Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتقام محبت

کوثر چاند پوری

انتقام محبت

کوثر چاند پوری

MORE BYکوثر چاند پوری

    (۱)

    جمیل کی عمر ابھی چودہ سال سے متجاوز نہ ہوئی تھی لیکن اس کے خیال میں جس قدر بلندی اور ارادوں میں جس درجہ رفعت تھی اس کا اندازہ مشکل سے ہو سکتا ہے۔ جمیل جس قدر حسین اور خوش اندام تھا اس سے کہیں زیادہ متین و سنجیدہ۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے اعماق قلب اور منافذ دماغ میں ایسا خون گردش کر رہا ہے جو محض عزم و ارادہ کی غیرفانی قوتوں سے مرکب ہے۔

    جمیل کی تعلیم و تربیت اس کے ماموں ’’شوکت‘‘ کے زیرسایہ نہایت اعلیٰ پیمانہ پر ہوئی تھی۔ وہ اسی سال انٹرنس پاس کرکے ایف۔ اے کے سال اول میں آیا تھا۔

    جمیل کے ماں باپ کا انتقال ہو چکا تھا اور اسی وجہ سے وہ شوکت کی سرپرستی میں پرورش پا رہا تھا۔ اگرچہ اس کے مصارف کا بار شوکت پر نہ تھا کیونکہ اس کے باپ نے نقد سرمایہ کے علاوہ نہایت معقول آمدنی کی صحرائی جائداد چھوڑی تھی جو وقف ’’علی الاولاد‘‘ تھی، تاہم اس کے ہر قسم کے انتظامات اور مصارف فی الجملہ شوکت کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے تھے اور جائداد موقوفہ کا انتظام بھی شوکت ہی کے سپرد تھا۔ شوکت کو جمیل کے ساتھ غیرمعمولی محبت تھی۔ کیونکہ اول تو جمیل شوکت کا حقیقی بھانجہ تھا۔ دوسرے جمیل کی والدہ اپنی زندگی میں طے کر گئی تھیں کہ شوکت کی لڑکی ’’انیسہ‘‘ جمیل کے ساتھ منسوب ہو۔ اس نسبت وابستگی نے شوکت کو جمیل کی طرف اس لیے بھی زیادہ متوجہ کر دیا تھا کہ اس کے انیسہ کے علاوہ کوئی اولاد نہ تھی اور وہ جس قدر انیسہ سے مانوس تھا، اس سے کئی درجہ بڑھ کر جمیل سے ملتفت۔

    جمیل کو حسن و عشق کے ساتھ ایک طبعی تعلق تھا اور وہ ان معاملات میں بےانتہا دلچسپی لیتا تھا لیکن اس معاملہ خاص میں بھی وہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرح بےاصول نہ تھا۔ اس کا قول تھا کہ عشق ہوتا نہیں ہے بلکہ کیا جاتا ہے اور جس طرح عام لوگوں نے اس کو اضطراری اور غیر اختیاری جذبہ سمجھ رکھا ہے، یہ دراصل ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک نہایت کیف انگیز اور اختیاری کیفیت ہے جو اپنی حلاوت کی وجہ سے انسان کو رفتہ رفتہ اپنی طرف کھینچتی ہے اور چونکہ انسان کے قلب و دماغ کو اس سے خاص قسم کا حظ حاصل ہوتا ہے، اس لیے وہ خود بھی اس طرف کھنچ جانا چاہتا ہے۔ بالآخر یہ کشش پنہاں اور شعلۂ نامعلوم ایک وقت اس درجہ پائدار اور مستحکم ہو جاتا ہے کہ اس کا انغکاک ناممکن ہوتا ہے اور پھر اس کے خلاف جانا انسانی قوتوں سے باہر ہو جاتا ہے۔

    (۲)

    ’’انیسہ‘‘ کی عمر تقریباً تیرہ سال کی تھی اور وہ بے انتہا حسین و جمیل واقع ہوئی تھی۔ حسن و جمال کے ساتھ ہی قدرت نے اسے ایک سلیقہ شعار طبیعت اور پاکیزہ دماغ بھی عطا فرمایا تھا، جس کے حیرت انگیز آثار اسی عمر سے عالم ظہور میں آنے لگے تھے۔ خصوصیات نوشت و خواند میں وہ ایک عالی دماغ انشا پرداز کی حیثیت رکھتی تھی اور زندگی کے تمام تر ضروریات سے وہ کلیتہً باخبر تھی۔ وہ ایک مکمل عورت تھی اور اس نے مطالعہ فطرت سے زندگی کے اہم ترین مقصد ’’ترصیع معاشرت‘‘ سے کافی سے زیادہ وقوف حاصل کر لیا تھا۔ جب کبھی گھر کی عورتوں میں کوئی مذہبی مسئلہ چھڑ جاتا اور وہ اس کے متعلق اپنی معلومات کا اظہار کرتی تو سننے والوں کو حیرت ہوتی اور بلامبالغہ یہ معلوم ہوتا کہ کوئی فارغ التحصیل مولوی زنانہ لباس میں ایک دوشیزہ کی زبان سے بول رہا ہے۔

    ان تمام باتوں کے باوجود وہ پردہ نشیں، عصمت مآب دوشیزہ تھی۔ اس کی آواز اس قدر نرم اور نازک تھی کہ قریب ڈیوڑھی پر رہنے والے ملازمین بھی نہ سن سکتے تھے۔

    جمیل کے ساتھ انیسہ کو محبت تو ضرور تھی لیکن اس محبت کا احساس اس کے دماغ میں کسی خاص صورت میں نہ تھا۔ جمیل بھی پہلے پہلے تو انیسہ کو صرف اسی نظر سے دیکھتا رہا کہ وہ میری ’’منگیتر‘‘ ہے لیکن بعد کو جب دفعتاً انیسہ کو رسمی پردہ کا پابند کر دیا گیا اور جمیل اپنی ظاہری آنکھوں سے اسے نہ دیکھ سکا تو وہ سمجھا کہ انیسہ کے ساتھ واقعی اسے محبت ہے اور ایسی محبت کہ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے مصائب فرقت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ابھی تک اس کی تمام تر توجہ اپنی تعلیم کی طرف تھی اور وہ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ تعلیمی مشاغل میں مصروف تھا۔

    اس کا دستور تھا کہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب گھر آتا تو ایک گھنٹہ پابندی کے ساتھ انیسہ کی تعلیم میں صرف کرتا اور یہی وہ وقت تھا جو اس کے دماغی کوفت دور کرنے کے لیے ہر قسم کی سیر و تفریح سے زائد پرلطف اور کیف انگیز تھا لیکن اب جب کہ اس کو یہ موقعہ حاصل نہیں ہے، انیسہ کے صحیفہ رخ کا مطالعہ اس کے لیے دشوار ہے تو اس کی توجہات کا منتشر اور دماغی سکون کا برباد ہو جانا بالکل قدرتی امر تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غم و افسوس کی بڑھتی ہوئی بیماری نے اس کی صحت کو پامال کرنا شروع کر دیا اور وہ غنچہ نوشگفتہ کی طرح پژمردہ نظر آنے لگا۔ ان حالات کی موجودگی میں رفتار تعلیم کی تیزی میں سستی پیدا ہو جانا ضروری تھا۔ رفتہ رفتہ اس کا احساس بھی ہونے لگا۔

    شوکت کی حساس طبیعت نے اگرچہ جمیل کی تندرستی کے انحطاط کا سبب معلوم کرنے میں غلطی کی یعنی اس کی ساری ذمہ داری کو آگرہ کی خرابی آب و ہوا کے سر رکھا، تاہم اس نے اس باب میں کوئی تاخیر روانہ رکھی۔ اس نے جمیل کو آگرے سے فوراً علی گڑھ بھیجنا مناسب سمجھا، تاکہ کچھ تو وہاں کی صاف و پاکیزہ ہوا سے اور کچھ وہاں کی روح افزا سوسائٹیوں کی دلچسپ صحبتوں سے اس کے جسم میں صحت و تندرستی کا خون پیدا ہوسکے۔

    ایک روز جب کہ جمیل نہایت حزن و ملال کے عالم میں کالج سے واپس آیا تو شوکت نے اپنی اس تجویز کو، جواب تک اس کے ذہن میں محفوظ تھی، جمیل کے سامنے اس طرح ظاہر کیا،

    شوکت۔ جمیل! میں کئی دن کے غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہاں کی آب وہوا تمہارے مزاج کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری صورت بیماروں کی سی ہوتی جاتی ہے۔ اس حال میں بہتر ہے کہ میں فوراً تبدیل آب و ہوا کے لیے تمہیں ’’علی گڑھ کالج‘‘ میں داخل کرا دوں۔ اس میں دو فائدے ہیں، ایک تو وہاں کا قیام امید ہے تمہاری صحت کو درست کرےگا۔ دوسرے یہاں اور وہاں کی تعلیم میں فرق ہے اور مجھے مسرت ہے کہ اس حیلہ سے تم ارض ہند کی ایک بہترین درس گاہ سے استفادہ کر سکوگے۔

    جمیل۔ ماموں جان آگرے کی آب و ہوا میرے واسطے کوئی نیا اثر نہیں ہے۔ یہ محص اتفاق ہے کہ امسال میری صحت کچھ خراب ہو گئی۔ لیکن صرف اس بناپر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ آگرے کی آب و ہوا کا قصور ہے۔ کیا علی گڑھ میں لوگ بیمار نہیں ہوتے؟ رہا تعلیم کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ کسی کالج یا اسکول کی ظاہری شان و شوکت اور اس کی پرشکوہ عمارت انسان کو قابل نہیں بنا سکتی بلکہ جو چیز اس کو اور اس کی ترقی کے سوتے ہوئے جذبات کو بیدار کرتی ہے وہ خود اس کا ذاتی جوہر ہے، جو ہر جگہ چمک اٹھتا ہے، بشرطیکہ جس ماحول میں اس کی آنکھ کھلے وہ تاریک نہ ہو۔

    اور جس وقت ایک جوہر قابل کسی درس گاہ سے فارغ ہوکر نکلتا ہے اس کے دامنوں میں بجائے اس کے کہ درس گاہ کی پختہ اینٹیں اور سفید چمکدار چونا ہو، اس کی قابلیت کے وہ درخشندہ نقوش ہوتے ہیں جو درسگاہ کے زمانہ قیام میں اس نے اپنے قلب و دماغ میں مرتسم کر لیے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو درسگاہوں کے باہمی تفاوت کو، جو صرف سطحی ہوتا ہے بالکل اٹھا دیتی ہے۔ یہ میرا خیال ہے جو میں نے واضح کرکے بیان کیا ہے۔ اگر آپ نے نزدیک وہاں کی تعلیم بہتر ہے اور میرا وہاں جانا بھی ضروری ہے تومیں ہر حال میں تعمیل حکم کے لیے آمادہ ہوں۔

    شوکت۔ تمہیں پر موقوف نہیں اس سال میں دیکھتا ہوں یہاں کی عام حالت یہی ہے۔ شاید بارش کی کثرت سے ہوا میں کچھ فتور آ گیا ہو۔ بہر حال تم اسی ہفتہ میں علی گڑھ جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

    (۳)

    جمیل کو علی گڑھ آئے ہوئے چار سال گزر گئے ہیں۔ اس عرصہ میں وہ کئی بار آگرہ جا چکا ہے لیکن آگرے کی زندگی سے اب اس کی کوئی دلچسپی وابستہ نہیں رہی۔ جب تک جمیل وہاں رہتا ہے، اس کے دل کی جراحتیں تازہ رہتی ہیں کیونکہ اب اس کو آگرے میں انیسہ کے سامنے نہ آنے کی ہی اذیت نہیں ہوتی بلکہ ایک سخت اور جان ستاں صدمہ سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے، اس لیے کہ اس دوران میں اس کے خانگی معاملات کے اندر چند انقلاب ہو چکے ہیں۔ ایک بڑا انقلاب تو یہ ہے کہ انیسہ کی والدہ ’’رقیہ‘‘ جمیل اور انیسہ کے رشتہ کی مخالف ہو گئی ہیں اور چاہتی ہیں کہ انیسہ کو اپنے بھائی کے لڑکے ’’خورشید‘‘ سے جلد تر وابستہ کر دیں۔

    اگرچہ شوکت کچھ دنوں بیوی کے اس خیال سے متفق نہ ہوئے لیکن رقیہ کے شب و روز کے اصرار اور وقت بےوقت کی گریہ و زاری نے اب ان کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔ یہ انقلاب ایسا نہ تھا جو جمیل کے نظام حواس میں بے چینی کا تلاطم پیدا نہ کر دیتا۔ اس سال بی۔ اے۔ پاس کرنے کے بعد جمیل گھر گیا تو خورشید سے ملاقات ہوئی جو بصرے سے حال ہی میں واپس آیا تھا۔ اس نے د یکھا کہ معمول کے خلاف انیسہ کو خورشید کے سامنے لانے سے احتراز کیا جاتا ہے۔ بس یہیں سے اس کے دل میں جاں گداز خلش پیدا ہو گئی اور اس نے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی زیادہ کوشش کی۔ لیکن کسی طرح وہ اس راز کو نہ سمجھ سکا۔ آخر مجبور ہوکر اس نے انیسہ کو خط لکھا۔

    ’’کیا تم مجھے بتا سکوگی کہ خورشید سے پردہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ تم تو عرصہ سے اس کے آنے کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ اب خدا خدا کرکے وہ بخیریت واپس آئے تو تم یوں منہ چھپاکر بیٹھ رہیں، میرا دل تم سے یہ سوال کرتے ہوئے دھڑکتا ہے۔ خدا کرے تم کوئی ایسا جواب نہ دو جو مجھے مایوس کر دے۔ تمہارا جمیل۔‘‘

    انیسہ کو معلوم تھا کہ اسے خورشید کے سامنے آنے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی وہ پرانی آرزو اب پوری نہ ہوسکے گی جو اکثر تاریک اورخاموش راتوں میں اس کے حریم قلب میں پیدا ہوکر دوران خون کو تیز کر دیا کرتی تھی اور جب وہ چپکے چپکے ’’جمیل‘‘ کے نام کی پرلطف تکرار کرکے خود بہ خود شرما جایا کرتی تھی۔ اس کی ساری امیدیں اور تمنائیں چونکہ مدت کے ارتباط اور ہم نشینی نے جمیل کی ذات سے وابستہ کر دی تھیں، ایک دم ان سب کا خون ہو جانا انیسہ کو بہت ناگوار تھا اور اپنی زندگی کے منتحب شدہ جدید فرماں روا ’’خورشید‘‘ میں بےانتہا تلاش کے بعد بھی اسے کوئی ایسی بات نہ ملتی تھی جس کی وجہ سے وہ اس کو ’’جمیل‘‘ پر ترجیح دے سکتی۔

    اول تو خورشید کوئی زیادہ پڑھا لکھا نہ تھا، دوسرے حد درجہ مغرور اور خودپسند تھا۔ غرض اس کی صورت اور سیرت میں کوئی ایسی دل فریبی نہ تھی جو ایک ذی حس اور جذبات الفت سے آشنا طبیعت کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی۔ جب سے گھر میں یہ مشورے شروع ہوئے کہ انیسہ خورشید سے منسلک کر دی جائے، وہ ایک روح فرسا مصیبت میں مبتلا ہو گئی اور خود جمیل سے گفتگو کرنے کا موقع تلاش کر رہی تھی۔ چنانچہ جس وقت جمیل کا خط اس کے پاس پہنچا، اس کا دل اچھلنے لگا، دماغ میں فرحت انگیز انبساط کی لہر سرعت برق کے ساتھ دوڑ گئی۔ لیکن پڑھتے پڑھتے جب وہ خط کے اس جملہ پر پہنچی، ’’خدا کرے تم کوئی ایسا جواب نہ دو جو مجھے مایوس کر دے۔‘‘ تو اس کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو ٹپک پڑے اور خط ہاتھوں سے چھوٹ کر زمین پر گرپڑا۔ تھوڑی دیر کے بعد جذبات گریہ پر قابو حاصل کرکے تاثرات قلب کے سخت جوش اور انتشار میں اس نے یہ تحریر جمیل کے پاس بھیج دی،

    جمیل میاں!

    ’’پردہ کرنے کی علت وہی ہے جس نے آپ کے دل میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اماں جان اپنے بھائی کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی غرض سے اس جدید صورت کو زیادہ پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے اباجان کو بھی مجبور کر لیا ہے۔ اگرچہ میں نہیں کہہ سکتی کہ میری اندھیری زندگی کا یہ خوفناک مستقبل مجھے کیا دکھائےگا اور آپ کی (ایک حد تک) قطعی مفارقت مجھے کس طرح زندہ رہنے دےگی، تاہم جس طرح مشرقی اور خصوصاً ہندوستان کی بے زبان عورتوں کے محسوسات قلب کا احترام کیے بغیر ماں باپ کا جو جی چاہتا ہے، ان کے حق میں کر بیٹھتے ہیں، اسی طرح میرے ساتھ بھی سلوک کیا جائےگا لیکن میں آپ کو شاہد بناکر کہتی ہوں کہ یہ رشتہ میرے دل کے جذبات کی اور غالباً میرے ایمان کی موت ہوگا۔ خدا مجھے اس ہلاکت سے بچائے۔ دل اور جذبات کے مر جانے کی وجہ تو ظاہر ہے، ایمان کی موت کا باعث دل و جان سے شوہر کی خدمت و اطاعت نہ کرنا ہے۔

    آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ خوشی اور مجبوری میں کس قدر فرق ہے۔ یہ تحریر ذرا جسارت کے ساتھ لکھی گئی ہے، جس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ میں نے جینے سے بیزار ہوکر اپنے دل کی حالت صاف صاف لکھ دینا مناسب سمجھی ہے۔ اب کوئی اسے میری شوخ چشمی کہے یا بےحیائی۔ انیسہ۔‘‘

    (۴)

    انیسہ کی شادی خورشید کے ساتھ کر دی گئی ہے اور اس کو ایک سال گزر چکا ہے۔ شوکت شادی کے بعد ذرا پشیمان سے نظر آتے ہیں، کیونکہ شادی سے قبل انہیں ’’جمیل‘‘ کے آبگینہ دل پر اس قدر سخت ٹھیس پہنچنے کا احساس نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جمیل کی نظر میں اس کی زیادہ اہمیت نہ ہوگی۔ اس لیے عورتوں کے شدید تقاضہ اور اصرار سے مجبور ہوکر طوعاً و کرہاً وہ انیسہ کی شادی خورشید کے ساتھ کرنے پر آمادہ ہو گئے اور اس وقت واقعات مابعد پر ان کی نظر نہ پڑسکی۔ لیکن جب وقت گزر گیا اور ان کو اس معاملہ میں جو کچھ کرنا تھا کر چکے تو حالات خودبخود واضح ہوکر سامنے آنے لگے اور ان کو اپنی خطائے عظیم پر متاسف ہونا پڑا۔

    سب سے پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ جمیل کو جس وقت انیسہ کی تاریخ شادی سے مطلع کیا گیا تو اس کی طرف سے قطعاً خاموشی کا اظہار ہوا۔ جب تاریخ شادی بالکل قریب آ گئی تو تار دیے گئے، لیکن پھر بھی جمیل نے سکوت سے کام لیا۔

    شادی بھی ہو گئی اور رفتہ رفتہ ایک سال بھی گزر گیا، لیکن جمیل نے نہ تو شوکت کو کوئی خط لکھا اور نہ خود آگرے کا رخ کیا۔ ان حالات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ جمیل نے شدت افسوس اور فرط غم سے مایوس ہوکر شوکت سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔

    پشیمانی اور ملال کا دوسرا سبب یہ تھا کہ شادی کے بعد انیسہ اور خورشید کے درمیان ناگواری و شکر رنجی کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہو گئی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ خورشید کی جہالت تھی اور اس کا جذبہ خودپسندی۔ شادی کو ہوئے پورے دو مہینہ بھی نہ گزرے تھے کہ اس نے شوکت و رقیہ کے ساتھ بھی بہت برا طرز عمل اختیار کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپس کی کشیدگی بڑھ گئی اور اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ انیسہ کو ماں باپ کی زیارت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ انیسہ کے سامنے شوکت و رقیہ کی برائیاں کی جاتیں ہیں۔ ان کی تہذیب، ان کے طرز معاشرت پر نکتہ چینیاں ہوتی ہیں۔ اول تو انیسہ اکثر مہر بلب ہی رہتی ہے لیکن جب تیروں کی یہ جگر دوز بوچھار ناقابل ضبط ہو جاتی ہے تو اس کی زبان سے بھی کچھ نہ کچھ نکل ہی جاتا ہے، جس پر اسے طرح طرح کی تکالیف میں مبتلا کیا جاتا ہے۔

    جمیل نے بی۔ اے۔ کے بعد وکالت کا امتحان پاس کرکے حیدرآباد میں عملی کام شروع کر دیا ہے، جو تھوڑے ہی عرصہ میں بہت وسیع کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ حیدرآباد کے خاص طبقوں میں جمیل کی عزت و شہرت بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ اس وقت اس کی عمر ۲۶ سال کی ہے اگرچہ جوش شباب اور کمال نشوونما کا وقت ہے لیکن وہ نہایت پاکیزہ طریقہ سے تجرد کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ اکثر احباب نے التجا و تمنا کے ساتھ اس کو اس طرف متوجہ کرنا چاہا مگر اس نے ہمیشہ بیزاری کا اظہار کیا اور اب تو اس باب میں اس نے گفتگو ہی بند کر دی ہے اور اپنے اس ارادے کا اعلان کہ ’’مجھے ہمیشہ تجرد کی زندگی بسر کرنا ہے‘‘ مستقل عزم کے ساتھ کر دیا ہے۔

    اس کے سامنے جب کبھی مسئلہ ازدواج پر بحث کی جاتی ہے تو اس کے اعصاب سخت اذیت کا احساس کرتے ہیں اور کوئی خوفناک تصور اس کے بدن میں لرزہ پیدا کر دیتا ہے۔

    (۴)

    اگرچہ خورشید و انیسہ کی شادی کو تین سال گزر گئے ہیں لیکن بہار و خزاں کے اتنے تغیرات نے بھی کوئی خاص محبت و خوشگواری ان کے دلوں میں پیدا نہیں کی۔ اس عرصہ میں چونکہ خورشید کے جذبات لطیف گھر کی چہار دیواری کے باہر پرستش حسن میں زیادہ مصروف رہے، اس لیے انیسہ کے ساتھ زیادہ بےنیازی کا برتاؤ کیا گیا۔ انیسہ بالخصوص اس وجہ سے زیادہ پریشان ہے کہ ایک مدت سے اس نے ماں باپ کے گھر قدم نہیں رکھا اور نہ اسے اس کی اجازت دی گئی۔ وہ تڑپتی ہے ماں کی صورت دیکھنے کو مگر شوہر کی سرخ آنکھیں اس کی آرزوؤں کا خون کردیتی ہیں۔ وہ ترستی ہے باپ سے ملنے کو لیکن ’’خورشید‘‘ کی بلند اور خشونت آمیز آواز اس کی اس تمنا کا بھی گلا گھونٹ دیتی ہے۔ اس وقت اس کی حالت بالکل دق کے مریض کی سی ہے جو اپنی تمنا کے موافق نہ اچھا ہو سکتا ہے اور نہ مرنے کی خواہش پر اسے موت آ سکتی ہے۔

    ایک روز جب کہ خورشید سیر و تفریح کی نیت سے کہیں گیا ہوا تھا، انیسہ کو اطلاع ملی کہ شوکت ’’اختلاج قلب‘‘ کے شدید دورے میں مبتلا ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اس کے دل کی یہ بڑھی ہوئی حرکت، دائمی سکون میں تبدیل ہو جائے۔ یہ کوئی معمولی بات نہ تھی جسے انیسہ ضبط کرکے بیٹھ رہتی، اس نے فوراً خورشید کی والدہ اور اس کے باپ سے اس حادثہ کا ذکر کرتے ہوئے جانے کی اجازت چاہی لیکن انھوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو پہلے فیصلہ کر چکے ہیں کہ تم صرف اس وقت وہاں جا سکتی ہو جب کسی کا جنازہ تیار ہو اور کوئی میت کفن میں ملبوس ہو۔

    یہ ایسی دل خراش تعزیر تھی جس کو انیسہ نہ سن سکی، اس کا دل بیٹھ گیا اور اعصاب بےکار ہو گئے۔ ابھی وہ اپنے بلا اجازت جانے میں پس و پیش کر رہی تھی کہ اسے شوکت کے انتقال کی خبر بھی مل گئی۔ اب تو اس کے جذبات میں ایک قیامت برپا ہو گئی اور اب کوئی طاقت نہ تھی کہ اسے جانے سے روکتی۔ چنانچہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا وہ ماں کے گھر پہنچی اور شوکت کی نعش سے لپٹ گئی۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بیکسی کے عالم میں اس گھر کو دیکھتی تھی جس میں ہمیشہ مسرت و انبساط کی مطمئن گھڑیاں اس نے گزاری تھیں اور ان پر سرور ساعتوں کا، اس مہیب اور محشر خیز منظر سے مقابلہ کرکے کانپ اٹھتی تھی۔

    ایک طرف شوکت کالا شہ پڑا تھا، دوسری طرف ’’رقیہ‘‘ خاک بسر ہوکر تڑپ رہی تھی اور انیسہ عجب انداز سے اس قیامت کو آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ ابھی یہ مصیبت ختم نہ ہوئی تھی کہ انیسہ کو خورشید کی طرف سے ’’طلاق نامہ‘‘ وصول ہوا۔ جرم صرف یہ تھا کہ بلااجازت کیوں گھر سے قدم نکالا گیا۔ اس وقت انیسہ پر ایک عجیب اور ناقابل اظہار کیفیت طاری تھی۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں، لب ساکن تھے اور بحیثیت مجموعی وہ پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی جو نہ اپنے اختیار سے حرکت کر سکتی ہے نہ اپنے ارادہ سے گفتگو کرنا اس کے امکان میں ہوتا ہے۔

    رقیہ سے انیسہ کی یہ حالت نہ دیکھی گئی تو اس نے حواس ذرا درست کیے اور انیسہ کے پاس آکر اسے صبر وضبط کی تلقین کرنے لگی۔ انیسہ نے اسی درماندگی اور بدحواسی کی حالت میں خاموشی سے خورشید کا وہ پرچہ ’’رقیہ‘‘ کے ہاتھ میں دے دیا، جس کے پڑھتے ہی رقیہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ بیہوش ہوکر زمین پر گرپڑی۔

    (۶)

    ان واقعات کے بعد انیسہ کی متالم زندگی کے سات مہینے ’’بیوہ ماں‘‘ کے ماتم کدے میں اگرچہ بظاہر آرام سے بسر ہوئے لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ انیسہ نے ان ایام میں کبھی ایک منٹ کے لیے بھی حقیقی مسرت کا وہ جوش و خروش اپنے دل میں محسوس کیا ہو جو زمانۂ طفولیت یا عہد دوشیزگی میں اس نے اس گھر کی چہار دیواری میں حاصل تھا۔

    مرنے والے باپ نے اتنا سرمایہ چھوڑا تھا کہ انیسہ ایسی بیس عورتیں شریفانہ انداز سے کئی زندگیاں گزار سکتی تھیں لیکن انیسہ کو دولت کی تلاش نہ تھی۔ وہ روپے کی جھنکار پر کان نہ دھرتی تھی۔ اسے تو اپنے زخمی دل کے لیے اس ’’سنگ جراحت‘‘ کی ضرورت تھی جو عموماً محبت کی جراحتوں کے ’’لب ہائے متفرق‘‘ کو پیوست کرنے میں استعمال ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس کے دل میں زخم تھا محبت کا جواتنی مدت گزر جانے کے بعد بھی بدستور ہرا تھا۔

    اس کے دل کی ہر تڑپ ’’جمیل‘‘ کو پکارتی تھی اور اس کی آنکھ کا ہر قطرہ اشک ’’جمیل‘‘ کے دامن وصل سے لپٹ جانا چاہتا تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ سمجھتی تھی کہ اب مجھے جمیل کو بالکل بھلا دینا پڑےگا اور اپنی اس تمنا کو بھی دل سے نکالنا ہوگا کہ میں کسی طرح جمیل کے کام آ سکتی ہوں۔ واقعات نے اسے اس کا بھی یقین دلا دیا تھا کہ جمیل حیدرآباد کے زمانۂ قیام میں وہاں کی دلچسپیوں کاایسا گرویدہ ہو گیا ہے کہ میری اور وطن کی محبت کا کوئی ذرہ غالباً اس کے بدن میں باقی نہ رہا ہوگا۔ ورنہ پہلے میری شادی، پھر ابا جان کا انتقال ایسی چیز نہ تھیں کہ محبت کا کم سے کم احساس ہونے کی حالت میں بھی اسے گھر تک نہ کھینچ لاتیں۔

    جمیل کو شوکت کے دفعتاً مر جانے کی خبر پہنچی اور ضرور پہنچی اور اس کے اعصاب پر اس کا اثر بھی ضرور ہوا لیکن نہ اتنا کہ وہ اپنے عہد ترک وطن پر نظرثانی کرنے کی گنجائش محسوس کرتا۔ البتہ انیسہ کے مصائب حیات سے وہ مطلقاً بےخبر ہے، ورنہ ممکن نہ تھا کہ اس کے عہد کی استواری تار عنکبوت کی طرح بے حقیقت نہ ہو جاتی۔

    ایک دن بیٹھے بیٹھے انیسہ نے نہ معلوم کیا سوچ کر رقیہ سے جمیل کا تذکرہ کیا۔ جمیل کا نام سنتے ہی رقیہ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور ایک سرد آہ کھینچ کر اس نے کہا،

    رقیہ۔ اگر جمیل پر میں اتنا ظلم نہ کرتی تو شاید میرا گھر اس طرح برباد نہ ہوتا۔

    انیسہ۔ کیسا ظلم؟ اماں جان خدا کے لیے سچ بتاؤ، کیا تم نے بھائی جان کو کوئی تکلیف پہنچائی ہے؟

    رقیہ۔ ہاں میں نے جمیل کو بڑا رنج دیا ہے۔

    انیسہ۔ تو کیا اب وہ نہ آئیں گے۔ کیا آپ انہیں بلانا نہیں چاہتیں؟

    رقیہ۔ زمانہ کی رفتار نے میرے دل میں جمیل کے لیے بہت گنجایش پیدا کر دی ہے لیکن اب اس کی واپسی شاید نہ ہو اور اگر ہو تو خدا جانے کس انداز میں۔

    انیسہ۔ آخر اپنی طرف سے ایک آدھ بار انھیں بلانا تو چاہیے۔

    رقیہ۔ ایک دفعہ نہیں صدہا مرتبہ یہ آرزو کی گئی لیکن حیدرآباد کی زمین نے تو جمیل کے قدم کچھ اس طرح پکڑ لیے ہیں کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ وہ آئیں تو سہی اپنا سامان اور گھر بار ہی ہم سے چھیننے آئیں، ہم تو اس میں بھی خوش ہیں، مگر ذرا صورت تو دکھائیں۔ کمبخت برسیں ہوگئیں صورت دیکھنے کو ترس گئے۔ جس بچہ کو ذرا سا لے کر پرورش کیا اور ہمیشہ آنکھوں کے سامنے رکھا، آج برسوں سے اس کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔

    انیسہ۔ کچھ بھی ہو میں آج اللہ کانام لے کر بھائی جان کو خط لکھتی ہوں، شاید کچھ خیال آ جائے اور چلے آئیں۔

    رقیہ۔ بہتر ہے لکھو، خدا کرے ان کا دل پسیجے۔

    انیسہ نے فوراً کاغذ، قلم لے یہ خط لکھا اور ڈاک میں ڈلوا دیا۔

    ’’بھائی جان! اپنی کنیز کا سلام قبول فرمائیے۔

    آپ کا اقبال بڑھے، عمر اور دولت دوگنی ہو، خدا آپ کا دیدار ہم مصیبت زدوں کو نصیب کرائے۔

    بھائی میاں! اباجان تو گئے ہی تھے لیکن میرا سہاگ بھی ساتھ لے گئے۔ قسمت نے مجھے دونوں ہاتھوں سے لوٹ لیا۔ ایک طرف باپ کو جدا کیا، دوسری طرف دنیا کاعیش آرام چھینا۔ غرض گھر بار اور وہ سب کچھ جو لے دے کے میرے دریدہ دامنوں میں باقی تھا، برباد ہو گیا۔

    عورت کے لیے شوہر کا بڑا سہارا ہوتا ہے، خواہ شوہر کا طرز عمل کیسا ہی ہو لیکن اس تنہا ذات پر عورت کی تمام زندگی کا تکیہ ہوتا ہے۔ افسوس! مجھے اب یہ سہارا بھی میسر نہیں۔ گھر میں اماں ہیں اور میری غم نصیب ذات، باقی اللہ کا نام ہے۔ آپ پر بہت بھروسہ ہے۔ دیکھیے ہماری کشتی حیات کس کنارے لگتی ہے اور زمانہ کی مخالف ہوا اسے کہاں کہاں لیے پھرتی ہے۔ ایسے میں ایک دودن کے لیے آپ آ جاتے تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو ڈھارس ہوتی۔ برباد آرزوئیں مجتمع ہو جاتیں! نادیدہ بھاوج، جن کی وجہ سے شاید آپ کو آنے میں تامل ہے اگر آسکیں تو ضرور لیتے آئیے، ہم بھی دیکھ لیں گے۔‘‘

    راقمہ آپ کی کنیز ’’انیسہ‘‘

    (۷)

    جمعہ کا دن تھا۔ دفاتر تعطیل کی وجہ سے بند تھے۔ جمیل ایک ہفتہ کے شدید انہماک کے بعد تھکے ہوئے دماغ کو آرام پہنچانے کی غرض سے ’’حجرۂ تنہائی‘‘ میں خاموش بیٹھا تھا۔ کبھی شوکت کی مرگ ناگہانی اس کی توجہ کا دامن پکڑ لیتی تھی اور کبھی انیسہ کی تصویر تیر کی طرح دل میں نفوذ کر جاتا تھا۔

    رقیہ کا بھی اسے بہت خیال تھا اور ایک معقول رقم کا ماہوار وظیفہ اس کے واسطے مقرر بھی کر چکا تھا، جس کی پہلی قسط روانہ کر دی گئی تھی لیکن انیسہ کی مصیبتوں سے وہ بالکل بےخبر تھا۔ اسے انیسہ کی اس مصیبت کاعلم نہ تھا جو طلاق کے بعد اس کے سر پر مسلط تھی اور جس میں وہ بری طرح گھلی جا رہی تھی۔

    غور و فکر کے یہ چند لمحے ابھی ختم نہ ہوئے تھے کہ ’’ڈاکیہ‘‘ نے ایک رنگین لفافہ بہت سے خطوں میں ملا ہوا اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس نے سب سے پہلے لفافہ ہی پر نظر کی اور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ لفافہ انیسہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔

    ایک عجیب شوق و اضطراب کے عالم میں لفافہ چاک کرکے پڑھا۔ پڑھتے ہی سیکڑوں بجلیاں یک دم اس کے خرمن عزم و استقلال پر کوند گئیں اور غم و اندوہ کے بےشمار پہاڑ اس کے دل پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے جلد جلد روانگی کا بندوبست کیا اور پہلی گاڑی سے آگرے روانہ ہو گیا۔

    (۸)

    واقعات بدلے، زمانہ نے پلٹا کھایا۔ انیسہ کی قسمت کا ستارہ بہت سی ہستیوں سے ’’انتقام محبت‘‘ لینے کے بعد بام اوج ورفعت پر تیزی سے چمکا اور جمیل نے آگرے پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد ’’رقیہ‘‘ سے انیسہ کے نکاح ثانی کے متعلق گفتگو شروع کر دی اور باوجود بہت سی مخالفتوں کے، جس میں انیسہ کی مخالفت بھی اس عذر کے ساتھ شامل تھی کہ ’’اب میں تمہارے قابل نہیں رہی‘‘ جمیل نے انیسہ کو اپنے نکاح میں لے لیا۔

    یہ واقعہ ’’رقیہ‘‘ کے لیے اس قدر مسرت خیز تھا کہ وہ پچھلے تمام صدموں کو بھول گئی اور انیسہ کی کامرانی پر اس درجہ مسرور ہوئی کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو گئی۔

    ’’جمیل و انیسہ‘‘ اب نشاط و شادمانی کی قابل رشک زندگی بسر کر رہے ہیں۔

    مأخذ:

    دلگداز افسانے (Pg. 106)

    • مصنف: کوثر چاند پوری
      • ناشر: انڈین پریس، لکھنؤ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے