Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کچھ تھا یا کچھ بھی نہیں تھا

احمد ہمیش

کچھ تھا یا کچھ بھی نہیں تھا

احمد ہمیش

MORE BYاحمد ہمیش

    وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مسلح یا غیرمسلح تاہم کچھ مرکب ہی سطح لئے بائیں طرف کی لمبوری اینٹوں والے ڈیڑھ مکان کو سمیٹے قدموں کو اوپر چڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے جیسے جاگتے وجود کو آگے ہی آگے لیے جا رہا ہے۔ جبکہ ڈیڑھ منزلہ مکان ایک معمر عورت اور دو نوعمر لڑکیوں کی غیریقینی موجودگی باور کرا رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ نوعمر لڑکیوں سے کوئی نہ کوئی لگاؤ ضرور ہوگا مگر اب وہ دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم مرکب سطح سے گزرت ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ اگلے زمانے کا ایک کنواں جسے پورب دیس میں اتارا کہا جاتا تھا، اس کے پاس ہی گائے بیل بھینس وغیرہ کا جماؤ تھا۔ پانی کی پیاس کو گویا تصویر کر رہاہو۔ جبکہ اس سے پرے جن جنتو کئی کئی مختلف ٹکڑیوں میں بنے ادھر ادھر چلے جا رہے ہیں۔ کوئی ان سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ کون ہو کہاں کا قصد ہے! سوائے اس کے کہ بادی انظر میں ایک ہیولیٰ محبت کا پنکھ نچے ہوئے پرندے کی ہئیت میں دکھائی دیتا ہے۔ اتنے میں شمال کی طرف سے داستان الف لیلیٰ کی نزاہت الرواح اور ابو الحسن کا نمودار ہونا اور سنانا اپنی تنگ دستی کی بپتا۔ اس سے پہلے کہ زمین سے جو، باجرا، گییوں اور چاول وغیرہ ناپید ہونے لگے، تو بددعا کرنا کہ ایسی دنیا ابدالاباد کے لئے پیدانہ ہو۔ پیدائش کے سارے ذرائع ناہنجار، فروج اور تناسل اک دم غارت ہو جائیں۔ ویسے بھی اگلے وقتوں کی کہانیوں والے پرستان تو اب پائے نہیں جاتے کہ وہ جو کسی پوربی گاؤں میں مشہور تھا،ایک مکان کی کھلی چھت پر ایک نوعمر لڑکا سو رہا تھا تبھی آسما ن سے پریوں کا ایک کھٹولا نیچے اترا اور مذکور لڑکے کو چشم زدن میں اوپر پرستان میں اڑالے گیا اورتب سے سے پریاں اسے ا کی ناف سمیٹے اسے انگور کھلاتی رہیں۔ اسے ایک محل میں بڑے آرا م سے رکھا۔ خاص طور پر لڑکے کے ناف کی اتنی آبیاری کی، انگور اور سیب کھلائے کہ وہ آدم زاد والی دنیا کو بالکل بھول گیا۔

    دراصل بات یہ تھی کہ قدم تلے کوئی سطح تھی یا سطح نہیں تھی یاویرانے میں انتہائی خوبصورت آواز تھی۔ بس یاد آتا ہے کہ نظر میں ایک ڈیڑ ھ منزلہ مکان کھنچ آیا تھا۔ نوعمر بالی لڑکیاں شائد کوئی غیر مرئی آٹا گوندھ رہی تھیں کیونکہ دکھائی نہیں دیتا تھا اور جو عورت گندھے ہوئے آٹے سے سے غیرمرئی توے پر غیر مرئی روٹیاں سینک رہی تھیں اس کی طلب کا کیا نام تھا۔ نام تھا بھی یا نہیں۔ محبت تھی یا ایک طرح کا لمس فریب لگاؤ تھا۔ اس کی انگلیاں میری گوشت انگیز اٹھان کو چھوہی تھیں یا کچھ اتھام کر آپ ہی آپ بدمست ہورہی تھیں۔ مگر کیا تھا وہ سب کچھ، ایک کھوئی محبت کے کچھ دن تھے یا کچھ پل تلاش کرنے تھے۔ اس کی انگیا میں لال لال کچھ کیا تھا۔ وہ اپنی کمر پر لال لال کردھن باندھے ہوئے تھی (اشتہائے ماضی کی علامت دنیا کے کسی حصے میں نہیں پائی جاتی) اس طرح کہ انگلیاں کھولیں تو بس کھولتی رہ جائیں۔ کچھ کھلے اور کچھ نہ کھلے۔ کیا یہی زندگی کا پہلا روپ تھا۔ اگر وہ رام دئی لوہار کی بیٹی تھی تو اس کا لوہا کتنا گرم تھا اور اگر وہ بھواں نام کے گاؤں سے اپنی پھوپی اماں سے ملنے آنے والی اشرفن تھی تو وہ مجھے دیکھتے ہی فریفتہ کیوں ہو گئی۔ یا کیامیں ہی اللہ میاں کی دی ہوئی یا بخشی ہوئی قسمت میں درج کیا گیا تھا جب دیارِ عجیب میں جہاں کبھی بگولا اٹھتا تھا تومجھ میں لڑکپن کی کونسی اٹھان ہوتی تھی کہ اٹھتے بگولے کے پیچھے بےتحاشا بھاگتا۔ ایک بار تو یہاں تک ہوا تھا کہ کسی ٹوٹکے کو آزماتے ہوئے اٹھتے بگولے کے بیچ ایک چاقودے مارا تھا۔ اس خیال سے کہ وہ چاقو بگولے کے بھوت کو لگا ہوگا اور خون نکلا ہوگا۔ تو کیوں نہ بھوت کے خون کو کھوجنے چلا جاؤں۔ اس کئے بعد کئی دن بگولے کے بھوت کی کھوج میں رہا۔ چاقو مارتا رہا۔ لیکن افسوس بگولے کے بھوت کا پیچھا اکارت گیا۔ کئی چاقو گم ہو گئے۔ نہ رام دئی ملی اور نہ اشرفن۔ اس طرح ایک دنیا اپنے آپ میں ختم ہو گئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے