Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کونپل

MORE BYاوپندر ناتھ اشک

    کہانی کی کہانی

    ’’ایک برہمن لڑکی کی کہانی ہے، جو گہنوں کو اپنی جان سے زیادہ پیار کرتی ہے۔ گہنوں کے لیے اس کی چاہت کو دیکھتے ہوئے اس کا غریب باپ پچاس سال کے ایک امیر جیوتشی سے اس کی شادی کرا دیتا ہے۔ جیوتشی اس امید میں کہ وہ اس سے پیار کریگی، اسے ایک سے ایک زیور لاکر دیتا رہتا ہے۔ مگر لڑکی کو تو صرف زیوروں کی چاہ تھی، جیوتشی کی نہیں۔‘‘

    سگیاں کے پنڈت جے رام کی لڑکی سینکری کے دل میں بچپن ہی سے جس چیز کی زبردست خواہش پیدا ہو گئی تھی، وہ سونے کے زیور تھے اور ان میں بھی طلائی کنگنوں پر تو جیسے اس کا دم نکلتا تھا۔ سگیاں کی بےچاری غریب دیہاتنیں تو چاندی کی بالیوں، چوڑیوں، کڑوں، کنٹھوں، پازیبوں، انگوٹھوں اور چند ایسے ہی دوسرے روپہلی گہنوں کے علاوہ کسی چیز کو جانتی ہی نہ تھیں۔ لیکن جب گاؤں کے ساہوکار لالہ شنکر داس کی لڑکی کا بیاہ جالندھر شہر کے ایک امیر آدمی کے اکلوتے لڑکے سے ہوا تو گہنوں میں ایک ایسی چیز آئی جس کی تعریف سبھی نے بہ یک زبان کی۔۔۔ اور وہ چیز تھی سونے کے کنگن!

    ان دنوں بازو بندوں کا بھی رواج تھا اور ڈھولک پر گاتی ہوئی لڑیاں جتی ستاریاں والی کی طرز پر۔۔۔ ہائے وے بندلَے دے، ہائے وے بندلے وے۔ اسونے دے بھاویں تیری پگ دک جائے۔۔۔ بھی گایا کرتی تھیں، لیکن اوسط درجے کے کھاتے پیتے لوگ، جو لڑکے لڑکی کی شادی میں دونوں گہنوں کا بار نہ اٹھا سکتے تھے، کنگن ہی بنوایا کرتے تھے۔ سگیاں کی دیہاتنوں نے ایسے زیور کہاں دیکھے تھے؟ کنگنوں کی جوڑی دیکھ کر ان کی آنکھوں کے ساتھ ان کے منہ بھی کھلے کے کھلے رہ گئے۔ تقریباً سبھی نے انھیں ہاتھوں میں لے لے کر دیکھا۔۔۔ سولہ تولے سے کہیں زیادہ بھاری ہوں گے۔ پانچ ساڑھے پانچ سو سے بھی زیادہ کے۔۔۔ اور سگیاں کی مفلس دیہاتنوں کے لیے ایسے قیمتی زیور دیکھنا خواب میں بھی مشکل تھا۔ پھر وہ کیوں نہ انہیں ایک بار ہاتھ میں لے کر دیکھنے کا فخر محسوس کرتیں۔

    انہیں میں اپنی ماں کے ساتھ لگی کھڑی سینکری بھی تھی۔ اس وقت اس کے دل میں زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی ایک بار ان بھاری کنگنوں کو اپنے ننھے ہاتھوں میں لے کر دیکھ لے۔ لیکن ماں کے سامنے وہ اپنی اس آرزو کا اظہار نہ کر سکی۔ ماں تو ایک بار گہنوں کو دیکھ کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ ابھی برات آئی تھی اور اسے بہت سے کام کرنے تھے۔ بیچاری غریب براہمنی! پروہتائن ہوتے ہوئے اسے وقت پر مہری بھی بن جانا پڑتا تھا۔ لیکن سینکری اس کے ساتھ نہ گئی۔ ماں اور سکھی سہیلیوں کو چھوڑ کر، مبہوت و ساکن سی وہ دیوار کے ساتھ سر لگائے کھڑی رہی۔ اس کی نظر انہیں زیورات پر جمی تھی۔ جب کبھی گاؤں کی عورتیں ان زیوروں کواٹھا اٹھا کر دیکھتیں تو تصور ہی تصور میں سینکری بھی ایسا ہی کرتی۔ یہاں تک کہ ان کا لمس تک اسے اپنی انگلیوں میں محسوس ہوتا۔

    جب دلہن کو ابٹن لگاکر نہلایا گیا اور اسے گہنے پہنائے گئے تو سینکری کی نظریں اس کی کلائیوں پر ہی جم گئیں۔ اس وقت اس کی سہیلی بھاگی بھاگی آئی اور ایک چھوٹا سا روڑا دکھاتے ہوئے اس نے کہا، ’’دیکھ میں یہ لائی ہوں۔ آڈھولک بجائیں۔‘‘ لیکن سینکری وہاں سے نہ ٹلی۔ باہر باجے بجنے لگے اور برات کی آمد آمد کا شور مچ گیا۔ عورتیں اور بچے سب چھتوں پر جا چڑھے اور دوسرے لمحے بیاہ کے میٹھے گیت فضا میں گونج اٹھے۔ سینکری وہاں سے نہیں ہلی۔ بلکہ جب دلہن اکیلی رہ گئی تو وہ جھجکی، ڈرتی اس کے پاس جا بیٹھی۔ گھٹنوں پر اپنا سندر مکھڑا رکھے دلہن چپ چاپ اپنے حنائی انگوٹھے سے زمین کرید رہی تھی۔ نہ جانے اس کا دھیان کدھر تھا؟ شاید وہ ایک ہی دن میں اپنے لڑکی سے دلہن بن جانے کی بات سوچ رہی تھی۔ اپنی کلائیوں پر جمی ہوئی سینکری کی نظر اور اس نظر کا اشتیاق دیکھ کر وہ مسکرائی۔ سینکری کی انگلیاں، اس وقت غیرارادی طور پر کنگنوں کو چھونے کی کوشش کر رہی تھیں۔ دلہن نے ہاتھ ڈھیلا چھوڑ دیا اور سینکری نے کنگنوں کو اور ان کے ساتھ چوڑیوں کو جی بھرکر دیکھا اور اس کے دل کی مسرت آمیز کیفیت اس کے چہرے پر منعکس ہو گئی۔ دلہن ہنسی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے بولی، ’’تیری شادی میں بھی ایسے ہی کنگن آئیں گے۔‘‘

    کہتے ہیں دن رات میں چوبیس گھنٹوں میں کسی نہ کسی پل ہر ایک شخص کی زبان پر سرسوتی آ بیٹھی ہے اور اس وقت جو کچھ بھی وہ کہتا ہے سچ ہو جاتا ہے۔ دلہن کی زبان پر بھی اس وقت شاید سرسوتی آ بیٹھی تھی۔ کیونکہ جس وقت سینکری کی شادی میں سسرال کی طرف سے آئی ہوئی ساچق کے تھالوں پر سے پتلے ہرے اور نیلے کاغذ اٹھائے گئے تو ایک تھال میں دوسرے سنہری گہنوں کے علاوہ چمکتے ہوئے بھاری کنگنوں کی جوڑی بھی تھی۔ انہیں دیکھ کر سینکری پھولی نہ سمائی تھی اور جب اسے ابٹن مل کر نہلایا گیا اور اس کی کندن سی کلائیوں میں کنگن ڈالے گئے تو گویا اس کے جسم ہی کا ایک انگ دکھائی دینے لگے۔ سینکری کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس کی تھی۔ لیکن اس کے بھرے بھرے ہاتھ پاؤں جوانی کی سنہری صبح کے سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔

    کنگن اس کی کلائیوں میں ایسے چست بیٹھے کہ کچھ دیر بعد ان میں سے ایک کو اسے اپنی جگہ سے کھسکانا پڑا۔ اس کی جگہ خون اکٹھا ہو جانے سے ایک سرخ حلقہ بن گیا تھا۔ بہت دیر تک وہ مسحور سی ہو کر اسے دیکھتی رہی۔ پھر کلائیوں سے لٹکتے ہوئے کلیروں اور ناک میں پڑی ہوئی بڑی شکارپوری نتھ کو سنبھالتی ہوئی وہ اٹھی اور جاکر سہیلیوں کو اپنا ایک ایک گہنا اور اس کی بناوٹ دکھانے لگی۔ اس وقت رہ رہ کر اس کے دل میں یہ آرزو لہریں لیتی کہ کاش وہ دلہن۔۔۔ وہ ان کے ججمان شنکر داس کی لڑکی بھی وہاں ہوتی اور اپنی پیشن گوئی کو پورا ہوتے دیکھتی۔

    سینکری کی مسرت اور خوشی کو دیکھ کر بڑی بوڑھیاں اپنے پوپلے منھ لیے ہنستیں اور اس کی خوش بختی کی تعریف کرکے اسے دعائیں دیتیں۔ بھک منگے برہمن کی لڑکی اتنے بڑے گھر جا رہی ہے۔ اتنے دھنی کے گھر۔ وہ کیوں نہ اسے خوش قسمت سمجھیں؟ لیکن گاؤں کی نوجوان لڑکیوں کو اس کی خوش بختی پر کچھ ایسا رشک نہ تھا۔ اتنے قیمتی اور خوبصورت زیور اور اس غریب برہمن کی لڑکی کے جسم پر دیکھ کر اگر کسی کو کچھ جلن بھی ہوئی تو یہ جان کر کہ سینکری سوت پر جا رہی ہے اور پچاس سالہ دولہا کی پہلی بیوی بھی موجود ہے۔ ان میں سے اکثر نے منھ بنا بنا کر کہہ دیا تھا، ’’دنیا میں سب کچھ گہنے کپڑے ہی نہیں ہوتے۔‘‘

    سینکری کے شوہر پنڈت مہیشور دیال جالندھر کے مشہور جوتشی تھے۔ انہوں نے جیوتش کا علم کہاں سے سیکھا تھا، اس سلسلہ میں تو کئی طرح کی باتیں مشہور ہیں لیکن عام طور پر سنا گیا ہے کہ وہ جالندھر میں ’پٹ پھیرا‘ کرتے تھے۔ یعنی رنگنے اور سکھانے کے بعد ریشم کے تار جو آپس میں الجھ جاتے ہیں وہ ان کی نئے سرے سے گچھیا بناتے تھے۔ مگر جاپانی مال کے آنے سے جہاں دوسرے گھریلو دھندوں کو نقصان پہنچا، وہاں جالندھر کا یہ ریشم کام کاروبار بھی ختم ہوگیا۔ اس وقت لالہ لوگوں نے تو صرافے اور بزازی میں پناہ لی۔ لیکن پنڈت جی کے لیے ان کے آبا و اجداد کے کاروبار کادروازہ کھلا تھا۔۔۔ کچھ سوتے ہوئے ججمان جا جگائے، کچھ دبے ہوئے اکھیڑ ڈالے اور کچھ مردہ زندہ کیے اور بڑے طمطراق سے پروہتائی شروع کر دی۔ اس پر بھی صبر نہ ہوا، تو ایک دن کھوپڑی گھٹا، لمبی چوڑی کو گانٹھ دیے، ماتھے پر چندن کے لمبے لمبے ٹیکے لگا اور گلے میں رام نام کا دوپٹہ ڈال کر آپ نے اپنے جوتشی ہونے کا اعلان کر دیا۔

    ویسے تو جوتشی کے نام سے بھی شاید پنڈت جی عمر بھر بھی مشہور نہ ہوتے۔ لیکن قسمت یاور تھی۔ سٹے کی ان کو پہلے ہی سے کچھ لت تھی اور جوں جوں جالندھر میں ڈرے (سٹے ) کا بازار گرم ہوتا جاتا، ان کی یہ لت بھی بڑھتی جاتی۔ انہی دنوں میں ایسا ہوا کہ دو تین بار ان کو دو دو ڈھائی ڈھائی ہزار روپیہ ڈرے میں آ گیا۔ پس انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ سب ان کے جوتش ہی کا کرشمہ ہے۔ پھر کیا تھا۔ سارا سارا دن ان کو ڈرہ لگانے والے گھیرے رہتے، پنڈت جی بھی اشاروں میں باتیں کرتے۔ جن کا نمبر آ جاتا، وہ ان کی تعریف کرتے، نذرانے دیتے، جن کا نہ آتا وہ یہ سمجھتے کہ انہوں نے پنڈت جی کا اشارہ سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ دوسرا نمبر پانے کی غرض سے وہ پھر نذرانے دیتے۔ دونوں ہی طرح پنڈت جی کی چاندی تھی۔ تھوڑے ہی عرصے میں پنڈت جی نے جالندھر میں اپنا ایک بڑا مکان اور دو دوکانیں بنوالیں اور نقد روپیہ بھی کافی جمع کر لیا۔

    لیکن اس سب دولت اور عزت کے باوجود پنڈت جی غمگین رہتے۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی اس دولت کو ان کے بعد سنبھالنے والا کوئی نہ تھا۔ بیوی تھی لیکن بچہ کوئی نہ ہوا تھا۔ ادھر ان کی عمر پچاس کی ہو چکی تھی۔ انہیں دنوں جالندھر کی ایک برات کے ساتھ وہ سگیاں گئے اور جے رام پروہت سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہاں ان کی سونے جیسی لڑکی کو دیکھ کر ان کے منہ سے رال ٹپک پری۔ ’ہاں‘ ہو جانے پر انتظام کر لینا، جوتشی مہیشور دیال کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔ پنڈت جے رام اور ان کی براہمنی کو بھی اپنی اس کڑوی بیل کی طرح بڑھنے والی لڑکی کے ہاتھ پیلے کرنے کا فکر بےطرح کھائے جاتا تھا۔ پھر وہ ایسا موقع پاکر کیسے چوکتے؟ خصوصاً جب باتوں باتوں میں اپنی سب جائیداد کی تفصیل دیتے ہوئے جوتشی جی نے اس سکھ کا بھی ذکر کر دیا تھا، جو بڑی بےصبری سے ان کے گھر میں نئی بہو کا انتظار کر رہا تھا۔ شادی میں دونوں طرف کا خرچ بھی جوتشی جی نے اپنے ذمہ لے لیا۔ اس طرح لڑکی کو لائق اور دھنی ور کے ہاتھوں سونپ کر پنڈت جے رام اور ان کی برہمنی نے سکھ کی سانس لی اور جائداد کا جانشین پانے کی امید کے پھر زندہ ہو جانے سے جوتشی مہیشور دیال بوڑھے سے جوان بن گئے۔

    سسرال آنے پر گہنے کپڑے سے سینکری کو اور بھی محبت ہو گئی۔ شادی کے بیش قیمت زیورات کے علاوہ ہاتھوں کے لچھے، بازو کا جوشن، سرکا جھومر اور گلے کا رانی ہار پنڈت جی نے اسے بنوا دیا۔ کئی طرح کی ساڑیاں لا دیں۔ بڑی عمر کے عاشق اپنی کمی کو چاپلوسی اور خوشامد سے، اپنے تحفے تحائف سے پورا کرنا خوب جانتے ہیں لیکن جس طرح بچہ ایک کھلونا پاکر دوسرے کے لیے مچلتا ہے اسی طرح سینکری بھی ایک چیز پاکر دوسری کی فرمائش کر دیتی اور پنڈت جی فوراً لا دیتے۔ مگر دونوں کے انداز نظر میں بہت فرق تھا۔ بچہ کھلونے پاکر شکریے کے اظہار سے ماں باپ کو خوش کرنے کی بجائے اپنے ہم جولیوں کے دل میں حسد پیدا کرنا، انہیں اپنی دولت سے روشناس کرانا زیادہ بہتر سمجھتا ہے، اسی طرح سینکری بھی جب گہنے کپڑے پہنتی تو پنڈت جی کے پاس بیٹھنے کی بجائے اپنی سہیلیوں کو اپنی شان دکھانے کے لیے بے چین ہو جاتی۔ پنڈت جی اپنے گھٹے ہوئے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے للچائی ہوئی نظروں سے خوبصورتی کے اس مجسمے کو دیکھتے اور کہتے، ’’تم تو سورگ کی اپسرا ہو‘‘ اور اسے اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے لیکن وہ اپنے میکے جانے کے لیے مچل پڑتی۔

    درحقیقت گہنے کپڑے زیب تن کرتے کرتے کچھ عجیب طرح کی کسمساہٹ سینکری کے جسم میں پیدا ہو جاتی تھی۔ کوئی نہ معلوم سی آرزو اس کے دل میں سلگنے لگتی تھی لیکن جوتشی جی سے اسے جیسے خوف سا آیا کرتا۔ وہ ہمیشہ ان سے دور بھاگ جانا چاہتی، اس لیے ایسے مواقع پر وہ رور لاکر میکے چلی جاتی تھی۔ وہاں جب اس کی سہیلیاں، مسرت اور حسد کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرتیں۔ اس کے گہنوں کو ہاتھوں میں لے لے کر ہنسی ہنسی میں پہن پہن کر دیکھتیں تو سینکری خوشی سے پھولی نہ سماتی اور اس کے دل کو ایک عارضی سا سکون بھی حاصل ہو جاتا۔

    اس کی سہیلیاں سوچتیں۔۔۔ کاش ہمیں ان میں ایک گہنا بھی میسر ہو سکتا اور ان کی مائیں اس برہمن کی چھوکری کو اتنے قیمتی گہنوں، کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر ایک سرد آہ بھرتیں اور سوچتیں۔۔۔ کیوں نہ ان کی لڑکیوں کو بھی ایسا اچھا گھر ملا۔ بلا سے شوہر عمر کا پکا ہوتا، لڑکی تو راج کرتی۔ لیکن اس راج کی حقیقت کیا ہے، جلدی ہی سینکری کو اس کا پتہ چل گیا۔ بات یہ ہوئی کہ اپنے خاوند کے ’راجہ‘ ہونے پر بھی سینکری کو اپنا وہی گاؤں کا جھونپڑا اچھا لگنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ زیادہ دیر تک میکے میں رہنے لگی۔ یہاں تک جب ایک بار پنڈت جی اسے لینے گئے تو اس نے جانے سے صاف انکار کردیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی ٹھیک وجہ اسے خود بھی معلوم نہ تھی۔ لیکن اس ’’راج گھر‘‘ میں اس کا دم جیسے گھٹنے لگتا تھا۔

    اس وقت پنڈت جی نے اسے سونے کے بڑے بڑے منکوں کی کنٹھی بنوادینے کا وعدہ کیا تھا۔ ماں نے سمجھایا تھا۔۔۔ بیٹی! پتی ہی استری کا ساتھی ہے۔ اس کا دیوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا ایشور بھی وہی ہے۔ جس طرح رکھے، جس حال میں رکھے اسی میں رہنا چاہیے اور باپ نے پہلے جھڑکیاں دی تھیں، کوسا تھا اور پھر وعدہ کیا تھا کہ اسے جلد ہی بلا لیا جائے گا۔ تب کہیں جاکر سینکری تیار ہوئی تھی۔ لیکن پھر جب اس نے میکے جانے کی ضد کی تو پنڈت جی نے جھڑک دیا، ’’وہاں کسی سے آشنائی ہے جو آئے دن اٹھ بھاگتی ہے؟‘‘ انہوں نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔ سینکری یہ سن کر کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔ ہوش و حواس اسے جواب دیتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ وہ روئی نہ تھی۔ چلائی نہ تھی۔ بس گم سم کھڑی رہ گئی تھی۔ رنج و غم سے اس کا گلا بھر آیا تھا۔ اس نے ریشمی کپڑے اتار پھینکے تھے۔ گہنے اندر ٹرنک میں بند کر دیے تھے۔ سہاگ کی نشانی صرف دو دو چوڑیاں ہاتھوں میں پڑی رہنے دی تھیں اور فیصلہ کر لیا تھا کہ اب مر بھی جائے تو میکے نہیں جائےگی۔

    وہیں کھڑے کھڑے اس کی آنکھوں میں گاؤں کے کئی سیدھے سادے نوجوانوں کی تصویریں پھر گئی تھیں، جن کو وہ بھائی کہتی تھی۔ دل کو ٹٹول کر اس نے اچھی طرح دیکھا۔ کیا ان میں سے کسی کے ساتھ اس کی آشنائی تھی؟ ہلکی سی محبت بھی تھی۔ لیکن دل میں اسے کہیں کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ اس کے بھولے بھالے دل نے ابھی مرد کو اس روپ میں دیکھنا بھی نہ سیکھا تھا۔۔۔ وہ ضبط نہ کر سکی۔ رو پڑی۔ جوتشی جی نے دیکھا۔۔۔ نشانہ بہت آگے پڑا ہے۔ وہ نادم ہوئے کہ ان سے زیادتی ہو گئی ہے۔ انہوں نے اسے منانے کی کوشش بھی کی، کھسیانی سی ہنسی بھی ہنسے۔ اسے گدگدایا بھی، لیکن سینکری نہ کھلی۔

    دوسرے دن پنڈت جی صراف کی دوکان سے سونے کے بڑے بڑے منکوں والی خوبصورت کنٹھی لے آئے۔ سینکری نے اسے دیکھا۔ لحظہ بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں چمک بھی پیدا ہوئی۔ لیکن جوتشی جی کی بات کا خیال آ جانے سے دوسرے ہی لحظہ وہ مٹ گئی۔ جب پنڈت جی نے اسے ڈبہ دیا تو اس نے چپ چاپ اسے لے کر رکھ لیا۔ انہوں نے لاکھ کہا کہ اسے ذرا پہن کر دکھا دو۔ دیکھیں توسہی تمہارے خوبصورت گلے میں کیسی لگتی ہے۔ لیکن سینکری چپ بیٹھی رہی۔ ہار کر انہوں نے اسے کوسا بھی، طعنے بھی د یے، جھلائے بھی اور پھر اٹھ کر بیٹھک میں چلے گئے اور نہ جانے کتنی جنم پتریاں کھول کھول کر انہوں نے ڈھیر لگادیں اور ان میں بیٹھ گئے۔ اس وقت تو سینکری نے وہ کنٹھی نہیں پہنی۔ لیکن جب پنڈت جی چلے گئے تو اسے پہن کر دیکھنے کے لیے اس کا دل بے چین ہو اٹھا۔ ایک بار اس نے اسے نکالا بھی۔ لیکن پھر وہیں رکھ دیا۔ اتنے میں ہندا لینے والی برہمنی پرمیشری کا لڑکا تھال اٹھائے ہوئے آیا۔۔۔ ہنس مکھ، بےپروا، بائیس تیئس برس کی عمر اور طبیعت میں کچھ کچھ بھولاپن۔

    آشنائی۔۔۔! اچانک سینکری کے دل میں یہ لفظ گونج اٹھا اور اس نے اس برہمن لڑکے کی طرف دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا۔ لیکن پھر جھٹ اپنی نگاہیں جھکا لیں۔ تھالی کے اوپر سے صافہ ہٹا کر لڑکے نے کٹوریاں نکال کر رکھ دیں۔ وہیں بیٹھے بیٹھے سینکری نے پوچھا، ’’تیری ماں کیوں نہیں آئی آج؟‘‘

    ’’بیمار ہے جی!‘‘ لڑکے نے جواب دیا اور پھر سینکری کے پاس آکر مسکراتے ہوئے بے پروائی سے بولا، ’’یہ کنٹھی تو بڑی خوبصورت ہے، کتنے کو آئی ہے؟‘‘ سینکری نے کہا، ’’معلوم نہیں، پنڈت جی لائے ہیں۔‘‘ اور اس وقت اس کا جی چاہا کہ کنٹھی پہن لے۔ لڑکے نے کہا، ’’پہنئے تو سہی، ٹھیک آ گئی آپ کو؟‘‘ اور یہ کہہ کر وہ یونہی کچھ مسکرایا۔ سینکری نے ذرا آنکھ اٹھاکر اس کی طرف دیکھا۔ اسے اس کی یہ ہنسی بہت بھلی معلوم ہوئی۔ ساتھ ہی اس کے سارے جسم میں ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔

    ’’میں نے دیکھی تو نہیں۔‘‘ سینکری نے کہا اور پھر کنکھیوں سے نوجوان کی طرف دیکھ کر کنٹھی پہننے لگی۔ کنٹھی کا ہک گردن کی پشت پر تھا۔ نیا ہونے کی وجہ سے اور گردن میں کنٹھی کے بالکل فٹ آنے کے باعث وہ کوشش کرنے پر بھی اسے نہ لگا سکی۔ تب اس نوجوان نے ہنستے ہوئے آگے بڑھ کر اسے لگا دیا۔ ایسا کرتے وقت اس کی انگلیاں سینکری کی نازک گردن سے چھو گئیں۔ سینکری کے تمام جسم میں سنسنی سی دور گئی۔ ہک لگا کر سینکری کی طرف کچھ مسحور نگاہوں سے دیکھتے ہوئے نوجوان نے کہا، ’’بہت اچھی لگتی ہے آپ کو!‘‘ اس وقت پنڈت جی ایک لٹکتی ہوئی جنم پتری ہاتھ میں لیے ہوئے داخل ہوئے۔ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ لیکن دوسرے لمحے ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ لا کر انہوں نے کہا، ’’واہ کیسی خوبصورت لگتی ہے۔‘‘

    سینکری خوش تھی۔ وہ ہنس دی اور اس کے بعد وہ سارا دن خوش خوش رہی تھی اور جب وہ برہمن نوجوان ہندا لے کر چلا گیا تھا تو اپنے کمرہ میں جاکر کواڑ بند کر کے اس نے سب گہنے کپڑے پہنے تھے اور وہ کنٹھی بھی۔ تب اس نے محسوس کیا تھا جیسے اس نوجوان کی انگلیاں اس کی گردن کو چھو رہی ہیں۔ اس احساس کے ساتھ ہی اس کی رگ رگ میں ویسی ہی جھرجھری دوڑ گئی تھی اور ایک نامعلوم سی آرزو کی آگ جو اس کے دل میں کہیں دبی پڑی تھی، پھر سلگ اٹھی تھی۔ اس رات سنیکری کے خوابوں کی دنیا آباد رہی تھی۔ اس دنیا کا ایک راجہ بھی تھا اور ایک رانی بھی۔ راجہ اور رانی جیسے مدتوں سے بچھڑے کسی دلفریب باغ میں آ ملے تھے۔ رانی نے شکایت بھرے لہجے میں کہا تھا، ’’تم آتے ہی نہیں میرے راجہ اور یہ پہاڑ سے دن مجھ سے کاٹے نہیں کٹتے اور یہ راتیں۔۔۔‘‘

    ’’تم گھبراؤ نہیں رانی۔ اس باغ میں ہم روز ملا کریں گے۔‘‘

    لیکن دوسرے دن جب روز کی بہ نسبت سینکری کا دل کچھ ہلکا تھا اور سب گہنے کپڑے نہ سہی، آسمانی رنگ کی ساڑی کے ساتھ اس نے اپنے پیارے کنگن اور کرن پھول اور چوڑیاں اور موٹے موٹے سنہری منکوں کی وہ خوبصورت کنٹھی پہنی تھی تو اس کے سپنوں کا وہ راجہ نہ آیا تھا۔ پرمیشری برہمنی کی جگہ ہندا لینے کے لیے پنڈت جی نے رام رکھی کو لگا لیا تھا۔ سارا دن سینکری کا جسم تھکا تھکا سا رہا تھا۔ اداس سی وہ اپنے کمرے میں لیٹی رہی تھی اور پہلے سے کہیں زیادہ اسے اپنے میکے کی، سہیلیوں کی یاد ستانے لگی تھی۔ پنڈت جی نے گلی میں اس کا آنا جانا بند کر دیا تھا۔ میکے جانے کی اسے ممانعت تھی اور ہنس مکھ پرمیشری کی جگہ پنڈت جی نے سوکھی سڑی رام رکھی کو لگا لیا تھا اور سینکری بے چین ہو گئی تھی۔

    اسی طرح لیٹے لیٹے کروٹیں بدلتے بدلتے دن ڈھل گیا۔ کمرے میں جیسے اس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ اٹھی۔ صحن میں آئی۔ منڈیر پر ایک کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ طاق کے اوپر آگے کو بڑھی ہوئی محراب پر ایک کبوتر پنکھ پھیلائے، گردن جھکائے اپنی محبوبہ کو منانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ لیکن جب وہ مستانی چال سے چلتا اس کے پاس جاتا، وہ اڑ جاتی۔۔۔ ایک طاق سے دوسرے پر، دوسرے سے تیسرے پر، تیسرے سے کھٹولے پر، کھٹولے سے چارپائی کے پائے پر اور پھر وہاں سے لکڑی کے جنگلے پر وہ جا جاکر بیٹھی، لیکن کبوتر نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ پھر ایک زناٹے سے جو وہ اڑی ہے تو نیلے وسیع آسمان میں گم ہو گئی۔ کچھ لمحے کبوتر نے وہیں جنگلے پر ایک دو چکر لگائے غٹرغوں غٹرغوں کی اور پھر وہ بھی اوپر آسمان کی طرف اڑ گیا۔

    سینکری نے لمبی سانس بھرکر انگڑائی لی۔ پھر اس نے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے ہاتھ منھ دھویا اور پھر جیسے کسی نامعلوم ترغیب کے زیر اثر اوپر چھت پر کھلی ہوا میں چلی گئی۔ سامنے کے محلے کے پرلے سرے پر پرمیشری برہمنی کا لڑکا اپنے پرانے مکان کی چھت پر کتاب میں دھیان جمائے چپ چاپ پڑھ رہا تھا۔ سنیکری نے بے ساختہ اپنے بکھرے ہوئے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے من میں امنگ اٹھی کہ کچھ گائے۔۔۔ کوئی ڈھولک کا پرانا گیت۔ لیکن وہ چپ ٹکٹکی باندھے ادھر دیکھتی رہی۔ محلے کا نیم ٹھنڈی ہوا کے لمس سے جیسے سرمست ہوکر جھوم رہا تھا۔ آسمان کی گہرائیوں میں چیلیں ایک دوسری کے پیچھے بھاگ رہی تھیں۔ سینکری نے انگڑائی لی۔ اس وقت نوجوان نے اس کی طرف دیکھا۔ ساڑی کا پلو اس کے سر سے ڈھلک گیا تھا اور اس کی بلوریں گردن میں کنٹھی کے بڑے بڑے سنہری منکے غروب ہوتے ہوئے آفتاب کی کرنوں سے کئی سورج بن کر چمک اٹھے تھے۔ سنیکری کا چہرہ کانوں تک سرخ ہو گیا اور نوجوان نے ایک بجلی سی اپنے تمام جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس کی۔

    اس وقت نیچے کی سیڑھیوں میں پنڈت جی کے چپلوں کی پھٹ پھٹ سنائی دی۔ وہ جلدی سے نیچے چلی گھی اور مسکراتے ہوئے اس نے ان کا خیر مقدم کیا۔ ججمانوں کے گھر سے جو کچھ وہ لائے تھے اس کے سلسلے میں ایک دو مذاق بھی کیے۔ لیکن نہ جانے پنڈت جی کو اس کے چہرہ پر کیا لکھا ہوا نظر آیا کہ سب کچھ اسے دے کر بہانے سے چھت پر چلے گئے اور انہوں نے گھور کر دور سامنے کے مکان کی چھت پر پڑھتے ہوئے نوجوان کو دیکھا۔ اس وقت اس نے بھی سر اٹھایا۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔ پنڈت جی نے اپنی چوٹی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک بار غصہ سے ہنکارا بھرا اور پل بھر کے لیے حیران سا رہ کر نوجوان نے پھر آنکھیں کتاب پر جمادیں۔ دوسرے دن سینکری ابھی بستر پر سے اٹھی بھی نہیں تھی کہ اس نے دیکھا سامنے کے مکان کی طرف شہ نشیں کی جگہ معمار پورے ساڑھے پانچ فٹ کا پردہ بنانے میں مصروف ہیں۔

    یہ تھی اس راج کی حقیقت اور سینکری کو جلد ہی پتہ چل گیا تھا کہ اس راج کے راجہ اور جیل خانے کے جیلر میں کوئی فرق نہیں اور اپنے شوہر کی طرف سے اس کے دل میں جو خوف سا تھا، وہ ایک بے پناہ نفرت میں بدل گیا۔ جوں جوں دن گزرتے گئے، اس نفرت کی تہ اور بھی گہری ہوتی گئی اور یہ سب اس وقت تک جاری رہا جب تک اس نفرت اور خوف کے باوجود وہ ایک لڑکی ماں نہ ہو گئی اور اولاد نرینہ کی خواہش دل ہی میں لیے ہوئے اپنی دوسری شادی کے پورے پانچ سال بعد نوزائیدہ لڑکی کی پہلی سال گرہ کے روز پنڈت جی پرلوک نہ سدھار گئے۔

    اس وقت اس جلاد جیسے بوڑھے شوہر کی موت پر اپنے جذبات کا تجزیہ سینکری اچھی طرح نہ کرسکی تھی۔ اس کا دل ہلکا بھی تھا اور ایک بڑے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا بھی محسوس ہوتا تھا۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑنا بھی چاہتی تھی اور زور زور سے رونے کو بھی اس کا جی ہوتا تھا۔ لیکن وہ زیادہ روئی ہی تھی۔ اپنا ایک ایک گہنا اتار کر اس نے ٹرنک میں رکھا۔ سہاگ کی نشانی چوڑیاں توڑ ڈالیں اور رسم کے مطابق دور و نزدیک کے رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اس نے چھاتی بھی پیٹی۔ بال بھی نوچے اور آنکھیں بھی سجا لیں۔

    تب ماں نے آکر اسے تسلی بھی دی تھی کہ بیٹی! قسمت کا لکھا مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ جس حال میں رکھے اسی میں رہنا چاہیے اور پھر ماں نے گاؤں کی کئی لڑکیوں کی مثالیں دے کر سمجھایا تھا کہ وہاں بارہ بارہ برس میں بیوہ ہو جانے والی عورتیں بھی ہیں اور اپنے مرحوم شوہروں کی یاد کا سہارا لے کر ان دیویوں نے اپنی ساری زندگی کاٹ دی ہے اور پھر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس نے کہا تھا، یہ تو پھر پرماتما نے اچھا کیا کہ جوتشی جی دوکانیں اور مکان تیرے نام چھوڑ گئے۔ ورنہ مجھے تو یہی ڈر تھا کہ کہیں سوت اور اس کے رشتہ دار ہی تیرے سر پر نہ آکر سوار ہو جائیں۔ اسی طرح خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرکے ماں نے سینکری کو صلاح دی تھی کہ بیٹی! اپنے چھوٹے بھائی کو یہاں بلوا لینا۔ وہ یہاں شہر میں رہ کر پڑھ جائےگا۔ تیس روپیہ تو دوکانوں کا کرایہ ہی آ جاتا ہے۔ یہ اتنا بڑا مکان بھی کیا کرنا ہے۔ آدھا کرایہ پر چڑھا دینا اور من کو دھرم کرم کے کاموں میں لگانا اور اس نے یہ پیش کش بھی کی تھی کہ جہاں تک زیورات کا تعلق ہے وہ خود جاتے ہوئے انہیں ساتھ لے جائےگی۔ یہاں سو چور چکار کا ڈر رہتا ہے۔ جب لڑکی جوان ہو جائےگی تو پھر آ جائیں گے اور پھر جیسے خلا میں دیکھتے ہوئے ماں نے کہا تھا۔ رامو کی شادی بھی کرنی ہے اور گھر کی حالت تم سے چھپی نہیں اور سینکری نے جیسے کچھ سنے بغیر ہی یہ سب کچھ منظور کر لیا تھا۔

    رات کو جب سینکری اپنے مکان کی کھلی چھت پر سوئی تو اسے نیند نہیں آئی۔ ساتھ لگی ہوئی بچی دودھ پیتے پیتے چھاتی منھ میں لیے ہی سو گئی تھی۔ سینکری نے اسے الگ کیا اور کروٹ بدلی۔ اوپر آسمان میں پورنماسی کا چاند اپنی کرنوں کا تاج پہنے پوری آب و تاب سے چمک رہاتھا۔ سینکری کے دل سے ایک سرد آہ نکل گئی۔ ان دوبرسوں میں وہ زندگی کو کتنا زیادہ سمجھنے لگی تھی۔ دائیں طرف ایک ڈھیلی سی چارپائی پر گٹھری سی بنی اور نیند میں بے سدھ اپنی ماں کی طرف اس کی نظر گئی اور رنج اور نفرت سے اس کا گلا بھر آیا۔۔۔ یہ قسمت کی تحریر ہے یاماں باپ کا لیکھ؟ والدین کا پیار اور محبت۔۔۔ سب بے معنی باتیں ہیں۔ حالات کی آندھی کا ایک جھونکا تک تو وہ برداشت نہیں کر سکتیں۔ ورنہ روزانہ اتنے ماں باپ اپنی لڑکیوں کو یوں ان میل بیاہ کی بھٹی میں نہ جھونک دیتے۔

    اس وقت سینکری کو ایک اور بات یاد آئی جو ایک دن اس کے شوہر نے اپنے خاندان کی برتری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے سنائی تھی۔ انہوں نے کہا تھا۔۔۔ پچھلے وقتوں میں اعلیٰ خاندانوں میں تو لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا۔ بوڑھی دادیاں، پردادیاں اور جہاں وہ نہ ہوتیں وہاں مائیں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اس کا گلا گھونٹ دیتی تھیں اور جہاں مائیں اس قابل نہ ہوتیں وہاں دائیاں بڑی خوبی سے یہ خدمت سرانجام دے دیتیں اور ننھی بچی کی نعش کو پوٹلی میں باندھ کراسے زمین میں گاڑ آتیں۔۔۔ عورت ہی عورت پر کتنے ظلم ڈھاتی ہے! سینکری نے سوچا اور بستر پر پڑے پڑے اس کا دم گھٹنے لگا۔ ایک ناقابل برداشت سی آگ اس کے روئیں روئیں میں دھوک دھوک کر دہک اٹھی۔۔۔ اس کی ماں نے جنتے ہی اس کا گلا کیوں نہ گھونٹ دیا! آنکھوں کے بھیگے ہوئے کونوں کو دامن سے پونچھ کر اس نے کروٹ بدلی۔ محلے کے نیم پر بیٹھا ہوا چھوٹے الوؤں کا جوڑا اپنی کرخت آواز میں چیخ اٹھا۔ ہوا سائیں سائیں کرنے لگی اور اوپر آسمان میں ایک بڑی سی چمگادڑ اپنے پروں کا سایہ دیوار پر ڈالتے ہوئے گزر گئی۔

    سینکری کے سامنے اس کے سب گہنے ایک ایک کرکے آئے۔ جھومر، پھول، کلپ، کانٹے، کنٹھی، مالا، رانی ہار، بازوبند، کنگن، لچھے۔ جوشن۔۔۔ کیا وہ ان میں سے ایک کو بھی انگ نہ لگا سکےگی؟ کیاان سب کو اب اس کی بھاوجیں پہنیں گی؟ کیا وہ اپنے پیارے گہنوں کے لیے ایک دم غیر ہو جائےگی! ایک ناقابل برداشت حسد سے اس کاتن من جل اٹھا اور اپنے گہنوں کو ایک بار جی بھر کر دیکھ لینے کی خواہش اس کے دل میں بیدار ہو اٹھی۔ اس نے اس خواہش کو دبانے کی بھی کوشش کی۔ اسے اپنی بیوگی کا بھی خیال آیا۔ دھرم اور سماج کی پابندیوں کی بات بھی اس نے سوچی۔ لیکن اس کی یہ خواہش ہرلمحہ تیز تر ہوتی گئی۔ آخر وہ آہستہ سے اٹھی۔ اس نے کنکھیوں سے ماں کی طرف دیکھا جو دن بھر پیٹ پیٹ کر تھکی ہوئی اب خراٹے لے رہی تھی۔

    وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی نیچے اپنے کمرے میں پہنچی۔ اپنے سب قیمتی کپڑے اس نے نکال لیے۔ نیچے سے لال ساڑی نکلی جو اس نے شادی کے دن پہنی تھی اور ایک نامعلوم ترغیب کے زیر اثر اس نے اپنے میلے، بیوگی کا اشتہار دینے والے کپڑے اتار کر اسے پہننا شروع کر دیا۔ ساری پہن کر اس نے بلاؤز پہنا۔ پھر اس نے گہنے نکالے۔۔۔ ایک ایک کر انہیں پہنا۔ ہاتھوں میں کنگن ڈالتے وقت اسے معلوم ہوا کہ وہ کتنی کمزور ہو گئی ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سرخ حلقہ پھر گیا جو کبھی کلائی پر کنگن کے پھنس جانے سے بن جایا کرتا تھا۔ وہ آئینہ کے سامنے گئی۔ اس کے گول گول گالوں میں گڈھے پڑچلے تھے، جبڑوں کی ہڈیاں دکھائی دینے لگی تھیں اور ابھی اس کی عمر مشکل سے اٹھارہ برس کی ہوئی تھی۔ ایک لمبی سانس بھر کر وہ وہیں ٹرنک پر بیٹھ گئی اور اس کی آنکھوں کے سامنے چار برس پہلے کا ایک واقعہ آ گیا جب پرمیشری برہمنی کے ہنس مکھ لڑکے نے اس کی کنٹھی کا ہک باندھ دیا تھا۔ اسی دن کی طرح ایک نامعلوم سی مسرت کی جھرجھری سینکری کے تمام جسم میں دوڑ گئی۔

    دور کہیں مسلمانوں کے محلے میں مرغ نے اذان دی۔ سینکری چونک کر اٹھی۔ سب گہنے اتار کر اس نے ٹرنک میں بند کیے۔ کپڑے تہ لگا کر رکھے اور دبے پاؤں اوپر پہنچی۔ چاند اس وقت دائیں طرف کے اونچے مکان کی اوٹ میں چلا گیا تھا۔ سینکری چپ چاپ اپنی چارپائی پر جا لیٹی۔ دوسرے دن جب ماں واپس جانے لگی اور اندر جاکر اس نے سینکری سے گہنے مانگے تو وہ ٹال گئی۔

    مأخذ:

    ٹیرس پر بیٹھی شام (Pg. 60)

    • مصنف: اوپندر ناتھ اشک
      • ناشر: اوپندر ناتھ اشک
      • سن اشاعت: 1987

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے