Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم

MORE BYمحمود ظفر اقبال ہاشمی

    ’’میں کافی دیر سے نوٹ کر رہا ہوں۔ آپ اس کاغذ پر ایک سطر لکھ کر جس طرح اس اے سی سلیپر کی چھت کی طرف دیکھ کر سوچنے لگتے ہیں، لگتا ہے یا توآپ کوئی معمہ حل کر رہے ہیں۔ یا پھر آپ شاعری لکھ رہے ہیں!‘‘

    کوٹری جنکشن سے جب ٹرین ایک بار پھر رینگنے لگی تو بالآخر تین گھنٹے کی مسلسل خاموشی کے بعد ہماری گفتگو کی گاڑی بھی دھیرے دھیرے رینگنے لگی۔ ہم دونوں اس ایکسپریس ٹرین کے اے سی سلیپر میں دو تنہا مسافر تھے۔ ہم دونوں کی عمریں تقریباً ایک سی تھیں۔ چالیس سے ذرا آگے اور پچاس سے ذرا پیچھے۔ ہم دونوں کے چہروں پر وقت نے ملتی جلتی داستانیں اور تقریباً ایک سی تاریخ درج کر رکھی تھیں۔ فرق تھا تو صرف رنگت کا۔ اس کے سانچے کو کوزہ گر نے ذرا زیادہ مہارت سے بنایا تھا اور میں ٹُوٹا ہوا کاسہ لگتا تھا۔ کراچی سے کوٹری تک سفر کے دوران ابھی تک ہم دونوں نے رسمی سلام دعا کے علاوہ گنتی کی محض دو چار مسکراہٹیں بہت کنجوسی کے ساتھ ایک دوسرے پر خرچ کی تھیں۔ ہماری یکساں منزل لاہور ہنوز دور تھا!

    ’’آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں شاعری لکھ رہا ہوں؟’‘

    آپ کی آنکھوں میں تیرتی نمی دیکھ کر۔ تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں صاحب۔ ایک زمانہ ہو گیا زمانے کو دیکھتے ہوئے۔ مگر معاف کیجیے گا مجھے شاعری، اس کے علمبرداروں اور اس کے متاثر کنندگان سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اگر آپ محسوس نہ کریں تو میں یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ شاعری دنیا کا بیکار ترین مشغلہ اور شاعر حضرات دنیا کی سب سے نان پریکٹیکل مخلوق ہیں۔ جس محبوب کی تعریف میں یہ کوہ قاف، چاند، ستاروں، پھولوں، پہاڑوں اور چشموں سے تشبیہات اور استعارے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے ہیں، شادی کے صرف دو سال بعد وہ اور ان کی محبت سب چاہ یوسف میں گر کر گم ہو جاتے ہیں۔ وہی محبوب جب شادی سے پہلے کی کوئی بات انہیں یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے تو بیزاری سے پہلو بدلتے ہوئے یہ کہہ کر سو جاتے ہیں۔ ’’پلیز خود بھی سو جاؤ اور مجھے بھی سونے دو۔ آج میں بہت تھک گیا ہوں!’‘

    مکرم بیگ نے واشگاف رنگین قہقہہ لگایا جس میں میری بے رنگ سی پھیکی مسکراہٹ دب کر رہ گئی۔

    ’’ویسے اس عمر میں شاعری کا مجھے ایک ہی مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ یا تو آپ پروفیشنل شاعر ہیں اور کسی مشاعرے میں اپنے نئے کلام کا رعب یہ سوچ کر جمانے جا رہے ہیں کہ دیکھو تخیل اب بھی میرے منصۂ شہود پر اترتا ہے ورنہ اس عمر میں نہ تو آپ کوئی نیا محبوب افورڈ کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی احمق اپنی بد ہیئت بیوی کے لیے سخن وری کر سکتا ہے!‘‘

    ’’مکرم صاحب۔ اس دنیا میں گنے چنے ایسے احمق اب بھی موجود ہیں جو اپنی بد ہیئت بیوی کے لیے شاعری کرتے ہیں!‘‘

    ’’نا ممکن۔ بیوی پر شادی کے بعد شاعری ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ شوہروں کی تاریخ، جبلت اور نفسیات کے سراسر خلاف ہے۔ بیوی جب تک محبوبہ ہوتی ہے، وہ ایک غیر مفتوحہ علاقہ ہوتی ہے۔ جب علاقہ فتح ہو جاتا ہے تو فوجیں آگے بڑھ جاتی ہیں۔ انسان کی sense of possession پیچھے مڑ کر اسے اسی نظر سے دیکھنے ہی نہیں دیتی۔ میری بیوی کو بھی یہی مہلک بیماری تھی۔ اسی بیماری سے مر گئی بیچاری!‘‘

    یہ کہتے ہوئے مکرم بیگ نے بےپرواہی سے اپنی نظریں پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتے، پیچھے کو بھاگتے ہوئے منظروں کی طرف مرکوز کر لیں اور ایک میں تھا کہ اس کا آخری جملہ سن کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔

    ’’آپ کا مطلب ہے کہ آپ کی وائف۔’‘ مجھ سے ایک چھوٹا سا جملہ بھی مکمل نہ ہو پایا۔

    ’’میڈیکل پوائنٹ آف ویو سے وہ ابھی زندہ ہے۔ مگر میرے لیے وہ کب کی مر چکی!‘‘وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔ اس کا برف میں لگا لہجہ جنوری کی خنکی کی طرح یخ بستہ تھا!

    ‘’میں آپ کی بات پوری طرح سمجھ نہیں پا رہا ہوں مکرّم صاحب۔ کیا آپ مجھے کچھ تفصیل بتانا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’مختصر سی کہانی ہے۔ محبت کی شادی تھی۔ پانچ سالوں میں اس نے تین بچے تو پیدا کر لیے مگر اس کے روایتی محبوباؤں والے چونچلے نہیں گئے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ ہر شے کا اپنا ایک دور ہوتا ہے۔ دور گذر جائے تو تاریخ بن جاتا ہے اور ماضی میں رہنے والوں کا حال ہمیشہ برا اور مستقبل ہمیشہ تاریک ہوا کرتا ہے۔ ذرا غور کیجیے تین بچوں کی بتیس سالہ عورت جس کا محض پانچ سالوں میں سر کے بالوں، آنکھوں سے لے کر فگر تک سب کھنڈر بن چکا ہو اور وہ بار بار آپ کو نظروں کے پہلے تصادم کا لطف، پہلی بار بارش میں اکھٹے بھیگنے کی سرشاری، دھند میں ایک دوسرے کی ہتھیلیاں تھام کر سرمئی کہرے میں پہلی بار اترنے کے تجربے اور شادی کے پہلے چند ماہ کے دوران وصل و سرور سے لبریز دن اور راتیں یاد دلائے گی تو ایک مارکیٹنگ اینڈ سیلز مینیجر جس کے دل و دماغ پر صرف ماہانہ ٹارگٹ سوار ہوتا ہے وہ اتنی بڑی منافقت کا مرتکب کیونکر ہوگا۔ اس بات پر وہ مجھ سے اکثر لڑنے لگی، بات بات پر مجھے بدل جانے کی طعنے ملنے لگے اور جب اس کا ایگو ساتویں آسمان پر جا پہنچا تو چھ ماہ پہلے شدید جھگڑا کر کے بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر نوابشاہ چلی گئی۔ میں نے بھی پلٹ کر خبر نہیں لی۔ اب تو علیحدگی کی دھمکیاں بھی دینے لگی ہے۔ بھاڑ میں جائے وہ اور یہ بور ترین موضوع۔ یوں لگتا ہے منہ میں کڑوا بادام آ گیا ہو۔ چلیے چینل تبدیل کرتے ہیں۔ آپ بتائیں آپ کا چینل کیا کہتا ہے۔ اپنے تجربے کی بِنا پر میں آپ کے متعلق ایک اندازہ بالکل درست لگا سکتا ہوں۔ یہ شاعری کم از کم آپ اپنی بیوی کے لیے نہیں کرتے۔ مجھے توآپ یہ بتائیے کہ وہ کون تھی جو ابھی تک آپ کی شاعری میں چنگاری کی طرح سلگ رہی ہے؟‘‘

    میں کچھ دیر مکرم کا چہرہ غور سے دیکھتا رہا اور مسکرا کر اپنے دل کے پرانے ورق پھر سے کھولے۔

    ’’مکرم صاحب۔ یہی موسم تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی دھوپ کا موسم جب میں نے گھنی بیری کے تلے تنہا کھڑی گھنیری پلکوں والی اس انجان لڑکی کو اپنی روح سونپ دی تھی۔ ہم ایک دوسرے کی ذات میں اترے تو پھر واپسی کا راستہ بھول گئے۔ محبت میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ہم ایک دوسرے کے مدار بن کر ایک دوسرے کے اردگرد گھومنے لگے۔ ہم یہ بھول گئے کہ کبھی ہم الگ الگ نام رکھنے والے دو بالکل مختلف خطوں کے دریا تھے۔ جب ہم ایک سمندر میں گرے تو ہم نام، ہم ذات، ہم پہلو، ہم رنگ، ہم سر، ہم قدم اور ہم نفس ہو گئے۔ یہ اس کی والہانہ محبت کا ہی کمال تھا کہ میرے دل و دماغ کے نہاں خانوں میں مقید تخیل سخن وری کی شکل میں باہر نکل کر صفحۂ قرطاس پر بکھرا۔ اس کی محبت نے ہی میرے قلم میں دنیا کے لیے محبت، امید اور سچائی کی روشنائی بھری۔ اس کی محبت نے ہی میرے لہجے میں دوسروں کی فکر کی روشنی بھری۔ اس کی محبت نے ہی مجھے ایک بہتر انسان بنایا، مجھے پارسا رکھا اور مجھے اونچی اڑان سکھائی!‘‘

    ’’تو پھر کیا ہوا تھا؟ وہ کہاں کھو گئی؟‘‘

    مکرم بیگ نے جس ملتجانہ لہجے میں یہ سوال پوچھا اس لہجے میں لوگ صرف وضاحتیں دیتے ہیں!

    ’’وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی یہاں رہتی ہے!‘‘ میں نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ یہ اس کا اصل گھر ہے۔ سچی محبت کا اصل گھر دل کے سوا ہو ہی نہیں سکتا۔ محبت صنوبر کے کسی بلند پیڑ کے مخروطی پتے پر لرزاں، برسی ہوئی بارش کا کوئی قطرہ نہیں ہے کہ ایک جھونکے سے بے نام اتھاہ گہرائیوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہو جائے۔ سچی محبت کی اتنی ہی عمر ہے جتنی اس کائنات کی۔ یہ کسی کیلنڈر کا صفحہ تھوڑا ہی ہے کہ مہینہ ختم ہوتے ہی کوئی اسے ہمیشہ کے لیے پلٹ دے گا۔ محبت آگے، اطراف نیچے، اوپر اور پیچھے ایک سی ہیئت رکھتی ہے۔ یہ تو خدا کا پرتو ہے اور اسی لیے اسے ہمیشہ رہنا ہے، ہر جگہ رہنا ہے اور ہمیشہ ایک سا رہنا ہے۔ تغیر، انا اور منطق محبت کی ضد ہیں۔ آپ نے محبت کو جسم میں ڈھونڈا، اسی لیے اس کی روح کو نہیں پا سکے۔ مجھے جب اس لڑکی سے محبت ہوئی تب وہ بارہ برس کی تھی۔ بارہ برس کی تکلیف دہ ریاضت کے بعد وہ میرے گلے میں سر کی طرح پکی تو میری آواز میں نور بن کر اتری۔ آج بارہ برس ہو گئے ہماری شادی کو۔ مجھے اس نے اتنی محبت دی کہ بارہ بار بھی پیدا ہو کر لوٹانا چاہوں تو نہیں لوٹا سکتا۔ بارہ دن سے وہ اپنے والدین کے گھر ہے اور مجھے لگتا ہے کہ بارہ صدیاں پہلے اسے دیکھا تھا۔ مجھ سے دور ہو جائے تو میرے ہراساں چہرے پر ہر وقت بارہ بجے ہوئے نظر آتے ہیں۔ محبت میں جو پیچھے مڑکر نہیں دیکھ سکتا وہ زندگی میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ساٹھ ستر برس کی ایک بار عطا ہونے والی زندگی میں کوئی محبت کرنے والا اگر جسم کے پار دیکھنے میں کامیاب ہو گیا وہی اس کی روح اور گہرائی ناپ سکتا ہے ورنہ سمجھ لیجیے ساری زندگی اس نے محبت کو ایک پراڈکٹ سمجھا۔ اس کے خواص کو جانے بغیر، اس کے ingredients کو سمجھے بغیر اس کی مارکیٹنگ کی۔ یہ نظم میں ہمیشہ کی طرح صرف اپنی شریک حیات کے لیے ہی لکھ رہا تھا کیونکہ میری نظمیں ساری دنیا کے لئے نہیں ہیں۔ لیجیے آپ بھی پڑھیے!‘‘

    میں نے تو ہمیشہ کی طرح پوری سچائی کے ساتھ اپنے دل کی کتھا مکرّم بیگ کے سامنے بیان کی تھی مگر نجانے کیا ہوا یہ سب سنتے ہی اس کے چہرے کا موسم بدل سا گیا۔ اس نے خالی نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے میرے ہاتھ سے اس صفحے پر لکھی ہوئی نظم پڑھی اور اس کے بعد گویا اے سی سلیپر میں سب آوازیں یکایک دم توڑ گئیں۔ مکرم بیگ سرما کی کہرے میں لپٹی رات کے پچھلے پہر کی طرح چپ ہو گیا۔ نواب شاہ سٹیشن پر ٹرین رکی تو میں کچھ دیر ہوا خوری اور ٹانگیں سیدھی کرنے کے لیے نیچے اترا۔ واپس اپنے کمپارٹمنٹ میں آیا تو مکرم بیگ اور اس کا بریف کیس دونوں غائب تھے۔ گاڑی رینگنے لگی تو میں بےاختیار کھڑکی سے باہر دھیرے دھیرے پیچھے سرکنے والے ان گنت چہروں میں اسے ڈھونڈنے لگا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ دفعتاً میری نظر گہری سبز رنگت کی سیٹ پرپڑے اس صفحے پر پڑی جو میں نے اسے اپنی لکھی ہوئی نظم پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ میری نظم اسی جگہ دھری تھی اور اس کی ابتدائی لائنوں میں میری محبت مشکبار تھی۔۔۔

    محبت پا لینے سے پہلے

    کبھی نہاں، کبھی فغاں ہے

    محبت پا لینے کے بعد

    مسلسل امتحاں ہے!

    صفحے کو پلٹ کر دیکھا تو شکستہ لفظوں میں میرے لیے مکرم بیگ کا پیغام درج تھا۔

    ’’آپ نے درست کہا۔ محبت میں جو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتا وہ زندگی میں کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ میرا سٹیشن آ گیا ہے۔ وہ اسی شہر میں رہتی ہے۔ آپ سے نہ ملتا تو کبھی نہ جان پاتا کہ وہ کس قدر شدت سے میری منتظر ہے۔ محبت کا یہ امتحان اب کتنا بھی مسلسل ہو، نئے سرے سے محنت کروں گا۔ اس میں پھر سے بیٹھوں گا!!!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے