Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کتھا ایک پیپل کی

جوگندر پال

کتھا ایک پیپل کی

جوگندر پال

MORE BYجوگندر پال

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک پیپل اور اس پر بسے کئی طرح کے پرندوں کے کنبے کی کتھا کہتی ہے۔ پیپل کے پیڑ پر کبوتر کبوتری، کواکوی اور بھی کئی طرح کے پرندے رہتے ہیں۔ سبھی اپنی اپنی بات کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہی پیپل بھی اپنے پچھلے جنم اور پھر پنرجنم کی کہانی سناتا جاتا ہے۔

    سارے کاسارا پیپل کا درخت کھکھلاکر ہنس پڑا اور ہنستےہنستے اس کا قد فٹ بھر اور اونچا ہوگیا۔

    پرندوں نے پیپل کی ہلتی ہوئی شاخوں پر اپنے پیر دبالیے۔ اور ایک کوا کائیں کائیں کرنےلگا۔

    ’’گھبراتے کیوں ہوں بھئی؟ اپنا پیپل کاکا ذرا ترنگ میں آگیا ہے اور بس۔‘‘

    ’’کاکا ہے کہاں۔ ماں؟‘‘ ایک چڑیا کے بچے نے اپنی ماں سے پوچھا اور جواب سننے سے پہلے ہی گھونسلے میں چاول کے ایک دانے کی طرف متوجہ ہوگیا۔

    ’’تمہاری یہ بات مجھےایک آنکھ نہیں بھاتی چھوکرے،‘‘ اس کا باپ بولا۔

    ’’تو پھر دوسری آنکھ سے دیکھو،‘‘ چڑیا پھر سے اپنے بچے کے قریب آگئی اور پیار سے اپنی چونچ کو اس کے پروں میں گھسیڑ لیا۔ ’’تمہارا ہی بچہ ہے، یاکم سے کم اپنی ہی ذات میں سے کسی کا ہے، کسی کوے کی اولاد تو نہیں۔‘‘ اس نے اپنی آواز ذراآہستہ کرلی کہ آس پاس کوئی اس کے بول کی بھنک نہ پالے۔ پہلے ہی سے سب کوشکایت تھی کہ اس براہمنی کواپنی اونچی ذات پر بڑا مان ہے۔

    ’’بس جی چپ رہو تم۔ بچے کی نیا ڈبوکر دم لوگی۔‘‘

    ’’پھر وہی موئے آدم کاکا نا سامحاورہ۔۔۔ ہمیں نیا ویا سےکیا لینا ہے؟ ہمارے یہ پر سلامت رہیں۔۔۔‘‘ اس نے اپنے پر پھیلاکر اپنےنر کی طرف آنکھیں مٹکائیں۔

    ’’کہو، کیسے ہیں؟‘‘

    اور نر اپنی مادہ کے قریب سرک آنےکی خواہش سے بے تاب ہو ہو کر اس سے آگے نکل گیااور پھر لوٹ کر اس سے جڑ کر بیٹھ گیا۔

    ان کا گھونسلا چھوٹا سا تھا لیکن وہ تینوں اس قدر جڑکر بیٹھے تھے کہ معلوم ہوتا تھا، ابھی دس اور بھی آکر ان سے جڑجائیں تو گھونسلا اتنا ہی کھلالگے گا۔۔

    ’’گڈمارننگ، ایوری باڈی!‘‘

    پیپل کے کئی مکینوں نے تعجب سے سراٹھاکر دیکھا کہ یہ کون کیا کہہ رہاہے۔

    اور سب سےاونچی شاخ پربیٹھے ہوئےایک طوطے نےان کی بوکھلاہٹ سے لطف اندوز ہوکر چیخنے کے انداز میں دہرایا۔ گڈ مارننگ ایوری باڈی!

    نہ طوطے کو معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور نہ پیپل کےباسیوں کو، اس لیے بولنےاور سننےوالوں میں ازخود طے پاگیا کہ ضرور کوئی بڑاگہرا نکتہ ہے۔

    ’’نہیں، کوئی گہرا وہرانکتہ نہیں،‘‘ کبوتر نے غصے سے اپنی مادہ کی طرف دیکھ کر کہا جو دیوانوں کی مانند سراٹھائے پرائے مرد کوگھورے جارہی تھی۔‘‘ میں بتاتا ہوں کہاصل بات کیا ہے۔ اس طوطے کے اندر ایک دیوچھپا ہوا ہے۔‘‘

    کبوتری نے برقعہ اوڑھ لینے کے انداز میں اپنی دونوں آنکھیں بند کرلیں، ’’ہائے اللہ! تم کیسی ڈراؤنی باتیں کرتے ہو؟‘‘

    ’’تو پھر وہ اپنی زبان سے کیوں نہیں بول رہاہے؟‘‘

    ’’گڈمارننگ ایوری باڈی!‘‘

    ’’سن رہی ہو۔۔۔؟ اتنا بڑا دیو غریب کے گلے میں آلتی پالتی مارکر بیٹھا ہواہے۔ بے چارہ اپنےمن کی سیدھی سادی بات کرپائے تو کیوں کر۔۔۔؟ اور سنو! اری سو گئی ہو۔۔۔؟ سنو۔۔۔ اگر اس طوطے نے یہیں ڈیرے ڈال لیے تو دیو ہمارے پیپل کاکا کی جڑوں میں اتر کر انھیں کھا جائے گااور پھر کاکا اور تم اورمیں اور ہم سب دھڑام سے نیچے جاگریں گے۔‘‘

    ’’گڈمارننگ، ایوری باڈی!‘‘

    طوطے نے اپنے پر کھول کر باریک سی شاخ سے اپنے پاؤں اٹھالیے تو شاخ بھی اس کے پیچھے جانے کی خاطر بے اختیار اچھلی۔

    ’’ار۔رر!‘‘ کاکا اسے تھام نہ لیتا تو وہ ٹوٹ کر گرجاتی۔

    ’’کہاں جارہی ہو؟‘‘ شاخ نے لہراکر طوطے کی طرف دیکھا۔

    ’’جسے خود آپ معلوم نہیں کہ وہ کہاں جارہاہے، اس کے پیچھے تم کہاں جاؤگی؟‘‘

    کاکا نے اسے گلے میں ڈال لیا۔ تیرا میرا مقدر ایک ہے پگلی۔ مجھے چھوڑ کر کہاں جاؤگی۔۔۔؟ اور جانا بھی چاہو گی تو ٹوٹ کر دم توڑدوگی۔

    طوطا نظروں سے اوجھل ہوچکا تھا اور شاخ نےاپنےبھرے بھرے جی سے اپنی باہیں پیپل کے گلے میں کس لی تھیں اور اسے محسوس ہو رہاتھا کہ کسی ہری بھری سہاگن کے مانند وہ بڑھتی پھیلتی جارہی ہے۔

    ’’ایک بات پوچھوں؟‘‘ اس نے اپنے پیپل سے کہا۔ ’’تمہارے پر کیوں نہیں ہیں؟‘‘

    ’’پر نہ پیر، پگلی، اڑتے یا چلتے ہوئے محبت نہیں کی جاسکتی،‘‘ پیپل کو اپنا پچھلا جنم یاد آرہاتھا۔

    ’’میری کہانی سنو گی؟ کئی سو سال ہولیے ہیں۔ یہاں اگنے سے پہلے میں ایک آدمی تھا،ایک مسافر جسے کہیں بھی کوئی نہ جانتا تھا، سب لوگ،سب جگہیں میرے لیے اجنبی تھیں۔ مجھے کسی سے محبت نہ تھی۔ کوئی مجھ سے محبت نہ کرتا تھا۔ میری ساری عمر یوں ہی گھومتے پھرتے بیت گئی اور بیت گئی تو مجھے پتہ چلا کہ ہر جگہ وہی جگہ ہے، وہی آسمان ہے۔ میں نے آسمان سے دوستی کرنا چاہا لیکن اس کی جانب ٹکٹکی باندھ کر مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بہت دور ہے، میں کتنا ہی قریب جانا چاہوں یہ دوری جوں کی توں رہے گی۔ یہ دوری ۔۔۔ اری سو گئی ہو کیا؟ جب میں آدمی تھا اور پیہم چل چل کر دنیا کی ہر شے کے قریب آجانا چاہتا تھا تو ہر شے مجھ سے جوں کی توں دور رہتی تھی۔ میں کسی کو اپنا نہ سکا،اور تو اور، میں اپنے آپ سے بھی چھن گیا، چلتے پھرتے جانے کہاں نکل گیا اور یوں اپنی ناکام تلاش میں میری ساری عمر گزر گئی۔ ارے نیند آرہی ہے کیا؟آنکھیں کھول کر میری بات سنو!‘‘

    ’’میں آنکھیں بند کرلیتی ہوں تو تم مجھے سارے کے سارے نظر آتے رہتے ہو۔ بولتے جاؤ۔‘‘

    ’’تو سنو۔۔۔ جب میں مرنےلگا تو بہت خوش تھا کہ میری روح پھر سےاڑکر آکاش سےجاملے گی۔۔۔ پھر اچانک میری روح نامعلوم کہاں چلی گئی یا شاید مجھے میری روح سمیت ہی دفن کردیا گیا۔۔۔ یہیں، جہاں میں اگا ہوا ہوں اور۔۔۔ اور۔۔۔ نہیں یوں نہیں، آنکھیں کھول کرمیری بات سنو۔ اس طرح مجھے لگتا ہے کہ میں اپنی ساری باتیں اپنے آپ سے ہی کیے جارہا ہوں۔‘‘

    پیپل کی ساری شاخیں پیپل کو سن سن کر، اس کے قریب سرک سرک کر اس کے اندر آدھنسی تھیں اور انھیں لگ رہاتھا کہ وہ سب اپنےمحبوب کے باطن میں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی ہیں اور لپٹ کر سب ایک وہی شاخ ہوگئی ہیں جو اس وقت پیپل کی گود میں سرٹکائے اس کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

    ’’لو، میں نے آنکھیں کھول لیں۔ بولو اب!‘‘

    پیپل کی ملائم سی جڑ اس کی آنکھوں میں کھنچ کر گھل مل گئی۔‘‘ بس میری یہی ایک مشکل ہے میری جان تم اپنی آنکھیں کھول لیتی ہو تو میں سب کچھ بھول جاتاہوں۔‘‘

    ’’تو میں پھر اپنی آنکھیں بند کرلوں؟‘‘

    ’’نہیں، یوں ہی میری طرف تک تک کر مجھے سنتی رہو۔‘‘

    ’’بولو!‘‘

    ہوا یہ کہ جب لوگوں نے مجھے یہاں دفنادیا تو میں ابھی مرا نہ تھا، لیکن دھرتی سے باہرآنےکے لیے اب میرے لیے ایک ہی راستہ کھلا تھا، میں دھرتی میں سرایت ہوجاؤں، اور میں اسی راہ پر چل نکلا اور مٹی میں سرایت ہو ہوکر ایک دن مٹی کے باہر آپہنچا اور منھ کھول لیا۔

    ’’ہائے جب تم نئے نئے اگے ہوگے تو کیسے لگتے ہوگے؟‘‘

    ’’میں اگ کر باہر آیا تو میری پہلی خواہش یہ تھی کہ بے اختیار اڑنا شروع کردوں۔ ارے کہاں جاناچاہتے ہو؟ ساری کی ساری زمین نے مجھے اوپر نیچے سے دباکر پکڑ رکھا تھا اور میں بھری بھری مٹی کے اندر ہی اندر اٹھنے کی کوشش کر رہاتھا لیکن میرے وجود کے نیچے اب پاؤں نہیں رہے تھے، میری جڑیں تھیں جو اتنی آہستگی سے بڑی ہوہوکر زمین میں دھنستی جارہی تھیں کہ مجھے ان کے ہلنےجلنے کا قطعاً پتہ نہ چلتا تھا۔ اوپر اوپر سے ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے مجھے لگتا گویا اپنی بے اختیار دوڑنے کی خواہش سے میری سانس پھولی ہوئی ہے۔ اور پھر میں تھک ہار کر سوجاتااور خواب میں مجھے دکھائی دیتا کہ۔۔۔

    ’’تم میرے ہی پاس آناچاہتے تھے نا؟‘‘ آکاش دھرتی سے آلگا ہے۔

    ’’ہاں!‘‘

    ’’تو لو، میں خود ہی تمہارےپاس آگیا ہوں۔‘‘

    پیپل کی سب سےاونچی تازہ دم شاخ کا آنچل اڑ کر اس کے گھٹنوں پر آگرا تھا مگر وہ اپنے اٹوٹ انہماک سے سنتی رہی۔

    اور پیپل اپنا سر اٹھاکر اس کی طرف دیکھنےلگا اور اسےاس طرح ننگے منھ، ننگے سر اپنی طرف متوجہ پاکر جھوم گیا اور جھومتے ہوئے اسے اپنی بات یاد نہ رہی۔ ’’سنو!‘‘

    ’’سن تو رہی ہوں۔‘‘

    ’’نہیں، میں۔‘‘

    ’’میں وَیں کچھ نہیں۔ اپنی کہانی جاری رکھو۔‘‘

    ’’ہاں، بابا، لیکن۔‘‘

    ’’میں سب جانتی ہوں، تمہارے من میں کوئی میلا ساخیال آیا ہو تو منھ دھو آؤ۔‘‘

    ’’کیا فائدہ؟ منھ دھوکر بھی خیال تو میلا ہی رہے گا،‘‘ پیپل نےشاخ پر ہاتھ ڈالنا چاہامگر وہ ہل ہل کر اس سے صاف بچتی رہی۔

    ’’ہہ ہہ۔۔۔ہہ!‘‘

    ’’پیپل کاکا کےہنسنے کی آواز کہاں سے آرہی ہے؟‘‘

    ’’اوپر اپنی رانیوں کے پاس گیا ہوگا۔۔۔ آؤ، ادھر آؤ ذراچونچ پھیر کرتمہارے پر صاف کردوں۔‘‘

    ’’اچھا کم سے کم میری بات تو سن لو۔‘‘

    ’’ہاں، شریفوں کے مانند صرف باتیں کرنا ہے تو دن رات کرتے رہو بولو!‘‘

    ’’دھیان سے سنو،بڑی خاص بات ہے۔‘‘ پیپل کی دوسری شاخیں بھی جھک کر سننے لگیں۔

    مجھے پیدا ہوئے کئی سوسال ہوچکے ہیں اور اس دوران میں اپنی ان گنت شاخوں سے بیاہ رچا چکاہوں۔ ہر نئے موسم میں پوری کھیپ سے شادی کرلیتا ہوں،اور پھر وہ کھیپ پرانی ہوجاتی ہے تو میں اور وہ سب ایک ہوجاتے ہیں، ایک پیپل جسےآئندہ اپنی نئی شاخوں سے والہانہ محبت کرنا ہے۔

    ’’میری محبت اور عمر کوزوال نہیں، کیوں کہ میری ذات میری ان بے حساب محبوباؤں سے بھی عبارت ہے جنہیں ابھی صدیوں پیدا ہوتے چلے جاناہے۔۔۔ سن رہی ہو۔۔۔؟ اپنی جن شاخوں سے بھی میں نے اب تک محبت کی ہے انہوں نے بالآخر میری ذات بن کر میری سبھی محبتوں میں شرکت کی ہے، مستقبل کی سبھی محبتوں میں شرکت کریں گی۔‘‘ پیپل نے شاید اپنے مستقبل کی طرف نظر اٹھائی اور نیچے سے اوپر تک اپنی سب شاخوں سمیت بہ یک قالب و بہ یک روح لہرا اٹھااور یہ سوچ کر لہراتارہاکہ میری روایتیں اور جدتیں ہم وجود ہیں۔

    پیپل کی دوتہائی بلندی پر گنجان شاخوں میں سے ایک کوے نےسرجھکاکر کے نیچے دیکھا اور اپنی مادہ سےگویا ہوا، ’’ارے سنتی ہو؟ گھونسلے سےباہر آؤ۔‘‘

    کوی تیز برآمد ہوکر اپنے کوے کے پاس آگئی اور اس کی گردن پر چونچ مار کر کہنےلگی۔

    ’’پل بھر بھی چین سے بیٹھنے دیتے ہو؟ بولو، کیا بات ہے؟‘‘

    ’’وہ دیکھو، وہ عورت کاکاکو پانی پلارہی ہے۔‘‘

    ’’تو میں کیا کروں؟‘‘

    ’’خودکشی، تاکہ میری جان چھوٹے،‘‘ کوے کو غصہ آنے لگا۔ ’’ہر وقت لڑائی کے لیے تیار رہتی ہو۔‘‘

    ’’کو۔۔۔‘‘

    کوے نے سراونچا کرکے کوئل کی جانب دیکھا، جو ابھی ابھی وہاں آبیٹھی تھی۔

    ’’کو۔۔۔کو!‘‘

    ’’کتنی میٹھی آواز ہے!‘‘ کوے نے اپنی چڑچڑی مادہ سے کہا۔ ’’اور کتنا پیارا رنگ ہے، گھور کالا! تم بھی اتنی چڑچڑی نہ ہوتیں تو تمہاری سیاہی پھیکی پڑنے سے بچی رہتی۔‘‘

    ’’وہ موئی راضی ہو،‘‘ کوی نےتنک کر کہا۔ ’’تو اسی سے اپنا گھونسلاآباد کرلو۔ میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ پھڑپھڑانےلگی۔

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’اتنی بڑی برادری ہے،تم نہ سہی، کوئی اور سہی۔‘‘

    ’’بڑی نرموہی ہو، پل بھر میں برسوں کاساتھ چھوڑدینے پر تیار ہوجاتی ہو۔ ابھی تو ہمیں ڈیڑھ سو برس اور اکٹھا گزارنے ہیں۔‘‘

    ’’کو۔کو۔‘‘

    ’’اب کہیں جاکے ہمارے بھوگ بلاس کے دن شروع ہوئے ہیں۔ تم چلی گئیں تو میرا کیا ہوگا؟‘‘

    جیسے کوی کی کوئی تنی ہوئی گانٹھ اپنےآپ کھل گئی ہو، وہ دھیرے سے اپنے نر کے قریب مسکرانےلگی اور کوے کو برسنےسے پہلے تھمی ہوئی گھور گھٹا کی طرح کالی کالی معلوم ہونے لگی۔

    ’’کو۔۔۔کو!‘‘

    کوے کی آوارہ نظر اچانک نیچے کی طرف گھوم گئی جہاں وہ عورت کھڑی پیپل کو پانی دے رہی تھی۔

    ’’وہ دیکھو۔۔۔ جانتی ہو وہ عورت پیپل کو پانی کیوں دے رہی ہے؟‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ وہ اپنی چونچ سے اپنے نر کاوجود صاف کرنے لگی یا اس کے وجود سے اپنی چونچ۔

    ’’اپنی ہی پیاس بجھانے کے لیے۔۔۔ کتنی پیاسی نظر آرہی ہے۔ ادھر سے دیکھو، اس کی آنکھوں میں پورا ساگر بھرا ہوا ہے لیکن بیچاری کا حلق سوکھا ہوا ہے۔ میٹھے پانی کی ایک بوند بھی میسر نہیں۔‘‘

    ’’بس تمہاری اسی ایک بات سے میں چڑجاتی ہوں۔ سیدھی بات تمہارے منھ سے نکلتی ہی نہیں۔ اتنے سیانے بنتے ہوکہ لگتا ہے، تم محبت کرہی نہیں سکتے۔‘‘

    ’’بے وقوف میں سیانا نہ ہوتاتو سینکڑوں ہزاروں میں سےایک میں ہی تمہیں اڑاکرکیسے لے آتا؟‘‘

    ’’لیکن میرے سیانے کوے، اب ذرا بے وقوف بننا بھی سیکھ لو، نہیں تو کوئی اور مجھے ارالے جائے گا۔‘‘

    ’’اور تم چپ چاپ اس کے ساتھ اڑجاؤگی؟‘‘

    ’’اس وقت کے بارے میں تمہیں آج کیا بتاسکتی ہوں؟ کوی کی بجائے عورت ہوتی تو مجھے معلوم ہوتا کہ کس دن، کس وقت مجھے کس مردوئے کو چھوڑدینا ہے۔‘‘

    ’’اری دیکھو،‘‘ کوے نے اپنی مادہ کے لیے جگہ بنانےکے لیے شاخ پر ذرا پرے ہٹ کر کہا۔ ’’وہ عورت

    ہاتھ جوڑ کر پیپل کاکا سے کچھ مانگ رہی ہے۔ جانتی ہو، کیا؟‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’بچہ!‘‘

    ’’؛ہاں، اسے اپنے شوہر کے مقابلے میں ہمارے پیپل کاکا پر زیادہ وشواس ہے۔‘‘

    ’’ہاں، کیوں کہ وہ جب بھی یہاں آتی ہے اکا یہیں اس کا منتظر ہوتا ہے۔ مردوں اور کووں کا کیا بھروسہ آج کسی سے ملو تو کل اس کی شکل بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے، شاید مولا اپنی جگہ کوئی اور کھڑا کر کے کہیں نکل جاتا ہے۔‘‘

    میری طرف دیکھو، کیا میں بھی۔؟

    ’’مجھے کیا پتہ، تم وہی ہو، یا کوئی اور ہو؟‘‘ کوئی بڑی بے چارگی سے کائیں کائیں کرنے لگی۔ پھر بھی شکر ہے کہ کوئی نہ کوئی تو ہو تم جو بھی ہو، تم بھی نہ ہوتے تو میں تمہارا کیا بگاڑ لیتی؟ بس اس عورت کے مانند کاکا کو نہلانے کا کام اپنے ذمے لے لیتی جہاں بھی چھوڑ جاؤ، کاکا وہیں کا وہیں رہتا ہے۔‘‘

    ’’تو جایا کرو اپنے کاکا کے ہی پاس،‘‘ کوّے کو تاؤ سا آنے لگا۔ ’’پیٹ میں درخت کا اتنا بڑا انڈا ہوگیا تو دم نکل جائے گا۔‘‘ وہ غصہ بھول کر اپنی بات پر کائیں کائیں ہنسنے لگا۔

    ’’شرم کرو، کاکا کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟‘‘

    کّوا اور کوّی اپنے گھونسلے سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے باتوں میں مشغول تھے کہ اچانک اس ٹہنی پر کہیں سے ایک ناگ رینگ آیا اور گھونسلے میں رکھے ہوئے کوّے کے انڈوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔

    ’’کائیں!، کائیں!، کائیں!‘‘ کوّی اس جانے دیکھ کر چیخنے لگی۔

    ’’کائیں! کا۔۔۔!‘‘ کوّے نے مدد کے لئے پکار کی۔

    لیکن سانپ زبان چاٹ چاٹ کر بڑے انہماک سے اپنے کام میں لگا رہا۔

    ’’کائیں! کائیں! کائیں! کا۔۔۔!‘‘

    چڑے نے اپنی چڑی سے کہا۔

    ’’کوّے کی ذات کتنی بدتمیز ہوتی ہے، خواہ مخواہ شور مچا مچاکر ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔ جاہل!، آوارہ!‘‘

    چھوڑو، تمہیں کیا؟ لڑائی بھی انہی سے کرنا چاہئے جو شریف اور مہذب ہوں۔‘‘

    کبوتری نے اپنی آنکھیں بدستور بند رکھیں اور اپنے کبوتر سے کہنے لگی۔ کاکا سب اچھوں بُروں کو یہاں ہنس کر جگہ دے دیتا ہے۔ ان کی کائیں کائیں سن کر مجھے ڈرلگنے لگتا ہے کہ تم بھی اپنی گٹ۔۔۔ گوں چھوڑ کر ایک دن اچانک کائیں کائیں کرناشروع کردوگے۔‘‘

    اورکبوتگر نےاس کی گردن میں اپنی گردن ڈال دی۔ ’’چپ چاپ اسی طرح پڑی رہو۔ہمیں کیالینا دینا ہے؟‘‘

    ’’کائیں! کائیں! کائیں!کا۔!‘‘

    سانپ نے زبان چاٹ چاٹ کر ٹوٹے پھوٹے انڈوں سے منھ موڑلیا۔ ذرا رک کر، مسکراکر کوے کوّی کی جوڑی کی طرف دیکھا اورنیچے کی طرف رینگنے لگااور جب کافی نیچے اترگیا تو کواکوی اپنے گھونسلےکی طرف لپکےاور اپنے ٹوٹے پھوٹے انڈوں کےخالی خولی چھلکے دیکھ کر آہ و زاری کرنے لگے۔ ’’کائیں! کا۔‘‘

    کئی اور کوے وہاں جمع ہوکر ان کے سوگ میں شامل ہوگئے۔

    ’’ارےبھئی، کیا ہوگیا ہے؟ پیپل کاکا شاید اپنے اندر گھسا ہوا تھا جو اتنی دیر اسے یہ چیخ پکار سنائی نہ دی۔

    ’’کووں کی برادری نے بہ یک زبان فریاد کی، ’’کائیں!‘‘

    اور کاکا نے گھونسلے میں ٹوٹے ہوئے انڈوں کو دیکھا اور ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اپنے ٹخنے پر کسی کارینگنا محسوس کرکے چونک پڑا۔

    اسی اثنا میں کاکا کےچونکنے کے احساس سے کالے ناگ نےاس کاتنا ڈس لیا اور زہر سےکٹ کر اس کی کھال کا ایک ٹکڑا نیچےآگرا۔

    کاکا نے ناگ کو اپنے پیروں تلے مسل دینا چاہا لیکن جوں کا توں کھڑا رہا کہ اس کے پیر ہی کہاں تھے؟

    ناگ اپنی فتحیاب پھنکاریں بلند کرکرکے اچھل کرزمین پر آگیا اور سب کے دیکھتے ہی اوجھل ہوگیا۔

    کاکاغصے سے دانت پیس پیس کراپنی جڑوں سمیت اپنے وجود کے اندر ہی بھاگ رہاتھا لیکن سانپ تو کہیں باہرچھپا ہوا تھا۔ شاید اس سے دو ایک قدم پر چھپ کر،اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کاکاکی مجبوری پر ہنس رہا تھا کہ جس کاآدھا وجود زمین میں گڑا ہو،وہ اتنا بڑا ہونے پر بھی میرا کیا بگاڑ سکتاہے، جب میرا جی چاہے گا اس پر جاچڑھوں گا۔ اپنی اسی جگہ گڑے گڑے اس کی کھال اتنی موٹی ہوگئی ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں میں اس کے وجود پر مزےسے رینگ رہا ہوں، اپنے اندر ہی اندر پھیل پھیل کر خوش ہوتا رہتاہے۔

    ’’میں۔ میں۔‘‘ کاکا اپنے بارےمیں سوچ کر غصے سے کانپ رہا تھا اور اس سے جڑی ہوئی ساری شاخیں سائیں سائیں کرکرکے اس کی منت سماجت کر رہی تھیں اور ہوا تیز ہوتی جارہی تھی۔

    ’’کائیں۔۔۔ کائیں!‘‘

    کاکا کے ٹخنے کے قریب ایک چھوٹا سا پودا ہوا میں پھڑپھڑارہاتھا اور لگ رہا تھا کہ اس نے منوں مٹی کےجکڑ سے آزاد ہوجانے کاتہیہ کر رکھا ہے۔

    نئی نسل کے اس نمائندےکی تندی کاکاکو بھلی معلوم ہونےلگی اور وہ اپنے ٹخنے میں بیٹھ کراس پودے سے گویا ہوا، ’’ذرااور زور لگاؤ۔ میرے نو عمر دوست، ورنہ ابد تک تمہارے سینے پر سانپ لوٹتے رہیں گے۔ شاباش۔۔۔ اور زور لگاؤ۔۔۔ مٹی سے باہر نکل کر تمہیں ظلم کا پیچھا کرنا ہے، دوڑ دوڑ کر جینا ہے! شاباش! اسی ایک جگہ پر اونچے ہوگئے تو اور پستی میں جادھنسو گے، قیامت تک زندہ درگور ہوگے، زندگی تمہاری سزا ہوگی۔

    ’’شاباش!‘‘

    پیپل کاکا کی سب سے اونچی شاخ پر لٹکنے کےانداز میں بیٹھا کوئی الو دن دھاڑے قہقہے لگانے لگا جس سے تند ہواؤں کی سائیں سائیں سناٹےکا سماں باندھنے لگی۔

    مأخذ:

    جوگندر پال کے منتخب افسانے (Pg. 132)

      • ناشر: نریندر ناتھ سوز
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے