Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کہر آلود ندی

شبیر احمد

کہر آلود ندی

شبیر احمد

MORE BYشبیر احمد

    گلوبل وارمینگ دنیا والوں کے لیے ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اس بارے میں ٹی وی پر آئے دن چرچے ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت بھی ہو رہے تھے۔ چرچے میں شامل سبھی حضرات اس بات پر متفق تھے کہ اس آفت کی سب سے بڑی وجہ فضا میں کاربن ڈائی اکسائیڈ گیس کا اضافہ ہے۔ یہ گیس بھی عجب شے ہے جتنی تیزی سے حرارت جذب کرتا ہے اتنی تیزی سے حرارت خارج بھی کرتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر گرمی اور سردی دونوں ہی شدید رخ اختیار کر لیتی ہیں۔ لہٰذا اس بار بھی سردی شدید تھی۔

    سین مہاشے رضائی اوڑھے پلنگ پر لیٹے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ رہ رہ کر زور زور سے پلکیں جھپکا رہے تھے۔ ناک بھوں بھی سکیڑ رہے تھے۔ سکیڑ نے والی بات بھی تھی۔ چرچے میں شامل ایک حضرت گرمی سے گلیشیر پگھلنے سے متعلق بڑی پرزور طریقے سے اپنی تشویش کا اظہار فرما رہے تھے۔ سین مہاشے نے برا سا منہ بناکر بدبداتے ہوئے کہا، ”ہونہہ، یہاں رگوں میں خون کے جم جانے کی نوبت آ گئی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ گلیشیر پگھل رہا ہے۔“ اتنا کہہ کر انھوں نے ٹی وی بند کردیا۔ دو دنوں سے اس قدر سردی پڑ رہی تھی کہ کمزوروں اور ضعیفوں کا گھر سے باہر نکلنا ہی محال ہو گیا تھا۔

    گھڑی نے تین کا گھنٹہ دیا اور سین مہاشے نے گھڑی کی طرف نظریں پھیرتے ہوئے رضائی پیچھے کی جانب کھسکائی اور بستر پر کہنیاں ٹیکتے ہوئے دھیرے دھیرے اٹھ کر بیٹھنے لگے۔ گھٹنوں کا درد بڑھ گیا تھا۔

    انھوں نے گھٹنوں پر ہتھیلیاں رکھیں اور آہستہ آہستہ کئی بار چکریاں ہلائیں۔ ہونٹ پر ہونٹ دبائے بڑی مشکل سے تین چار مرتبہ پاؤں سمیٹے اور پھیلائے اور کہا، ”سین کچھ بھی ہو، آج تو تجھے جانا ہی پڑےگا۔“

    اور پھر وہ پلنگ سے اتر کر دیوار کے سہارے غسل خانے میں داخل ہو گئے۔ ضروریات سے فارغ ہوکر جب نکلے تو گھٹنوں کی جکڑن قدرے کم ہو چکی تھی۔

    سین مہاشے گرمی کے دنوں میں سفید دھوتی کرتا پہنا کرتے ہیں اور سردی کے دنوں میں اندرایک تھرمو کوٹ کی بنیان اور اوپر اونی نیم آستین ڈال لیتے ہیں۔ مگر آج موسم کا مزاج کچھ زیادہ ہی بگڑا ہوا تھا۔ صبح ہی سے شمالی سرد ہواؤں نے پورے علاقے کو اپنی زد میں لے رکھا تھا۔ لہٰذا انھوں نے دھوتی کرتا کے اندر احتیاطاً تھرموکوٹ کا پاجامہ بھی پہن لیا۔ اوپر سے اونی نیم آستین ڈال لی۔ منکی کیپ سے اچھی طرح سر اور کان ڈھانک لیے۔ کندھے پر کشمیری شال بھی تہ کر کے رکھ لی۔ دستانے اور موزے پہن لیے۔

    باہر نکلنے سے پہلے انھوں نے شال کے ایک کونے سے عینک صاف کی اور آئینے کے روبرو کھڑے ہو کر ایک بار بغور اپنی آنکھوں میں جھانکا۔ دو چار سرخ ڈوروں کے سوا انھیں کچھ اور دکھائی نہ دیا۔ بہو کو آواز دے کر دروازہ بند کرنے کو کہا اور چھڑی ٹیکتے ہوئے پارک کی طرف چل دیئے۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد سے پارک میں جانا ان کا معمول بن گیا تھا۔ بیوی جب تک زندہ تھیں تو ہوا خوری کے لیے صبح و شام دونوں ہی وقت پارک جایا کرتے تھے۔ لیکن بیوی کے گزر جانے کے بعد صرف شام کے شام ہی جاتے ہیں۔

    آج وہ پونے چار بجے ہی پارک پہنچ گئے تھے۔ قدرے پریشان لگ رہے تھے۔ پھاٹک کے پاس بوڑھے برگد کے پیڑ کے نیچے آ کھڑے ہو گئے۔ پہلے سیمنٹ کی بنچ کی طرف نظر دوڑائی، پھر مڑ کر پھاٹک کے باہر دائیں بائیں دیکھا، ایک لمبی سرد آہ بھری اور چھڑی زمین پر مارتے ہوئے من ہی من کہا، ”معلوم نہیں مشراجی کا کیا حال ہے؟ مجھے تو امید کم لگتی ہے!“ اس کے بعد وہ زور زور سے پلکیں جھپکانے لگیں۔ جیسے کوئی شے ان کی آنکھوں سے چپک گئی ہو۔

    ادھر کئی برسوں سے سین مہاشے کو دور کی چیزیں صاف دکھائی نہیں دیتیں، عینک پہننے سے بھی نہیں۔ سردی کے دنوں میں پپوٹے پھول جاتے ہیں۔ پتلیوں پر ایک تیڑھی میڑھی نقرئی لکیر نمودار ہوتی ہے اور تھوڑی دیر بعد دھند میں دھندلا کر اوجھل ہو جاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو سین مہاشے کے دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے۔ وہ پرارتھنا کرنے لگتے ہیں، ”اے، بھگوان یہ سردی جلدی سے گزار دے!“

    اس بار جب فروری کا مہینہ ختم ہونے کو آیا تھا اور سردی کا زور گھٹنے لگا تھا تو انھوں نے راحت کی سانس لی تھی۔ لیکن پرسوں رات تھوڑی سی بوندا باندی کیا ہوئی کہ سردی الٹے پاؤں لوٹ آئی اور اس کے ساتھ سین مہاشے کی پتلیوں پر نقرئی لکیر کے بننے اور دھند میں دھندلا جانے کا عمل پھر سے شروع ہو گیا!

    کل شام بھی سردی بہت تھی، پھر بھی اکثر بوڑھے مقررہ وقت پرہی پارک میں جمع ہو گئے تھے۔ ویسے تو کلکتہ میں اب پارک کہاں رہا۔ گنتی کے جو دو چار بچے ہیں ان کے مقابلے شمالی کولکاتا کا یہ پبلک پارک قدرے کشادہ اور شاداب ہے۔ باؤنڈری وال سے لگے ہوئے ڈابھ، اشوک، بکول، پولاش، آڑو، برگد، نیم، ببول اور پیپل کے کئی گھنے درخت ہیں۔ جگہ جگہ جوہی، رادھا چوڑا، کرشن چوڑا، جباکسم جیسے پھولوں کی جھاڑیاں بھی ہیں۔ دو چار گلاب کے پودے بھی ہیں۔ بیچ میں ایک جھیل ہے اور جھیل کے بیچوں بیچ چھوٹا سا ایک ٹیلہ۔ کنکریٹ کا ایک پل اس ٹیلے کو کنارے سے جوڑتا ہے۔ جھیل کے چاروں طرف جگہ جگہ بیٹھنے کے لیے سیمنٹ کی بنچیں بنی ہوئی ہیں۔ ٹہلنے والوں کے لیے کول تار کا ایک تنگ راستہ بھی بنا دیا گیا ہے، جس پر جوان سبک روی سے اور بوڑھے سست روی سے چل کر جھیل کا طواف کرتے ہیں۔ کل بھی حسب ِعادت وہ چاروں بوڑھے جھیل کا طواف کر رہے تھے کہ اچانک مشرا جی کا بایاں انگ جھنجھنا اٹھا۔ مگر انھوں نے پروا نہیں کی۔ چلتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد چھاتی میں ہوک سی اٹھی اور پھر درد سے سینہ پھٹنے لگا۔ سانس چڑھنے لگی۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ وہ خاصے فربہ تھے۔ ایسا فربہ اندام آدمی اگر زمین پر گر جاتا تو کوئی بڑا حادثہ ہو جاتا۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بوس بابو ان کے پیچھے تھے۔ لپک کر انھیں تھام لیا۔ نہایت مستعدی اور ہمت سے کام لیا، کہا، ”آپ لوگ گھبرایئے مت۔ میں ہوں نا! میں دیکھتا ہوں۔“

    اور پھر انھوں نے اپنی جیب سے بٹوا نکالا۔ اس میں سے سوربٹریٹ کی ایک گولی نکال کر مشرا جی کی زبان کے نیچے ڈال دی۔ دوستوں نے سہارا دے کر مشرا جی کو پاس والی بنچ پر لٹا دیا۔ بوس بابو چھاتی سہلانے لگے۔ تھوڑی دیر سہلاتے رہے۔ پھر رکشا بلا کر انھیں گھر پہنچانے لے گئے۔ اس روز گھوش بابو اور حنیف بھائی نہیں آئے تھے۔ مسٹر پال اور سین مہاشے بھی جانا چاہتے تھے لیکن بوس بابو بولے، ”آپ کہاں خوامخواہ پریشان ہونے جائیں گے۔ میں ہوں نا۔ ضرورت پڑنے پر آپ کو فون کر دوں گا۔“ اور بوس بابو کے اصرار کے آگے ان دونوں کو ہتھیار ڈال دینا پڑا۔

    بوس بابو در اصل ضدی طبیعت کے آدمی تھے۔ اپنے آگے کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ ہیلتھ اینڈ سوشل ویلفئر ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی ان کے سر سے شوسل ویلفیئر کا بھوت نہیں اترا تھا بلکہ اور بھی سوار ہو گیا تھا۔ صحت ابھی گری نہ تھی، دوستوں کے مقابلے عمر بھی کم تھی۔ فعال بھی کم نہ تھے۔ ہر کام میں پل پڑتے تھے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے۔ گرمی کا موسم تھا۔ بنچ پر بوڑھوں کا اڈا جما ہوا تھا۔ جھیل میں کچھ نوعمر لڑکے تیراکی کے کرتب دکھا رہے تھے۔ ایک لڑکا تیر تا ہوا جھیل کے بیچوں بیچ گیا اور ٹیلے پر چڑھ گیا۔ چلا کر چرچل کی طرح دو انگلیوں کی مدد سے 'V' کا نشان بنا کر اچھلتا ہوا اپنی فتح کا اعلان کر رہا تھا کہ اچانک پاؤں پھسلا اور وہ دھم سے زمین پر گر پڑا۔ عورتیں چلا اٹھیں۔ مرد چیخ پڑے۔ 'بچاؤ بچاؤ' کی آواز گونجنے لگی اور تبھی بوس بابو تیرکی طرح چھوٹ پڑے۔ کنکریٹ پل سے گزر کر لڑکے کے پاس پہنچے اوراسے کندھے پر لاد کر کنارے لے آ ئے۔ لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے مگر انھوں نے لڑکے کو بنچ پر بٹھایا اس کے ہاتھ پاؤں کی انگلیاں کھینچیں۔ اسے ہاتھ پاؤں جھاڑنے کو کہا اور پھر ڈانٹ پلاتے ہوئے بولے، بیٹا، اتنی ہیروگیری دکھانے کی کیا ضرورت۔۔۔؟“

    ابھی ان کا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ لڑکا اٹھا، کندھے سے سٹا کر گردن دائیں بائیں ہلائی اور مسکراتا ہوا ایسے چل دیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو!

    مسٹر پال نے بوس بابو کو مخاطب کر کے کہا، ”دس از نیو جنریشن، یو نو! بوس، تم انھیں نہیں سدھار سکتے۔ الٹے یہ تمہیں سدھار دیں گے!“

    اتنا سننا تھا کہ تمام بوڑھے بوس بابو کو دیکھ کر کھلکھلانے لگے۔

    گھوش بابو نے کھانستے ہوئے کہا، ”بوس، بوڑھے ہو گئے ہو، اس عمر میں اتنی دوڑ بھاگ اچھی نہیں۔“

    اس کے بعد مسٹر پال نے واکنگ اسٹیک کمر سے ہٹایا۔ اسٹیک سامنے رکھی اور اس سے پیشانی ٹیک کر مسکراتے ہوئے چٹکی لی، ”ارے، کہیں اس میں فیضو کی اسپریٹ تو نہیں انٹر کر گیا ہے؟“

    ”فیضو کی آتما!“ گھوش بابو نے اِن ہیلر کی مدد سے سانس کی نلی میں دوا چھوڑی، حیرت سے مسٹر پال کو دیکھا، ”کون، وہ سماج سدھار نیتا جو۔۔۔؟“

    ہاں ہاں وہی۔“ اور اس کے ساتھ ہی مسٹر پال شروع ہو گئے، ”ڈو یو نو، اس نے ایک دن کیا کیا؟“

    گھوش بابو نے ان ہیلر جیب میں رکھتے ہوئے مداخلت کی، ”کیا کیا ہوگا؟ جھولا لٹکائے کسی کو لے کر تمہارے گھر آ دھمکا ہوگا۔ کہا ہوگا، ”اس کی بیٹی کی شادی ہے چاول، گوشت یا پھر دلہے کے سوٹ کا بندوبست کر دیجئے۔“

    ”او نو بوس، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔“ مسٹر پال نے بمشکل ہنسی روکی اور کہا، گھر میں اس کے سن کا سر پھوٹ گیا۔ وائف ہوسپٹل لے جانے کو کہا تو وہ بولا کہ اسے ایک امرجنسی میٹنگ میں جانا ہے۔ جب اس کا وائف سن کو ہوسپٹل لے کر گیا تو دیکھا، فیضو وہاں پہلے سے پریزنٹ ہے۔ وائف سوچا، ”آخراسے بچے کا پیار وہاں کھینچ ہی لایا!“ لیکن دوسرے مومنٹ اس کا وائف فائر ہو گیا۔ بات ہی کچھ ایسا تھا۔“ اتنا کہہ کر وہ کھلکھلانے لگے۔

    گھوش بابو کی پیشانی پر اکتاہٹ کی نشانیاں ابھرنے لگی تھیں۔ ہانپتے ہوئے بولے،

    ”او، مسٹر براؤن امریکن پہلے منہ بند کر کے اچھی طرح کھلکھلا لے، نہیں تو بتیسی باہر آ جائےگی۔“

    مسٹر پال کچھ دیر ہنستے رہے اور جب ہنسی کا فوارہ قدرے کم ہوا تو گویا ہوئے، ”پتا چلا کہ فٹ بال کھیلتے وقت محلہ کے ایک لڑکے کے لیگ میں موچ آ گیا تھا۔ فیضو اس کو ہی لے کر ہوسپٹل گیا تھا۔“

    اتنا سننا تھا کہ تمام بوڑھے ہنس پڑے۔ گھوش بابو نے بھی مسکرا دیا۔ سین مہاشے کو مخاطب کرکے کہا، ”دادا، میرا کیا؟ نہ آگے نتھ، نہ پیچھے پگھہ! بھگوان نے کوئی اولاد نہیں دی۔ ایک بیوی دی تھی سو اسے بھی اٹھا لیا۔“

    یہ سنتے ہی سین مہاشے کی ہنسی ایک دم سے غائب ہو گئی۔ وہ گمبھیر ہو گئے۔ موت کا ذکر سنتے ہی ادھر وہ اسی طرح گمبھیر ہو جاتے تھے۔

    (دو)

    آج بھی وہ گمبھیر تھے۔ اس قدر گمبھیر کہ جھیل کا چکر بھی نہیں لگایا۔ وہ بڑی بیتابی سے بوس بابو کا انتظار کر رہے تھے۔ مشرا جی کا حال جاننا چاہتے تھے۔ من ہی من بولے، ”مشرا جی بھی عجب لکیر کے فقیر ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ہیں کہ ایک موبائل تک نہیں رکھتے اور اس بوس کے بچے کو کیا ہو گیا۔ کمبخت کہہ کر گیا تھا کہ فون کروں گا۔ فون کرنا تو درکنار اس نے کل سے اپنا موبائل ہی بند کر رکھا ہے! اب لگتا ہے مجھے ہی مشرا جی کے گھر جانا پڑےگا۔“

    وہ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ گھوش بابو حنیف بھائی کا ہاتھ تھامے وارد ہوئے۔ حنیف بھائی خاصا تندرست تھے۔ نوابوں کی مانند سینہ تانے سیر کو چلے آتے تھے۔ بے باک طبیعت کے مالک تھے۔ لیکن گزشتہ سال برین اسٹراک ہوا اور جسم کا دایاں حصہ فالج زدہ ہو گیا۔ چھ مہینے بستر ِ علالت پر پڑے رہے۔ جب تھوڑے چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو کبھی کبھار پارک میں آ جاتے تھے۔ گھوش بابوان کے پڑوسی تھے۔ وہی انھیں لے آتے تھے۔ گھوش بابو نے حنیف بھائی کو احتیاط سے بنچ پر بٹھایا۔ دایاں ہاتھ چھاتی پر اور بایاں ہاتھ منہ پر رکھ کر تین چار بار زور زور سے کھانسا۔ جھک کر ایک کونے میں بلغم تھوکا اور ہانپتے ہوئے کہا، سین دا، کیا بتاؤں؟ میں نے فوج میں ساری عمر گزار دی، لیکن یقین مانئے اتنی ٹائٹ سیکورٹی وہاں بھی نہیں تھی۔ حنیف بھائی کی بیوی نے توپورا مارشل لا لگا رکھا ہے۔“

    سین مہاشے نے ہتھیلیوں سے گھٹنے دبائے اور چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ بکھیر کر حنیف بھائی کی طرف دیکھا۔

    حنیف بھائی کچھ بولے نہیں۔ صرف اندر ہی اندر مسکراتے ہوئے مسوڑا چوسنے لگے۔

    گھوش بابو نے جیب سے رومال نکال کر اپنا منہ صاف کیا، پھر اسی رومال سے بنچ پونچھی اور پھر بیٹھ کر ڈرامائی انداز میں کہا، ”پاجامے کا ازاربند باندھنے سے لے کر کرتا شیروانی پہنانے تک، جوتا موزہ پہنانے سے لے کر تیل تھوپ کر گنگھی سے چندیا کھکھوڑنے تک۔ ہاتھ پکڑ کر دروازہ پر لانے اور میرے حوالے کرنے تک۔ ساؤدھانی ہی ساؤدھانی اور پھر مجھے وارننگ!“ اس کے بعد گھوش بابو نے ہاتھ اور چہرے کو جنبش دے کر نسوانی انداز میں کہا، ”سنبھال کر لے جایئےگا اور صحیح سلامت لوٹا جایئےگا، کہہ دیتی ہوں، ہاں۔“

    لیکن جب سین مہاشے نے گھوش بابو کی اس ظرافت آمیزی کا کوئی نوٹس نہیں لیا، تو گھوش بابو کی پیشانی پر سلوٹیں پڑ گئیں۔ انھوں نے ایک لمبی سانس کھینچ کر پوچھا، ”سین دا، طبیعت تو ٹھیک ہے نا، آپ کی؟“

    سین مہاشے کچھ دیر خاموش رہے۔ باری باری سبھوں کا چہرہ دیکھا، پھر بولے، ”کل آپ نہیں آئے تھے۔ کل مشراجی کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ابھی تک ان کی کوئی خبر نہیں مل پائی ہے؟ بوس انھیں گھر چھوڑنے گیا تھا، ابھی تک نہیں آیا۔ اپنا موبائل بھی آف کر رکھا ہے۔“

    یہ سنتے ہی حنیف بھائی کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ گھوش بابو کی بھی ہوائیاں اڑنے لگیں۔ تھوڑی دیر تک تینوں خاموش بیٹھے رہے۔ یکایک ان تینوں کی نگاہ مسٹرپال پر پڑی۔

    مسٹر پال کی عمر ستّر سال سے کم نہیں۔ سر اور بھوں سفید ہو چکے تھے۔ لیکن چال میں ہنوز طمطراق ہے۔ ہر وقت سوٹ بوٹ میں رہتے تھے۔ پوس ماگھ کی سردی ہو یا جیٹھ بیساکھ کی گرمی کوٹ ٹائی اتارتے نہیں تھے۔ ہونٹوں کے درمیان کبھی بجھا ہوا اور کبھی سلگتا ہوا چرٹ دبائے رکھتے تھے۔ انھیں اپنے نام کے ساتھ بابو، مہاشے، دادا یا بھائی لگوانا پسند نہیں۔ اس لیے لوگ ان کے نام کے آگے مسٹر لگاتے تھے۔ ہاتھ میں ہر وقت واکنگ اسٹیک رہتی ہے۔ آتے ہی زمین پر اسٹیک دے مارتے تھے۔ بنچ پر کم بیٹھتے تھے۔ واکنگ اسٹیک پر کمر ٹیک کر امریکن اسٹائل میں انگریزی بولنا شروع کر دیتے۔ گردن کچھ تو انگریزیت کی بوجھ سے اور کچھ اسپانڈیلاٹیس کے درد سے اکڑی رہتی تھی۔ ادھر کئی دنوں سے نیک بیلٹ باندھ رہے تھے۔ ویسے آدمی بڑے زندہ دل تھے۔ لیکن آج وہ بھی بجھے بجھے سے نظر آرہے تھے۔ نڈھال سر جھکائے چلے آ رہے تھے۔ انھیں اس حال میں دیکھ کر سین مہاشے کا دل دھک سے ہو گیا۔ مسٹرپال قریب آئے گردن دائیں بائیں موڑی اور غمناک لہجے میں بولے، ”فرینڈز بیڈ نیوز!“

    سین مہاشے کی زبان سے دفعتاً نکل پڑا، ”تو کیا مشراجی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے؟“

    ”نو، ہی ایز اِن ہوسپیٹل۔ آئی سی یو میں ہے۔ ڈاکٹر نے فارٹی ایٹ اَور کا ٹائم دیا ہے! مگر!“

    ”مگر کیا؟“ گھوش بابو نے فکر آمیز لہجے میں پوچھا اور چھوٹی چھوٹی سانس کھینچنے لگے۔

    مسٹر پال منہ بسورے خاموش کھڑے رہے۔ گھوش بابو نے کہا، ”پال، تیری پہیلی بوجھانے کی عادت ہر وقت اچھی نہیں لگتی۔ جلدی بک جو بکنا چاہتا ہے۔“

    اور تب مسٹر پال نے مٹی میں گڑے واکنگ اسٹیک کے سرے پر نظریں گڑا کر دھیرے سے کہا، ”کل!۔۔۔ کل، بوس مر گیا ہی از نو مور!“

    سب کے سب انھیں منہ پھاڑے تکنے لگے۔ مسٹر پال نے تھوڑے توقف کے بعد کہا، ”مشرا جی کو رکشا سے اتار رہا تھا، اکیلے، اِلون، گود میں اٹھاکر۔ اسی وقت مسیو اٹیک آیا۔ اینڈ ہی ڈائیڈ ان دی اسپارٹ۔“

    بوڑھوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ان کے دلوں میں ہوک اٹھنے لگی۔ سب سر بکف بیٹھے رہے اور تب سین مہاشے کو محسوس ہوا کہ ان کے پپوٹے پھولنے لگے ہیں۔ پتلیوں پر تیڑھی میڑھی نقرئی لکیر بننے اور دھند میں دھندلانے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔

    فضا میں پھیلی کہر کی چادر دبیز سے دبیز تر ہوتی چلی گئی۔ پیڑ پودے، جھیل، راستے، چرند پرند سب دھیرے دھیرے اس میں ملفوف ہو کر غائب ہونے لگے۔ سرد ہواؤں کا زور اور بھی بڑھتا گیا۔

    (تین)

    اور دوسرے ہی دن مشرا جی بھی اس دیار فانی کو خیرباد کہے گئے!

    بوس بابو اورمشرا جی کو مرے تین سال گزر چکے ہیں۔ اس درمیان بہت کچھ بدل گیا ہے۔ لیکن سین مہاشے کے پپوٹے ہنوز پھولتے ہیں۔ پتلیوں پر تیڑھی میڑھی نقرئی لکیر کے بننے اور دھند میں دھندلا جانے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اب بھی ان کے دل میں ہوک اٹھتی ہے۔ گزشتہ سال کی سرد لہریں حنیف بھائی اور مسٹر پال کو اپنے ساتھ بہا لے گئیں۔ اس بار بھی فروری کے اخیر میں سردی لوٹ آئی تھی، گھوش بابو کو اپنے ساتھ لے جانے کو۔

    اب سین مہاشے پارک میں ٹہلنے نہیں جاتے۔ گھر میں قید رہتے ہیں۔

    مارچ مہینہ ختم ہونے کو آیا ہے۔ گرمی خاصی پڑ رہی ہے۔ پھر بھی سین مہاشے کے پپوٹے پھول رہے ہیں۔ بیٹے کی سخت تاکید ہے، کھڑکیاں بند نہ کی جائیں! بابا کو آکسیجن چاہئے!

    جہاں تک ہو سکتا ہے، بہو ان کا خیال رکھتی ہے۔ کچھ دیر پہلے وہ آئی تھی۔ دوا پلا کر، مچھردانی لگا کر چلی گئی۔

    رات کا سناٹا بڑھنے لگا۔ سین مہاشے کی پتلیوں پر نقرئی لکیر نمودار ہونے لگی۔ مگر اس بار وہ لکیر دھند میں دھندلائی نہیں اور نہ سین مہاشے کے دل میں کوئی ہوک اٹھی اور پھر دھیرے دھیرے اس ٹیڑھی میڑھی لکیر نے ایک پرپیچ ندی کی شکل اختیار کر لی۔

    باہر ہوا کا جھونکا تیز ہو گیا۔ مچھردانی بادبان کی طرح پھیل گئی۔ سین مہاشے کو محسوس ہوا، وہ پلنگ پر نہیں، کسی کشتی پر لیٹے ہوئے ہیں! اور وہ کشتی اس پرپیچ ندی میں بہتی چلی جا رہی ہے۔۔۔!

    دور۔۔۔ بہت دور۔۔۔ کسی انجانی منزل کی طرف!

    (سالنامہ آبشار، کولکاتا، ٢٠٠٨ء دی سنڈے انڈین، نئی دہلی، ٢٠٠٩)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے