Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ابن آدم

ابن کنول

ابن آدم

ابن کنول

MORE BYابن کنول

    ہر روز کی طرح کمرے کی دیوار پر لگے ہوئے بلب کے نیچے دو موٹی موٹی چھپکلیاں بار بار منہ کھول کر بے بس کیڑوں کی نگل رہی تھیں اور وہ دونوں بھی ہر روز کی طرح اپنے تھکے ہارے جسموں کو لے کر بے جان کرسیوں پر آن پڑے تھے۔ پھر ایک نے دوسرے سے سوال کیا:

    ’’تم نے آج کیا دیکھا؟ دوشرا کہنے لگا:

    ’’میں نے آج دوعجیب منظر دیکھے۔ تم کہو، تم نے کیا دیکھا؟‘‘

    ’’آج میری نظروں سے بھی کئی عجیب حادثے گزرے لیکن پہلے تو بیان کرو کہ تم نے کیا دیکھا؟‘‘ وہ کہنے لگا:

    ’’میں نے دیکھا کہ ایک بارہ تیر ہ سال کی لڑ کی سڑک پر جا رہی ہے اچانک پانچ نوجوان آدمی اس کے پاس آئے اور اسے پکڑ کر لے گئے۔ پھر جو کچھ میں نے دیکھا اسے بیان کرنے کی زبان کو طاقت نہیں۔ میری آنکھوں میں ابھی تک اس بے بس لڑکی کی چیخیں گونج رہی ہیں۔ میں سب کچھ دیکھتا اور سنتا رہا لیکن نہ جانے کیوں کچھ نہیں کر سکا۔‘‘

    دوسرے نے افسوس کا اظہار کیا۔

    ’’افسوس آدمی درندہ بنتا جا رہا ہے۔ اس درندگی کا ایک دہشت ناک منظر میری نگاہوں کے سامنے پیش آیا․․․ ایک مقام پر مختلف قوم کے دو افراد میں کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ دوقوموں کی لڑائی میں بدل گیا۔ چاقو، تلواریں، بھالے، بندوقیں نکل آئیں، جسم کٹنے لگے، خون بہنے لگا، وہاں جوان بوڑھے، مرد عورت کا فرق نہیں تھا۔ ہر ایک کو مارا جارہا تھا، کاٹا جارہا تھا۔ برسوں جو ساتھ رہے، آس پاس دوست بن کر رہے، ایک دوسرے کو بڑی بےدردی سے کاٹنے لگے۔ عورتوں کی عزتیں اور بچوں کی لاشیں اُچھلنے لگیں۔ اور ایک منظر دیکھ کر تومیں کانپ گیا۔

    ’’وہ کیا تھا‘‘ پہلے نے بے چینی سے پوچھا۔

    ’’ایک حاملہ عورت جان بچانے کے لیے بھاگ رہی تھی کہ اچانک اُس پر کسی نے حملہ کر دیا اور اس کا پیٹ چاک کرکے انسان بنتے ہوئے گوشت کے لوتھڑے کو ہوا میں اچھال دیا گیا۔‘‘

    ’’ اُف یہ بےدردی کے مظاہرے کب تک آنکھیں دیکھتی رہیں گی، کان سنتے رہیں گے۔‘‘

    ’’جب تک آدمی اس زمین پر موجود ہے‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔

    ’’آخر جذبۂ انسانیت کہاں ناپید ہوگیا۔‘‘

    ’’جذبۂ انسانیت کبھی تھا ہی نہیں، انسان کوئی مخلوق نہیں۔ یہ صرف ہمارے دہنوں کا تشکیل دیا ہوا ایک تخیلی نام ہے۔ یہاں تو صرف ابن آدم کی حکومت ہے۔ ہابیل قتل کیا جاتا رہےگا، قابیل ہمیشہ زندہ رہےگا۔ کیا تم نے کوئی انسان دیکھا ہے؟‘‘

    ’’ہاں‘‘

    ’’کہاں ہے وہ؟‘‘ دوسرے نے مضطرب ہو کر چوچھا۔

    ’’وہ․․․وہ․․․ نہیں! میں نے نہیں دیکھا ، میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔‘‘

    ’’جوشے نہیں ہے اسے دیکھا بھی کیسے جاسکتا ہے۔‘‘

    سچ! انسان ایک آئیڈیل کا نام ہے، تم نے او رکیا دیکھا؟‘‘

    ’’کیا کیا سنوگے، تم سنتے سنتے تھک جاؤگے لیکن حادثات کا بیان ختم نہیں ہوگا کیا تم سونگے کہ نوبیاہتا عور ت نے سسرال کے ظلموں سے نجات حاصل کرنے لیے اپنے بدن میں آگ لگا لگی، کیا تم سنوگے کہ بےگناہ عورتوں بچوں اور مردوں سے بھری ٹرین کو بم سے اڑا دیا گیا۔ کیا تم اس بےحسی کی کہانی سنوگے کہ ایک شخص سڑک پر تڑپ تڑپ کر جان دیتا رہا اور لوگ انجان بن کر گزرتے رہے۔‘‘

    ’’بس کرو․․․بس․․․یہ سب کچھ میں نے بھی دیکھا ہے۔ پتہ نہیں شرافت، ہمدردی کہاں گئی․․․‘‘

    ’’شرافت․․․ہاہاہا․․․ہمدردی․․․ہاہاہا․․․یہ سب الفاظ کتابوں کے ہیں․․․صرف کتابوں کے۔ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے، جب دنیا کا سب سے شریف آدمی وہ کہلائے گا جو انسانیت، شرافت، ہمدردی، دوستی، وفا جیسے الفاظ کے معنی جانتا ہوگا۔‘‘

    ’’ہاں بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے․․․ یہ آدمیوں کی دنیا ہے اور آدمی کی فطرت شر پسند ہوگئی ہے۔ چھوڑ و اس بات کو․․․تم کہوتمہاری محبوبہ کیسی ہے؟‘‘ ایک نے گفتگو کے موضوع کوبدلنے کی کوشش کی دوسرا کہنے لگا:

    ’’بہت اچھی، تمام دنیا کی لڑکیوں سے اچھی۔‘‘

    ’’کیا تمہیں اس کی وفا پر یقین ہے۔‘‘

    ’’اتنا ہی جتنا اس بات پر کہ میں زندہ ہوں ۔ وہ اپنی خوبصورتی کی طرح مجھے چاہتی ہے ۔ ‘‘

    ’’وہ جھوٹ بولتی ہے․․․وہ تمہیں نہیں چاہتی۔‘‘

    ’’نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو․․․تم اس پر الزام لگار ہے ہو۔‘‘

    ’’نہیں! میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔ اس نے شاید کبھی تمہیں چاہا ہوگا ۔‘‘

    ’’وہ اب بھی مجھے پوجتی ہے۔‘‘

    ’’یہ تمہاری خوش فہمی ہے۔ وہ جان چکی ہے کہ تم صرف ایک فنکار ہو۔ جس کی جیبیں خالی ہیں۔‘‘

    ’’وہ دولت کو نہیں چاہتی۔‘‘

    ’’وہ دولت ہی کو چاہتی ہے․․․ تم نہیں جانتے کہ دہ دولت مند کے ساتھ رشتہ جوڑچکی ہے۔‘‘

    ’’تم اس پر بےوفائی کا الزام لگا کر مجھے جوش دلا رہے ہو۔‘‘

    ’’تم کیا کر سکتے ہو؟‘‘

    ’’میں تمہاری زبان کھینچ لوں گا۔‘‘

    ’’اور میں پھر بھی کہتا رہوں گا کہ وہ بے وفا ہے․․․بےوفا۔‘‘

    ’’میں تمہیں مار ڈالوں گا۔‘‘

    ’’میرے بھی دو مضبوط ہاتھ ہیں۔‘‘

    ’’کمینے․․․ میں تجھے زندہ نہیں چھوڑ دوں گا۔‘‘

    دونوں ایک دوسرے سے بھڑ جاتے ہیں اور جان لینے کی حد تک لڑتے رہتے ہیں۔

    انجام کار آخری سانسیں لیتے ہوئے گرجاتے ہیں۔ ایک دوسرے سے کہتاہے۔

    ’’آخر تونے مجھے مارہی دیا۔‘‘

    ’’ہاں․․․ہم․․․دونوں نے․․․ ایک دوسرے کومار ڈالا․․․آخر․․․ہم بھی تو آدمی ہی ہیں۔‘‘

    اچانک کمرے کا بلب بجھ گیا اور وہ دونوں موٹی موٹی چھپکلیاں ان دونوں مُردہ جسموں کی خون میں لتھڑی ہوئی پشت پر آ گریں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے