Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خود فریبی

خالد فتح محمد

خود فریبی

خالد فتح محمد

MORE BYخالد فتح محمد

    پل پار کرنے کے بعد گلیانہ کو جانے والی سڑک پر واقع نصیرہ میں داخل ہوتے ہی دائیں طرف ایک لمبی اور تنگ گلی ہے جس کے دونوں کناروں پر ’’آؤٹ آف باؤنڈ‘‘ کا بورڈ لگا ہوا تھا جس پر عملداری کے لیے دو بجے کے بعد ملٹری پولیس کا ایک ایک سپاہی دونوں سروں پر کھڑا ہو جاتا۔ رات کے گیارہ بجے تک وہ سپاہی گلی میں داخل ہونے والے فوجیوں کے کاغذات کی پڑتال کرکے انہیں واپس بھیجتے اور احکام کی خلاف ورزی کرنے پر رپورٹ تیار کرکے اپنے ہیڈ کوارٹر میں جمع کروا دیتے جس پر ایک آدھ دن کے بعد کارروائی کا آغاز ہو جاتا۔ سجاول خان کو بھی مہینے میں دوبار کسی ایک سِرے پر کھڑا ہونا پڑتا۔

    خادم اس کا جوڑی دار تھا۔ چھاؤنی کے اندر جب جوڑیوں میں گشت کرنا ہوتی تو وہ دونوں کوشش کرکے ایک ہی Beat پر اپنے آپ کو لگواتے۔ وہ قدم ملاتے ہوئے آہستہ آہستہ چلتے اپنی گشت کے دوران کئی معاملات پر تبادلہ خیال بھی کرتے۔ خادم ایک سخت مزاج آدمی تھا اور وہ کسی قسم کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتا تھا چناں چہ اُسے اپنے یونٹ میں ہمیشہ اعلیٰ کارکردگی کا سرٹیفکیٹ ملتا اور اپنا معیار قائم رکھنے کے لئے، بغیر کسی سمجھوتے کے، ہمیشہ اپنے لیے متعین کیے ہوئے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے اسے روزانہ رپورٹ بنانا ہوتی۔ سجاول اس معاملے میں اپنے دوست خادم سے بالکل اتفاق نہیں کرتا تھا۔ وہ فوجی اصولوں اور ضوابط کی پابندی توڑنے کے ہر گز حق میں نہیں تھا لیکن محسوس کرتا کہ بعض اوقات خلاف ورزی کرنے والے کی بھی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ کسی ایسے وقت پر کہیں موجود ہوتا ہے جہاں اُسے نہیں ہونا چاہئے۔ ایسے معاملات کے بارے میں ان کی تربیت کے دوران میں بتایا گیا تھا اور اسے خلاف ورزی سمجھنا فرد کی صوابدید تھی۔

    جب بھی کوئی چھاؤنی وجود میں آتی ہے تو اس کے ارد گرد کا علاقہ جاسوسوں، جسم فروشوں، دلالوں، قسطوں پر سامان مہیا کرنے والوں، مفعول مردانہ جنس پرستوں، چھوٹے گھروں کے چھوٹے مالکوں سے جو چھوٹے فوجی ملازموں کو گھر کرائے پر دیتے ہیں، دکان داروں، درزیوں، قصائیوں، ناجائز فروشوں اور ماسیوں سے بھر جاتا ہے۔ فوجی حکام ان کے مثبت اور منفی پہلوؤں سے واقف ہیں اور وہ اپنے خلاف جاسوسی کے توڑ، سپاہیوں کو جنسی بے راہ روی اور دیگر غیراخلاقی رویوں میں ملوث ہونے سے روکنے کے لئے اپنے انٹیلی جنس ادارے کی متعدد شاخوں اور ملٹری پولیس کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون بھی کافی لچک مہیا کرتا ہے۔

    کسی جنسی بیماری میں مبتلا ہونے سے زیادہ اس بیماری کا چھپانا بڑا جرم ہے۔ فوج اور جنس ہمیشہ ساتھ ساتھ چلے ہیں اور یہ نیا نہیں صدیوں پرانا مقولہ ہے۔ جب دماغی اور جسمانی طور پر بڑی تعداد میں اہل افراد عورتوں سے علیحدہ زندگی گزار رہے ہوں تو ان کا اپنی مردانہ رہائش گاہ کے اندر یا باہر اپنے جذبات سے نجات پانے کے لئے ذریعے ڈھونڈنا لازم ہو جاتا ہے۔

    نصیرہ کی تنگ اور لمبی گلی فوجیوں کو ایسی سہولت بہم پہنچانے کے لئے وجود میں آئی اور انہیں جنسی بے راہ روی کا شکار ہونے سے روکنے کے لئے وہاں ’’آؤٹ آف باؤنڈ‘‘ کا بورڈ لگانے کے بعد گلی کے دونوں اطراف ملٹری پولیس کو کھڑے کرنا فوجیوں کے جذبات کو بیرک کے اندر قید رکھ کر ہم جنسیت کی در پردہ اجازت دینا ہی تھا۔

    سجاول خان اپنے حوالدار میجر کی منت سماجت کرکے نصیرہ کی اس گلی میں سب سے زیادہ اپنی ڈیوٹی لگواتا!

    سجاول نے اپنے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ کسی کو نہیں بتائی تھی۔

    گلی میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے گھروں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو آخر تک چلا جاتا۔ یہ سلسلہ کسی تعمیراتی حسن کے بجائے چھاؤنی بننے سے پہلے ایک حفاظتی اقدام اور بعد میں کاروباری حقیقت تھی۔ جب چھاؤنی کا نقشہ اور منصوبہ زیر غور تھے تو فوجیوں کی جنسی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ارد گرد کے جنسی بیوپاریوں نے اس گلی کے گھر یا تو خرید لئے اور یا کرایہ پر لے لئے اور جیسے ہی چھاؤنی آباد ہونا شروع ہوئی، گھروں میں ضرورت کی جنس بھی بھری جانے لگی۔

    چھاؤنی کی ہر سڑک کے ساتھ بارش کے پانی کے اخراج کے لئے ایک نالہ کھودا گیا تھا اور سڑک کی ڈھلوان اُس نالے کی طرف ہے جس کے نتیجے میں بارش کے فوراً بعد تمام پانی ان نالوں میں بہہ جاتا اور یہی لگتا کہ چھاؤنی میں چند بوندوں کے علاوہ بارش ہوئی ہی نہیں۔ نصیرہ، چھاؤنی کے مشرق میں واقع ہے اور بارش کے پانی کے اخراج کے لئے نالے کو پار کرنے کے بعد ملٹری پولیس کی اہم چیک پوسٹ آتی ہے اور پھر نصیرہ۔ نصیرہ، چھاؤنی کے ساتھ جڑا ہوا ہونے کی وجہ سے ایک چھوٹا سا اہم کاروباری مرکز بن گیا ہے جہاں چھوٹے رینک کے افراد کی ضروریات کی تمام اشیا دستیاب ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہاں ان کی جنسی آسودگی کے ذرائع بھی موجود ہیں جنہیں فوج ’’آؤٹ آف باؤنڈ‘‘ قرار دے کر ممنوع قرار دیئے ہوئے ہیں۔

    گلی میں پہلا گھر باقی گھروں سے قدرے بڑا اور مختلف ہے۔ ملٹری پولیس کے سپاہی کے لئے کھڑا ہونے کی پوسٹ سے اس گھر کے سامنے داخلی دروازہ، کھڑکیاں روشن دان اور چھت پر بنا چوبارہ واضح نظر آتے۔ سجاول نے اندازہ لگایا کہ چوبارہ ڈیوڑھی پر بنایا گیا ہے۔ باقی گھروں میں کھڑکیاں اور روشن دان نہیں تھے اور وہ سڑک پر سے ایک بند ڈبیہ کے مشابہ تھے۔ سجاول دو بجے اپنے لئے کھڑے ہونے کے لئے بنائی گئی جگہ پر کھڑا ہوتا تو کچھ دیر کے بعد سامنے والے گھر سے ایک نوجوان عورت نکل کر دہلیز پر بیٹھ جاتی۔ شروع میں سجاول نے اس کے وہاں آکر بیٹھ جانے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور پھر جب اسے احساس ہوا کہ وہ اُس کے لئے وہاں آکر بیٹھتی ہے تو وہ اُس طرف دیکھنے سے گریز کرنے لگا۔ اس کے ذہن میں بچپن کی سنی ہوئی یہ بات چکر کاٹنے لگی کہ وہ لڑکی عام لڑکیوں سے مختلف ہے اور اگر وہ اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھے گا تو پتھر کا ہو جائے گالیکن اس کی نظر رہ رہ کر اس طرف اٹھتی۔ دور سے اسے لڑکی میں عجیب طرح کی کشش محسوس ہوتی، جیسے وہ لڑکی اس کی زندگی کا رخ موڑنے کے لئے وہاں آئی ہو۔ یہ خیال آتے ہی سجاول کو اپنا گھر اور اُس سے وابستہ مجبوریاں یاد آ جاتیں جنہیں ذہن سے نکالنے کے لئے وہ ازسرنو اس لڑکی کی طرف دیکھنے لگتا۔

    لڑکی بھی محویت سے اسے دیکھ رہی ہوتی اور وہ گھبراہٹ میں اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہاں رکھے کاغذ کے ٹکڑے یا پنسل کو ٹٹولنے لگتا۔ ایک دن اس کی اسی گھبراہٹ سے محظوظ ہوکر وہ مسکرا دی۔ سجاول کو اس کی مسکراہٹ میں ایک اداسی اور درد چھپا ہوا محسوس ہوا اور پہلی مرتبہ اس نے لڑکی کی طرف نظر بھر کے دیکھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ لڑکی نے نظر ملتے ہی گردن جھکالی تھی۔ اس وقت اسے نہ تو وہ پتھر بنا دینے والی اور نہ ہی جسم بیچنے والی ایسی لڑکی لگی جس کے کاروبار کو روکنے کے لئے وہ وہاں کھڑا تھا۔ لیکن وہ کیسے کہہ سکتا تھا کہ لڑکی جسم بیچتی ہے یا نہیں بیچتی؟ اسے وہاں ڈیوٹی دیتے تین مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا تھا، اس نے کسی غیرضروری آدمی کو گھر میں داخل ہوتے یا باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا! شاید وہ صرف بلانے پر کہیں جاتی ہو؟ کیا اسے ہمیشہ ان دنوں میں بلایا جاتا تھا جب وہ وہاں نہ ہو؟ اسے یہ ناممکن سا لگا اور یہ بھی کہ وہ جسم نہیں بیچتی، اس کا ’’آؤٹ آف باؤنڈ‘‘ گلی میں رہنا ہی اِس بات کا ثبوت تھا۔

    اس دن کے بعد بھی وہ دہلیز پر آکر بیٹھتی لیکن اب سجاول اس کی طرف دیکھتا اور وہ شرما کر مسکراتے ہوئے نظر جھکا لیتی۔ سجاول کو اس کا نظر جھکا دینا ایک جادوئی سا عمل محسوس ہوتا۔ جب وہ شرماتے ہوئے نظر جھکاتی یا ایک ادا سے کندھے جھک کر اس کی طرف پیٹھ کر لیتی تو سجاول کے اندر کا خلا گہرا ہونے لگتا۔ وہ سوچتا لڑکی ہر وقت اس کے ذہن پر سوار کیوں رہتی ہے؟ اسے لڑکی سے ملنے کا خیال آیا لیکن پھر فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی سے خائف ہو گیا۔ اس نے ازراہ تفنن سوچا کہ اگر وہ لڑکی سے ملا تو سب سے پہلے خادم ہی اس کی ایم پی رپورٹ کرےگا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خادم سے مشورہ کرےگا۔ اس نے مزید سوچنا بند کرکے سڑک اور اپنی پوسٹ کے درمیان چند قدموں کے فاصلے پر ٹہلتے ہوئے اپنی ماں اور گھر کے مسائل کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

    رات وہ جب اپنے بیرک میں پہنچا تو ’’لائٹس آف‘‘ کا وقت ہو چکا تھا، کینٹین بھی بند ہو چکی تھی اس لئے وہ کہاں بیٹھ کر بات کرے؟ اسے خوشی میں ملی حیرت ہوئی جب خادم اپنے بستر پر نہیں تھا۔ اُسے بتایا گیا کہ اُس کی گیراج میں ’’نائیٹ گارڈ‘‘ تھی اور وہ لباس تبدیلی کرکے گیراج میں پہنچ گیا۔ خادم اس وقت ڈیوٹی پر تھا۔

    ’’خیریت سے آئے ہو؟ الماری کی چابی تو نہیں گنوا بیٹھے؟‘‘ سجاول اکثر اپنی الماری کی چابی کھودیا کرتا تھا اس لئے ایک فالتو چابی ہمیشہ خادم کے پاس رہتی تھی۔

    سجاول نے فوری جواب دیا۔

    ’’نہیں!‘‘

    سجاول کے لہجے کی سنجیدگی نے خادم کو چوکنا کر دیا۔ اس نے دور کھمبے پر لگے بلب سے آتی روشنی میں سجاول کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی، سجاول نہ اندھیرے میں تھا اور نہ ہی روشنی میں اِس لئے وہ چہرے کے تاثرات نہ جان سکا۔

    ’’آدھے گھنٹے کے بعد مجھے اگلے سنتری کو جگانا ہے اور پھر میری باری دو گھنٹوں کے بعد آئےگی۔ ہم ادھر،‘‘ اس نے ایک ٹرک کی طرف اشارہ کیا، ’’بیٹھ کر بات کر لیں گے۔‘‘

    سجاول اثبات میں سر ہلا کر ٹرک کی طرف چلا گیا۔

    خادم جب ٹرک کے کیبن میں آیا تو سجاول انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا۔ خادم نے اسٹیئرنگ وہیل کے پیچھے بیٹھ کر سجاول کو جگایا۔ دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے سامنے ونڈ اسکرین کے اس پار دیکھتے رہے حالانکہ وہاں دیکھنے کو کچھ بھی نہیں تھا، بس چند پانی والے ٹریلر، کچھ جیپیں اور ٹرک! ملٹری پولیس کے یونٹ اپنی جیپوں اور ٹرکوں کی وجہ سے ہمیشہ متحرک اور لچکدار رہتے ہیں۔

    ’’شکر ہے کہ ہم اپنے یونٹوں سے ایم پی میں آ گئے ورنہ کہیں پیدل چل رہے ہوتے۔‘‘ سجاول نے بات شروع کی۔

    ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن رسالے اور انفنٹری کا اپنا ہی مزا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیسے؟‘‘ سجاول نے حیرت سے پوچھا۔

    ’’ملٹری پولیس میں کوئی جسمانی آزمائش ہی نہیں، تھوڑی سی گشت، باقی سب کچھ جیپوں میں۔‘‘ خادم نے ہلکے لہجے میں جواب دیا۔

    ’’اور نصیرہ کی ڈیوٹی؟‘‘ سجاول نے احتیاط سے سوال پوچھا۔

    ’’وہاں کھڑے ہونا ایک امتحان ہے۔‘‘ خادم کی آواز میں کھنچاؤ تھا۔

    ’’اچھا؟‘‘

    ’’ہاں! کھڑے ہیں بس۔ وہاں کوئی آتا ہی نہیں۔ شاید جلدی والا کوئی دن کو چکر لگا لیتا ہو ورنہ کسی میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ دو بجے کے بعد آئے۔‘‘ خادم نے اپنی نظر سامنے ہی رکھی۔

    ’’تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ دن کو کئی چکر لگ جاتے ہوں گے۔‘‘ سجاول نے پریشانی سے پوچھا۔

    ’’اس لئے کہ یہ لوگ ابھی تک وہاں بیٹھے ہوئے ہیں ورنہ کسی اور جگہ چلے جاتے۔‘‘ سجاول کو خادم کی بات میں وزن محسوس ہوا۔

    ’’تم نے کوئی بات کرنی تھی؟‘‘

    ’’ہاں اور نہیں بھی۔‘‘ سجاول نے مذاق میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔

    ’’کچھ تو ہے؟‘‘ خادم نے زور دیا۔

    ’’تم نے وہاں کسی لڑکی کو کبھی دیکھا ہے؟‘‘ سجاول ذرا خائف سا ہوکر ، تیزی سے فقرہ پورا کر گیا۔

    خادم کچھ دیر خاموش رہا۔

    ’’نہیں!‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’میں نے دیکھا ہے۔‘‘ سجاول نے گویا فقرہ پورا کیا۔

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’پوسٹ کے سامنے والے گھر میں۔‘‘

    ’’چوبارے والے گھر میں؟‘‘

    ’’ہاں! چوبارے والے گھر میں۔‘‘

    ’’کیا کرتی ہے وہ؟‘‘

    ’’پتا نہیں!‘‘

    ’’اس کی رہائش تو ’آؤٹ آف باؤنڈ‘ علاقے میں ہے۔‘‘

    ’’کیا وہاں رہنے والے۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں وہاں رہنے والے۔۔۔!‘‘ خادم نے سجاول کی بات کاٹ کر اپنی ادھوری چھوڑ دی۔

    میں۔۔۔ میں اس لڑکی سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ خادم کی آواز میں حیرانی تھی۔ وہ کچھ دیرخاموش بیٹھا رہا۔ سنتری نے اپنا چکر مکمل کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزر کر سگریٹ سلگایا اور گارڈ کے لئے رکھے بنچ پر بیٹھ کر ایک لمبا کش لے کر گانا شروع کر دیا۔ سجاول اس کی طرز میں سے بول نکالنے کی کوشش میں ناکام ہوکر خود گنگنانے لگا۔ ساتھ والے یونٹ میں اچانک سیٹیاں بجنے لگیں اور خادم بغیر کچھ بتائے ٹرک میں سے چھلانگ لگا کر بھاگ گیا۔ ایم پی کے وہیکل گارڈ کمانڈر نے بھی سیٹیاں بجانا شروع کر دیں۔ چاروں سنتری اور گارڈ کمانڈر بھاگ کر گاڑیوں کے ارد گرد، باہر کی طرف منہ کرکے لیٹ گئے۔ سجاول کے لئے یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں تھی۔ ساتھ والے یونٹ کے ڈیوٹی آفیسر نے اپنی گارڈ کا ردعمل دیکھنے کے لئے ریہرسل کروائی تھی اور چوں کہ اس فرضی کارروائی کو اصل ہی سمجھا جانا ہوتا ہے اس لئے خادم اور اس کے ساتھیوں کو بھی وہی تمام کرنا پڑا جو اصل حالت میں ہونا تھا۔

    پھر ایک لمبی سیٹی بجائی گئی جس طرح کی سیٹی ملٹری پولیس کے یونٹ کے علاوہ ساتھ والے یونٹوں میں بھی بجائی گئی۔ یہ ایمرجنسی کے ختم ہونے کا اعلان تھا۔ خادم واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔

    ’’ہاں! تو تم اس لڑکی سے ملنا چاہتے ہو؟‘‘ خادم نے بیٹھتے ہی پوچھا۔ اس کے سوال میں طنز کے ساتھ دل چسپی بھی تھی۔ ’’کیوں؟‘‘

    سجاول کو ملٹری پولیس کے اسکول کی تربیت یاد آ گئی جہاں انہیں تفتیش کرنا سکھایا جاتا تھا۔

    ’’یہ جاننے کے لئے کہ وہ کیا کرتی ہے!‘‘ سجاول کو اپنی آواز ڈگمگاتی ہوئی سی لگی۔ اب اسے خادم کی اعتماد اور اپنی کم اعتمادی پر جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی۔

    ’’یہ جاننے کے لئے اس سے ملنا ضروری نہیں، کلرکوں کے پاس اس گلی میں رہنے والوں کا تمام ریکارڈ موجود ہے جس کی گاہے بگاہے ویری فکیشن ہوتی رہتی ہے۔‘‘

    ’’ان کی تصدیق کا ایک ذریعہ ہم بھی ہیں اور ہم کتنا جانتے ہیں؟‘‘ اس جواب سے سجاول کا اعتماد ایک دل بحال ہو گیا۔ ’’ہم ان کے ویری فکیشن کے پروسیجر کو جانتے ہیں۔ پولیس اور دکان دار ان کی اطلاعات کا ذریعہ ہیں۔ دکان دار انٹیلی جنس والوں کی گاڑیوں کو اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور انہیں عموماً درست اطلاع نہیں دیتے۔‘‘ سجاول نے اپنی چند سالوں کی نوکری کے تجربے کا نچوڑ سنادیا۔ ’’سول پولیس؟ مجھے زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’حل بتاؤ؟‘‘ خادم نے اکتا کر پوچھا۔

    ’’میں نے لڑکی سے ملنا ہے!‘‘ سجاول نے چھاتی پر آہستہ سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

    ’’کیسے؟‘‘ سجاول کو لگا کہ خادم نے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔

    ’’تمہاری ڈیوٹی کے دوران میں!‘‘ سجاول نے اعتماد کے ساتھ مسکراتے ہوئے آہستہ سے کہا۔

    ’’اگر انٹیلی جنس رپورٹ ہو گئی تو؟‘‘ سجاول کو خادم کی آواز میں خوف کی کپکپی محسوس ہوئی۔ اسے اپنے این سی اوز اور جے سی اوز کی باتیں یاد آ گئیں۔ اس طرح کی باتیں ہمیشہ کینٹین میں چائے کی پیالی پر ہوا کرتی تھیں۔ سینئر بتاتے کہ فوجی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو زمانہ جنگ میں قطعاً موت سے نہیں ڈرتے اور دوسرے وہ جو امن کے زمانے میں نہایت محنتی، با اصول اور قوائد کے پابند ہوتے ہیں، ان میں ایک واضح خامی ہوتی ہے کہ جیسے ہی جنگ کی پہلی گولی چلتی ہے ان کے حواس جواب دے جاتے ہیں اور زمانہ امن کے لاپروا، غیرذمےدار اور رد کیے جاچکے افراد ایسے نتائج قوم کے سامنے لاتے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ سجاول کو اپنے اور خادم کے درمیان یہی فرق محسوس ہوا، وہ اپنے آپ کو زمانۂ جنگ کا سپاہی سمجھتا تھا جس کے نزدیک زندگی اتنی اہم نہیں تھی جتنا ملکی وقار اور خادم ایسا سپاہی تھا جو ضوابط کی پاس داری میں انسانی احساسات اور جذبات کی اہمیت کو کھو بیٹھتا ہے۔

    ’’انٹیلی جنس والے ہمارے بغیر کس کام کے؟‘‘

    ’’دیکھو سجاول!‘‘ خادم نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے گیئر لیور کو ٹٹولتے ہوئے بات شروع کی،’’ان کے اپنے مخبر ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے، یہاں تک کہ وہ اپنے مخبر کے متعلق اپنے او سی کو بھی نہیں بتاتے۔ باقی رہی بات کہ وہ ہمارے کس کام کے؟ تو وہ ہمیں صرف کہیں پرریڈ کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ ہم جب بھی ٹرانسپورٹ وغیرہ Misuse کرتے ہیں، ہماری رپورٹ ہو جاتی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہم نے ایک ریڈ میں ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا۔‘‘ سجاول ایک دبی سی ہنسی ہنسا۔ انہیں ایک جے سی او کے کوارٹر میں ریڈ کرنا تھا، نائب صوبے دار کے بیوی بچے وہاں نہیں رہ رہے تھے جب کہ سرکاری طور پر وہ وہاں ہی تھے۔ انٹیلی جنس والوں کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایم پی یونٹ نے سجاول کی معرفت جے سی او کو پیشگی اطلاع کروا دی اور وہ ریڈ والی شام کو اپنے بیوی بچوں کو لے آیا۔ ’’اور پھر عین ممکن ہے کہ وہ لڑکی ہی ان کی مخبر ہو!‘‘

    سجاول نے اس پہلو پر کبھی غور ہی نہیں کیا تھا، اسے خادم کی بات منطقی بھی لگی لیکن پھر اس نے سوچا: کیا چھاؤنی اور گرد و نواح کے علاقوں کے تمام رہائشی انٹیلی جنس والوں کے مخبر ہیں؟ اسے اپنی سوچ میں وزن محسوس ہوا۔ وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا سامنے دیکھتا رہا۔ وہ خادم کو غلط ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن اسے اتفاق کرنا بھی مشکل لگا۔

    ’’دیکھو یار! تم میرے جوڑی دار ہو اور مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ سجاول نے سیدھی بات کرنے کو ترجیح دی۔ اسے لگا کہ یہ چوہے اور بلی کا کھیل اسے ایسے ہی بےسود سوالوں اور جوابوں میں الجھائے رکھےگا۔

    ’’کیوں ملنا چاہتے ہو؟‘‘ سجاول ایک فوجی سپاہی تھا، اسے عسکری تاریخ اور جنگوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ منگول اور کئی صدیاں بعد میں جرمن دشمن کے کمزور یا نرم حصے میں سے اسے پتا چلے بغیر بھاری فوج گزار کر الٹا مڑکر اس کی مزاحمت کو ختم کر دیتے تھے۔ اسے ایک بار پھر خادم کے مضبوط دفاع میں کمزوری نظر آئی اور اس نے اس کمزور مقام پر تمام تر قوت لگانے کا فیصلہ کیا۔

    ’’آدمی عورت سے کیوں ملتا ہے؟‘‘ میرا مطلب ہے کہ ایک اجنبی لڑکی کے لئے اپنا مستقبل داؤ پر لگا دینا! ’’اگر رپورٹ ہوگئی تو ہم دونوں نائیک سے اوپر نہیں جائیں گے۔ پھر تمہارے حالات بھی۔۔۔‘‘ خادم نے بات مکمل نہیں کی۔

    ’’پہلی بات کہ بادشاہ ایک عورت سے ملاقات کے لئے اپنی بادشاہی داؤ پر لگادیا کرتے تھے، یہ تو ایک معمولی سے سپاہی کی اپنے سے بھی معمولی لڑکی کے ساتھ ملاقات ہے۔ دوسری یہ کہ اگر رپورٹ ہوئی تو میں کسی بھی قیمت پر تمہارا نام اس معاملے میں نہیں آنے دوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔‘‘

    خادم جانتا تھا کہ سجاول اپنے وعدے سے نہیں پھرتا!

    اس سہ پہر سجاول نے باربر شاپ جاکر داڑھی منڈوائی، صبح وہ معمول کے مطابق سیفٹی ریزر سے اپنے چہرے کو کھرچ چکا تھا۔ داڑھی منڈوانے کے بعد اس نے بازو اوپر اٹھا کر استرے سے بغلوں کے بال صاف کرائے۔ وہ جب اپنے بیرک میں نکلا تو اپنے آپ کو معمول سے زیادہ ہلکا اور چاک و چوبند محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنے بالوں میں لگے چنبیلی کے تیل کی خوشبو سے ایک طرح تازگی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس نے کینٹین سے بائیسکل کرائے پر لی اور لمبا راستہ اختیار کرکے آہستہ آہستہ پیڈل چلاتے نصیرہ کی طرف چل پڑا۔ وہ روایتی سفید فوجی شلوار قمیص کے بجائے اپنے علاقے کی کھلے پائنچوں والی خاکی شلوار پہنے ہوئے تھا اور کھیڑی کے بجائے کالے بوٹ اس کے پاؤں میں تھے۔ اس نے ایک نیا بہروپ بھرنے کے لئے سفید قمیص پہنی ہوئی تھی۔ وہ جب نصیرہ پہنچا تو شام ہونا شروع ہو گئی تھی۔

    پل کے اوپر ایم پی کی چیک پوسٹ تھی جہاں سجاول کے یونٹ کیلوگ ہر وقت ڈیوٹی پر ہوتے تھے۔ یہ ایک گزر گاہ تھی اور حفاظتی نقطۂ نظر سے یہاں سے ہر گزرنے والے سے سوالات پوچھے جاتے۔ نصیرہ میں رہائش اختیار کرنے والے فوجیوں کے پاس یونٹوں اور اسٹیشن ہیڈ کوارٹر کے سرٹیفکیٹ ہوتے تھے جن کی روزانہ پڑتال ہوتی اور ہر روز یہ عمل ایک مضحک سا معمول لگتا۔ سجاول جب وہاں پہنچا تو ڈیوٹی پر موجود آدمی اسے دیکھ کر حیران ہوئے۔ ان کے شب و روز اِتنے مصروف تھے کہ کسی آدمی کا اپنے فالتو وقت میں یونٹ سے باہر آنا تقریباً خلاف معمول تھا۔

    پل سے کچھ فاصلے پر دو تنبو لگے ہوئے تھے۔ ایک تنبو ان فوجیوں کے آرام کے لئے تھا جو ڈیوٹی دے چکے تھے اور دوسرا غسل خانے کے لئے استعمال ہوتا تھا، رات کے وقت پیشاب کرنے کے لئے نالے کی طرف ہی رجوع کرتے۔ سجاول نے اپنے بائیسکل کو تنبو کے پاس کھڑا کرکے پل پر موجود سنتری کو مخاطب کیا:

    ’’گرائیں! میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ میری سواری کا خیال رکھنا۔‘‘

    ’’سنگھی! چھ بجے نئی گارڈ آ جانی ہے۔‘‘

    ’’میرے بیرک کا مبارک اگلی گارڈ میں ہونا ہے۔ اسے میرا پیغام دے دینا۔‘‘ سجاول جواب کا انتظار کئے بغیر نالے کے اس طرف چل پڑا جہاں پیشاب کرتے تھے اور اس نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے دیہاتی عورتوں کی طرح آزار بند کھول کر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اسے پیشاب کی حاجت تو تھی لیکن وہ اتنے کھچاؤ میں تھا کہ پیشاب رک رک کر نکل رہا تھا۔ کافی دیر کے بعد اسے اپنا مثانہ خالی سا محسوس ہوا اور وہ آزار بند کستے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

    نالہ پار کرنے کے بعد سجاول تھوڑا آگے بڑھا تو اسے خادم نظر آیا۔ خادم اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے اس کے ہی انتظار میں ہو۔ سجاول کو اس کی نظر میں گھبراہٹ، الجھن اور خوف نظر آئے۔ سجاول بظاہر اسے نظرانداز کرتے ہوئے گلی کی طرف چل پڑا اور ’’آؤٹ آف باؤنڈ‘‘ کے بورڈ کے پاس ایک لمحے کے لئے رکنے کے بعد آگے بڑھ گیا۔ وہ ایک لمحہ اسے زندگی کے اٹھائیس سالوں کی طوالت لئے ہوئے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ قانون کو جان بوجھ کر توڑنا نا قابلِ معافی عمل ہے اور وہ قانون کو ارادتاً توڑ رہا تھا۔

    وہ جب گلی میں داخل ہوا تو گھروں کے سامنے قمقمے روشن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ وہ پہلے گھر کے سامنے رکا۔ سجاول نے دروازے کو ہلکے سے دباؤ کے ساتھ کھولنے سے پہلے خادم کی طرف دیکھا۔ اندھیرا پھیلنا شروع ہو گیا تھا لیکن پوسٹ کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا جہاں پل، سڑک پر لگے کھمبے پر جلتی ہوئی ٹیوب لائیٹ اور گلی سے آتی ہوئی روشنی ایک نقطے پر ایسے ملتی تھیں کہ وہاں صبح تک اجالا رہتا۔ اسے خادم وہاں نظر نہیں آیا، وہ شاید اپنے خوف کو چھپانے کے لئے کسی اور طرف متوجہ ہو گیا تھا۔

    سجاول نے دروازے کو ہلکے سے دباؤ کے ساتھ کھولنے کی کوشش کی تو دروازہ نہیں کھلا، اس نے مزید زور لگایا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس نے جھجکتے ہوئے دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹایا۔ اس آواز نے سجاول کا حوصلہ بڑھا دیا اور تھوڑے انتظار کے بعد اس نے قدرے زور کے ساتھ کھٹکھٹایا اور ساتھ ہی اسے دوسری طرف قدموں کی آواز سنائی دی۔ وہ خوف زدہ ہوکر مڑنے کا سوچنے لگا لیکن اس کے قدم وہیں جمے رہے۔ اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ چالیس منٹوں میں نو میل بھاگتے ہوئے بھی دھڑکنوں میں اتنی شدت نہیں آتی تھی۔ اسے دل گلے تک آتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا اور منہ کے ذائقے میں بھرپور کڑواہٹ آ گئی تھی جیسے الٹیاں آنے سے پہلے محسوس ہوتا ہے۔

    کنڈی اور دروازے کا کھلنا اسے ایک ڈراؤنے خواب کا حصہ لگا۔ اس کے سامنے خوب صورت لیکن عمر میں کچھ بڑی عورت کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر خوش آمدید کہنے والے خوش گوار تاثر کے بجائے ناپسندیدگی کا عکس تھا۔

    ’’ابھی وقت نہیں ہوا۔‘‘ اس نے ایک طرف کو ہٹتے ہوئے راستہ دیا۔

    سجاول کے سامنے ڈیوڑھی کے بجائے نیم روشن تنگ سی راہداری تھی۔ وہ بےیقینی سے چھوٹے چھوٹے قدم لیتا آگے بڑھا۔ عورت شروع میں تو پیچھے تھی، پھر آگے نکل گئی۔ سجاول کو گھر میں آنے والی سالن اور مصالحوں کی خوش بو نے ارد گرد سے اپنائیت کا احساس دلایا، اُسے لگا کہ وہ کسی دیکھی ہوئی جگہ پر آ گیا ہے۔ وہ تو لنگر سے ایک ہی طرح کی خوش بو سونگھنے کا عادی تھا۔ عورت ہال نما کمرے کے سامنے رک گئی۔

    ’’فوج سے ہو؟ چھپا نہیں سکتے!‘‘ اس عورت نے الزام لگانے کے انداز میں بات کی۔

    ’’فوجی دور سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘ سجاول نے عورت کی تائید کی۔

    عورت دروازے کے سامنے ایسے کھڑی تھی جیسے کچھ طے کررہی ہو یا سجاول کو روکے رکھنا چاہتی ہو۔

    ’’کسی سے ملنا ہے؟‘‘ عورت نے پینترا بدلا۔

    سجاول کا اعتماد بحال ہو گیا تھا۔

    ’’میں ایم پی سے ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں غرور تھا۔

    ’’تم کیوں آئے ہو؟‘‘ عورت کی آواز میں گھبراہٹ اور خوف تھا۔ ’’میں اپنے کنبے کے ساتھ رہ رہی ہوں۔‘‘ اس نے جلدی سے اضافہ کیا۔

    ’’مجھے کسی سے ملنا ہے!‘‘ سجاول عورت کو خوف کی حالت میں سے نکلنے سے پہلے ہی اپنے زیر اثر کر لینا چاہتا تھا۔

    ’’وہ یہاں نہیں ہے۔‘‘ عورت نے اپنے خاوند یا کسی بھی مرد کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’میں پرائیویٹ آیا ہوں۔‘‘ سجاول نے کسی قدر گھبراہٹ اور شرمندگی سے کہا۔ وہ ہال کمرے کی روشنی کے علاوہ ارد گرد پھیلے اندھیرے میں اس لڑکی کو اپنی نظر سے کھوج رہا تھا۔ اسے یک دم خیال آیا کہ اس نے آکر کہیں اپنی عزت نفس سے سمجھوتا تو نہیں کر لیا؟ اچانک اسے وہ عورت اپنے آپ پر حاوی ہوتی محسوس ہوئی۔

    ’’یہاں کوئی غیرقانونی کام نہیں ہوتا۔ تم نے پھر کسی کو کیوں ملنا ہے؟ کیا کسی کو جانتے ہو؟‘‘

    سجاول کا چچا اپنے گاؤں میں ایک عورت کے گھر جایا کرتا تھا اور وہ اکثر اسے ساتھ لے کے جاتا۔ اسے بعد میں پتا چلا کہ چچا کے عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، اس وقت اسے ایسے تعلقات کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا لیکن اسے چچا کے ساتھ وہاں جانا پسند تھا۔ چچا اور وہ عورت کبھی کبھار کسی بات پر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کو گلے بھی لگالیتے، یہ اتنی بار ہوتا کہ وہ اِسے ایک معمول سمجھتے ہوئے غیر اہم اور معصومانہ سا عمل سمجھتا۔ اس کی دلچسپی کا سبب دونوں کی باتیں تھیں۔ وہ ایسی باتیں کرتے جو دلچسپ تو ضرور ہوتیں لیکن ان میں سے معنی اخذ کرتے ہوئے وہ گم ہو جاتا۔ وہ جب بڑا ہو گیا اور ان دلچسپ باتوں کو یاد کرتا تو وہ اسے اور بھی دلچسپ لگتیں، دونوں سیدھے سیدھے نام لئے بغیر اشاروں اشاروں میں ایک دوسرے کے جنسی اعضا کی کارکردگی کی مدح کر رہے ہوتے۔

    اس وقت نصیرہ میں عورت اس کے ساتھ جو بات کررہی تھی اس کا مقصد وہ نہیں تھا جو نظر آ رہا تھا۔

    ’’ہاں میں جانتا ہوں۔‘‘ سجاول کو اپنے اعتماد پر خود بھی حیرت ہوئی۔

    ’’کس کو؟‘‘ عورت اب ایم پی کے چھاپے کو بھول کر کاروباری خطوط پر سوچنے لگی تھی۔

    ’’اس کو جسے جانتے ہوئے بھی نہیں جانتا۔‘‘

    عورت نے تیزی کے ساتھ سجاول کی طرف دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں گھماتے ہوئے ہاتھ سے سر گھوم جانے کا اشارہ کیا۔

    ’’ٹھیک تو ہو؟‘‘ عورت کے لہجے میں طنز عیاں تھا جسے سجاول اپنے اندر ہی جذب کر گیا۔

    ’’مکمل ٹھیک ہوں تبھی یہاں آنا ہوا۔‘‘

    ’’احتیاط سے باہر جانا۔ اگر کوئی چوہا دیکھ لے تو کئی دنوں تک ہماری زندگی بے سکون ہو جاتی ہے۔ روز الٹے سیدھے سوال اور کئی فرمائشیں ہوتی ہیں جن کو پورا کرنا پڑتا ہے اور جب تک ہم اپنی بےگناہی کا یقین نہ دلادیں ہمارا دھندا بند رہتا ہے۔‘‘ سجاول نے سوچا: ہم لوگ انٹیلی جنس والوں کو چوہے کہتے ہیں اور یہ عورت اس بات سے با خبر لگی۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ سجاول نے ایک جوش لیکن لاتعلق سے لہجے میں کہا۔ ’’میں تمہاری ہر بات کی سرکاری راز کی طرح حفاظت کروں گا۔‘‘

    ’’آؤ!‘‘ عورت بغیر کسی تفصیل میں جانے کے ہال میں داخل ہو گئی، سجاول راہ داری میں اتنا سا ہی جھجکا جتنا جھجکنا مناسب تھا۔ گھر کے اندر داخل ہوتے وقت والی بےیقینی اور کم اعتمادی اب جاتی رہی تھی، اس نے خود کو عورت سے بھی زیادہ محفوظ محسوس کیا۔

    وہ ہال میں داخل ہوا تو عورت اس کے انتظار میں کھڑی تھی، گو دونوں کے درمیان میں چند سیکنڈ کا فاصلہ تھا لیکن سجاول کو لگا کہ وہ اس سے کافی آگے نکل گئی تھی۔ سجاول اس کے پاس آیا تو عورت نے سامنے والے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہ جس دروازے میں سے داخل ہوئے تھے، اس کے علاوہ تین اطراف سے اور دروازے بھی ہال میں کھلتے تھے۔ سجاول کی نظر نے بھی رد عمل کے طور پر عورت کی نظر کا تعاقب کیا۔ اسی وقت میلے اور نیچے سے پھٹے ہوئے پردے کے پیچھے جھجکتی ہوئی حرکت نے اُس کی نظر کو وہیں روک لیا۔ پردہ پورا ہٹا اور وہ لڑکی اندر داخل ہوئی۔ سجاول لڑکی کو دیکھ کر ایک دم گھبرا گیا اور اِس گھبراہٹ نے اس کے جسم میں ایک تناؤ پیدا کر دیا جو اس تناؤ کے بالکل برعکس تھا جو وہ سارا دن اپنے بدن میں محسوس کرتا رہا تھا۔ اُس کے ہاتھ بوڑھوں کی طرح کانپنے لگے اور ٹانگیں اتنی کمزور کہ اُسے کھڑے رہنا محال لگنے لگا۔ سجاول نے اپنے آپ کو اُس ماحول کا حصہ ثابت کرنے کے لئے گلا صاف کیا، اس طرح ایک طریقے سے وہ اپنا اعتماد بھی بحال کر رہا تھا۔

    لڑکی مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔ سجاول کو پہلے تو اس کی خود اعتمادی پر حیرت ہوئی اور پھر اسے اس خیال نے آن دبوچا جسے وہ پچھلے ایک عرصے سے قبول کرنے کو تیار نہیں تھا، نئے لوگوں سے ملنا لڑکی کا معمول تھا۔ سجاول کو اپنے سینے میں خنجر کے کھب جانے کا احساس ہوا اور اس درد نے اس کی کم اعتمادی کو ختم کر دیا۔ تب تک لڑکی سجاول کے پاس پہنچ چکی تھی اور عورت اُس کے تاثرات پڑھنے میں مصروف تھی۔ سجاول نے جب عورت کی طرف دیکھا تو وہ کچھ کہے بغیر ہال نما کمرے سے چلی گئی!

    اچانک ہال کمرہ آسیب کا مسکن لگنے لگا، سجاول عجیب سی کیفیت اور چہرے پر بجھے بجھے سے تاثرات کے ساتھ ارد گرد دیکھنے لگا۔ پھر اس نے گھبراہٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے والی عادت کے تحت کلائی پر بندھی گھڑی پر وقت دیکھا۔ اُس کا جی ایک دم قہقہہ لگانے کو کرنے لگا، اُسے لگ رہا تھا کہ وہ اس چھوٹی سی راہ داری کی بھول بھلیوں میں ایک عرصے سے گم ہے جب کہ اسے وہاں آئے ہوئے صرف دو منٹ ہی ہوئے تھے۔ وقت کی اس رفتار نے اسے حوصلہ دیا اور اُس نے اعتماد سے لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس کے ذہن میں ملٹری پولیس اسکول میں سکھلائے گئے تفتیش کرنے کے مہذب طریقے گھوم گئے۔

    ’’تم وہی لڑکی ہو نا جو باہر دروازے میں آکر بیٹھتی ہے؟‘‘ سجاول نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔

    لڑکی کے چہرے پر پہلی بار کوئی تاثر آیا۔ سجاول کو وہ حیران اور کسی قدر مایوس سی لگی۔

    ’’اور کون ہو سکتی ہے؟‘‘ لڑکی نے ناگواری اور برہمی کے ساتھ جواب دیا۔

    ’’یہاں اور کوئی لڑکی نہیں؟‘‘ اب کے سجاول کے حیران ہونے کی باری تھی۔ لڑکی کچھ دیر اس کی آنکھوں میں جارحیت کے ساتھ دیکھتی رہی اور پھر اس نے نفی میں سر ہلایا۔ سر کے نفی کی حرکت کے دوران میں سجاول کو ایک یوں ہی احساس ہوا کہ لڑکی کی آنکھوں میں ایک تکلیف کا سا یہ لہرا کے اس کے ہونٹوں کے کناروں کی لرزش میں کہیں گم گیا ہے۔ لڑکی نے سر جھکا لیا تھا۔

    ’’تم یہاں اکیلی ہو؟‘‘ سجاول کی آواز میں رحم کے ساتھ دکھ بھی تھا۔ اسے لڑکی کی آنکھوں میں لمحہ پہلے کے تکلیف کے سائے کے لہرانے کی وجہ سمجھ آ گئی، وہ تن تنہا اس گھر پر مردوں کی یلغار کو سہتی تھی۔ اس نے لڑکی کی جسمانی طاقت کا اندازہ لگانے کے لئے اُس کے بدن کو غور سے دیکھا۔ وہ اسے اپنے گاؤں کی لڑکیوں کے مقابلے میں کافی کمزور لگنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک بیمار سی لگی۔ اسے ایسا سورج کی روشنی اور تازہ ہوا کی کمی کی وجہ لگا۔ یہ لڑکی سارا دن اِس قبر نما گلی کے ایک غیر صحت مند گھر میں رہ رہی تھی اور۔۔۔سجاول نے اپنے ذہن کو مزید آگے سوچنے سے روک دیا۔

    ’’بٹھاؤگی نہیں؟‘‘ سجاول نے ایک مصنوعی مسکراہٹ اور خوش مزاجی سے پوچھا۔

    لڑکی کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس مسکراہٹ نے سجاول کے پریشانی کی گرد سے اٹے چہرے کو اطمینان کی بارش سے دھو ڈالا اور وہ بھی لڑکی کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ لڑکی نے مصنوعی سی حیرت کے ساتھ ارد گرد دیکھا جہاں وہ اُسے بٹھا سکے، کمرے میں بیٹھنے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ اُس نے سجاول کی طرف دیکھا اور نظر ملتے ہی کندھے اچکائے۔

    ’’یہاں تو کوئی جگہ نہیں۔ میرا کمرہ ہے وہاں جا سکتے ہیں اور یا پھر۔۔۔‘‘ اس نے سجاول کی طرف دیکھ کر نظر نیچی کرتے ہوئے کہا، ’’باجی کا۔‘‘ وہ پوچھنے ہی لگا تھا کہ کون سی باجی کہ اسے اچانک راہ داری والی عورت یاد آ گئی۔ سجاول کو ان دونوں کے درمیان میں رشتے کا علم یا اندازہ نہیں تھا اس لئے اس نے کوئی رائے دینے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی۔ وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے کسی طرح کے ردِ عمل کے منتظر تھے، چند لمحوں کی خاموشی نے اچانک ان کے بیچ اجنبیت کی دیوار کھڑی کر دی۔

    ’’یہاں کھڑے ہوکر ہی نہ باتیں کرتے رہیں؟‘‘ سجاول نے اپنی دانست میں ایک عقل مند اور شریف آدمی والی بات کی، لڑکی نے ایک گھٹا ہوا سا تلخ قہقہہ لگایا۔

    ’’آپ کسی مولوی سے ملنے آئے ہیں یا جسم فروش سے؟‘‘ یہ سوال پوچھتے وقت لڑکی نے طنزیہ غصے کے ساتھ سجاول کی طرف دیکھا۔ سجاول کو لگا کہ اسے ایک زور دار تھپڑ مارا گیا ہے۔ تھپڑ کے ساتھ ہی اسے اپنی ماں یاد آ گئی جو اُس کے بےمقصد سوالوں پر اسے ایسے ہی تھپڑ مارا کرتی تھی۔ اچانک اسے اپنے سامنے کھڑی لڑکی جانی پہچانی اور اپنی اپنی سی لگی۔ سجاول نے لڑکی کی طرف غور سے دیکھا، سانولی رنگت جس میں ایک ہلکی سی چمک تھی، باریک ہونٹ جن پر گہری سرخ لپ اسٹک لگی ہوئی تھی اور لمبے بال جنہیں سرخ ربن سے باندھ کر پونی ٹیل کی شکل دے دی گئی تھی، قطعاً اُس کی ماں کی طرح نہیں تھی۔ وہ ماں کو ہمیشہ اپنے کچے صحن میں چولہے پر ہنڈیا رکھے باپ کے انتظار میں دیکھتا آیا تھا، اس کے خشک بال بے رنگ ہوتے اور ہونٹوں پر پیپڑیاں جمی ہوتیں۔

    سجاول نے اب لڑکی کو ایک اور نظر سے دیکھا۔ اس کے خیال میں لڑکی جسم فروش نہیں تھی، وہ صرف اسے تنگ کرتے ہوئے بے وقوف بنا رہی تھی یا بے وقوف بناتے ہوئے تنگ کر رہی تھی۔ سجاول نے مذاق کو اس تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔

    ’’تمہارے کمرے میں چلتے ہیں۔‘‘ سجاول نے لڑکی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی نظر میں نہ تو دعوت تھی اور نہ ہی کوئی پیغام، بس ایسی دید تھی، جس سے ایک اجنبی لا تعلقی اور تجسّس سے دوسرے اجنبی کو دیکھتا ہے۔ سجاول نے محسوس کیا کہ اس کی تجویز سے لڑکی پریشان ہو گئی ہے۔ اس نے اپنی بات پر پھر غور کیا، اس کی تجویز تو لڑکی کی اپنے یا دوسری عورت کے کمرے میں جانے کی توسیع تھی۔

    ’’ٹھیک ہے!‘‘ لڑکی اپنی پریشانی پر قابو پا چکی تھی۔’’لیکن پہلے ہم اپنے تعارف تو کروا لیں۔‘‘ اس کی آواز میں کھنک اور اتنا سچ تھا کہ سجاول نے اسے اپنی صحیح شناخت بتانے کا فیصلہ کر لیا۔

    ’’میں ایم پی یونٹ سے ہوں اور میرا نام سجاول ہے۔ اگر تمہیں یہ نام پسند نہیں تو جو نام چاہو رکھ لو۔‘‘ سجاول کی ہنسی طنز کا ہلکا سا عکس لئے ہوئے تھی۔

    ’’اور نام کیوں رکھوں گی؟ سجاول کہتے ہوئے مجھے ایک طاقت کا احساس ہوتا ہے جیسے دلا بھٹی یا مرزا خاں کہتے ہوئے۔’’ لڑکی نے غیر متوقع طور پر فخر کے ساتھ سجاول کی طرف دیکھا۔

    ’’یہ کون آدمی ہیں؟‘‘ سجاول نے حسد بھرے غصے سے پوچھا۔

    ’’تم نے کبھی ان کا نام نہیں سنا؟‘‘ لڑکی نے اُکتاہٹ بھری لاتعلقی سے پوچھا۔

    ’’نہیں!‘‘ سجاول نے دفاعی انداز میں جواب دیا، اسے لگا کہ لڑکی اس پر حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ ’’میں ملٹری پولیس کا سپاہی ہوں اور میرے لئے ان کے متعلق جاننا ضروری نہیں۔‘‘ سجاول کو اپنے لہجے سے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ فوجی گاڑی کے ڈرائیور کی رپورٹ لکھنے کیلئے اسے پے بک، ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کی لاگ بک اور ایکسیڈنٹ فارم لانے کا کہہ رہا ہو۔ سجاول کو اپنے لہجے پر حیرت ہوئی، وہ اس انداز میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا، اس کے نزدیک صلح کن لہجے کی بات بھی اتنا ہی اثر رکھتی تھی جتنا کہ تلخ بات۔’’یا شاید مجھے کبھی اپنے کام کے علاوہ کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا۔‘‘ سجاول نے کچھ دیر پہلے والے سخت لہجے کو مصالحت میں لپیٹ کر نرم کرنے کی کوشش کی۔ ’’یا شاید میرے لئے یہ سب جاننا ضروری نہیں تھا۔‘‘

    ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ سجاول نے اپنی تقریر ختم کرکے لڑکی سے پوچھا۔

    ’’میرا نام جاننا ضروری ہے؟‘‘ لڑکی کی آنکھوں اور آواز میں شرارت تھی۔

    ’’ہاں! تم ہی تعارف چاہتی تھیں۔‘‘ سجاول کو لڑکی کا اپنا نام بتانے سے گریزاں ہونا وعدہ خلافی لگا۔ اس نے قدرے برہمی کے ساتھ لڑکی کی طرف دیکھا۔ لڑکی نے اپنے ہونٹ سکیڑ کر سیٹی بجانے والے انداز میں اُن میں سے ہوا گزاری، وہ کچھ دیر کسی سوچ میں گم رہی۔

    ’’ایک شرط پر!‘‘ اس مرتبہ لڑکی کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔ سجاول نے سوچا کہ وہ شرطوں کے بجائے قیمت چکانے کو ترجیح دےگا اور ساتھ ہی اسے اپنی چھاتی والی جیب میں پڑی پے بک کے اندر رکھے نوٹ یاد آ گئے۔ اس نے بغیر جھجک کے تعارف کروایا تھا حالانکہ اس نے اصل نام بتا کر اپنا مستقبل خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اگر کھوج لگانے والے سونگھتے ہوئے یہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو دوسری عورت اپنے کاروبار کو محفوظ رکھنے کیلئے لڑکی پر دباؤ ڈال کر اس کا نام بتا سکتی ہے۔

    ’’کیا شرط ہے؟‘‘ سجاول نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔ گو وہ شرطوں میں یقین نہیں رکھتا تھا لیکن اس نے لڑکی کا دل رکھنے کے لئے حامی بھر لی۔

    ’’مجھ سے میرے بارے میں سوال نہیں پوچھوگے۔‘‘ سجاول کو اپنے گاؤں کا ایک ترکھان یاد آ گیا جس کی عمر زیادہ ہوتے جارہی تھی لیکن وہ غیر شادی شدہ تھا۔ وہ کچھ دنوں کے لئے غائب ہو گیا اور جب آیا تو اس کے ساتھ ایک عورت تھی جسے وہ کہیں سے خرید کر لایا تھا۔ پرانے لوگ کہتے کہ عورت کا لب و لہجہ پٹیالے کا ہے لیکن عورت نے مرتے دم تک اپنے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ سب سے یہی کہتی ’’میرا پیچھا جاننے کی ضرورت نہیں، اپنے ساتھ میرا رویہ دیکھو!‘‘ جب کہ ترکھان اپنے آڑیوں کو بتاتا کہ اس نے جینتے کو لاہور کے چکلے سے خریدا تھا۔

    اسے لڑکی کی بات میں تائی جینتے نظر آئی!

    ’’ٹھیک ہے!‘‘

    ’’میرا نام نازش ہے۔‘‘ لڑکی نے اس دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا جس میں سے وہ آئی تھی۔ سجاول کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن اسے کچھ دیر پہلے کا کیا ہوا وعدہ یاد تھا۔ وہ اس کے پیچھے چل پڑا۔

    ’’اور بھی کچھ؟‘‘ اس نے پیچھے سے لڑکی کو مخاطب کیا تو وہ بپھری ہوئی شیرنی کی طرح اس کی طرف مڑی:

    ’’میں نے کہا تھا ناکہ میرے متعلق سوال نہ پوچھنا!‘‘

    ’’تھوڑی سی اور واقفیت ضروری ہے۔‘‘ سجاول کچھ کھسیانہ سا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔

    ’’اور کیا واقفیت ہونی ہے؟ میں نے نام تو بتا دیا ہے!‘‘

    ’’جیسے میں نے بتایا تھا کہ میں ملٹری پولیس کا سپاہی ہوں، تم کیا کرتی ہو؟‘‘ اچانک سجاول کے ذہن میں تائی جینتے آ گئی جسے لاہور کی ہیرا منڈی سے خریدا گیا تھا۔ لاہور کی ہیرا منڈی میں تو بہت لوگ آتے ہوں گے، اسے یاد ہے کہ جب مائی جینتے آئی تھی تو وہ ایک منٹ کے لئے بھی شرمائی نہیں تھی، ایسے لگ رہا تھا کہ وہ کئی بار دلہن بن چکی ہے۔ شاید نازش بھی ویسی ہی دلہن بنے کیوں کہ تائی جنیتے مرتے دم تک اپنے سسرال کی وفادار رہی تھی اور اس نے اپنی واحد اولاد بیٹی کو باپردہ اور سلیقہ شعار بنایا تھا جب کہ خود جنیتے کو گھر کا ایک کام تک بھی کرنا نہیں آتا تھا۔ وہ سارا دن اپنی بیٹی کو سنبھالتے ہوئے یا گاؤں کی عورتوں کے ساتھ گپ لگاتے ہوئے گزارتی اور کھانا بنانے کا کام اس کا خاوند کرتا، جنیتے گاؤں کی کسی افواہ کا کبھی حصہ نہیں بنی تھی۔

    ’’تم میرے پاس کس لئے آئے ہو؟‘‘

    ’’یہ تو میرے سوال کا جواب نہیں۔‘‘ سجاول نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

    ’’تم چاہتے کیا ہو؟ ہمارے متعلق کوئی خبر لینے آئے ہو؟ اگر کوئی خبر چاہئے تو باجی سے مل لو۔‘‘

    میں اس سے مل تو لوں لیکن وہ میرے کام کی نہیں۔ سجاول کمرے کے درمیان میں کھڑا تھا اور نازش اسے حیرت اور غصّے سے تکتی تھی۔ دونوں اسی طرح خاموش کھڑے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، ایسے لگ رہا تھا کہ انہوں نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکے!

    نازش اپنے کمرے کی طرف چل پڑی اور سجاول پیچھے ہولیا۔

    وہ ایک تنگ سا کمرہ تھا جس میں نہ کوئی کھڑکی اور نہ ہی روشن دان تھا۔ دروازے کے سامنے ایک نیم آرام دہ کرسی پڑی تھی اور اس کے ساتھ ایک میز جس پر کانچ کے دو خالی گلاس اور ایک جگ رکھا تھا، مستطیل نما کمرے کی کم چوڑائی والی دیوار کے ساتھ ایک ڈھیلے پلنگ پر میلا بستر بچھا ہوا تھا اور دیوار میں نصب الماری کے نیم بند پٹ میں سے ہینگروں پر ٹنگے ہوئے عورتوں کے لباس نظر آ رہے تھے۔ کمرے میں مردانہ جنسی اخراج کی کسیلی سی بو پھیلی ہوئی تھی جس میں سجاول کو اپنا دم گھٹتے ہوئے محسوس ہوا۔ اس نے اپنی سانس روک کر نازش کی طرف دیکھا۔ وہ مطمئن سی کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ سجاول کو لگا کہ نازش اس آزار سے نہیں گزر رہی، شاید اس لئے کہ ممکن ہے اس ناخوش گوار بو میں اس کے اپنے بدن میں سے نکلے ہوئے فالتو اخراج کی بو بھی شامل ہو اور وہ کمرے کے کسیلے ماحول سے آشنا ہو۔

    اس نے سانس خارج کرکے سونگھے بغیر منہ کے ذریعے پھیپھڑوں کو ہوا سے بھرا تو اسے چوتھی جماعت میں پڑھایا گیا سبق اور ماسٹر یاد آ گئے۔ اس کا ماسٹر خاکی رنگ کی شلوار قمیص اور پاؤں میں براؤن رنگ کی کھیڑی پہنے ہوتا جس پر کبھی کبھی مٹیالے سے دھبے لگے ہوتے جن کے بارے میں اسے تب تک سمجھ نہ آئی تھی جب تک ایک مرتبہ ٹوٹتی ہوئی دھار اس کے اپنے جوتے پر ویسا ہی دھبا چھوڑ گئی۔ ماسٹر نے بتایا تھا کہ ناک کے ذریعے سانس لینے سے آدمی صحت مند رہتا ہے کیوں کہ گندی ہوا ناک میں سے چھن کر پھیپھڑوں تک جاتی ہے۔ سجاول نے پھر نازش کی طرف دیکھا، وہ اسی لاتعلق سی دلچسپی کے ساتھ اسے دیکھے جا رہی تھی۔

    ’’تمہیں بو کا احساس نہیں ہوتا؟‘‘ سجاول نے برا سا منہ بناکر پوچھا۔

    ’’بو آ رہی ہے؟‘‘ نازش نے حیرانی سے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ کسیلی سی جیسے مردانہ جنسی اخراج اور تمہارے جسم سے نکلی مائع کی!‘‘

    ’’میں یہاں کچھ نہیں کرتی، صرف سوتی ہوں۔‘‘ سجاول کو اپنا معمول یاد آ گیا جہاں ان کے کام کرنے، کھانا کھانے اور سونے کی جگہیں الگ الگ تھیں اور اگر وہ کام کرنے کی جگہ پر کھانا کھا لیتے یا سونے کی جگہ پر کام کے دوران وقفے میں آرام کر لیتے تو یہ غیر قانونی اور قابل گرفت تھا۔ اسے نازش کے گھر کے نقشے کا کسی حد تک انداز ہو گیا تھا اور اس کے خیال میں ہال نما کمرے میں کھلنی والے دروازوں میں سے ایک دروازہ اُس کمرے میں کھلتا تھا جہاں وہ اپنے گاہک نمٹاتی تھی، عین ممکن ہے کہ دو کمرے استعمال میں آتے ہوں۔

    ’’تم شاید کام والے کمرے سے سیدھی یہاں آتی ہوگی اور کھڑکی نہ ہونے کی وجہ سے بو کمرے میں مستقل ٹھہر گئی ہے۔‘‘

    ’’ادھر بیٹھو!‘‘ نازش نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خوش مزاجی سے کہا۔

    سجاول جھجکتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گیا۔

    ’’تم اتنے سوال کیوں پوچھتے ہو؟‘‘ نازش نے شکایت کرتے ہوئے کہا۔ سجاول کو نازش کے لہجے میں شکایت کا پہلو اچھا لگا، اسے اس میں ایک طرح کی اپنائیت نظر آئی۔ اسے حیرت ہوئی کہ وہ جس لڑکی کے پاس اپنے جسمانی کھچاؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے آیا تھا، وہ اُس کے سونے کے کمرے میں بستر پر اس کے ساتھ لیٹے ہونے کے بجائے کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’زیادہ سوال پوچھتا ہوں‘‘ سجاول کے لہجے میں معصومیت در آئی تھی۔ اس نے ایک نظر نازش کو دیکھا۔ اسے حیرانی ہوئی کہ اس نے جب بھی نازش کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر ایک مختلف تاثر تھا۔ کیا سب اداکاری تھی یا اُسے سجاول سے کوئی دلچسپی تھی یا وہ ہر گاہک کے ساتھ یہی طریقہ اپناتی تھی؟

    ’’بہت زیادہ، اتنے زیادہ کہ بعض سوالوں پر الجھن ہونے لگتی ہے۔‘‘

    سجاول کو معاملہ ذاتیات کی طرف جاتے ہوئے لگا، اسے اچانک اپنے تناؤ کا احساس ہوا۔ اس کا دل باز بن کر نازش پر جھپٹنے کو کرنے لگا۔ یک دم اسے اپنا بدن پیاسا لگا کیوں کہ وہ اپنی ہی آگ کو تاپے جا رہا تھا۔

    ’’وہاں آ جاؤں؟‘‘ سجاول نے بستر کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’نہیں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’دو کام کرو!‘‘

    سجاول کو اپنے بدن میں ایک لرزش سی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا کہ اسے کون سے کام کرنا ہوں گے؟ نازش تو ایک سے زیادہ کام کرانا چاہتی تھی، کیا وہ کرپائےگا؟

    ’’پہلا کام کیا ہے؟‘‘ اس نے دھیمے سے پوچھا لیکن وہ چھلانگ لگا کر نازش پر جھپٹنے کو تیار تھا۔

    ’’تم جس کام کے لئے آئے ہو وہ نہیں کرنا۔‘‘

    سجاول کا جسم غصے اور نفرت سے تن گیا۔ وہ پے بک میں رکھے ہوئے نوٹ نازش کو دکھانا چاہتا تھا: وہ مفت میں کچھ نہیں کرےگا اور نازش کی مزدوری سے زیادہ ادائیگی کرےگا۔ اسے نازش اسی طرح اطمینان کے ساتھ بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ نازش کے چہرے کا سکون دیکھ کر سجاول کو اپنے جذبات سرد ہوتے محسوس ہوئے۔

    ’’دوسرا کام کیا ہے؟‘‘ سجاول نے پہلے کام کی وجوہات بعد کے لئے رکھ چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔

    ’’میرے ساتھ باتیں کرو۔‘‘

    ’’ایک کام مَیں نہیں کر رہا، دوسرا تم کرو۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘

    ’’میں تمہارے ساتھ اگر بستر میں نہیں آرہا تو باتیں تم کرو۔‘‘

    نازش قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔ سجاول کو اس کے سکون، اپنی بے تابی اور بےچینی پر غصہ آنے کے ساتھ اپنے آپ پر ترس بھی آیا۔ یہ لڑکی ایک عرصے سے اسے یہاں آنے کے لئے اکساتی رہی تھی، وہ یقیناً اسے گاہک کے بجائے کسی اور تعلق سے بلارہی تھی۔ اسے اچانک اپنا بدن شانت ہوتا محسوس ہوا۔

    ’’ٹھیک ہے! تم اپنے متعلق بتاؤ۔‘‘ نازش کی آواز میں شرارت تھی۔ سجاول قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا اور نازش بھی اس کی ہنسی میں شامل ہو گئی۔

    ’’کیا بتاؤں؟‘‘ سجاول نے بظاہر ایک لاتعلق سا سوال پوچھا تھا لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے متعلق کہاں تک بتائے؟ وہ جانتا تھا کہ اس کی زندگی میں جتنی مشکلات ہیں وہ کسی اور کے نہیں ہو سکتیں۔ اُس نے سن رکھا تھا کہ لڑکیاں شادی کے بعد اپنے خاوند کو مائیکے کے تمام راز بتا دیتی تھیں، سوائے اپنے ذاتی رازوں کے۔ وہ بھی نازش والا طریقہ کیوں نہ اپنائے؟ لیکن اس میں اور نازش میں فرق تھا۔ نازش اپنے آپ کو چھپائے رکھنا چاہتی تھی، ہو سکتا ہے اسے کچھ خوف ہو لیکن سجاول کو کوئی خوف نہیں تھا۔

    ’’جو ضروری سمجھتے ہو!‘‘

    ’’سب کچھ یا جو ضروری سمجھوں!‘‘

    نازش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ پلنگ پر بیٹھی اپنے ہی کسی خیال میں گم تھی۔ سجاول بھی خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔ نازش نے ہونٹوں کا دائرہ بنایا جیسے وہاں سے سانس خارج کرنا چاہتی ہو۔ اس نے لمبی سانس تو کھینچی لیکن ایک آہ کی شکل میں اُس دائرے میں سے نکالنے کے بعد سجاول کی طرف دیکھا اور ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔

    ’’میرا نام سجاول خان ہے۔۔۔‘‘

    ’’اتنا تو میں جانتی ہوں۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں شرارت لوٹ آئی تھی۔

    ’’میں پنڈ داد خان سے کچھ فاصلے پر کھوتیاں نامی ایک گاؤں کا رہنے والا ہوں۔‘‘ نازش کے ہونٹوں سے قہقہے کا فوارہ بہہ نکلا۔

    ’’اور وہاں کے رہنے والے تمام مرد۔۔۔‘‘ وہ پھر ہنسنے لگی۔

    ’’تم میں ہمت ہے تو بتاؤ کہ کہاں کی رہنے والی ہو؟‘‘سجاول نے برہمی سے پوچھا۔ کچھ لمحے پہلے والا ہلکا پھلکا ماحول ایک دم بھاری ہو گیا۔ سجاول نے ایک لمبی سانس لی۔ اسے سکھایا گیا تھا کہ جب جذبات کو قابو میں کرنا ہو یا اپنی مایوسی کو چھپانا ہو تو ایک لمبی سانس لے کر پھیپھڑوں سے آہستہ آہستہ خارج کرنا چاہئے تاکہ خون میں آکسیجن کی آمیزش سوچ کو صحیح سمت پر لے آئے۔

    ’’میں جہاں کی بھی ہوں لیکن میری وجہ سے تم یہاں ہو۔‘‘نازش کے لہجے میں سجاول والی برہمی تھی۔ سجاول کو اِس لہجے نے کسی حد تک لاجواب کر دیا۔

    ’’وہ ایک تاریخی گاؤں ہے لیکن المیہ ہے کہ اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کے نام بدلے جانا پسند نہیں تاوقتیکہ ایسا کرنا مجبوری ہو۔ میری نیم پاگل ماں وہاں رہتی ہے۔ وہ سارا دن چولہے کے سامنے بیٹھی میرے باپ کا انتظار کرتی رہتی ہے۔‘‘ سجاول کی آواز دکھی تھی۔

    ’’وہ نیم پاگل کیوں ہے؟‘‘ نازش نے پریشانی سے پوچھا۔اس نے محسوس کیا کمرے کے ماحول پر المیے کی بھاری چادر تنی ہوئی ہے۔

    ’’میرا باپ میری طرح فوجی تھا یا پھر میں اس کی طرح ہوں۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ میں غائب ہو گیا۔ اس کا آج تک پتا نہیں چل سکا کہ وہ زندہ ہے یا جنگ میں مارا گیا۔ اس کے یونٹ کے مطابق وہ مارا گیا تھا۔ دشمن کے توپ خانے کی گولہ باری کے دوران میں ایک گولہ وہاں گرا جہاں وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ گولہ باری کے رکنے کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے تھے اور میرے باپ کے ساتھی اس کی باقیات لانے کے قابل نہیں تھے۔ ماں اس واقعے کو سچ نہیں مانتی اور چولہے کے سامنے بیٹھی یہ دہراتی رہتی ہے: ملک جی! کھا سو کہ گھن سو۔‘‘ نازش منہ کھولے ایک ایک لفظ کو اپنے اندر جذب کر رہی تھی۔

    ’’اس کا مطلب ہے؟‘‘ نازش نے بات کے آگے چلنے سے پہلے جلدی سے پوچھا۔

    ’’جب کوئی فوجی چھٹی پر جانے کے لئے بیرک سے نکلتا ہے تو وہ ذہن کو لنگر کے کھانے کے ذائقے اور اپنے سے چھوٹی عمر کے فوجیوں کی صحبت سے مکمل طور پر آزاد کرکے گھر کا سفر شروع کرتا ہے۔ اب اس کے پیٹ اور ناف کے نیچے کی بھوک۔۔۔‘‘ اس نے ہاتھ لگا کر نازش کو واضح کیا، ’’میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جب وہ گھر کے قریب پہنچتا ہے تو اسے دونوں بھوکوں میں فرق مٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جب وہ گھر پہنچتا ہے تو بیوی وہی سوال پوچھتی ہے۔‘‘ وہ رکا، اس نے گلا صاف کیا اور ہاتھ کے اشارے سے نازش کو بولنے سے منع کیا۔ ’’اب چکوال میں ملک جی ہو سکتا ہے، جہلم اور پنڈی میں راجا جی، نیچے کے پنجاب میں چوہدری جی، راؤ جی، راناجی، فرنٹیئر میں خان جی، سندھ اور بلوچستان میں سائیں جی یا میر جی کچھ بھی ہو سکتا ہے ، لیکن ہر عورت تقریباً سوال یہی پوچھتی ہے۔ اس کی وجہ اس کی اپنی محرومی بھی ہے۔‘‘ سجاول نے خاموشی کے بعد نازش کو بات کرنے کا اشارہ کیا۔

    ’’اس کا مطلب کیا ہے؟‘‘ سجاول کو اس کے پہلے اور آخری سوال کے بارے میں معلوم تھا۔

    ’’کس کا؟‘‘ سجاول نے مصنوعی سی لاتعلقی سے پوچھا۔

    ’’کھاسو والی بات کا؟‘‘

    سجاول قہقہہ لگاکر ہنسا، اتنا بلند قہقہہ کہ دوسری عورت اچانک دروازے میں کھڑی نظر آئی۔ ’’وقت زیادہ ہو رہا ہے۔ ایم پی کی وجہ سے کچھ گنجائش ضرور ہے لیکن کھلی چھٹی نہیں۔‘‘

    ’’میں ایم پی سے ہوں اور ابھی ٹھہروں گا، قیمت کے بغیر نہیں۔‘‘ عورت آنے والی رفتار سے ہی واپس چلی گئی۔

    ’’اس کا مطلب ہے کہ ملک صاحب! پہلے کیا کرو گے؟ کھانا یا وہ جس کے لئے یہاں آئے ہو۔‘‘ اس نے کہا اور تیزی کے ساتھ نازش کے پلنگ کی طرف چل پڑا۔ نازش فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔

    ’’رک جاؤ!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’گھنو نہیں ہے!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’مجھے جنسی بیماری ہے۔‘‘ نازش نے جلدی سے کہہ کر روتے ہوئے اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا، وہ سسکیاں لے رہی تھی!

    سجاول خاموش کھڑا اسے سسکیاں لیتے دیکھتا رہا۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ ملاقات ایسا موڑ اختیار کرےگی۔ اسے افسوس اور دکھ ہوا کہ اس نے یہاں آکر نازش سے واقفیت کی اور ساتھ ہی تشکر اور اطمینان کی ایک لہر اُس کے بدن میں دوڑ گئی کہ باتوں میں ملوث ہوکر دونوں ایک دوسرے کے اتنا قریب آ گئے کہ وہ اپنی بیماری تک کا بتا گئی۔ نازش کی سسکیاں کم ہوئیں تو وہ اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اُس نے اپنا بازو نازش کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے نزدیک کرلیا۔ نازش اس کے کاندھے پر سر رکھ کر بیٹھی رہی۔

    ’’اس سے آگے نہ چھونا!‘‘ نازش نے تنبیہہ کی۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’تم بھی بیمار ہو جاؤگے۔‘‘

    ’’یونٹ میں حفظانِ صحت پر لیکچر ہوتے رہتے ہیں جہاں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جنسی بیماری اسی وقت ٹرانسفر ہوتی ہے جب جنسی بیماری والا آدمی یا عورت کسی دوسرے۔۔۔ کم از کم ایک پارٹی بیمار ہونی چاہئے۔‘‘ سجاول نے نازش کے کان کے پیچھے اپنے ہونٹ رکھے تو اس کے بدن میں کپکپی دوڑ گئی۔ سجاول ایک دم تھک سا گیا، اس کی حالت روٹ مارچ کی تھکاوٹ سے بھی خراب تھی۔

    ’’لیٹ نہ جائیں؟‘‘ سجاول نے تجویز پیش کی۔

    ’’صرف لیٹنا ہی ہے!‘‘

    ’’ہاں! صرف لیٹنا ہی ہے۔‘‘

    سجاول نیچے جھک کر بوٹ اتارنے لگا۔ بوٹ اُتارکر اس نے موزے اتارے اور لیٹ گیا۔

    ’’کمرے کی بتی بند کردو، ہال سے روشنی آ رہی ہے۔‘‘

    ’’نہیں! دروازہ بند کرکے بتی بجھانے کے بعد زیرو کا بلب جلا لوں گی۔‘‘ پھر وہ دروازہ بند کرکے، زیرو کا بلب جلانے کے بعد کمرے کی بتی بجھا کر مدھم سی روشنی میں کچھ شرماتے اور کچھ جھجکتے ہوئے سجاول کے ساتھ لیٹ گئی۔ سجاول نے اپنا ہاتھ اُس کے پیٹ کے نچلے حصے پر رکھا تو نازش نے اپنا ہاتھ اُس ہاتھ پر رکھ دیا۔

    ’’تمہیں یہ بیماری کب لگی؟‘‘ سجاول نے اس کے کان کو چومتے ہوئے پوچھا۔

    ’’تین مہینے کے قریب۔‘‘

    ’’علاج کرایا؟‘‘

    ’’نہیں! ڈر کے مارے باجی کو نہیں بتایا تھا اور جب بتایا تو اس وقت کافی وقت گزر چکا تھا۔‘‘

    ’’معلوم ہے کہ کس سے بیماری لگی؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کس سے؟‘‘

    ’’ایک لانگری سے۔‘‘

    ’’کون سے یونٹ کا؟‘‘

    ’’یہ تو پتا نہیں، وہ چھوٹے سے قد کا ایک بھاری آدمی تھا۔ اسے پہلی نظر دیکھنے پر احساس ہوتا کہ اس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہے۔ اس کے گول چہرے پر بےشمار چھوٹے چھوٹے نشان تھے، ایسے لگتا کہ چہرے پر قیمے کا لیپ کیا ہوا ہے۔ وہ ہمارے سامنے والے گھر کے دوسری طرف اُس حصے میں رہتا تھا جس کے سامنے تمہارے والا بورڈ نہیں لگا ہوا۔ دو گھروں کے درمیان ایک تنگ راستہ تھا جو ہمارے والی گلی میں کھلتا ہے اور جسے تم لوگوں نے بند نہیں کروایا، شاید اس پر کبھی غور ہی نہ کیا ہو۔ وہ رات کو کسی وقت اس راستے سے ہوتے ہوئے ہماری گلی میں آکر میرے پاس آ جاتا۔ جس رات وہ آتا ہمارے لئے کھانا بھی لاتا۔ اسی خبیث نے مجھے بیماری دی ہے۔ وہ راستہ اندھیرا ہونے کے باوجود جرنیلی سڑک بنا ہوتا ہے۔‘‘ نازش نے ہنستے ہوئے کہا۔سجاول سوچنے لگا کہ اُنہیں اُس راستے کا پتا ہی نہیں تھا اور ان کی موجودگی میں بھی غیرقانونی کارروائی جاری تھی، کہ وہ کسی طرح اُس تنگ جرنیلی سڑک کے بارے میں اپنے افسروں کو اطلاع کرے اور اگر پوچھا گیا کہ اسے کیسے پتا چلا تو کیا جواب دےگا؟ اُس نے سوچا کہ اس معاملے میں ہمیشہ کی طرح خادم کے ساتھ مشورہ کرےگا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جیسے بھی ہو اُس تنگ گلی کو بند کروانا ضروری تھا۔

    ’’اپنی بیماری کا کیا کروگی؟‘‘

    ’’تمہاری ماں کو سنبھالتا کون ہے؟‘‘

    ’’گاؤں والے۔ ہماری طرف اکیلی عورت کا زندگی گزارنا نئی بات نہیں ہے۔ لوگ انگریز کے وقت سے فوج میں جارہے ہیں اور کہیں نہ کہیں میری ماں کی طرح کی عورت ہوتی ہے۔ ‘‘ اس نے نازش کے جسم پر سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا وہ اس کے ساتھ جڑ کے لیٹے ہونے کے باوجود وہ اس کے پاس نہیں تھا۔ نازش بھی اس کے اچانک فاصلے پر چلے جانے کو سمجھ گئی تھی چنانچہ اس نے نازش کا ہاتھ چوم کر واپس اپنے پیٹ پر رکھ دیا اور وہ بے خیالی میں اسے سہلانے لگا۔

    ’’تم کتنی دیر کے بعد چکر لگاتے ہو؟‘‘ نازش نے ایک لمبی آہ بھر کے پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

    کچھ دیر وہاں خاموشی رہی۔

    ’’مہینے میں دو بار، مجھے ہفتے کی بھی چھٹی مل جاتی ہے۔ میں پورا ایک دن اس کے ساتھ گزارتا ہوں۔ گھر کی صفائی بھی کرتا ہوں، کپڑے دھوتا ہوں اور ماں کے ساتھ باتیں کرتا ہوں۔ میرا یونٹ تو پشاور میں تھا لیکن میں نے درخواست دی کہ مجھے اپنے حالات کے پیش نظر ایسی جگہ پوسٹ کیا جائے جہاں میں گھرکا چکر لگا سکوں۔ مجھے یہاں کوارٹر کی بھی پیش کش ہوئی تھی لیکن میں نے انکار کردیا۔۔۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ماں یہاں ہو تو میرے لئے بہت مشکلات رہیں۔ میں اسے سنبھالوں یا اپنا کام کروں۔ فوج ہمدرد ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خود غرض بھی ہے اور ماں کے یہاں ہونے کی وجہ سے ہونے والی کوتاہی کو فرض نہیں غفلت سمجھا جانا تھا۔ انہوں نے میری مشکل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ماں کو پاس رکھنے کو گھر تو دے دیا اور اس کے بعد۔۔۔‘‘ وہ ایک تلخ سی ہنسی ہنسا، ’’انہوں نے وقت کی پابندی اور سو فیصد کارکردگی مانگنا تھی جسے پورا کرنا مشکل تھا، روز پیشیاں ہوتیں اور وارننگ ملتی۔‘‘ بےخیالی میں سجاول کا ہاتھ نازش کے جسم پر آ گیا۔ سجاول کے ہاتھ پر نازش کی گرفت تھوڑی سی سخت ہو گئی۔

    ’’ماں کبھی ٹھیک ہوتی ہے اور کبھی اس پر دورہ پڑتا ہے۔ جب وہ ٹھیک ہو تو بہت دلچسپ باتیں سناتی ہے۔ تب اس کے پاس بیٹھنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہو۔۔۔‘‘

    ’’تم پڑھے ہوئے ہو؟‘‘

    ’’ہاں! جتنا پڑھ سکتا تھا بس اتنا ہی۔‘‘

    ’’کتنا؟‘‘

    ’’میٹرک۔‘‘ پھر وہ ہنسا اور نازش کے گال کو چوم کر بولا، ’’کیوں؟ نوکری دینی ہے۔‘‘

    ’’تین مہینوں سے پہلے آتے تو رکھ ہی لیتی۔‘‘ نازش نے سہلاتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’تم کتنا پڑھی ہو؟‘‘

    ’’ایف اے۔‘‘ نازش نے آہ کو دباتے ہوئے سرگوشی کی۔

    ’’بارہ؟‘‘

    ’’ہاں، بارہ۔‘‘

    ’’ہمارے افسر بارہ پاس ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’اسی لئے انہیں تمہارے جیسے ماتحت ملتے ہیں۔‘‘ نازش نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

    ’’کہاں کی رہنے والی ہو؟‘‘ سجاول نے اس کے مذاق کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا۔

    نازش کے جسم میں ایک دم تناؤ آ گیا، اس نے سجاول کو چھوڑ دیا۔

    ’’پنڈی بھٹیاں۔ آگے سوال نہ پوچھنا ورنہ میں تمہاری۔۔۔‘‘

    ’’نہیں پوچھتا۔ ہم خشک علاقے کے رہنے والے لوگ بہت سخت ہوتے ہیں۔ میں تمہیں کہہ سکتا تھا کہ جاؤ جو کرنا ہے کرلو اور بھگت لیتا یا ایک ایسا تھپڑ لگاتا جو ساری عمر یاد رہتا۔‘‘

    ’’مار میرے لئے نئی چیز نہیں۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا رکی، ’’لیکن یہ مار شاید مختلف ہو۔‘‘

    سجاول نے اسے چوما۔

    ’’میں بیمار ہوں۔‘‘ نازش نے سجاول کی کہنی پکڑتے ہوئے اسے روکا۔

    ’’ہمیں میڈیکل کے لیکچروں میں جنسی بیماری کے ایک بدن سے دوسرے میں منتقل ہونے کے طریقے کے بارے میں بتایا جاتا رہتا ہے۔ اِس طرح سے بیماری میری طرف منتقل نہیں ہوگی۔‘‘ سجاول نے نازش کے ہاتھ کو اپنی کہنی سے ہٹاتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’تمہیں کیوں مار پڑتی ہے؟‘‘ سجاول تب سے متجسس تھا۔

    ’’میں باغی جسم فروش ہوں۔‘‘ نازش نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ سجاول نے سوچا کہ ہر جسم فروش باغی ہوتی ہے۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ ہماری ایک یونین ہو۔‘‘

    ’’وہ کس لئے؟‘‘

    ’’تاکہ ہماری بہتری کا بھی سوچا جائے۔‘‘

    ’’تمہارا مطلب ویلفیئر؟‘‘

    ’’ہاں، ویلفیئر! فوج ہر وقت تم لوگوں کی ویلفیئر کا سوچتی ہے۔ تم لوگوں کے بچوں کے لئے مفت تعلیم والے اسکول کالج کھولتی ہے اور ملازمت ختم ہونے کے بعد سے دفن ہونے تک تمہاری ویلفیئر کرتی ہے۔ ہم بھی چھاؤنی کے علاقے میں ہیں۔ کلکتہ کا نام سنا ہے؟‘‘ نازش کے لہجے میں شدت تھی۔

    ’’شاید ہندوستان میں ہے۔‘‘

    ’’شایدنہیں، وہیں ہے۔‘‘

    ’’کلکتہ کا تمہاری ویلفیئر کے ساتھ کیا واسطہ۔‘‘ سجاول نے اکتاہٹ سے جواب دیا۔

    ’’کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا چکلہ وہاں ہے۔‘‘

    ’’اس چکلے کا تمہاری مار کے ساتھ کیا تعلق ہے؟‘‘

    ’’تعلق ہے تو ذکر کیا، ورنہ کیوں کرتی۔ دنیا کے سب سے بڑے چکلے میں ہزاروں جسم فروش عورتیں ہیں اور سب صاف ستھری ہیں۔‘‘

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ ان میں کسی کو کوئی بیماری نہیں، ان کا ڈاکٹری معائنہ باقاعدگی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہاں اس چھوٹی سی گلی میں ہم سب بیمار ہیں اور یہ بیماری تم لوگوں ے ہمیں دی ہے۔‘‘

    ’’شاید ہم میں سے کسی کو تم نے بھی دی ہو؟‘‘ سجاول نے جھجکتے ہوئے الزام لگایا۔

    ’’دی ہوگی۔ لیکن اس کا علاج کر دیا جاتا ہے اور ہم ایسے ہی مرجاتی ہیں۔ لانگری بیماری کہیں سے لایا اور مجھے دے گیا۔ یہ بادشاہ کے سیب والی بات ہے کہ جو اسے کھائےگا ہمیشہ زندہ رہےگا اور سیب آگے کا آگے چلتے چلتے واپس بادشاہ تک پہنچ گیا۔ لانگری کا تو کہیں علاج ہو گیا ہوگا کیوں کہ کئی دنوں سے وہ نہیں آیا۔ وہ جب تڑکا لگی دال اور تنور کی روٹیاں لاتا تھا تو ہم بہت خوش ہوتے تھے۔‘‘ وہ ایک تلخ سی ہنسی ہنسی۔ سجاول کو اپنی ماں یاد آ گئی، جب دورے کا آغاز ہوتا تو وہ ایسی ہی تلخ ہنسی ہنسنا شروع کر دیا کرتی تھی۔

    ’’میں کہہ سن کر تنگ گلی بند کروا دوں؟‘‘ سجاول نے دفاعی لہجے میں جواب دیا۔ اسے نازش کی بات کا جواب نہیں سوجھ رہا تھا۔

    ’’بجائے اس کے کہ تم ایک اور گلی کھلواؤ، تم ہمارے رزق کی واحد نس کو بند کرنا چاہتے ہو؟‘‘ نازش کی آواز میں تلخی تھی۔’’ہماری بیماریوں کا کیا بنےگا؟ کیا بیمار گاہکوں اور صحت مند جسم فروشوں یا بیمار جسم فروشوں اور صحت مند گاہکوں کے درمیان جنگ جاری رہےگی؟ میں تو چاہتی ہوں کہ کہیں پر سمجھوتا ہونا چاہئے۔ گاہک اپنے صحت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ لائے۔ ہمارے پاس تو ایسا کاغذ ہو نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ایک سچ بات کہوں گا۔۔۔‘‘

    ’’سچ ہی تو سننا چاہتی ہوں۔‘‘ نازش نے نرمی سے کہا۔

    ’’مجھے ان باتوں کا اتنا پتا نہیں۔‘‘

    ’’میں جانتی ہوں لیکن تمہیں بتانا ضروری تھا۔‘‘ نازش نے ہنستے ہوئے کہا، ’’مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

    سجاول نے ہاتھ اوپر کھسکا کر نازش کے پیٹ کو پیار سے دبایا۔

    ’’تم دروازے میں بیٹھ کر دیر تک مجھے کیوں دیکھا کرتی تھیں۔‘‘ سجاول نے اس کے پیٹ پر ہلکی سی چٹکی کاٹی۔ وہ نازش کی تلخ باتیں سننے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔

    ’’ہمیں ایسے لگا تھا کہ کسی نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ میں دروازہ دیکھنے گئی تو سڑک کے پار تم کھڑے تھے۔ مجھے تمہارے چہرے کی بناوٹ اچھی لگی۔‘‘ وہ ایک لمبی سانس لے کر رکی۔ سجاول کامیابی کے احساس سے خوشی کے ساتھ اس کے پیٹ کو سہلائے جا رہا تھا۔

    ’’بناوٹ میں ایسی کیا بات نظر آئی تھی؟‘‘ سجاول کے ہونٹ مسکراہٹ کے بوجھ تلے کانوں تک پھیلے ہوئے تھے۔

    ’’تمہارے چہرے میں طاقت نظر آتی تھی۔ لمبی ناک، باریک ٹھوڑی، مضبوط جبڑے، لمبا قد اور کسرتی بدن طاقت کی نشانی ہوتا ہے۔ طاقت سے مراد وہ تاثر ہے جو ایک عورت اپنی حفاظت کے حوالے سے محسوس کرتی ہے۔ وہ سوچتی ہے: جو بھی حالات ہوں یہ آدمی مجھے تحفظ دے سکتا ہے۔ طاقت سے مراد بستر نہیں، میں بہت کچھ دیکھ اور جان چکی ہوں۔‘‘ نازش نے سجاول کی طرف کروٹ لے لی اور اپنا ہاتھ اس کے گال سے گردن تک جانے دیا۔ جب نازش کا ہاتھ گردن پر تھا تو سجاول نے اس کی کلائی کو چوما اور پھر اسے پکڑ کر زور سے ساتھ لگایا۔

    ’’اب میں اور طاقت بھی دکھاتا ہوں۔‘‘ سجاول کی آواز میں شدت تھی، اتنی شدت کہ ایک لمحے کے لئے نازش نے اپنے آپ کو حوالے کرتے محسوس کیا۔

    ’’تم مجھے پہلی نظر میں ہی اچھے لگے تھے۔ جو تم چاہتے ہو میں بھی وہی چاہتی ہوں لیکن میری بیماری ہم دونوں کے درمیان ایک رکاوٹ ہے۔ میں پوری دنیا کو بیمار کر سکتی ہوں، تمہیں نہیں۔‘‘ نازش نے اپنا ہاتھ اس کی قمیص کے نیچے ڈال کر چھاتی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔

    ’’کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’تم غلط سوچ رہے ہو۔ میرا اندر ایے زہریلے جراثیموں سے بھرا ہوا ہے جنہیں تم جیسے صاف آدمی کی تلاش ہوتی ہے۔‘‘

    سجاول نے نازش کے کندھوں کو اتنی مضبوطی سے پکڑ لیا کہ اس کی انگلیاں پٹھوں میں کھب گئیں۔

    ’’تم مجھے تکلیف دے رہے ہو۔‘‘ نازش نے گرفت سے نکلنے کی کوشش کئے بغیر کہا۔

    ’’برابر کا مزہ بھی دوں گا۔‘‘

    ’’نہیں۔ اپنی ماں کا سوچو۔ اس کا کیا بنےگا؟‘‘

    ’’مجھے کچھ ہوگا تو۔۔۔‘‘

    ’’تم اب جاؤ۔‘‘ وہ پلنگ سے اترنے کے لئے سیدھی ہوئی تو سجاول تیزی کے ساتھ اس کے اوپر آ گیا۔

    ’’میں چیخنا شروع کر دوں گی۔‘‘ سجاول نے مضبوطی سے اس کے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا اور ہنستے ہوئے بولا:

    ’’اب چیخو۔ نہیں چیخ سکتیں نا۔‘‘ پھر اس نے ہاتھ ہٹا لیا، ’’مجھے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’استعمال کے لئے کوئی احتیاطی یا حفاظتی چیز لائے ہو کیا؟‘‘ نازش نے امید کے ساتھ اس کی پے بک والی جیب میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

    ’’میری جیب میں کافی پیسے ہیں۔‘‘

    ’’کتنے؟‘‘ نازش نے مایوسی اور غصے سے بلند آواز میں پوچھا۔

    ’’آج کے لئے کافی ہیں۔ ‘‘سجاول نے اپنی کمر کی کمان بناتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’دکھاؤ!‘‘ نازش کی آواز میں غصہ، نفرت، غرور اور لاتعلقی تھے۔

    سجاول نے اپنی کمر سیدھی کی، جب میں سے پے بک نکال کر کھولی اور اس میں پڑے سو سو کے دو نوٹ نکالے۔ نازش نے نوٹ پکڑ کر تکیے کے نیچے رکھ لئے۔

    ’’ہم خشک علاقے کے لوگ بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ مجھے اپنے گاؤں پہنچنے کے لئے آٹھ میل چلنا پڑتا ہے اور اِسی طرح واپسی پر۔ میری ماں اب بھی پانی لانے کے لئے دور تک جاتی ہے۔‘‘

    نازش پلنگ پر اسی طرح خاموشی لیٹی تھی اور سجاول پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بوٹوں کے تسمے باندھتے ہوئے سوچ رہا تھا: وہ صبح ہی اپنے جنسی بیماری میں مبتلا ہونے کی رپورٹ کر دےگا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے