Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کالے گلاب کی صلیب

دیوندر اسر

کالے گلاب کی صلیب

دیوندر اسر

MORE BYدیوندر اسر

    سلویا کے کمرے میں جاتے ہوئے مجھے عجیب سی دہشت محسوس ہونے لگی۔

    سلویا کو پہلی بار میں نے ایک پارٹی میں دیکھاتھا۔ پیلے پھولوں والی اسکرٹ اور سرخ بلاؤز میں وہ کتنی شوخ نظر آرہی تھی۔ ایک میز سے دوسری میز تک وہ خوشبو کی طرح تیر رہی تھی۔ عسرت کی لہروں پر جسم کی ناؤ ہچکولے کھا رہی تھی۔

    اور پھر اس رات کو دیکھا تھا جب میں اداس تھا اور کافی دیر تک سڑکوں پر بے کار گھومتا رہا اور وہ اچانک مجھے ایک کراسنگ پر مل گئی۔ شاید وہ بھی میری طرح تنہا درد لیے بھٹک رہی تھی۔

    ’’رکو۔۔۔ تمہیں گھر جانے کی جلدی تو نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’نہیں تو۔۔۔‘‘ شاید اسے معلوم نہیں تھا کہ میرا کوئی گھر نہیں۔

    ’’میں ذرا گھومنا چاہتی ہوں۔‘‘

    ہم پیدل انڈیا گیٹ کی طرف چل پڑے۔

    ’’میں کچھ تھک گئی ہوں۔‘‘ اس کا چہرہ پیلا اور کمزور تھا۔

    میں نے اسے اپنے بازوؤں کا سہارا دینے کی کوشش کی۔

    ’’میرا مطلب جسم کی تھکن سے نہیں۔‘‘

    میں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔

    ’’سگریٹ پیوگے؟‘‘ اس نے پرس سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا۔

    ’’میں نے سگریٹ پینا چھوڑ دیا ہے۔‘‘

    ’’سانس کی شکایت ہے کیا؟‘‘

    چاند ابھی عمارتوں کے پیچھے تھا اور بڑی بڑی عمارتوں کے سایے کشادہ سڑکوں پر پھیل رہے تھے۔ انڈیا گیٹ پہنچ کر ہم کافی دیر تک ننگے پاؤں گھاس پر گھومتے رہے تھے۔ نہر کے کنارے چلتے چلتے ہم دونوں کی پرچھائیاں جھلمل جھلمل کر رہی تھیں۔ ایک لمحے کے لیے خواہش ہوئی کہ کہیں اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دوں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا،

    ’’میں سمجھتی ہوں۔۔۔ لیکن کیا ہماری تسکین ہوسکتی ہے۔ نہیں کبھی نہیں۔ شاید ایک لمحہ کے لیے۔ لیکن کیا ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے کو بھول سکتے ہیں۔ ڈئیر۔ زندگی کی ٹریجڈی یہی ہے کہ ہم اپنی عمر سے کبھی چھوٹے ہوتے ہیں، کبھی بڑے۔ ہماری جہالت بھی ہماری دشمن ہے، ہمارا علم بھی۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

    وہ جیسے کسی سے بات نہیں کر رہی تھی۔

    ’’کبھی جی چاہتا ہے مکمل خودسپردگی کردوں۔ اور کبھی ایک جیسے سائنس داں کی طرح زندگی کو دیکھتے چلے جائیں۔۔۔ بالکل دور کھڑے ہوئے۔۔۔ تمہاری خواہش ہوتی ہے کہ تم ستاروں پر کمند ڈالو۔ آخرش تم مٹی کے ذروں پر دم توڑ دیتے ہو۔‘‘

    شاید میں اس کی باتوں کاجواب دیتا لیکن وہ مجھ سے مخاطب نہیں تھی۔

    ’’تم سوچتے ہوگے میں بڑی میچیور(METURE) ہوں۔ انٹلکچوئل، پروگریسیو، ماڈرن، میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ کاش ہم کسی بچھڑے ہوئے جزیرے کے آدی باسی ہوتے تو شاید اتنے پریشان نہ ہوتے۔ زندگی کے سفر میں کتنے لوگ ملتے ہیں۔ اجنبی اور جانے پہچانے رشتے بنتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم کتنے قریب ہیں اور کتنے دور۔ شاید ہم ازل سے تنہا اور ابد تک تنہا رہیں گے۔۔۔‘‘

    ’’لیکن پھر بھی ہم کسی ماورائی رشتے سے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ماورائی رشتے سے یا جسم کے رشتے سے؟‘‘ وہ بڑے زور سے ہنسی اور میں پہلی بار کسی کے ہنسی سے اتنا ڈر گیا تھا۔

    ’’کافی دیر ہوگئی ہے۔۔۔ چلیں۔‘‘ اس نے اچانک جیسے کسی خیال سے ڈرتے ہوئے کہا۔

    ایک طرف روشنیوں کاشہر تھااور دوسری طرف جنگل کا بھیانک اندھیرا تھا۔ درختوں اور پودوں کے سایے زمین پر سو رہے تھے۔ گھاس پر چاندنی بچھی ہوئی تھی۔ درخت بالکل گم سم کھڑے تھے۔ ہر چیز چاندنی میں ڈھلی ہوئی تھی۔ ہوا میں خشکی اور چاندنی کا غبار تحلیل تھا۔ اور مکمل سناٹا تھا اور جسم جیسے بالکل سن ہوچکے تھے۔ ایک برق رو جھٹکے کے بعد۔

    سلویا اپنے خوابوں کو حقیقت سمجھ کر جی رہی تھی۔ اور ایک دن جب اسے اچانک احساس ہوا کہ اس کے تصور اور حقیقت میں ایک وسیع خلیج حائل ہے اور وہ اس پر نہ اپنی بانہوں کا پل باندھ سکتی ہے اور نہ روح کا ڈورا تو وہ مایوس ہوگئی اور زندگی اس کے لیے ایک بے معنی، بے منزل، چھٹ پٹاہٹ کے سوا کچھ نہ رہ گئی۔ موہن لاتریک کو پولیس اسی دن پکڑلے گئی جب سلویا نے خودکشی کی تھی۔ کتنا بے رحم اور کتنا جذباتی تھا موہن لاتریک۔

    میں کمرے میں اکیلا رہ گیا تھا ہمیشہ کی طرح تنہا، اس کمرے میں موہن لاتریک کی بنائی ہوئی تصویریں تھیں۔ رات کے اندھیرے میں اڑتے ہوئے پراسرار اجنبی پرندے، انسانوں اور جانوروں کے کٹے پھٹے مسخ چہرے، گہرے گھنے جنگل اور گہری اندھیری غار یں اور صلیب کانشان ہر چہرے پر، ہر پھول پر، ہر پرندے کے پنکھ پر۔ کمرے میں تصویریں تھیں اور سلویا کے آرائش اور زیبائش کی چیزیں تھیں۔ ادھر ادھر گہری، بکھری ہوئیں، آرام کرسی اور چائے کی پیالیاں تھیں۔ اوندھے منہ پڑی ہوئیں۔ خون کے دھبے تھے۔ سیاہ جمے ہوئے اور گوتم بدھ کا کانسے کا مجسمہ تھا۔ اور ٹوٹے ہوئے قد آدم آئینے میں ایک چہرہ منعکس تھا۔ جذبات سے عاری، اندھا۔ میرا یا سلویا کا یا شاید موہن لاتریک کا۔ یا سب کا ملاجلا ایک چہرہ اور میں گھبراکر کمرے سے باہر نکل آیا۔

    جب میں آخری بار اپنے کمرے میں واپس آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ کمرے کی سب چیزیں حرکت میں ہیں۔ تصویروں کے پرندے عالم بے قراری میں دیواروں سے ٹکرارہے تھے۔ آئینے میں موہن لاتریک اور سلویا کااور میرا چہرہ گردش میں تھا، اور کونے میں پڑا گوتم بدھ کا مجسمہ کہہ رہا تھا۔ بدھم شرنم گچھامی۔

    اور پھر میں نے اپنے آپ کو عدالت کے کمرے میں پایا جہاں موہن لاتریک کٹہرے میں کھڑاتھا۔

    کورٹ روم میں داخل ہوتے ہی مجھے کسی سیلاب زدہ مکان کی یاد آئی۔ خستہ حال دیواریں، جابجا اکھڑا ہوا پلستر، بوسیدہ فرش، سیلایا، ایک پرانا شکستہ بنچ اور ایک میل خوردہ کرسی، سارے ماحول پر سیلن، میل اور اندھیرے کا سایہ تھا۔ معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ صاحب لنچ کے بعد تشریف لائیں گے اور ان کچھ گھنٹوں کا انتظار بغیر کچھ کیے، گھومے، سوچے کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ لنچ کے بعد مجسٹریٹ صاحب تشریف لائے۔ لکڑی کے جنگلے کے پیچھے ڈائس پر وہ بیٹھ گئے۔ کٹہرے میں موہن لاتریک کھڑا تھا۔ اور فائلوں سے بھری الماری، بڑے سے کلاک اور دھول سے اٹے کیلنڈر کو دیکھ رہا تھا جو دیوار کا ہی حصہ بن چکا تھا۔

    مجسٹریٹ صاحب نے موہن لاتریک کو غور سے دیکھا۔ اس کا حسب نسب دریافت کیا اور کچھ کاغذی خانہ پوری کی۔ الزامات کی فہرست پڑھ کر سنائی گئی۔ موہن لاتریک نے کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔ اس وقت میرے ذہن میں نہ معلوم کیوں بادلوں کے پیچھے اونچائی میں اڑتے ہوئے ہوائی جہاز کی تصویر گھوم رہی تھی۔ ایک دم مجسٹریٹ صاحب کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔

    ’’کیا آپ اقبال کرتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘ وہ چونک پڑے۔ موہن لاتریک کا وکیل رومال سے عینک صاف کرنے لگا۔

    ’’کیا؟‘‘ اس کی آواز آئی۔ وکیل استغاثہ اس کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔

    ’’کیا آپ اقبال جرم کرتے ہیں؟‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ میں اقبال کرتا ہوں۔‘‘ اور وہ یوں ہی مسکرادیا۔ مجسٹریٹ صاحب نے وکیل کی طرف دیکھا۔

    ’’معاف کیجیے گا۔ یوں ہی کچھ یادآگیا۔‘‘ موہن لاتریک نے کہا۔ وکیل صاحب نے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ ہلائے۔ موہن لاتریک فوراً بولا، ’’آپ کیس لڑنا چاہتے ہیں لیکن مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘

    مجسٹریٹ صاحب چند منٹوں تک کاغذ پر نظریں ٹکائے کچھ سوچتے رہے۔ استغاثے کاوکیل بحث کرتا رہا۔ ظاہر ہے جب موہن لاتریک کو کیس میں دلچسپی نہیں ہے تو اور کسے ہوسکتی ہے۔ لاتعلقی سے تعلق پیدا نہیں ہوسکتا۔

    جب ہم کورٹ روم سے باہر آئے تو وکیل صاحب نے سوال کیا، ’’یہ آپ نے کیاکیا؟ کیس تو کچھ بھی نہیں تھا، آپ باعزت رہا ہوجاتے۔ خیر اب بھی کوشش کروں گا۔‘‘

    موہن لاتریک نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’شاید آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن اس گرمی میں، آسیب زدہ ماحول میں مجھے وحشت محسوس ہوتی ہے اور مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ میں بار بار اس کمرے کی زیارت کرسکوں۔‘‘

    ’’پتھر کا فرش، پتھر کی دیواریں اور پتھر کا بستر۔ لوہے کے دروازے اور سلاخوں والی کھڑکی اور ایک گوشت پوشت کا سانس لیتا آدمی۔ کبھی کبھی کوئی سایہ سلاخوں کے باہرسے گزرتا نظر آجاتا ہے۔ اور لوہے کے دروازے کے سوراخ سے کھانا اندر آجاتا ہے اور چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں، جس کے باہر ساری دنیا تھی اور جس کے اندر سہمی ہوئی زندگی تھی۔ رات کی تنہائی میں کوئی لالٹین لیے سلاخوں میں سے اندر جھانک جاتا ہے کہ تم زندہ ہو۔ موجود ہو اور دور سے آوازیں آتی ہیں۔ جنگلا، تالا، بتی سب ٹھیک ہے۔ اور رات کے سناٹے میں وقت کی آواز دیر تک گونجتی رہتی ہے۔‘‘

    موہن لاتریک جب ملا تو اس نے کہا تھا۔

    ایک دن گھومتے گھومتے گھومتے میں پھر قبرستان پہنچ گیا، جہاں سلویاکی قبر تھی۔ رات سرد اندھیری تھی۔ سوکھے پتے زمین پر اڑ رہے تھے۔ میرے قدموں تلے پتے کھڑ کھڑانے کی آوازیں اس سناٹے میں صاف سنائی دیتی تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ سلویا کی قبر سے ایک سایہ سا لپک کر سامنے پیڑ کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ میں ٹھٹک گیا۔ پیڑ سے سایہ پھر نمودار ہو اور سلویا کی قبر پر پریت کی طرح چھا گیا۔ قبر پر کالے گلاب کے پھولوں کی صلیب پڑی تھی۔ یہ کون ہے جو اتنی رات گئے سلویا کی قبر پر بھوت سا منڈلا رہا ہے۔ میں نے دیکھا وہ آدمی قبر کے پاس دوزانو بیٹھ گیا۔ اس کی چھاتی پر چاندی کی ننھی سی صلیب لٹک رہی تھی۔ لیکن تعجب کی بات یہ تھی کہ وہ سادھوؤں کے گیروے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ میرے سر کے پاس سے کوئی پرندہ ایک دم اڑ گیا۔ میں سہم کر پیچھے ہٹا۔ پتے شور سے کھڑکھڑائے۔

    ’’کون؟‘‘ سادھو نے یک لخت مڑ کر پکارا۔

    ’’ایک آدمی!‘‘ میں نے جواب دیا۔

    میں نے غور سے سادھو کی طرف دیکھا۔ صاف کھلتا ہواچہرہ۔ چمکتی ہوئی تیز آنکھیں۔ میرے منہ سے اچانک نکل گیا۔ موہن لاتریک!

    ’’گورودیو!‘‘ وہ چلایا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ تھوڑی دیر تک ہم بالکل خاموشی رہے۔

    ’’گورودیو۔ تم یہاں کیسے؟‘‘ اس نے پوچھا۔

    ’’اور تم؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’لیکن تم تو ستھت پرگیہ ہوچکے تھے۔‘‘ وہ بولا۔

    ’’لیکن پرگیہ سے محروم تو نہیں ہوا؟‘‘ میں نے کہا۔

    ’’یہ سب کیا ہے لاتریک؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’میں کیا ہوں؟ تم کیا ہو؟ یہ زندگی کیا ہے؟ میں کیوں زندہ ہوں؟ موت کیا ہے؟ عشق کسے کہتے ہیں؟ آدمی کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ ایشور کہاں ہے؟ دوزخ کیا ہوتی ہے؟ جسم کی جنت کیا چیز ہے؟ زندگی نے مجھ سے کئی سوال کیے۔ اس کا کوئی جواب میرے پاس نہیں اور سوال ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں اور میں برسوں سے ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں گھوم رہا ہوں۔‘‘

    اس نے کسی پہنچے ہوئے سادھو کی طرح کہا۔ اس نے سلویا کی قبر سے ایک پھول اٹھایا اور مجھے پیش کیا۔

    ’’لیکن۔۔۔‘‘ میں مکمل طور پر گڑبڑاگیا۔

    ’’تم جانتے ہو گرودیو۔ سلویا کاآئینہ اندھا ہوگیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔

    ’’یہ تم سب کیا کہہ رہے ہو لاتریک؟‘‘ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔

    ’’ایک روز اپنے شب خوابی کے لباس میں سلویا میرے پاس چلاتی ہوئی آئی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں روج کی ڈبیا تھی اور وہ کہہ رہی تھی، لاتریک آئینہ یک لخت اندھا ہوگیا ہے۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں نے پوچھا۔ کیوں کیا ہوا؟ وہ بولی میں اپنے چہرے کی آرائش کر رہی تھی کہ کیا دیکھتی ہوں آئینے میں ایک بہت خوبصورت پری مسکرا رہی ہے۔ اس نے مجھے اپنے پاس بلانے کااشارہ کیا۔ میں اس کی جانب لپکی اور کیا دیکھتی ہوں کہ آئینہ اندھا ہوچکا تھا اور پری غائب ہوچکی تھی۔ پھر سلویا واپس اپنے کمرے میں لوٹ گئی اور بستر پر اوندھے منہ پڑی پڑی روتی رہی۔‘‘

    موہن لاتریک کہہ رہا تھا اور میں قبرستان کے عظیم سناٹے میں خوف زدہ حیرت سے کبھی اسے دیکھتا اورکبھی سلویا کی قبر کو۔

    ’’سلویا اپنے چہرے کی تلاش میں تھی۔ اپنے اصلی چہرے کی۔ لیکن اسے اپنا اصلی چہرہ نہیں مل رہاتھا اور وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے چہرے کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی۔ اس کی خواہش تھی کہ میں اس کاپورٹریٹ بنادوں۔ کاش میں چہرے کی تصویراتارسکتا۔‘‘ موہن لاتریک نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔

    ’’اور یہ تمہارے گیروے کپڑے اور چھاتی پر لٹکی صلیب۔‘‘ میں نے پوچھا۔

    اس نے کہا، ’’میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔ بڑا بھیانک خواب۔ اس رات جب سلویا نے خودکشی کرلی تھی۔‘‘

    موہن لاتریک نے مجھے اپنا خواب سنایا۔

    ’’میں کیا دیکھتا ہوں کہ بڑے زور کا زلزلہ آیا۔ چھت کی کڑیاں چٹخ جاتی ہیں۔ اینٹیں اور شہتیر فرش پر آگرتے ہیں۔ میں، میری تصویریں اور بدھ کا مجسمہ ملبے کے ڈھیر کے نیچے دب جاتے ہیں۔ میں زور زور سے چیختا ہوں۔ چلاتا ہوں۔ بوجھ اور درد سے کراہتاہوں۔ لیکن کوئی میری آواز نہیں سنتا۔ میری آواز میرے ہی جسم سے ٹکراکر واپس آجاتی ہے اور دم توڑدیتی ہے۔ مجھے بس ایسا محسوس ہوتا رہا ہے کہ میرے جسم کے اوپر پتھر کی بھاری چٹانیں ہیں اور پھر ایک آخری دھماکے کی آواز سنائی دیتی ہے۔

    پھر چیخ، پھر قہقہہ اور پھر جیسے سارے عالم کے کتے بھونکنے لگتے ہیں اور میں ملبے کے ڈھیر کے نیچے پتھر کی بھاری چٹانوں کے نیچے دھماکے کی گونج، چیخ، قہقہے اور کتوں کے بھونکنے کی آوازوں میں گھرا سسک سسک کر دم توڑدیتا ہوں۔ یہ مردوں کی بستی ہے جہاں ہر چیز مردہ ہے، سوائے جھلسے ہوئے آدمی کے چہرے کے، جو ہیروشیما کی چٹان پر ابھی تک منعکس ہے۔ پھر جانتے ہو کیا دیکھتا ہوں۔ میرے بالکل قریب جسم کے دائرے میں دبکی ایک سیاہ بلی بیٹھی ہوئی ہے، خوف زدہ، جیسے کسی اچانک حملے سے ڈر کر سمٹ کر بیٹھ گئی ہو۔ اور وہ ایک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ میں بے اختیار چلاتا ہوں۔ اور میرا خواب ٹوٹ جاتا ہے۔ اور تم کہاں تھے گورودیو؟‘‘

    میں نے دیکھا موہن لاتریک پسینے سے تربتر تھا۔ جیسے واقعی دوزخ کی آگ میں سے نکل کر آیا ہو۔

    ہم قبرستان سے بہت دور نکل چکے تھے۔ وہ مجھے وہاں لے گیا جہاں وہ ان دنوں پناہ گزیں تھا۔ ایک ٹوٹے پھوٹے مکان کے برآمدے میں جس کے سامنے ایک بوڑھے شیشم کا ایک درخت پہرہ دے رہا تھا۔

    ’’لوگ کہتے ہیں کہ اس درخت پر بھوت بستے ہیں اور ہر رات کو اس مکان کے آنگن میں ناچتے ہیں‘‘ موہن لاتریک نے کہا۔

    ’’کیا تم نے بھوت دیکھے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’لیکن میں نے انہیں باتیں کرتے سنا ہے، ناچتے ہوئے، گاتے ہوئے، آؤ اور قریب آؤ۔ تمہیں بتاؤں۔ سنو۔‘‘

    وہ مجھے مکان کے آنگن میں لے گیا۔ اجڑا ہوا مکان، جو واقعی بھوتوں کا مسکن معلوم ہوتا تھا۔ پرانی خستہ دیواریں۔ دھوئیں اور دھول سے سیاہ اور میل سے اٹا اور جگہ جگہ سے اکھڑا۔ سلین بھرا۔ ایک کھڑکی میں اکیلا کبوتر بیٹھا تھا اور فرش پر ایک نیولا ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ ایک کونے میں دو تین آدمی گانجے کے نشے میں دھت آگ تاپ رہے تھے۔ شعلوں کی لو میں ان کی لپکتی ہوئی پرچھائیاں موہن لاتریک کی تصویروں کی طرح ابھر مٹ رہی تھیں۔

    بالکل خاموش، بے حرکت، بے نور بوڑھے چہرے جیسے آدم کے ساتھ ان کا جنم ہوا ہو اور یگوں یگوں سے وہ اسی طرح خاموش، بے حرکت بیٹھے آگ تاپ رہے ہیں۔ آگ جو متواتر جلتی جارہی ہے اور چہرے جو زیادہ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں۔ بے نور، بدشکل۔

    ’’کچھ سنا تم نے۔‘‘ موہن لاتریک نے پوچھا۔

    ’’نہیں یہاں تو مکمل سناٹا ہے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔

    میں ہمہ تن گوش ہوگیا لیکن وہاں تو واقعی گہری خاموشی تھی۔ میں نے نفی میں سر ہلادیا۔ موہن لاتریک زور سے ہنسا۔ بالکل پاگلوں کی ہنسی۔ میں سہم گیا۔

    سب چہرے ایک دم حرکت میں آگئے۔ جیسے تصویریں زندہ ہوگئی ہوں۔ سب آدمی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور الاؤ کے گرد تالیاں بجابجا کر ناچنے لگے۔ شعلے اور سایے ایک دوسرے کو ڈسنے لگے۔ وہ زور زور سے گا رہے تھے۔

    سولی اوپر سیج پیا کی کیسے سونا ہورے

    ہے ری میں تو۔۔۔

    خوف نے جیسے مجھے جکڑ لیا۔ میں تیزی سے باہر کی طرف لپکا اور تیز تیز قدموں سے بھاگنے لگا۔ جیسے میرے پیچھے ناچتے گاتے شورمچاتے بھوت دوڑتے آرہے ہیں۔ ان کی آوازیں دور تک میرا پیچھا کرتی رہیں۔ اور پھر یہ آوازیں مدھم ہوتے ہوتے اندھیرے میں ڈوب گئیں۔ میں رک کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

    موہن لاتریک کے قہقہے ابھی تک میرا تعاقب کر رہے تھے۔

    مأخذ:

    کینوس کا صحرا (Pg. 16)

    • مصنف: دیوندر اسر
      • ناشر: پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز کرشن نگر، دہلی
      • سن اشاعت: 1982

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے