Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مدن سینا اور صدیاں

عزیز احمد

مدن سینا اور صدیاں

عزیز احمد

MORE BYعزیز احمد

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ افسانہ ایک ایسی داستان بیان کرتا ہے جس سے ہمارے معاشرے کی عظیم اور مشہور رومانی داستانوں نے ترغیب لی ہے۔ چاہے وہ شیریں فرہاد ہو یا پھر ہیر رانجھا۔ ان طرح کی سبھی کہانیوں کی تحریک مدن سینا، دھرم دت اور سمندر دت کی کہانی رہی ہے۔ مدن سینا، جس سےمحبت تو دھرم دت کرتا ہے، مگر اس کی شادی سمندر گپت سے ہو جاتی ہے۔‘‘

    تب وی تال نے کہا، ’’مہاراج! اگلے زمانے میں ایک راجہ تھا جس کا نام ویرا باہو تھا۔ اننگ پورہ اس کی راجدھانی تھی اور دور دور کے راجے اس کو باج دیتے تھے۔ سات سمندر پار کے سوداگر چھوٹے چھوٹے جہازوں میں بیٹھ کر بھارت درشن میں آتے اور اس کی راجدھانی سے موتی، مسالے، ہیرےاور نہ جانے کیا کیا خرید لے جاتے۔ بیوپار کی برکت سے اننگ پورہ کے ویش بہت امیر ہونے لگے اور اننگ پورہ کے ویش سوداگروں کے مکان روپ اور صفائی میں دوسرے ملکوں کے راجوں کی ڈیوڑھیوں کا مقابلہ کرنے لگے۔ انہیں دیش امیر سوداگروں میں سے ایک کا نام ارتھاوت تھا۔ اس کے ایک بیٹا تھا، انمول ہیرے جیسا، جس کا نام دھن دت تھا۔ ایک بیٹی تھی جو دوسری تمام لڑکیوں میں یوں دمکتی جیسے کنکروں میں سچا موتی۔ اس کا نام مدن سینا تھا۔

    ارتھادت اپنے بیٹے دھن دت کو ساتھ لے کر سمندر کنارے کے کسی شہر کو چلا جاتا تھا جہاں افریقہ اور روم دیس کے سوداگر مال خریدنے آتے تھے۔ اس کی بیٹی مدن سینا اپنی سکھیوں، سہیلیوں کے ساتھ باغ میں کھیلا کرتی۔

    ساون کا مہینہ آیا۔ مدن سینا اور اس کے سکھیاں جھولتی اور گاتی جاتی تھیں۔ آکاش بادل کی رضائی اوڑھے ہلکی ہلکی پھوار برسا رہا تھا۔ مدن سینا اور اس کی سکھیاں پنچھیوں کی طرح چہچہا رہی تھیں۔ اتنے میں ہوا کا ایک جھونکا آیا اور بڑی بڑی بوندیں درختوں سے گرنے لگیں۔ کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اور دھرم دت کو پاس کھڑا دیکھ کر مدن سینا کی ایک سکھی بول اٹھی، تیرا دوست یہاں نہیں۔ وہ تو اپنے پتاجی کے ساتھ سمندر کنارے کے شہر کو گیا ہے۔

    مدن سینا نے دیکھا کہ دھرم دت اسے برابر گھور رہا ہے۔ شرم سے اس نے گھونگھٹ کاڑھ لیا۔ دھرم دت اسی طرح گم سم کھڑا رہا جیسے وہ اندھا، گونگا یا بہرا ہے۔ بچارا کیا کرتا۔ اتنی دیر میں پریم کے تیروں نے اس کی سمجھ بوجھ کو چھلنی کر دیا تھا۔ وہ سوداگر بچہ بھلا کیا جانتا تھا کہ اس کے دوست دھن دت کی بہن مدن سینا جوان ہوکر ایسی سندر نکلے گی۔ وہ ایک پاگل کی طرح مدن سینا کو گھور ہی رہا تھا کہ مدن سینا اور اس کی سکھیاں چڑیوں کی طرح آپس میں چہچہائیں، کھلکھلائیں اور پنچھیوں کی طرح پھر سے اڑکر مدن سینا سمیت مکان میں کہیں غائب ہو گئیں۔

    جب دھرم دت کی آنکھوں نے مدن سینا کو اوجھل پایا تو اس کے دل کو بڑا دھچکا لگا۔ گم سم وہ اپنے گھر واپس پہنچا اور صبح تک چاند کی کرنوں کے زخم سہتا، چاندنی کے بھالے کھاتا، بچھونے پر کروٹیں بدلتا رہا۔

    نور کے تڑکے اٹھ کے وہ سیدھا ارتھادت کے باغ کی طرف چلا۔ اب بھی آسمان سے ہلکی پھلکی پھوار برس رہی تھی اور پتیوں کے کٹوروں میں پانی اور اوس میں امتیاز مشکل تھا۔ ابھی اننگ پورے سے رات کے اندھیارے کا بادل اٹھنے نہیں پایا تھا۔ باغ میں مدن سینا اکیلی تھی۔ بالوں کے لیے پھول چننےآئی ہوگی۔ اس کی سہیلیاں معلوم نہیں اپنے اپنے گھروں میں تھیں یا ابھی مدن سینا ہی کے یہاں پڑی سو رہی تھیں۔ شاید اوس اور صبح کاذب کے پانی کی بوندوں اور ہوا کی بھینی بھینی خوشبو اور پتوں میں گرگٹوں کی سرسراہٹ سے انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ ان کے ہردے ابھی جاگنے نہیں پائے تھے یا شاید جاگ جاگ کے سو گئے تھے۔

    اکیلی مدن سینا نے پھول توڑنے میں پھر پیروں کی چاپ سنی اور اس کا دل دھک دھک کرنے لگا اور پھر اس نے کسی کو چھلانگ مارتے دیکھا اور کانٹوں کی باڑھ سرسرا کر رہ گئی۔

    پھر مدن سینا نے دھرم دت کو اپنے پاس کھڑا پایا۔ اس طرح کہ گویا وہ اسے اپنے ہاتھوں میں جکڑ لےگا اور خوف سے اس کا جسم کپکپانے لگا۔ اس کے ہاتھوں سے شبنم اور پانی سے دھلے پھول گر گئے اور بارش کی ہلکی ٹھنڈی پھوار میں بھی اس کی مانگ کے نیچے پیشانی پر پسینے کے گرم گرم قطرے نمودار ہوئے اس نے چیخنا چاہا مگر چیخ نہ سکی۔ اس ڈر کے مارے کہ اس کی داسیاں یہاں اسے اس نوجوان کے پاس اس وقت دیکھیں گی تو اسے نردوش نہ سمجھیں گی اور کیا اس کی سکھیاں اسے یہ کہہ کے بدنام نہ کریں گی کہ وہ خود بڑی رات گئے یا اتنے تڑکے دھرم دت سے ملنے آئی ہوگی۔

    اتنے میں دھرم دت کے ہاتھ جو اسے بھنچنے کے لیے اٹھ رہے تھے، نیچے گرے، دھرم دت اس کے چرنوں میں گر پڑا، ’’مدن سینا تو میری نہ ہوئی تو میں مر جاؤں گا۔‘‘

    مدن سینا نے اس سے کہا، ’’دھرم دت، یہ آج تجھے کیا ہو گیا۔ معلوم ہے میں کنواری ہوں اور میرے پتا نے میری منگنی ایک دوسرے دیش کے سوداگر سمدردت سے کی ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں اس سے میرا بیاہ ہونے والا ہے۔‘‘

    دھرم دت زمین سے اٹھ کھڑا ہوا اور دانتوں سے اپنا ہونٹ کاٹ کے اس نے کہا، ’’جو ہونا ہے ہو جائے۔ تیرے بغیر میں زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ اس کے ہاتھ پھر اٹھے۔ مدن سینا کو بھینچنے کے لیے اور وہ خوف سے پھر تھر تھر کانپنے لگی۔ کہیں یہ زبردستی نہ کرے۔ بدنامی کے ڈر سے وہ چلا بھی نہیں سکتی تھی۔ اس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر کہا،

    ’’سن تو، پہلے میرا بیاہ ہو جانے دے۔ میرے پتا کی تمنا تو پوری ہو جائے کہ وہ مجھ کنواری کو دلہن بنتی دیکھیں۔ پھر میں تیرے پاس ضرور آؤں گی کیونکہ تیرے پریم نے میرے دل کو موہ لیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں سے اسے روکتی ہوئی اور پیچھے ہٹی۔

    راستہ روک کے دھرم دت نے کہا، ’’میں ایسی عورت سے پریم نہیں کر سکتا جو پہلے کسی اور مرد سے ہم آغوش ہو چکی ہو۔‘‘

    اور مدن سینا نے ڈر کر کہا، ’’اچھا تو میں بیاہ ہوتے ہی فوراً تمہارے پاس آؤں گی اور اس کے بعد اپنے پتی کے پاس جاؤں گی۔‘‘

    اس پر بھی دھرم دت نے اس کا ہاتھ پکڑ ہی لیا اور اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک مدن سینا نے بھگوان کی قسم کھاکے اپنے وعدے کی توثیق نہیں کی۔ تب اس نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور چھلانگ مار کے کانٹوں کی باڑ کود گیا۔

    پانی کی پھوار رک گئی تھی۔ مدن سینا کا دل جو دھک دھک کر رہا تھا، اب بیٹھنے لگا۔ وہ بہت اداس اداس گھر کے اندر گئی۔

    جب بیاہ کا دن آیا اور سب رسمیں پوری ہو چکیں تو مدن سینا اپنے پتی سمدردت کے گھر ئی۔ خوشیوں میں دن گزرا اور جب اکیلے میں اس کے پتی نے اسے اپنےآغوش میں جکڑنا چاہا تو وہ تڑپ کے نکل گئی اور دھیرے دھیرے روتے اور آنسو پونچھتے ہوئے سر جھکا کر اس نے کہا، ’’میرے پتی، میرے بالم، میرے ناتھ، میں تجھے اپنی جان سے زیادہ چاہتی ہوں۔ لیکن مجھے جو کہنا ہے سن اٹھ اور وعدہ کر کہ تو مجھے سزا نہیں دےگا تاکہ میں جو کہنا چاہتی ہوں تجھ سے کہہ سکوں۔‘‘

    جب سمدردت قسم کھا چکا تو مدن سینا نے چند روز پہلے جب اس کے والد اور بھائی سفر پر تھے، دھرم دت کے باڑھ پھاند کے اندر آنے اور بارش کی ہلکی پھوار اور شبنم اور آنسوؤں کی کہانی اسے سنائی اور آخر میں اس سے کہا، ’’میرے ساجن اب تو بتا، اب میں کیا کروں، میں تو اس پاپی سے بچن ہار چکی ہوں۔‘‘

    سمدردت قسم تو کھا ہی چکا تھا، نہ وہ اسے سزا دے سکتا تھا نہ اسے روک سکتا تھا۔ اس نے مدن سینا کو اجازت دے دی کہ اپنا قول پورا کرنے کو جہاں اس کا جی چاہے جائے۔

    وہ اٹھی اور اپنے پتی کے گھر سے باہر چلی گئی۔

    اس رات کو آسمان پر گہرے بادل چھائے تھے۔ مگر بجلی نہیں چمک رہی تھی کہ اننگ پورے کی سڑک پر کوئی چور ڈاکو گھات لگائے بیٹھا ہو تو نظر آجائے یا کوئی کالا یا چتکبرا سانپ کہیں کنڈلی مارے بیٹھا ہو تو پاؤں پڑنے سے پہلے ہی راہی کو خبر ہو جائے۔

    مدن سینا اس اندھیرے کی وجہ سے اپنے جیون سے اور بھی بے پروا ہوکر دھرم دت کے گھر کی طرف جارہی تھی کہ بڑ کے ایک موٹے تنے کے پیچھے سے لپک کے ایک ہٹے کٹے ڈاکو نے اسے دبوچ لیا۔ نہ وہ اسے چھوڑنا چاہتا تھا نہ اس کے زیوروں کو۔ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کے دیش سوداگر کی لڑکی نے دھرم دت سے اپنے وعدے، شوہر کی اجازت اور سب واقعات بیان کیے اور آخر میں منت کرکے کہا، ’’ڈاکوؤں کے راجہ بس مجھے گھنٹہ بھر کے لیے چھوڑ دو، میں اپنا قول پورا کرلوں، اس کے بعد میں یہیں واپس آؤں گی۔ جیسا سلوک تمہارا جی چاہے کرنا اور تم کوئی چنتا نہ کرو، میں اپنا بچن پورا کروں گی۔‘‘

    ڈاکو نے یہ سن کر اسے جانے کی اجازت دے دی اور وہ سیدھی دھرم دت کے گھر پہنچی۔ جو اتنے دنوں سے اس کے عشق اور اس کی تمنا میں بے چین تھا لیکن اسے اپنے گھر میں دیکھ کر اچنبھے سے اسے سکتہ ہو گیا۔ پھر اس نے پوچھا، ’’تم یہاں کیسے آنے پائیں۔‘‘

    مدن سینا نے اپنی اور اپنے بالم کی گفتگو اس کے سامنے دہرائی تو دھرم دت جو اس کے سوا کسی اور کو کبھی چاہ نہ سکتا تھا، کہنے لگا، ’’تم نے تو اپنا بچن پورا کیا لیکن تم جو کسی دوسرے کی پتنی ہو میرے کس کام کی ہو جس طرح تم آئی ہو ویسی ہی چلی جاؤ، کوئی تمہیں دیکھنے نہ پائے۔ ایک آنکھ سے ہنستی اور دوسری سے روتی مدن سینا اسی راستے سے واپس ہوئی۔ لیکن اس نے ڈاکو سے بھی بچن ہارا تھا اور اس بڑ کے سامنے اس ڈاکو سے ملنا تھا۔ بڑ کے پاس پہنچتے پہنچتے اس کادل بیٹھنے لگا۔

    بڑ کی آڑ سے ڈاکو کلہاڑی لیے پھر دھم سے سامنے آ کودا۔ اسے مدن سینا کے آنے کی تو آشا نہیں تھی۔ مگر وہ دوسرے امیر راہگیروں کو لوٹنے کا انتظار کر ہی رہا تھا۔ مدن سینا کو اتنی جلدی واپس آتے دیکھ کر اس نے کہا، ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

    اور مدن سینا نے یہ قصہ بیان کیا کہ دھرم دت نے ہاتھ لگائے بغیر ہی اسے چھوڑ دیا۔ اس پر اس ڈاکو نے اسے کہا، جو اب تک اپنی کلہاڑی سے درخت کی لکڑی کی طرح ہزاروں کے سر توڑ چکا تھا، ’’تیری سچائی سے خوش ہوکر میں بھی تجھے چھوڑتا ہوں۔ جا اپنے سونے چاندی اور عزت کے زیوروں سمیت اپنے گھر جا۔‘‘

    سمدردت جس کادل پہاڑی ندی کی طرح سر پٹک رہا تھا۔ کواڑ پر ہلکی سی تھاپ کی آواز اور زیوروں کی چھناچھن سن کے اٹھا۔ مدن سینا نےاس کے چرنوں کو چھوکے جب سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں جو آنسو چھلک رہے تھے وہ رنج یا بےکسی کے نہیں، خوشی اور پریم کے تھے۔ سمدردت سے اس نے رات کی کہانی سنائی۔ کس طرح سچ اور اپنے بچن کی پاس کی وجہ سے دھرم دت اور ڈاکو دونوں کے دلوں میں بھگوان نے ترس اور رحم ڈالا۔ کس طرح وہ پاک اور اچھوتی اپنے ساجن، اپنے ناتھ کے پاس واپس آئی۔ سمدردت کو اپنے گھرانے کی آبرو بچنے سےزیادہ خوشی اس کی ہوئی کہ اس نےایسی سچی اور قول کی پکی استری پائی اور اسکے بعد مرتے دم تک دونوں نے ہنسی خوشی دن گزارے۔

    قصہ ختم کرکے ویتال نے مہاراج تری وی کرم سینا سے پوچھا، ’’جے مہاراج کی۔ اب مہاراج یہ بتائیں کہ ان تینوں میں سب سے زیادہ فراخدلی سےکس نے کام لیا۔ مدن سینا کے پتی نے یا دھرم دت نے یا ڈاکو نے۔‘‘

    تب مہاراج نے کچھ سوچ کے اسے جواب دیا، ’’ویتال۔ ان تینوں میں سچ پوچھو تو دراصل فراخدل وہ ڈاکو ہی تھا۔ اس کا پتی ہی اسے کیسے نہ جانے دیتا۔ جب کسی پتنی اور کسی مرد میں کسی قسم کا بندھن ہو تو کوئی شریف پتی اسے کیسے روک سکتا ہے۔ دھرم دت اس لیے اس سے دست بردار ہو گیا کہ وقت گزر جانے کی وجہ سے اس کا عشق سرد ہو چکا تھا اور شاید وہ ڈرتا تھا کہ مدن سینا کا پتی دوسرے دن راجہ سے اس کی شکایت نہ کر دے۔ لیکن ڈاکو، وہ بےاصول، بدمعاش، اندھیارے کا باسی، وہ سچ مچ فیاض اور فراخ دل تھا کہ اس نے ایسی خوبصورت عورت کو جواہرات سمیت چلے جانے دیا۔‘‘

    معلوم نہیں ویتال اب کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔ کشمیر کے کسی پہاڑ پر جہاں ناظر سےاس کی ملاقات ہوئی تھی، کوئی اور پچیسی لکھ رہا ہے یا شہروں اور دیہاتوں میں آوارہ پھر رہا ہے۔ ممکن ہے وہ کبھی شیوا گرام بھی گیا ہو اور اس نے مدن سینا کے اصولوں کو اہنسا اور ستیہ گرہ کے لقب سے سیاست پر چسپاں ہوتے دیکھا ہو۔ یہ صدیوں کا تانا-بانا۔ سچائی کا تقاضا تو یہی ہے کہ غنیم حملہ کرنا چاہتا ہے تو گھر کے دروازے کھول دو۔ بھارت ماتا کی عصمت اور عزت کو ہاتھ لگائے بغیر وہ الٹے قدم واپس ہو جائےگا۔ اس کا کیا علاج کہ فاشسٹ شہنشاہیاں دھرم دت اور ڈاکو اتنے شریف بھی نہیں۔

    اور معلوم نہیں ویتال بابو کو پتہ ہے یا نہیں کہ مدن سینا کی اولاد چار دانگ عالم میں پھیل چکی ہے۔ اس کی اور سمدردت کی اولاد کا اثر برما میں راج کماری تھودھما تساری کے فیصلوں پر بھی ہوا۔ بہار دانش، طوطی نامہ، داستاں چہل وزیر اور معلوم نہیں کہاں کہاں پھرتے ہوئے اس کے پوتے پوتیوں نے سنا ہے کہ گرین لینڈ جانے والے ڈائکنگ سیاحوں میں گھر کر اس نے چستان کی پہاڑیوں کی بھی سیر کی۔ اسی خاندان کی ایک شاخ نے سائبریا کے برفستانوں میں قیام کیا جہاں سے انہیں گزشتہ جنگ عظیم کے بعد نکال دیا گیا۔

    (۲)

    لیکن مہاراج تری وی کرم سینا نے اپنے قول فیصل میں یہ کیوں کہا، ’’جب کسی پتنی اور کسی اور مرد میں کسی قسم کا بندھن ہو تو کوئی شریف پتی اسے کیسے روک سکتا ہے۔‘‘

    کیا ابن حزم سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ انڈریاس، کیبی لانس تک پہنچتا ہے۔ کرون وسطیٰ کے درباری آداب عشق میں اس کی تفسیر ملتی ہے جب ملکہ اور خواتین ایک دربار عشق یا عدالت عشق ترتیب دیتی تھیں، جس میں عاشقوں کی بے وفائی اور معشوقاؤں کی جفا پر استغاثے ہوتے تھے اور احکامات اور سزائیں دی جاتی تھیں۔

    ایک خاتون الف کو مدن سینا کی طرح اپنے پتی ہی سے محبت تھی۔ یہ اور بات تھی کہ اس جاہلیت کے زمانے میں خاوند، خداوند نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ نائٹ اپنی زندگی اور اپنی خدمت کو مذہب اور خواتین کی خدمت کے لیے یکساں وقف رکھتے تھے۔ بہرکیف اس خاتون الف پر دھرم دت کی طرح ایک مرد شریف کاؤنٹ جی عاشق تھا۔ عاشق اور معشوقہ کی بحث و حجت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تو دونوں حریفوں نے میری ملکہ شامپین سے فیصلہ چاہا اور اس نے کئی خواتین کے مشورے سے یہ فیصلہ صادر کیا۔

    ’’ہم اعلان کرتے ہیں اور ہم اسے امر طے شدہ سمجھتے ہیں کہ عشق ایسے دو افراد کے درمیان اپنی طاقتوں کا اثر نہیں ڈال سکتا جو ایک دوسرے سے منکوح ہوں۔ کیونکہ عشاق ایک دوسرے کو ہر چیز آزادی سے دیتے ہیں، کسی جبر یا مجبوری سے نہیں۔ لیکن شادی شدہ جوڑے میں فریقین مجبور ہیں کہ بطور فرض ایک دوسرے کی خواہشیں پوری کریں اور ایک دوسرے سے امر میں انکار نہ کریں۔‘‘

    اس فیصلہ کی تاریخ یکم مئی 1174ء ہے۔

    اس کے آٹھ یا نو سو سال بعد اس فیصلہ پر دو یہودیوں کارل مارکس اور ایلنگلز نے نظر ثانی کی۔ ان کا فیصلہ یہ ہے،

    ’’ہمارے بورژوا اپنے مزدوروں کی بیویوں اور بیٹیوں ہی پر اکتفا نہیں کرتے۔ رنڈیوں کاتو ذکر ہی کیا، انہیں ایک دوسرے کی بیویوں کو پھسلانے میں انتہائی لطف آتا ہے۔‘‘

    (۳)

    مجھ جیسے راوی پر کون اعتبار کرےگا اوریوں بھی ہندوستانی مورخوں کو کون سندکے قابل سمجھتا ہے، لیکن میرے خیال میں سمدردرت اور مدن سینا کی اولاد اس طرح ولایت پہنچی ہوگی کہ جب شام اور مصر کی فتح کے بعد خسرو پرویز قسطنطنیہ پر ایک طرف سے بڑھ رہا تھا اور اس کاحلیف وحشی اور قوم کا کاغان (خاقان) یورپی جانب سے۔ اس وقت خسرو پرویز کو صلح کے لیے جو تاوان جنگ باز قطینی قیصر نے پیش کیا۔ وہ ایک ہزار طلائی مہروں، ایک ہزار نقرئی مہروں، ایک ہزاریشمی عباؤں، ایک ہزار گھوڑوں اور ایک ہزار کنواری لڑکیوں پر مشتمل تھا۔

    ان ایک ہزار کنواریوں میں سیرایا شیریں شامل نہیں تھی۔ مشرقی افسانہ نگاروں کے برخلاف مغربی مورخوں کو اس سے اتفاق نہیں کہ یہ سیرایا شیریں باز قطینی قیصر موریس کی بیٹی تھی۔ لیکن وہ یہ ضرور مانتے ہیں کہ سیرایا شیریں کسی مشہور اعلیٰ رومی گھرانے کی چشم و چراغ تھی۔ جس طرح اس کے رومی نام سیرا کو بگاڑ کر ایرانی افسانہ نگاروں نے اسے شیریں بنا دیا۔ اس لفظ میں ایرانی تصور حسن کی روح پنہاں ہے۔ اسی طرح اس کے شوہر شہنشاہ کو اس کی زندگی ہی میں پرویز کا لقب ملا جو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے مردانہ حسن میں ستاروں کی سی جگمگاہٹ تھی۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ خسرو پرویز کو اپنی ملکہ شیریں سے جس قدر عشق تھا، ملکہ اسی والہانہ عشق سے اس کا جواب نہ دے سکتی تھی۔ اب مدن سینا، دھرم دت اور سمدردت کے مثلث نے یہ شکل اختیار کی۔

    مدن سینا شیریں

    سمدردت خسرو پرویز

    دھرم دت فرہاد

    فرق اتنا تھا کہ مدن سینا کو اپنے شوہر ہی سے محبت تھی۔ لیکن شیریں کا دل اپنے حسین شوہر شہنشاہ کا نہیں۔ ایک کمین و کمتر مزدور کا غلام ہوچکا تھا یہاں تیشہ اور جوئے شیر اور کوہ کنی کاقصہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مدن سینا کی طرح شیریں نے بھی وصل کا وعدہ کیا تھا۔ سمدردت کی طرح خسرو پرویز نے اس وعدے کی توثیق کی۔ سمدر دت اپنے وعدے پر اس لیے قائم رہا کہ اس وقت عورت خانگی جائیداد نہیں بننے پائی تھی۔ لیکن شیریں اور فرہاد دونوں ایرانی شاہان شاہ کی رعایا اور اس کی ملکیت تھے۔ یہ اور بات تھی کہ وہ شیریں کے جسم کا مالک تھا۔ اس کے دل کا مالک نہ بن سکا۔ لیکن اس نے سمدر دت کے برخلاف وعدہ پورا نہ ہونے دیا۔ ’’گرسنہ مزدور طرب گاہ رقیب‘‘ نے کم ظرفی سے اپنی جان دے دی۔ شیریں کا دل اور زیادہ ٹوٹ گیا۔ خسرو پرویز کو اس وعدہ شکنی اور کامل فتح کے بعد اتنی بھی مسرت اور اتنا بھی اطمینان نصیب نہ ہو سکا جتنا رومی صوبوں کی فتح کے بعد۔ اس نے ان ہزار باز نطینی کنواریوں سے معلوم نہیں کس طرح دل بہلایا اور دل بہلا ہی رہا تھا کہ اسکندرون کی خلیج پر ہرقلیس اعظم کی فوجیں اتریں۔

    رومی شہنشاہ کے پیشرو نے شیریں اور ایک ہزار کنواریوں کوایرانی کے سپرد کیا تھا۔ ہر قلیس نے ترک خان کو اپنی خوبصورت بیٹی بھینٹ چڑھانے کا وعدہ کیا۔ دست گرد کے قلعہ میں اپنی بےشمارخواصوں اور عورتوں کو جن کی تعداد تین ہزار تھی، چھوڑ کر خسرو پرویز بھاگ نکلا اور پھر ایک تاریک برج میں اس کے ساتھ اس کے انسانیت ناشناس بیٹے نے وہی سلوک کیا جو اکثر تاریخ میں ہوتا آیا ہے۔ ہرقلیس ممکن ہے کہ ان ہزار رومی لڑکیوں کو چھڑا لایا ہو، جو اب کنواریاں نہ رہی تھیں۔ ممکن ہے جب باز لطینی شہنشاہ زیتون کی شاخوں اور بےشمار چراغوں میں گھرا ہوا قسطنطنیہ واپس ہوا تو اس کے جلوس میں ہزارہا ایرانی دوشیزائیں ہوں۔ ممکن ہے اس سلسلے میں ایران کے پڑوسی راج اننگ پورہ کے تاجروں کی بہو بیٹیاں بھی ہو ں اور اس طرح مدن سینا کی اولاد قسطنطنیہ پہنچی ہو۔

    جب باز لطینی شہنشاہ ہرقلیس قسطنطنیہ میں ایران سے مصر و شام کے صوبوں کو واپس چھین لینے کی خوشیاں منا رہا تھا تو شام کے ایک گم نام گاؤں پر عرب کے ایک غیر معروف شہر مدینہ کے باشندوں سے اس کے فوجیوں کی کچھ جھڑپیں ہوئیں۔ اس واقعہ کو ہرقلیس نے اس وقت اتنی ہی اہمیت دی جتنی اس نے اور ایرانی شاہان شاہ نے عربی پیغمبر کی چٹھیوں کو دی تھی۔

    لیکن بہت جلد ریگستان کی فوجیں مرو سے لےکر مصر تک چھا گئیں جو صوبے ہر قلیس نے ایرانیوں سے واپس چھینے تھے۔ عربوں نے فتح کرلیے۔ یہاں تک کہ حضرت ابو ایوب انصاری کے پرچم کو صرف یونانی آتش روک سکی اور یونانی آتش کے زیر سایہ مدن سینا کی اولاد قسطنطنیہ میں پروان چڑھی اور یہاں سے بہ سلسلہ تجارت بڑھتی ہوئی مغربی یورپ تک پہنچی۔ جنوبی فرانس میں اس نے مانی کے اثرات کو باقی رکھا۔ لاطینی مصنفوں سے اس کا حال بوکا چیو اور چاسر نے سنا۔

    لیکن جس طرح ویتال نے مہاراج تری وی کرم سینا سے پوچھا تھا میں آپ سے پوچھتا ہوں، ’’سب سے زیادہ کم ظرف کون تھا؟ خسرو پرویز؟ یا شیریں؟ یا فرہاد؟‘‘

    چاسر کے فرینکلین یعنی چودھویں صدی عیسوی کے اس زمیندار نے جوغلام تو نہ تھا مگر عالی خاندان اور شریف النسل بھی نہ ہوتا تھا۔ کچھ اس قسم کا قصہ بیان کیا۔

    آرموریکا میں جس کو بری طینی بھی کہتے ہیں۔ مدن سینا کی اولاد میں ایک خاتون تھی جس کا نام ڈوری گن تھا۔ اسی ملک میں ایک نائٹ بھی تھا ملک کے شریف ترین طبقے کا نمائندہ۔ اس کا نام آردے راگس تھا۔ اسے اس خاتون سے عشق تھا اور وہ بے حد زحمت اٹھاتا اور کوشاں رہتا کہ بہترین طریقے پر اس خاتون کی خدمت کر سکے۔ اپنی خاتون کو خوش کرنے کے لیے اس نے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیے، بڑی بڑی مہمیں سر کیں۔ تب کہیں جاکر وہ ڈوری گن کو جیت سکا۔ اس کی قابلیت و شہامت کو اس خاتون نے اپنے شایان شان پایا۔ خاص طور پر اس کے عجز اور اس کی تابعداری کی وجہ سے اس کی خدمت اور اس کی درخواست پر اس نے ایسا ترحم کا جذبہ محسوس کیا کہ اس نے اسے اپنا شوہر یا اپنا آقا بنایا۔ آردے راگس نے خود اپنی مرضی سے یہ قسم کھائی کہ وہ ایک نائٹ کی طرح اپنی خاتون کی خواہش کے خلاف کبھی اپنا حکم چلانے کی کوشش نہ کرےگا۔ کبھی رشک و حسد کا اظہار نہ کرےگا، ہمیشہ اس کی اطاعت کرےگا۔ ہر بات میں اس کی مرضی کا پابند رہےگا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی عاشق اپنی معشوقہ کی مرضی کا پابند ہوتا ہے۔

    ڈوری گن نے بڑے انکسار سے اس کا شکریہ ادا کیا، ’’جناب جس طرح مجھے آپ نے اپنی مردانہ شرافت سے اس قدر حکومت بخشی ہے۔ اسی طرح میں بھی اس کا وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کی خادمہ اور سچی بیوی رہوں گی۔ اس کا میں آپ سے پکا وعدہ کرتی ہوں۔‘‘

    دوست اور عشاق ایک دوسرے کی تابعداری کرتے ہیں۔ محبت ایک فریق کے استبداد اور دوسرے کی غلامی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ جب استبداد آتا ہے تو عشق کا دیوتا اپنے پر پھڑپھڑاتا ہے اور یہ جا، وہ جا، رخصت۔ ہرچیز کی طرح محبت کی روح بھی آزاد ہے۔ فطرتاً عورتیں بھی غلامی نہیں، آزادی چاہتی ہیں۔ (اقبال نے زمرد کے گلوبند کی ایک ہی کہی۔) اور مرد بھی۔

    یہ معاہدہ سیدھا سادہ مگر کتنا عاقلانہ تھا۔ خاتون کو اپنا شوہر کیا ملا بیک وقت آقا بھی ملا اور خادم بھی۔ محبت میں غلام اور ازدواج میں آقا۔ نائٹ کو آقائی بھی ملی اور خدمت بھی۔ خدمت؟ نہیں اس سے زیادہ تو آقائی ہی کیونکہ اسے بیوی بھی ملی اور محبوبہ بھی۔

    کارہائے نمایاں سرانجام دینا ہر نائٹ کا فرض تھا۔ اس فرض کو انجام دینے آردے راگس انگلستان کے جزیرے میں گیا جسے برطانیہ بھی کہتے ہیں۔ کتاب کہتی ہے کہ یہاں اسے دو سال لگ گئے۔ اس درمیان میں اس کی بیوی ڈوری گن اسے اپنے دل کی زندگی کی طرح چاہتی رہی۔ اس کے فراق میں روتی اور آہیں بھرتی، تڑپتی، راتوں کو جاگتی، نالہ و زاری کرتی، فاقے کھینچتی ہے۔

    آردے راگس کے خط کبھی کبھی آتے۔ کبھی وہ برطینی کے ساحل پر کھڑی ہوکے اس کے جہاز کا انتظار کرتی اور چٹانوں کو دیکھ دیکھ کر ہول کھاتی۔ اس ڈر سے دعائیں مانگتی کہ کہیں اس کے شوہر، اس کے محبوب کا جہاز بھی ان چٹانوں سے ٹکراکے پاش پاش نہ ہو جائے۔ خدایا تو دیکھتا ہی ہے کہ کتنے انسانوں کو یہ چٹانیں غارت کرتی ہیں لاکھوں انسانوں کی جانیں ان چٹانوں نے چھینی ہیں کیا تیرے انسانوں کا یہ حشر ہونا ضروری ہے جو تیری صنعتوں میں تیرے شاہکار سمجھے جاتے ہیں جنہیں تو نے اپنی شبیہ کے مطابق بنایا ہے۔ بہت کم وہ خوش ہوتی یا ہنستی بولتی۔ مگر مئی کی چھ تاریخ کو اپنی سہیلیوں کےجبر کرنے سے وہ ایک ناچ میں گئی۔ اس ناچ میں ڈوری گن کے ساتھ ایک اسکوائر ناچ رہا تھا۔ اسکوائر یعنی قرون وسطیٰ کا بڑا زمیندار، لیکن کسی نائٹ کا محض ہمراہی یا اردلی اور اس کی خاتون کی متابعت کرنے والا یا ہم رکاب یا ملتفت۔ تازگی اور آہستگی میں شمالی یورپ کے مئی کے مہینہ کا جیسا۔ اس کا نام آرے لیس تھا۔ ناچنے اور گیت گانے میں عدیم المثال تھا۔ نوجوان تھا، مضبوط تھا، صالح تھا، امیر تھا اور عقلمند تھا۔ لوگ اسے پسند کرتے تھے اور اس کی قدر کرتے۔ اس زندہ دل اسکوائر کو دنیا میں سب سے زیادہ ڈوری گن سے محبت تھی۔ اس حال میں اسے دو سال سے زیادہ ہو گئے تھے لیکن اس نے اپنا درد دل کسی سے نہ کہا تھا۔ ناامیدی اس پر غالب تھی۔ زبان سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ صرف اپنے گیتوں میں وہ اپنے دل کا دکھ کچھ نہ کچھ نچوڑ لیتا۔ عام انداز میں واسوخت لکھتا۔ یہ بتاتا کہ وہ عشق میں گرفتار ہے اور کوئی اسے نہیں چاہتا۔ گیتیں، نغمے، نظمیں، واسوختیں لکھتا اور بتاتا کہ وہ اپنے غم کا اظہار نہیں کر سکتا مگر وہ اس طرح عذاب بھگت رہا ہے جیسے دوزخ میں کوئی خبیث روح، صدائے بازگشت کی طرح اس کی قسمت میں بھی موت لکھی ہے۔

    لیکن اس ناچ کے موقعہ پر اس نے ہمت کرکے ڈوری گن سے حال دل کہا، ’’میں جانتا ہوں کہ میری ساری خدمت بیکار ہے۔ میرا دل پارہ پارہ ہو رہا ہے۔ خانون میرے رنج اور درد پر رحم کیجیے۔ کیونکہ آپ کاایک لفظ مجھے جلایا مار سکتا ہے۔‘‘

    وہ آرے لیس کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’اس سے پہلے میں نہیں سمجھ سکی تھی کہ تمہارا مطلب کیا ہے لیکن آرے لیس اب میں تمہاری خواہش کو سمجھ گئی۔ اس خدا کی قسم جس نے مجھے روح اور جان دی کہ کسی اور کی بیوی ہوتے ہوئے میں بیوفائی نہیں کر سکتی۔‘‘ پھر اس نے مذاق میں کہا، ’’آرے لیس، اس خدائے بلند و برتر کی قسم جو اوپر ہے چونکہ میں دیکھتی ہوں کہ تم اس قدر گڑگڑاکر التجا کر رہے ہو۔ اس لیے سنو کہ اسی دن میں تمہاری معشوقہ بنوں گی جس دن بری طینی کے ساحل کی یہ دیو ہیکل چٹانیں جن سے ٹکرا ٹکرا کے جہاز اور کشتیاں پاش پاش ہو جاتے ہیں، ساحل سے ہٹ جائیں گی۔ ایک ایک پتھر ہٹ جائےگا۔ اس دن میں وعدہ کرتی ہوں میں تمہاری معشوقہ بنوں گی۔‘‘

    اس سے زیادہ ناممکن اور کیا چیز ہو سکتی۔ فرہاد کو پہاڑ کاٹنے کی جو شرط پیش کی گئی تھی۔ اسے انسان کی محنت پورا تو کرسکتی تھی۔ وہی شرط یہاں پھر دہرائی گئی لیکن وہ اگر کٹھن تھی تو یہ ناممکن۔

    آرے لیس اپنے گھر واپس گیا۔ اسے یقین آ گیا کہ اب موت سے بچنا مشکل ہے۔ اپنے دل کو اس نے سرد ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ سورج کے دیوتا سے اس نے گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگی کہ کسی معجزے کے ذریعے یہ چٹانیں ہٹ جائیں۔ دعائیں پوری نہ ہوئیں اور ڈوری گن کا شوہر گھر واپس آ گیا۔ اپنے نوجوان اور شریف و باعزت نائٹ کو دوبارہ پاکے وہ پھولے نہ سماتی تھی۔

    جادو اور طلسمات، انسان عاقل کی عقل سے زیادہ پرانے، پہلے شاید مشرق میں چل سکے، پھر مغرب میں کچھ ایسے مقبول ہوئے کہ جون آف آرک کی جان اس الزام میں گئی اور اس الزام میں اٹھارویں صدی میں کیسا نوواکو ایسی سخت قید بھگتنی پڑی کہ اس سے اس کا نکل بھاگنا، انسان کی قوت ارادی اور اس کے جذبہ آزادی کا معجزہ ہے۔ کسی لاطینی مصنف کے دماغ نے جو مشرقی داستانوں سے سرشار تھے۔ مدن سینا کے ڈاکو کو جو اننگ پورہ کی ایک سڑک پر بڑ کے پیچھے چھپ کے راہ گیروں کو لوٹا کرتا تھا ایک جادوگر راہب بنا دیا۔ یہ راہب جو جادوگر بھی تھا اور فلسفی بھی آرے لیس اوراس کے بھائی کو مشرقی طلسمات کےتماشے دکھانے لگا، جیسے کٹھ پتلی کا کھیل۔ بازوں سے چھوٹے چھوٹے پرندوں کا شکار، شکاری کتوں سے ہرنوں کی ڈاروں کی ڈاروں کاشکار اور اس نے اپنی شعبدہ کاری سےآرے لیس کو ڈوری گن کے ساتھ خود اپنے آپ کو ناچتا دکھایا اور ایک ہزار پونڈ کے معاوضے میں اس نے بری طینی کی ساری چٹانیں غائب کرنے کا ذمہ لیا۔

    اور قرون وسطیٰ میں جادو کا جو زور تھا، اس زور سے چٹانیں غائب ہو گئیں۔ اب موجیں نرم نرم خراماں خراماں پھیلتی پھیلتی بری طینی کے ساحل تک آ جاتیں۔ پہاڑوں سے سر نہ ٹکراتیں، چٹانوں سے پٹک کر جھاگ نہ اگلتیں۔

    جادو نے وہی کام کر دکھایا جو فرہاد جیسے پتھر پھوڑنے والے کے تیشے نے کیا تھا۔

    آرے لیس نے ڈوری گن کو اس کا وعدہ یاد دلایا۔ اپنے درد عشق کا ذکر کیا۔ اسے سمجھایا کہ اب بھی وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو وہ اس کی بے گناہ موت کی ذمہ دار ہوگی۔ اپنے باغ کو اس نے ملنے کا مقام تجویز کیا۔

    وہ رخصت ہو گیا، تو وہ حیران کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ اس کے چہرے پر خون کے ایک قطرے کے آثار بھی نہ تھے۔ ایک دو روز روتی آہ و زاری کرتی رہی۔ اس طرح غش کھا کھا جاتی کہ دیکھنے والوں کو دکھ ہوتا۔ لیکن کسی سے اس نے کہا نہیں کہ اس کی حالت غیر کیوں ہے۔ کیونکہ اس کا شوہر دو تین دن کے لیے باہر گیا ہوا تھا۔ اکیلے میں وہ قسمت کا گلہ کرتی جس نے اس کے لیے یہ جال پھیلایا تھا، جس سے نکلنے کا موت یا بے عزتی کے سوا اور کوئی ذریعہ نہ تھا۔ پھر بھی وہ سمجھتی کہ جسم کی بے حرمتی سے تو موت ہی اچھی ہے۔ اس سے پہلے بھی تو شریف بیویوں اور کنواریوں نے اپنے جسم کو پامالی سے بچانے کے لیے اپنی جانیں لے لی ہیں۔

    ایک دو روز وہ یہی سوچتی رہی یہاں تک کہ اس کا قابل عزت نائٹ آردے راگس گھر واپس آیا اور اسے زار زار روتے دیکھ کے اس کاسبب پوچھا، تو وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس نے آرے لیس سے اپنی شرط کا ذکر کیا۔ جس کا پورا ہونا ناممکن تھا مگر جو پوری ہوگئی اور اپنے وعدے کا ذکر کیا۔

    اس کے شوہر نے اپنے شہرے کو بشاش بنا کے دوستانہ الفاظ میں اسے سمجھایا، ’’کہ قول پورا کرنے سے بڑھ کے انسان کا کوئی اور فرض نہیں۔‘‘ پھر وہ بھی بےاختیار رونے لگا اور اس نے کہا، ’’اور کسی سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرنا تاکہ میں اس طرح اپنا رنج برداشت کر سکوں اور تم بھی اپنے شہرے سے تکدر ظاہر نہ ہونے دینا تاکہ لوگ اسکاسبب نہ تاڑ جائیں۔‘‘ پھر اس نے اپنے ایک اسکوائر اور ایک خادمہ کو حکم دیا کہ ڈوری گن کو فلاں مقام پر پہنچا آئیں۔

    بازار ہی میں آرے لیس ملا اور ڈوری گن سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہے۔ اس نے جواب دیا، ’’افسوس، تمہارے باغ کو، جہاں تم نے بلایا تھا اور جہاں اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے جانے کا میرے شوہر نے حکم دیا ہے۔‘‘

    اس واقعہ پر آرے لیس کو سخت حیرت ہوئی اور اسے بڑا ترس آیا۔ اس پر بھی کیونکہ وہ اس طرح گریہ و زاری کر رہی تھی اور قابل عزت نائٹ آردے راگس پر بھی جس نے اسے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے کہا تھا۔ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی ہوس پر قائم رہنا بڑی کمینگی ہوگی۔ فیاضی اور شرافت کے خلاف بڑا سخت جرم ہوگا۔ اس لیے اس نے خاتون کو اس کا ہارا ہوا قول معاف کر دیا اور کہا، ’’اسکوائر۔۔۔ نائٹ کا اردلی بھی شرافت کا فرض اسی طرح بے جھجک اداکر سکتا ہے، جیسے کوئی نائٹ۔‘‘

    جادوگر راہب کو اس نے پانچ سو پونڈ لے جاکے دیے اور باقی رقم کے لیے مہلت مانگی۔ جادوگر کے پوچھنے پر آرے لیس نے کہا کہ اس کی محبوبہ اس کے باغ تک آئی مگر اس کی نہ ہوئی۔ آردے راگس نے اپنی شرافت سے گوارا کر لیا کہ خواہ صدمہ اور کوفت سے اسے موت ہی کیوں نہ آئے وہ اپنی بیوی کو بدعہدی کا مرتکب نہیں ہونے دےگا اور جب اس نے خود ڈوری گن کو اس قدر مغموم دیکھا تو اس نے اسے بغیر چھوئے ہوئے باغ سے واپس جانے کی اجازت دی۔

    جادوگر راہب نے اسے ہزار پونڈ معاف کر دیے اور کہا، ’’ایک راہب بھی تم لوگوں کی طرح شرافت کے کام کر سکتا ہے۔‘‘

    چاسر کے فرینکلن نے ویتال کی طرح پوچھا، ’’آقاؤ قبل اس کے کہ ہم آگے بڑھیں بتاؤ ان میں سب سےزیادہ شریف اور فیاض کون تھا؟‘‘ اس قسم کےسوال قرون وسطیٰ میں اکثر پوچھے جاتے تھے اور سوالات عشق کہلاتے تھے۔

    کلاس میں ایک لڑکی نے اٹھ کے پروفیسر کو جواب دیا، ’’میرے خیال میں ڈوری گن سب سے زیادہ فیاض تھی۔ وہ خودکشی کر سکتی تھی، لیکن اس طرح اس کاوعدہ پورا نہ ہوتا۔‘‘

    سب ہنسنے لگے۔

    (۴)

    جس شب رگھبیر پیلس میں ہسپانیہ کے مظلومین کی امداد کے لیے ناچ اور تفریحات کا جلسہ تھا، اس شام کو پانی زور سے برسا تھا۔ مالابار ہل کی سڑکیں ڈھلوانوں پر موٹر کے ٹائروں کو پھسلا پھسلا کے گویا نیچے گرا رہی تھیں۔ رگھبیر پیلس سے کوئی ایک فرلانگ ادھر ادھر موٹروں کا ایسا ہجوم تھا کہ راستہ ملنا ہی مشکل تھا۔ مجبوراً سرسمدر نے اپنے شوفر سے کہا، ’’اگر گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی تو ہم یہیں اتر جاتے ہیں، کیوں ڈارلنگ۔‘‘

    جواں سال لیڈی سمدررائے نے بےبسی سے اپنی سفید ساڑھی اور اس کے کامدانی کام اور نفیس بنارسی بورڈر کی طرف دیکھا۔ یہاں سے رگھبیر پیلس تک فرلانگ بھر کا فاصلہ طے کرنے میں سر سمدر کے شارک اسکن کے جاکٹ پر اگر کوئی دھبہ آ جائے تو کوئی خیال بھی نہ کرے گا، لیکن اس ساری پر سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی داغ لگ جائے تو اس کی شام کرکری ہو جائےگی۔

    ’’میں سمجھتی ہوں اترنا ہی پڑےگا۔ اس طرح تو گھنٹہ بھر سے پہلے راستہ نہیں ملےگا۔‘‘

    ڈرائیور نے بڑی مشکل سے اس قدر دروازہ کھولنے میں کامیابی حاصل کی کہ چندرا۔۔۔ یہ لیڈی سمدر کانام تھا، بمشکل اپنی ساری کو اپنے جسم سے لپٹا کے اتر سکی اور پھر موٹروں کی بھیڑ میں آدمیوں اور مڈگارڈوں سےدامن بچاتی ہوئی اپنے شوہر کے ساتھ وہ رگھبیر پیلس کے پورٹیکو تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ پورٹیکو ہی میں مسز سنگھ کھڑی تھی۔

    وہ مسکراکے ان دونوں کی طرف بڑھی۔ ’’شام بخیر چندرا، آپ اچھے تو ہیں سر سمدر۔ آپ کو کہاں اترنا پڑا۔۔۔ ایک فرلانگ۔۔۔ ہاہا۔‘‘ اس کاموٹا جسم سر کے مصنوعی گھنگھریالے بال، نچلا چوڑا ہونٹ اور اورنگ آبادی ہمرو کا کوٹ سب اسی ہنسی میں لہرائے۔ ’’چندرا ڈارلنگ وشواش نگر کے تینوں راجکمار اس میز پر ہیں۔ تینوں مہابیر، رگھبیر اور رگھوبر۔ تینوں تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ خصوصاً رگھوبیر۔ اوہ ڈارلنگ جب سے اس نے تمہاری تصویر ’’آون لوکر‘‘میں دیکھی ہے۔ وہی جو ڈنکن نے کھینچی تھی، تب سے تمہارے متعلق بحران میں مبتلا ہے۔ قطعی طور پر بحران میں۔۔۔ اور آج تم بالکل جادو کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہو۔ ساحرہ سی، کیوں سرسمدر، ڈارلنگ مجھ پر فرض ہے کہ تمہیں ان سب سے ملاؤں۔ اس طرف سرسمدر۔۔۔‘‘

    سرنوشیرواں افراسیاب سے باتیں کرتے مڑکر سرسمدر نے مسز سنگھ سے کہا، ’’ابھی ایک منٹ میں مسز سنگھ۔ آپ لوگ جائیں میں ابھی وہاں آتا ہوں۔‘‘

    سرنوشیرواں نے ایک نوجوان یوروپین عورت کو دیکھ کر سلام کے لیے سرخم کیا۔ اس کے ساتھ ایک گہرے سانولے رنگ کا ہندوستانی نوجوان تھا۔

    ’’کون ہیں؟‘‘ سرسمدر نےپوچھا۔

    ’’مسٹر اور مسز وحید امجد۔‘‘ سرنوشیرواں نے اس گزرتے ہوئے جوڑے کا غائبانہ تعارف کراتے ہوئے کہا، ’’یہ عورت آسٹرین ہے۔ کئی رجواڑوں میں پیانو بجانے کی تعلیم دے چکی ہے۔ اپنے شوہر کی تقدیر اس کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا تشہیر و اشتہار کا کاروبار ہے اور اب یہ حالت ہے کہ میرین ڈائیو میں دو سو روپے کے فلیٹ میں رہتا ہے۔ شادی سے پہلے مجھ سے ڈیڑھ سو کی نوکری مانگنے آیا تھا، لیکن سمدر، کچھ پیوگے نہیں۔‘‘ اس نے سمدر کا بازو پکڑ کے کہا، ’’آج دوبار ہیں۔ ایک اوپر اور ایک قطب شمالی والے کمرے میں اور یہ قطب شمالی وغیرہ کمرہ دیکھنے کےقابل ہے، چلو۔‘‘

    اس برآمد ےکے بعد ایک اور بڑا نیم برآمدہ تھا، جس میں کین میک کا ناچ آرکسٹرا ٹانگو بجا رہا تھا اور کوئی چار سو جوڑے ناچ رہے تھے۔ روشنی اور ہسپانوی موسیقی کےسیلاب میں طرح طرح کے ہندوستانی اور یورپی زنانے لباس کالے یا نیم سفید پوش مردوں کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ گویا روشنی موسیقی کی صوتی حرکت اور انسانی جسم اور جنسوں کی کشش کی حرکت سب ایک زندگی کی مرکب حرکت میں ضم ہو رہی تھیں۔ میزوں کے درمیان سے جان پہچان و الوں کو سر کے اشارے یا تبسم سے سلام کرتے یا جواب دیتے، کسی کسی میز پر ایک آدھ منٹ کے لیے ٹھہر کر کوئی بات کرتے ہوئے وہ بائیں طرف کے دروازے میں مڑے اور اس مشہور ’’قطب شمالی‘‘ والے کمرےمیں پہنچے۔ جہاں ایئرکنڈیشنگ کے ذریعہ اس قدر سردی کا انتظام کیا گیا تھا کہ رقص کے سانسوں اور موسیقی سے گرم کمرے سے نکل کے یہاں داخل ہونے پر یقیناً سردی معلوم ہوتی تھی۔ کمرے کی دیواروں پر اور دیواروں کے ساتھ ساتھ اور فرش پر روئی کے گالوں اور سفید کاغذ کی کترن سے برف کی طرح کی شکلیں تھیں، برفانی پہاڑ، برفانی ٹیلے جماہوا برف۔ برف کےجزیرے ایک طرف ایک وہیل نما صوفہ تھا۔ ایک طرف قطب شمالی کے ریچھ کی شکل کی ایک کرسی تھی۔ ایک اسکیمو خیمے کے نیچے شراب کی بوتلیں اور گلاس، طرح طرح کے مرکبات، طرح طرح کے نام تھے اور دو انگریز لڑکیاں اسکیمو کپڑے پہنے ساقی گری کر رہی تھیں۔ ’’جون، میرے لیے ایک گملٹ اور تم سمدر؟‘‘

    ’’گملٹ‘‘ سرسمدر نےاختصار سے جواب دیا، ’’شکریہ۔‘‘

    کھلے ہوئے دروازے سے سر سمدر نے راجکماری کی میز کی طرف دیکھا۔ تین نیم ڈرادیدی راجکمار۔ تینوں کا رنگ کالا سا، بال گھنگھریالے، تینوں ٹیل کوٹ پہنے۔ تینوں انگلستان کے پبلک اسکولوں کے پڑھے ہوئے۔ لیٹن اور ہیرو اور پھر آکسفورڈ، ساتھ ہی ایک امریکن لکھ پتی، ہندوستان میں ایک امریکی موٹر کمپنی کا جنرل ڈائریکٹر اور ہوائی فوج کا ایک انگریز گروپ کیپٹن۔ بیڑے کاایک کو موڈور اور کئی انگریز، پارسی، مسلمان، ہندو میز پر وہسکی، سوڈے، برانڈی، جن، کاک ٹیل اور گملٹ کے گلاسوں کی شفاف چمک اور اس ہجوم میں کو موڈور کی سفید وردی کو اس نے اٹھتے دیکھا۔ میز کے دوسرے کنارے سے اس کی اپنی بیوی چندرا ہنستی ہوئی اٹھی پھر وہ رقص کرنے والوں کے ہجوم میں رقص کے سیلاب میں غائب ہو گئے اور سرسمدر نے اپنا گملٹ ختم کیا۔ محسوس کیا کہ اس کے ادھیڑ اعصاب کو اس سے زیادہ تیز چیز کی ضرورت ہے۔ جون کی طرف مسکراکر اس نے کہا، ’’مس بریڈلے، ڈبل جن پلیز۔‘‘ جون نے پیسے لے کے ڈبل جن کا گلاس اسے اور وہسکی سوڈا کا گلاس سرنوشیرواں کو دیا۔ قطب شمالی والے کمرے میں اس سے چند قدم کے فاصلے پر وہیل نما صوفے پر مہاراجہ وشواش نگر شارک اسکن کا جیکٹ پہنے، بڑے انداز سے کاک ٹیل کا گلاس گھما گھماکر خورشید مقدس جی سے باتیں کر رہے تھے۔ بوہرہ تاجر جو اپنے سسر کے سٹے کے روپیہ کی وجہ سے اب لکھ پتی بن گیا تھا، خان بہادر بن ہی چکا تھا اور ابھی سے راجوں اور مہاراجوں سے اس طرح کندھے سے کندھا بھڑا کے ملنے کی کوشش کرتا تھا گویا وہ اس کے ساتھ کے کھیلے ہوئے ہیں۔ ریس کورس پر پانی کی طرح روپیہ خرچ کرتا۔ اس کا اپنا اصطبل مہاراجہ مانڈو کے اصطبل سے کچھ کم نہیں تھا اور اس کا گھوڑا ذوالفقار دو سال سے برابر عرب ڈرا بی جیت رہا تھا۔

    سرنوشیرواں نے رازدارانہ انداز میں سرسمدر سے کہا، ’’اس نو دو لیتے کو دیکھو۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    کھلے ہوئے دروازے سے پھر بوڑھے کو موڈور کی آغوش میں ادھیڑ سرسمدر نے اپنی جوان بیوی کا جیتا جاگتا مسکراتا جسم دیکھا۔ موسیقی ختم ہوئی، دوبارہ شروع ہوئی۔ اب راجکمار رگھوبیر کے ساتھ اس کی بیوی ناچنے کو اٹھی۔ ٹم تم ٹن ٹن۔ من۔ من۔ ایک۔ دو تین۔ چار۔ ایک دو۔ تین۔ چار ’’قطب شمالی والے کمرے کے مصنوعی برفانی فرش پر سرسمدر کے پاؤں وقت کا اندازہ کرنے لگے۔ بینڈ نے ایک جھرجھری لی، ہنسی، قہقہوں، ہم آغوش جسموں کی گفتگو کی رفتار، جن کے گلاس میں سما گئی۔ ایک انگریز لڑکی آلہ بکرالصوت کے پاس کھڑی ہوکے ہسپانوی انداز میں، انگریزی لہجے کے ساتھ ایک فرانسیسی ’’پونما‘‘ گانے لگی، ’’رافائے لی جو۔‘‘ اور ’’جو‘‘ کالو معلوم ہوتا تھا قیامت کی خبر لائےگا۔

    رگھوبیر کے جسم سے لپٹی ہوئی، آنکھوں سے آنکھیں بندھی ہوئیں، لیکن ٹانگیں۔۔۔ محرک اور جسم کے سارے پہچان سے بے پروا اور بےتعلق ٹانگیں۔۔۔ مشین کی طرح، کوچ کرتی ہوئی فوجوں کی طرح، موسیقی کی پابندی کرتی ہوئی ٹانگیں الجھے بغیر ذرا سی بھی غلطی کیے بغیر برابر رقص کر رہی تھیں۔ سرسمدر نے جلدی سے جن کا گلاس ختم کیا۔ مسکراکے جون کا شکریہ ادا کیا اور سرنوشیرواں سے پوچھا، ’’اوپر بھی ناچ ہو رہا ہے۔‘‘

    ’’ہاں، مگر وہاں ذرا دوسرے درجے کے لوگ ہیں۔‘‘

    ’’تو بہت ہی دلچسپ ہوگا۔‘‘ سرسمدر نے کہا اور اس نے محسوس کیا کہ اگر وہ یہیں نیچے کے رقص کے کمرے میں ناچےگا تو اس کی بیوی کی آزادی میں خلل پڑےگا اور وہ پورا لطف نہ اٹھا سکےگی۔

    ’’وہ سرنوشیرواں افراسیاب کو وہیں چھوڑ کے اپنی سیاہ پتلون کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے مسکراتا ہوا باہر نکلا۔ اس کی بیوی چندرا رگھوبیر کے جسم سے ذرا انچ بھر دور ہٹ کے اس کی طرف دیکھ کے مسکرائی۔ اس نے بھی مسکراکے اس کی مسکراہٹ کا جواب دیا۔ پھر باہر کے برآمدے کی بھیڑ سے ہوتا ہوا چوڑے چوبی زینے پر سیٹی بجاتا ہوا چڑھنے لگا۔

    ’’دوسرے درجے‘‘ کے کچھ لوگ نیچے اتر رہے تھے۔ اس ’’دوسرے درجے میں مہاراجاؤں، اعلیٰ ترین حکام اور لکھ پتی کارخانوں کے مالکوں کے سوا سب ہی شامل تھے۔ جونیئر آئی۔ سی۔ ایس، چھوٹے کارخانوں کے مالک، بڑے تاجر، فلم کمپنیوں کے ڈائریکٹر اور ہندوستانی پردہ سیمیں کے درخشاں ستارے، مہاراجاؤں کے کنٹرولر اور اے۔ ڈی۔ سی۔ میجر اور ان سے کم درجے کے فوجی افسر۔

    اوپر کا ناچ ہال بہت بڑا تھا اور کوئی ایک ہزار کے قریب لوگ اس کے بے شمار ستونوں کے درمیان ناچ رہے تھے۔ چاروں طرف برآمدوں میں میزیں کھچاکھچ بھرتی ہوئی تھیں اور سرسمدر واپس جانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ مہاراجہ مانسرور کے ایک اے ڈی سی نے سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے اسے دیکھ لیا۔ ’’ہلو سرسمدر۔‘‘

    ’’اوہ، گڈ ایوننگ۔‘‘ سرسمدر نے جواب دیا۔ وہ اکثر مہاراجہ مان سرور کی پارٹیوں میں بلایا جا چکا تھا۔ ’’یہاں اوپر توتل رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔‘‘

    ’’سرسمدر اگر آپ جگہ تلاش کر رہے ہیں تو ہماری میز پر چلیے۔‘‘

    ’’ضرور شکریہ۔‘‘

    اس اے ڈی سی کا نام آفریدی تھا۔ میز پر بمبئی کے ایک مشہور تاجر کا بیٹا اکرام بھائی دو لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آفریدی نے سرسمدر کا اس سے اور دونوں لڑکیوں سے تعارف کرایا۔ ایک لڑکی کا نام اس نے چھاپا دیوی بتایا۔ یہ اینگلو انڈین تھی، لیکن بڑی ہی فیشن ایبل ساڑھی پہنے۔ ایک زمانے میں فلمستان کی مشہور پری وہ چکی تھی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہندوستانی فلموں کی پریاں بالعموم اینگلو انڈین ہی ہوتی تھیں اور بولتے فلم کا شمار نوادرات میں ہوتا تھا۔ پھر ان ستاروں پر زوال آیا، بہت کم باقی رہیں۔ زیادہ تر ادھر ادھر نکل گئیں۔ چھایا نے بھی اودھ کے ایک تعلقدار صاحب سے شادی کی۔ وہ پی کے اسے خوب ٹھوکتا تھا۔ تین چار سال بعد یہ طلاق لے کے اٹھ کھڑی ہوئی اور اب ’’غیروابستگی‘‘ کے عالم میں بمبئی میں مقیم تھی۔ دوسری لڑکی شیریں پارسی تھی۔ موٹی، بھدی، پست قد اور بے ہنگم چہرے پر چوتھائی انچ غازے کی تہ جمی تھی۔ بالائی لب کے روئیں جو اس غازے کے بغیر شاید اچھی خاصی مونچھیں معلوم ہوتے، اب بھی غازے کی اس دبیز تہہ سے بغاوت پر آمادہ تھے۔

    آفریدی نے سب کے لیے وہسکی اور سوڈا منگوایا۔ سرسمدر نے چھایا سے ناچنے کی فرمائش کی۔ یہ وی آنا کا والٹس تھا۔ ہلکا، شیریں، تیز۔ اس نے اپنے سینے کے مقابل چھایا کا نوجوان جسم محسوس کیا۔ بھر بھر بازو اور شانے، ابھی تک سخت۔ بال رنگے ہوئے مگر گھنے اور گردن اور شانوں اور پشت کو حسین سے حسین تر بناتے ہوئے، جسم گداز اور گٹھا ہوا ہونٹ سرخ، آنکھیں چمکتی ہوئی اور بناتی ہوئی۔

    ’’آپ بہت اچھا ناچتے ہیں گر سمدر۔‘‘ چھایا نے اس سے کہا اور اس کے دانتوں اور اس کی پلکوں نے مل کے جال پھینکا۔

    ’’نہیں مجھے تو ناچنا کچھ یوں ہی سا آتا ہے۔ لیکن آپ بہت اچھا ناچتی ہیں، جیسے کوئی پری ناچے۔‘‘ اس کلمہ تحسین پر وہ ہنسی، اس کا پورا جسم ہلا اور ہلتے ہی سینوں سے لے کر رانوں تک اس کے چمٹے ہوئے گداز جسم کے تمام عضلات میں ہنسی اور گدگداہٹ کی سی جنبش ہوئی۔ اس جنبش نے سرسمدر کے ادھیڑ جسم سے ٹکر کھائی۔ ’’آپ بہت خوبصورت ہیں۔ غیر معمولی۔۔۔ جیسے گریٹا گاربو۔‘‘

    ’’اوہو‘‘ اس نے کلے پھلا کے اور پھر ہنس کے کہا، ’’یہ تو تعریف نہیں ہوئی سر سمدر۔ گریٹا گاربو تو ہرگز خوبصورت نہیں۔‘‘

    ’’پھر آپ کسے خوبصورت سمجھتی ہیں؟‘‘

    ’’جون کرافرڈ۔ میرے خیال میں جون کرافرڈ بہت خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’چھایا دیوی آپ اس سے کہیں خوبصورت ہیں۔ آپ میں بڑی کشش، بڑی غیرمعمولی دلفریبی ہے۔ بالکل کسی راجکماری کی سی۔‘‘

    وہ پھر ہنسی، پھر جسم کی ایک ایک رگ، ایک ایک عضو ہنسا، پھر اس کی بوٹی بوٹی نے سر سمدر کو چھیڑا۔ ’’دیکھیے سرسمدر آپ نے پھر غلطی کی۔ راجکماریوں سے زیادہ تو ان کی ساریاں خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’آپ کا ذہن ایسا ہی تیز ہے جتنی آپ کی صورت دلکش ہے۔ چھایا دیوی آپ نے فلم کی زندگی ناحق چھوڑی۔ مجھے یقین ہے اب بھی آپ واپس جائیں تو بمبئی میں تو کوئی ایکٹرس آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔‘‘

    ’’وہ دن گزر چکے، ‘‘ چھایا نے کہا، ’’اب اس مارکیٹ میں میری ساکھ نہیں رہی۔ ہاں اگر مجھے کسی بڑے آدمی کی مدد مل سکے تو شاید۔۔۔‘‘ اور اس کی بھوری آنکھوں نے سرسمدر کی آنکھوں کو چھیدنےکی پوری کوشش کی، اس کا جسم رقص کے آخری گھماؤ میں سرسمدر کے جسم سے اس قدر قریب آ گیا کہ اس قربت کی تیزی نے وی آنا کے والٹس کے آخری گھماؤ کو دس درجہ اور زیادہ تیز کر دیا۔

    میز کی طرف واپس آتے ہوئے اس نے کہا، ’’شکریہ چھایا دیوی۔۔۔ اس مسئلے کے متعلق پھر تفصیل سے بات چیت کریں گے۔ آپ دو ایک روز میں مجھ سے آفس میں ملیں۔ مجھ سے جو ہو سکے گا۔۔۔ بمبئی کی تمام فلم ایکٹرسوں میں آپ۔۔۔‘‘

    شیریں اکرام بھائی کی گودمیں بیٹھی تھی۔ سرسمدر نے ویٹر سے اور وہسکی اور سوڈا اور خواتین کے لیے کاک ٹیل لانے کو کہا۔ آفریدی نیچے مہاراجہ کے پاس گیا تھا۔

    شیریں نے اکرام بھائی کے کالر کو چھیڑتے ہوئے پوچھا، ’’اس سیاہ پر دے کے پیچھے کیا ہے۔‘‘ اور اس نے دور ایک پردے کی طرف اشارہ کیا۔

    سرسمدر نے جواب دیا، ’’بڑا خراب بھیڑیا۔‘‘

    ’’اوہ،‘‘ شیریں نے مصنوعی طور پر سہم کے کہا۔

    آفریدی آ گیا اور دوسرا ناچ لیمبتھ واک شروع ہوا۔ آفریدی نے چھایا اور اکرام بھائی نے شیریں کو سنبھالا۔ دونوں لڑکیوں نے سرسمدر نے معافی مانگی۔ اس نے بھی اجازت چاہی وہ خود متوسط طبقے کی اس صحبت سے سیر ہو چکا تھا۔ چوڑے چوبی زینے اتر کے پھر اس نے نیچے کی رقص گاہ کاقصد کیا راستے میں کو موڈور نشےمیں دھت بحری فوج کے ایک اور افسر سے کاک ٹیل کا گلاس ہاتھ میں لیے کہہ رہاتھا، ’’میرے خیال میں لیڈی سمدر بہت آسانی ہے۔‘‘

    سرسمدر کو دیکھ کر اس کے ساتھی افسر نے کہا، ’’شش شش ش۔‘‘

    نشے میں جھوم کر کو موڈور نے کہا، ’’شش ش ش۔‘‘ اور دونوں دوسری طرف مڑ گئے۔ رقص گاہ کے ایک ستون کے قریب اس کی بیوی رگھوبیر سے باتیں کر رہی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں ایک نوجوان افسر کے چہرے پر جمی تھیں جو دور کھڑا ہوا اسی انگریز لڑکی سے باتیں کر رہا تھا جس نے کچھ دیر پہلے مائیکروفون پر فرانسیسی گیت گائے تھے۔ ایک ہندوستانی فوجی افسر چیکو سلاویکیہ کے سفارت خانے کے ایک افسر سے کہہ رہا تھا، ’’یہ ٹیکسی ناچنے والی (وہ لڑکیاں جو دس روپیہ چندہ داخل کرنے پر آپ کے ساتھ ایک ناچ ناچتی ہیں) یہ جو ادھر سیدھے ہاتھ کی طرف کھڑی ہے۔ مس اسکرین، ڈورا اسکرین، ذرا اس کا جسم تو دیکھیے۔ مکمل، اگر یہ تیار ہو جائے تو میں آج اس سے شادی کر لوں۔‘‘ سرسمدر نے اس لڑکی کی طرف دیکھا۔ اونچا قد دبیز جسم، سینے خوب ابھرے ہوئے، اینگلو انڈین۔ وہ مسکرایا اس نے اپنی بیوی کی طرف نگاہ ڈالی، وہ وہاں نہیں تھی۔ لیمبستھ واک۔ ناچنے والوں کے ہجوم میں اس نے اپنی بیوی کو دیکھا۔ ایک جھٹکے میں دہ رگھوبیر کے جسم پر آ گری، دونوں ہنسے اور چمٹ گئے اور پھر ناچنے لگے۔

    ’’تیتری میرے ہاتھوں کی بنائی ہوئی ہے۔‘‘ وہ تلخی سےمسکرایا اور قطب شمالی والے کمرے کی طرف چلا۔ بوڑھا سر نوشیرواں افراسیاب اب بھی وہیں تھا اور وہسکی پر وہسکی چڑھائے جا رہا تھا۔ ’’ہیلو سمدر! خوب لطف اٹھا رہے ہو؟‘‘

    ناچ ختم ہوا مائیکروفون پر کسی نے اعلان سنایا، ’’ہسپانیہ کے مظلوم پناہ گیروں کی امداد کے لیے لندن کے لارڈ میئر نے جو چندہ جمع کرنا شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم بمبئی سے بھی حتی الامکان مدد کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے ان رضاکار خواتین کا شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے آج کے شو اور ناچ کو کامیاب بنانے کے لیے خاص طور پر محنت کی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ تعریف کی مستحق مس ڈورا اسکرین ہیں۔ مس ڈورا اسکرین بارسلونا کی فتح کے وقت اسپین میں موجود تھیں۔ انہوں نے وہاں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اس شولری کے جذبے کے تحت جو نوجوانی اور انسان پرستی ہی کا حصہ ہے مس ڈورا اسکرین کے ایک پیار کا نیلام ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کے وہ ہنسا۔ مجمع نے زور و شور سے تالیاں بجائیں۔ ہال میں مرد عورت سب ساتھ ساتھ کھچاکھچ بھر گئے۔ جو پیچھے تھے وہ اسٹولوں پر کھڑے ہو گئے۔ مس اسکرین ڈورا۔ سینے خوب ابھرے ہوئے، دبیز جسم، اونچا قد، ذرا اس کا جسم تو دیکھیے، مکمل، آرکسٹرا کے تخت پر مسکراتی کھڑی تھی، تبسم اور آنکھیں دونوں میں چمک تھی اور شاید شرم کی بھی ذرا سی جھلک ہو۔ پھر پیار کا نیلام ہوا۔ پچاس سے شروع۔ سو ہوا تو کپتانوں نے بولی بند کر دی۔ ہزار تک بڑے تاجر کارخانوں کے مالک بولیاں بولتے رہے۔ اس کے بعد صرف کروڑپتی اور مہاراجے باقی رہ گئے اور بالاخر مہاراج وشواش نگر نے چار ہزار چھ سو روپیہ میں مس ڈورا کا ایک بوسہ خریدا۔ وہ مونچھوں پر تاؤ دیتے آگے بڑھے اور بڑھائے گئے۔ ان کی گھنی خضاب لگی ہوئی مونچھوں نے ڈورا اسکرین کے لبوں کو ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کے لیے چھوا اور پھر حسینہ نے ہنس کے اپنا منہ ہٹا لیا۔ مہاراجہ کے تینوں بیٹے مہابیر، رگھبیر اور رگھوبیر مجمع کے پیچھے آپس میں کچھ کہہ کے ہنسنے اور ٹہلنے لگے۔

    اور سمدر سوچنے لگا، ’’کیوں؟ نیلام کیوں؟ کیا مہاراجہ یوں چار ہزار چھ سو روپے نہیں دے سکتے تھے یا نیلام ہی ہونا تھا تو کسی اور چیز کا کیوں نہیں ہوا۔ پکاسو کی کسی تصویر کا نیلام ہو سکتا تھا جو جمہوریت پسندوں کی طرف سے لڑ رہا تھا۔ یا کسی اور تصویر کا، کسی بلا کا نیلام ہو سکتا تھا۔ ایک عورت کے بوسے کا انعام کیوں؟ کیا وہ بھی تجارت کا مال ہے؟‘‘

    تجارت کے مال کا خیال آتے ہی سمدر کو اپنی بیوی چندرا کا خیال آیا۔ اپنی بنائی ہوئی تیتری کا، یہ پر پرزے اسی نے تو نکالے تھے۔ پروں کی جگہ ریشمی ساڑیاں سینکڑوں کی، ہزاروں کی ساڑیاں۔ پر نکل چکنے کے بعد اڑنے سے کون روک سکتا ہے۔ ادھر ادھر اس نے اپنی بیوی کو ڈھونڈھا۔ قطب شمالی والے کمرہ کے دروازے پر سگریٹ کے دھوئیں میں اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا۔

    آہستہ سے چندرا کے پاس جا کے اس نے کہا، ’’ڈارلنگ اب گھر چلوگی۔‘‘ چندرا مسکرانے لگی۔ چھایا کی طرح اس کے دانتوں اور پلکوں نے مل کے جال بچھایا۔ ’’اب تو کہیں جاکے پارٹی پر لطف ہو رہی ہے اور آپ ابھی سے چلنے کو کہتے ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر ڈارلنگ مجھے اجازت دو۔ صبح سویرے مجھے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک مجلس میں جانا ہے اور بھی بہت سے کام ہیں۔ راجکمار رگھبیر سے کہنا وہ تمہیں گھر چھوڑ دیں۔‘‘

    آخری جملے کے طنز پر چندرا کے لبوں نے ذرا پیچ و تاب کھایا۔ مگر فوراً ہی سنبھل کے وہ مسکرانے لگی اور اس کے ماتھے کی بندی کھل سی گئی۔ ’’شکریہ۔ ڈارلنگ، ‘‘ اس نے اپنے شوہر سے کہا۔

    ناچ تو شاید دو ڈھائی بجے ختم ہو گیا ہوگا مگر صبح کے پانچ بجے کے قریب وہ گھر آئی، رگھبیر ہی کی موٹر میں۔ گاڑی سے اترنے کے بعد رگھبیر نے چندرا کے ہاتھ کوایک طویل بوسہ دیا، پھر سمدر کھڑکی سے ہٹ آیا اور سوتا بن کر مسہری پر لیٹ رہا۔ چندرا دبے پاؤں آئی، اس کی مسہری کے قریب۔ ایک لمحہ تک وہ سوچتی رہی کہ اپنے سوتے ہوئے شوہر کو پیار کرے یا نہیں؟ پھر اس کے چہرے پر تلخی کی سیاہی اور اس کے ہونٹوں پر ایک طنز آمیز کجی پیدا ہوئی اور وہ ساری کو فرش پر پھینک، اپنی مسہری پر لیٹ رہی۔

    سات بجے سرسمدر اٹھے۔ ان کی تیتری مسہری پر غافل پڑی سو رہی تھی۔ اس کے پر توڑنا کس قدر آسان تھا؟ چاندی ہی کے تو تھے۔ چاندی کا دروازہ بند کردو، تیتری اور اس کے پر دونوں غائب اور تیتری پھر کملا کیڑا بن جائےگی۔ ایک طلاق کے بعد دوسرا ملنے میں اتنی آسانی نہ ہوگی۔ مگر انہیں چندرا پر بڑا ترس آیا۔ ان کی بیوی مگر سن میں ان کی بیٹی کے برابر اور وہ سوچنے لگے کہ ان کی بیٹی ہوتی تو کیا وہ اس کے پر نوچتے، کیا وہ اسے روتا دیکھ سکتے۔ اپنے وکیل کے پاس جانے کا ارادہ انہوں نے ملتوی کر دیا۔

    کپڑے بدلتے ہوئے وہ سوچنے لگے، ہم سب میں زیادہ فیاض کون ہے۔۔۔ میں؟ جو مالک ہوں اور اپنی ملکیت پر جبر نہیں کرتا؟ یا ڈورا جس نے اپنا پیار بیچا؟ یا میری چندرا جس نے اپنے ریشمی آرام و آسائش کے لیے اپنے والدین کو اپنا جسم میرے ہاتھوں بیچ لینے دیا۔ وہ ہنسا، سماج کے اس کھنکتے ہوئے راج میں کون فیاض ہے؟ کون فیاض رہ سکتا ہے؟ یہاں تو ہر طرف لین دین ہی لین دین ہے۔ یہاں شکر و شکایت اور گلہ شکوہ کیا؟‘‘

    (۵)

    رات کے ساڑھے سات بجے کے قریب صغیر اپنے چھوٹے سے فلیٹ کو واپس آیا۔ ماہم میں مچھلیوں کی بو یہاں تک آتی تھی۔ مگر شہر میں فلیٹ مہنگے تھے۔ دروازہ مقفل تھا، جس کے معنی یہ تھے کہ ناہید جہاں اس کی بیوی ابھی تک واپس نہیں آئی تھی۔ ابھی تک نہیں آئی تو کھانا کب پکےگا۔ قریب کے ایرانی ہوٹل کے کھانے کا نام سن کر اسے ابکائیاں آتی تھیں۔

    ہندوستان میں اشتراکی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم میں وہ لوگ ہیں جن میں سے صرف چند کو’’قلب اوکافر، دماغش مومن است‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن اس پہلی قسم کے زیادہ تر اشتراکی گورنمنٹ آف انڈیا یا صوبجاتی سرکاروں میں اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ ملک کے بہت سےادیب، بہت سےشاعر، بہت سےاخبار نویس اسی قسم کے گنے جا سکتے ہیں۔ اگر وجہ جواز کی کمی تھی تو جون ۱۹۴۱ء سے وجہ جواز بھی مل گئی اور اب یہ ممکن ہو گیا کہ کوئی مالا بار ہل بمبئی یا جوبلی ہل حیدرآباد یا مال لاہوریا کنگ ایڈورڈ روڈ نئی دہلی میں قیام کرے اور اشتراکی ہونے کا دعویٰ کرے۔ ان میں سے ممکن ہے۔ بعض ایسے ہوں جنہیں اشتمالی تحریک سے تھوڑی بہت ذہنی ہمدردی ہو۔ مگر ایسا شاید ہی کوئی ہو جو وقت آنے پر اپنے فیشن ایبل پتے تک سے دست بردار ہونے کو تیار ہو۔ دوسری قسم کے اشتراک وہ ہیں جو برسوں جیل بھگت چکے ہیں۔ مزدوروں کے ساتھ رہ کے انہی کی خوراک کھا چکے ہیں۔ بیماریوں میں ایک خوراک دوا کے لیے ترس چکے ہیں۔ ایسے اشتراکیوں میں سے بہت سوں نے کبھی سرکاری یا کسی اور آرام دہ ملازمت کی کوشش نہیں کی۔ جب موقع آیا تو اس سے انکار کیا اور ۲۲ جون ۱۹۴۱ء کو اپنے لیےآرام طلبی یا جاہ و طلبی کا بہانہ نہیں بنایا۔

    صغیر اور اس کی بیوی ناہید جہاں دونوں کا شمار اس دوسرے قسم کے اشتراکیوں میں تھا، وہ اگرچہ یوپی کا رہنے والا تھا۔ لیکن عرصے سے بمبئی میں سوت کے کارخانے کے مزدوروں کی تنظیم کرتا رہا تھا۔ اس کی قابلیت اور اس کی خوبی تحریر کو دیکھ کر اب دو تین سال ہوئے ایک مقامی قومی اخبار میں اسے ڈیڑھ سو روپیہ کی جگہ دی گئی تھی۔ جنگ کے زمانے میں اور وہ بھی بمبئی کی زندگی کے لیے ڈیڑھ سو روپیہ کیا ہوتے ہیں۔ لیکن اب وہ تنہائی اور ٹھوکروں کی زندگی سے تھک گیا تھا، بےزار نہیں ہوا تھا۔ وقت پڑے تو وہ اب بھی ایک ادنیٰ سیاہی کی طرح اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار تھا، لیکن دو سال کی جیل، خراب غذا، دن رات بیمار۔ مزدوروں کی قربت کی وجہ سے وہ تھک ضرور گیا تھا۔ اس نوکری نے اسے دم لینے کی ذرا سی مہلت دی اور قدرت نے اسے ایک رفیق بھی عنایت کیا۔ یہ رفیق یا رفیقہ حیات اس کی بیوی ناہیدجہاں تھی۔ اس نے ایک متوسط طبقے کے بورژوا خاندان سے بغاوت کی تھی۔ تعلیم مکمل کیے بغیر چل کھڑی ہوئ تھی۔ آل انڈیا نرسس ایسوسی ایشن کی سرپرستی میں اس نے نرسنگ کی تربیت البتہ حاصل کر لی تھی اور اس کے سوا اسے لکھنے کا سلیقہ تھا۔ اردو افسانے اچھے خاصے لکھ لیتی تھی اور رسالوں سے کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جاتا۔ افسانوں کے دو تین مجموعے بھی چھپ چکے تھے، جن سے یکمشت آمدنی ہو جاتی۔

    صغیر سے ناہید جہاں کی ملاقات دہلی میں نئے ادیبوں کے ایک جلسے میں ہوئی۔ ناہید کا پہلا عاشق اس سے الگ ہو چکا تھا اور اس کی یادگار اس کا پہلا بچہ اس زندگی سے۔ اب وہ تیس سال کی تھی، لیکن اب بھی اس کے کندنی جسم پر زردی اور جھریاں کہیں پھٹکنے نہ پائی تھیں۔ ہندوستانی لڑکیوں کے چہروں کی بے رونقی کے دو اسباب ہوا کرتے ہیں۔ پہلے تو اس بےرونقی کا باعث تازہ اور صاف ہوا کی کمی تھی۔ بڑی حدتک یہ سبب اب بھی باقی ہے۔ لیکن ایک تھوڑی سی تعداد ایسی لڑکیوں کی بھی ہے، خصوصاً بڑے شہروں میں، جن کے نزدیک تازہ اور صاف ہوا کے استعمال کی واحد شکل یہ ہے کہ ان کا چہرہ طرح طرح کے غازوں، لوشنوں، کریموں سے تھوپا اور رنگا جائے تاکہ جب وہ ہوا کھانے نکلیں تو دائیں بائیں دونوں طرف چاہنے والوں کے جنازے نکل جائیں۔ جس پارٹی میں وہ جائیں وہاں آدھے نوجوان تو دیکھتے ہی بے ہوش ہو جائیں اور باقی آدھے جو بےہوش نہ ہوں وہ سجدے میں گر پڑیں۔ ناہید نے پہلے سبب سے بغاوت کی تھی اور دوسرے سے احتیاط برتی تھی۔

    صغیر کے چہرے پر البتہ زردی تھی۔ تھکن کی، زخمی سپاہی کے رخساروں کی زردی۔ زردی جو اس کے دبلے رخساروں سے ہوکر اس کی مونچھوں تک چلی گئی تھی۔ اس دبلے لانبے چہرے پر مونچھیں کتنی دلچسپ معلوم ہوتی تھیں۔ دلچسپ لیکن مضحکہ خیز نہیں۔ کیونکہ صغیر کی آنکھیں اگرچہ اندر دھنس گئی تھیں۔ ان میں اب بھی کشش تھی۔ اب بھی ایک طرح کی جاذبیت تھی۔ اس کے دبلے لانبے چہرے کے خدوخال میں اب بھی تناسب تھا۔ اس کا سینہ بھی اندر کو دھنس رہا تھا مگر ناہید جانتی تھی اس کا علاج کتنا آسان ہے۔ حیاتین الف اور د اور سینہ کی مچھلیاں پھر ابھر آئیں گی۔ اسے خود اپنی تیس سال کی عمر کا احساس تھا۔ اسے بھی رفاقت کی ضرورت تھی اور چند ملاقاتوں کے بعد، چند روز ساتھ پھرنے کے بعد اس نے صغیر کے لیے ایک طرح کی محبت محسوس کی، ایسی محبت جو والہانہ عشق کے مقابل انس سے زیادہ قریب تھی۔ ہمدردی، انس، رفاقت، انسانیت کی محبت اور اس طرح دونوں کی شادی ہو گئی۔ ناہید اپنے میاں کے ساتھ بمبئی گئی۔ جہاں اسے ایک ہسپتال میں میٹرن کی جگہ مل گئی اور اس نے آہستہ آہستہ نرسوں کی تنظیم شروع کی۔ اس روز صغیر نے اپنی کھادی کی شیروانی اتاری۔ کھادی کے کرتے اور پاجامے کو اس نے بڑے چوکور آئینے میں دیکھا۔ جس میں ناہید، جو لبوں پر سرخی نہیں لگاتی تھی، اپنے گداز، بھرے ہوئے جسم، چوڑے صحت مند سینے اور اس پر سادہ یونیفارم کی بہار دیکھ لیا کرتی تھی۔ خصوصیت سے وہ اپنے بالوں کا تماشا دیکھتی جواس کے گھٹنوں تک پہنچتے تھے اور صغیر کوان بالوں سے عشق تھا۔ آئینے میں اپنے کھدر کے لباس کو دیکھ کر صغیر کو ذرا سی کوفت ہوئی۔ چند متناسب جسموں پر تو بے شک کھدر اچھے سے اچھے کپڑے سے زیادہ کھلتا ہے۔ ورنہ عموماً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کسی پتلے تکیے اور کسی گاؤ تکیہ پر کسی نے موٹا جھوٹا غلاف چڑھا دیا ہو۔

    اس کے لکھنے کی میز پر ایک چٹھی تھی۔ ’’میں مقبول کے ساتھ سنیما دیکھنے جارہی ہوں۔ ممکن ہے مجھے واپسی میں دیر ہو۔ نعمت خانے میں کچھ سینڈوچ بسکٹ رکھے ہیں۔ ناہید۔‘‘

    صغیر اس چٹھی کو پڑھ کے سکتے کے عالم میں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اس کا دماغ اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ اس کی متاہل زندگی میں یہ پہلی بار تھی کہ اس کی بیوی، اس کے کسی دوست کے ساتھ سنیما دیکھنے گئی تھی اور شاید تنہا۔ کم از کم مقبول داور میں سیواجی پارک کے قریب تنہا رہتا تھا۔ صغیر اپنے آپ سے حجت کرنے لگا۔ مجھے یہ فرض کر لینے کا کیا حق ہے کہ وہ مقبول کے ساتھ تنہا سنیما گئی ہے۔ ممکن ہے اور بھی کئی لوگ ہوں۔

    وہ اپنے میز پر بیٹھ کے کام کرنے لگا۔ آج کل وہ اس مبحث پر تحقیق کر رہا تھا کہ کیا مارکسیت مذہب کی غیرمعاشی قدروں کو برداشت کر سکتی ہے۔ یہ شبہ اس کے دل میں عرصے سے کھٹک رہا تھا کہ مارکس معاشیین کا امام فلسفیانہ اسلحہ سے اچھی طرح مسلح نہیں تھا۔ مابعد الطبعیات پر اچھی طرح حاوی ہوئے بغیر فلسفے اور مذہب کو انہی کے ہتھیاروں سے شکست دیے بغیر مادیت ارتقا بالضد کوئی باقاعدہ فلسفیانہ نظام نہیں بن سکتی۔ وہ عملی نظام بن جائے لیکن فلسفیانہ نظام نہیں بن سکتی۔ مارکس کے بہت سے عقیدت مندوں نے اس قسم کا شک محسوس کیا تھا۔ مثلاً بازارف، بوگدانوف، لونا چارسکی، ہل فونڈ، برمن، یوش کے وچ اور سودروف۔ انہی کے جواب میں لینن نے مادیت اور تجربی تنقید لکھی تھی۔ لیکن لینن کے دلائل سے صغیر کی تشفی نہیں ہو سکی تھی۔

    وہ کام کرنے لگا۔ ساڑھے نو بجے، دس بجے۔ لیکن ناہید نہیں آئی۔ اب تک اسے آ جانا چاہیے تھا۔ سنیما زیادہ سے زیادہ ساڑھے آٹھ بجے ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ وہ لوگ فورٹ کے کسی سنیما کو گئے ہوں۔ ممکن ہے بس ملنے میں دیر ہوئی ہو۔ اس نے نعمت خانے سے سینڈوچ نکال کے کھائے۔ کام کرنا چاہا۔ مگر ناہید کی ہنستی ہوئی صورت، اس کے بھرے بھرے بارونق گال اور سفید دانت، اس کے چوڑے شانے، اس کے جسم کی گرمی برابر حائل ہوکے اوراق کو دھندلا کردیتے۔ سطروں کا مطلب خبط کر دیتے۔ دماغ کی منطقی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکاتے۔ استدلال کے سامنے یکلخت اعصابی، جذباتی خندقیں پیدا کر دیتے۔ ایک خلا پیدا ہو جاتا اور دل میں ایک طرح کا وہم سا ہونے لگتا۔

    پھر گیارہ بجے دادر کی طرف سے اور فورٹ سے معلوم نہیں کتنی بسیں آئیں اور سامنے کی سڑک سے شور مچاتی گزر گئیں۔ اس نے لینن کی کتاب اور اپنی نوٹ بک دونوں کو بند کیا اور ٹہلنے لگا۔ اب پہلی مرتبہ ایک عجیب طرح کا جذبہ سا ابھرنے لگا، ایسا جذبہ جو اگر تکمیل کو پہنچے تو صدمہ کہلائے۔ لیکن اس ابتدائی درجے میں اس کے لیے کوئی نام نہیں تھا۔ اس جذبے کے ساتھ ساتھ، اس کے متوازی ایک اور جذبہ تھا، خلجان کا سا۔ اس کا نام متعین تھا، شک۔

    اس نے سگریٹ سلگایا اور ٹہلنے لگا۔ سوچنے لگا کہ مجھے شک اور کسی قسم کے صدمے کا حق ہی کیا ہے۔ ناہید یا اس کا جسم میری ملکیت تو ہے نہیں۔ کیا اس مہاجنی ترن سے پہلے بربریت کے سنہری دور میں تمام عورتیں تمام مردوں اور تمام مرد تمام عورتوں کی ملکیت نہیں ہوتے تھے۔ ممکن ہے یہی قانون فطرت ہو۔ ممکن ہے ’’جوڑے دار‘‘ شادیاں قانون فطرت کی خلاف ورزی ہوں۔ تمدن کی صبح کاذب کے ساتھ ساتھ تو یہ شادیاں وجود میں آئی ہیں۔ پہلے مائیں بہنیں حرام ہوئیں، پھر قبیلے کی عورتیں حرام ہوئیں، پھر ایک مرد اور ایک عورت کی جوڑے دار شادیاں ہونے لگیں۔

    اور وہ سوچتا رہا۔ قانون فطرت؟ لیکن انسان کا کام تو فطرت کے قانون کی پابندی نہیں، اس کی تسخیر ہے۔ ہل اور ٹریکٹر، دور بینیں اور خوردبینیں سب قانون فطرت توڑنے کے لیے ہیں۔ زمین اور زندگی اور ستاروں پر انسان کے حکم چلانے کے لیے ہیں۔

    ناہید، ناہید، ناہید ابھی تک نہیں آئی اور مقبول یقیناً خوبصورت ہے۔ چھ فٹ دس انچ قد، پنجابی، سرخ و سفید۔ لڑکیوں کی حد تک تو وہ اسم بامسمی ہے۔ سب کی سب اس پر کیسے مرتی ہیں۔

    پھر دوسرا سگریٹ پہلے سگریٹ ہی سے جلاکے اس نے سوچنا شروع کیا۔ ناہید اور مقبول۔ لیکن ان جوڑے دار شادیوں میں صرف ایک شریک حیات کی پابندی عورتوں ہی پر لازم قرار دی گئی۔ عصمت کا مطالبہ صرف ان سے کیا گیا۔ رہ گیا یہ نظریہ کہ عصمت کی قید عورتوں نے خود اپنے اوپر عاید کی ہے۔ اس کے معاشی وجود کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ممکن ہے اس میں کچھ اصلیت نکلے۔ جب عورت اس قدر قربانی پر تیار ہو گئی تو مرد جو مویشیوں اور غلاموں کو اپنی خدمت اور مزدوری کے لیے استعمال کر رہا تھا، عورت کو بھی اپنی خادمہ کی طرح استعمال کرنے لگا۔ انسان قدیم کی سمجھ میں آ گیا کہ بچے کی پیدائش میں باپ کا بھی کچھ حصہ ہوتا ہے۔ حق مادری اور قانون وراثت مادری کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عورت کی جنس کو پوری معاشی اور عمرانی شکست ملی۔ کیا ناہید بھی میری اس طرح کی باندی، اس طرح کی کنیز ہے۔ کیا اور سب آزادیوں کی طرح جنسی آزادی کا سوال خود بخود نہیں پیدا ہوتا۔ لاطینی لفظ، ’’فیمولس‘‘ کے معنی گھریلو غلام کے ہیں اور فیمیلیا کے معنی غلاموں کی اس کل تعداد کے ہیں۔ جو کسی ایک مرد کی ملکیت ہو۔ یہی لفظ فیمیلیا آج بھی اطالوی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    عورت کس لیے دوسرے مردوں کے پاس نہ جائے۔ اسی لیے نا کہ وراثت پدری کی حدتک شک کا امکان باقی نہ رہے۔ میاں صغیر تمہارے پاس کون سا اثاثہ، کون سی جائیداد ہے؟ رفتہ رفتہ عصمت کا یہ تخیل کم از کم مشرق میں، اپنے معاشی پس منظر سے نکل کر مقصود بالذات بن گیا۔ عزت کو مال اور جان دونوں سے زیادہ اہمیت دی جانے لگی۔ ہم مشرقی ہمیشہ تصورات کے دیوانے رہے۔۔۔ از بام خانہ تا بہ ثریا ازان من۔ مشرقی مرد تو ہمیشہ بام تصورات کے دیوانے رہے۔۔۔ ازبام خانہ تابہ ثریا ازان من۔ مشرقی مرد تو ہمیشہ بام خانہ سے تریا تک علم کلام، صاحبدلی، عزت نفس، عصمت تخیل کے ہوائی قلعے بناتے رہتے اور بام خانہ کے نیچے رہنے والی گھر والی کو انہوں نے ان خیالی محلوں کے پاس بھی نہ پھٹکنے دیا۔ امیر خسرو اپنی لڑکی کو دیوار کی طرف پشت کرکے بیٹھے رہنے کی تعلیم دیتے رہے۔ کبھی کبھی مرد بھی ان ہوائی قصروں سے نیچے اتر آئے اور امرد پرستی اور بہمیت کے گندے دلدل میں ایسے غوطے لگاتے کہ حیرت ہوتی۔

    ابن یمین۔۔۔ اس کا دیوان بڑی آب و تاب سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ صغیر اس کے ورق الٹتا رہا اس میں موعظت اور پند اور حق پرستی ہر ہر شعر سے ہویدا تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک غزل پر پہنچا۔ ایسی فحش غزل کہ مرزا کانی اور جعفرزٹلی شرما جائیں۔

    ابن یمین کے دیوان سے اس کے دماغ کی منطقی حرکت جو اس کی جذباتی بے چینی سے برابر لڑ رہی تھی پھر اسے گھریلو عورت کی طرف واپس لے آئی اور صغیر نے سوچنا شروع کیا۔ قرون وسطی بلکہ یونان قدیم کے۔۔۔ اور پھر الف لیلہ کے وہ دو مشہور ڈرامائی کردار۔ چالاک عاشق اور بیوقوف شوہر۔ وہ ڈرامہ جس کو ایلنگلز نے بڑی خوبصورتی سے اس ایک جملے میں بیان کیا ہے۔ شوہروں نے بیویوں پر فتح پائی، لیکن ان شکست کھانے والیوں نے اپنی عالی ظرفی سے فاتحوں کے لیے تاج کا انتظام کر دیا۔۔۔ اور تاج؟ فرانسیسی اور سترہویں اور اٹھارویں صدی کے انگریزی ڈرامہ کاوہ سنگینیوں کا تاج۔ سنگینیوں کا تاج جو غریب شوہر کو تو نظر نہیں آتا۔ لیکن جسے اور سب دیکھ دیکھ کے ہنستے ہیں۔ سنگینیوں کا تاج جس کے معنی یہ ہیں کہ اس بادشاہ کی ملکہ ہرجائی ہے۔ اس بادشاہ کی ملکہ دوسرے مردوں کے جسم سے واقف ہے۔

    اس رفتار تخیل سے ایک منٹ کے لیے صغیر کا جذبہ رشک سارے دماغی استدلال پر حاوی ہو گیا۔ آئینہ میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا جو لال ہو رہا تھا۔ اس کے زرد چہرے کو لال ہونے کے مواقع بہت کم ملتے تھے۔ یہ سرخی زردی کی ضد نہیں اس کی انتہا تھی۔ آئینے میں اسے اپنے سر پر کہیں سینگ نظر نہیں آئے۔ خدا کا شکر ہے۔ دنیا، یہاں تک کہ ہندوستان، کم سے کم شہروں کا ہندوستان۔۔۔ قرون وسطی کو صدیوں پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ورنہ سینگوں کا اگ آنا کچھ عجیب بات نہ ہوتی۔ اب ہنسنے والوں کے حربے دوسرے ہیں۔ زیادہ تر تو پیٹھ پیچھے بھونڈا مذاق کرکے جس میں جنسی فعل کی طرف بازاری اصطلاح میں اشارہ ہوتا ہے، ہنس لیتے ہیں اور معاملہ رفت گزشت ہو جاتا ہے۔ بعض ذرا بیدردی سے بدنصیب شوہر کے سامنے بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ لیکن صاف صاف نہیں، اشارتاً اور طنزاً اور اس امر سے بالکل مطمئن کہ ان کے اپنے گھر محفوظ ہیں۔ ذرا مسخرے اپنے گھروں کی تو نبض دیکھیں۔

    لیکن اسی درمیان میں انسان نے جنسی تعلق میں ایک ایسا ارتقائی جذبہ تخلیق کیا ہے۔ جسے کوئی اور حیوان نہیں جانتا۔ عشق کاجذبہ، والہانہ کشش کا جذبہ ایک دوسرے کے لیے مکمل قربانی اور کامل ایثار کا جذبہ۔ اگر اس کی اور ناہید کی شادی کی تہ میں یہ جذبہ کسی نہ کسی طرح پیدا ہو چکا ہے تو دونوں فریقوں پر عصمت واجب آتی ہے۔ تب تو وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے ہیں اور دونوں میں سے کوئی کسی اور کے لیے نہیں۔

    سنیما کے بعد مقبول کے فلیٹ میں وہ انتظار کرتی رہی۔ یعنی اس کا تحت الشعور انتظار کرتا رہا کہ جو حسین نوجوان اس کے سامنے صوفے پر بیٹھا ہے۔ اب اس کا ہاتھ اس کے جسم سے مس کرےگا۔ اب اس کے لب، اس کے اپنے لبوں کو طلب کریں گے اور ناہید خود اپنے آپ کو کوئی جواب نہ دے سکی، کوئی فیصلہ نہ کرسکی کہ اگر ہاتھ بڑھیں یا لب قریب آئیں تو وہ مزاحمت کرے یا نہیں اور مزاحمت کرے تو کس قدر۔ وہ خود تو جانتی نہ تھی۔ شاید عین وقت پر وہ تصفیہ کر سکتی۔ کھانےکے بعد اس تنہائی میں اور سب طرح کی باتیں ہوئیں۔ کاغذ کے کارخانوں کے مزدوروں کی انجمن کے متعلق جس میں مقبول کام کر رہا تھا۔ نرسوں کی زندگی کے متعلق، جنگ اور جدید ادب پر تبصرے ہوئے۔ کچھ مشتبہ مذاق بھی ہوا اور مقبول نے ناہید کے حسن کی تعریف بھی کی۔ لیکن عاشقی کی تھوڑی بہت کوشش کی تو صرف آنکھوں میں۔

    اور آنکھوں کا باہمی ربط ناقص سا تھا۔ ایک طرح کی جنسی کشش ضرور تھی۔ لیکن نگاہوں کاربط جذب مطلق کا ربط نہیں تھا۔ مقبول کو اپنے دوست کا اور ناہید کو اپنے شوہر کا لحاظ تھا اور یہ لحاظ، نہ بھی ہوتا، تب بھی نگاہوں میں صرف گنگنی سی سرگرمی تھی، آگ نہ تھی اور بجلی کا تو کہیں دور دور پتہ نہ تھا۔ اس لیےنہ ہاتھوں نے ربط قائم کرنے کی کوشش کی، نہ لبوں نے۔

    مگر نگاہوں کی یہ ہلکی سی کشش کیا تھی اور اس سے عارضی لطف کیوں حاصل ہوا؟ یہ سوال ناہید نےمقبول کے فلیٹ سےواپس ہوتے ہوئے سوچا۔ غالباً اس قسم کی خفیف سی جنسی کشمکش جو جسمانی ربط کی طلبگار تھی ایک طرح کا نفسیاتی سیفٹی والو ہے۔ ایک مرد سے والہانہ عشق کے بعد جذبات کی سیرگاہ۔ دل کی خفیہ تمنائیں نکالنے کا ایک بےخطر ذریعہ۔ شاید اسی لیے مغربی تمدن کا حکم ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کےساتھ رقص نہ کریں۔ دوسروں کے ساتھ ناچیں اور دعوتوں کے میزوں پر اپنے شوہر کے ساتھ نہ بیٹھیں دوسرے مردوں کے پاس بیٹھیں۔ انہی رعایتوں سے شاید یورپ نے ازدواجی زندگی کی عصمت کو کامیاب بنانا چاہا۔ مطلق العنانی حکمرانی کے سوا یہی ایک صورت تھی۔

    اب ساڑھے گیارہ ہو چکے تھے۔ وہ بس سے اتر کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ بے چینی سے یہ خیال اسے پریشان کرنےلگا کہ کہیں صغیر کو شک نہ ہو۔ کہیں وہ کچھ اور نہ سمجھ رہا ہو۔ اس کے بعد عشقیہ ازدواجی زندگی میں ایک کانٹا سا کھٹکنے لگےگا۔ اسی لیے شاید عورتوں نے شروع شروع میں عصمت کو اپنے اوپر لازم گردانا تھا۔ پھر ناہید کو تعجب ہوا کہ کیوں وہ خود صغیر کے سامنے اپنی برئیت پیش کرنا چاہتی ہے۔ اسے یقین دلانا چاہتی ہے کہ وہ معصوم ہے اور وہ صرف اسی کو چاہتی ہے۔ آخر وہ اس کی ملکیت تو نہیں۔

    اور صغیر نے زینوں پر اس کے قدموں کی چاپ پہچانی، دروازہ کھولا۔ وہ ہنستی ہوئی کھری آنکھیں، اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ دو گداز گورے ہاتھ بڑھے اور ان ہاتھوں نے اس کے جسم کو گھیر لیا، دو گداز نازک لبوں نےاس کے لبوں پر مہر لگا دی اور یہ بوسہ، یہ لمس اتنا سچا، اتنا والہانہ تھا کہ فریقین میں سے کسی کو نہ کچھ پوچھنے کی ضرورت رہی نہ جواب دینے کی۔

    ’’پیارے تم نے وہ سینڈوچ کھائے۔ جلدی میں تمہارے لیے میں اور کچھ نہ بنا سکی۔ کہو تو ابھی انڈوں کا خاگینہ تل دوں۔‘‘

    تب وی تال نے پوچھا، ’’مہاراج آپ بتائیے ان تینوں میں سب سے زیادہ فراخ دل اور فیاض کون تھا؟ مقبول جس نے اپنے دوست کا لحاظ کیا، یا صغیر جس نے عورت کی ذات اور اس کے حق کا لحاظ کیا۔‘‘

    مہاراج تری وی کرم سینا نے کہا، ’’ویتال اس عجیب آنے والے زمانے کے لحاظ سے میں بھلا کیا تصفیہ کر سکتا ہوں کیونکہ تو کہتا ہے کہ اس عجیب زمانے میں کشتیاں مچھلیوں کی طرح پانی کے اندر چلیں گی اور مکان ہوا میں پنچھیوں کی طرح اڑیں گے اور لوہے کی نلیوں میں سے آگ نکلےگی۔ لیکن اس آگ کی بھٹی سے پگھل کر نکلنے کےبعد اگر انسان سچ مچ کھرا سونا بن جائے اور ایسا واقعہ جیسا تو بیان کرتا ہے، پیش آئے تو میں تو یہ کہوں گا کہ صغیر، ناہید اور مقبول تینوں برابر فیاض تھے۔ یا یہ کہ ان میں سے کوئی خاص طور پر فیاض اور فراخ دل نہ تھا۔ ہر ایک اپنا اوردوسرے کا حق جانتا تھا اور دل اور جسم کی محبت میں امتیاز کر سکتا تھا، ان دونوں کے فرق کو سمجھتا تھا۔‘‘

    ’’جے مہاراج کی‘‘ ویتال نےکہا اور خاموش ہو گیا۔

    مأخذ:

    کلیات عزیز احمد (Pg. 79)

    • مصنف: عزیز احمد
      • ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دریا گنج، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 2005

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے