اور سٹے میں ہارے ہوئے سٹہ باز کی طرح ہوائی جہاز کی طرف چل دیا۔ ہوائی جہاز چنگھاڑنے لگا۔ ’’بھگوڑا۔ بھگوڑا۔‘‘ مگر ہوائی جہاز دہاڑتا ہی رہا اور اس نے کوئی پرواز نہ کی۔ وہ بڑھتا گیا اور بڑھتا ہی رہا اور آخر دور شفق میں شام کے دھندلکے میں تحلیل ہوکر رہ گیا۔ آخری زندگی اسے بلاکر لے گئی تھی اور وہ اس کی کمر میں بازو حمائل کرکے ناچتا، کودتا، ہنستا کھیلتا اس کے ساتھ جا چکا تھا۔

    دوسرے دن ممی اخبار ہاتھ میں پکڑے رومال سے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ ’’وہ ہماری زندگی میں سمانے کے لیے ہی ہماری زندگی میں آیا تھا۔۔۔ ’’ہو سکتا ہے۔‘‘ یاسمین بولی۔ ’’نہیں وہ نہیں مرا، وہ اب بھی آئےگا اور فائرا سکرین کے پاس بیٹھ کر ماؤتھ آرگن سنائےگا۔‘‘ اور یاسمین مسکراکر اپنے ہونٹ لپ اسٹک سے سرخ کرنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے