Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کٹھن ڈگریا

بلونت سنگھ

کٹھن ڈگریا

بلونت سنگھ

MORE BYبلونت سنگھ

    کہانی کی کہانی

    اس کہانی میں جیسے کو تیسا والا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ رکھی رام اور بیج ناتھ دوست ہیں، دونوں کی بیویاں خوبصورت ہیں لیکن دونوں کو اپنی بیوی سے دلچسپی نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی بیوی میں جنسی کشش محسوس کرتے ہیں۔ رکھی رام کا دہلی جانے کا پروگرام ہوتا ہے لیکن عین وقت پر پروگرام کینسل ہو جاتا ہے تو وہ بیج ناتھ کے گھر جا کر کامنی سے لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنا لیتا ہے۔ ادھر بیج ناتھ، رکھی رام کی بیوی شانتا سے لطف کشید کرنے کی نیت سے تیار ہو رہا ہوتا ہے کہ رکھی رام اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ بیج ناتھ چونکتا ضرور ہے لیکن وہ دعوت کا بہانہ بنا کر گھر سے چلا جاتا ہے۔ رکھی رام کامنی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر جب گھر پہنچتے ہیں تو گلی کے پنواڑی جیا سے معلوم ہوتا ہے کہ بیج ناتھ اس سے ملنے آئے تھے، کافی دیر انتظار کے بعد واپس چلے گئے۔

    رکھی رام دکان سے واپس آ رہا تھا۔ صورت سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس وقت کوئی مزےدار بات سوچ رہا ہے۔ ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ چلتے چلتے جب اسے سگریٹ جلانے کی خواہش محسوس ہوئی تو اسے خیال آیا کہ ماچس تو دکان پرہی رہ گئی ہے۔ خیر کوئی مضائقہ نہیں۔ اب وہ گھر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ وہ اپنی دھن میں اس قدر مگن تھا کہ اسے سگریٹ منہ سے نکالنے کا خیال تک نہ آیا۔ کسی راہ گیر کی نظر اس کے ڈھیلے ڈھالے ہونٹوں میں پھنسے ہوئے سگریٹ پرجاپڑتی تو وہ بےاختیار مسکرا دیتا۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ خود بخود مسکرائے جا رہا تھا۔ کبھی سرکو حرکت دینے لگتا۔ کبھی زیر لب کچھ کہنے لگتا۔ وہ بالکل پاگلوں کی سی حرکت کر رہا تھا لیکن وہ پاگل نہیں تھا۔

    چونتیس پینتیس برس کے قریب عمر، صورت بھی بری نہیں تھی۔ صحت بھی کافی اچھی تھی۔ تین بچوں کا باپ تھا۔ اعلیٰ پیمانے پر ریڈیو کی دکان چلا رہا تھا۔ گیارہ بجے دکان پر جاتا۔ اس کا معاون پہلے ہی سے موجود ہوتا تھا۔ ایک سے دوبجے تک لنچ کے لیے دکان بند کر دی جاتی۔ شام کے پانچ بجے کے قریب وہ گھر چلا آتا۔ البتہ دکان سات بجے تک کھلی رہتی۔ آج کاروبار کے سلسلے میں ایک شخص کو ملنے کے لیے اسے دہلی جانا تھا۔ اس نے اپنی بیوی شانتا کو سامان تیار کرنے کے لیے بھی کہہ دیا تھا لیکن اچانک دکان پر اسے تار ملا کہ کل وہ شخص خود لاہور پہنچ رہا ہے۔ چلو سفر کی مصیبت سے جان چھوٹی۔ لیکن آج شام کا پروگرام کیا ہو؟ یہ سوال فوراً اس کے ذہن پر ابھر آیا اور وہ چند لمحوں تک بے سبب اس فکر میں غلطاں رہا اور پھر دل کی پکار خودبخود واضح ہو گئی کہ یہ شام اپنے دوست بیج ناتھ کے ہاں گزاری جائے۔ بلکہ رات کا کھانا بھی وہیں کھایا جائے۔

    کچھ روز سے بیج ناتھ کی بیوی کامنی اس کے لیے خاص کشش کا باعث بنی ہوئی تھی۔ یہ بات اخلاق سے گری ہوئی ضرور تھی لیکن وہ دل کے ہاتھوں مجبور تھا۔ جوانی کے زمانے میں وہ حد سے زیادہ مجبور بنا رہا۔ زندگی کا سنہرا زمانہ کسی سے محبت کی پینگیں بڑھائے بغیر گزر گیا۔ جب شادی ہوئی تو چند سال تک وہ بیوی کا دیوانہ سا رہا۔ مگر رفتہ رفتہ بیوی میں کوئی کشش باقی نہ رہی۔ جب کبھی بیوی آنکھوں کو بھلی معلوم ہوتی تو بس ہاتھ بڑھانے کی دیر تھی۔ وہاں انکار کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ اپنی بیوی بے رس معلوم ہونے لگی۔ تب اس نے بازار کا رخ کیا۔ وہاں دلال یہی کہتا کہ بس صاحب ہفتے بھر ہی سے بازار میں بیٹھنے لگی ہے۔ پہلے پہل تو یہ خیال ہی کچھ کم رومان انگیز نہیں تھا لیکن جب دلالوں کے ہتھکنڈوں کا علم ہوا تو طبیعت بجھ گئی۔ دنیا کا دھندہ تو چلتا رہا لیکن محبت کی پیاس کے مارے اندر ہی اندر کانٹا سا کھٹکنے لگا۔

    گزشتہ دنوں اتوار کے روز وہ اپنے مکان کے سامنے چپوترے پر بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا کہ اس نے بیج ناتھ کو کامنی کے ہمراہ اپنے مکان کی طرف آتے دیکھا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہونے پر بیج ناتھ نے کہا، ’’ہم اجنبی ہیں۔ مکان کی تلاش کر رہے ہیں۔ کیا آپ ہماری مدد کر سکیں گے؟‘‘ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اسے مکان دلوا دیا۔ اگرچہ ان کے مکانوں کے درمیان تین چار میل سے کم فاصلہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود دونوں گھرانوں کے تعلقات گہرے ہوتے گئے۔ ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا۔۔۔ شرکت کرنا، کبھی کبھار تفریح کی غرض سے شہر سے باہر چلے جانا ان کے معمول میں داخل ہو گیا تھا۔

    ایسے موقعوں پر کامنی اس کی طرف نگاہ غلط انداز سے دیکھ لیتی۔ پہلی مرتبہ تو اس کا کلیجہ دھک دھک کرنے لگا۔ وہ سمجھا اس کی نگاہوں نے دھوکا کھایا ہے لیکن جب دبی دبی مسکراہٹوں کا تبادلہ بھی ہونے لگا تو پہلے محسوس ہوا کہ شاید وہ ایک دوسرے سے محبت بھی کر سکیں گے۔ کبھی اس کا دل لعن طعن کرتا لیکن پھر وہ اپنے دل کو یہ کہہ کر ڈھارس دے لیتا کہ کامنی ہی کی طرف سے تو آغاز ہوا ہے۔ کبھی سوچتا معمولی دل لگی ہی تو ہے۔ ذرا کی ذرا چہل ہو جاتی ہے۔ دل بہلا رہتا ہے۔ اس میں قباحت کی تو کوئی بات ہی نہیں۔ لیکن یہ سب ظاہر داریاں تھیں کیونکہ دل کی گہرائیوں میں وہ اچھی طرح محسوس کرنے لگا تھا کہ اسے کامنی سے محبت ہو گئی ہے۔

    راستہ چلتے چلتے وہ کامنی کی بابت سوچ رہا تھا۔ ابھی تک اس نے اسے چھوا تک نہیں تھا۔ شاید آج کوئی اہم واقعہ پیش آئے۔ ممکن ہے کہ وہ اس پہلی محبوبہ کے بہت قریب پہنچ جائے۔ اب وہ اپنی گلی میں پہنچ چکا تھا۔ جیا پنواڑی کی دکان اس کے مکان کے قریب ہی تھی۔ دکان کے قریب سے ہو کر گزرتے وقت سلگتی رسی دیکھ کر اسے سگریٹ سلگانے کا خیال آیا۔ اگر کوئی دوست اسے ملنے کے لیے آتا تو گھر والوں کو خبر ہو یا نہ ہو لیکن جیا ضرور اس بات کا خیال رکھتا تھا۔ چنانچہ سگریٹ سلگاکر اس نے جیا سے پوچھا، ’’کیوں بے جیے! مجھے کوئی شخص ملنے کے لیے تو نہیں آیا تھا؟‘‘

    اس وقت جیا نسوار سونگھ رہا تھا۔ چھینک آنے ہی کو تھی۔ اس لیے منہ سے جواب نہ دے سکا۔ کبھی اثبات میں سر ہلاتا کبھی نفی میں۔ آخر معلوم ہوا کہ کوئی شخص نہیں آیا تھا۔ رکھی نے سگریٹ کا کش کھینچا اور گھر کی طرف بڑھا۔ دروازے کے آگے جو کچھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں، ان کی دو اینٹیں اکھڑ گئی تھیں، ہر دم ان پر سے پھسلنے کا اندیشہ لاحق رہتا تھا۔ اسے کئی مرتبہ خیال آیا کہ ان کی مرمت کروا دی جائے لیکن لاپروائی میں یہ کام پورا نہ ہو سکا۔

    گھر کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ شانتا بڑے آئینے کے سامنے بیٹھی بال بنارہی ہے۔ معلوم ہوتا تھا، ابھی ابھی نہاکر آئی ہے۔ اس وقت خاصی پیاری دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دوست کہا کرتے: ’’یار تمہاری عورت بہت حسین ہے۔ پھر بازاروں میں کیوں دھکے کھاتے پھرتے ہو؟‘‘ شانتا نے بال ایک ہاتھ سے گھما کر آگے لاتے اور ان پر کنگھی کرتے ہوئے کہا، ’’جی میں نے آپ کا سامان تیار کر دیا۔‘‘

    ’’بھئی آج تو میں نہیں جاؤں گا۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ شانتا نے تعجب سے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔

    ’’جس شخص سے ملنا تھا وہ خود کل یہاں آ رہا ہے۔ نل بند تو نہیں ہوا؟ ذرا نہا لوں۔‘‘

    وہ غسل خانےمیں چلا گیا اور وہاں ’’کاکروں تو سے الف ہوگئی۔۔۔ ہو گئی۔‘‘ گاتا رہا۔ جب کپڑے پہن چکا تو بیوی نے پوچھا، ’’اب کھانا کھاکر ہی باہر جائیےگا؟‘‘

    ’’نہیں بھئی مجھے دیر ہو رہی ہے۔ ایک شخص سے ملنا ہے۔ کھانا باہر ہی کھاؤں گا۔ انتظار میں مت بیٹھی رہنا۔‘‘

    حالانکہ اس کی بیوی کو اس پر کسی قسم کا شک نہیں تھا لیکن اس نے بیج ناتھ کے گھر کا نام جان بوجھ کر نہیں لیا۔ آخر کیا فائدہ؟ عورتیں وہمی تو ہوتی ہی ہیں۔ آئینے کے سامنے کھڑے کھڑے اس نے اپنی صورت کا جائزہ لیا اور اس نے خود ہی فیصلہ لیا کہ اس کی صورت بیج ناتھ سے کہیں بہتر ہے اور اگر کامنی اسے اپنے شوہر پر ترجیح دیتی ہے تو اسے اس کی خوش ذوقی کا ثبوت سمجھنا چاہیے۔

    خوب بن سنور کر اس نے اپنے آپ پر آخری نگاہ ڈالی۔ کوٹ کی اوپر والی جیب میں رنگین رومال ٹھکانے سے رکھا۔ رخساروں پر ہاتھ پھیر کر ان کی ہمواری کا جائزہ لیا۔ ٹائی کی گرہ درست کی۔ پتلون کی کریز پہلو بدل بدل کر دیکھی۔ ہیٹ پرجمی ہوئی گرد کی باریک تہہ چٹکی بجا بجاکر صاف کی۔ چاندی کا سگریٹ کیس جیب میں ڈالتے ہوئے اس نے ایک نظر بیوی کی طرف دیکھا۔ آج وہ واقعی حسین دکھائی دے رہی تھی۔ دونوں لڑکے نانا کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں بیوی کو پیار کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن وہ جلدی میں تھا۔ اس لیے چھڑی گھماتا ہوا گھر سے باہر نکل آیا۔ ایک لمحے کے لیے اسے خیال آیا کہ اگر وہ سگریٹ کیس میں ’’عبداللہ‘‘ کے سگریٹ رکھ لیتا تو بہتر ہوتا۔ وہ ’عبداللہ‘ سگریٹوں کا بڑا مداح تھا اور انہیں خصوصاً اس وقت پیتا تھا جب وہ خوش ہو۔ اب سگریٹ لینے کے لیے واپس جانے میں اس نے بدشگونی سمجھی۔ اس لیے کوئے یارہی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    اس کا دل مسرور تھا۔ قدم بڑے بانکپن سے اٹھ رہے تھے۔ اردگرد کی چیزیں اجلی اور نئی سی دکھائی دے رہی تھیں۔ جیسے ہر چیز نے نیا جنم لیا ہو۔ اس میں چمک تھی اور حرکات سے چلبلاپن عیاں تھا۔ اپنی بیوی اور گھر سے دور وہ اپنے آپ کو آزاد پرندے کی طرح ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ وہ کالج کے اس چھوکرے کی مانند دکھائی دے رہا تھا جو گھر سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہو اور اب والدین کے روپے سے عشق لڑا رہا ہو۔ محض عورت کی حیثیت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ تو محبت کا بھوکا تھا، درد عشق کا خواہاں تھا۔ اصلی چیز تو وہ جذبۂ یگانگی تھا جو وہ کمو کے لیے محسوس کر رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں کامنی کو پیار سے کمو کہا کرتا تھا۔ اس کی ایک تمنا تھی کہ اگر ان کی محبت پروان چڑھے اور دونوں کے دھڑکتے ہوئے سینے کسی روز مل جائیں تو وہ اسے پیاری کمو کہہ کر بلائے۔ کبھی کبھی جب وہ تصورات کے طلسم سے نکلتا تو سوچتا کیا معلوم اس کے نصیب میں حسین کامنی کی محض مسکراہٹ ہی لکھی ہو؟

    آخر شام کے دھندلکے میں جب بیج ناتھ کابلا پلستر کی اینٹوں کا بنا ہوا مکان نظر آنے لگا تو اس کے قدم ڈگمگانے لگے۔ یہاں تک وہ ایک مبہم لیکن مسحور کن جذبے کے ماتحت چلا آیا تھا۔ لیکن اب وہ سوچنے لگا کہ اس کے گھر میں کس انداز سے داخل ہونا چاہیے؟ اس مسئلے کے کئی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ ان معاملات پر زیادہ تجویزیں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ہر حرکت بے تکلفانہ ہونی چاہیے۔ چنانچہ وہ بڑی بے تکلفی سے ان کے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔

    بڑے کمرے سے میاں بیوی کے ہنسنے اور باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ رکھی دروازے میں جاکھڑا ہوا۔ بیج ناتھ منہ پھیرے کرسی کے بازو پر بیٹھا تھا۔ اس نے نئے کپڑے پہن رکھے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ شاید وہ باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ کامنی اس کی قمیص میں بٹن ٹانک رہی تھی اور وہ گا رہا تھا۔ ’’اب ذرا گانا بند کر دیجیے نا۔ سوئی چھاتی میں چبھ جائےگی تو پھر کہیےگا۔‘‘ شوہر مسخرے پن سے بولا، ’’تم سے نہیں کہیں گے تو اور کس سے کہیں گے مائی ڈارلنگ! اور ہمارا کون ہے۔‘‘ اور پھروہ نہایت بھونڈے انداز میں نتھنے پھلا پھلاکر شکستہ بانس کی سی آواز میں ایک فرسودہ ساگانا گانے لگا۔

    ’’تیرا کون ہے،

    کسے کرتا تو پیار پیار پیار

    تیرا کون ہے۔۔۔ تیرا کون ہے۔۔۔ ہاں تیرا کون ہے۔‘‘

    ادھر میاں بیوی میں یہ چہلیں ہو رہی تھیں، ادھر چھ ماہ کا بچہ پالنے میں پڑا رو رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ بیج ناتھ اس وقت بڑے خوش گوار موڈ میں تھا۔ جوں جوں بیوی اس کی حرکات سے چڑتی توں توں وہ اسے اور زیادہ پریشان کرتا۔ وہ جھنجھلا کر کہتی، ’’اب مٹکنا بند کیجیے، منا رو رہا ہے۔‘‘ رکھی رام دو قدم آگے بڑھا اور اس نے کھانس کر انہیں اپنی آمد سے مطلع کر دیا۔ بیج ناتھ نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا۔ پہلے تو حیران رہ گیا۔ پھر چلایا، ’’ہلو ہلو! یار! میرا خیال تھا اب تم گاڑی میں بیٹھے ہوگے۔‘‘

    ’’رکھی نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا، ’’نہیں بھئی، دہلی جانے کا پروگرام منسوخ ہو گیا۔ کوپارام سے ملنا تھا۔ اس کا تار آیا ہے کہ کل وہ خود لاہور پہنچ رہا ہے۔‘‘ اتنے میں کامنی نے بھی دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کر دی، ’’جی نمستے!‘‘ اس نے بڑی معصومیت اور اخلاق سے جواب دیا۔ منا رو رہا تھا۔ کامنی اسے پیار سے پالنے میں اٹھا کر چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔ ’’منا کیوں رو رہاہے، منا کیوں رو رہا ہے؟ نا، نا۔۔۔ کیوں جی آپ کی منی بھی رو رہی تھی؟‘‘

    ’’جی نہیں۔‘‘ رکھی نے جواب دیا، ’’ہماری منی تو سوئی پڑی تھی۔ آج کل ہمارے گھر میں بچوں کا شور بہت کم ہے۔ گوشی اور جیو دونوں نانا کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ بچے ہیں نا۔ نئی جگہ ان کا دل بہلا ہوا ہے۔ گھر میں بچاری منی چپ چاپ پڑی رہتی ہے۔‘‘

    ’’ناجی نا۔ ہمارا منابھی تو نہیں روتا۔‘‘ کامنی نے بچے کو پچکارتے ہوئے کہا، ’’آج تو اس کے بابوجی نے اسے ہلکان کر دیا ہے۔ میں ان کے بٹن ٹانک رہی تھی اور یہ ہل ہل کر گائے جاتے تھے۔ منا جاگ اٹھا اور رونے لگا۔‘‘

    جب وہ باتیں کر رہی تھی تو رکھی اس کے لچکیلے جسم اور تیزی سے ہلتے ہوئے ہونٹوں کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت سنگھار کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا لیکن معمولی گھریلو لباس میں بھی وہ کس قدر حسین دکھائی دے رہی تھی اور پھر دفعتاً جو اسے خیال آیا تو بیج ناتھ سے مخاطب ہوکر بولا، ’’یار معلوم ہوتا ہے کہ تم باہر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں تو یوں ہی ادھر چلا آیا۔ کسی کام سے جا رہے تھے تو چلو۔‘‘

    ’’نہیں یار بیٹھو، باتیں کریں۔‘‘

    ’’نہیں بھئی، مجھ سے یہ نہ ہوگا۔‘‘

    کامنی نے بچے کو گود میں جھلاتے ہوئے کہا، ’’آج ان کی دعوت ہے کہیں۔‘‘

    ’’واقعی، بھئی واہ۔ اب تو میں تمہارا راستہ نہیں روکنا چاہتا۔ ضرور جاؤ، تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘

    ’’نہیں، اب میں نہیں جاؤں گا۔ تم اتنی دور سے آئے ہو، اب تو مل کر باتیں کریں گے اور ہاں، جیلانی کے یہاں کھیلنے کیوں نہ چلیں؟‘‘

    لیکن رکھی کو اپنی حرکت بہت نامناسب معلوم ہو رہی تھی، ’’بیج ناتھ اپنا پروگرام خراب مت کرو۔ میں تو یونہی چلا آیا تھا۔ بس اب سیر کرتے ہوئے گھر چلا جاؤں گا۔ یہ ذرا بدتمیزی کی بات ہے کہ میری وجہ سے تمہارا میزبان پریشان ہو اور پھر ہم دونوں میں تکلف بھی تو نہ ہونا چاہیے۔‘‘ بیج ناتھ چند لمحوں تک چپ رہا۔ پھر بولا، ’’اتنی دور سے آئے ہو۔ ہم دونوں کا وقت خوب کٹ سکتا ہے۔ ہاں یار، ایک اور بات سوجھی ہے مجھے، تم یہیں بیٹھو اور میں ذرا کھانا کھا کر زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے اندر واپس آ جاؤں گا۔ میری واپسی تک تم کھانا بھی یہیں کھا لوگے اور پھر ہم جیلانی کے ہاں چلیں گے۔ بڑے مزے کا شخص ہے، گپ بھی اڑے گی اور برج بھی کھلےگی۔‘‘

    رکھی کا دل اچھل کر جیسے حلق میں آ رہا۔ ایک گھنٹے کے لیے وہ اور کامنی تنہا رہ جائیں گے۔ گودی کا منا تو سو ہی جائےگا۔ اس سے بڑا چار سالہ لڑکا بھی سلایا جا سکےگا۔ اس نے تیزی سے اچٹتی ہوئی نگاہ کا منی پر ڈالی۔ گوناگوں جذبات کے ہجوم میں وہ کچھ نہ بول سکا۔ بیج ناتھ کہتا چلا گیا، ’’کہو یار کیسی رہی؟ بھئی کہیں جانا نہیں۔ تمہیں میرے سر کی قسم! میں بہت دور نہیں جا رہا ہوں۔ یہی اپن ڈاکٹر شرما کے ہاں تو دعوت ہے۔ تم شاید نہیں جانتے انہیں۔ تمہارے راستے ہی میں تو مکان پڑتا ہے۔ اچھا تو وعدہ کرو، تم نہیں جاؤگے۔ یہ نہ ہو کہ میں بھاگم بھاگ واپس پہنچوں اور تم غائب ہو جاؤ۔ بس آج شاندار پروگرام رہےگا۔‘‘

    رکھی چپ کھڑا رہا۔ بھلا وہ کہاں جا سکتا تھا؟ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ تقدیر بھی اس قدر اچھی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک موہوم سی امید پر یہاں آیا تھا۔ ادھر بھگوان نے بھگت کی پرارتھنا قبول کرکے خود اپنے ہاتھ سےاس کے راستے کا کانٹا صاف کر دیا تھا۔

    ’’تو یہ رہے سگریٹ اور یہ رہا ویکلی۔ کمو! انہیں روٹی کھلا دینا۔ ذرا خیال رکھنا بھاگ نہ جائیں کہیں۔ میں چٹکی بجاتے میں آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی پتلون کے بٹن لگانے لگا۔ برش سے بال ہموار کیے، ٹائی کی گرہ ڈھیلی کر کے اگلا پلو اوپر نیچے کیا۔ پھر تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر والے دروازے کی طرف بڑھا۔ کامنی پکار کر بولی، ’’ہائے کیسے بھاگے جا رہے ہیں۔ گھر سے باہر جانا ہو تو پاؤں زمین پر لگتے ہی نہیں۔ اب جلدی لوٹ آئیےگا۔‘‘

    ’’ہاں بھئی، لوٹ آؤں گا۔ لوگ ہمارا ایندھن اٹھا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس کی فکر کیا کرو۔ ڈیوڑھی کا دروازہ بند کر لو۔ اچھا یار میں چلا۔‘‘

    ڈیوڑھی کا دروازہ بند کر کے کامنی بیٹھک کی کھڑکی کے قریب آ کھڑی ہوئی۔ ایک مرتبہ پھر شوہر سے آنکھیں چار ہوئیں۔ شوہر نے ہوا میں ہاتھ بلند کر کے ہلا دیا۔ وہ وہاں چپ کھڑی اسے گلی کے نکڑ سے غائب ہوتے ہوئے دیکھتی رہی۔ اس اثنا میں رکھی بھی چپکے سے دیوار سے لگ کراس کے قریب کھڑا ہو گیا تھا۔ کچھ دیر تک کامنی سنسان گلی کی جانب دیکھتی رہی۔ پھر اس کا ہاتھ اوپر اٹھ کر بجلی کے بٹن کی طرف بڑھا اور دوسرے لمحے میں بجلی کا بلب بجھ گیا اور فرش پر بچھی ہوئی دری پر کھڑکی میں سے آتی ہوئی چاندنی پھیل گئی۔

    رکھی نے بازو بڑھایا جو کامنی کی پیٹھ سے ہوتا ہوا اس کے گوشت سے بھرپور کولہے پر جا کر ٹک گیا۔ کامنی کی کمر ہلی، لمحے بھر لرزش کے بعد ساکن ہو گئی۔ وہ اور قریب ہوکر اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ان دونوں کی آنکھیں چار نہیں ہوئیں، لیکن کامنی کی کمر نے ذرا سی لرزش کے بعد سکون اختیار کر کے گویا اس کے سوال کا جواب اثبات میں دے دیا تھا۔ وہ خاموش کھڑی تھی۔ دوایک مرتبہ رکھی کے لبوں سے نکلتی ہوئی دردِ محبت میں ڈوبی ہوئی نہایت مدھم سی آواز سنائی دی، ’’کمو کمو!‘‘

    ’’بی بی جی! بی بی جی!‘‘ بڑے لڑکے کی پکار سنائی دی۔ وہ بند آواز میں بولی، ’’آئی بیٹا! آئی، بیٹھے رہو وہیں۔‘‘ رکھی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ دروازے پر سرک گئی۔ ’’سنو کمو سنو۔‘‘ اس کی آواز بری طرح لرز رہی تھی۔ کامنی دو قدم پرے دیوار سے پیٹھ لگائے دونوں ہتھیلیاں دیوار پر ٹکائے سر نہیوڑائے کھڑی تھی۔ کمرے کی فضا خواب ناک تھی، ہر طرف سرمئی غبار سا چھایا ہوا تھا۔ کامنی کی مدھم شبیہ حسین مجسمے کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ صرف اس کی چھاتیوں کے زیر و بم سے پتہ چلتا تھا کہ وہ بے جان مورت نہیں ہے۔ ’’کمو! سنو۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘‘

    ’’میں تم سے محبت کرتا ہوں!‘‘ کیسے فرسودہ الفاظ تھے؟ جنہیں اس نے بیسیوں مرتبہ کتابوں میں پڑھا تھا، فلم کے پردے پر سنا تھا لیکن آج وہ یہ فقرہ اس طرح ادا کر رہا تھا جیسے یہ اسی کی اختراع ہو۔ جواب میں کامنی نے پلکیں اوپر اٹھائیں اور ایک مرتبہ بھرپور نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر سپردگی کے انداز میں پلکیں جھکا کر رہ گئی۔ وہ بجلی کے کوندے کی طرح آگے بڑھا۔ اس کی کمر بازوؤں میں لے کر اسے اپنی طرف کھینچا تو یوں محسوس ہوا جیسے اس نے پھولوں کی نازک ڈالی پکڑ کر جھنجھنا دی ہو۔ اس کا جسم سر سے پاؤں تک کامنی کے نرم نرم لچکیلے جسم کے لمس سے محظوظ ہونے لگا۔ ایک اور شدید اور فوری جذبے کے تحت اس نے نہ معلوم کس کس طرح اسے بھینچا، چوما اور پھر لڑکے کی پکار کی آوازیں ہتھوڑوں کے دھمکوں کی طرح سنائی دینے لگیں اور پھر کامنی اڑتی ہوئی خوشبو کی طرح اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔

    وہ کمرے میں تن تنہا کھڑا رہ گیا۔ کھڑکیوں میں داخل ہونے والی چاند کی روشنی میں کرسیاں، تپائیاں، تصویریں، پردے اور کتابیں، غرض ہر شے خواب ناک اور ساکن دکھائی دے رہی تھی۔ صرف اس کی ٹانگیں اور بازو لرزاں تھے۔ سانس تیزی سے چل رہی تھی۔ غیر ارادی طور پر اس کے لبوں سے چند غیرمبہم سی آوازیں نکل گئیں۔ کچھ دیر تک وہ خلا میں گھور کر دیکھتا رہا۔ ایک مرتبہ احساس گناہ کی شدت سے کانپ بھی اٹھا لیکن صرف ایک لمحے کے لیے۔ پھر اس نے رومال سے منہ اور پیشانی صاف کی، کپڑوں کی سلوٹیں اور کوٹ کی جھول کھائی ہوئی آستینیں کھینچ کر ہموار کیں۔ پھر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا صحن میں باورچی خانے کی جانب بڑھا۔

    کامنی چولھے کے قریب بیٹھی دیگچی میں چمچ چلا رہی تھی۔ اس کا بڑا لڑکا اس کے گھٹنے کے ساتھ لگا ہوا اونگھ رہا تھا۔ وہ چولھے میں لپلپاتے ہوئے شعلوں کی روشنی میں اس کے دمکتے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ باہمی کش مکش میں کامنی کے بال پریشان ہو گئے تھے، گال سرخ ہو گئے تھے۔ قمیص دو تین مقامات سے مسک گئی تھی۔ یہ سب اسی کی دست درازیوں کے نتائج تھے۔ اس خیال سے وہ ایک فتح کے احساس میں گم ہو گیا۔ بظاہر کامنی اس کی آمد سے بےخبر دکھائی دیتی تھی۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہی۔ بچے کو اونگھتا ہوا دیکھ کر اس نے کہا، ’’چلو تمہیں سلا دوں۔‘‘ اور اسے سلانے کے لیے اندر چلی گئی۔

    رکھی چولھے کے قریب ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔ وہ دل ہی دل میں حالات کا جائزہ لینے لگا۔ کامنی پھر قریب آبیٹھی۔ اس کی حرکات سے غیر معمولی واقعے کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ دیگچی چولھے سے اتار کر اس نے توارکھ دیا اور آٹا توڑ کر پیڑا بنانے لگی اور اس سے آنکھیں ملائے بغیر بولی، ’’آپ کو سردی لگ رہی ہوگی۔ چولھے کے قریب آ جائیے نا۔‘‘

    ’’واقعی سردی بہت سخت پڑ رہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اسٹول کھسکایا اور چولھے کے قریب آ گیا۔ رکھی کی نظریں، آنکھوں اور تیزی سے جنبش کرتے ہوئے ہونٹوں اور ہاتھوں کی حرکات پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ دل میں بےچین تشنگی بڑی شدت سے محسوس کر رہا تھا جو پیاسے ہونٹوں سے شربت کا گلاس پرے ہٹ جانے میں ہونے لگتی ہے۔ کامنی نے روٹی الٹتے ہوئے کہا، ’’آپ کو بھوک تو لگ رہی ہوگی۔‘‘ اس نے اٹھ کر کامنی کے رخسار پر ہونٹ رکھ دیے، ’’نہیں کمو! مجھے بھوک نہیں لگ رہی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اسے اپنے بازوؤں میں لینے کی کوشش کرنے لگا۔ کامنی نے اپنے آپ کو اس کی مرضی پر چھوڑتے ہوئے کہا، ’’مجھے روٹی تو پکا لینے دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں جان سے پیاری کمو! روٹی پھر پکا لینا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ہاتھ مار کر توا چولھے سے گرا دیا۔ وہ خوش تھا اور سرتاپا نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ بیٹھک میں دری پر لیٹا ہوا تھا۔ ٹانگیں اٹھاکر قریب بچھی ہوئی کرسی پر ٹکا رکھے تھے اور بجلی کی جگمگاتی ہوئی روشنی میں ویکلی کا پرچہ پیٹ پر دھرے اس کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر کامنی چولھے کے آگے بیٹھی اس کے لیے پراٹھے پکا رہی تھی۔ اس روز سے پہلے زندگی کے جو دن گزر چکے تھے وہ بالکل بے کیف نظر آنے لگے تھے۔ یہ لذت اس نے پہلے کبھی محسوس نہ کی تھی۔ دل مطمئن تھا۔ جسم ہلکا پھلکا اور تروتازہ محسوس ہو رہا تھا، روح پر ناقابل بیان کیف طاری تھا۔ آج کامنی اور وہ ایک ہو گئے تھے۔

    کھانا تیار ہو گیا تو انہوں نے ایک ساتھ مل کر کھایا۔ ایک دوسرے کے منہ سے منہ ملا کر نوالے چھینتے رہے۔ ہنسی مذاق ہی میں وقت گزر گیا اور آخر دروازے پر دستک سنائی دی۔ کامنی نے دروازہ کھولا۔ بیج ناتھ کا معصوم چہرہ دیکھ کر رکھی کے دل میں فتور پیدا ہو گیا لیکن کامنی آڑے آئی، ’’آپ کے دوست تو اٹھ اٹھ کر بھاگ رہے تھے۔ بڑی مشکل سے بٹھائے رکھا میں نے۔‘‘ بیج ناتھ نے بے تکلفانہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا، ’’یار کمال کرتے ہو۔ آخر گھبرانے کی کیا بات تھی؟‘‘ دوست کی سادگی کو دیکھ کر رکھی کو شرم سی محسوس ہونے لگی اور وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔

    ’’کہو، کھانا کھا لیا؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’آؤ تو چلو جیلانی کے ہاں۔‘‘

    راستے میں بیج ناتھ دعوت کی باتیں کرتا رہا۔ کہنے لگا۔ ڈاکٹر شرما میرے بہت گہرے دوستوں میں سے ہیں۔ بڑے پریم سے بلایا۔ واپس نہیں آنے دیتے تھے۔ ہزار حیلوں سے جان چھڑاکر آیا ہوں۔‘‘ جب وہ جیلانی کے ہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں کوئی فوجی رشتے دار باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ برج میں مل سکیں گے۔ ان کا پروگرام درہم برہم ہو گیا۔ خیر، وہ کچھ دیر تک ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ پھر بیج ناتھ نے کہا، ’’آؤ گھر بیٹھیں۔‘‘

    ’’وقت بہت زیادہ ہے۔‘‘

    ’’بھئی اب اجازت دو۔ اب میں گھر واپس جاتا ہوں۔ پھر ملاقات ہوگی۔‘‘ چنانچہ مصافحہ کر کے وہ ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے۔

    آج کے مسرت انگیز واقعے سے اس کا دل اگر چہ مسرور تھا لیکن دوست سے اس پاجی پن کے باعث ضمیر ملامت بھی کرتا اور جب وہ اپنے گھر کے قریب پہنچا تو اپنی نیک اور معصوم بیوی کے تصور سے اس کا دل بوجھل ہو گیا۔ بے چاری شانتا ٹھٹھری ہوئی آگ کے قریب بیٹھی اس کا انتظار کر رہی ہوگی۔ جب وہ جیا کی دکان کے قریب پہنچا تو حسب معمول اس سے پوچھا، ’’کیوں بےجیے! کوئی آیا تو نہیں تھا ہم سے ملنے۔‘‘ جیا نے سر اوپر اٹھایا، ’’اجی بابو بیج ناتھ آئے تھے۔ سیدھے بھیتر چلے گئے۔ مجھ سے تو کچھ بولے نہیں۔ جب آپ نہیں آئے تو بچارے انتجار کر کے چلے گئے۔‘‘

    ’’بیج ناتھ!‘‘ اس کے حلق سے چیخ سی نکل گئی اور وہ ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔

    ’’ہاں جی! بیج ناتھ بابو۔‘‘

    دکان سے مکان تک چند قدم کا فاصلہ اس نے بہت آہستہ آہستہ طے کیا۔ جب وہ سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ اکھڑی ہوئی دو اینٹیں پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئی ہیں۔ اس نے احتیاط سے انہیں ٹکا کر رکھ دیا اور پھر ایک لمحے بھر کے تامل کے بعد اس کے منہ سے مدھم سی ہنسی نکل گئی اور جب وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو وہاں ہر چیز جانی پہچانی تھی۔ ماحول پرسکون اور آرام دہ محسوس ہو رہا تھا۔ اس کی بیوی اندر والے دروازے میں کھڑی ہوئی دکھائی دی۔ وہ اس وقت توشگفتہ پھول کے مانند تروتازہ اور اجلی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ پھول جس کا منہ شبنم نے بڑی احتیاط سے دھو ڈالا ہو۔ جس پر جمی ہوئی گرد کی نامعلوم تہہ کسی نے چوم لی ہو۔

    وہ بڑے کوچ پر بیٹھ گیا۔ شانتا شاخ گل کی طرح لچکتی ہوئی نزدیک آئی اور اس کے قریب کوچ میں دھنس گئی۔ اس نے سر سے پاؤں تک بیوی کا جائزہ لیا اور مسکراکر بولا، ’’شنو! آج تم بہت خوش دکھائی دیتی ہو۔‘‘ اپنے مخصوص انداز میں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ لجا کر مسکرا دی۔ اس کے تروتازہ ہونٹوں سے سپید سپید دانت کسی طرح نمایاں ہوئے اور اس نے بلا کچھ کہے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اس کے کندھے پر رخسار ٹکا دیا۔

    شنو کی نیند کی ماتی پلکیں بوجھل ہو کر جھکنے لگیں۔ وہ چند لمحوں تک شنو کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس کی پیٹھ پر ہلکی ہلکی تھپکی دے کر بولا، ’’میں بھی بہت خوش ہوں شنو! ذرا ادھر لاؤ تو عبد اللہ سگریٹوں کا ڈبا۔‘‘

    مأخذ:

    بلونت سنگھ کے بہترین افسانے (Pg. 366)

      • ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1995

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے