Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہارٹ اٹیک

ریاض توحیدی

ہارٹ اٹیک

ریاض توحیدی

MORE BYریاض توحیدی

    سرما کا موسم تھا۔ زبردست برفباری ہورہی تھی۔ شام کے پانچ بج چکے تھے اور شہر سے دیہات کی طرف جانے والی یہ آخری ٹیکسی تھی۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اسے وہاں پچاس برس کا ایک موٹا تازہ شخص کالے رنگ کا ایمپورٹڈ اورکوٹ پہنے نظر آیا۔ اس نے اپنے دستا نے نکال کر اپنے ہینڈ بیگ میں رکھ دے۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹاٹ کی اور وہ فوجی بنکروں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی تیز رفتاری سے آگے بڑھنے لگی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اورکوٹ والا شخص اسے دیکھ کر کچھ گھبرا سا رہا ہے اور وہ کِن آنکھیوں سے اس کی طرف بار بار دیکھ رہا ہے۔ اس کے لمبے لمبے بال اور گھنی داڑھی کا حلیہ اورکوٹ والے شخص کے خوف کو بڑھاوا دے رہا تھا۔ اجنبی سواری کی بے قراری کو بھانپنے کے باوجود بھی وہ خاموش رہا لیکن جب ڈرائیور نے اورکوٹ والے شخص سے خیر و عافیت پوچھی تو وہ اس کا نام سُن کر چونک گیا اور اس پر ایک بھرپور نظر ڈالی اورکوٹ والا ڈرائیور سے سہمی سہمی آواز میں با ت کر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس کا ذہن کسی بڑی نفسیاتی الجھن میں پھنسا ہوا ہے اور اس کے الفاظ ٹوٹ رہے ہیں۔ بات کرتے کرتے اس کے چہرے سے سخت سردی کے باوجود پسینہ چھوٹ رہا تھا۔ گاڑی منزل کی جانب دوڑ رہی تھی اور اندھیرا بھی بڑھ رہا تھا۔ وہ سکوت کا عالم توڑتے ہوئے اسے پوچھنے لگا کہ ’’آپ شاید وہی سیف الوقت تو نہیں ہیں جسے امن بحال کرنے کے عوض’’ سرکار کی طرف سے ’’ایوارڈ ‘‘ملنے والا ہے۔ ’’ہاں۔۔۔ ہاں‘‘ وہ جلدی میں بول پڑا۔ ’’لیکن میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔‘‘

    ’’میرا نام محتسب ہے‘‘ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ بول پڑا۔ ’’ہم دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کے نام اور کام کے بارے میں ،میں سب کچھ جانتا ہوں۔‘‘

    ’’سب کچھ جانتے ہو‘‘ وہ گھبراہٹ سے پوچھنے لگا۔ ’’لیکن۔۔۔ کیوں۔۔۔ کیسے۔۔۔؟‘‘

    وہ اس کی بدلتی ہوئی حالت کا حیرانی سے جائزہ لینے لگا۔ ’’آپ کیوں پریشان سے نظر آ رہے ہیں؟‘‘ محتسب نے سوال کیا۔

    ’’نہیں۔۔۔ نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رومال سے چہرے کو صاف کرنے لگا ’’کوئی خاص با ت نہیں ہے۔‘‘

    ’’جی۔۔۔ میں ایک اسکالر ہوں‘‘ محتسب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا میرے مقالے کا عنوان ہے ’’گمشدہ نسل‘‘

    ’’گمشدہ نسل‘‘ وہ اسے گھورتے ہوئے بولا ’’بڑا عجیب سا موضوع ہے۔‘‘

    ’’عجیب سا موضوع‘‘ محتسب تشویش آمیز لہجے میں پوچھ بیٹھا ’’آپ کو یہ عجیب موضوع لگ رہا ہے۔‘‘

    ’’نو، سوری‘‘ وہ سر ہلاتے ہوئے بولا ’’بس یونہی منہ سے نکل گیا۔‘‘

    محتسب اس کی اندرونی حالت کو بھانپ گیا۔ اسے محسوس ہو اکہ اس شخص کے ذہن پر انجانہ سا خوف طاری ہے اور وہ اس کی ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ اسے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ وہ واقعی ریسرچ اسکالر ہے یا کوئی۔۔۔ !

    محتسب نے اس کو اپنی حالت پر چھوڑ ا اور آنکھیں بند کرکے اس کے شب و روز پر غور کرنے لگا۔

    محتسب یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا تھا۔ وہ وادی کی اس گمشدہ نسل پر تحقیق کر رہا تھا جو پچھلی دو دہائیوں سے لاپتہ ہو چکی تھی۔ وادی کے قبرستانوں میں سینکڑوں بےنام لاشیں دفن تھیں اور ان لاشوں کے سوداگر مختلف ایجنسیوں سے اپنا اپنا خراج وصول کرتے آئے تھے۔ گمشدہ نسل کے وارثوں نے حقوق انسانی کے عالمی ایوانوں تک اپنی بات پہنچائی تھی اور اپنے غائب شدہ بچوں کی واپسی کے لئے احتجاجی راستہ اپنایا تھا لیکن جہاں عقابوں کے نشیمن پر زاغوں کا قبضہ ہو وہاں انصاف کی توقع رکھنا پتھر سے پھول نکالنے جیسا عمل ہوتا ہے۔ سیاست کے سوداگر اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لئے انصاف کے متلاشی احتجاجیوں کامن پسند استحصال کرتے آئے تھے۔ سیف الوقت بھی ان ہی سوداگروں میں سے ایک تھا جنہوں نے دولت اور شہرت کمانے کے لئے سینکڑوں انسانوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔ سیف الوقت یعنی وقت کی تلوار، اس کا اصلی نام نہیں تھا بلکہ یہ نام اس نے ان دنوں اپنایا تھا جب وہ ایک تحریک کا حصہ بن گیا تھا۔ دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ وہ اس تحریک کو چلانیکے لئے رات دن کا م کرتا رہتا۔ علاقے کے لوگ اس کی ہر بات پر یقین کی مہر ثبت کرتے تھے۔ وہ دس سالوں کے بعد شہر سے گاؤں کی طر ف آ رہا تھا۔ ان دس برسوں میں بستی کو کن کن آفتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ اس سے لاتعلق رہا۔ وہ بستی جو کبھی خوشیوں کا گہوارہ ہوا کرتی تھی اب گور ستان کی کہانی بن گئی تھی اور ہر گھر میں ماتم کی شمعیں جلتی تھیں۔ اس گلستان جیسی بستی کو گورستان بنانے کا ذمہ دار یہی سیف الوقت تھا۔ برسوں پہلے اس شخص نے ایک آواز بلند کی تھی جو بستی کے لوگوں کے لئے ایک نئی آواز تھی۔ بستی کا ہر فرد اس کی آواز پر لبیک کہتا گیا۔ وہ ہر گلی، ہر کوچے میں اسٹیج سجاتا گیا اور بستی کے نوجوانوں کو اپنے مشن میں شامل کرتا رہا۔ وہ انہیں آزادی کے سنہرے خواب دکھاتا رہا اور نوجوان اس خواب کو پورا کرنے کے لئے اپنی جان خطروں میں ڈالتے گئے۔ کئی برسوں تک بستی نوجوانوں سے خالی ہوتی چلی گئی۔ ہر انسان بندوق کی بولی بولنے لگا اور ہر کان گولیوں کی آواز پسند کرنے لگا۔ انسانی لاشوں سے نئے نئے قبرستان آباد ہوتے گئے۔ اس شخص کا حکم کسی بھی انسان کے لئے موت اور زندگی کا حکم ہوتا تھا۔ برسوں تک یہ خون آشام سلسلہ چلتا رہا اور نوجوان مشنِ آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہے۔ بستیاں کھنڈرات بنتی گئی اور چمنستان ویران ہوتے گئے۔

    ایک دن سیف الوقت اچانک غائب ہو گیا۔ اس کی جگہ دوسرے لوگوں نے سنبھالی۔ مشن چلتا رہا۔ بستی سے جوانوں کا صفایا ہوتا رہا۔ رفتہ رفتہ بندوق کا خوف دم توڑ نے لگا لیکن رات کے اندھیرے میں گھروں سے نوجوان غائب ہونے شروع ہو گئے۔ ہر انسان خوف زدہ تھا، ہر زبان گنگ تھی۔ کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ رات کے سیاہ سائے میں ان نوجوانوں کو کون سے ہاٹھ اٹھا کر غائب کر رہے ہیں۔ کئی برسوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مشن آزادی کے میر کارواں نے مشن امن کی علم بلند کی تھی۔ وہ مشن آزادی کی ایجنسی سے ناطہ توڑ کر مشنِ امن کی ایجنسی کا حامی بن گیا تھا۔ وہ شہر میں مشن امن کا دفتر چلا رہا تھا اور کئی بڑے بڑے محلوں کا مالک بن گیا تھا۔

    ٹیکسی دو گھنٹے سے لگاتار چل رہی تھی۔ گاؤں پہنچنے تک ابھی گھنٹہ بھر فاصلہ تھا۔ محتسب نے آنکھیں کھولیں اور سیف الوقت کی طرف دیکھنے لگا۔ سیف الوقت کے چہرے پر ابھی بھی خوف چھایا ہوا تھا۔ محتسب نے سوچا کہ اس کی تحقیق کے حوالے سے سیف الوقت سے کافی مواد مل سکتا ہے۔

    ’’آپ پہلے مشن آزادی کے علمبردار تھے‘‘ محتسب نے پہلا سوال کیا ’’اور اب مشنِ امن کا دفتر چلا رہے ہیں۔‘‘

    ’’جی ہاں‘‘ سیف الوقت نے اثبات میں جواب دیا ’’میں وادی میں پھر سے امن بحال کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’لیکن جن لوگوں نے آپ کی آواز پر اپنی زندگیاں داؤ پر لگادی‘‘ محتسب نے ایک اور سوال پوچھ ڈالا ’’ان کی قربانیاں آپ کس مشن میں ڈالتے ہیں، مشن آزادی یا مشنِ امن۔۔۔؟‘‘

    ’’دیکھئے جناب‘‘ سیف الوقت نے تھر تھراتی آواز میں کہا ’’میرا مشن اب نوجوانوں کو واپس قومی دائرے میں لانا ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ یہ جو سرکار کی طرف سے آپ کو ایوارڈ ملنے والا ہے‘‘ محتسب نے ایک درد انگیز سوال پوچھا ’’ضمیر کی آواز پر مجھے بتائے کہ آپ اس کے حق دار ہیں کہ نہیں؟‘‘

    یہ سوال سنتے ہی سیف الوقت کے ذہن پر کوڑ ے برسنے لگے۔ بلڈ پریشر بڑھنے کی وجہ سے اس کے چہرے پر سُرخی پھیلنے لگی اور دانت زور زور سے بجنے لگے۔ دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ اس کا سارا وجود لرزنے لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھا اور آخری ہچکی لیتے ہوئے اس کے منہ سے نکل پڑا۔ ’’ہارٹ اٹیک۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے