Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جانور

MORE BYابراہیم جلیس

    (کل آدھی رات کومولوی فتح علی گول باغ میں ایک عورت کے ساتھ پکڑے گئے۔)

    ہرشخص یہی کہہ رہا اور پوچھ رہاتھا کہ کیایہ سچ ہے۔۔۔؟ مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ میں گویا سچ اورجھوٹ کے درمیان کھڑا تھا۔ کبھی خیال ہوتا اتنے لوگ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ کبھی سوچتا، آدمی اندرکچھ اورہوتا ہے اور اوپرکچھ اور، جوآدمی خول کے اندر ہوتاہے وہ بالعموم اس آدمی سے مختلف ہوتاہے جوہماری نظروں کے سامنے ہوتاہے۔

    اب یہ مولوی فتح علی۔۔۔ جن کے ماتھے پر داغِ سجدہ ہے، ایک بالشت گنگا جمنی داڑھی ہے۔ محلہ پرانی انارکلی کے معزز اورمعتبرآدمی کہ محلے والے اپنے جھگڑے ٹنٹے پولیس تھانے میں طے کرنے کے بجائے انہیں کے پاس چکایاکرتے تھے۔ پیش امام کی غیرحاضری میں ان کے پیچھے نماز اداکرتے تھے۔۔۔ اور تو اور گھرمیں ایک نیک بیوی، دوجوان لڑکے اورتین بالغ لڑکیاں بھی موجودتھیں۔ اس کے بعدمولوی فتح علی کی یہ شرمناک حرکت۔۔۔! پھریہ کہ ان کی عمرکیاایسے افعال کے لیے موزوں تھی۔ پینتالیس پچاس کے لگ بھگ ہورہے تھے۔ قبرمیں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور لب گور بھی عورت ہے۔۔۔ الہی توبہ!

    بات سارے محلے میں پھیل گئی تھی، بات۔۔۔ باتیں بن گئی تھیں، لو گ ہنس رہے تھے، حیران ہورہے تھے۔ سن رہے تھے۔ مجھے یقین ہی نہ آتا تھا مگرآج مولوی فتح علی دن بھر دفترنہ آئے تویقین میں اورمجھ میں بہت تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تھا۔ دفتر کے دوسرے کلرک ساتھی کہہ رہے تھے، ’’اگریہ بات جھوٹ ہے تو وہ یوں منھ چھپائے کیوں گھر بیٹھ رہے۔۔۔؟ ضرورکوئی بات ہے۔‘‘ ایک کلرک نے توچپکے سے سپرنٹنڈنٹ کوان کی جگہ اپنی ترقی کے لیے درخواست بھی دے دی تھی۔ اس کا خیا ل تھا کہ اب وہ کبھی دفتر نہ آئیں گے۔ ایسے شرمناک واقعہ کے بعد ان کے پاس دفتر آنے کی کیاصورت رہ گئی تھی۔

    دفترمیں مولوی فتح علی کی واقعی بڑی عزت تھی۔ ہم سب سے سینئرکلرک تھے۔ کام کے اتنے محنتی کے صبح سات بجے دفترآتے اورشام کے آٹھ بجے دفتر سے نکلتے۔ ڈرافٹ تواتنے اچھے لکھتے کہ انگریزافسر تک ان کے ڈرافٹ سے ایک لفظ نہ کاٹتا۔ بس چپ چاپ دستخط کردیتا تھا۔ تنخواہ نہ زیادہ تھی نہ کم لیکن مہنگائی اوربدحالی کے اس زمانے میں جبکہ ہرکلرک کے خوابوں میں رشوت کے روپوں کے چمکیلے ڈھیر لگے ہوتے ہیں، مولوی فتح علی نے جائز تنحواہ کے روپوں کے اوپررشوت کاایک روپیہ بھی نہیں کمایا۔ اہل معاملہ ان کی ہتھیلی چمکانا چاہتے تو وہ مسکراکر انہیں اپنی ہتھیلی کی لکیریں دکھاتے۔۔۔ ہاتھ میں قینچی ہے۔ روپیہ تومیرے ہاتھ میں ہے ہی نہیں۔ آپ کا کام تواللہ پورا کردے گا۔

    اس کے بعد وہ خودہی اس کا کام کردیتے تھے۔

    اس طرح ان کی شہرت پرانی انارکلی کے علاوہ اس لاہورمیں بھی پھیل گئی تھی جوڈپٹی کمشنر آفس کے ارد گرد پھیلاہوا تھا۔

    مگر یہی مولوی فتح علی کل آدھی رات کوگول باغ میں ایک عورت کے ساتھ۔۔۔

    دفترسے گھرجاتے ہوئے راستے میں ’’پاکستان ٹی اسٹال‘‘ کے پاس مجھے غلام محمد ملا، جس نے اپنی بڑی بری خوفناک مونچھوں میں بل دیتے ہوئے پورے غنڈے پن کے ساتھ ایک آنکھ مارکرمجھ سے پوچھا، ’’سناؤجی بابوجی۔۔۔ آپ کے دوست مولوی فتح علی کہاں ہیں؟‘‘

    قبل اس کے کہ میں اس سے کچھ پوچھوں یاجواب دوں، اس نے ایک زوردارقہقہہ لگایا جیسے اس کے سوال کا جواب ایک ایسا ہی بھرپور قہقہہ ہوسکتاہے۔

    میں نے اسے روک کرکچھ بات کرنی چاہی مگراس کے ساتھ کوئی آوارہ عورت تھی جسے وہ سائیکل پر پرسامنے کے ڈنڈے پربٹھاکرسوارہوگیااورفرارہوگیا۔

    غلام محمد کی اس حرکت کے بعدمجھے ایسا محسوس ہواکہ مولوی فتح علی کی اس شرمناک حرکت کا غلام محمد سے بھی یقینا گہرا تعلق ہے، کیوں کہ غلام محمد، مولوی کا ہمسایہ تھا اوریہ ہمسائیگی بہت پرانی تھی۔ پاکستان بننے یا لاہور آنے سے پہلے جب مولوی فتح علی دہلی میں پھاٹک حبش خاں میں رہتے تھے تب بھی غلام محمد ان کا ہمسایہ تھا۔ فسادات کے زمانے میں جب دہلی لٹنے لگی، جلنے لگی، مرنے لگی، اس وقت یہ خبرکسی نے مشہور کردی تھی کہ وہ سبزی منڈی کے بلوے میں مارا گیا۔

    مولوی فتح علی، اس کی بیوی اوربچے کواپنی بیوی بچوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے والے پناہ گزیں کیمپ میں لے آئے۔ بڑی ڈھارس دیں۔ عمربھر کفالت کا ذمہ لیا مگرہمایوں کے مقبرے پہنچ کر انہوں نے بڑی حیرت سے دیکھا کہ غلام محمدزندہ ہے اورمقبرے کی سیڑھیوں پربیٹھا اپنے بیوی بچوں کے لیے زاروقطار رورہاہے۔ مولوی فتح علی اوراپنی بیوی اوربچے کودیکھا توان کے پیروں پر گرگیا۔ وہ غنڈہ جوپھاٹک حبش خاں کے علاوہ دلی کے دوسرے محلوں میں بھی بدمعاشی اورغنڈہ گردی میں ہیرومانا جاتاتھا، جس نے پولیس کے آگے کبھی سرنہ جھکایاتھا، مولوی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لے بندہ بے دام ہوگیا۔ پھردونوں اکٹھے مہاجرین کے آخری قافلے کے ساتھ لاہورپہنچے اور یہاں آکر غلام محمد نے ایک کے بجائے دومکانوں پرقبضہ کیا۔ بڑے مکان پر تو خودقابض ہوگیا اور چھوٹا مکان مولوی فتح علی کو دے دیا۔

    لیکن لاہور آکردونوں کے تعلقات آہستہ آہستہ خراب ہوتے گئے۔ ایک وجہ تویہ تھی کہ دونوں ہمسایہ تھے اورلڑائی شرط ہمسائیگی۔ دوسری و جہ یہ تھی کہ مولوی فتح علی مسجدتھے اورغلام محمد خرابات۔ غلام محمدنے یہاں آکربھی وہی غنڈہ پن شروع کردیا جس کی بدولت وہ دہلی میں ایک بارجیل بھی جاچکاتھا۔ مولوی فتح علی اس کو ہمیشہ سمجھاتے، مناتے، نصیحتیں کرتے، ڈانٹتے، پیار کرتے۔ غلام محمدان کا تھوڑا بہت احترام تو کرتا تھا لیکن ایک بار توا س نے احسان فراموشی کی انتہاکردی۔

    ایک باررمضان شریف کی رات تھی۔ مولوی فتح علی تراویح پڑھ کر آدھی رات کوگھرلوٹ رہے تھے کہ گول باغ کے قریب ایک عورت کے چیخنے اورچلانے کی آوازیں آئیں۔ مولوی فتح علی دوڑے دوڑے اس کی طرف گئے تودیکھا کہ غلام محمد اوراس کے تین چار ساتھی ایک چودہ پندرہ برس کی لڑکی کوگھیرے کھڑے ہیں۔ لڑکی نے جونہی مولوی کو دیکھا، دوڑکران سے لپٹ گئی اور چیخنے لگی۔۔۔ مجھے بچاؤ۔۔۔ خدا کے لیے ان غنڈوں سے بچاؤ۔۔۔ خداکے لئے ان غنڈوں سے بچاؤ۔

    ’’مولوی جی۔ ادھرکیانماز پڑھنے آئے ہو۔ یہ باغ ہے مسجد نہیں ہے۔ چھوڑدو اس لڑکی کو۔ یہ ہماری ہے۔‘‘

    مولوی فتح علی نے غلام محمدکوخوب ڈانٹاپھٹکارا مگراس پر کوئی اثرنہیں ہوا۔ اس نے جیب سے ایک چاقو نکالا مگر اسی اثنا میں ٹاؤن ہال کی طرف سے آتی ہوئی ایک کار کی روشنی اندھیرے میں پھیل گئی۔ غلام محمد اوردوسرے غنڈے بھاگ کھڑے ہوئے۔ کارجیسے ہی قریب آئی مولوی نے آواز دے کر روک لی۔ کارمیں کوئی رومانوی مزاج جوڑا بیٹھاتھا۔ مولوی نے ساراواقعہ سنایا اور اسی کارمیں اس لڑکی کوبٹھاکر اس کے گھر چھوڑآئے۔

    دوسرے دن صبح اسی بات پرمولوی فتح علی سے غلام محمد جھگڑپڑاکہ انہوں نے شیرکے سامنے سے گوشت ہٹالیاتھا مگرمولوی فتح علی کہتے تھے کہ انہوں نے اس لڑکی کونہیں بچایاہے بلکہ غلام محمد کی بیوی اوربچے کودوسری بار بچایاہے۔

    اس واقعہ کے بعد سے مولوی فتح علی اورغلام محمد میں بڑے زوروں کی ٹھن گئی تھی اور وہ مولوی سے بدلہ لینے کی خاطر ان کے خلاف بڑی بے سروپا، غلیظ اور واہیات افواہیں اڑانے لگاتھا۔ میں نے سمجھا کہ کل رات کومولوی صاحب کا عورت کے ساتھ پکڑا جانا بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے جوگول باغ میں پیش آنے کے بجائے دراصل غلام محمد کے گندہ ذہن میں رونماہوا ہے۔ میں غلا م محمد کے اس گول باغ والے واقعہ سے بخوبی واقف تھا، اسی لیے مجھے یقین ہوگیاکہ غلام محمد نے مولوی فتح علی کو ذلیل کرنے کے لیے یہ آخری حربہ استعمال کیاہے اوراپنی زندگی کی اس اندھیری اور فحش رات کوزبردستی مولوی فتح علی کی زندگی میں داخل کردیاہے اوراس رات کے منظرمیں اپنی جگہ پرمولوی فتح علی کوکھڑا کیاہے۔

    اب مجھے کچھ اطمینان سا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے گھرجانے کے بجائے پہلے مولوی فتح علی کے گھر جانا مناسب سمجھا۔ کیوں کہ میرے دل سے غلط فہمی بڑی حد تک دور ہوگئی تھی اور اب ان سے ملنے میں نہ مجھے کوئی عارتھا اور نہ ان کے شرمانے کا کوئی امکان تھا۔

    راستے میں ’’اورنگ زیب‘‘ ہوٹل کے پاس مجھے عبدالرشیدملا، جومیرااورفتح علی کا مشترکہ اورگہرادوست تھا۔ ہم تینوں ہرشام ہوٹل اورنگ زیب میں بیٹھتے، ریڈیو پر رات کی خبریں سنتے، اخبارات پڑھتے، چائے پیتے اورگپیں ہانکتے تھے۔ عبد الرشیدآج خلاف معمول شام سے پہلے ہی ہوٹل میں داخل ہورہاتھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر آواز دی، ’’اوہ۔۔۔ آؤ آؤ۔۔۔ تمہیں ایک بڑی حیرت ناک خبر سناؤں۔‘‘

    اندرجاکر اس نے چائے کا آرڈردیا اورادھرادھر دیکھ کربڑے زاروقطار لہجہ میں بولا، ’’کیا بتاؤں یار۔۔۔ اپنے مولوی نے تورات لٹیا ہی ڈبودی۔ تم نے سنا رات مولوی۔۔۔‘‘

    میں نے کہا، ’’ہاں میں نے سنا ہے۔ مگرمیرا خیال ہے یہ جھوٹ ہے۔ اس میں مجھے غلام محمد کی کوئی ناپاک سازش معلوم ہوتی ہے۔‘‘ عبدالرشیدنے کہا، ’’نہیں یار کسی کی سازش نہیں۔ مجھے ابھی عیدوملاتھا جویہاں کے تھانے کا سپاہی ہے۔ اس نے مجھے بتایاکہ اسی نے کل رات مولوی کوایک عورت کے ساتھ پکڑاہے۔ مولوی اوروہ عورت رات بھرحوالات میں رہے۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’وہ عورت کون تھی؟‘‘

    رشید نے جواب دیا، ’’پتہ نہیں کون تھی۔ بہرحال جوبھی تھی بڑی آوارہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک پینتالیس پچاس کے بوڑھے ساتھ چلی گئی۔‘‘ میں نے رشید سے پوچھا، ’’تم آج مولوی سے ملے تھے؟‘‘ رشید نے جواب دیا، ’’اب اس سے کیاملنا ہے اورکیا وہ اب ہم سے مل سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’آؤ۔ چلواس سے ملیں، ہمیں توکم ا ز کم اس سے ملناچاہئے۔ سچ پوچھو تو جانے کیابات ہے مجھے یقین ہی نہیں آتا۔۔۔ مجھے یقین کرلیناچاہئے۔ سب ہی کہہ رہے ہیں تم بھی کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی مگر۔۔۔ مگراب بھی میرے دل میں شبہ اوریقین میں عجیب سی کش مکش ہے۔‘‘

    عبدالرشید نے کہا، ’’میں تواب اس سے ملنے کو بے کار سمجھتا ہوں۔ وہ نہیں ملے گا۔‘‘ میں نے اسے مجبورکیا، ’’تم چلو توسہی۔۔۔ یہ سمجھ کرملیں گے جیسے آخری بار مل رہے ہوں۔‘‘

    ہم دونوں اورنگ زیب ہوٹل سے باہرنکلے۔ امرتسری بھائیوں کی تمباکو شاپ تک پہنچے ہی تھے کہ مولوی فتح علی کا بڑا لڑکا رفیع ملا جودوائیوں کا بکس اٹھائے جارہا تھا اور جس کے پیچھے ڈاکٹر منورعلی یم بی بی ایس چل رہاتھا۔ میں نے رفیع سے پوچھا، ’’کیوں رفیع؟ کیا بات ہے۔۔۔ خیریت؟‘‘

    رفیع بڑا پریشان، گھبرایاہوا سا نظرآرہاتھا۔ اس نے صرف یہی کہا، ’’امی۔۔۔ امی جی۔۔۔‘‘

    اتناہی کہہ کروہ خاموش ہوگیااور تیزتیز چلنے لگا۔ عبدالرشید نے یہ سن کر مجھ سے کہا، ’’معلوم ہوتا ہے بچاری نیک عور ت مولوی کی اس شرمناک حرکت کا صدمہ سہا رنہ سکی۔‘‘

    وہ خاموش چلتارہا۔ ہم دونوں مولوی کے گھر پہنچے۔ دستک دی۔ ڈاکٹر اندرتھا۔ راشدباہر نکلا اور بولا۔۔۔ ٹھہریے ابھی اباجی کوبھیجتاہوں۔ ہم دونوں کوباہرسڑک پر ہی ٹھہرناپڑاکیوں کہ مولوی کے گھر کوئی بیٹھک ہی نہیں تھی۔ صرف دوکمروں کا گھرتھا، اسی لیے مولوی نے اورنگ زیب ہوٹل کو اپنا ڈرائنگ روم، دیوان خانہ، بیٹھک سبھی کچھ بنایاہواتھا۔

    بڑی دیر تک مولوی باہرنہ آیا۔ جب ڈاکٹر باہرنکلا تو ہم نے ڈاکٹر سے پوچھاکہ کیابات ہے؟ معلوم ہوا کہ مولوی کی بیوی نے خودکشی کی خاطر ڈیڑھ تولہ افیون کھالی تھی۔ رفیع پھر ڈاکٹر کے ساتھ غالبا دوائی لینے چلاگیا۔

    ہمیں یقین ہوگیا کہ مولوی نے سچ مچ مولویوں کی دیرینہ روایات کوبرقراررکھا ہے۔ وہ اب ہم سے ملنانہیں چاہتا۔ ہم واپس جانے ہی والے تھے کہ اچانک میری نظر دروازے پرپڑی جوذرا سا کھلاہوا تھا اور جس میں سے مولوی چور کی طرح جھانک رہاتھا۔ میں نے اسے پہچان لیا اورقریب جاکرکہا، ’’مولوی دروازہ کھولو۔ چھپنے سے کیافائدہ۔ ہم تمہارے بے تکلف اورہمدرد دوست ہیں۔ اگرتمہیں اب بھی ہماری مددکی ضرورت ہے توہم تیارہیں۔ ہم اسی لیے تمہارے پاس آئے ہیں۔‘‘

    مولوی نے دروازہ کھول دیا۔ ہم اندرداخل ہوئے۔ وہ کمرہ نہیں تھابلکہ باورچی خانہ، غسل خانہ، کباڑ خانہ سبھی کچھ تھا، جس میں ایک طرف چولہاتھا، دوسری طرف نلکاتھا۔ ٹرنک رکھے تھے۔ جھوٹے برتن پانی کی بالٹی کے پاس پڑے تھے۔ مولوی نے ہمیں ٹرنکوں پر بیٹھنے کے لیے کہا اورخودمیلے کپڑوں کی بڑی سی گٹھری پربیٹھ گیا۔ اس کا سرجھکاہوا تھا۔ مرجھایاہوا تھا۔۔۔ -تھوڑی دیر ہم تینوں خاموش رہے۔ اس کے بعد میں نے پوچھا، ’’کیوں بھئی۔۔۔ بھابی اب خطرے سے باہرہیں نا۔۔۔!‘‘

    مولوی نے بجھی ہوئی آواز میں جواب دیا، ’’ہاں۔۔۔ بچ گئی۔‘‘

    رشید نے پوچھا، ’’کیو ں بھئی۔۔۔؟‘‘ میں نے غصے سے رشید کی طرف دیکھا۔ میں نہیں چاہتاتھا کہ رشید اس وقت کوئی ایسی بات پوچھے جس کا تعلق کل رات والے واقعہ سے ہو۔ مولوی نے رشید کی طرف دیکھا اورپھرمیری طرف۔۔۔ اورپھر یکبارگی تیزاورغصہ آمیزلہجے میں بولنے لگا، ’’تم میراگھر دیکھ رہے ہو۔۔۔ ایک بڑے مکان کے لیے کوئی پندرہ بیس درخواستیں دے چکا ہوں۔ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ۔۔۔ یہی دوکمرے۔۔۔ بلکہ ایک ہی۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کمرہ ہے۔۔۔؟ اسے کمرہ کہا جاسکتاہے؟‘‘

    وہ ہم دونوں کی طرف دیکھ کرگھورنے گا، جیسے جواب چاہتاہو۔ جیسے اسے معلوم ہے کہ ہم کوئی جواب نہیں دے سکتے، جیسے ہم اس سے مخاطب نہیں، ہم اس کے روزانہ ملنے والے دوست نہیں بلکہ محکمہ آبادکاری کے افسر ہیں۔

    اس نے پھرکہنا شروع کیا، ’’مجھے پاکستان آئے دوسال ہوگئے ہیں۔ دوسال سے میں اپنی بیوی، دوجوان لڑکوں اور تین بالغ لڑکیوں کے ساتھ اس کمرے میں قید ہوں۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ میں کب تک قیدرہوں۔ میں بھی انسان ہوں، میں پاگل ہوجاؤں گا۔ جاؤ، مجھے اسی قیدمیں گھٹ کر مرجانے دو۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ جاؤ۔‘‘ اوروہ خود ہی اٹھ کر اندرچلا گیا۔ اندر سے اس کی بیوی کے کراہنے کی آوازآرہی تھی۔ ہم دوتین لمحے وہیں بیٹھے رہے اور اٹھ کرباہر چلے گئے۔

    رات بھررشیدبالکل خاموش رہا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا بات کی جائے۔ ہم پھر اورنگ زیب ہوٹل میں گئے۔ وہاں محلے کا تھانیدارخاں ریاض احمد بھی بیٹھا چائے پی رہاتھا۔ اس نے ہمیں دیکھ کر چائے پینے کی دعوت دی۔ ہم اس کی میز پر بیٹھ گئے تواس نے پیالی سے چائے طشتری میں انڈیلی۔ دوگھونٹ پئے اورچائے میں بھیگی ہوئی اپنی بڑی بڑی مونچھوں کورومال سے صاف کرتے ہوئے بولا، ’’یاررشید۔۔۔ وہ تمہارا دوست مولوی فتح علی بھی عجیب آدمی نکلا۔۔۔ اپنی بیوی کوسیر کرانے آدھی رات کوگول باغ چلا آیا۔۔۔ لاحول ولاقوۃ۔ ایسے کاموں کے لیے گھرمیں کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔‘‘

    رشیداورمیں یکلخت ایک آواز ہوکرحیرت سے پوچھا، ’’کیا۔۔۔ کیا وہ اس کی بیوی تھی۔۔۔؟‘‘

    تھانیدار اپنی رومیں بولے چلاجارہا تھا، ’’توبہ توبہ۔۔۔ انسان جانور سے بھی بدتر ہوگیاہے۔۔۔ اتنی لمبی لمبی ڈاڑھیوں والوں کو بھی پاکستان کی عزت کا کوئی خیال نہیں، توپھرپاکستان کا کیا حشر ہوگا۔۔۔ کیوں جی؟‘‘

    مگرہم دونوں آبادکاری افسروں کی طرح خاموش چپ چاپ بت بنے بیٹھے رہے۔

    مأخذ:

    کہانیاں (Pg. 626)

      • ناشر: اردو کلاسک، ممبئ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے