- کتاب فہرست 187236
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1947
طب894 تحریکات294 ناول4552 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی12
- اشاریہ5
- اشعار64
- دیوان1444
- دوہا64
- رزمیہ108
- شرح192
- گیت83
- غزل1138
- ہائیکو12
- حمد44
- مزاحیہ36
- انتخاب1559
- کہہ مکرنی6
- کلیات685
- ماہیہ19
- مجموعہ4954
- مرثیہ377
- مثنوی824
- مسدس58
- نعت542
- نظم1221
- دیگر68
- پہیلی16
- قصیدہ186
- قوالی19
- قطعہ61
- رباعی294
- مخمس17
- ریختی13
- باقیات27
- سلام33
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی29
- ترجمہ73
- واسوخت26
شبیر احمد کے افسانے
پاروتی سے پارو تک
جنگلی بھینسا ڈکرایا۔ زور سے زمین پر پاؤں مار کر خاک اڑائی۔ لیکن وہ ڈری نہیں۔ ڈرتی کیسے، وہ کوئی معمولی عورت نہیں۔ کالے پہاڑ جیسا وہ وحشی بھی معمولی بھینسا نہیں۔ سینگ کی نوک سے دنیا کو زیر و زبر کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ تمام توانائی سمیٹ کر اس کی طرف لپکا۔
انفکشن
روزانہ کی طرح آج بھی پروفیسر گھوش رینگتے ہوئے آئے۔ چشمہ اتار کر میز پر رکھا۔ دھوتی کے کونچے سے پیشانی اور چہرے کا پسینہ پونچھا۔ کرسی پکڑ کر دو چار لمبی لمبی سانسیں بھریں۔ چاک اٹھا کر کلاس میں موجود طالب علموں پر ایک سرسری نگاہ دوڑائی۔ بلیک بورڈ پر آج
ڈوبتے سورج کا منظر
جب پو پھٹتی اور پرندے چہچہاتے ہوئے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکلنے لگتے، تو وہ دونوں بھی اپنے اپنے گھروں سے نکل پڑتے۔ بوڑھا لنگی گنجی پہنے، کندھے سے گمچھا لٹکائے، ایک ہاتھ میں کھرپی اور دوسرے میں داؤ اٹھائے! بڑھیا بدن پر سفید ساڑی لپیٹے، ایک ہاتھ میں بکری
کنگن
اس نے دروازے پر لٹکتے کڑوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔ پھر ڈور بیل کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ ویسے بھی اب کنڈیاں کھڑکانے کا دور کہاں رہا؟ کڑے کھنکانے اور ان سے جھول جانے کا زمانہ تو وہ بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ وہ توان کڑوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا۔ مگر
پنر جنم
دفتر میں داخل ہوتے ہی میں لمحہ بھر کے لیے ٹھٹکا۔ اروپ چٹرجی سامنے کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھے تھے۔ جب میں ان کے قریب سے گزرا تو انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ ہڑبڑاکر کھڑے ہوتے ہوئے زور سے کہا، ”نمسکار، سر!“ مجھے ان کی یہ حرکت خلاف معمول لگی۔ تجسس بھرے
مد و جزر
رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ میں بستر پر اوندھی پڑی تھی۔ میوزک سسٹم اَن تھا۔ ہلکی ہلکی موسیقی کی لے پر میرے پیر تھرک رہے تھے، پر دل میں ٹیس اب بھی باقی تھی! حالانکہ ہفتے بھر کا وقفہ گزر چکا تھا۔ اس درمیان وہ کئی فون کر چکا تھا۔ اپنی غلطی کا اعتراف کر چکا تھا۔
بسرجن
وہ پارک میں بیٹھا مونگ پھلی چبا رہا تھا! انگلیوں کی انگوٹھیاں نچا رہا تھا! انٹریو دینے جب کبھی کلکتہ آتا تو شام کو اس پبلک پارک میں چلا آتا اور باؤنڈری وال پر بیٹھ کر ہوڑہ پل، ودّیا ساگر سیتو، آتی جاتی کشتیوں اور لہروں کو تکتا رہتا۔ کبھی لمبی لمبی
وینٹی لیٹر
اب انھوں نے یہی طریقہ اپنا رکھا تھا۔ دامن پسار کر ہاتھوں کو یوں پھیلا دیتیں جیسے نیچے کوئی چراغ دھرا ہو اور وہ آنچل کو فانوس بناکر اس کی حفاظت کر رہی ہوں۔ پچھلے تین ماہ سے یہی کر رہی تھیں۔ نماز پوری کرکے اسی طرح ہاتھ اوپر کرتیں آنچل کا فانوس بناتیں اور
join rekhta family!
-
ادب اطفال1947
-