Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اس وقت تو یوں لگتا ہے

جیم عباسی

اس وقت تو یوں لگتا ہے

جیم عباسی

MORE BYجیم عباسی

    سندھ پر گرمی آریائی جنگجوؤں کی طرح حملہ آور ہو چکی تھی۔ میں دوپہر کے کھانے اور قیلولے کا وقفہ لینے اپنے کوارٹر میں آیا تھا مگر گرمی کی شدت مجھے تھر کا تپتا ریگستان محسوس کروا رہی تھی۔ چھت میں لگا پنکھا بھی عیالدار ہاری کی مانند آگ اگلے جا رہا تھا۔ سکون کا ایک پل حرام تھا۔ کوارٹر کا دروازہ کھٹکنے سے ناقابل قبول ماحول کی یکسانیت میں ارتعاش آیا۔ دروازے پر ڈسپنسر رشید تھا۔ وہ ایک مریض کی طبیعت نہ سنبھلنے پر مجھے لینے آیا تھا۔ میرے لیے بھی تنورنما کمرے سے نکلنے کا سبب ہوا۔ میں شکر بجا لاتا دیہی صحت مرکز کی عمارت کی طرف چلنے لگا جو اطراف سے درختوں میں گھری ہوئی، اس جہنم زدہ گرمی میں ایک قابل برداشت جگہ تھی۔ بیس پچیس سال پہلے بنی عمارت کی مشرقی جانب اونچی چھت والا بڑا ہال تھا جس کی کھڑکیاں شمالاً جنوباً تھیں۔ ہال میں دو بیڈ اور لکڑی کی چند بنچیں رکھی تھیں۔ عموماً مریضوں کو اسی ہال میں جانچا جاتا تھا۔ اسی ہال کے پہلو میں ایک کمرہ تھا جس کے اندر رکھی زنگ آلود الماری اپنا رنگ بدلنا جا ری رکھے ہوے تھی۔ الماری میں ادویات اور انجکشن رکھے تھے۔ مدقوق چہرے کا مالک ڈسپنسر رشید الماری اور کمرے کا نگران تھا۔ ہسپتال آنے والی مریضائیں پردے کے پیش نظر بڑے ہال کے بجاے اس کمرے میں بٹھائی اور دیکھی جاتی تھیں۔ اس کمرے کے ساتھ نسبتاً چھوٹا کمرہ تھا جس میں بحیثیت ڈاکٹر میری ٹیبل کرسی موجود تھی۔ ڈاکٹر پر یاد آیا، میں اپنے ڈاکٹر بننے کی داستان بھی آپ کو سنا ہی دوں۔ ہم ل شہر کے رہائشی تھے۔ جب والد صاحب وہاں جا کر آباد ہوے، تب شہر کی زیادہ تر آبادی رئیس کینال کے اس پار تھی۔ رائس کینال انگریزوں کے دور میں چاول کاشت کرنے والے علاقوں کے لیے بطورِ خاص بنایا گیا اور نام بھی رائس کینال رکھا گیا مگرمرور زمانہ کے ساتھ اس کا نام ’’رائس کینال‘‘ سے زبان حال مطابق ’’رئیس کنال‘‘ ہو گیا۔ ہماری کٹیا گھاڑ واہ اور رئیس کنال کے سنگم پرتھی۔ اس جگہ آبادی نہ ہونے کے برابر اور کھیت کھلیانوں میں شام کے وقت ویرانی رہتی تھی۔ والد صاحب دریاے سندھ کے پار سے یہاں آ بسے تھے۔ ل شہر آ کرانھوں نے مچھلی مارکیٹ میں مزدوری شروع کی۔ پھر سبزی کا ریڑھا لگانے کا کام کرنے لگے۔ ماں سندھی ٹوپیاں بناتی جو میں اور وہ ایک ہندو دکاندار کو بیچ آتے۔ ہندو حساب کتاب میں بہت صاف اور سیدھا تھا۔ دوسرے دکانداروں کے طرح اس نے کبھی ہمارا حق مارنے کی کوشش نہیں کی۔ چھوٹی بہن ذرا بڑی ہوئی تو ماں نے اسے بھی اپنے ساتھ لگا لیا۔ کچھ عرصے بعد میرے سمجھدار ہونے پر والد صاحب جان پہچان والے سے آدھیارے پر بھینس لے آئے۔ جیسے رواج ہے، بھینس کو چارا کھلانا ہماری ذمے داری اور بھینس مالک کی۔ باقی بھینس کے پیدا ہونے والے بچے میں دونوں حصہ دار۔ اس کے علاوہ بھینس سے حاصل ہونے والا دودھ ہماری ملکیت۔ دودھ کچھ بیچتے اور کچھ رات کو روٹی کے ساتھ کھا لیتے۔ مجھے اب بھی وہ احساس یاد ہے جب شام کے وقت ہاتھ میں لاٹھی پکڑے بھینس چرانے اور اسے گھاڑ واہ میں نہلانے کے لیے نکلتا، مجھے اپنا آپ اہم لگتا۔ بھینس سنبھالتے دو تین ماہ ہوے تھے، بھینس کو ملاپ کی خواہش ہوئی۔ اس نے ڈکرانا شروع کر دیا۔ ماں نے مجھے والد کو بلانے بھیجا۔ اگر بھینس کو فورا سانڈ کے پاس نہ لے جایا گیا تو اس کا خیال بدل جائے گا۔ پھر اکیس دنوں تک وہ لگ نہیں کروا پائے گی۔ والد صاحب مجھے ریڑھے پر چھوڑ کر گئے۔ بھینس کو عبدالغفور لاشاری کے سانڈ سے لگ کروا آئے۔ میرا بھی بڑا دل تھا کہ اس منظر کو دیکھوں مگر ریڑھا کون سنبھالتا۔ خیر، بھینس کو حمل کیا ٹھیرا، ہمارے گھر ایک امید نے جنم لیا۔ اماں مجھے اور میری بہن کو اپنے پاس بٹھا لیتیں، دعا مانگنے کا کہتیں۔ ’’دل سے دعا مانگو، رب بھینس کو بچھیا دے۔ وہ چھوٹے بچوں کی دعا بہت قبول کرتا ہے۔‘‘ ہم آنکھیں بند کر کے دعا مانگتے۔ خدا کو بھی یہی کرنا پسند آیا۔ بھینس کی بچھیا پیدا ہوئی۔ شاید وہ پہلا دن تھا جب میں نے اماں ابا کو خوش پایا، ورنہ عید کے دن بھی ابا عید نماز سے آنے کے بعد ہمیشہ کی طرح مایوس مایوس دکھتے۔ اماں کا حال بھی ان سے مختلف نہ ہوتا۔ نہ کوئی آتا نہ ہم جاتے، بس دونوں بہن بھائی آپس میں کھیلتے شام کر دیتے۔ بچھیا پیدا ہونے کے بعد بھینس کو دو ڈھائی دن جو دودھ اترا وہ بہت گاڑھا تھا۔ اماں نے اس دودھ میں شکر ملا کر خوب کاڑھا۔ وہ برتن میں ٹکیا کی طرح جم گیا۔ دن بھر ہم اس کی ٹکیاں چھری سے کاٹ کاٹ کر کھاتے رہتے۔ جب میں انٹر تک پہنچا تب دو اپنی بھینسیں ہو چکی تھیں اور گھاڑ واہ کے کنارے سرکاری زمین پر ہمارا جو چھپرا تھا وہ کچی اینٹوں سے بنے ایک کمرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ دروازے اور کھڑکیوں کی جگہ ہم نے رلیاں ٹانگی ہوئی تھیں۔ چار دیواری کی جگہ سرکنڈوں کی باڑ تھی جس کو ہر سال میں اور والد صاحب جھاڑیوں کی کانٹوں بھری شاخیں لا کر، اس کا گھٹ جانے والا قد برابر کر دیتے۔ اگرچہ اماں ابا کی محنتوں سے ہماری ظاہری حالت میں تو قدرے بدلاؤ آیا مگر پھر بھی میری ذہنی کیفیت پہلے کی جیسی تھی۔ اپنی کم مایگی کا احساس جکڑے رکھتا تھا۔ میں کسی سے دوستی یا قریب جانے سے گریزاں رہا کرتا۔ کئی ایک لڑکوں کی دوستی کے لیے ہاتھ بڑھانے کے باوجود پڑھائی کو برقعے کی طرح استعمال کر کے اس کی آڑ میں الگ تھلگ رہتا۔ پڑھائی میری واحد دلچسپی ہونے کے وجہ سے انٹر میں اچھے نمبر ملے اور میڈیکل کالج میں میرا داخلہ بآسانی ہو گیا اور میں ڈاکٹر بننے ج شہر میڈیکل کالج چلا گیا۔ میں حسب عادت دیگر سرگرمیوں سے دور لائبریری اور ہاسٹل میں پڑھائی کرتا رہتا۔ کورس کے بڑھتے دنوں کے ساتھ ابا کی ضعیفی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ ان کا درخت کے تنے سا سیدھا کھڑا جسم جھکنے لگا تھا مگر ضروریات نے انھیں سائے بنائے رکھنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ وہی گھسی پٹی بات کہنا پڑتی ہے کہ مشکل وقت کا اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ ہماری مشکلات کا خاتمہ مجھے نوکری مل جانے سے ہوا۔ پھر ہمارا اچھا وقت شروع ہوا۔ لیکن یہ اچھا وقت میرا اور میری بہن کا تھا۔ اماں اور ابا نے جن نامہربان ساعتوں کے درمیان زندگی کاٹی تھی اس نے انھیں خوشیوں کا رس کشید کرنے کے قابل نہ چھوڑا تھا۔ ان کے محسوسات خوشی اور غم میں امتیاز کرنا چھوڑ چکے تھے۔ اس عرصے میں میرا ذہن ابا اماں کی غمزدہ شکلوں، ان کے پوشیدہ ماضی، اور اپنے دکھ تکلیف کا عادی ہو چکا تھا۔ ابا یا اماں ہمیں کبھی اپنے آبائی علائقے کے بارے کچھ خبر نہ دیتے تھے۔ میری پہلی پوسٹنگ ش شہر میں ہوئی۔ ہم لوگ گھاڑ واہ کے کنارے سے اٹھے اور ہاسپٹل کے احاطے میں بنے سرکاری گھر میں منتقل ہو گئے۔ کوئی تین ایک سال بعد ہم اچھی زندگی میں تھے۔ بہن کی شادی ہو چکی تھی اور میرے لیے رشتہ دیکھا جا رہا تھا۔ اُن دنوں ابا کی صحت تیزی سے گرنے لگی۔ وہ بیٹھتے یا لیٹتے تو اٹھ نہ پاتے۔ اور اگر اٹھتے تو بے چینی کی کیفیت میں اِدھر سے اُدھر چلتے رہتے۔ کسی جگہ ٹک نہ پاتے۔ کچھ دیر کمرے میں بیٹھتے تو پریشان ہو کر صحن میں آ بیٹھتے، پھر گھر سے باہر ہسپتال کے سامنے موجود درختوں کے نیچے جا بیٹھتے، تھوڑی دیر کے بعد پھر گھر آ جاتے۔ مجھے ڈاکٹر ہونے کے باوجود سمجھ نہ آتی تھی۔ تمام ٹیسٹ کلیئر تھے، ان کی حالت سدھر نہیں پا رہی تھی۔ وزن روزبروز کم ہوتا جا رہا تھا۔ رات کو سوتے اچانک چیخ کر اٹھ بیٹھتے۔ میں دوڑ کر انھیں سنبھالنے لگتا مگر وہ پکڑ میں نہ آتے۔ جنوری کے ایک سرد دن کی بات ہے، ابا شام کو اٹھے، نہائے دھوئے، رات کا کھانا کھایا اور سونے چلے گئے اور پھر نہیں اٹھے۔ اندازہ یہ تھا کہ کچھ کھایا ہے مگر اماں نے پوسٹ مارٹم کرنے نہیں دیا۔ ابا گئے تو ایسے ہی نہیں گئے۔ ادھ مری اماں کو اور مار گئے۔ رہی میری بات، میں جیسے خلا میں معلق ہوگیا۔ ہر طرف خالی پن تھا اور اماں ابا کے پوشیدہ ماضی کے بارے میں اٹھتے اضطرابوں نے بے چینی اور اذیت کا کسا ہوا پھندا میرے گلے میں ڈال دیا۔ اس سے نجات کے لیے میرے پاس اماں ہی ذریعہ تھیں۔ میں نے کئی بار ان سے سوالات کے جواب جاننا چاہے مگر جواب میں اماں کے پاس صرف آنسو ہی ملتے۔ آہستہ آہستہ اس ابا والی بے چینی کے ساتھ میں نے گزارنے کی عادت ڈال لی۔

    اب میں واپس لُو لگ جانے والی مریض کی طرف آتا ہوں۔ میری کہانی کے اختتام اور لُو لگ جانے والے مریض کی کہانی کے درمیان آپ عرصہ چھ سال جوڑ لیں۔ اماں رخصت ہو چلی تھیں۔ میں ابھی تک غیر شادی شدہ تھا اورایک دیہی صحت مرکز میں اپنے فرائض نبھا رہا تھا۔ ش شہر میں عرصہ پانچ سال بعد میرا تبادلہ ہونے لگا اور مجھے اس کے لیے تین اضلاع کا آپشن دیا گیا اور میں نے ن ضلع کی اس تحصیل کا انتخاب کیا۔ میں ہال میں داخل ہوا۔ کھڑکیاں تیز گرمی کی وجہ سے بند تھیں اور اندر نیم روشنی کا ماحول تھا۔ ہال کے اندر پڑے سبز ریگزین کے بیڈ پر ایک بوڑھا مریض پڑ ا ہوا تھا۔ بیڈ کے ادھڑے کناروں سے پیلا گدا جھانک رہا تھا۔

    ’’ڈاکٹر صاحب، یہ روڈ پر چلتے چلتے گر پڑا۔ نانا فتو اسے ہسپتال میں چھوڑ گیا ہے۔‘‘ رشید بولنے لگا تھا۔ نانا فتو ہوٹل والے کا نام تھا۔ چائے کا یہ ہوٹل ہسپتال کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی تھا۔

    ’’اچھا،‘‘ میں نے مریض کو چیک کرتے ہوے کہا۔

    ’’صاحب، اس پر گرمی کا اثر ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’ڈی ہائیڈریشن لگتی ہے، گلوکوز کی ڈرپ لگا دو۔‘‘ جسم پانی کی کمی کے باعث گرمی سہا رنہ سکا تھا اور اندرونی ٹمپریچر کی وجہ سے مریض نیم بیہوشی میں تھا۔ ڈرپ لگ جانے کے بعد میں نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ پچپن ساٹھ سالہ، سانولی رنگت، درازقد اور ضعیف جسم میں تھا۔ گھنی مونچھوں کے ساتھ بالکل ہلکی سی ڈاڑھی اس کے رخساروں پر اوپر تک چڑھی ہوئی تھی۔ معمولی سوتی کپڑے کا پہران اور لال رنگ کا انگرکھا باندھا ہوا تھا جو پنکھے کی ہوا سے اس کے داہنے گھٹنے سے ہٹ گیا تھا۔ اس کی لانبی سانولی ٹانگ ران تک ظاہر ہو رہی تھی۔ دانتوں سے محرومی پانے کا سفر کرتا ہوا منھ کسی ڈراؤنے غار کی طرح کھلا تھا۔ کچھ دیر ڈرپ چلی۔ مجھے اطمینان ہوا اور میں رشید کو خیال کرنے کی ہدایت کر کے اپنے کمرے میں بیٹھ گیا۔ شام کو رشید سے اس کا احوال پوچھا۔

    ’’صاحب، وہ ٹھیک ہو گیا تھا۔ اپنے نانا فتو کا واقف تھا۔ اس نے تانگا کروا کر اسے گاؤں بھیج دیا۔‘‘

    اکتوبر کی آخری دنوں کی بات ہے۔ سردی کی اولین لہریں پہنچنا شروع ہوئی تھیں۔ فضا میں خنکی کا عنصر دلپذیر تھا۔ صبح گیارہ بجے کے قریب جب میں ہسپتال کی عمارت کی سامنے درختوں کے نیچے کرسی ڈالے مریضوں سے فارغ حالت میں بیٹھا تھا، ہسپتال کے بیرونی احاطے کے کھلے گیٹ سے گدھا گاڑی داخل ہوئی۔ گاڑی میں رلی کے اوپر کوئی شخص پڑا ہوا تھا اور گدھے کی لغام کھینچتے ہوے شخص کے علاوہ نانا فتو اور دوسرا شخص اس جسم کو اٹھا کر اندر ہال میں رکھنے لگے۔ میں نے چیک کیا تو مضروب شخص کی خراب حالت کے باوجود کوئی سیریس مسئلہ نہ تھا۔ گرد سے لتھڑے خون آلود لباس میں ملبوس شخص کے سر میں زخم تھا۔ جسم پر بھی لاٹھیوں کے ابھرے نشان موجود تھے۔ سر کے زخم میں ٹانکے لگانے اور جسم کے زخموں کو صاف کر کے ٹنکچر لگانے تک میں جان چکا تھاکہ یہ وہی پچپن ساٹھ سالہ سانولا شخص تھا جو کچھ ماہ پہلے ڈی ہائیڈریشن سے بے ہوش حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا تھا۔

    ’’نانا، خیر تو ہے۔ کیسے ہوا یہ سب؟‘‘ میں نانا فتو سے پوچھنے لگا۔

    ’’صاحب، وہ گاؤں میں جھگڑا وگڑا ہوا تو اس میں چوٹیں لگ گئیں خدا بخش کو۔‘‘

    ’’پھر پولیس کو اطلاع کریں؟‘‘

    ’’نہیں صاحب، ایسی کوئی بات نہیں۔ ایسی باتیں روز ہوتی رہتی ہیں گاؤں واؤں میں،‘‘ نانا فتو زور دے کر بولا۔

    ’’نانا، یہ تمھارا رشتے دار ہے؟‘‘

    ’’نہیں صاحب۔ یہ گوٹھ مرادخان سہتو کا ہے۔ اپنے گاؤں میں بسکٹ مسکٹ، کیک پاپے بیچتا ہے۔ شہر آتا ہے تو میری ہوٹل پر چائے وغیرہ کے لیے بیٹھتا ہے۔ تو اپنا ہی ہے، واقف ہے۔‘‘ کچھ ہی دیر میں مضروب شخص کراہتا ہوا اٹھنے لگا۔ نانا فتو نے اسے سہارا دے کر بیٹھنے میں مدد دی۔

    ’’یار پھتاح (فتاح)، حرامیوں نے بہت مارا ہے۔ کوئی لحاظ نہیں،‘‘ زخمی شخص اپنے زخموں کو ٹٹولتا ہوا کہہ رہا تھا۔

    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔ ملم پٹی ہو گئی ہے۔ سب خیر ہے۔‘‘

    ’’یار خیر کہاں؟ میری عمر ہے مار کھانے کی؟ بڑی عمر والوں کا لحاظ، کوئی خیال ہوتا ہے۔ وڈیرا سومار تو حرامی ہے، اس کے بیٹے بھتیجے اس سے بھی بڑے کمینے ہیں۔‘‘

    ’’ایسی کوئی بات ہے تو پولیس کے پاس رپورٹ کروا دیں،‘‘ میں نے ایک قدم زخمی شخص کی طرف بڑھا کر کہا۔ زخمی شخص نے مجھے غور سے دیکھا۔ اس کو ایک جھٹکا لگا۔ مجھے اس کے تاثرات میں خوفزدگی ظاہر ہوتی نظر آئی۔

    ’’نہیں صاحب، ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ خود رئیس کے باغ کے لیموں چوری کر کے بیچتا ہے اس لیے اسے مار پڑتی ہے،‘‘ نانا فتو بول پڑا۔ اور بھلا ہم پولیس کے پاس جائیں گے تو وہ رئیس سومار خان کے خلاف ہماری سن لے گی کیا؟‘‘ نانا فتو بات کرتا جا رہا تھا، اتنے میں زخمی شخص بیڈ سے اترنے کی کوشش کرنے لگا۔ اٹھتے اٹھتے خود کو سنبھال نہ پایا اور فرش پر گر گیا۔ میں، رشید ڈسپنسر اور نانا فتو اس کی طرف لپکے۔

    ’’ارے خدو، یہ کیا کر رہا ہے؟ مرنے کا ارادہ ہے کیا؟ چپ کر کے بیڈ پر لیٹ جا۔‘‘

    ’’نہ پھتاح خان نہ۔ مجھے ڈر آ رہا ہے۔‘‘

    ’’شاید دماغ والی چوٹ کا اثر ہے۔ میں اسے آرام کی انجکشن دیتا ہوں۔‘‘ میں یہ کہتے ہوے انجکشن تیار کرنے لگا۔

    ’’اڑے کھدو، پاگل نہ بن۔ ابھی تیرا علاج ہو گا۔ چل لیٹ جا!‘‘ نانا فتو کا جملہ سن کر زخمی شخص بیڈ پر لیٹ گیا مگر اس کی خوف سے بھری نگاہیں مجھ پر ٹکی رہیں۔ میں انجکشن کے بعد اس کو آرام آنے تک وہیں رکا رہا اور پھر رشید کو اسے ایک دن ہسپتال میں رکھنے کی ہدایت دے کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ شام کو چیک کرنے گیا تو خدا بخش بہتر حالت میں نظر آیا۔

    ’’آپ بہتر ہیں مگر آج کی رات یہیں رہیں۔ کل صبح آپ جا سکتے ہیں۔‘‘

    ’’ڈاکڈر(ڈاکٹر)، مجھے چھوڑو۔ میں پھتاح کی ہوٹل میں سوؤں گا۔ یہاں ہسپتال میں مجھے ڈر آتا ہے‘‘، خدا بخش دونوں ہاتھ جوڑ کر منت بھرے لہجے میں بولا۔

    ’’ٹھیک ہے بابا۔ ہوٹل ساتھ ہی ہے۔ اگر کچھ تکلیف ہو تو مجھے یا رشید کو اٹھا دینا۔‘‘

    رشید خدا بخش کو نانا فتو کے پاس چھوڑ آیا۔ آتی سردیاں دھان کی فصل کی طرح جلد اپنا قد بڑھا رہی تھیں۔ سورج روپ بدل کر مہربان دوست بن گیا تھا۔ اس کی کرنوں میں بیٹھنے سے خمار کی کیفیت طاری ہوتی تھی۔ ہال اور کمرے کے بجاے مریض اب باہر دھوپ میں دیکھے جا رہے تھے۔ کچھ عرصے سے میں نے نوٹ کرنا شروع کیا تھا کہ کبھی کبھار ہسپتال کے گیٹ یا بیرونی احاطے کی کمر سے ذرا اوپر دیوار کے پار خدابخش کھڑا ہوا تکتا نظر آتا۔ میری نگاہ پڑتی تو گڑبڑا کر چھپ جاتا۔ دسمبر کا آغاز شمال سے آنے والی سرد ہواؤں نے بڑے طمطراق سے کیا۔ ہرطرف ان کے قہر کی سلطنت قائم تھی۔ درختوں نے بھی ان کے جبر کے آگے مجبور ہو کر اپنے پتے جھاڑ کر سائیں مست علی شاہ کی طرح خود کو ننگا کر لیا تھا۔ ایک شام، جس میں گونگی بارش کی بوندیں بے آواز گری جا رہی تھیں اور کالے بادلوں نے اپنا سیاہ پھن لہرا کر آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا، میں کڑکتی سردی سے دو لحاف اوڑھے جلتے بلب کی روشنی میں امر جلیل کی کہانیوں کی کتاب (جڈھن مان نہ ھوندس) جب میں نہ رہوں گا پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں کنڈی بجنے کی آواز آئی۔ بلاتعطل اور مسلسل۔ ٹھک ٹھک، ٹھک ٹھک۔ میں چھتری اٹھا کر کمرے سے صحن میں آیا۔ فرش میں لگی چوکور سرخ اینٹیں پانی کی پتلی چادر کے باوجود عریاں ہورہی تھیں۔ سندھ کی گردآلود فضا سے برس کر، اینٹوں پر جمع ہونے والی مٹی کا آخری ذرہ بھی پانی نے رہنے نہ دیا تھا۔ میں نے دروازہ کیا کھولا، ایک انسانی وجود مٹی کے ڈھیر کی طرح میرے پاؤں میں گر گیا۔ نیم تاریک ماحول میں مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں اسے اٹھانے کے لیے جھکا کہ دو بازؤوں سے میری ٹانگوں میں حلقہ بنایا گیا اور بین کی آواز ابھری۔ دل کو لرزا دینے والی۔ ایک ایسی آواز جو تکلیف اور درد کے اظہار کا مکمل احاطہ کرتی ہو۔ میں اٹھانے کی کوشش کرنے لگا مگر وہ بازو پاؤں چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے۔ میں مشکلوں سے سنبھالتا اسے اندر کمرے میں لایا اور کرسی پر بٹھانے میں کامیاب ہوا۔ میں نے روشنی میں اسے دیکھا اور دیر میں اسے پہچانا۔ یہ خدا بخش تھا۔ اس کی بڑی بڑی مونچھیں غائب اور چہرے کے بعض حصے سیاہی سے رنگے تھے۔ اس کا بین جاری تھا، گو میرے بولنے پچکارنے سے کمی آئی تھی۔

    ’’بابا خدابخش، کیا ہوا ہے؟ پھر وڈیرے سومار کے چیلوں نے مارا ہے؟ اور تمھاری مونچھیں؟ یہ کیا ہوا ہے؟‘‘

    ’’ڈاکڈر صاحب، ڈاکڈر صاحب، مار کھانے سے خدا بخش روتا ووتا نہیں۔ ڈاکڈر صاحب، آج دوسری بات ہے۔‘‘ رونے میں وقفہ کرتے خدا بخش نے جملہ پورا کیا اور پھر بین کرنے لگا۔

    ’’اللہ سائیں، او میرے اللہ سائیں۔ میں کیا کروں؟ ڈاکڈر صاحب، مجھے معاف کر دو۔‘‘ وہ کرسی سے اٹھ کر میرے پاؤں میں بیٹھ گیا۔ ’’ڈاکڈر، میں کمینہ ہوں۔ مجھ میں غیرت نہیں۔ یہ لو۔‘‘ میرے پاؤں سے جوتا نکال کر میرے ہاتھ میں تھمانے لگا۔ ’’یہ لو، میرے منھ پر مارو۔ او اللہ سائیں!‘‘ وہ پھر بین کرنے لگا۔

    ’’بابا خدابخش، یہ کیا کر رہا ہے؟‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے جوتا لے کر پھینک دیا۔ اٹھو، کرسی پر بیٹھو۔ بتاؤ، ہوا کیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں ڈاکڈر، نہیں۔ تم مجھے جوتے مارو۔ میں اسی لائق ہوں۔ آج وڈیرے نے میرا کالا منھ کیا ہے۔ یہ تو کوئی سزا ہی نہیں۔ اصل درد تو یہاں ہے یہاں۔‘‘ اپنے پھٹے اور گیلے گریبان سے نظر آتی پسلیوں پر سیدھے ہاتھ سے مکے مارتا ہوا کہنے لگا۔

    ’’بابا، تم اٹھ کر کرسی پر بیٹھو۔ مجھے بتاؤ، بات ہے کیا؟‘‘

    ’’ڈاکڈر، تمھیں میرا پتا چلے گا، تم میرے منھ پر تھوکو گے۔ میں نے کام ہی ایسا کیا ہے۔ پر ڈاکڈر صاحب، میں بڑا ڈرپوک ہوں، اس لیے خطا ہو گئی، بابا۔ بہت بڑی۔ وڈیرا کیا میرا منھ کالا کرے گا، میں خود اپنے ہاتھوں سے اپنا منھ کالا کر چکا ہوں۔‘‘ وہ کمرے کے فرش پر ہاتھ پھیر پھیر کر اپنے منھ پر مٹی ملنے لگا۔

    ’’کیا کر رہے ہو خدا بخش! اٹھو، کرسی پر بیٹھو۔‘‘ میں نے خدابخش کے جسم کو اٹھا کر زبردستی کرسی پر بٹھا دیا اور خود اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

    ’’ڈاکڈر، میں بتاؤں گا، پھر جو تم کرسی پر بٹھا رہے ہو، مجھ پر تھوکو گے۔‘‘ وہ ہذیانی انداز میں بولتا جا رہا تھا۔

    ’’پہلے تم اپنا ہاتھ منھ گرم پانی سے دھوؤ، پھر مجھے اپنی بات بتاؤ۔‘‘

    ’’نہیں، میں اسی طرح بتاؤں گا۔ اور ابھی بتاؤں گا۔‘‘ وہ پھٹے ہوے گیلے کپڑوں کے ساتھ کالک ملا مٹی آلودہ چہرہ لیے کرسی سے نیچے بیٹھ گیا۔

    ’’اچھا ٹھیک ہے، سناؤ۔‘‘

    ’’ڈاکڈر، تم علی حسن سہتو کے بیٹے ہو ناں؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ حیرت زدہ حالت میں میری زبان سے بے اختیار جواب نکلا۔

    ’’میں اسی دن پہچان گیا تھا۔ تم صفا اپنے باپ جیسے ہو۔ تمھارا نام اُلہندو بھی میں نے ہی رکھا تھا۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘ میری حیرت کم نہ ہوئی۔

    ’’ڈاکڈر، تمھارے باپ سے میری سگی یاری تھی سگی۔ پھر میں ہی کمینہ نکلا۔ مگر میں کیا کرتا؟ میں ڈر گیا تھا ڈاکڈر صاحب۔‘‘

    ’’تم میرے والد کو کیسے جانتے ہو؟‘‘

    ’’علی حسن کو خدا بخش نہ پہچانے تو اور کون پہچانے؟ وہ میرا یار تھا، ڈاکڈر۔ سارے دکھ سکھ کٹھے کاٹے۔ پھر وڈیرے سومار حرامی نے حرامپائی کی۔ پر ڈاکڈر، اصل بے غیرت تو میں نکلا۔ وڈیرا تو ازلی حرامی دشمن ہے۔ دوست تو میں تھا۔‘‘

    ’’آپ ان کے دوست تھے؟‘‘

    ’’دوست کہاں، میں ہی تو اس کا دشمن بنا۔ پر ڈاکڈر، پہلے میری پوری بات سننا، پھر جو جی میں آئے مجھے قبول ہے۔ خدو ویسے بھی کب کا مر گیا ہے۔ ڈاکڈر، ہم پہلے منچھرجھیل پر رہتے تھے۔ کشتیاں ہمارا گھر تھیں۔ وہیں کاروبار تھا۔ صرف ہم نہیں، ہمارے سارے رشتے دار بھی کشتیوں میں رہا کرتے۔ شادیاں، بچوں کی پیدائش، سب وہیں کشتی پر۔ پورا گاؤں تھا منچھر پر۔ رگو (صرف) ہمارا گاؤں نہیں، کئی گاؤں تھے منچھر میں۔ ہم کشتیوں سے بس فوتگی پر دفنانے کے لیے زمین پر اترتے۔ پھر اس جھیل میں زہریلا پانی آ ملا۔ مچھلیاں مرنے لگیں۔ بچے مرنے لگے۔ ڈاکٹروں نے ٹیسٹ ویسٹ کی، بتایا منچھر کا پانی زہریلا ہے۔ میرا باپ کشتی سے اٹھ آیا۔ رشتے داروں کے روکنے کے باوجود بھی پیٹ کے پیچھے وہ رئیس سومار خان کے باپ سبھاگو خان کے مچھلی کے تالاب پر آ بیٹھا۔ تالاب سے گزران اچھا ہونے لگا۔ میں یہاں آ کر خوش تھا۔ زمین پہلی بار ملی تھی۔ یہ تو جنت تھی۔ سارا دن بھاگتا پھرتا۔ تمھارے باپ کے ساتھ بکریاں چرانے قبرستان چلا جاتا۔ ہم دوپہر کو بکریاں کسی بکروال کو دے کر گڈو بیراج نہانے چلے جاتے۔ وہاں دوسرے کنارے پر ناک کی سیدھ میں تیرنے کے مقابلے لگتے۔ میں تو میربحروں کی اولاد تھا اور ابا کہتا تھا مچھلی اور میربحروں کے پھیپھڑے ایک ہی مٹی سے بنے ہیں، پر سائیں، تمھارا باپ تو لوہے کا تھا صفا۔ گڈو بیراج کے کنارے شیشم کا درخت کے سامنے جا نکلنا ہوتا تھا۔ بیراج کی تیزی قصائی کی چھری کی طرح ہے آج بھی، پر تمھارا باپ آٹھ لڑکوں میں اکیلا ہوتا جو شیشم کی کالی چھاؤں میں جا نکلتا۔ ہاہ۔ بس ڈاکڈر، پھر تمھارا باپ تو تمھارے دادا کے ساتھ کھیتی باڑی کرنے لگا اور میں نے رئیس سبھاگو خان کی چاکری کر لی۔ مجھے مچھلی کی بو بہت بری لگتی تھی۔ وہ بو ایسی ہے کہ کھال کے اندر گھس جاتی ہے۔ نکلتی نہیں۔ اماں، ابا، دوسرے بہن بھائیوں سے مجھے وہی بو آتی۔ میں نے ابا کو مچھلی کا کام کرنے سے صاف جواب دے دیا۔ اس نے مجھے سبھاگو خان کے پاس کام کے لیے چھوڑ دیا۔ رئیس سبھاگو کے پاس میں صبح شام جانوروں کے لیے چارا کاٹتا اور رئیس جس وقت اوطاق میں بیٹھتا، میں اس کی ٹانگیں دابتا رہتا۔ پھر میں رئیس کے آدمیوں میں ہوتا گیا۔ ہم دو تین لوگ رات کو جا کر رئیس کی زمین کے لیے پانی چوری کرتے۔ رئیس کی زمینیں بہت تھیں، اس کے حصے کا پانی زمینوں کو بھر نہیں پاتا۔ ہم دوسرے چھوٹے موٹے زمینداروں کے حصے کا پانی توڑ کر ساتھ لاتے۔ کسی میں کیا دم کہ رئیس کے لوگوں سے ٹکر لے۔ آتے تو ہم مار مار کر ادھ موا کر دیتے۔ سال چھٹے ماہ جب نئی فصل لگانے کے لیے زمین تیار ہوتی تو رئیس کے اشارے پر ہاری ایک آدھ فٹ دوسرے کی زمین کی طرف بڑھ جاتے۔ جہاں کوئی سامنے آتا تو ہم ڈنڈے لاٹھیاں لے کر کھڑے ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ میری دہشت پھیلنے لگی اور میں رئیس کے بدمعاشوں کا سردار بن گیا۔ ابا نے بڑا سمجھایا، بیٹا، ہم پانی کے لوگ ہیں، ٹھنڈے اور نرم۔ ہم کسی سے جھگڑا فساد نہیں کرتے۔ پانی والوں میں سب سانجھا ہوتا ہے۔ ان زمین والوں کی بات اور ہے۔ ان میں حدبندی ہوتی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے بہت پرے ہوتے ہیں، ان کے راستوں پر نہ چلو۔ یہ اپنوں کو بھی نہیں چھوڑتے، تم تو ان کے غیر ہو۔ مگر میں نے سنا ہی نہیں۔ رئیس نے میری شادی کروا دی اپنے ہاری کے ہاں سے۔ میرا تو پھر خاندان بھی بدل گیا۔ میں رئیس کی چاکری میں لگا رہا اور تمھارے باپ نے اپنے باپ دادا کی زمین کو بدل کے رکھ دیا تھا۔ وہ سبزی کاشت کرتا تھا۔ شہر میں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی۔ جب تمھارا دادا فوت ہوا تھا تب تک تمھارے باپ نے نیا گھر بنا لیا تھا۔ گاؤں میں رئیس کی حویلی کے بعد یہ پہلا مکان تھا جو پکا تھا۔ یہ بات رئیس کو تیر کی طرح دل میں لگ گئی اور تمھارا باپ پہلے ہی اسے کھٹکتا تھا۔ باقی گاؤں برادری ہفتے دو ہفتے اسے سلام کرنے آتے تھے۔ تمھارا باپ عید بڑی عید کے سوا رئیس کی اوطاق کا رخ ہی نہ کرتا تھا۔ تمھارا باپ اپنی زمین میں لگا رہا۔ تمھاری پیدائش کا دوسرا سال تھا، رئیس سبھاگو کو پتا چلا بشیر پنجابی کا تین ایکڑ کا ٹکڑا علی حسن نے خرید لیا ہے۔ رئیس تو آپے سے نکل گیا۔ اس علائقے کی ریت تھی کہ جو بھی زمین فروخت ہوتی وہ رئیس ہی خریدتا تھا۔ کسی اور کو خریدنے کی اجازت نہ تھی۔ رئیس زمین کی قیمت بالکل مار کر خریدتا تھا، اس لیے بشیر پنجابی ڈاکوؤں کے ڈر سے پنجاب بھاگا تو جاتے جاتے خاموشی میں اچھی قیمت پر زمین علی حسن کو دے دی۔ رئیس نے خبر ملتے ہی مجھے، نورے اور دادن کو بلایا۔ رئیس سبھاگو خان آگ کا گولا بنا ہوا تھا۔ اس کی پگ کا مسئلہ تھا۔ آج علی حسن نے یہ کام کیا تھا تو کل کسی اور کو ہمت ہو جانی تھی۔ رئیس علی حسن کے عضوے توڑ دینے کے سوا راضی نہ تھا۔ ہم تو لچ لفنگ تھے۔ ایک بار بولنے کی کوشش کرتے ہوے گالیاں کھا کر منھ بند کر لیا۔ مگر علی حسن خان کی ٹانگیں توڑنے والاخیال ملاں شیرل نے رد کر دیا۔ اس کا کہنا تھا، علی حسن ایک دو بندوں کو ساتھ لے کر مرے گا اور پھر اس کا خاندان بھی بڑا ہے۔ ان کو منھ دینا مشکل ہے۔ اس نے بات دوسری کی۔ رئیس کو اس کی بات دل سے لگی۔ علی حسن کو نورے کی ماں کے ساتھ کالا بنا دو۔ گواہی میری۔ نورے کو دس ہزار ملے۔ اسی رات اس نے بڑھیا کو قتل کر دیا۔ صبح علی حسن کو رئیس کی اوطاق پر باندھ دیا۔ فیصلہ شروع ہو گیا۔ فیصلہ ملاں شیرل اور پنچایت نے کرنا تھا۔ نورے نے علی حسن پر ماں کا الزام لگایا اور گواہی میں میرا نام لیا۔ میں نے قرآن اٹھا کر قسم دی۔ فیصلہ ہو گیا۔ ملاں شیرل نے علی حسن کو بخش کر کے اس کی زمین گھر نورے کے حوالے کیے اور علی حسن کا منھ کالا کر کے پورے گاؤں میں گھمانے کا فیصلہ دیا۔ ڈاکڈر صاحب، میں مجبور تھا۔ ڈر گیا تھا۔ رئیس نے گواہی نہ دینے پر مجھے کالا کرنے کی دھمکی دی تھی۔ علی حسن کو کالا کر کے مارنے کا فیصلہ ہوا، پر اس کی برادری نے اس کے صاف ہونے پر قسم قرآن دیا۔ پھر مجبوراً فیصلہ بدل کر ملاں شیرل نے اسے گاؤں سے نکال دیا۔ اس کا ہاتھ بند کردیا گیا۔ اب اس کے ساتھ کوئی برادری والا نہ بات کرے گا نہ ہی کوئی مٹ مائٹ (رشتے دار) ملنے جائے گا۔ کوئی اس کے گھر میں پاؤں نہیں رکھے گا۔ علی حسن اسی رات یہاں سے بال بچوں کے ساتھ جانے کہاں چلا گیا۔ پھر اس کی کچھ خبر نہ ملی۔ اب تم ملے ہو۔ تمھیں دیکھتے ہی پک (یقین) ہو گئی کہ یہ ڈاکڈر علی حسن کا بیٹا ہو گا۔ صفا صاف نشانیاں ظاہر ہیں منھ سے۔ ایسا اندھا تو نہیں میں جو پہچان نہ پاؤں۔ ڈاکڈر، میں پوری عمر اپنا منھ کالا کرتا رہا۔ درد نہیں جاتا۔ تم میرے منھ پر تھوکو، میرا منھ کالا کرو، مجھے گدھے پر چڑھا کر گھماؤ یا زہر کی سوئی لگا کر مار دو۔ پر ڈاکڈر، مجھے قسم قرآن کی ہے، میں موت سے ڈر گیا تھا۔ میں صفا ڈر گیا تھا۔ میں سچ کہتا ہوں، موت نہیں مارتا ڈاکڈر، اس کا ڈر مار دیتا ہے۔‘‘

    میں بین کرتے خدابخش سے اپنے پاؤں چھڑا کر صحن میں آیا۔ گلے کا پھندا سخت ہو رہا تھا۔ میں نے بند سانس باہر نکالنے کے لیے پھیپھڑے پھلا کر آسماں کی طرف دیکھتے ہوے گہرا سانس لینے کی کوشش کی۔ ہر طرف اندھیرا قائم تھا۔ کالی سیاہ رات میں ایک بھی ٹمٹماتا ستارہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے