Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکڑبگھا ہنسا

سید محمد اشرف

لکڑبگھا ہنسا

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    کھڑکی کے نیم تاریک شیشوں کے پرے بچی کھچی رات تیزاور سردہواؤں کے ساتھ بہتی رہی، کمرے کےاندربہت حبس تھا اور نیلے بلب کی مدھم روشنی بہت ہیبت ناک اورپراسرارمحسوس ہورہی تھی۔ منو بھیا کے علاوہ سب لوگ اپنے اپنے بستروں پر پڑے جاگ رہے تھے۔ سب کومعلوم تھا کہ منوبھیا کے علاوہ سب لوگ جاگ رہے ہیں لیکن ایک جانے بوجھے خوف کی بنا پر کوئی اس بات کا اظہارنہیں کر رہا تھا کہ اسے معلوم ہے کہ دوسرے لوگ جاگ رہے ہیں اور یوں جاگنے والا ہرشخص تنہا نہ ہوتے ہوئے بھی خودکوسب سے دورمحسوس کر رہا تھا۔

    سب کےدل بہت زور زور سے دھڑک رہے تھے اورلگ رہا تھا جیسے کوئی چیز نرخرے پررینگ رہی ہو۔ تبھی بڑی اپی نے سانس روکے روکے بہت پراسرار آوازمیں امی سے پوچھا، ’’کیا منوبھیا کو لکڑبگھا دکھانے کے لیےچڑیا گھر لے جانا ضروری ہے امی؟‘‘

    سب نے ایک جھرجھری سی محسوس کی۔ بڑی اپی کی آواز کی گونج دوسرے ہی لمحے نیلی تاریکیوں میں ڈوب گئی تھی۔ لیکن ان کے سوال کے بعد جتنے پل گزرے وہ جاگنے والوں کے دلوں کی تیز تیز دھڑکنوں کو گنتے رہے۔ امی نے پہلو بدل کر گھوم کراس طرف دیکھا جدھر سے آئی تھی اورانہیں احساس ہوا کہ کمرے کے حبس میں مزیداضافہ ہوگیا ہے،باہرکی ہوائیں کچھ اورتیز اورگمبھیر ہوگئیں۔ انہوں نے بڑی اپی کی سہمی سہمی آنکھوں میں غور سے دیکھا اورکھوکھلی آوازمیں کہا، ’’ہاں۔۔۔ اورکیاجنگل لے جاؤں گی منو کو لکڑبگھا دکھانے۔۔۔‘‘

    ’’جنگل نہیں امی۔۔۔ امی۔۔۔ آپ جاگ رہیں ہیں نا؟ آپ کوکچھ سنائی دے رہاہے؟‘‘بڑی اپی بھرائی ہوئی آوازمیں بولیں۔

    ’’سوجاؤ بٹیا۔ تم نیند میں ہوجوایسے سوال کررہی ہو۔ چلو سوجاؤ رات بہت بیت گئی ہے۔‘‘

    پاپا، بھائی جان اور چھوٹی اپی جو خاموش پڑے جاگ رہے تھے، جانتے تھے کہ بڑی اپی نے یہ سوال نیند میں نہیں کیا ہے۔ خودامی کومعلوم تھا کہ ایسے سوال نیند میں نہیں، ہوش کے عالم میں کیےجاتے ہیں لیکن کسی نے بڑی اپی کے سوال کی ہمت افزائی اس ڈر سے نہیں کی کہ کہیں امی صحیح جواب نہ دے دیں کہ جاگنے والوں میں صحیح جواب سننے کی ہمت کسی میں نہیں تھی۔ خود بڑی اپی سوال کرنے کے بعد سانس روکے دعا کرتی رہیں کہ امی خاموش رہیں۔

    باہرہوا نے سانس بھری اوراچانک سب کے لاشعور میں پھر وہی بھیانک آواز گونجی۔ چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ۔ اس آوازکومحسوس کرتے ہی سب کے دل اتنی شدت سے دھڑکے جیسے سینے سے نکل پڑیں گے۔ ایسا لگا جیسے نیم تاریک کمرے میں کوئی سایہ ڈول رہاہے۔ سانس روکے۔

    بدن سکوڑے تمام جاگنے والے صبح ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ امی نے پہلو بدل کر منو بھیا کولپٹا لیا تاکہ خودان کا خوف کم ہواورپھر سوچا کہ یہ سب منو بھیا کی وجہ سے ہوا۔

    ادھردس پندرہ دن سے ریلوے لائن کے اس پاردیہات میں ایک لکڑبگھا لاگو ہوگیا تھا۔ ہردوسرے تیسرے ایک آدھ رات کی خبرملتی۔ منوبھیا کوجب معلوم ہواکہ لکڑبگھا چھوٹے بچوں کا گوشت بہت شوق سے کھاتا ہے تولکڑبگھا ان کے وجود پراپنے پورے وجود کے ساتھ حاوی ہوگیا۔ انہوں نے کبھی لکڑبگھا دیکھا تھا نہ اس کی تصویر۔ بچپن ہی سے بس اس کا نام سن رکھا تھا۔ جب بھی اس کا نام سنتے تو اس کے ساتھ کسی معصوم بچے کی لاش کا ذکر ہوتا تھا۔ اسی لیے وہ اس ان دیکھے دشمن سے بہت خوف زدہ تھے۔ آج شام کوانہوں نے پھر یہ خبر سنی تھی کہ ریلوے لائن کے پارلکڑبگھا ایک بچے کو اٹھالے گیا ہے۔ یہ خبرسنتے ہی ان کے چہرے پرسفیدی دوڑگئی تھی۔ شام کووہ گھرسے باہر نہیں نکلے۔ آنگن سے ڈرائنگ روم تک وہ سہمے سہمے، ڈرے ڈرے، خاموش گھومتے رہے۔

    رات کو بھائی جان کے دوست اختربھائی نے ان کا ڈردور کرنے کے لیے انہیں ڈھارس دی کہ وہ لکڑبگھے سے اس سلسلے میں گفتگو کریں گے کہ وہ اس علاقے میں نہ آئے۔ گیارہ بارہ برس کے منو بھیا میں اتنی ہمت بھی نہ ہوئی کہ پوچھیں کہ کیا لکڑبگھا ہماری آپ کی طرح باتیں کرلیتاہے لیکن یہ تصور کرکے ان کے خوف میں مزیداضافہ ہوگیا تھا کہ لکڑبگھا باتیں بھی کرلیتاہے۔ انہیں لکڑبگھا ایک عجیب وغریب سی چیزمحسوس ہوئی۔ لکڑبگھے کی صحیح جسامت کابھی انہیں اندازہ نہیں تھا۔ ان کے دوست لوگوں نے انہیں بتایا تھا کہ لکڑبگھا دیوار کے برابراونچا ہوتاہے تبھی تودیوار پھلانگ کربچوں کو اٹھالے جاتا ہے۔

    پاپا اور امی نے بتایا تھا کہ لکڑبگھے کتے کے برابر ایک وحشی جانور ہوتا ہے۔ بھائی جان، بڑی اپی اورچھوٹی اپی نے اس کی جسامت کے بارے میں زیادہ وضاحت اس لیے نہیں کی کہ انہوں نے خود کبھی لکڑبگھا نہیں دیکھا تھا۔ رات کوسوتے وقت منوبھیا نے کرکٹ کا بلا اورماچس گدے کے نیچے چھپا کر رکھ لیے۔ انہوں نے چوتھے درجے میں پڑھا تھا کہ جنگلی جانور آگ سے ڈرتے ہیں۔ شام سے ہی لکڑبگھے سے متعلق ان کے چھوٹے سے ذہن میں عجیب وغریب بھیانک خاکے بن رہے تھے تورات کوجب وہ سونے کےلیے لیٹے تو ان خاکوں نے مل جل کر ایک نہایت خوفناک صورت اختیارکرلی۔

    بھائی جان نے اٹھ کر تمام دروازوں کی کنڈیاں دیکھیں، کھڑکیوں کی سٹکنیاں بندکیں، پڑوس میں آواز دے کر ہوشیار رہنے کی تلقین کی اور آکر بتایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ایک آدھ دن میں لکڑبگھا پکڑا جائے گا یا مارا جائے گا۔ پڑوس میں بھی لکڑبگھے کی وجہ سے کافی دہشت تھی۔ لوگ شام ہی سے دروازہ بند کرکے گھروں میں قید ہو جاتے تھے اوردھیان رکھتے تھے کہ چھوٹے بچے نظرکے سامنے ہی رہیں۔ ان مکانوں میں زیادہ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا جو ریلوے لائن کے پاس بسے ہوئے تھے۔ منو بھیا کاگھر بھی ریلوے لائن کے بالکل قریب تھا۔

    منوبھیا اپنا سہما سہما چہرہ لیے امی سے لپٹ کر سوگیے تو پاپا نے ایک بارپھر دروازوں کے پاس جاکر آہٹ لی، کنڈیوں کو دیکھا اور آکرپلنگ پرلیٹ گیے۔ باہر دسمبرکی سرد رات تھی اور ہوائیں بہت تیز تھیں کہ اچانک منوبھیا کی چیخ سنائی دی اور سارا گھرجاگ پڑا جس کے بعد سے اب تک کوئی نہیں سو پایا تھا اوراس درمیان حالات کی تفصیل یہ ہے کہ امی نے گھبراکر پوچھا تھا، ’’کیا بات ہے منوبھیا۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ کیوں چیخے؟‘‘

    ’’امی۔۔۔ امی۔۔۔‘‘ منو بھیا نے ان کے بدن میں اپنا سرچھپا لیا۔

    ’’کیا ہوا بتاؤ۔ جلدی بتاؤ بیٹے۔‘‘ پاپا نے گھبرا کر پوچھا۔

    ’’امی۔۔۔ لکڑبگھا۔۔۔ میرے پاس کھڑا تھا، مجھے اس نے جھک کرسونگھا۔‘‘

    ’’نہیں منو بھیا، تم نے خواب دیکھا ہوگا۔‘‘

    پاپا، بھائی جان، بڑی اپی،چھوٹی اپی سب کے سب امی کے پلنگ کے پاس آکر کھڑے ہوگیے۔ منوبھیا کے چہرے کا سارا خون جیسے غائب ہوگیا تھا۔ آنکھیں خوف کے مارے پھٹی پڑ رہی تھیں اور ہونٹ بالکل خشک ہوگیے تھے۔

    ’’نہیں امی۔۔۔ میں نے دیکھا وہ دیوار اتنا اونچا تھا۔ اپنی لمبی گردن جھکاکر اس نے مجھے سونگھا اوربڑے بڑے سینگ چبھودیئے۔‘‘

    سب کی نند اسی آنکھیں چمکنے لگیں۔ تب پاپانے کہا، ’’بیٹے منو۔۔۔ لکڑبگھا دیوارکے برابر نہیں کتے جیسا ہوتا ہے اور اس کے سینگ کب ہوتے ہیں۔ تم نے خواب دیکھا تھا۔ کلمہ پڑھ کرسویا کرو بیٹا۔‘‘

    ’’کلمہ پڑھاتھا پاپا اورالحمد بھی۔‘‘

    منوبھیا نے امی کی گود میں سر رکھ کر رونا شروع کردیا۔ سب کوعجیب سی دشواری کا احساس ہورہا تھا کہ منوبھیا کوکیسے یقین دلایا جائے کہ لکڑبگھے نے نہیں اس کے خوف نے انہیں ڈرایاہے۔ تبھی امی نے کہا تھا، ’’بیٹا منو میں تمہیں بتاتی ہوں کہ لکڑبگھا کیسا ہوتا ہے تاکہ تمہارے دل سے اس کا خوف نکل جائے۔‘‘

    سب اپنے اپنے بستروں میں لیٹ گیے اور امی کی بات پرہوں ہاں کرنے لگے تاکہ منو بھیا کواطمینان رہے کہ سب جاگ رہے ہیں۔ کھڑکیاں اوردروازے ہوا کے زورسے ہولے ہولے بج رہے تھے۔ جن کی آوازیں ماحول کو اورزیادہ دہشت ناک بنارہی تھیں۔ سب کے بدن میں خوف کی لہریں سی دوڑ رہی تھیں۔ منوبھیا دھیمے دھیمے سسکتے رہے۔ اور اب امی نے جاگتے ہوئے لوگوں کے درمیان نیلے بلب کی روشنی میں عجیب سی آوازمیں کہنا شروع کیا۔

    ’’منو بھیا! یہ جولکڑبگھا۔۔۔ سن رہے ہو تم؟ یہ جو لکڑبگھا ہوتا ہے نا۔۔۔ یہ کتے جیسا ایک جانور ہوتا ہے لیکن کتوں کے درمیان کھڑا کردو توآسانی سے پہچان لوگے۔ یہ بہت حاسداور خوں خوارجانور ہوتا ہے بیٹا۔۔۔ لیکن بہادر بالکل نہیں ہوتا۔‘‘ بھائی جان نے ایک لمبی سی ہوں کرکے تائید کی تھی۔ سب کان لگائے امی کو سنتے رہے۔

    ’’یہ ہمیشہ سادہ دل اور معصوم بچوں پرہی حملہ کرتاہے۔ مکاری سے پیچھا کرتا ہے۔۔۔ آہٹ ہونے پر پیچھے مڑکر دیکھو تو لگے جیسے کوئی وفادار کتا چلا آرہا ہو۔ سرجھکائے آہستہ آہستہ۔۔۔ لیکن جیسے ہی موقع آتا ہے تو ذرانگاہ بچی اور۔۔۔ اوریہ اوپرلپکا۔‘‘ اتنا کہنے کےبعد خود امی نے محسوس کیا کہ ان کی آواز کچھ اجنبی سی ہوگئی ہے۔ منو بھیا نے محسوس کیاکہ باقی لوگ خاموش ہوگیے ہیں لیکن جاگ رہے ہیں۔

    ’’امی۔۔۔ اس سے بچنے کی کوئی ترکیب ہوتی ہے؟ ‘‘ منو بھیا نے ہولے سے پوچھا۔

    ’’اس سے بچنے کے لیے بس احتیاط سب سے بڑی شرط ہوتی ہے بیٹا۔ رات گیے دیر تک باہر نہیں رہنا چاہئے۔ اگر کسی جھاڑی کی طرف جانا ہو تو بچاؤ کے لیے کوئی دھاردار ہتھیار ہونا چاہئے۔ اورسب سے بڑی بات تو یہ۔۔۔ اورسب سے بڑی بات تویہ کہ اندھیرا یا دھندلکا ہو تو کسی کتے جیسی چیز کو کتا نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘ سب نے بستروں میں لیٹے لیٹے اپنے بدن سکوڑلیے اور سانس روک کرامی کی بات پرغورکیا۔

    ’’دھندلکے میں کسی کتے جیسی چیز کو کتا نہیں سمجھنا چاہئے۔‘‘

    ’’۔۔۔تم اس کامقابلہ کرکٹ کے بلے اورماچس سے کرناچاہتے ہو۔۔۔ بیوقوف کہیں کے--- ایک معصوم بچے نے ایک دفعہ ایسا ہی کیا تھا۔ جب لکڑبگھا آیا تو وہ بچہ کچھ نہ کرسکا۔ اس نے بچے کو دبوچا اور گردن چیر کرساراخون پی لیا اورپنجے گاڑ کرآنتیں نکال لیں اور۔۔۔ تمام گوشت ادھیڑ ادھیڑ کر کھا لیا۔‘‘

    ’’امی۔۔۔ امی۔۔۔۔‘‘ منوبھیا نے ان کی کمرمضبوطی سے پکڑلی۔

    ’’ڈرو مت۔ میں تمہیں سارے خطرات سے آگاہ کرنا چاہتی ہوں تا کہ کبھی دھوکہ نہ اٹھاؤ۔‘‘ امی نے بھاری آوازمیں کہا۔

    کھڑکیوں کے شیشوں کے باہرکہرا دھویں کی طرح سلگ رہا تھا۔ ہوائیں رات کی تاریکیوں سے کچھ کہتی ہوئی گزر گئیں۔ اندر حبس زدہ کمرے میں پڑے ہوئےسب لوگ امی کو سنتے رہے۔ امی نے اسی آواز میں کہا،

    ’’بیٹا! تمہیں اتنی تفصیل سے اس لیے بتارہی ہوں کہ یہ لکڑبگھا جو ہوتا ہے نا، یہ شیرکی طرح بہادر تو ہوتا نہیں کہ سامنے سے حملہ کرے۔ نہایت کمینہ جانور ہوتا ہے۔ ہمیشہ پیچھے سے لپٹ پڑتا ہے۔ یہ جانتاہے کہ لوگ اسے کتا سمجھیں گے اسی لیے دھوکے ہی دھوکے میں بالکل قریب پہنچ جاتا ہے اورچپ چاپ موقع کا انتظار کرتا ہے بس ذرا آنکھ بچی۔۔۔ بس ذرا آنکھ بچی۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

    سب کے دل کی دھڑکنیں کمرے میں گونجنے لگیں۔

    ’’بس ایک پہچان ہوتی ہے۔‘‘ امی نے کہنا شروع کیا، ’’ہاں بس ایک پہچان ہوتی ہے۔ جب یہ چلتا ہے تو چٹ چٹ کی آوازیں آتی ہیں۔ لیکن لوگ باگ یہ آوازیں اپنی چال کے شورمیں سن نہیں پاتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ راستے میں جب تم دیکھو کہ کوئی چیزتمہارے پیچھے چپ چاپ لگی ہے اور کتے کی طرح معصوم اور وفادار بنی پیچھے چلی آرہی ہے تو اس وقت۔۔۔ رک کرغور سے سنوکہ اس کے پیروں سے چٹ چٹ کی آوازیں تونہیں آرہی ہیں۔ لیکن منوبیٹے لوگ خوداپنی چال کے شورمیں یہ آوازیں سن ہی نہیں پاتے۔ اور۔۔۔‘‘

    پاپا، بھائی جان، بڑی اپی، چھوٹی اپی سب کواپنی سانسیں سینے میں گھٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ سب کو بہت واضح اندازمیں محسوس ہوا کہ جیسے باہر ابھی ابھی چٹ چٹ کی آوازہوئی ہو، ’’امی۔۔۔ ہمیں لکڑبگھا دکھائیے گا؟‘‘ منوبھیا نے غنودہ ہوتے ہوئے فرمائش کی تھی۔

    ’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ اب کے لکھنؤ چلیں گے تو چڑیا گھرمیں دیکھ لینا۔ اب سو جاؤ بیٹے، رات بہت بیت گئی ہے۔‘‘

    امی خاموش ہوگئی تھیں۔ منوبھیا سوچکے تھے لیکن سب کے کانوں میں امی کی آواز ابھی تک گونج رہی تھی۔ دھندلکے میں بالکل کتے جیسا نظرآتا ہے۔۔۔ وفادار بنا ہوا مکار پیچھے پیچھے چلتا ہے۔ بالکل قریب آ جاتا ہے، خبربھی نہیں ہوتی کہ وہ آگیا اورپھر ذراموقع ملا۔۔۔ اور یہ جھپٹا۔ بڑا حاسد اور چالاک ہوتا ہے۔۔۔ بہت چالاک۔۔۔ کبھی سامنے سے حملہ نہیں کرتا۔ بس خود کو وفادار کتا ظاہر کرتا ہوا بالکل قریب آ جاتا ہے۔۔۔ بالکل قریب۔۔۔ بالکل قریب۔۔۔ بس ذرا موقع ملا اورجھپٹا۔۔۔

    سب جاگنے والے مدھم نیلی تاریکی میں آنکھیں کھولے سوچ رہے تھے کہ وہ ہوں ہاں کرنا کیوں بھول گیے ہیں؟ گھٹی ہوئی فضامیں سب یہی سوچتے رہے کہ اچانک ایسا محسوس ہوا جیسے کمرہ روشن ہوگیا ہو۔ تبھی بڑی اپی کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا۔ انہیں لگا جیسے ان پر ابھی ابھی انکشاف ہواہوکہ سب لوگوں کی سراسیمگی اورخوف کا کیا سبب تھا۔ انہوں نے گردن موڑکراندازہ کیا کہ منو بھیا کے علاوہ سب لوگ جاگ رہے ہیں لیکن کوئی ظاہر نہیں کررہاکہ وہ جاگ رہا ہے۔ نیلی روشنی نے ماحول میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا کردی تھی۔ کھڑکیوں کے پٹ آہستہ آہستہ بج رہے تھے۔ اسی وقت بڑی اپی نے سانس روکے روکے بہت پراسرار اندازمیں پوچھا تھا، ’’کیا منو بھیا کو لکڑبگھا دکھانے کے لیے چڑیاگھر لے جانا ضروری ہے امی ؟‘‘

    اس وقت سب جاگنے والوں کواحساس ہوا کہ یہی سوال ان کے ذہنوں میں بھی تھا۔ یہ سوال ذہنوں میں کیوں آیا۔ سب کو اندازہ ہواکہ یہ سوال تو ذہنوں میں آناہی تھا۔ تبھی امی نے بڑی اپی کوسونے کی ہدایت کی تھی اور تبھی سب کے لاشعورمیں چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ کی آوازیں گو نجنے لگی تھیں۔ یہ آوازیں کھڑکیوں کے باہر سے نہیں آرہی تھیں۔

    رات بیتی اوردن کی ہلچل شروع ہوئی اورسب لوگ اپنے اپنے پلنگ سے اٹھے تو محسوس ہوا کہ رات کی باتیں ابھی تک دماغ پر اسی طرح حاوی ہیں۔ جب سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوئے توایک عجیب بات محسوس کی گئی۔ انہیں باربارایسا لگتا جیسے کہیں سے ایک پراسرارآواز آرہی ہے۔ چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ۔۔۔ جیسے کہیں قریب میں لکڑبگھا چل رہا ہو۔ پاپا اوربھائی جان اپنے اپنے کام پرگیے توانہیں بارباریہ آوازمختلف مقامات پرسننے کوملی۔ رات کے سارے واقعات ان کی آنکھوں میں تازہ ہوجاتے۔ کام کرتے کرتے جیسے ہی وہ آوازذہن میں آتی، ہاتھ روک کرگھبراکرپیچھے پلٹ پڑتے لیکن پیچھے اپنا کوئی عزیزدوست کھڑا نظر آتا۔ وہ سر جھٹک کران آوازوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کرنے لگتے۔

    وفادار کتے کی طرح پیچھے لگارہتاہے۔۔۔ جہاں موقع ملا۔۔۔ جھپٹ پڑا۔۔۔ سامنے سے حملہ نہیں کرتا۔ بڑا حاسد اورمکارجانور ہوتا ہے۔۔۔

    بڑی اپی اورچھوٹی اپی پڑھنے کے لیے کلاس میں گئیں۔ کلاس کے بعد جب ان کی سہیلیاں ان سے بہت ہنس ہنس کر باتیں کررہی تھیں تواس وقت دونوں نے وہی دہشت ناک پراسرار آوازسنی۔ چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ۔۔۔ ہراساں ہوکر انہوں نے ایک دوسرے کودیکھا لیکن کچھ کہا نہیں۔ کیا کہتیں؟

    شام کوگھرمیں جب سب لوگ جمع ہوئے تو ہرچیزمعمول کے مطابق تھی لیکن آج سب نے آپس میں ایک عجیب رشتہ محسوس کیاجیسے جنرل وارڈ میں اپنے ساتھ کے بیماروں کو دیکھ کرایک ذاتی سا تعلق محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ہماری طرح معذور ہیں اورہماری ہی طرح بے بس ہیں لیکن اپنے منھ سے کسی نے کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے دوسروں کوذرا سا بھی شبہہ ہوتا کہ دن کس سوچ میں گزرا ہے۔ سب ایک دوسرے سے خود کو چھپا رہے تھے جیسے انسان نہ ہوں کوئی بھید ہوں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہی چٹ چٹ کی آوازسب کے ذہنوں میں چٹخنے لگتی۔

    پاپا کے دوست خواجہ صاحب پاپا کو بزنس کے متعلق ایک بہت اہم مشورہ دے کر جا رہے تھے تواس وقت ڈرائنگ روم کے باہر اندھیرا مسلط ہو چکا تھا۔ اسی وقت پاپا کو محسوس ہوا کہ خواجہ صاحب کے پیروں سے وہی آوازیں آرہی ہیں۔ جاتے جاتے جب خواجہ صاحب نے مڑ کر پاپا سے یہ کہا کہ اس کام کوان کے مشورے کے مطابق کرنے میں پاپا کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا تو معلوم نہیں کیوں پاپا کویہ محسوس ہواکہ خواجہ صاحب کی آنکھیں بالکل سرخ ہوگئی ہیں اوران سے درندگی ٹپک رہی ہے۔۔۔ جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔ پاپا نے خود کو بستر پر گرادیا۔

    تھوڑی دیرکے بعد بھائی جان کے دوست اختربھائی آگیے۔ منوبھیا بہت دیر تک ان سے اس بارے میں گفتگو کرتے رہے کہ بڑا چاقو کتنے روپئے تک میں آجائے گا۔ پھر بھائی جان نے اشارے سے منو بھیا کو اندر بھیجا اور اختربھائی کوکسی بات پر مشورہ دینے لگے۔ اختربھائی بھی بہت دیر تک انہیں کسی بات پرسمجھاتے رہے۔ چھوٹی اپی جوپانی لارہی تھیں دونوں کی باتیں سن کررک گئیں۔ اچانک کسی بات پر بھائی جان نے اختر بھائی کے پیچھے کھڑے ہو کر جھک کر ان کے کان کے پاس اپنا منھ لا کر کہا، ’’تم اگر یہ کام شروع کر دو تو تمہارابہت فائدہ ہے میں اس سلسلے میں تمہارا بھرپور ساتھ دوں گا۔ آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ہے کیوں نا۔‘‘

    اختربھائی ان کا چہرہ نہیں دیکھ پائے وررنہ دیکھتے کہ بھائی جان کی آنکھیں بہت وحشی ہوگئی تھیں اوران کی بانچھوں سے نکیلے دانت باہر نکل پڑے تھے۔

    جب اختربھائی رخصت ہوگیے اوربھائی جان گھرکے اندر واپس آرہے تھے تو چھوٹی اپی نے چلا کر کہا، ’’لکڑبگھا۔۔۔ لکڑبگھا۔۔۔‘‘

    ’’کہاں ہے؟‘‘ بھائی جان پردہ اٹھاکر اندر آئے اورچھوٹی اپی کو گھور کر دیکھا۔

    ’’معلوم نہیں۔۔۔ باہرڈرائنگ روم سے کیا آپ آ رہے تھے؟ میں نے ابھی ابھی چٹ چٹ کی آوازیں سنی ہیں۔ کیا وہ آپ کے پیروں سے نکل رہی تھیں؟‘‘

    ’’معلوم نہیں۔۔۔‘‘ بھائی جان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’معلوم نہیں۔۔۔ لیکن خدا جانے کیوں آج اپنے کئی دوستوں کی ٹانگوں سے ایسی ہی آوازیں سنائی دیں۔ ابھی ابھی جب اختر گیا تب بھی معلوم نہیں میرا وہم ہے یا۔۔۔ یا شاید۔۔۔‘‘

    ’’بھائی جان! کیا آپ کوبھی۔۔۔ کیا آپ کو بھی۔۔۔‘‘ چھوٹی اپی سرا سیمہ ہوگئی تھیں۔

    ’’چپ رہو۔۔۔ .چپ رہو۔ اس موضوع پربات مت کرو۔۔۔‘‘

    منو بھیا کے ضد کرنے پر پاپا اوربھائی جان نے کئی مرتبہ اٹھ کر دروازوں کو دیکھا اورجب سب لوگ سونے کےلئے لیٹ گیے تو منوبھیاکے علاوہ سب نے کچھ سوچا۔ اپنی دنیاکے متعلق سوچا۔ اپنے دوستوں کے متعلق سوچا۔ اپنے گردپھیلے ہزاروں افراد کے متعلق سوچا۔ اورپھر۔۔۔ اپنے متعلق سوچا۔۔۔

    کھڑکیوں کے باہر سردہواؤں کے بھاری بھاری جھونکے سائیں سائیں کی لے پربہہ رہے تھے۔ سائیں سائیں کی ان آوازوں کی منڈلی کے ساتھ سب کے ذہن اپنے اور دوسروں کے عمل کا احاطہ کرتے ہوئے جب دورتک چلے گیے اورسب کواپنی اپنی وہ باتیں بھی یاد آگئیں جوماضی کے اجاڑکھنڈروں کے بلوں میں ناگنوں کی طرح چھپ گئی تھیں تو انہیں اپنے نرخرے پرکوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی اپنے آپ سے۔ بے یقینی کی اس کیفیت میں انہوں نے دیکھاکہ کھڑکیوں کے باہر کہرے سے پرے دوردور تک ایک جنگل پھیلا ہواہے جس میں کتوں جیسے بہت سے جانور ادھرادھر گھوم رہے ہیں۔

    منوبھیا نے سوتے میں بہت زور سے پہلو بدلا اور ان کی آواز سے سب کمرے کے اندر واپس آگیے۔ سب کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ انہیں ایسا لگا جیسے دیوار پرننگے کلاک نے ابھی ابھی بولنا شروع کیاہے۔ ٹک ٹک۔۔۔ . ٹک ٹک۔۔۔ چٹ چٹ۔۔۔ چٹ چٹ۔۔۔ اورسب نے محسوس کیا کہ کھڑکیوں کے باہربھی ایک جنگل ہے اورکھڑکیوں کے اندربھی ایک جنگل ہے۔ کمرے کی دیواروں کے بیچ جنگل میں لیٹے لیٹے سب نے پچھلی رات یاد کی۔ ’’کتے کی طرح خاموشی سے پیچھے لگا رہتا ہے۔۔۔‘‘ امی نے کہا تھا۔

    ’’موقع ملتے ہی جھپٹ پڑتا ہے، پنجوں سے آنتیں باہرنکال لیتا ہے، گردن پرچڑھ کر خون پی جاتا ہے۔ دانتوں سے گوشت ادھیڑ ڈالتا ہے۔۔۔‘‘ امی نے کہا تھا۔

    سب سوچتے رہے۔۔۔ اپنی اپنی زندگی پڑھتے رہے۔۔۔ پڑھتے رہے۔۔۔ سب جاگ رہے تھے اور سب کومعلوم تھا کہ دوسرے بھی جاگ رہے ہیں۔

    دورچوکیداروں کی سیٹیاں گونج رہی تھیں اورمنحوس رات کھڑکیوں کے باہر سرسرا رہی تھی۔

    اورپھر جب صبح پاپا سب سے پہلے سو کراٹھے توایک عجیب سی بات ہوئی، انہیں ایسا لگا جیسے ان کی ٹانگوں سے چٹ چٹ کی آوازیں آ رہی ہیں۔ وہ ٹھٹک کرکھڑے ہوگیے۔ چلے تووہی آواز پھر سنائی دی۔ رک کرانہوں نے امی کی طرف دیکھا جوکھڑی ہوئی اپنے پیروں کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

    ’’کیا تمہیں بھی۔۔۔؟‘‘ پاپا کے منھ سے بس اتناہی نکلا۔

    ’’ہاں۔۔۔‘‘ امی نے ان کی طرف دیکھ کر روہانسی آواز میں جواب دیا۔ پاپا نے انہیں بہت غور سے دیکھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دیر تک دیکھتے رہے۔ تھوڑی دیر بعدبڑی اپی نے سہمے سہمے لہجے میں آکرامی کو بتایا کہ انہیں اپنی ٹانگو ں سے چٹ چٹ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ امی نے پاپا کی طرف بے بس نظروں سے دیکھا اوربڑی اپی کو دلاسہ دیا۔

    ’’بیٹی یہ تمہارا وہم ہے، اصل میں بات یہ ہے کہ منو بھیا کی وجہ سے کل سے ہمارے دماغ پر لکڑبگھا سوار ہو گیا ہے۔۔۔ اور کوئی بات نہیں ہے بیٹی۔۔۔‘‘

    ’’اور کوئی بات نہیں امی؟‘‘ چھوٹی اپی جوپاس آکر کھڑی ہوگئی تھیں، گھور کر امی کی طرف دیکھ کر بولیں۔

    ’’ہاں اورکوئی بات نہیں بیٹی۔ اور کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ امی کے بجائے پاپا نے منھ پھیر کر جواب دیا۔

    چھوٹی اپی نے کچھ بتانے کے لیے منھ کھولاہی تھا کہ بھائی جان اپنے بستر سے اٹھے اوردوقدم چل کررک گیےاوراپنے پیروں کی طر ف یوں دیکھنے لگے جیسے کچھ سننے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھرچلے، پھر رک کر کچھ سننے کی کوشش کرنے لگے۔ سب نے بھائی جان کی طرف دیکھا اورپھر ایک دوسرے کو دیکھا اور وہ خاموشی سے ان میں آکر مل گیے۔

    اتنے میں ملازم باہر سے دوڑتا ہوا اندرآیا اورپھولتی ہوئی سانسوں کے درمیان اس نے اطلاع دی کہ رات پڑوس کے گاؤں میں وہ لکڑبگھا۔۔۔ پکڑلیاگیا اوراب اسے باندھ کرگاؤں والے شہرکی طرف لارہے ہیں۔ وہ لوگ اب یہاں تھوڑی ہی دیر میں پہنچنے والے ہیں۔ خلاف توقع سب کے چہروں پرحیرت یاخوشی کی علامتیں غائب دیکھ کر وہ سٹپٹا گیا اور واپس چلا گیا۔ سب خاموش کھڑے ایک اورچیزکا انتظار کر رہے تھے۔ ڈرے ڈرے سب انتظار کرتے رہے اور آخر میں جب منوبھیا جاگے تو وہ انتظار ٹوٹا۔ منوبھیا لپک کران کی طرف بڑھے اور نیند میں ڈوبے ہوئے بے چین لہجے میں پوچھا، ’’آپ لوگ اس طرح کیوں کھڑے ہیں، کیا لکڑبگھا آیا تھا؟‘‘

    ’’نہیں بیٹے وہ لکڑبگھا پکڑلیا گیا۔ اب اس لکڑبگھے سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘

    یہ کہہ کر پاپا منوبھیا کواندروالے کمرے میں لے گیے اوربہت سی ٹافیاں دے کر ان سے بہت ڈرتے ڈرتے پوچھا، ’’منوبھیا! جب تم چلتے ہوتو تمہاری ٹانگوں سے چٹ چٹ کی آوازیں تو نہیں آتیں۔۔۔؟‘‘

    منوبھیاحیران سے کھڑے رہے۔

    ’’جلدی بتاؤ۔۔۔ چٹ چٹ کی آوازیں تونہیں آتی۔۔۔ ہیں بیٹے جلدی بولو۔۔۔‘‘ پاپا گھبرائے ہوئے لہجےمیں پوچھ رہے تھے۔

    ’’نہیں پاپا۔۔۔ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں۔۔۔ میں کوئی لکڑبگھا ہوں کیا؟‘‘ منو بھیا نے جواب دیا۔

    اتنے میں باہر کچھ شورہوا۔ سب لوگ لپک کر کھڑکی پر کھڑے ہوگیے، باہرجھانک کردیکھا تو۔۔۔ سینکڑوں دیہاتیوں کی بھیڑ کے درمیان وہ چلا آرہا تھا۔ اس کے منھ پرمسیکا بندھا ہوا تھا اورچاروں ٹانگوں میں زنجیریں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کی آنکھیں بالکل سرخ نظر آرہی تھیں اور وہ اندر ہی اندر دانتوں سے چمڑے کے ٹیکے کو پھاڑنے کی کوشش کررہاتھا۔ جسم پرموٹی موٹی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں اوراگلے پنجے خون سے لتھڑے ہوئے تھے۔

    معلوم نہیں کیوں پاپا، امی، بھائی جان، بڑی اپی اورچھوٹی اپی سب نے ایک دوسرے کی آنکھ بچاکراپنے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ دیر تک دیکھتے رہے۔

    اب لکڑبگھا کھڑکی کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اس کی ٹانگوں سے چٹ چٹ کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ پیچھے گاؤں والے لاٹھیاں اوربلم لیے چل رہے تھے اور بھیڑ کے قدموں سے دھول اڑرہی تھی۔ اچانک کھڑکی کے بالکل سامنے آکر وہ رک گیا۔ چٹ چٹ کی آوازرک گئی۔ اس کے پیچھے چلنے والے ٹھٹک گئے۔ دھول آہستہ آہستہ زمین پربیٹھ گئی۔ کھڑکی سے جھانکتے ہوئے تمام گھروالوں نے سانس روک لیں۔ منوبھیا امی کی ٹانگوں سے لپٹ گیے۔ باہر کی بھیڑ ایک دم خاموش ہوگئی۔ لکڑ بگھے نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ ایک لمحے تک ایسے ہی دیکھتا رہا۔ پھر اچانک لکڑبگھا بہت زور سے کھلکھلا کر ہنسا۔۔۔ لوگ سمجھے شاید مسیکا پھاڑنے کی کوشش میں یہ آواز نکلی ہے۔ کسی دیہاتی نے پیچھے سے اس کی کمر پرزور دارلاٹھی کاوار کیا اور نفر ت سے بولا، ’’سالا کتے جیسا بن کرپاس آ جاتا ہے اور داؤں لگتے ہی لپٹ پڑتا ہے۔۔۔‘‘

    لکڑبگھے نےلاٹھی کھاکریہ جملہ سنا اوراس کی طرف دیکھا۔ لاٹھی کی ضرب کی شدت سے اس کی آنکھیں پسیج گئی تھیں۔۔۔ بھیگی بھیگی آنکھوں سے اس نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے سب گھروالوں کوباری بار ی دیکھا۔ اورایک بار پھر بہت زور سے کھل کر ہنسا اور چٹ چٹ کرتا بھیڑ کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ لکڑبگھے کے ساتھ کی بھیڑ ابھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی کہ تھوڑی دیر کے بعد پاپا کھڑکی کے پاس آئے توابھی بھیڑ کے قدموں سے اڑی ہوئی دھول فضا میں چھائی ہوئی تھی اوردھول کے پرے منو بھیا اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ زور زور سے باتیں کرتے اسکول جارہےتھے۔ پاپا کومحسوس ہوا جیسے ابھی ابھی منوبھیا رکےہوں اوراپنی ٹانگوں کی طرف دیکھ کر کچھ سننے کی کوشش کی ہو۔ پاپا نے آنکھیں بند کر کے خدا سے دعا کی کہ منو بھیا اوران کے ساتھیوں کی ٹانگوں سے کبھی چٹ چٹ کی آوازیں نہ آئیں۔

    منو بھیا اوران کے ساتھی جب نگاہوں سے اوجھل ہوگیے توپاپا نے کھڑکی کی سلاخیں پکڑ کر ریلوے لائن کے پار دور دور تک پھیلی ہوئی دنیا کوبہت دیر تک دیکھا اور بہت دیر تک سوچا، جب وہ واپس مڑے تو سب گھروالے گردنیں نیچے ڈالے خاموش بیٹھے تھے۔ سب اپنی ذات سے اتنے مایوس اوراداس لگ رہے تھے جیسے کسی وبا کے پھیلنے کی خبر سن لی ہو۔ سب ایک دوسرے کونیچے ہی نیچے شرمندہ نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ امی نے ایک لمبی سانس لی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر سب کی چٹ چٹ کرتی ہوئی ٹانگیں اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئیں۔۔۔

    مأخذ:

    ڈار سے بچھڑے (Pg. 27)

    • مصنف: سید محمد اشرف
      • ناشر: سید محمد اشرف
      • سن اشاعت: 1994

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے