Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خوشۂ امید کا سفر

مونا شہزاد

خوشۂ امید کا سفر

مونا شہزاد

MORE BYمونا شہزاد

    ‘‘فیکے! فیکے! کتے، سور! تجھے سونے کے لیے میں نے رکھا ہے۔’‘

    ٹھیکیدار غصے سے پاگل ہو رہا تھا، اس کے منہ سے کف نکل رہی تھی۔ پورے بھٹے کے مزدور ہراساں تھے، مزدور عورتوں نے ایک دوسرے سے اشاروں سے پوچھا کہ بچے کی ماں کہاں ہے؟۔

    دور مٹی گوندھتی مگن رحیماں کو اللہ وسائی نے پکارا۔

    ‘‘نی رحیماں! ٹھیکیدار تیرے بچے کو کتے کی طرح پیٹ رہا ہے۔ لگتا ہے آج چھورے کی جان لے کر چھوڑےگا۔’‘

    رحیماں نے مٹی گوندھنا چھوڑا اور بھاگی، ہانپتی کانپتی ٹھیکیدار کے سامنے حاضر ہوئی، ٹھیکیدار کا غیض و غضب عروج پر تھا، اس نے ہاتھ میں چابک پکڑ رکھا تھا، اس کے پیر اور ہاتھ دونوں معصوم بچے پر بجلی کی طرح چل رہے تھے، اس نے ٹھڈے مار مار کر اور چابک سے نو سالہ فیکے کو لہو لہان کر دیا تھا، مامتا تڑپ اٹھی، عرش لرز گیا، رحیماں نے اردگرد دیکھا مگر سب حاضرین میں اس کے جیسے غلام ابن غلام ہی وہاں موجود تھے، سب مزدور سنگی مجسموں کی طرح استاداں تھے، مزدور بچے خوف سے لرز رہے تھے، یہ دور حاضر کے غلام تھے، یہ ‘‘بھٹہ مزدور‘‘ تھے، جن کو آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں تھی، رحیماں نے لاچارگی سے سب لوگوں کی طرف دیکھا، سب مرد مزدور اس سے نظریں چرا رہے تھے، عورتیں مزدور اپنے مزدور بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے، بت بنی کھڑی تھیں، آخرکار ماں سے بیٹے کی حالت دیکھی نہ گئی، مامتا تڑپ اٹھی اور وہ بجلی کی تیزی سے فیکے کے اوپر ڈھال بن کر گر گئی۔ اب ٹھیکیدار کے نوکدار جوتے اور چابک اس کی کھال ادھیڑنے میں مصروف تھے، اس نے درد سے ڈوبی سسکاری لی، اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی طغیانی تھی، اس کے زخموں پر مرچیں سی لگ رہی تھیں، اس کی آنکھوں میں لگتا تھا جیسے کچے کوئلے کے دہکنے کا دھواں بس گیا تھا، ٹھیکیدار اب مار مار کر اور گالیاں دے دے کر تھک چکا تھا، اس نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور بولا:

    ‘‘رحیماں! بیٹے کو سمجھا دے کہ کام میں دیری مجھے منظور نہیں ہے۔ میں نے تم لوگوں کو مفت کی روٹیاں توڑنے کے لئے نہیں رکھا ہوا۔’‘

    یہ کہانی شاید صدیوں پرانی ہی ہے، یا شاید ہر دور کا زور آور اپنے زیردست لوگوں کو اسی طرح پامال کرتا ہے۔ ایسی ہی کہانی بدنصیب رحیماں کے خاندان کی تھی۔

    رحیماں کا میاں فیضو بھی اسی بھٹے پر غلامی کرتا کرتا مرا تھا اب رحیماں، اس کا بیٹا فیکہ، اس کی بیٹی لاڈو سب ہی تو اس اینٹوں کے بھٹے ہر ‘‘مزدور‘‘ بھرتی تھے، مزدور کیا تھے بیگار کیمپ کے ‘‘بیگاری’‘ تھے۔ رحیماں کے سسر مولا بخش نے بھی ساری عمر اسی بھٹے پر مزدوری کی تھی، اس پر برا وقت اس دن سے شروع ہوا جب اس نے اپنے اکلوتے بیٹے ‘‘فیضو’‘ کی شادی کے لئے کچھ ہزار روپے ٹھیکیدار سے قرضہ لے لئے، اسے انداذہ نہیں تھا کہ ان چند ہزار کے بدلے وہ نہ صرف اہنی بلکہ اپنے بیٹے اور آنے والی نسلوں کی آزادی کو ‘‘گروی’‘ رکھ رہا تھا، ٹھیکیدار نے اس سے چند کاغذات پر انگوٹھا لگوایا تھا، مولا بخش ایک سادہ لوح ایماندار شخص تھا۔ اس نے بغیر پوچھ گاچھ کے کاغذات پر انگوٹھا لگا دیا۔ جس روز مولا بخش فوت ہوا اس روز ٹھیکیدار ان کی جھونپڑی میں افسوس کے بہانے آیا اور سزائے عمر قید سنا کر گیا، اس نے جاتی دفعہ مڑ کر فیضو کو کہا:

    ‘‘کل سے فیضو اپنی گھر والی کو لےکر بھٹے پر مزدوری کے لئے آ جانا، مولا بخش نے مجھ سے لاکھ روپیہ قرض لیا تھا۔ ’‘

    فیض بخش عرف فیضو نے ہچکچاتے ہوئے ہاتھ جوڑے جوڑے کہا:

    ‘‘سرکار! ابا نے آپ سے دس ہزار قرض لیا تھا۔ میرے مطابق تو یہ قرضہ ہم کب کا ادا کر چکے ہیں۔’‘

    آخرکار ابا اور اس کی آدھی سے زیادہ تنخواہ پچھلے دو سال سے ٹھیکیدار قرضے کی مد میں ہی تو کاٹ رہا تھا۔

    اس پر ٹھیکیدار نے اپنی ہوس زدہ آنکھیں، رحیماں کے روپ پر گاڑتے ہوئے، مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے کہا:

    ‘‘منشی! فیضو کو کاغذات دکھاو، بابے نے کتنی بڑی رقم قرض کی اٹھائی تھی۔’‘

    منشی نے جھٹ سے مولا بخش کے انگوٹھے لگے کاغذات فیضو کے سامنے کر دیے، فیضو ایک لاکھ روپے کے صفر گن کر ہی چکرا گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ منشی نے جاتے جاتے ٹھیکیدار کے اشارے پر کوئی بات فیضو کے کان میں کہی اور دونوں چل پڑے۔ فیضو سنگی مجسمے کی طرح زمین پر بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا۔

    رحیماں نے اپنے سر کے سائیں کو ہلایا اور کہا:

    فیضو! منشی کیا کہہ کر گیا؟

    فیضو کی حالت ایسی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں اس نے ڈوبی ڈوبی آواز میں کہا:

    ‘‘میری زندگی میں جو منشی نے کہا وہ میں نہیں ہونے دونگا۔ میں تجھے ٹھیکیدار کی رکھیل نہیں بننے دونگا۔’‘

    الہڑ رحیماں ناسمجھی کے کارن سمجھ نہ پائی کہ اس کے سرتاج نے کس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ رحیماں تھی بھی تو پھولوں بھری ڈال، انتہائی گورا رنگ، بڑی بڑی کٹورا سیاہ ستارہ آنکھیں، گلابی لب، اس کے لمبے سیاہ بال جو اس کی چوٹی کی صورت میں ناگن کی طرح اس کی کمر پر بل کھاتے، چھریرا بدن، وہ لب دانت سے دبا کر جب شرماتی تو چاند بھی اس کا روپ دیکھ کر شرما جاتا، غرض فیضو اور رحیماں نے ٹھیکیدار کے حکم کے مطابق بھٹے پر مزدوری شروع کر دی، اب وہ صرف دو وقت کی روٹی کے مزدور تھے، اب ان کی کوئی دہاڑی نہیں تھی۔

    ٹھیکیدار کی ننگی نظر رحیماں کو اکثر بے چین کرتیں، اس کو لگتا جیسے بےشمار کیڑے اس کے بدن پر رینگ رہے ہوں، ٹھیکیدار آتے جاتے لگاوٹ سے رحیماں کو بہانے بہانے سے ہاتھ لگا جاتا مگر ہر بار فیضو اس کا رستہ کاٹ جاتا، رحیماں، اللہ سے فیضو کی زندگی کی دعائیں مانگتی کیونکہ جب تک فیضو ایک چھتناور درخت کی طرح اس کے سر پر موجود تھا، ٹھیکیدار اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا تھا۔ اگلے کچھ سالوں میں رب نے انھیں اولاد کی نعمت سے نواز دیا اور رحیماں کی گود میں ایک بیٹا اور بیٹی کھیلنے لگے، مگر ان بچوں کا نصیب بھی اپنے والدین سے مختلف نہ تھا، بچوں کی پیدائش کے بعد رحیماں ایک رس بھرا پھل بن گئی تھی، جس میں سے رس ٹپکتا نظر آتا تھا، یہ اللہ تعالی کی دین تھی کہ سخت مزدوری اور قلیل خوراک کے باوجود رحیماں پر سال گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹوٹ کر روپ آیا تھا، اس کو دیکھ کر ‘‘گدڑی میں لعل’‘ والی مثل یاد آتی تھی۔ یہ بدنصیب خاندان اپنے جیسے کئی دیگر غلام خاندانوں کے ساتھ زندگی کی سانسیں پوری کر رہا تھا کہ پھر قسمت کا پہیہ ایک بار پھر گھوما اور ایک بار پھر رحیماں کو دغا دے گیا، فیضو بھٹے میں اینٹیں پکاتے پکاتے ٹی بی کا مریض بن گیا، وہ خون تھوکتا جاتا اور اینٹیں بھٹی میں پکاتا جاتا۔ یہ بھٹہ اس کی جوانی کو نگل گیا اور ایک دن فیضو بھی راہی عدم کا مسافر بن گیا۔ اب رحیماں کے گرد ٹھیکیدار کا گھیرا مزید تنگ یو گیا، اب رحیماں ستائیس سالہ بھرپور جوبن والی عورت تھی، اس کا جوبن اور روپ پھٹی پرانی گھاگرا چولی میں بھی حوروں کو مات دیتا۔ ٹھیکدار ایک کوڑیالے ناگ کی طرح رحیماں کے جوبن کو ڈسنا چاہتا تھا، وہ اژدھے کی طرح رحیماں کے گرد آہستہ آہستہ اپنا گھیرا ہولے ہولے تنگ کر رہا تھا، اس کو پتا تھا کہ ایک ماں کو قبضے میں کرنے کا آسان طریقہ اس کے ’‘بچے’‘ ہیں۔ اب وہ ’‘بچوں’‘ کو ایذا پہنچاکر ان کو سیڑھی بناکر اپنی منزل مراد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ٹھیکیدار خود ہنس کر منشی کو آنکھ دبا کر کہتا:

    ‘‘وے منشی! سیانے کہہ گئے ہیں اگر ہرنی کا شکار کرنا ہے تو اس کے بچے کو پکڑ لو ہرنی خودبخود جال میں پھنس جائےگی۔’‘

    اسی نکتہ نظر کے تحت ٹھیکیدار کے ظلم و استبداد اب اس کے بچوں پر بڑھ گیا تھا، آج کی رات بہت طویل تھی، فیکے کو بخار تو پرسوں سے چڑھا ہوا تھا، جس کے باعث وہ آج نقاہت کے باعث دوران کام سو گیا تھا اور اس کے نتیجے میں اسے ٹھیکیدار کے عتاب کا نشانہ بننا پڑا تھا، اب اس کے اوہر غشی طاری تھی، رحیماں بےحد پریشان تھی، آنے والا سویرا اسے ہولا رہا تھا کہ صبح اس کا جگر گوشہ اس خراب حالت میں کیسے مزدوری کرےگا۔ اسی پریشانی میں رحیماں سوچنے لگی شاید اگر میں اپنا آپ کو ٹھیکیدار کو ‘‘سونپ’‘ دوں تو میرے بچوں کی زندگی ’‘بہتر’‘ ہوجائے۔ اسی مخمصے میں رات سرک رہی تھی، آخر ‘‘مامتا’‘ جیت گئی اور ’‘عورت‘‘ہار گئی۔ ابھی شب نصف ہی گزری تھی کہ رحیماں نے ٹھیکیدار کی کوٹھی کا دروازہ کھٹکھٹایا، ٹھیکیدار نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، آج سالوں بعد سہی اس کی دلی مراد بر آئی تھی، ٹھیکیدار کے لئے مزدور عورتوں کی کمی نہیں تھی مگر اس کی ہوس اسے ہمیشہ رحیماں کی آرزو کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ رحیماں سر جھکائے خاموشی سے قربانی کے جانور کی طرح ٹھیکیدار کے پیچھے پیچھے چلتی اس کے کمرے میں چلی گئی۔ اگلے دو روز تک ٹھیکیدار نے نہ خود کوٹھی سے قدم بایر نکالا اور نہ رحیماں کو نکالنے دیا۔ رحیماں کے اصرار پر منشی کے زمے اس کے جگر گوشوں کی خبر گیری لگا دی۔ ٹھیکیدار کے بیوی بچے ویسے ہی شہر والی کوٹھی میں رہتے تھے، اس لئے ان کی طرف سے اسے بےفکری تھی۔ ٹھیکیدار نے ان دو دنوں میں گدھ کی طرح رحیماں کی نیم مردہ لاش کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالی، رحیماں کو امید تھی کہ اب شاید اس کے جگر گوشوں کی زندگی آسان ہو جائےگی۔ مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا، اب وہ اور اس کے بچے دن بھر بھٹے میں مزدوری کرتے اور رات کو ٹھیکیدار اس کی لاش کی بوٹیاں نوچتا، کھسوٹتا۔ سال پر سال گزرتے گئے، رحیماں کے سر پر چاندی کے بال چمکنے لگے، آج رات ٹھیکیدار نے بدمزگی سے رحیماں کو پیچھے کیا اور بولا:

    ‘‘رحیماں! اب تو بوڑھی گھوڑی ہوگئی ہے، اس لئے صرف بھٹے کا کام کیا کر، رات کی خدمت اب اپنی بیٹی لاڈو رانی کے سپرد کر دے، کل سے لاڈو کو بھیج دیا کر’‘۔

    رحیماں کانپتی ہوئی اپنی بوڑھی لاش گھسیٹتی، اپنی چیخیں ضبط کرتی، گھر پہنچی تو یہاں ایک اور آفت اس کی منتظر تھی اس کا جوان بیٹا فیکہ کھانس کھانس کر خون تھوک رہا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے اس کا باپ خون تھوکتا، تھوکتا مر گیا تھا، رحیماں کے منہ سے چیخ نکلی جو آسمان تک گریہ بن کر پھیل گئی۔

    رحیماں کی آنکھ جھٹکے سے کھل گئی، اس نے دیکھا بخار میں تپتا معصوم فیکہ اس کی گود میں سر رکھے سو رہا تھا، اس کی معصوم لاڈو ابھی بچی تھی اور ہنوز درندوں سے محفوظ تھی، اس نے دل سے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ وہ سب ایک ‘‘بھیانک خواب’‘ تھا، اس نے ایک عزم مصمم کیا، فیکے کے منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر اسے اٹھایا، لاڈو کو پکڑا اور ایک گٹھڑی کے ساتھ ریلوے اسٹیشن کی طرف چھپتے چھپاتے چل پڑی، اسے علم تھا کہ اگر ٹھیکیدار کے پہریداروں نے انھیں پکڑ لیا تو وہ اسے اور اس کے بچوں کو کتوں کے آگے زندہ ڈال دینگے، مگر اس نے اس زندان سے فرار ہونے کا عزم مصمم کر لیا تھا، وہ بچوں کو لے کر چھپتی چھپاتی کیسے اسٹیشن پہنچی، ایسے لگتا تھا جیسے پل صراط طے کر آئی ہو۔ اگلے دو گھنٹے بعد وہ ریل گاڑی میں بیٹھے کراچی کی طرف عازم سفر تھے، رحیماں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے آخری کوشش ضرور کرئےگی چاہے اس کوشش میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے، اسے یقین تھا کراچی غریب پرور شہر تھا، اتنی آبادی کے سمندر میں ٹھیکیدار اور اس کے پالتو غنڈے کبھی انھیں ڈھونڈ نہ پاتے۔ کراچی تک کا سفر اس نے مختلف بوگیوں میں پھرتے گزارا، کئی بار ایسا لگا کہ ٹی ٹی اس کو پکڑ لے گا، مگر ہر دفعہ تائید غیبی نے ایسی مدد کی کہ سفر گزرتا گیا بالآخر وہ کراچی پہنچ گئے۔

    کراچی ریلوے اسٹیشن پر اترکر ایک نئی دنیا ان کے سامنے تھی۔ فیکہ بخار اور زخموں کے باعث لڑکھڑا تھا، اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی وہ سڑک کے کنارے ڈھیر ہو گیا۔ رحیماں اور لاڈو کی چیخوں سے راہگیر اکٹھے ہو گئے انھوں نے ایک راہ چلتی گاڑی روک کر اس کے ڈرائیور سے مدد کی درخواست کی، خوش قسمتی سے وہ کراچی کے مشہور و معروف سرجن عبدالطیف صاحب کی گاڑی تھی، بچے کی ناگفتہ حالت دیکھ کر انھوں نے فورا ڈرائیور سے کہہ کر اسے گاڑی میں ڈلوایا اور رحیماں، لاڈو کو لے کر اپنے ہاسپٹل لے گئے۔ انھوں نے نہ صرف فیکے کا علاج و معالجہ کیا، بلکہ رحیماں کی دردناک کہانی سن کر اس کو اپنے ہاسپٹل میں صفائی کی نوکری اور رہائش بھی دے دی۔ اب رفیق عرف فیکہ اور علینہ عرف لاڈو سکول جاتے تھے، رحیماں کے خواب سچے ہوتے نظر آ رہے تھے، کیونکہ معصوم ہاتھوں نے مزدوری چھوڑ کر کتابوں سے دوستی کر لی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے