Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہنی مون

عابد سہیل

ہنی مون

عابد سہیل

MORE BYعابد سہیل

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک ایسے نفسیاتی بیمار کی کہانی ہے جو تنہا ہی ہنی مون پر جاتا ہے۔ اس کے دوست احباب کا خیال ہے کہ وہ لازمی طور پر اپنی بیوی کے ساتھ ہنی مون پر گیا ہے جبکہ وہ ہوٹل کے کمرے میں تنہا رہتا ہے، لیکن اس کی یہ تنہائی زیادہ دنوں تک نہیں رہتی۔ اسی ہوٹل میں اسے ایک دوسری عورت مل جاتی ہے۔

    اچھی طرح سے اطمینان کر لینے کے بعد کہ اس کی انگلی چار نمبر پر ہی ہے، اس نے بٹن پر ہلکا سا زور دیا۔ دروازے کے اوپر ایک چھوٹا سا انگارہ دہکا، پھر جیسے اسے راکھ نے ڈھک لیا، سرخی اندر سے جھلکتی رہی وہ آپ ہی آپ مسکرایا، بلا وجہ اور شاید اسی لیے جیسی خاموشی سے مسکراہٹ آئی تھی ویسی ہی خاموشی سے خودبخود بند ہوتے ہوئے لفٹ کے دروازے سے باہر نکل گئی۔اس نے ایک بار پھر مسکرانے کی کوشش کی لیکن سر اس بری طرح جھنجھنا رہا تھا کہ وہ اسی میں الجھ کر رہ گیا۔

    لفٹ میں کوئی اور نہ تھا۔ آنکھیں پوری طرح کھول کر اس نے ایک بار چاروں طرف دیکھا، صرف یہ یقین کرنے کے لیے کہ کوئی اور ہے یا نہیں۔ کوئی دوسرا وہاں نہیں تھا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ رات کے دو بج چکے تھے۔ اس وقت کوئی فلائٹ آئی تھی نہ ٹرین۔

    لفٹ رکی، دروازہ کھلا، کچھ زیادہ ہی دھیرے دھیرے۔ اسے بھی شاید اندازہ تھا کہ نویں منزل تک کوئی اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے اس لیے خواہ مخواہ جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے باہر نکلنے سے پہلے ایک بار نمبر پڑھا، جو روشن ہو گیا تھا۔ چار ہی معلوم ہوتا ہے، نہیں چار ہی ہے، اس نے سوچا اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل آیا۔

    سارے ہی کمروں کے دروازے بند تھے۔ ہر تیسرے چوتھے کمرے کے باہر کئی بیرے دیوار سے ٹیک لگائے لگائے ہی سوگئے تھے، پیر پھیلا کر۔ بس دو ایک اب بھی بیٹھے تھے، پتھر کے بتوں کی طرح، ادھ کھلی آنکھوں سے سوتے ہوئے۔ انہیں دیکھ کر اسے ہنسی آ گئی۔ آپ ہی آپ۔ کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ سامنے والے کمرے کا اوپری حصہ اسے دوسرے کمروں کے مقابلے میں کچھ بڑا اور زیادہ گول معلوم ہوا اور اونچا بھی، لیکن اس نے کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ اس کا کمرہ نہیں تھا۔

    اسے اچھی طرح یاد تھا کہ لفٹ سے نکلنے کے بعد بائیں جانب کی راہداری میں، سامنے کی طرف کا آخری سے پہلے والا کمرہ اس کا ہے۔ وہ اس طرف مڑ گیا اور انیس نمبر کے کمرے کے سامنے رک کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا، چابی نکالنے کے لیے، لیکن چابی اس میں نہیں تھی۔ اس نے دوسری جیب دیکھی۔ وہاں بھی کوئی سخت چیز نہیں تھی۔ پینٹ کی پیچھے کی جیب سے سب کچھ ایک ساتھ نکالنے کی کوشش میں دو تین نوٹ فرش پر بکھر گئے لیکن اس نے اس جانب توجہ نہ کی اور تینوں جیبوں کی دو تین بار تلاشی لی۔ جھک کر نوٹ اٹھائے، دو تین بار کی کوشش کے بعد کہیں کامیابی ہاتھ لگی۔ لیکن پریشانی اپنی جگہ قائم رہی۔ اسی وقت اس کا بایاں ہاتھ قمیص کی جیب سے ٹکرا گیا۔ وہاں کسی سخت سی چیز کا احساس ہوا۔ ہاتھ ڈالا۔ چابی وہاں آرام کر رہی تھی۔ اطمینان ہوا، جتنا اس حالت میں ہو سکتا تھا۔

    گھبراہٹ پر قابو پانے کے لیے ڈیڑھ دو منٹ اسی طرح کھڑا رہا۔ پھر چابی لگانے کی کوشش کی لیکن دورازے میں پیوست تالے نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ناکامی نے اس میں جھنجھلاہٹ پیدا کر دی جس پر قابو پانے کی اس نے کوشش کی اور اپنے خیال میں کامیاب بھی ہو گیا۔ اپنی اس کامیابی کا خود کو یقین دلانے کے لیے اس نے اپنے پیر فرش پر مضبوطی سے جمائے، جسم کو پہلے دائیں اور پھر بائیں طرف جھکایا، سب کچھ اسی طرح ہوا جیسا وہ چاہتا تھا۔ اسے اطمینان ہوا۔ بس ایک طرف سر ذرا زیادہ جھک گیا تھا۔۔۔ اس نے تالے کو گھور کر دیکھا، پھر چابی کو، پھر ایک پیر اٹھایا، جو دھیرے دھیرے ہی ممکن ہو سکا، لیکن جب اسے فرش پر پٹکا تو اس میں تیزی تھی۔ یہ غصے کا اظہار تھا۔

    اسی وقت اسے یاد آیا کہ اس نے چور کھٹکا تو دبایا ہی نہیں ہےجو ایک چھوٹے سے گولے کی شکل میں تھا اور بظاہر دروازے کی خوبصورتی کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ وہ اپنی حالت پر دھیرے سے ہنسا، چور کھٹکا دبایا، چابی لگائی لیکن وہ اب بھی تالے کے باہر ہی ٹکی رہی۔۔۔ اس نے گردن ہلائی، کچھ اس طرح جیسےخود سے پوچھ رہا ہو کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ اسی لمحے اس کا بایاں ہاتھ گھنٹی کے بٹن کی طرف اٹھ گیا لیکن فوراً ہی اسے خیال آ گیا کہ وہ خود تو باہر کھڑا ہے، اندر سے ’’کم ان‘‘ کون کہے گا۔ وہ ہنس دیا۔ اس بار اس نے اپنے ہنسنے کی آواز بھی سنی، اس ہنسی نے اسے یاد دلایا کہ آج رات کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔

    اپنےآپ پر قابو کھو دینے کا یہ اس کا پہلا موقعہ تھا۔ وہ دو تین پیگ سے زیادہ لیتا نہیں تھا اور اس کا یہ بھی خیال تھا کہ شراب اس پر ذرا کم ہی اثر کرتی ہے۔ شاید اسی خیال سے آج کی رات اس نے بار میں خود کو آزاد چھوڑ دیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی۔ چوتھا، پانچواں اور پھر چھٹا بیگ حلق میں اتارتے وقت اس نے بس یہ سوچا تھا کہ اس قدر خوبصورت فضا اور دلکش اور شاداب چہروں کے درمیان کسی بھی قسم کی پابندی کچھ ایسی اچھی بات نہ ہوگی۔ لیکن اب اسے کچھ کچھ پچھتاوا ہو رہا تھا۔ تاہم اس پشیمانی کی حیثیت اس زوردار قہقہے سے زیادہ نہ تھی جس کے بعد خیال آتا ہے کہ آواز بہت اونچی ہو گئی تھی۔۔۔ تین دن پہلے کی بات اسے کسی طرح یاد نہیں آ رہی تھی۔

    سدھیر نے ٹکٹ ہنی مون منانے کے لیے منگائے تھے، لیکن یہاں آیا وہ تنہا تھا۔۔۔ صرف چار دن پہلے جب وہ دونوں، اس کے خیال میں دونوں دوستوں، رشتہ داروں اور دوسری ساری الجھنوں سے آزاد چھ سات دن جے پور کے اس ہوٹل میں گزارنےکی امیدوں سے ہی سرشار تھے، اس نے بس ایک زیادہ پیگ کی ترنگ میں پوچھا تھا، ’’تم نےجے پور دیکھا ہے نا؟‘‘

    ’’ایک بار۔۔۔؟ کئی مرتبہ!‘‘ جواب سیدھا سادا تھا، اس میں ہلکے سے سرور کے ساتھ پہلے کے سیر سپاٹوں کی یادوں کا تھوڑا سا، یا کچھ زیادہ، رومانس بھی شامل تھا۔

    ’’پہلی بار پنٹو کے ساتھ!‘‘ اس نے یاد کیا تھا۔

    ’’نام تو اس کا شری کانت ہے لیکن ہر شخص اسے اس چھوٹے سے نام ہی سے بلاتا ہے۔‘‘ کہنے کے بعد اس نے سدھیر کے چہرے پر کچھ اور جاننے کی خواہش دیکھی تو بات بڑھائی۔

    ’’لو تم تو اتنی جلدی بھول گئے۔۔۔ یاد نہیں جب تم برات لےکر آئے تھے، وہ خوشیوں کے سمندر میں کسی بری طرح ڈوبا ہوا تھا۔‘‘

    ’’یاد کیوں نہیں؟ مجھے چمٹاکر اس بری طرح بھینچا تھا کہ بھیا نے سنبھال نہ لیا ہوتا تو سہرے کی جانے کتنی لڑیں ٹوٹ گئی ہوتیں۔۔۔ اور پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ بھرے منڈپ میں اسے تمہیں چمٹا لینے سے بھی بڑی مشکل سے روکا جا سکا تھا۔۔۔‘‘

    ’’اس نے یہ ہونے کیوں دیا؟‘‘ کئی نشے ایک ساتھ مل گئے تھے۔

    ’’اور دوسری بار۔۔۔؟‘‘

    ’’دوسری بار؟‘‘وہ سوچ میں پڑ گئی کس کا نام لے۔

    ’’ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔ ایک بار پھر ’’دوسری بار‘‘ دہرایا۔۔۔ نام یاد نہیں آ رہا تھا، یا شاید فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ کس کا نام لے۔

    ’’چھوڑو بھی۔ کوئی بات نہیں، کیوں پریشان کرتی ہو اپنے آپ کو؟‘‘ اس نے کہا تھا۔ جملے کا انداز نہ سپاٹ تھا نہ کسی گہرے جذبے کی آنچ تھی اس میں۔ اسی دن شام کی چائے ساتھ ساتھ پیتے ہوئے وہی جملہ جو اس نے صبح کہا تھا اور کچھ ایسا تھا بھی نہیں کہ کوئی بھول جاتا، کچھ اس انداز سے دہرایا جیسے ایک دم یاد آ گیا ہو۔

    ’’چاچی تو دودن میں پریشان ہو گئیں۔‘‘

    ’’چہیتی جو ٹھہری ان کی۔‘‘اس نے کہا۔ ’’دوبار پنٹو آ چکا ہے صبح سے، کہلایا ہے کپڑے اور زیور لے کر چار چھے دن کے لیے آ جاؤں۔‘‘

    ’’کوئی شادی بیاہ ہے؟‘‘

    ’’ہے تو۔۔۔ برسوں کا میل جول ہے، سب ہی تو تھے شادی میں، تم سے ملایا نہیں کیا کسی نے؟‘‘

    ’’ضرور ملایا ہوگا، بہت سوں کو پہچنوایا تھا، اتے سارے تو لوگ تھے، بھلا ایک بار کی ملاقات میں کوئی ہر ایک کا نام اور صورت کیسے یاد کرلے؟‘‘ جملہ پورا کرتے ہی اسے یاد آیا کہ نام اور صورت کی تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ اس کے جملے میں کوئی اتار تھا نہ چڑھاؤ۔ اس نے چائے کا لمبا سا گھونٹ پیٹ میں اتار لیا تھا۔ پیالی خالی ہوگئی تھی۔ ٹھنڈی ہوا جو چہرے کو شاداب بنائے ہوئے تھی، کسی او رطرف نکل گئی۔ اسے سوچنے میں مشکل سے دو تین ہی منٹ لگے۔

    ’’کوئی بات نہیں، اچھا ہے تم چلی جاؤ، نہیں تو بےکار بور ہوگی۔ کمپنی کی میٹنگ جانے کیوں پرسوں سے کی جا رہی ہے۔ پہلے تو مارچ کے شروع میں ہونے والی تھی۔ فون نہیں آیا تھا صبح؟‘‘ اس نے پارل کو جسے ہر ایک مون کہتا تھا، اسی طرح دیکھا جیسے پچھلے ہفتے سے دیکھتا آیا تھا، شادی کے بعد سے۔ مٹھاس گھلی تھی اس کی نظروں میں۔ لگتا تھا آنکھوں سے شہد ٹپک رہا ہو۔ اس مٹھاس نے راستہ دکھایا۔ وہ ٹھنٹھنائی۔ ’’تو تم جے پور نہیں دہلی جاؤگے۔‘‘

    چائے کی پیالی جو ہونٹوں تک آنے ہی کو تھی اس نے پرچ میں رکھی اور اسے اس طرح دیکھا جیسے بڑا دکھ ہو رہا ہو۔۔۔

    پیالی خالی تو پہلے ہی ہو چکی تھی۔

    اگلے دن اس نے بتایا، ’’ٹکٹ واپس کر دیے ہیں۔‘‘

    اس میں کچھ بھی غلط نہ تھا۔

    ’’پھر وہاں سے۔۔۔‘‘ آخری لفظ تک آتے آتے اسے احساس ہو گیا کہ جملہ گڑبڑا رہا ہے اس لیے ’’سے‘‘ منہ میں گول گول چکر لگاکر کچھ ایسا بن گیا کہ وہ خود بھی اسے ٹھیک سے سن نہ سکا۔ اس نے جملہ اس طرح پورا کیا جیسے سب بالکل ٹھیک ٹھاک ہو۔۔۔ ’’معلوم نہیں میٹنگ کتنے دن چلے۔ یہ بھی نہیں معلوم دلی میں ہے کہ گڑگاؤں میں یا بمبئی میں۔‘‘ اس نے سارے راستے بند کر دیے۔

    موبائل سے اسے چڑ تھی اور اس کے پاس تھا نہیں۔ اس نے اپنی بات یوں تو دو ہی جملوں میں پوری کی تھی، لیکن یہ دو جملے نہیں کئی ٹکڑے تھے جو ایک دوسرے کو آگے پیچھے دھکا دے رہے تھے۔

    ’’میری فلائٹ پرسوں صبح کی ہے۔‘‘

    ’’تو میں کل شام میں گھر چلی جاؤں؟‘‘

    ’’اور نہیں تو کیا۔ یہاں رہ کے کیا کروگی؟‘‘ تھا تو یہ جملہ سیدھا سادا لیکن اس میں کچھ کچھ طنز بھی تھا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ ٹیڑھا پن اس کا اپنا ڈالا ہوا تھا یا آپ ہی آپ شامل ہو گیا تھا۔ گھر جانے کی خوشی میں طنز کے احساس کی یہ لہر مون کے پاس سے بھی نہیں گزر سکی تھی۔

    اسی وقت ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا آیا جس نے جسم کے اندر اور باہر کی گرمی، چہرے اور گردن کے پسینے کے قطروں سے ٹکراکر، ایک خوشگوار احساس پیدا کر دیا۔ تالا نہ کھول پانے سے پیدا ہونے والی الجھن کچھ کم ہو گئی اور وہ دیوار سے لگی آرام دہ کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔ یہ کرسی دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے والوں کے لیے تھی۔ ہوٹل بھی معمولی نہ تھا۔ تھوڑی دیر میں جب ہاتھ پوری طرح قابو میں ہوں گے تالا کھولنا آسان ہوگا، اس نے سوچا۔ نیند کا جھونکا آیا تو وہ کرسی پر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اسے اپنی حالت پر تھوڑا سا افسوس بھی ہوا لیکن وہ بس ایسا تھا جیسے دماغ کے پاس سے گزر جانے والی لہر اور بس۔

    تھوڑی دیر بعد ہوش و حواس تقریباً بجا ہو گئے تو اس نے تالا کھولنے کی ایک اور کوشش کی، لیکن وہ آواز پیدا نہ ہوئی جس کے بعد دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس نے چابی آنکھوں کے قریب لاکے اس کا نمبر پھر پڑھا، تالے کے نمبر پر نظر ڈالی۔ کوئی گڑبڑ نہ تھی۔ ایک بار پھر کوشش کی، ذرا زیادہ طاقت لگائی تو کچھ کھٹ پٹ ہوئی اور پھر یکایک کسی نے اندر سے دروازہ کھول دیا۔

    ’’جی؟‘‘ اس نے کہا، بلکہ پوچھا۔ لہجہ میں تھوڑی سی حیرت تھی اور اتنی رات گئے اس کے کمرے کے دروازے پر کھٹ پٹ سے تھوڑی سی الجھن۔

    ’’آپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟‘‘

    ’’میں یہاں کیا کر رہی ہوں۔ اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوں۔‘‘ آواز سپاٹ تھی۔

    ’’بھئی آپ آگئی ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن مجھے اپنے کمرے میں تو داخل ہونے دیجیے۔‘‘ سدھیر کی آواز اب بھی کچھ کچھ لہرا رہی تھی۔

    ’’اوہ یہ بات ہے، معاف فرمائیں آپ کو غلط فہمی ہوئی۔ یہ کمرہ آپ کا نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز میں کسی قسم کی خفگی نہیں تھی۔

    ’’آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ کیا یہ انیس نمبر کا کمرہ نہیں ہے؟‘‘

    ’’ضرور ہے۔‘‘

    ’’تو یہ آپ کا کیسے ہوا۔۔۔؟ میں چوتھی منزل کے اس کمرے میں پچھلے دو دن سے رہ رہا ہوں۔‘‘

    ’’جی یہ پانچویں منزل ہے۔ پانچ سو انیس نمبر کاکمرہ۔‘‘ وہ مسکرائی۔ جواب میں مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ایسے قدموں سے جن میں اب لڑکھڑاہٹ نہیں بس ہلکی سی نااستواری رہ گئی تھی، لفٹ کی جانب بڑھنے لگا۔

    صبح اس کی آنکھ خاصی دیر سے کھلی۔ ایک سیٹ چائے، چار ٹوسٹ اور مکھن کے لیے فون کیا۔ کچھ سوچ کر دوسرا فون کیا۔ ’’چار سو انیس۔ چائے بیس منٹ بعد بھیجیے۔‘‘ اس نے کہا اور بستر سے اٹھ کرایک انگڑائی لی اور سیدھے باتھ روم میں گھس گیا۔ شاور سے چہرے پر گرم پانی کی پہلی بوچھار پڑتے ہی اسے رات کا سارا وقعہ یاد آ گیا۔ شرمندگی کا احساس بھی ہوا لیکن جسم پر رقص کرتا ہوا پانی سب کچھ بہا لے گیا، اتنی دور کہ وہ گنگنانے لگا۔ شیو کیا، کپڑے تبدیل کیے اور باہر نکلنے کے لیے پوری طرح تیار ہو گیا، اتنے میں چائے آ گئی۔

    اپنے اس ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیڈ کی حالت دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔ شکنیں صرف ایک جانب تھیں۔ دوسری طرف کا تکیہ سلیقہ سے رکھا ہوا تھا۔ گلابی رنگ کے ملائم تکیہ پر بھی ایک شکن نہ تھی، ہلکی سی دوہری جس کے چاروں طرف سفید ریشمی گوٹ لگی تھی بس ایک طرف سے ذرا سی مسل گئی تھی۔ بار کا منظر، کمرہ نمبر پانچ سو انیس کے باہر جو کچھ ہوا تھا اس کی یاد اور مون کا خیال جیسے ایک ساتھ اس کے دماغ میں داخل ہوئے اور ایک دوسرے سے اس طرح الجھ گئے کہ اس کے لیے انہیں الگ الگ کرنا ممکن نہ ہو سکا۔

    چائے پیتے ہوئے اس نے دوسری خالی پیالی کو دیکھا، تھوڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا، پھر اس نے اس ٹھنڈی سانس کو جو بہت ہی ہلکی سی آواز پیدا کرنے کے لیے جیسے اس سے اجازت مانگ رہی تھی، گردن کی جنبش سے لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ اسی وقت بیرے نے دھیرے سے دروازہ کھٹکھٹایا اور بس ذرا دیر بعد، جواب کا انتظار کیے بغیر، دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ ٹرے اٹھائی تو دو توس، مکھن کی ایک ٹکیہ اور چاروں جانب کے موتیوں کے وزن سے دوسری پیالی پر پہلے کی طرح پھیلی ہوئی جالی اسے متوجہ کیے بغیر نہ رہ سکی۔ بیرے نے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا، ’’کوئی اور کام‘‘ اور اس نے بھی اسی طرح جواب دیا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بیرے کے چلے جانے کے بعد وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ پرفیوم کی شیشی اٹھائی، تھوڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا اور پھر کھولے بغیر واپس اپنی جگہ رکھ دی۔ کمرہ بند کیا اور لفٹ کا سہارا لینے کے بجائے ایک ایک زینہ چڑھنے لگا، دھیرے دھیرے۔ میں خوش ہوں یا اداس؟ اس نے سوچا لیکن کوئی فیصلہ نہ کر سکا تو زینہ پر ہی رک کر سوچنے لگا۔ اب بھی کوئی جواب نہ ملا تو نیچے سے کسی کے تیزی سے اوپر آنے کی آواز سن کر آہستہ آہستہ قدم بڑھانے لگا۔ بیرا تھا، دونوں ہاتھوں میں چائے کی ٹرے سنبھالے ہوئے۔ اس نے مجھے بے وقوفوں کی طرح زینہ پرکھڑے ہوئے نہیں دیکھا، یہ سوچ کر اسے اطمینان ہوا۔

    دروازے کی گھنٹی اس نے بہت دھیرے سے دبائی، صرف ایک بار۔ دروازہ کھلا۔ وہی خاتون سامنے کھڑی تھیں، رات ہی کی طرح سفید ساری میں ملبوس، چہرہ اسی طرح میک اپ سے عاری۔ اسے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی لیکن یہ بھی نہیں کہ سب بالکل ٹھیک ٹھاک محسوس ہوا ہو۔ بہت کچھ ویسا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے تھا۔ شاید یہ محض احساس ہو، اس نے سوچا۔

    پچھلی رات کا واقعہ نہ ہوا ہوتا، یا وہ جو اس کے اس شہر کے لیے اکیلے ہی روانہ ہونے سے قبل ہوا تھا، یا وہ اجنبی نہ ہوتی یا اجنبی ہوتی بھی تو اس نے اسے غیر مستحکم قدموں سے رات کے سناٹے میں اپنے کمرے کے سامنے سے واپس جاتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو شاید اسے سب کچھ اس طرح اٹ پٹا نہ لگتا۔ لیکن اس میں ایسا اَٹ پٹا کیا ہے؟ وہ اس کا انتظار تو کر نہیں رہی ہوگی اور وہ خود بھی سج بن کر نہیں آیا تھا، حد یہ ہے کہ اس نے اپنی قمیص اور رومال پر پرفیوم تک نہیں لگایا تھا۔۔۔ بہت سی باتیں جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں، اسے ایسی لگ رہی تھیں جیسے ایک دوسرے سے قطعاً غیرمتعلق ہوں۔

    وہ آیا تھا رات کے واقعے پر اظہار افسوس کرنے لیکن اس ذہنی کیفیت نے جیسے اس کی گویائی چھین لی تھی۔ اس کی آنکھیں تو کھلی ہوئی تھیں لیکن ایسا کچھ اسے نظر نہیں آ رہا تھا جسے وہ کسی سلسلے سے دماغ کے پردے پر جما سکے۔ خاتون نے دروازے کا دوسرا پٹ بھی دھیرے سے کھولا۔ بدن چراتے ہوئے پیچھے کی طرف ذرا سی کھسکی اور آہستہ سے بولی،’’تشریف لائیے۔‘‘

    ’’تشریف رکھیے۔‘‘

    وہ کرسی پر بیٹھنے لگا تو خود بھی سامنے کی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ابھی وہ ادھر ادھر اور کبھی کبھی نظریں چراکر اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اس نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کافی پسند کریں گے یا چائے؟‘‘

    سدھیر نے اب ذرا غور سے اس کی طرف دیکھا۔ چہرے پر خوشی تھی نہ غم۔ بس ایک ہلکی سی اداسی کا احساس ہوتا تھا۔۔۔ اس نے اسے اپنے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے دیکھا تو آنکھیں نیچی کر لیں اور بالوں کی اس لَٹ کو جو کان کے پاس پنکھے کی تیز ہوا میں پھڑپھڑا رہی تھی، پیچھے کے بالوں میں دبا دیا۔

    اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے۔ مناسب الفاظ کی تلاش ابھی جاری تھی۔۔۔ اور اس تلاش میں اسے یہ بھی خیال نہیں آیا تھا کہ اس سے کسی نے کچھ پوچھا ہے۔۔۔ اسی وقت اجنبی خاتون نے، جواب پوری طرح اجنبی بھی نہیں رہ گئی تھیں، اپنا جملہ دہرایا۔ بس دو ایک لفظ ادھر کے ادھر ہوگئے تھے۔

    ’’آپ چائے لیں گے یا کافی؟‘‘

    ’’جی شکریہ، میں نے چائے ابھی پی ہے۔‘‘

    ’’پھر بھی۔۔۔ چائے تو میں نے بھی تھوڑی دیر پہلے ہی پی ہے۔‘‘

    ’’تو پھر کافی۔۔۔ ویسے ایسی جلدی بھی کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد منگا لیجیےگا۔‘‘

    یہ بات اس نے کہہ تو دی لیکن فیصلہ نہ کر سکا کہ اس کے پس پشت اپنے قیام کو طول دینے کی خواہش تھی یا وہ چائے اور کافی کے درمیانی وقفے کو بڑھانا چاہتا تھا۔ اتنے میں اس نے خاتون کو دیوار کی ٹک ٹک کرتی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے دیکھا۔

    ’’آپ کو کہیں تشریف لے جانا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    وہ شرمائی، ’’جی یہ میری عادت ہے۔‘‘

    ’’اوہ۔‘‘ اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ’’تب توآپ کو اندازہ ہوگا کہ وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے۔‘‘ جملہ پورا کرنے سے قبل ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ لیکن تیر نکل چکا تھا۔

    ’’وقت تیزی سے گزر جاتا ہے؟‘‘ اس جملے میں حیرت ہی حیرت تھی۔

    یکایک اسے احساس ہوا کہ پچھلے کئی دنوں سے اسے بھی کچھ کچھ یہی محسوس ہو رہا ہے اور ممکن ہے کل رات میں ’بار‘ کا تجربہ اسی احساس کا نتیجہ رہا ہو، وقت کی سست رفتاری کا اور اس نے سارا الزام اس یقین پر کہ شراب اس پر زیادہ اثر نہیں کرتی، خواہ مخواہ تھوپ دیا ہو۔

    خاتون نے پوچھا، ’’آپ کا قیام چوتھی منزل پر ہے؟‘‘

    یہ شاید اس کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش تھی۔

    وہ جیسے کھوئی ہوئی دنیا سے لوٹ آیا۔

    ’’جی ہاں۔۔۔ آپ کے کمرے کے بالکل نیچے۔‘‘

    ’’یہ بھی عجب اتفاق ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ آہستہ سے، جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔ ویسے اس سوال کا جواب تو اسے معلوم تھا، لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ معلومات میں اضافہ کرنا اس کا مقصد بھی نہیں تھا۔ وہ تو بس یہ چاہتی تھی کہ برف کسی طرح پگھلے لیکن کچھ اس طرح کہ گرمی کا احساس پیدا نہ ہو۔ خاموشی اور وہ بھی ایسی جس میں تھوڑی سی افسردگی شامل ہو، کبھی کبھی خطرناک صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ایک تجربہ ہوا تھا اسے اسی قسم کا جو آج سے قبل کبھی یاد بھی نہ آیا تھا۔

    اس خاتون کے سوال اور سوچتی ہوئی خاموشی کو کسی کوشش کے بغیر پڑھ لینے نے سدھیر کو پھر سے کمرے کے ماحول میں پہنچا دیا اور اس نے وہ بات شروع کی جس کے لیے وہ تھوڑی دیر قبل الفاظ تلاش کر رہا تھا۔

    ’’اصل میں کل رات۔۔۔‘‘

    وہ ہنسی۔ ’’ارے آپ کو اب تک یاد ہے، بھول بھی جائیے۔ زندگی میں اس طرح کی باتیں کبھی کبھی ہو جاتی ہیں۔ انہیں یاد رکھنا ضروری نہیں ہوتا۔‘‘

    اس نے سدھیر کے چہرے پر نظر ڈالی، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کا ذہنی تناؤ کچھ کم ہوا یا نہیں۔ سکون کی ایک پرت تو ہے، اس نے سوچا، لیکن شاید بہت پتلی سی اور سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ وہ اسے پچھلی رات کے واقعے کا اثر سمجھ رہی تھی اور بس۔۔۔ ایک اچھے خاصے شریف انسان کا معمولی سی بھول چوک کے سبب بلا وجہ پریشان رہنا اسے اچھا نہیں لگ رہاتھا، اس لیے اس نے زخم کو چھیڑے بغیر ایک پھایا رکھا۔

    ’’میں خود ایک بار۔۔۔‘‘

    ’’آپ کو بھی اس طرح کی غلط فہمی ہو چکی ہے۔‘‘اس کے لہے میں خاصا سکون تھا، جو چہرے پر بھی جھلکنے لگا تھا۔

    اس نے بات بڑھائی، ’’لیجئے ہم لوگ اب تک ایک دوسرے سے متعارف بھی نہیں ہوئے۔‘‘

    ’’تعارف تو کل رات ہی ہو گیا تھا۔‘‘ وہ مسکرائی۔ اس مسکراہٹ میں ہلکی سی شرارت بھی تھی۔ اسے یہ دونوں باتیں اچھی نہیں لگیں اور اس نے خاموشی سےاپنی سرزنش بھی کی اور ان دونوں احساسات کو خود پر چھا جانے سے روکنے کے لیے موضوع یکایک تبدیل کر دیا۔

    ’’مجھے لوگ شبنم کہتے ہیں۔‘‘

    ’’شبنم!‘‘

    ’’شبنم رحمان۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ اس نے اپنے مخاطب کی طرف دیکھا۔

    ’’سدھیر۔۔۔‘‘

    ’’صرف سدھیر؟‘‘

    ’’جی نہیں، سدھیر خاستگیر۔‘‘

    ’’اچھا نام ہے۔ موسیقی ہے اس میں۔‘‘

    وہ مسکرایا لیکن اسے یہ خیال بھی ہوا کہ ممکن ہے یہ اشارہ ہو کہ رات کے واقعے کی معافی تلافی ہو چکی، رسمی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی تعارف بھی ہو چکا۔ اب کیا رہ گیا ہے۔ تشریف لے جائیے (یہ بات ہے تو اس نےدل ہی دل میں کہا ہوگا۔ اب دفعان بھی ہو)۔ اس خیال نے اسے اداس کر دیا لیکن پھر کافی کا آرڈر یاد آ گیا۔ اس وقت کافی کچھ زیادہ ہی سکون بخش ثابت ہو گئی، بفرض محال اس نے اس طرح کی کوئی بات گھما پھرا کر کہہ بھی دی اور وہ اٹھ کر باہر چلا گیا تو اسے بیرے کے سامنے شرمندہ ہونا پڑےگا۔ وہ کہے گا تو کچھ نہیں لیکن سوچے گا ضرور کہ کیا ہوا، کیا دونوں میں کچھ جھگڑا ہو گیا کہ اس نے شبنم کی پیش کش ٹھکرا دی۔ اس بات کا خیال ضرور رہےگا اسے۔ اس نے خود کو تسلی دی۔ شبنم ایسی نفیس اور شائستہ عورت بیرے کو اس طرح کی بات سوچنے کا موقعہ ہرگز نہ دےگی۔ اس نے خود کو ایک بار پھر اطمینان دلایا۔ خاموشی ذرا طویل ہو گئی ہے اور اس کی ذمہ دار شاید وہی ہے، شبنم نے سوچا اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’آپ یہیں ہیں نا؟‘‘

    ’’جی، جی میں۔۔۔ سوچ رہاتھا۔‘‘ اس نے رک رک کر کہا تاکہ سوچنے کے لیے اسے کچھ وقت مل جائے۔ ’’سوچ کیا رہا تھا۔۔۔ بس یہی کہ اس طرح کی حرکت میں نے کسی دوسری خاتون کے کمرے کے دروازے پر کی ہوتی تو کیا ہوتا۔‘‘

    ’’ارے آپ اب بھی کل رات کے واقعے کو بھول نہیں سکے۔۔۔ کچھ بھی نہ ہوتا، علاوہ اس کے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دو چار سخت سست جملے کہہ دیتی یا۔۔۔‘‘ اس نے اپنی زبان کو بریک لگایا۔ اسے حیرت تھی کہ ایسا خیال الفاظ کی شکل کیسے اختیار کرنے جارہا تھا اور وہ بھی اس کی زبان پر۔ اتنے میں دروازہ پر، جو تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، کسی نے ٹک ٹک کی اور تقریباً فوراً ہی بیرا داخل ہوا، کافی کی ٹرے ایک ہاتھ میں سنبھالے ہوئے۔

    سدھیر کی ملازمت ایسی تھی کہ اسے شہر شہر جانا پڑتا تھا۔ اچھے اور اوسط درجے کے ہوٹلوں کااسے خاصا تجربہ تھا۔ اپنی موجودگی کا پہلے سے احساس دلائےبغیر بیرے کمرے میں داخل نہیں ہوتے، یہ اسے خوب اچھی طرح معلوم تھا۔ لیکن اس کا اس طرح داخل ہونا کہ کمرے کے بجائے جیسے ٹرے دیکھ رہا ہو، اسے کچھ عجیب سا لگا۔ یہ تجربہ اس کے لیے نیا تھا۔ لیکن وہ سمجھ گیا، مسکرایا بھی، کچھ اداس بھی ہوا کہ ہنی مون کے لیے خریدے ہوئے ٹکٹ سے وہ اکیلا ہی آیا تھا اور اس کمرے میں تو کچھ ایسا تھا بھی نہیں۔ کوئی یکایک بھی داخل ہو جاتا تو دونوں ایک دوسرے سے چار پانچ فٹ کے فاصلے پر رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہی ملتے۔

    شبنم کا اشارہ پاتے ہی بیرےنے چھوٹے لیکن خوبصورت سے اسٹول پر ٹرے رکھ دی تو اس نے اپنی کرسی آہستگی سے میز کی طرف کھسکائی۔ سدھیر نے بھی یہی کیا۔ کافی کے دو دو گھونٹ لینے کے باوجود دونوں ہی خاموش تھے۔ ممکن ہے یہ خاموشی انہیں کاٹ رہی ہو۔ لیکن انہیں اس کا واضح طور سے احساس نہ تھا اور اگر اس سے زیادہ کچھ تھا بھی تو دونوں اس سے بے خبر تھے۔ اب یہ خاموشی انہیں توڑنی ہوگی۔ دونوں نے جیسے ایک ساتھ سوچا لیکن پہل شبنم نے کی۔

    ’’آپ جے پور پہلی بار تشریف لائے ہیں؟‘‘

    ’’پہلی بار تو نہیں لیکن اتفاق سے یہاں آنا کم ہی ہوا ہے، بس دو تین بار۔ ویسے یہ شہر مجھے پسند ہے لیکن کئی بار خواہش کے باوجود دوسری مصروفیات کے سبب پر چیز آفیسر کو بھیجنا پڑا۔‘‘

    اس میں تھوڑا سا جھوٹ تھا۔ کمپنی میں اس کی طرح کے کئی پرچیز آفیسر تھے اور یہ محض اتفاق تھا کہ یہاں آنے کی نوبت بس دوتین بار ہی آئی تھی۔ شبنم کی آنکھوں میں اس کے بیان کے بارے میں کسی قسم کا شک نہ تھا اور ایسا کرنے کا کوئی سبب بھی نہ تھا البتہ ہلکا سا تجسس ضرور تھا اور نہیں بھی تھا تو سدھیر کی اس خواہش نے جس سے وہ خود بھی پوری طرح واقف نہ تھا، کچھ ہونے یا کچھ نہ ہونے کے سلسلے کو ختم نہیں ہونے دیا تھا۔ لیکن سوال دوسری طرف سے ہو گیا۔

    ’’یہاں آپ۔۔۔؟‘‘

    کافی تھے یہ دو لفظ گفتگو کے سلسلے کو طول دینے کے لیے لیکن وہ سب کچھ پہلی ملاقات میں بتاکر بعد کی ملاقاتوں کو موضوع کی تلاش میں ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اپنی اس خواہش پر اسے ہنسی آئی لیکن اس نے اسے جملے میں تبدیل کر دیا۔

    ’’جی چھوٹا سا کام ہے، پورے ملک سے اچھی سے اچھی ساریاں چھانٹ کر ایکسپورٹ کرتا ہوں۔ دنیا بھر میں ساری کارواج بڑھ رہا ہے۔‘‘

    شبنم مسکرائی لیکن اس نے یہ سوچا کہ ساری کی یہ بات طول کھینچ سکتی ہے اس لیے اس پر روک لگانے کی کوشش کی ’’اب تو ورک کلچر بڑھ رہا ہے، عورتیں آفسوں میں شلوار قمیص پہنتی ہیں، بہت سی تو جینز بھی۔۔۔‘‘

    سدھیر سمجھ تو گیا لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔ ایک کوشش اور کی۔ ’’جی ہاں یہ تو ٹھیک ہے، لیکن لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے تو سیر سپاٹا بھی ہوتا ہے۔‘‘ اس نے اپنی دلیل زیادہ آگے نہیں بڑھائی لیکن اس کی ساری کی طرف دیکھا تو شبنم کو اس میں ٹن ٹن کرتی ہوئی خطرے کی گھنٹی سنائی دی اور اس نے دروازہ پاٹوں پاٹ بند کر دیا۔

    ’’آپ کا خیال درست ہے۔ کچھ لوگوں کو کپڑے خریدنے کا شوق بھی ہوتا ہے۔ کبھی مجھے بھی تھا، لیکن اب بالکل ہی نہیں ہے۔ اتنی بہت سی ساریاں پڑی ہیں کہ ان میں سے کچھ کے پہننے کی تو شاید نوبت ہی نہ آئے۔‘‘ اس نے کہا۔

    سدھیر نے اس دروازے کے بند ہونے کی آواز بھی سنی۔ اسے ذرا سا اطمینان بھی ہوا۔ اس کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ شہروں شہروں قیمتی ساریاں بانٹتا پھرے۔ لیکن اس امکان سے تھوڑا سا شرمندہ بھی ہوا کہ اس کے دعوے کے باوجود ممکن ہے شبنم نے اسے پرچیز آفیسر ہی سمجھا ہو۔ اس الجھن سے نکلنے کے لیے اس نے وہ بات جو رو میں کسی اور طرف نکل گئی تھی، اس وقت بےموقع ہونے کے باوجود جوڑ دی۔

    ’’جے پور مجھے بہت اچھا لگتا ہے، کبھی کبھی کام ختم ہونے کے بعد بھی چار چھے دنوں کے لیے رک جاتا ہوں۔‘‘

    وہ مسکرائی، جیسے بات کی تہہ تک پہنچ گئی ہو اور بولی، ’’میں ان ہی دنوں بس سات دن کے لیے۔۔۔‘‘

    اس نے جملہ نامکمل چھوڑ دیا۔ یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ ہر سال جے پور ہی آتی ہے۔ سدھیر نے اس بارے میں پوچھنا چاہا لیکن اس خیال سے کہ اگلی ملاقات میں باتوں باتوں میں معلوم کر لےگا، ارادہ بدل دیا۔ اسی وقت اسے خیال آیا کہ ’’ان دنوں‘‘ کہتے وقت شبنم کے چہرے پر ہلکی سی اداسی چھا گئی تھی، جس پر پردہ ڈالنے کی اس کی کوشش پوری طرح کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ سدھیر خود بھی اس معمے میں الجھ گیا تھا، پھر بھی اس کی یہ الجھن اس ذہنی کیفیت سے بہتر تھی جس کا سلسلہ ہنی مون کا پروگرام یکایک ختم ہونے پر پانچ چھے دن قبل شروع ہوا تھا۔

    سدھیر کا خیال تھا کہ رخصت ہوتے وقت، رسماً ہی سہی، وہ اسے دوبارہ آنے کی دعوت ضرور دےگی، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس نے کسی طرح کی پسندیدگی کا اظہار کیا تھا نہ ناپسندیدگی کا۔ دروازہ کے پٹ فوراً ہی بند ضرور کیے تھے لیکن آہستگی سے، کسی آواز کے بغیر۔

    اگلے چار دن کے قیام کے دوران لاونج، لان او رلفٹ میں شبنم کا سامنا تو کئی بار ہوا لیکن بات رسمی مسکراہٹوں کے تبادلے یا سروں کی خفیف سی جنبش سے ذرا بھی آگے نہ بڑھی۔ سدھیر کو شبنم میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی لیکن گھر سے دور، کسی ایسے مقام پر جہاں لوگ ڈھرے کی زندگی سے چھٹکارہ پانے، کاروبار حیات میں خود کو دوبارہ جھونک دینے کے لیے تیار کرنے یا زندگی میں تھوڑی سی رنگینی بھرنے کے لیے آتے ہیں، اس کے برتاؤ نے جس میں کوئی اتار تھا نہ چڑھاؤ، اس کے دل میں تجسس کا ایک عنصر ضرور پیدا کر دیا تھا۔

    اس تجسس کی سیرابی کچھ ایسی مشکل نہ تھی اور خاص طور سے اس طرح کے ہوٹل میں جہاں بخشش کے اونٹ پر بیٹھ کر محفوظ سے محفوظ پناہ گاہ میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ لیکن اپنی خواہش، جو کچھ ایسی شدید بھی نہ تھی، اس طرح پوری کرنا جس میں تھوڑی سی کمینگی بھی شامل تھی، اسے دونوں کی توہین معلوم ہوئی، اپنی بھی، شبنم کی بھی۔

    اس کی عادت تھی کہ چیک آؤٹ کرنے سے ایک دن پہلے تک کے بلوں کی ادائیگی چیک سے کرنے کے بعد باقی رقم نقد ہی ادا کرتا تھا۔ معلوم نہیں کیوں اس طرح اسےاحساس ہوتا تھا کہ زیر باری کم ہوئی ہے اور چھوٹی موٹی خریداری کے لیے اس کے پاس بہت پیسے بچ گئے ہیں۔۔۔ کاؤنٹر سے یہ پوچھے جانے پر کہ بل تیار ہے، کیا کمرے میں بھیج دیا جائے وہ خود ہی رسیپشن پر چلا آیا تھا اور چیک لکھ ہی رہا تھا کہ کسی بیرے نے اکاؤنٹینٹ سے کہا تھا، ’’مس شبنم کا بل بھی بنا دیجیے۔ وہ کل چیک آؤٹ کریں گی۔‘‘

    شبنم کے نام کے ساتھ ’’مس‘‘ سن کر اسے خیال آیا کہ انہوں نے خود کو شاید مسز بتایا تھا، یا شاید نہ بتایا ہو اور میں نے آپ ہی آپ فرض کر لیا ہو، اس نے سوچا۔اس کا جی چاہا کہ ہوٹل سے رخصت ہونے سے قبل ایک بار شبنم سے ملاقات ضرور کر لے۔ لیکن کیسے؟ کیا کہےگا وہ ان سے؟ اس دن تو ایک بہانہ تھا، اس وقت تو یہ بہانہ بھی نہ ہوگا۔ یہ کہنا کہ میں کل جا رہا ہوں مناسب ہوگا؟ اس نے سوچا اور اگر اس نے جواب میں کہہ دیا ’’اطلاع دینے کا شکریہ اور کچھ؟‘‘ تو وہ اس خیال سے بھی محروم ہو جائےگا کہ وہ اس کے بارے میں شایدکبھی سوچے، بس یوں ہی، کسی جذبے اور احساس کے بغیر، جس کی اسے امید تھی نہ خواہش۔۔۔ ان خیالات کایہ سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب ٹیکسی پارکنگ سلاٹ میں داخل ہو رہی تھی۔

    عادت کے مطابق روانگی سے ایک روز قبل اس نے کچھ چھوٹی بڑی چیزیں خریدیں، دو چار اپنے اور باقی گھر کے دوسرے لوگوں کے لیے۔ ان میں چند ایسی بھی تھیں جن کے لیے جے پور مشہور ہے، جیسے پاؤ بھرروئی کی دھنی ہوئی دو دلائیاں اور درازوں کے چار ایسے پردے جن کے دائیں بائیں اور نیچے چھوٹی چھوٹی خوبصورت گھنٹیاں لگی ہوتی ہیں اور اسے ہاتھ لگاتے ہی ٹن ٹن کی دھیرے دھیرے پھیلنے والی میٹھی میٹھی سی آواز فضا میں بکھر جاتی ہے۔

    لفٹ میں شبنم پہلے ہی سے موجود تھی۔ سدھیر اور پیچھے پیچھے سامان سے ٹھسے پولی تھین کے دوبڑے تھیلے لیے وہ اور بیرا داخل ہوئے اور ان پر اس کی نظر پڑی تو وہ خوش دلی سے بولی۔ ’’بہت خریداری کر ڈالی، کیا ہوٹل سے دل بھر گیا؟‘‘ اس کے دل نے ہوٹل کے معنوں کو وسعت دی اور اس کو کچھ ایسی نظر سے دیکھا جس میں کسی قسم کی امید کے چراغ تو روشن نہ تھے لیکن ناامیدی بھی نہ تھی۔

    ’’آج نہیں، کل۔۔۔ کل شام میں۔۔۔‘‘

    اسی وقت اسے خیال آیا کہ شبنم نے وہ بات تو نہیں پوچھی تھی جس کا اس نے جواب دے دیا ہے۔ لیکن شاید وہ یہی پوچھنا چاہتی تھی۔ اس نے سوچا اور اپنے خیال کو مزید تقویت دینے کے لیے پہلے آنکھوں ہی آنکھوں میں اور پھر الفاظ کا سہارا لے کر پوچھ لیا۔

    ’’اور آپ۔۔۔؟‘‘

    ’’میں؟‘‘اس نے محسوس کیا کہ وہ کچھ سوچ رہی ہے۔۔۔ کیا جواب دے۔

    ’’ابھی طے نہیں کیا ہے۔‘‘ لہجہ سپاٹ تھا۔

    امیدوں پر، جنہیں امید کہنا بھی مناسب نہ ہو، اوس ایسے بھی پڑتی ہے۔

    اتنے میں چوتھی منزل آ گئی۔ سدھیر لفٹ سے باہر نکلا۔ بیرا بھی باہر آ گیا۔ دھیرے دھیرے بند ہوتے ہوئے دروازے سے اس نے شبنم کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر خوشی تھی نہ کسی غم کا کوئی سایہ۔

    تھیلے کو ایک کونے میں رکھ کر بیرا چلا گیا تو اس نے خود کو بستر پر پھینک دیا، بالکل اس طرح جیسےکوئی غیرضروری سامان پھینک دیتا ہے۔ اسی وقت رسیپشن پر بیرے کا جملہ اس کی یادوں میں چمک اٹھا اور تجسس نے تکان اور بے دلی کی جگہ لے لی۔اسی طرح لیٹے لیٹے اس نے مسہری کے سرہانے کا گھنٹی کا بٹن ٹٹولا جو دوسری کوشش میں مل گیا اور اس نے دھیرے سے اسے دبا دیا۔ وہ تھوڑی دیر تک دروازے پر نظریں گاڑے رہا۔ کچھ نہ ہوا۔اس نے بٹن دوبارہ دبایا، کسی قدر زور سے اور فوری طور سے اس پر سے انگلی ہٹائی بھی نہیں۔ بمشکل پندرہ بیس سیکنڈ بعد بیرا کمرے میں داخل ہوا، گھبرایا ہوا، کچھ پریشان سا۔ ہانپتا ہوا۔اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔۔۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پتلون کی پیچھے کی جیب سے پرس نکالا اور اس میں سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔

    ’’کیا لانا ہے ساب؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔۔۔ تم رکھ لو۔‘‘

    بیرا چکرا گیا۔۔۔ بیس پچیس روپے تو ہر دن مل ہی جاتے تھے اور صاحب جائیں گے تو کل، پھر یہ سو روپے۔ ابھی وہ اس گتھی کو سلجھانے میں ہی لگا ہی تھا کہ کئی بار کی کوشش اور خود سے لڑنے جھگڑنے کے بعد سدھیر کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا۔

    ’’مس شبنم؟‘‘

    ہوٹل کے کمروں کے باہر ہی باہر چکر لگاتے ہوئے بیرے تھوڑے ہی دنوں میں اندر کی دنیا بھی دیکھ لیتے ہیں۔ وہ سب کچھ سمجھ گیا۔

    ’’شبنم میم صاحب۔ آپ کے کمرے کے اوپر، جو پانچویں منزل میں ہیں؟‘‘

    اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس سر ہلا دیا۔

    ’’ہر سال آتی ہیں۔‘‘

    سدھیر نےاس کی طرف دیکھا، اس امید میں کہ شاید وہ کچھ اور بتائے۔ لیکن وہ خاموش تھا۔ پانچ چھے برس سے طرح طرح کے ہوٹلوں میں قیام کرتے کرتے وہ بھی بیروں کی ایک ایک نس سے واقف ہو چکا تھا۔ اس نے پرس سے سو کا ایک اور نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔

    ’’دس سال سے برابر آ رہی ہیں۔ کوئی سال خالی نہیں جاتا۔۔۔ پہلی بار آئیں تو نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ پھول کی طرح ہر وقت کھلی رہتی تھیں۔ شاید اسی سال۔۔۔ ان کے شوہر بھی بہت خوبصورت تھے۔ لیکن۔۔۔‘‘ بیرا ’’لیکن‘‘ کہہ کر خاموش ہو گیا تو سدھیر نے اشارہ سمجھ لیا اور ایک نوٹ پرس سے نکالا۔

    ’’ٹریجڈی ہو گئی تھی ان کے ساتھ، بہت بڑی ٹریجڈی۔۔۔ چوتھے ہی دن جانے کیا ہوا کہ صاحب بالکنی سے گر گئے اور۔۔۔‘‘

    ’’اوہ!‘‘ سدھیر کے منہ سے صرف ایک لفظ نکلا۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ بیرے کا بیان اس قدر اندوہناک موڑ لے سکتا ہے۔

    ’’اس کے بعد ہر سال انہی دنوں میں آتی ہیں۔ یہ کمرہ۔۔۔‘‘ اس نے سدھیر کی طرف دیکھا۔ ’’اس بار کچھ ایسی مجبوری تھی کہ خالی ہونے میں دیر ہو گئی اور بعد میں آپ کو دے دیا گیا، خالی ہونے والے دن ہی۔ یہ ٹریجڈی ۲۲ فروری کو ہوئی تھی۔ ہر سال اگلے دن لوٹ جاتی ہیں، پانچویں دن۔ کل پانچواں دن ہے۔‘‘

    بیرا خاموش ہو گیا۔ سدھیر نے سوچا کہ شاید وہ پرس کو ایک اور بار کھولتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے، لیکن بیرے کو اس کی امید نہ تی اس لیے اس نے اپنا تار جوڑا، ’’کل بل بنانےکے لیے کہا تھا لیکن آج فون کر دیا ہے کہ ابھی دو چار دن اور رہیں گی۔۔۔ جانے کیوں؟‘‘

    سدھیرکا جی چاہا کہ بیرے سے کہہ دے ’’بس۔ بہت ہو چکا۔‘‘ لیکن سارے پردے تو اٹھ چکے ہیں، شاید ایک آدھ رہ گیا ہو، اس نے سوچا، وہ بھی کیوں نہ اٹھ جائے۔ بیرے نےاس کی آنکھوں میں اشتیاق کی جھلک دیکھی تو خود کو نہ روک سکا۔

    ’’ان دس برسوں میں بیرں کے علاوہ آپ شاید پہلے آدمی ہیں جو ان کے کمرے میں گئے ہیں۔ اس بار تو ایک آدھ بار باہر نکلیں بھی، نہیں تو کمرے ہی میں بند رہتی تھیں۔ چائے، کھانا وہیں منگالیتی تھیں۔۔۔ لیکن بالکنی پر جواب جالی سے بند کر دی گئی ہے، کبھی کبھی نظر آ جاتی تھیں۔‘‘

    اسی وقت سدھیر نے اشارہ کرکے اسے خاموش کر دیا، یہ سوچ کر کہ اب کلی پھندنے ہی لگنے کو رہ گئے ہیں۔بیرے کی آنکھوں میں ہلکی سی مایوسی تھی۔ لیکن سدھیر نے اس کا دل نہیں توڑا اور مسکراتے ہوئے ایک اور نوٹ اسے دے دیا، ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہ اب اسے کچھ نہیں سننا۔

    ٹیکسی پورٹیکو میں کھڑی تھی۔ اس کا سامان رکھا جا چکا تھا۔ سامان جاتے ہوئے دیکھ کر چوتھی منزل کے دوسرے دو بیرے بھی اسے سلام کرنے کے لیے آ کھڑے ہوئے۔ اس نے انہیں پچاس پچاس کے نوٹ دے دیے لیکن اس کے اپنے بیرے کے نوٹ کا رنگ مختلف تھا۔

    ٹیکسی اسٹارٹ ہوئی تو اس نے ہوٹل کو افسردہ نظروں سے دیکھا، ڈرا اِؤ سے باہر نکلتے ہی ڈرائیور کو اشارہ کیا تو کار دھیمی ہوگئی۔ اس نے کھڑکی سے منہ نکالا۔ پانچویں منزل کا انیس نمبر کمرہ کچھ کچھ نظر آ رہا تھا۔ وہ اسی میں ہوگی۔ اس نے سوچا۔ اپنے زخموں کو کریدتی ہوئی، انہیں بھلانے کی کوشش کرتی ہوئی۔ ڈرائیور کی جانب دیکھے بغیر اس نے اسپیڈ بڑھانے کے لیے ہاتھ ہلایا اور اپنے چہرے کو سامنے کے چھوٹے سے آئینے سے بچانے کے لیے آگے والی سیٹوں کے پیچھے ذرا سا جھک کر آنسو پونچھے۔

    ’’آگے بڑھ کر مال روڈ لے لینا۔ ادھر بھیڑ بہت ہوتی ہے، ایئرپورٹ جلدی پہنچنا ہے۔‘‘ اس نے کہا اور مڑ کر ہوٹل کو ایک بار اور دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔

    مأخذ:

    غلام گردش (Pg. 65)

    • مصنف: عابد سہیل
      • ناشر: عابد سہیل
      • سن اشاعت: 2006

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے