Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انفکشن

شبیر احمد

انفکشن

شبیر احمد

MORE BYشبیر احمد

    روزانہ کی طرح آج بھی پروفیسر گھوش رینگتے ہوئے آئے۔ چشمہ اتار کر میز پر رکھا۔ دھوتی کے کونچے سے پیشانی اور چہرے کا پسینہ پونچھا۔ کرسی پکڑ کر دو چار لمبی لمبی سانسیں بھریں۔ چاک اٹھا کر کلاس میں موجود طالب علموں پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی۔ بلیک بورڈ پر آج کا ٹاپک Revolution and it's Techniques لکھا اور شروع ہو گئے۔

    وہ لکچر دے رہے تھے اور میں آنکھیں پھاڑے ان کا منہ تک رہی تھی۔ سوچ رہی تھی، ”یہ آج ان کے دانتوں کو کیا ہو گیا؟ رہ رہ کر اتنے لمبے اور نوکیلے کیوں ہو جا رہے ہیں؟“

    اور اس کے ساتھ ہی میری نظروں کے سامنے مرلی کا چہرہ پھرنے لگا۔ اس کے دانت بھی ایسے ہی لمبے اور نوکیلے ہیں! ایک دم ڈرا کیولا جیسے! کبھی کبھی تو میں شرارت سے کہہ دیتی تھی، ”خبردار، یہ دانت کسی کی گردن میں نہ چبھونا ورنہ وہ بھی تمہارے جیسا ہو جائےگا۔ میں نے فلموں میں دیکھا ہے، ہاں!“

    اور وہ مسکراتے ہوئے کہتا، ”ہاں ہاں، میں نے بھی دیکھا ہے۔ جب ڈراکیولا اپنے تیز نوکیلے دانت کسی لڑکی کی گردن میں چبھو دیتا ہے، تو وہ بھی ڈراکیولا بن جاتی ہے، لیڈی ڈراکیولا! اس کے بھی چاروں دانت یہ لمبے لمبے، تیز اور نوکیلے ہو جاتے ہیں۔ لال لال، خون میں ڈوبے ہوئے۔۔۔!“

    اور میں روٹھ جاتی۔ اس کی چھاتی پر مکے بر سانے لگتی۔ وہ مجھے بانہوں میں جکڑ لیتا۔ میرے ہونٹ پر اپنے ہونٹ دھر دیتا۔

    میں اپنی زبان اس کے دانتوں کی نوک پر باری باری مس کرنے لگتی۔ کبھی دائیں بائیں، آگے پیچھے ہلا کر گدگداہٹ سے لطف اندوز ہوتی۔ نس نس میں سنسناہٹ محسوس کرتی۔ کبھی ہلکے ہلکے دبا کر میٹھی میٹھی چبھن اور کبھی دباکر ٹیس اور جلن کا مزہ لیتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت مجھے اس کے دانت اور بھی پیارے لگتے تھے۔

    پروفیسر گھوش لیکچر دے رہے تھے۔۔۔ مارکسزم، لینن ازم، شوسلزم، ماؤازم، Revolution، Contradiction، Struggle of Opposites اورنہ جانے کیا کیا بکے جا رہے تھے اور میں تھی کہ ان کے نوکدار دانتوں پر نظریں ٹکائے ماضی کی کڑیاں جوڑتی جا رہی تھی۔

    (دو)

    ہم دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے۔ وہ تھرڈ ائیر میں تھا، میں فرسٹ ائیر میں۔

    وہاں سے بی اے کرنے کے بعد مرلی یہاں چلا آیا۔ ایم اے کرنے۔ شروع شروع تو مجھ سے ملنے جاتا تھا۔ دو چار چٹھیاں بھی بھیجیں۔ لیکن دھیرے دھیرے یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔

    میں بھی بی اے پاس کر لینے کے بعد ایم اے کرنے یہاں چلی آئی۔

    یہاں آکر میری ملاقات پرابی سے ہوئی۔ ہم دونوں ایک ہی ہوسٹل میں رہتے ہیں، ایک ہی کمرے میں۔ اس اجنبی شہر میں وہی میری دوست ہے اور وہی میری ہمراز۔ ایک دن میں نے اس سے مرلی کا تذکرہ کیا تو وہ میری مدد کو تیار ہو گئی۔ اسی نے یہ سراغ لگایا کہ مرلی گاہے گاہے اسٹوڈینٹ یونین کے دفتر میں آتا ہے۔ ہم روزانہ یونین کے دفتر کا چکر کاٹنے لگے۔ وہاں گھنٹوں بیٹھے اس کی راہ تکتے رہے۔ بالآخر میری امید برآئی۔ ایک دن مرلی آیا۔ ہراساں، پریشاں، الجھا الجھا سا! مجھے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ دو قدم پیچھے ہٹا۔ پھر ہچکچاتا ہوا آگے بڑھا۔ قریب آیا۔ میرا ہاتھ دبوچ کر کھینچتا ہوا مجھے پاس والے پارک میں لے گیا۔

    میں سسکیاں بھرتی رہی، وہ بہانے تلاشتا رہا۔ بے کسی، بےروزگاری کا راگ الاپتا رہا۔ مجھے سمجھانے، پھسلانے کی کوششیں کرتا رہا۔

    اس کے بعد سے ہم اسی پارک میں ملنے لگے۔ مگر مجھے اکثر ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی گہرے سوچ میں ڈوبا ہوا ہے۔ محبت کا اظہار کم، کسان، زمین، ظلم، تشدد اور استحصال کی باتیں زیادہ کرتا ہے۔ رہ رہ کر انقلابی نظریہ بکھاننے لگتا اور جب وہ اپنے انقلابی نظریے کی بکھان کرتا تو اس وقت مجھے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے دانت پہلے سے کہیں زیادہ تیز، نوکیلے اور لمبے ہو گئے ہیں۔

    اور ایک دن جب میں اس کے اس بدلاؤ سے عاجز آ گئی تو میں نے اسے پکڑکر اپنی طرف کھینچ لیا۔ بانہوں میں بھر کر بھینچنے لگی۔ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیا۔ اس کے ہونٹ چوسنے لگی۔ مگر جوں ہی زبان اس کے دانت کی نوک پر رکھی کہ مجھے زوروں کی چبھن محسوس ہوئی اور اس سے پہلے کہ وہ دانت میری زبان میں دھنس جاتے، میں نے جلدی سے اپنی زبان باہر نکال لی۔ لیکن تب تک میرا جسم پوری طرح اس کی گرفت میں آ چکا تھا۔ اب وہ مجھے سینے سے چمٹائے میری گردن چوم رہا تھا۔ میں کسمسا رہی تھی۔ پھر دفعتاً مجھے ایسا لگا کہ اس کے دانت میرے جسم میں پیوست ہو رہے ہیں۔

    میں نے پوری طاقت سے اسے جھٹکا۔ وہ تلملاتا ہوا پیچھے سرک گیا۔ اب وہ سامنے کھڑا دانت نکالے ہنس رہا تھا۔ میں نے دیکھا، اس کے چاروں دانت ڈراونے لگ رہے تھے!

    (تین)

    پروفیسر گھوش اب بھی لکچر دے رہے تھے۔۔۔ ، ”اسٹالین کا کہنا ہے کہ سوشلزم کے قائم ہوتے ہی کلاس وار ختم ہو جائےگا۔ ماؤ کا ماننا ہے کہ سوشلزم کے قیام کے بعد بھی کلاس وار چلتا رہےگا۔۔۔“

    ویسے بھی اس وقت میرا ذہن اس طرح کی رد و قدح کا متحمل نہ تھا۔ کون کیا کہتا ہے اور کس کا کیا ماننا ہے، کس کے قیام کے بعد کیا ختم ہو جائےگا اور کس کے خاتمے کے بعد کیا باقی رہ جائےگا، ان باتوں سے بھلا مجھے کیا سروکار؟ میں تو پروفیسر گھوش کے لمبے نوکیلے دانت کے بارے میں سوچ رہی تھی، جو دھیرے دھیرے خوفناک صورت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ مرلی کے دانتوں سے بھی زیادہ خوفناک!

    میں سراسیمہ انھیں گھور رہی تھی۔

    پرابی نے کئی بار مجھے ٹہوکا بھی دیا۔ لکچر نوٹ کرنے کا اشارہ کیا۔ لیکن میں اپنی جگہ خاموش بیٹھی رہی۔ نظروں کے سامنے پروفیسر گھوش کا چہرہ تھا اور ذہن کے پردے پر مرلی کی تصویر۔

    مرلی پھر سے غائب ہو گیا تھا۔ تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔ اس کا کوئی اتا پتا نہیں۔

    اور پھر میں نے کھاتا قلم بیگ میں رکھے اور، دبے پاؤں کلاس سے باہر نکل آئی۔ کندھے سے بیگ جھلائے تیز تیز قدموں سے پارک کی جانب بڑھنے لگی۔ شام ہو چلی تھی، مگر اب بھی دھوپ کی تپش اور پیچ کی سڑک سے اٹھنے والی لہروں سے بدن جھلس رہا تھا۔ گرم ہوا ناک کے راستے جسم میں پیوست ہو رہی تھی۔ پھیپھڑوں اور سانس کی نلی کو بھپکا رہی تھی۔ مگر میں تھی کہ مرلی کی دھن میں مگن گنگناتی، مسکراتی، غم کھاتی چلی جا رہی تھی۔

    پسینے میں شرابور پارک کے مین گیٹ کے سامنے والے گھنیرے درخت کے نیچے آ کر کھڑی ہو گئی۔ رومال سے چہرے اور پیشانی پر جمے پسینے کی بوندیں پونچھنے لگی۔ ابھی پسینہ پوری طرح خشک بھی نہیں ہو پایا تھا کہ دو آدمی میرے دائیں بائیں آ کھڑے ہوئے۔ میں سہم گئی۔ خوف و تحیر سے انھیں دیکھنے لگی۔ بائیں طرف والا آدمی لانبے قد کا تھا اور دائیں طرف والا گورا چٹہ چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا۔ اس کی پلکیں بھی سکڑی ہوئی تھیں۔ لانبا آدمی جس کا بایاں کندھا ذرا جھکا ہوا تھا، نرم لہجے بولا، ”مس نینا، ہم پولس والے ہیں۔ آپ کو ہمارے ساتھ تھانے چلنا ہوگا! ایک تفتیش کے سلسلے میں، مرلی ہیمبرم کے بارے میں۔“

    ”مرلی کے بارے۔۔۔!“ میں ابھی اپنی بات پوری بھی نہ کر پائی تھی کہ کالے رنگ کی ایک سومو کار سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ اندر ایک فربہ اندام خاتون بیٹھی تھی۔

    ”پلیز، مس نینا۔“ لانبے آدمی نے مجھے اشارے سے کار میں بیٹھنے کو کہا۔

    (چار)

    کچھ دیر چلنے کے بعد کار ایک باغ نما کمپاؤنڈ میں داخل ہوئی۔ کار سے اتر کر لانبے آدمی نے بائیں شانے کو ہلکی سی جنبش دی اور کہا، ”میڈم سین، آپ انھیں اندر بٹھایئے اور شیرپا، تم انھیں اطلاع کر دو۔“

    شیرپا نے 'یس سر' کہا اور لپکتا ہوا سامنے والی عمارت میں داخل ہو گیا۔ میڈم سین مجھے ایک کمرے میں لے آئی۔

    کمرا خاصہ وسیع اور خوبصورت تھا۔ الماری، میز، کرسیاں، کمپیوٹر ساری چیزیں قرینے سے سجی ہوئی تھیں۔ ایک طرف کونے میں دیوار سے متصل ایک صوفہ سیٹ بھی تھا۔ میڈم سین نے مجھے صوفے پر بیٹھ جانے کو کہا۔

    میں بلبل بہ دام تھرتھراتی ہوئی صوفے پر دبک گئی۔ کبھی خوفزدہ نگاہوں سے میڈم سین کا منہ تاکتی اور کبھی متجسسانہ نظروں سے کمرے کا کونا کونا چھانتی۔ میڈم سین ادھر ادھر کی باتیں کر کے مجھے بہلانے کی کوشش کرنے لگیں۔ جب کافی وقت گزر گیا تو دھیرے دھیرے میری گھبراہٹ بھی کافور ہوتی گئی اور جبھی ایک سردار جی کمرے میں داخل ہوئے۔ میڈم سین نے مسکراتے ہوئے انھیں وش کیا۔ وہ جواباً مسکراتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گئے۔ پھر سفید دھوتی کرتا پہنے ایک ادھیڑ عمر شخص آیا، جسے دیکھتے ہی میڈم سین دم سادھے ایک دم سے کھڑی ہو گئیں۔ اس کے بعد دو آدمی اور آئے۔ میڈم سین نے انھیں بھی احتراماً 'گڈ ایوننگ' کہا۔ میرا خوف جو کچھ دیر پہلے کافور گیا تھا، پھر سے لوٹ آیا۔ تھوڑی دیر بعد لانبا آدمی اور اس کے پیچھے شیرپا داخل ہوا۔ میری دھڑکنیں تیزسے تیزتر ہوتی گئیں۔

    لانبے آدمی نے ان چاروں سے باری باری ہینڈ شیک کیا اور آکر میرے روبرو بیٹھ گیا۔ دھیرے سے بایاں ہاتھ صوفے کے بازو پر رکھا اور دھوتی کرتا والے آدمی کی طرف دائیں ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوا، ”مس نینا، یہ ہیں اس علاقے کے ایم ایل اے، شری ہارو مجمدار۔“ اس کے بعد اس نے باری باری تمام لوگوں کا تعارف کرایا، ”یہ ہیں سی بی آئی افسر کلدیپ سنگھ، یہ ہیں ایس ڈی او، شری سمیر ترویدی ؛وہ ہیں چیف جوڈشیئل مجسٹریٹ، شری سنیتی پاکھیرا۔ یہ لوگ Anti Terrorist Advisory Committee کے ممبر ہیں اور یہ ہیں انسپکٹر ٹھنڈوپ شیرپا، یہ سب انسپکٹر جیاتی سین۔“ اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”اور یہ ناچیز احتشام حسن، ڈی سی پی، اسپیشل اسکواڈ۔“ اور پھر ان سبھوں کو مخاطب کر کے کہا، ”اور جناب، یہ ہیں، مس نینا!“

    اس کے بعد انھوں نے میڈم سین سے اشارةً کچھ کہا۔ میڈم سین میز تک گئیں۔ انھوں نے دراز سے ایک پرچی نکال کر میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا، ”مس نینا، کیا یہ ہینڈ رائٹنگ آپ کی ہے؟“

    میں نے پرچی پر نظریں گڑا دیں۔ ہینڈ رائٹنگ تو میری ہی لگ رہی تھی۔ شاید وہ خط تھا جو میں نے مرلی کو لکھا تھا۔ لیکن کب لکھا تھا کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔

    میں ذہن جھٹکنے لگی۔ شعور لاشعور کا سمندر کھنگالنے لگی۔

    ویسے بھی میرے اور مرلی کے درمیان خط و کتابت کی نوبت کم ہی آتی تھی۔ وہ خط لکھنے میں بخالت کرتا تھا اور کبھی کبھار لکھتا بھی تھا تو دو تین سطروں سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ جو دو چار خط اس نے لکھے تھے، سب کے سب مجھے زبانی یاد تھے۔ اس نے ایک خط میں لکھا تھا،

    ”نینا، تم پہاڑ کی گود سے نکلنے والا شفاف جھرنا ہو۔ اٹھلاتی بل کھاتی ندی ہو تم۔ ندی سے زمین سیراب ہوتی ہے اور تم سے میری زندگی!“

    مرلی کا خط پڑھ کر میں فوراً جواب لکھنے بیٹھ جاتی تھی۔ اس روز بھی بیٹھ گئی تھی۔ کہیں یہ وہی خط تو نہیں؟

    ”مس نینا، بتایئے یہ تحریر آپ کی ہے؟“ حسن صاحب کی آواز سن کر میں تصور کی دنیا سے لوٹ آئی۔ کمرے میں موجود سبھی لوگ مجھے گھور رہے تھے۔ میں نے جھجکتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ دیکھا، ہاں وہی خط ہے۔ میں من ہی من پڑھنے لگی،

    ”ہاں میں ایک ندی ہوں۔ لیکن ندی تو ساگر میں جا ملتی ہے۔ تم ساگر ہو۔ میں تم میں مل کر اپنا سب کچھ ارپت کر دینا چاہتی ہوں۔۔۔“

    ”مس نینا، آپ چپ کیوں ہیں؟ بتایئے یہ خط آپ نے لکھا ہے؟“ حسن صاحب نے اپنا سوال دہرایا۔

    میں نے اثبات میں گردن ہلا دی اور پھر دھیرے سے پوچھ لیا، ”لیکن وہ ہے کہاں؟“

    یہ پوچھتے ہی کمرے میں سناٹا چھا گیا۔ جیسے، سبھوں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ سب ایک دوسرے کو خالی خالی نگاہوں سے گھورنے لگے۔ میں باری باری سب کا چہرہ تکنے لگی۔ عجب سی گھٹن محسوس ہونے لگی اور اس سے پہلے کہ میرا دم گھٹ جاتا ترویدی صاحب نے خاموشی توڑی، ”اچھا، مس نینا، مرلی کے سمبندھ میں آپ کیا جانتی ہیں؟“

    ”آپ لوگوں نے تو یہ خط پڑھ ہی لیا ہے۔ پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟“

    اس بار سی بی آئی افسر، کلدیپ سنگھ نے مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہا، ”مس نینا، آپ جسے پیار کرتی تھی وہ کوئی ہیرو ویرو نہیں تھا۔ بزدل قاتل تھا وہ۔ چھپ چھپ کے وار کرنا اس کا پیشہ تھا۔“

    لفظ 'تھا' سن کر میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ میں رونی صورت بنا کر چیخی، ”تھا مطلب!“

    ”وہ پولس مڈبھیڑ میں مارا گیا ہے۔“ مجسٹریٹ، شری سنیتی پاکھیرا نے نرمی سے جواب دیا۔

    ”پولس مڈبھیڑ میں!“ میرا حلق سوکھنے لگا۔

    ”ہاں پولس مڈبھیڑ میں۔ وہ غریب کسانوں پر اتیہ چار کیا کرتا تھا۔ ان کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیتا تھا۔ انھیں ان کے مولک ادھیکارسے ونچت کرکے، ان پر اپنا پربھاؤ ڈالتا تھا۔ انھیں اپنے وش میں کرنا چاہتا تھا۔

    ”نہیں نہیں، وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ وہ تو غریبوں کا ہمدرد تھا۔ کسانوں، مزدوروں کا دوست تھا۔۔۔“

    اتنا سننا تھا کہ ایم ایل اے، ہارو مجمدار کا چہرہ تمتما اٹھا۔ جھنجلا کر کہنے لگے، ”ہونہہ، وہ غریبوں کا ہمدرد تھا۔ کسانوں مزدوروں کا دوست تھا اور ہم کیا ہیں؟ کسان مزدوروں کے دشمن؟ ہمیں غریبوں سے ہمدردی نہیں؟“ اور پھر تھوڑے سے توقف کے بعد اپنے آپ پر قابو پا کر بولے، ”دیکھو، بیٹی، تم تو جانتی ہو۔ آج Production اور Mode of Production کا Concept کتنا بدل چکا ہے۔ اب مزدور آگ کی بھٹی کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا خون پانی نہیں کرتے۔ خطر ناک مشینوں پر کام کر کے جان نہیں گنواتے۔ بلکہ ائیرکنڈیشن کمرے میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر اتپادن کرتے ہیں۔ جو لوگ محنت کے بدلتے ہوئے Concept ہی سے واقف نہیں وہ مزدور اور کسانوں کی بھلائی کیا کریں گے۔“

    ”مس نینا، ایم ایل اے صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ نے اسے پہچانا نہیں۔“ حسن صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ”وہ ہماری طرح گوشت پوست کا انسان نہیں۔ Terror تھا وہ۔‘‘

    ایسے الفاظ استعمال کرنے کے باوجود حسن صاحب کے لہجے میں میرے لیے ہمدردی کا شائبہ صاف جھلک رہا تھا۔ ایسا ہی شائبہ پرابی کی باتوں میں بھی جھلکتا ہے۔ جب میں مرلی کے اندر بدلاؤ کا تذکرہ کرتی تو وہ مجھے سمجھاتی ہے، ”دیکھ نینا، ایسے لوگ ہماری طرح ہاڑ ماس کے انسان نہیں ہوتے۔ ایک ازم بن جاتے ہیں۔ تمام رشتوں سے بالاتر۔ تمام بندشوں سے آزاد۔“

    میں پیشانی پر بل ڈالے اس کی باتیں سنتی رہتی۔ اس کی آنکھوں کے سرخ ڈوروں کو تکتی رہتی۔ وہ کہتی جاتی، ”نینا، ایسے لوگ کسی کے ہاتھ نہیں آتے، سایہ بن کر اندھیرے میں گم ہو جاتے ہیں۔“

    اور تب حسن صاحب نے مجھے سمجھایا، ”مس نینا، چلئے اچھا ہوا، اس سائے سے آپ کا پیچھا چھوٹ گیا، نہیں تو آپ بھی کسی بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں۔“

    ”صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں، مس نینا!“ کلدیپ سنگھ مسکراتے ہوئے بیچ میں ٹپک پڑے، ”بائی دی وے، اگر آپ چاہے تو ہم آپ کی سہیلی، کیا نام ہے۔۔۔؟ ہاں، مس پرابی، اسے اطلاع کر دیں کہ آپ یہاں ہیں؟ پولس چوکی میں۔ لوٹنے میں دیر ہوگی۔“

    میں نے حیرت سے پوچھا، ”کیا! آپ پرابی کو جانتے ہیں!“

    سنگھ صاحب بڑا سا منہ بنا کر بولے، ”جاننا پڑتا ہے، بھئی۔ آخر پولس والے جو ٹھہرے! آپ کے ماں باپ، بھائی بہن، مکان، گاؤں، ضلع، تمام چیزوں کی تفصیل ہے ہمارے پاس۔۔۔!“

    حسن صاحب نے مداخلت کی، ”گھبرایئے نہیں، ہم پرابی کو منع کر دیں گے کہ وہ کسی سے کچھ نہ کہے۔ آپ نے ہمارے ساتھ اتنا تعاون کیا ہے اگر۔۔۔“

    ”اگر کیا؟“ میں نے تعجب سے پوچھا۔

    ”اگر اپنا موبائل دیں، تو۔ یو، نو روٹین انکوائری۔۔۔“ حسن صاحب نے نرمی سے کہا۔

    اور پھر مجھ سے موبائل لے کر انھوں نے شیرپا کے حوالے کیا اور کہا، ”چیک کروا کے رپورٹ لاؤ، فوراً۔“ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے، ”در اصل معاملہ بڑا گمبھیر ہے، مس نینا۔ گزشتہ ہفتے پنچم تلہ کے پاس مسافروں سے بھری ایک بس کو بم سے اڑا ڈالا۔ اٹھارہ لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ چھ اسکولی بچے بھی تھے۔ گیارہ لوگ اسپتال میں ہیں، پانچ کی حالت تشویش ناک ہے۔

    ”لیکن آپ یہ مجھے کیوں سنا رہے ہیں۔ ایسی خبریں تو آئے دن اخباروں میں چھپتی رہتی ہیں۔ سبھی پڑھتے ہیں۔“ میں نے اوب کر کہا۔

    ”سنانے کی ضرورت ہے، مس نینا۔ ”حسن صاحب کے لہجے میں تھوڑی سی تلخی آ گئی تھی، ”کل رات انھوں نے گھمٹال گاؤں میں دھاوا بول دیا۔ غریب گاؤں والوں کو گاؤں سے کھدیڑ کر ان کی زمینوں اور مکانوں پر قبضہ کرنا چاہا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم پر گولی باری شروع کر دی۔ دونوں طرف سے گھنٹوں فائرنگ ہوتی رہی۔ تین لوگ مارے گئے۔ ہمارا ایک سپاہی بھی شہید ہو گیا۔ کئی زخمی ہو گئے۔ میں بھی بال بال بچ گیا۔ گولی پسلی چھوکر نکل گئی۔ دیکھئے!“ حسن صاحب نے بائیں طرف کی قمیض کا دامن اٹھایا۔ بازو سے پسلی تک پٹی بندھی ہوئی تھی۔

    اس کے بعد حسن صاحب نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا، ”آیئے، مس کرن، ہمارے ساتھ آیئے۔“

    کمرے میں موجود سبھی لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ مجھے پیچھے والے کمرے میں لے گئے۔ میز پر دو لاشیں پڑی تھیں۔ پہلی لاش کے چہرے سے کپڑا سرکاتے ہو ئے حسن صاحب نے پوچھا، ”اسے پہچانتی ہیں؟“

    میرا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے، ہونٹ پر ہونٹ دباکر نفی میں سر ہلا دیا۔

    اس کے بعد حسن صاحب نے دوسری لاش پر سے کپڑا ہٹایا۔

    میں تڑپ اٹھی، دما غ سن سے ہو گیا۔ نظروں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔

    اور جب ہوش آیا تو میں نے خود کو صوفے پر پڑا ہوا پایا۔ میڈم سین میرا سر سہلا رہی تھیں۔

    حسن صاحب نرم لہجے میں بولے، ”مس نینا، آپ کا وہ خط اسی لاش کی جیب سے برآمد ہوا ہے۔ ”انھوں نے چمڑے کا ایک کا لا بٹوا میرے سامنے اچھا لا، ”اس بٹوئے میں تھا۔“

    میں نے آنکھوں پر ہتھیلیاں پھیرتے ہوئے پوچھا، ”کیا آپ مجھے یہ بٹوا دے سکتے ہیں؟“

    ”نہیں۔ قانونی معاملہ ہے۔“ حسن صاحب نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

    اس کے بعد حسن صاحب کا چہرہ میری نگاہوں میں دھندلاتا چلا گیا۔

    اور تب ایم ایل اے ہارو مجمدار کی آواز آئی، ”مس نینا، آپ کس کی خاطر رو رہی ہیں؟ اس اپرادھی کی خاطر؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہئے۔ اس سے آپ کا پیچھا چھوٹا۔“

    میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مجمدار صاحب نے کہا، ”ٹھیک ہے، رو لیجئے۔ من ہلکا ہو جائےگا۔“ اور پھر حسن صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ”رات زیادہ ہوگئی ہے، ہم چلتے ہیں۔ رپورٹ تیار کر کے بھیجوا دیجئےگا، ہم دستخط کر دیں گے۔“

    اور پھر وہ سب حسن صاحب کو ’گڈ نائٹ‘ کہہ کر چلے گئے۔

    میں آنسو پونچھنے لگی۔ حسن صاحب میرے سر پر ہاتھ پھیر کر مجھے تسلی دینے لگے۔ انسپکٹر شیرپا کمرے میں داخل ہوئے۔ حسن صاحب کو میرا موبائل تھما کر ان کے کان میں دھیرے سے کچھ کہا۔

    حسن صاحب نے مجھے موبائل لوٹا کر کہا، ”مس نینا چلئے، آپ کو ہوسٹل تک چھوڑ دوں۔“

    (پانچ)

    رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ گرمی کی تپش کم ہو گئی تھی۔ شہر کے شمال میں پہاڑی سلسلہ ہے۔ اب وہاں سے فرحت بخش ہوائیں آنے لگی تھیں۔ جب آسمان پر چاند پورے آب و تاب سے چمکتا ہے تو پہاڑی سلسلہ گہرے نیلے رنگ کی چادر میں لپٹ جاتا ہے۔ اونچے گھنے پیڑوں کی جھنڈ سے چھن چھن کر آنے والی چاندنی زمین پر روشنی کے خوشنما دھبے پھیلا دیتی ہے۔ میں افسردہ حال، چاند پر نظریں ٹکائے، حسن صاحب کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ چاندنی میں ڈوبا ہوا اس شہر کا منظر بڑا دلکش ہوتا ہے۔ لیکن اس کی دلکشی اب میرے لیے بےمعنی ہو چکی تھی۔

    گاڑی سنسان سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی ہے۔ حسن صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھے سگریٹ کا کش لے رہے ہیں۔ میں پچھلی سیٹ پر بیٹھی سسکیاں دابے سوچ رہی تھی، ”ہوسٹل میں سبھی جاگ رہے ہوں گے۔ بستر پر اوندھے پڑے میرے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کر رہے ہوں گے، ”اچھا ہوا مرلی مارا گیا۔ دہشت گردوں کا یہی انجام ہونا چاہئے۔ مرلی دہشت گرد تھا۔ نینا دہشت گرد ہے۔ دہشت گردوں کے لیے ہمارے سماج میں کوئی جگہ نہیں۔ اسے ہوسٹل سے نکال دو۔ یونیورسٹی سے نکال دو۔۔۔“

    (چھ)

    گاڑی ایک جھٹکے سے ہوسٹل کے پھاٹک پر آ رکی۔ میں گاڑی سے اتری۔ حسن صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ ہاتھ ہلاکر انھیں الوداع کہا۔ انھوں نے بھی مسکراتے ہوئے جواباً ہاتھ ہلا دیا۔ اس کے بعد گاڑی اپنے پیچھے دھواں چھوڑتی ہوئی چلی گئی۔

    گاڑی کی آواز سن کر آس پاس کی کھڑکیاں کھل گئی تھیں۔ پرابی بال بکھیرے کان سے موبائل سٹائے پھاٹک کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اسے دیکھتے ہی میری آنکھیں چھلک اٹھیں۔ میں لپک کر اس کے سینے سے لگ گئی۔ روتے ہوئے بولی، ”پرابی، سب ختم ہو گیا! سب کچھ۔۔۔!“

    تھوڑی دیر میں پرابی سے لپٹی روتی رہی۔ وہ بےحس و حرکت کھڑی رہی اور تبھی اچانک میرا موبائل بج اٹھا! اسکرین پر ایک اجنبی نمبر نمودار ہو رہا تھا۔

    میں نے فون کان سے لگایا۔ ایک جانی پہچانی آواز سن کر چونک پڑی، ”مس نینا، وہ بس ہم نے نہیں اڑائی! نہ ہم نے غریب گاؤں والوں کو کھدیڑا ہے۔ ہم ایسے گھناؤنے کام نہیں کرتے۔۔۔!“

    میرے اوسان خطا ہو گئے۔ زبان سے بےساختہ نکل پڑا، ”تو کیا پولس چوکی میں بھی۔۔۔ کوئی نوکیلے دانت والا۔۔۔!“

    میں اب بھی پرابی سے لپٹی ہوئی تھی کہ اچانک مجھے اپنی گردن پر چبھن سی محسوس ہوئی!

    میں نے ہولے سے اس کو جھٹکا دیا اور ٹھٹک کر پیچھے ہٹ گئی!

    خوف و تحیر سے کانپنے لگی!

    پرابی سامنے کھڑی قہقہہ لگا رہی تھی!

    آس پاس کی کھڑکیوں سے بھی بہت سارے نوکیلے دانت جھانک رہے تھے!

    (ترکش، کولکاتا، ٢٠١١ء)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے