aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لاروے

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    عزیز الدین ایک غریب ملازم پیشہ شخص ہے۔ اپنے جھونپڑے کے باہر بنے گڑھے میں لارووں کو دیکھ کر اس کے ذہن میں قسم قسم کے خیالات آتے ہیں۔ ان لارووں کو زندہ رکھنے کے لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ گڑھے میں گندہ پانی جمع رہے کیونکہ صاف پانی میں لاروے مر جاتے ہیں۔ اس کی بیوی عزیزہ کو مجسٹریٹ پریتم داس بطور خادمہ اپنے ساتھ کشمیر لے جاتے ہیں لیکن وہاں سے تار آتا ہے کہ عزیزہ کو پہاڑ کا تندرست پانی راس نہ آیا۔ وہ ڈائریا اور پیچش کی شکایت میں مبتلا ہو کر اچانک  مر گئی۔ عزیز الدین کے منہ سے بس اتنا ہی نکلا، اے خدا تو اپنی بارش کو تھام لے۔

    میرے جھونپڑے کے باہر سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا گڑھا ہے، جسے گذشتہ ہفتے کی رات کو بارش نے بھر دیا ہے۔ بالکل ایک چھوٹے سے دل کی طرح، جس میں جذبات کے مد و جزر پیدا ہوتے ہیں۔ اس گدلے پانی والے گڑھے میں بھی لہریں اٹھتی ہیں، اپنے محدود ساحلوں سے ٹکراتی ہیں، فنا ہو جاتی ہیں۔

    کبھی کبھی میں اپنے گھر کے پاس، بانسوں کے ایک ٹھنڈ پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور اس گڑھے میں ملیریا کے جراثیم سے بھرے ہوئے گندے پانی کو بڑے غور سے دیکھتا ہوں۔ اسے ہلا کر اس میں کیچڑ کے بادل پیدا کرتا ہوں اور دال بگھارتی ہوئی عزیزہ کو آواز دیتے ہوئے کہتا ہوں۔ ’’عزیزہ! اگر یہ گڑھا ایک خوبصورت جھیل ہوتا تو کیا ہوتا؟‘‘

    عزیزہ حسب معمول ایک سوکھی سی ہنسی ہنستے ہوئے میری بات کو دہرانے ہی پر اکتفا کرتی ہے اور میں سوچتا ہوں اگر یہ گڑھا نیلے پانی کی ایک خوبصورت جھیل ہوتا تب بھی شاید عزیزہ کے دل کی دھڑکن ویسے کی ویسی رہتی۔ لیکن اس کے باوجود جھیل کا خیال آتے ہی میرے دل کا تمام، جراثیم سے پٹا ہوا، گدلا پانی متحرک ہو جاتا ہے اور میں جذبات کے ڈونگے پر بیٹھا ہوا پانی میں بہت دور نکل جاتا ہوں۔ غالبا چاندنی رات ہوتی ہے اور میں وحشیانہ انداز سے گاتا ہوں۔ او مری چاندنی راتوں کے خدا۔ اس وقت مجھ پر لی پوکی سی مجنونانہ کیفیت طاری ہوتی ہے اور میں خوشی اور روشنی کے ہر پرتو کو خوشی اور روشنی سمجھ کر جھیل کے وسیع پانیوں میں ڈوب جاتا ہوں۔ کاشمیری ڈل کے تمام وہ نظارے میرے ذہن میں پیدا ہو جاتے ہیں، جو میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ البتہ ہر سال دیکھنے کا تہیہ کرتا ہوں لیکن یا تو سرکاری حکم کی تعمیل میں بندوقوں والی بارکوں کا ٹھیکہ ختم کرنا ہوتا ہے اور یا میرا مختصر سا اثاثہ عزیزہ کی دھڑکن کے علاج میں ختم ہو جاتا ہے۔

    بارش کے بعد چوماسا ہوتا ہے اور چوماسے کے بعد بارش۔ بارش چوماسے کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور چوماسہ بارش کا پیش خیمہ۔ حتیٰ کہ یہ دونوں شوریدہ سر بچے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے گھر سے بہت دور نکل جاتے ہیں اور اس کے بعد دھوپ رہ جاتی ہے اور نام اللہ کا۔ کچھ دن تک تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ نام اللہ کا بھی نہیں رہا۔ فقط دھوپ ہی دھوپ رہ گئی ہے اور اس عالم میں ننھا بھورا سائیس، بلا چاچا، پریتم داس آنریری مجسٹریٹ اور چھپرکھٹ کے پیندے میں لگی ہوئی عزیزہ، کسی کو توقع نہیں ہوتی کہ ذخیرے کے پیپل اور لہسوڑے مل کر تالیاں بجائیں، اور نہ ہی کسی کو شیشم سے گرتے ہوئے پتوں کے لیے نوحے کی توقع ہوتی ہے۔ نباتات، چرند و پرند خاموش، انسان و حیوان خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جیسے قدرت کے ممتحن نے ان سے کوئی نصاب سے خارج سوال پوچھ لیا۔ اس وقت پریتم داس کا ہیبت ناک ڈنگو (کتا) اور میں، دونوں زبانیں باہر نکالے ہوئے اس گڑھے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ گڑھے میں بارش نہیں، اس کی حسین یاد باقی رہ جاتی ہے جسے دیکھ کر یہ بہشتی خیال آتا ہے ۔کبھی بارش ہوئی تھی، کبھی بارش ہو گی۔

    ایک شام، بارکوں کے لیے پھوس لدواچکنے کے بعد جب میں اس گڑھے کے قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ گڑھے کے پانی میں سینکڑوں چھوٹے چھوٹے دمدار مینڈک ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر تیر رہے تھے اور گڑھے کے ساحلوں پر لاتعداد لاروے چمٹے ہوئے تھے۔ کبھی کوئی لاروا یک لخت اپنے سمندر کے ساحل کو چھوڑ دیتا اور لاپروایانہ، کھلنڈرے پن سے اپنی دم کو سر کے ساتھ لگاتا، چھوڑتا ہوا بہت دور تک پانی میں نکل جاتا اور گڑھے کی تہ میں اگی ہوئی نباتات میں بسنے والے کرمکوں کے درمیان میں سے ہوتا ہوا پھر اپنے ٹھکانے کو لوٹ آتا۔ دمدار مینڈک ان ننھے منے جھانجوں کی طرح، بے ڈھنگے انداز سے قلابازیاں کھاتے ہوئے، کبھی سطح پر چلے آتے اور کبھی تہہ میں بیٹھ جاتے۔

    میں نے اسی ٹھنڈ پر کھڑے ہو کر ان جھانجوں کی ناقابل فہم حرکتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کیا چیز انھیں بظاہر بے مقصد اور بے معنی طور پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تیرنے کے لیے مجبور کرتی ہے؟ کون سے ریاستی رازوں کو سینے میں لیے، کون سی سیاسی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے یہ اپنی بستی کو چھوڑتے ہیں، پھر لوٹ آتے ہیں؟ پھر خیال آتا ہے شاید یہ لاروے، یہ جراثیم، یہ دمدار مینڈک پراگندہ خیالات ہیں جو گڑھے کے دل میں اٹھتے ہیں۔ جیسے کبھی کبھی بیٹھے بٹھائے مجھے خیال آتا ہے کہ کل ڈھولن کی بڑی بٹو میری طرف دیکھ کر مسکراتی تھی، اپنی انگلیوں سے سامنے کے قصاب خانے کی دیوار پر کوئی نشان بناتی تھی۔ جی ہاں، اس قسم کا خیال بھی تو ایک لاروا، ایک دم دار مینڈک ہی تو ہوتا ہے جو اپنے مخصوص کھلنڈرے انداز سے تیرنے کے لیے دل کے ساحل کو چھوڑ دیتا ہے اور پانی میں بہت دور، موتھے اور فضول نباتات کے آبی مرغزاروں میں ہوتا ہوا پانی کی سطح پر نمودار ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب یاد آتا ہے کہ ننھے بھورے سائیس نے میری گذشتہ ماہ کی اٹھنی مار لی ہے، تو میں اسے نقصان پہنچانے کے ہزاروں منصوبے گانٹھتا ہوں، لیکن محسوس کرتا ہوں کہ یہ خیال بھی ایک جھانجا ہے جو کہ تیرتا ہوا دور پانی میں نکل جاتا ہے، لیکن پھر ساحل کو آ چمٹتا ہے۔ گویا ساحل اس کے لیے محض ایک منزل نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے۔ بالکل ایک ایسی حقیقت ہے، جیسے میرے منھ پر خشخشی داڑھی ہے اور میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اس داڑھی کو دیکھ کر ڈھولن کی بڑی بٹو کبھی پسیج نہیں سکتی۔ کبھی قصاب خانے کی دیوار پر اپنی انگلیوں سے نشان نہیں بنا سکتی۔ ایسے ہی جیسے میرا تمام اثاثہ عزیزہ کی ایک فضول، دیرینہ بیماری پر ختم ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے میں کشمیر دیکھنے کے ناپاک ارادے کو دماغ میں گھسنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔

    جوں جوں دن گزرتے گئے، گڑھے میں اور کثافت پیدا ہوتی گئی اور اس میں مزید انڈے اور لاروے پیدا ہوتے گئے۔ مجھے ان بد زیب، بے ڈول، نامکمل جھانجوں سے ایک قسم کا انس پیدا ہو گیا تھا۔ میں ان کے لیے اپنے دل کے کسی کونے میں محبت کا جذبہ پانے لگا۔ ایسا ہی محبت کا جذبہ، جو میرے دل میں، اپنے بڑے بیٹے فخرو کے لیے پیدا ہوتا ہے، یا اپنی شیر خوار بچی خالدہ کے لیے۔ اس گڑھے میں ملیریا کے خطرناک جراثیم پل رہے تھے۔ لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ نہ صرف آنریری مجسٹریٹ اور ننھے بھورے کو ملیریا ہو جائے بلکہ مجھے، عزیزہ اور میرے سب بچوں کو یہ بیماری لاحق ہو۔

    مجھے ان لارووں سے ایسے ہی انس تھا، جیسے کہ مجھے اپنے پراگندہ خیالات سے محبت تھی۔ اب بھی جب کبھی صبح کو ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو میں چارپائی پر لیٹا ہوا اپنے پراگندہ خیالات کی مدد سے دنیائے حقیقت کے تمام ناممکنات کو ممکنات سے ہم کنار کر دیتا ہوں۔ مثلا سوچتا ہوں کہ ٹھیکے کے سامنے کوٹھی میں بسنے والے سیمنٹ کے بادشاہ کی نوجوان لڑکی خود بخود میرے پاس چلی آئی ہے۔ یا آج میں نے بڑے سردار صاحب کی جیبوں سے نوٹوں کے تمام بنڈل اچک لیے ہیں اور عزیزہ کو ساتھ لیے ایک کار میں بیٹھا کشمیر کی طرف بھاگا جا رہا ہوں۔ اب کشمیر کے نشاط باغ میں ہوں۔ میں اور عزیزہ بڑے بڑے سرخ ’’گلاس‘‘ جو کہ ڈاکٹر نے اس کے لیے مفید بتلائے ہیں، کھا رہے ہیں۔ ہماری ٹانگیں پانی میں ہیں اور برفانی پانی ہمارے پاؤں کو چھوتا ہوا دور کسی نامعلوم جگہ کی طرف جا رہا ہے اور جس طرح میں اپنے دل کو من مانی کارروائیاں کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا ہوں، اسی طرح اس گڑھے میں لارووں کو تیرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

    اب جب کہ گڑھے کا پانی سوکھتا جا رہا تھا میں سوچنے لگا، ان نرم نرم جھانجوں اور ان مدبر مینڈکوں کا کیا ہو گا؟ کیا یہ چوماسا کبھی ختم نہ ہو گا؟ ایک دن گڑھے کا پانی سوکھ جانے سے یہ سب ختم ہو جائیں گے۔ جیسے میرے دل کی آبیاری نہیں ہوتی، کیا اس گڑھے کی آبیاری بھی نہ ہو گی؟ میں ہر روز آسمان کے کسی کونے میں لٹکے ہوئے بادل کو دیکھا کرتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک معمولی سا بادل، بادلوں کی ایک فوج کے ہراول میں آتا ہے۔ لیکن اس دن کمیٹی کا داروغہ اس گڑھے کی طرف آتا دکھائی دیا۔ میں نے قریب پڑے ہوئے کنیر کے پتوں سے اس گڑھے کو ڈھانپنے کی کوشش کی۔ لیکن مکھی کی طرح صفائی کا داروغہ بھی طبعی طور پر غلاظت کے تمام اڈوں سے واقف ہوتا ہے، اور اس داروغہ کو بھی اس گڑھے کا علم تھا۔ اس کے ساتھ رامو کہار، ایک خاکروب، دو نوجوان، نو ملازم ہیلتھ وزیٹر۔۔۔ انسانی تہذیب کے لاروے بھی آ رہے تھے۔ وہ لوگ اس گڑھے میں لال دوائی پھینک کر تمام جراثیم ہلاک کرنا چاہتے تھے۔ میں نے کہا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ میرے فخرو کو مار ڈالنا چاہتے ہو، میری خالدہ کو زہر دینے آئے ہو ۔ لاؤ تمھارا کام میں آسان کیے دیتا ہوں۔ میں ملیریا کے تمام اڈوں سے واقف ہوں اور پختہ پل کے رقبے میں جراثیم کو تباہ کرنے میں مجھ سے زیادہ کوئی بھی آپ کا ممد و معاون ثابت نہ ہو گا۔

    نوجوان ہیلتھ وزیٹر نے پر شکوک نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور بالآخر اس نے تمام دوائی میرے ہاتھ میں دے دی کہ ہر روز صبح اٹھتے ہی اسے تمام گڑھوں میں پھینک کر ان لارووں کا خاتمہ کر دیا کروں گا۔ میں نے ان سب کو یقین دلایا، جس کے بعد وہ چلے گئے اور میں نے وہ لال دوائی واٹرورکس کی بیس ہزار گیلن والی ٹنکی میں پھنکوا دی۔

    میں حسب دستور ہریکے کی طرف سے آنے والی سڑک کے پاس پل پر ٹانگیں لٹکائے اس گڑھے کے قریب بیٹھا تھا اور مچھر میرے سر پر سریلی تانیں الاپتے ہوئے اڑ رہے تھے۔ میں نہیں جانتا، وہ بے بضاعت پشے اپنی بھاشا میں کیا اور کون سا راگ الاپ رہے تھے۔ شاید وہ کہہ رہے تھے، اے اللہ کے نیک بندے! تو نے ہماری اولاد کی خبرگیری کی ہے، ہم تیری اولاد کی خبرگیری کریں گے، اور انھیں جلد ہی اس دنیا کے جیل خانے سے نجات حاصل کروا دیں گے۔ یعنی ملیریا کے سب سے زیادہ تندرست جراثیم فخرو اور خالدہ کے جسم میں داخل کریں گے۔ میں نے جوابا کہا، اے میرے عزیز مچھرو۔۔۔ میں نے تمھاری اولاد کو بچا کر تم پر کوئی احسان نہیں کیا ،بلکہ ایک معمولی انسانی فرض ادا کیا ہے۔

    گرمیوں کے شروع میں چھاؤنی کے ہیڈ کوارٹر ز ڈلہوزی جا چکے تھے اور انگریزی رجمنٹ کے بھی نصف سے زیادہ سپاہی ڈگشائی اور لوئرٹوپا پہنچ گئے تھے۔ ان دنوں ننھے بھورے کا بیکار ٹٹو سارا دن تھان پر بندھا رہتا اور ہر روز دوپہر ایک بجے کے قریب زور زور سے ہنہنایا کرتا۔ شاید وہ اس ایذا رساں نمدے والے جوئے کو یاد کرتا تھا جو کہ چند دنوں سے اس کے کندھے پر نہیں ڈالا گیا تھا۔ ننھے بھورے کا ٹٹو، ان بیکاری کے دنوں میں یا تو کثرت سے پیشاب کیا کرتا، یا اپنی پچھاڑی سے لید کو چاروں طرف بکھیر دیتا۔ اس کے علاوہ اسے عزیزہ کی دونوں بکریوں سے خدا واسطے کا بَیر تھا۔ ان بکریوں کے نام گنگی اور جمنی تھے اور انھیں عزیزہ غازی آباد سے جہیز میں لائی تھی۔ جب گنگی اور جمنی اپنے گلے کے گھنگروؤں کو بجاتی ہوئی، سبک رفتاری کے ساتھ اس کے پاس سے گزرتیں تو وہ اپنی ٹانگوں کو ہوا میں اچھالنے لگتا اور رسا تڑانے لگتا۔ وہ اپنے جسم کو گزند پہنچانے والی مکھیوں کی بجائے، بے ضرر بکریوں کو اپنا دشمن سمجھ لیتا۔ ٹانگیں ہوا میں اچھالنے سے بکھری ہوئی لید میں بسنے والے تمام مچھر اڑنے لگتے اور کیہرو خاکروب ان مچھروں کو بھگانے کے لیے فورا املتاس اور شیشم کے سوکھے ہوئے پتوں میں آگ لگا کر گہرا دھواں پیدا کر دیتا۔ پیشاب اور لید کے تعفن، مچھروں کی گھوں گھوں اور دھوئیں کی کثافت سے عزیزہ کا دل اور بھی ڈوبنے لگتا۔

    جب بارش کے خدا نے میری عرض داشت مسترد کر دی اور گڑھا زیادہ سوکھ گیا تو میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ میں نے پچاسی بنگلہ کے مالی سے گینتی مانگی اور ننھے بھورے کے ٹٹو کی ناند سے لے کر اس گڑھے تک ایک نالی بنائی اور صاف اور تازہ پانی کو نالی میں انڈیل دیا۔۔۔ گڑھا پھر لبالب بھر گیا۔ میں پھر شام کو تاڑی لے کر گڑھے کے پاس جا بیٹھا اور کھانستے ہوئے ان کی تمام نقل و حرکت کا اندازہ کرنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ اس تازہ اور شفاف پانی نے ایک ہی دن میں لاروے کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ ڈھاب کے کناروں سے جدا نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں وہ پہلی سی چستی اور کھلنڈرا پن رہا ہے۔

    ان دنوں آنریری مجسٹریٹ کشمیر جا رہا تھا اور اس کی چھوٹی بیوی، عزیزہ کو بطور رفیقہ کے ساتھ لے جانا چاہتی تھی۔ میں حقیقت حال سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ وہ عزیزہ کو بطور خادمہ کے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن میں اس بات کے لیے فورا رضامند ہو گیا۔ محض اسی وجہ سے کہ وہ خواب، جن کی تکمیل میں ابھی تک اپنی زندگی میں نہیں دیکھ سکا، اپنی عزیزہ کی زندگی میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لوں۔ اس کے علاوہ خنک ہوا اور مصفا پانی میسر آنے سے عزیزہ کی صحت بھی اچھی ہو جائے گی۔ صرف راستے کی اونچ نیچ کی وجہ سے اس کا دل ڈوبنے کا احتمال تھا۔ لیکن مجسٹریٹ کی اپنی کار تھی۔ مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ لوگ اسے بڑے آرام سے کشمیر لے جائیں گے۔ میں نے ایک نامکمل سی خوشی میں گنگی اور جمنی دونوں کو بیچ دیا اور ان پیسوں سے عزیزہ کے لئے کچھ کپڑے لتے اور ایک کمبل خرید لیا اور ان لوگوں کے ساتھ اسے کشمیر روانہ کر دیا۔

    مجھ جیسے لوگ، جو اپنے تخیل کی مدد سے کثیف گڑھوں میں ہی خوبصورت جھیلیں دیکھ لیتے ہیں، قدرت بھی انھیں کثیف گڑھوں سے پرے جانے کی طاقت نہیں بخشتی۔۔۔ اس وقت جب کہ عزیزہ کشمیر کی ٹھنڈی ہوا کھا رہی ہو گی، میں اس گڑھے کے قریب بیٹھا ہوں گا۔ کام کے وقت کا بیشتر حصہ اس گڑھے کے پاس ہی گزرتا تھا۔ لیکن صاف پانی کی وجہ سے پہلے جھانجے مر چکے تھے۔ پچاسی بنگلے کے مالی نے مجھے بتایا کہ پانی کے باسی اور گندے ہو جانے سے اور کیڑے پیدا ہو جائیں گے اور دمدار مینڈکوں میں بھی وہی پہلی سی چستی عود کر آئے گی۔ ننھے بھورے کے ٹٹو کا پیشاب بھی اسی نالے کے راستے سے گڑھے میں آنے لگا۔

    اور ایک دن میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب کہ میں نے پھر مینڈکوں، لارووں کو پانی میں ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر اپنے مخصوص، بے ڈھنگے انداز سے تیرتے ہوئے دیکھا۔ پانی کے باسی اور پیشاب وغیرہ کی وجہ سے گندہ ہو جانے سے گڑھے میں پھر ایک بار رونق پیدا ہو گئی اور میں ایک گونہ مطمئن، کھاٹ پر لیٹ کر زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگا۔

    دھوپ اتنی تیز ہو چکی تھی اور چوماسا اس آفت کا تھا کہ پل کے ارد گرد کا سارا رقبہ کھمبیوں سے بھر گیا۔ لیکن اس دن سے میں نے کبھی آسمان کی طرف بارش کے لیے نہیں دیکھا۔ میں جانتا تھا کہ آسمان سے تازہ پانی پڑتے ہی یہ کیڑے ہلاک ہو جائیں گے اور جب تک یہ پانی پھر کثافت سے آلودہ اور باسی نہ ہو گا ،مزید لاروے وجود میں نہیں آئیں گے۔

    چوماسے کے دوسرے دن بڑی موسلا دھار بارش ہوئی۔ اس وقت میں تن تنہا اپنی جھونپڑی میں بیٹھا، اپنا پھٹا ہوا پاجامہ سی رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ لالہ کا دو ماہ کا بل کیسے ادا ہو گا کہ باہر کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے فورا اٹھ کر دروازہ کھولا۔ میرے سامنے تار کا ہرکارہ تھا۔ عمر تیس پنتیس برس کے قریب ہو گی۔ چہرے کے سیاہ رنگ میں سے دو سرخ ڈوروں سے بھری ہوئی آنکھیں پھٹی پڑتی تھیں۔ اس کی خاکی وردی تمام بارش میں بھیک چکی تھی اور پانی کے قطرے اس کی کنپٹیوں سے ہوتے ہوئے داڑھی کے بالوں سے قطرہ بہ قطرہ ٹپک رہے تھے۔ ایک انگلی سے چہرہ پونچھنے کے بعد اس نے خاکی بلوز کے نیچے سے ایک بھیگا ہوا لفافہ نکالا اور بولا۔ ’’میاں عزیز الدین ٹھیکیدار کے مختار آپ ہیں؟‘‘

    میں نے بغیر جواب دیے اس بھیگے ہوئے لفافے کو ہاتھ میں لے کر کھولا۔ تار پریتم داس کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا ،’’عزیزہ کو پہاڑ کا تندرست پانی راس نہ آیا۔ اسے کل ہل ڈائریا و پیچش کی شکایت ہوئی اور آج اچانک صبح کے سات بجے وہ مر گئی۔ چونکہ تمھارا ایک دن میں پہنچنا مشکل ہے، اس لیے میں ڈاکٹر کی سند لے کر اسے دفنا رہا ہوں۔ اپنی رضامندی بذریعہ تار بھیجو۔‘‘

    میرے دماغ نے اس حادثے کی اطلاع کو قبول نہ کیا۔ میں نے فقط دروازے تک پہنچتے ہوئے اتنا کہا۔ ’’اے خدا! تو اپنی بارش کو تھام لے۔‘‘

    مأخذ:

    گرہن (Pg. 139-150)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ اردو، لاہور
      • سن اشاعت: 1942

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے