Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مانوس

مبین مرزا

مانوس

مبین مرزا

MORE BYمبین مرزا

    ہوا کا زور بڑھ گیا تھا۔

    اب صاف معلوم ہونے لگا تھا کہ چھوٹی چھوٹی چک پھیریاں اٹھاتی اور ریت کے ہلکے ہلکے چھینٹے اڑاتی ہوا کی ان موجوں کے پیچھے کچھ اور ہے۔ صحراؤں کے آنگن میں پلنے بڑھنے والے کان اور آنکھیں ہوا کے بدن سے پھوٹتی خوشبو اور اس کا روپ بڑھاتی چال کو محسوس کرنے اور پہچاننے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ کان اور آنکھیں ہی نہیں ایسے جسموں کی تو ایک ایک پور ہوا کے بدلتے رنگ اور تبدیل ہوتے ہوئے ذائقے کو شناخت کرنے میں طاق ہوتی ہے اور پھر سب سے بڑھ کر دل کہ جو فوراً ہی بدلاؤ کے بھید پالیتا ہے اور بتانے لگتا ہے کہ ہوا کے پیچھے آندھی لپک رہی ہے یا طوفانِ باراں کا کوئی منہ زور قافلہ امڈا چلا آتا ہے۔

    مراد نے گلے میں پڑے تعویذ کو پکڑ کر پھر سینے کے رخ پر سیدھا کیا جسے ابھی ہوا کا زور آور تھپیڑا سینے سے اٹھا کر اس کے کاندھے پر رکھ گیا تھا۔ کرسی پر بیٹھے بیٹھے مراد نے ہاتھ بڑھا کر بستر کے سرھانے سے قمیص اٹھا کر جھٹکی جیسے گرد جھاڑ رہا ہو اور پھر گلے میں ڈال لی۔ معلوم نہیں، نیلم کیا کر رہی ہے اور اس کا کیا ارادہ ہے، اس نے سوچا۔ سرِ شام جب وہ ترائی سے گھوم کر واپس آیا تو اس کی ملاقات نیلم سے برآمدے میں ہوئی تھی۔ وہ اپنے کمرے کے آگے ستون سے کاندھا ٹکائے کھڑی تھی۔ سرمئی رنگ کا لباس بھی اس پر اچھا لگ رہا تھا، لیکن ساتھ ہی یہ رنگ نجانے کیوں کچھ اداسی بھی جگا رہا تھا۔ لپ اسٹک کا رنگ بھی آج خلاف معمول شوخ نہیں تھا۔ گیٹ سے داخل ہوتے ہی اس پر نظر پڑی تو مراد اسی طرف چلا آیا۔

    ’’آپ بہت پریکٹیکل آدمی ہیں۔ یہ کام ایسے ہی مزاج کے لوگ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔‘‘ نیلم نے اسے قریب آتا دیکھ کر کہا۔

    ’’شکریہ۔ ویسے حقیقت وہی ہے جو شاعر نے کہی ہے کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔‘‘ مراد نے ہنس کر کہا۔

    ’’نہیں، آپ واقعی بہت پریکٹیکل آدمی ہیں اور یہ اچھی بات ہے۔‘‘ وہ سنجیدہ تھی۔

    ’’نوازش!‘‘ مراد نے بھی سنجیدگی سے کہا اور پوچھا، ’’آپ کے شوہر کب تک پہنچ رہے ہیں؟‘‘

    ’’وہ نہیں آئیں گے، مجھے یقین ہے۔‘‘ یہ کہہ کر نیلم نے قہقہہ لگایا۔ پھر بولی، ’’اس لیے میں اب واپس جا رہی ہوں۔‘‘

    ’’ارے، مگر انھوں نے تو آج پہنچنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔‘‘

    ’’وہ تو انھوں نے آج بھی پورے جوش سے کل کے لیے کرائی ہے۔‘‘ اس بار نیلم کا قہقہہ زیادہ بلند اور طویل تھا۔

    مراد بھی ہنس دیا۔ ’’لیکن آج تو یہاں سے سفر کرنے کا دن نہیں ہے۔‘‘ اس نے شمال کی طرف سے اٹھتی گھٹاؤں کو دیکھ کر کہا۔

    ’’اسی لیے میں فوراً یہاں سے نکلنے کا سوچ رہی ہوں۔ ابھی چل دوں تو موسم کے بےقابو ہونے سے پہلے صحرا سے باہر نکل سکتی ہوں۔‘‘

    ’’میرا نہیں خیال کہ ہوا آپ کو اتنا وقت دےگی۔‘‘

    ’’ایک بار چل دوں تو پھر دیکھا جائےگا۔‘‘

    ’’میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آج نہ جائیے۔‘‘

    ’’اب رکنے کے لیے کچھ رہا نہیں۔‘‘ نیلم کا لہجہ سپاٹ تھا۔

    اتنی دیر میں ڈاک بنگلے کا ملازم مٹھل چائے کی طشتری اٹھائے ہوئے آ پہنچا۔ ساتھ ہی ایک رکابی میں بسکٹ اور دوسری میں پکوڑے بھی تھے۔

    ’’آئیے، چائے پی لیجیے۔‘‘ یہ کہہ کر نیلم کمرے کی طرف بڑھی۔

    ’’یہ آپ کے لیے ہے، آپ لیجیے، میں اپنے کمرے میں جاکر منگاتا ہوں۔‘‘ مراد نے بیگ کاندھے پر جمایا۔

    نیلم نے مڑ کر اسے دیکھا اور بولی، ’’چائے زیادہ ہے۔ آپ آسانی سے اس میں سے پی سکتے ہیں۔‘‘

    ’’زیادہ، مگر کیوں؟‘‘

    ’’اس وقت ایک کپ میں میرا گزارا نہیں ہو سکتا تھا، میں نے زیادہ منگوائی ہے۔‘‘ نیلم نے اطمینان سے جواب دیا، ’’پھر مجھے یہ بھی خیال تھا کہ آپ کی واپسی کا وقت ہو رہا ہے۔ آکر آپ بھی ضرور چائے پییں گے۔ اس لیے میں نے مٹھل سے کہا تھا چار کپ، یعنی آپ کی چائے بھی ساتھ ہی لے آئے۔ اس طرح آپ کے لیے بھی دو کپ چائے آ چکی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔

    ’’آپ کا شکریہ، مگر میں آپ کو پہلے ہی بتا دوں کہ میرے لیے ایک دم ڈیڑھ کپ سے زیادہ چائے پینا ممکن نہیں ہے۔‘‘ مراد نے ہنس کر کہا۔

    ’’آپ چاہیں تو ایک کپ پر بھی قناعت کر سکتے ہیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘‘ نیلم کا چہرہ بھی شگفتہ تھا۔

    وہ صوفے پر بیٹھ کر چائے بنانے لگی۔ مراد نے ڈریسنگ کے ساتھ رکھی کرسی کا رخ موڑا اور اس پر ٹک گیا۔

    ’’آپ یہیں صوفے پر آ جائیے نا آرام سے۔‘‘

    وہ اٹھ کر اس کے برابر آ بیٹھا۔ چائے کے دوران دونوں ایک دوسرے کے کام کی بابت پوچھتے اور اپنے اپنے کام کے بارے میں بتاتے رہے۔

    ’’میرا خیال ہے کہ اب آپ نہیں جا رہیں۔‘‘ مراد نے اٹھتے ہوئے کہا۔

    ’’میں سوچ رہی ہوں مجھے چلا جانا چاہیے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ۔۔۔ خیر دیکھتی ہوں۔‘‘اس نے کچھ سوچتے ہوئے کاندھے اچکائے۔

    اپنے کمرے میں آکر مراد نے قمیص اتار کر بستر کے سرھانے رکھی اور لیٹ گیا۔ چند منٹ سستا کر اٹھا اور نہانے چلا گیا۔ اتنی دیر میں موسم کا مزاج بدل چکا تھا۔ وہ آکر صوفے پر بیٹھا پھر فوراً ہی کھڑکی کی طرف گیا۔ گیٹ کے داہنی طرف کی پارکنگ میں نیلم کی گاڑی کھڑی تھی۔ اس نے پھر غور سے دیکھا اور مطمئن ہو گیا۔ ہوا میں اب مٹی کی خوشبو نمایاں ہو چکی تھی۔ وہ کرسی کھینچ کر وہیں کھڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ لیکن یہ عورت اس موسم میں بھی بے دھڑک واپسی کے سفر پر روانہ ہو سکتی ہے۔ اس نے خود سے کہا اور پھر اس کا ذہن ایک دم بہت سے خیالوں سے بھر گیا۔ ذرا سی دیر میں اس پر کچھ غفلت سی طاری ہو گئی۔ جب اسے دوبارہ دھیان آیا تو روشنی خاصی ماند پڑ چکی تھی۔ کھڑکی کی جالی سے ہوا کود کر کمرے میں اتر رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی ریت بھی۔ اس نے سوچا، اٹھ کر کمرے کی کھڑکیاں اور دروازہ بند کر دے، لیکن پھر رک گیا۔

    اچانک شام کا نارنجی رتھ سرمئی پردوں سے نکل کر اب رات کے تاریک آنگن میں اتر آیا تھا۔ موسم کی بدلی ہوئی صورت دیکھ کر مٹھل وقت سے پہلے شمع دان کو روشنی دکھانے چلا آیا۔ مراد نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ اسے لگا اندھیرے کے گولے جیسے آسمان سے برس رہے تھے۔ پھر ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور اس نے محسوس کیا کہ ڈھیر سارے اندھیرے کو سمیٹ کر اپنے ساتھ لے گیا۔ باہر اسے تاریکی کم ہوتی نظر آئی۔ شمع دان روشن کرکے مٹھل اسٹول سے اترا تو مراد نے اس سے کہا، ’’مٹھل ہوا کے ارادے آج کچھ ٹھیک نظر نہیں آ رہے۔‘‘

    ’’ہا صاب! آج ہوا میں بدلاؤ ہے۔‘‘ مٹھل نے تائید کی۔

    ’’اس کے پیچھے طوفان چلا آ رہا ہے مٹھل، بڑا زور دار طوفان۔‘‘

    ’’ہا صاب، ایسائی لگتائے۔‘‘ مٹھل نے کہا اور پھر اچنبھے سے بولا، ’’صاب! آپ صحرا کی ہوا کو پے چانتائے۔‘‘

    مراد مسکرایا، بولا، ’’میرا بچپن اسی علاقے میں گزرا ہے۔‘‘

    ’’ہاسائیں بروبر۔‘‘ مٹھل نے سر ہلایا۔ اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ ’’جبی آپ ایسا بولتائے۔‘‘

    مراد کا جی چاہا کہ وہ اس سے نیلم کا پوچھے، لیکن اس نے نہیں پوچھا۔

    مٹھل دروازے کی طرف بڑھا پھر رک کر اس نے پوچھا، ’’سائیں ابی آپ کو اور چائے لادوں؟‘‘

    ’’نہیں، تم نے اچھی چائے پلائی تھی اس وقت میڈم کے ساتھ۔ بس اب اور طلب نہیں ہے۔‘‘ مراد نے جواب دیا۔

    ’’خادم ہوں سائیں، جو حکم ہو۔‘‘ مٹھل نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

    ’’تم اچھے آدمی ہو۔‘‘ مراد نے مسکراکر اسے دیکھا۔

    مٹھل نے دوبارہ سینے پر ہاتھ رکھا اور اس بار گردن بھی خم کی، پھر وہ چل دیا۔ اسے دوسرے کمروں میں بھی شمعیں روشن کرنی تھیں۔

    مراد آکر مسہری پر بیٹھ گیا۔ دالانوں اور دریچوں سے ہوا شور کرتی ہوئی گزر رہی تھی۔ یکایک اسے لگا کہ جیسے کمرے کی چھت پر بڑے بڑے پروں اور بھاری بھرکم جسموں والے پرندوں کا کوئی غول آکر اترا ہے۔ اس وقت اور ایسی فضا میں پرندے نہیں ہو سکتے۔ مراد نے سوچا، یقیناًیہ سرکش ہوا کے تیور تھے۔

    کھڑکی کی جالیوں کے اس طرف پھر اندھیرے کا رنگ کچھ پھیکا سا ہو گیا تھا۔ مراد اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا۔ ہوا کے جھکڑ ڈاک بنگلے کی راہ داریوں میں فاتح فوج کے بدمست سپاہیوں کی طرح دندناتے ہوئے پھر رہے تھے۔ یہ آنے والے طوفان کا ہراول دستہ ہے۔ مراد نے خود سے کہا۔ موسم کے اس مزاج کو دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقل مند شخص اس وقت سفر کرنے کے لیے نکل سکتا ہے؟ نہیں۔ عقل مند تو کیا اس وقت کوئی بیوقوف شخص بھی سفر کا ارادہ نہیں کر سکتا، بلکہ سفر کرنے والے لوگ بھی اس صورت حال میں کوئی پناہ دیکھ کر ٹھہر جاتے ہیں اور موسم کے واپس اپنی جون میں آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس نے سوچا اور جیسے کچھ اطمینان محسوس کیا۔

    وہ خالی ذہن کے ساتھ اب بھی کھڑکی کے سامنے کرسی رکھے بیٹھا تھا۔ باہر اندھیرا بڑھ گیا تھا، جیسے کسی نے فضا میں کچھ سیاہی لاکر گھول دی تھی۔ یہ خالص سیاہی بھی تو نہیں ہے۔ مراد نے سوچا، اس میں مٹی کو بھی ساتھ ملایا گیا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہوا جو کبھی آسمان سے روئی کے کالے گولے اتارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور کبھی بڑے بڑے سرمئی غبارے زمین سے چھوڑتی نظر آتی ہے۔ یک بہ یک وہ اٹھا اور کمرے سے باہر آ گیا۔ گھڑی بھر دروازے کے سامنے رک کر اس نے موسم کی شدت اور کیفیت کا اندازہ کیا اور پھر نیلم کے کمرے کی طرف چل دیا۔

    راہ داریاں تاریک اور سونی تھیں۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ ان دنوں اس ڈاک بنگلے میں کتنے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس وقت تو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ تنہا تھا۔ ایک پل کے لیے تنہائی کا خوف سرد لہر بن کر اس کے پورے جسم میں سنسناتا ہوا گزرا۔ فوراً اسے نیلم کا خیال آیا۔ کم سے کم ایک فرد تو اس کے ساتھ اس وقت یہاں موجود ہے۔ اس نے سوچا اور اگر وہ جا چکی ہو تو؟ اس سوال نے اس کے دل کو یک لخت بوجھل اور جسم کو نڈھال کر دیا۔ اسے لگا جیسے اس کے پاؤں من من بھر کے ہو گئے اور وہ انھیں بڑی دقت سے اٹھا رہا تھا۔ کیا اس وقت کمرے سے نکلنا اور نیلم کو جا کر دیکھنا، سب بے کار ثابت ہوگا؟ سراسر ایک لاحاصل کاوش۔ اسے لگا جیسے اس کے قدم سست پڑ رہے تھے۔

    اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ اسے محض اندازے سے چلنا پڑ رہا تھا۔ اچانک اس کا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ گرتے گرتے بچا۔ پہلے کچھ سمجھ نہ آیا کہ وہ کیسے اور کس چیز سے ٹکرایا ہے؟ پھر فوراً ہی خیال آیا کہ یہ راہ داری کے حاشیے پر رکھا ہوا ماربل کا بڑا سا گملا ہوگا۔ اس نے ٹٹول کر دیکھا۔ وہ گملا ہی تھا۔ ٹھوکر اتنی شدید تھی کہ اس کے داہنے پاؤں کی انگلیاں اور انگوٹھا بری طرح درد کرنے لگے۔ وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ پاؤں ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا تھا۔ بس ایک ہیولا سا معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے چھو کر دیکھا۔ انگوٹھا اور اس کے ساتھ کی دو انگلیاں چھل گئی تھیں۔ ہاتھ لگاتے ہی جلن کا احساس ہوا۔ اسے فوراً ڈیٹول سے دھولینا چاہیے، اس نے سوچا۔ اس کے شیونگ بوکس میں ڈیٹول کی بوتل تھی۔ ایک لمحے کے لیے وہ تذبذب میں تھا کہ اٹھ کر واپس کمرے میں جائے یا نیلم کی طرف آگے بڑھے۔ پھر وہ اطمینان سے اٹھا اور آگے چل دیا۔

    اندازے سے اور ہوا میں ٹٹول ٹٹول کر آگے بڑھتے ہوئے وہ اب اس جگہ پہنچ گیا تھا جہاں سے اسے نیلم کے کمرے تک جانے کے لیے دائیں طرف مڑنا تھا۔ ایک لمحہ رک کر اس نے اندازہ لگایا کہ وہ اب واقعی مڑنے والے مقام پر ہے۔ اس کا خیال درست تھا۔ وہ راہ داری میں مڑنے والی جگہ پہنچ چکا تھا۔ اس کا اندازہ اس نے دو رخ سے پڑنے والے آندھی کے تھپیڑوں سے لگایا تھا۔ پھر اس نے ناپ ناپ کر قدم اٹھائے اور جلد ہی وہ دائیں طرف مڑ گیا۔ اب ہوا ایک طرف سے آ رہی تھی۔ چند قدم آگے بڑھ کر وہ رکا۔ اسے خیال آیا کہ یہاں اس سے غلطی ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ پہلے ہی اسے دیوار کی طرف ہو جانا چاہیے تھا اور کمروں کے دروازے گنتے ہوئے آگے چلنا چاہیے تھا۔ نیلم چوتھے کمرے میں تھی، لیکن کیا وہ پہلے کمرے کے دروازے سے گزر آیا تھا؟ اس سوال نے اسے الجھن میں ڈال دیا۔

    چک پھیری لیتی ہوا کا رخ اس راہ داری میں سیدھا ہو گیا تھا اور اب ہوا بہ راہِ راست اس کے سینے پر پڑ رہی تھی۔ مراد کو چلنے میں دشواری ہو رہی تھی۔ ناچتا ہوا ایک بگولا اچانک اس پر ریت چھڑکتا ہوا گزرا۔ چلتے ہوئے اس کے قدم بچلے اور پاؤں کی دکھن سرسراتی ہوئی پنڈلی تک چلی آئی۔ بیزاری سے اس کے قدم رک گئے۔ چند لمحے یا شاید چند صدیاں وہ اسی طرح ہوا کی زد پر خود سے غافل کھڑا رہا۔ پھر چونکا اور آہستہ آہستہ سرک کر دیوار کے قریب ہو گیا۔ ٹٹول کر دیکھتے ہوئے اسے اندازہ ہوا کہ وہ دروازے کے عین سامنے کھڑا تھا۔ یقیناًیہ پہلا دروازہ ہے۔ چلو، ذہن سے بوجھ ہٹ گیا، اس نے خود سے کہا اور نپے تلے قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ چوتھے دروازے پر تھا۔ دستک کے لیے ہاتھ بڑھایا، لیکن اس کا بڑھا ہو اہاتھ ہوا ہی میں معلق رہ گیا۔ کیا اس وقت اسے نیلم کے پاس۔ ایک تنہا عورت کے پاس آنا چاہیے؟ وہ کس رشتے سے اس وقت اس کے پاس آیا ہے؟ کیا ان دونوں کے درمیان ایسا کوئی رشتہ ہے؟ اس نے خود سے پوچھا۔ اندر گہری خاموشی تھی۔ دور تک گہرا سناٹا ہاں یا نہیں کے درمیان معلق تھا۔ دونوں سوالوں کا اسے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے انتظار کیا، مگر جواب ندارد۔ اس نے دوسرا سوال دہرایا۔ اندر باہر دونوں جگہ صرف ہوا کا شور تھا۔ تب اس نے سر جھٹکا اور آرام سے واپس مڑ گیا۔ ایک لمحہ تأمل کیا جیسے کسی اشارے کا منتظر ہو اور پھر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا واپسی کے راستے پر چل دیا۔

    کچھ دور چلنے کے بعد جب اسے ہوا دو سمتوں سے آتی محسوس ہوئی تو اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں سے اسے بائیں طرف اپنے کمرے کی راہ داری میں مڑنا ہے۔ اصل میں واپسی پر وہ دروازے شمار کرنا بالکل ہی بھول گیا تھا اور بے دھیانی میں یہاں تک چلا آیا تھا۔ جب دھیان آیا تب بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس راستے پر غلطی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے کہ مڑنے کے مقام پر دو سمتوں سے آتی ہوا باآسانی مڑنے کے مقام کا تعین کررہی تھی۔ یوں بھی اس واپسی کے راستے میں غلطی کا کوئی حساب کتاب، کوئی عذاب ثواب کچھ نہیں تھا۔ دو سمتوں سے آتی آندھی کے جھکڑوں کو سہارتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف مڑنے ہی والا تھا کہ عقب میں روشنی تیرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے اضطراری طور پر مڑ کر دیکھا۔ کچھ فاصلے پر ایک ٹارچ روشن تھی۔ اسے یوں لگا جیسے ٹارچ ہوا میں معلق ہے۔ ٹارچ کی روشنی اپنی جگہ سے ہلی اور ہوا میں روشنی کا چھوٹا سا ایک دائرہ بنا۔

    ’’ارے آپ!۔ کیا کر رہے ہیں اس وقت یہاں؟‘‘ یہ نیلم کی آواز تھی۔

    اسے کچھ سمجھ نہ آیا، کیا جواب دے۔

    وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آ گئی اور اپنا سوال دہرایا۔

    ’’کچھ نہیں، بس ایسے ہی۔‘‘ مراد نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔

    ’’ایسے ہی کیا بھئی؟ یہ تو کمرے میں بند ہوکر بیٹھنے کا وقت ہے۔ ایسے میں آپ اکیلے راہ داری میں کیوں کھڑے ہیں؟‘‘ نیلم کے لہجے میں تشویش تھی اور تجسس بھی۔

    ’’آپ بھی تو اس وقت کمرے سے باہر ہیں۔‘‘ مراد نے ہنس کر کہا۔

    ’’ہاں مگر میں تو یہ دیکھنے کے لیے نکلی تھی کہ اگر اس وقت موسم کو منہ چڑا کر چل دوں تو وہ میرا راستہ کھوٹا تو نہیں کرےگا۔‘‘ نیلم نے قہقہہ لگایا۔

    ’’ارے! اس وقت؟ عقل کے ناخن لیجیے۔‘‘

    ’’ناخن کیا، میں تو عقل کی پوری پوری انگلیاں لے لوں پر وہ ملتی کہاں ہے اور کس کام آتی ہے؟‘‘ اس بار قہقہہ زیادہ طویل تھا۔

    ’’ہا ہا ہا! آپ کمال کی خاتون ہیں۔ بہت زندہ دل۔‘‘

    ’’شکریہ، شکریہ۔‘‘ نیلم پھر ہنس دی اور بولی، ’’چلیے اب تو بتا دیجیے، آپ اس وقت کس مہم پر کمرے سے نکلے تھے؟‘‘

    ’’چہل قدمی کے لیے۔‘‘ مراد نے قہقہہ لگایا۔

    ’’واہ! پھر تو آپ بھی کمال کے آدمی ہیں۔‘‘ اس بار قہقہہ لگاتے ہوئے ٹارچ نیلم کے ہاتھ سے گری اور روشنی بند ہو گئی۔

    ’’ارے یہ کیا؟‘‘ مراد کی آواز میں تردد تھا۔

    ’’کچھ نہیں، ٹارچ ہاتھ سے چھوٹ گئی۔‘‘ وہ زمین پر بیٹھ کر ٹارچ کو ڈھونڈنے لگی۔ ’’اوووچ چ!‘‘

    ’’کیا ہوا؟‘‘ مراد نے تشویش سے پوچھا۔

    کوئی جواب نہ آیا۔

    ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ مراد نے پھر سوال کیا۔

    اسی لمحے زور دار کڑاکے کی آواز کے ساتھ آسمانی بجلی چمکی۔

    مراد نے دیکھا نیلم گھٹنوں اور کہنیوں کے بل زمین پر تھی۔ کچھ سوچے سمجھے بغیر اضطراری طور پر وہ اس کی طرف لپکا۔ اس کا ہاتھ نیلم کے کاندھے پر تھا۔ دوسرا ہاتھ بڑھاکر اس نے نیلم کو اٹھنے میں مدد دی۔

    نیلم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بولی، ’’ایک منٹ پلیز۔‘‘ وہ آگے جھکی اور اگلے لمحے اس کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’شکریہ۔ وہ اصل میں ٹارچ ڈھونڈتے ہوئے توازن قائم نہیں رہا تھا۔‘‘ اس کے ہاتھ میں ٹارچ پھر روشن ہو گئی تھی۔

    ’’چلیے مل گئی۔ بہت اچھا ہوا۔‘‘

    ’’میں تو اسے صبح تک ڈھونڈتی رہتی۔ وہ تو اوپر والے نے مدد کی اور عین اسی وقت اپنی لائٹ جلا کر مجھے دکھا دیا کہ یہ لڑھک کر کسی طرف چلی گئی ہے۔‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

    ’’ہاں، پھر تو واقعی صحیح وقت پر بجلی چمکی۔‘‘

    ’’اور یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ ٹارچ گری اور اس کا صرف بیک کور کھلا اور سیل اپنی جگہ سے ہٹ گیا۔ اب کور کو اپنی جگہ بٹھا کر کسا تو یہ فوراً جل گئی۔ گرنے سے اگر اس کا بلب ہی ٹوٹ جاتا تو بس پھر تو ٹائیں ٹائیں فش۔‘‘

    ’’کوئی نیکی کام آ گئی آپ کی۔‘‘مراد نے کہا۔

    ’’ہا ہا ہاہا! سوچنا پڑے گا میرے اکاؤنٹ میں ایسی کوئی نیکی کیسے آ گئی؟‘‘ اپنی بات پر نیلم نے خود ہی قہقہہ لگایا پھر بولی، ’’آپ کا کیا ارادہ ہے؟ چہل قدمی ہوگئی یا ابھی جاری ہے؟‘‘

    ’’ہو چکی۔‘‘

    ’’یعنی اب آپ کمرے میں جا کر سکون سے بیٹھ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے تو چلیے پہلے آپ کو کمرے تک لے چلتی ہوں۔‘‘

    ’’لیکن اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    ’’یہ تکلف اس لیے کہ آپ کے پاس کوئی ٹارچ نہیں ہے۔‘‘

    ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں یوں بھی کمرے تک پہنچ سکتا ہوں، وہ سامنے تو ہے۔‘‘ مراد نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اور اب اگر آپ کی یاترا مکمل ہوگئی ہے تو آپ بھی اپنے کمرے کی طرف جائیے، میں آرام سے چلا جاؤں گا۔‘‘

    ’’اندھیرے میں آپ کو مشکل ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سر جھٹکا اور بولی، ’’شاید میں یہ بحث خواہ مخواہ کررہی ہوں۔ مجھے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ میرے آنے سے پہلے یہاں اس گھور اندھیرے میں مزے سے مٹر گشت کر رہے تھے۔‘‘

    مراد ہنس دیا۔

    ’’چلیے خیر، پھر بھی میں آپ کو کمرے تک لے چلتی ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ مراد نے قطعیت سے کہا، ’’اچھا ایسا کرتے ہیں، آپ اپنے کمرے کی طرف چلیے اور میں اپنے کمرے کی طرف۔ آپ یہیں سے مجھے روشنی دے کر راستہ دکھاتی رہیے، میرے لیے اتنا ہی کافی ہوگا۔‘‘

    ’’آپ مردوں کی انا بہت بے تکی ہوتی ہے۔‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولی، ’’چلیے، ٹھیک ہے۔‘‘

    دونوں اپنے اپنے راستے پر ہو لیے۔

    کمرے میں داخل ہو کر مراد ابھی کرسی تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ بادل زور سے کڑکا۔ پل بھر کے لیے آسمانی بجلی سے کمرہ چکا چوند ہوا اور ساتھ ہی موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ اس کا دل ایک دم جیسے بہت پرسکون اور مطمئن ہو گیا۔ اب تو اسے سفر کا ارادہ صبح تک ملتوی کرنا ہی پڑےگا۔ اس نے سوچا اور مسکرا دیا۔ شمع دان کی روشنی بہت مدھم تھی، پھر بھی کمرے میں سب کچھ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ آکر آرام سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ ذہن بالکل خالی تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ موڑ کر پیچھے گدی پر رکھے اور سر کو ان پر ٹکا لیا، پھر ٹانگیں بھی پھیلا لیں۔ ذراسی دیر میں اسے غفلت سی ہو گئی۔ کچھ دیر بعد چونکا اور اٹھ کر بستر پر آ گیا۔ بارش مسلسل ہو رہی تھی۔ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔

    جاگ کر جس چیز کو اس کے ذہن نے سب سے پہلے محسوس کیا وہ گہری خاموشی تھی۔ اس کا مطلب ہے، بارش رک چکی ہے۔ اس نے خود سے کہا۔ لیٹے لیٹے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ اندھیرا کچھ کم محسوس ہوا۔ وہ خالی ذہن کے ساتھ دیکھتا رہا۔ اندھیرا اچانک پھر گہرا محسوس ہونے لگا۔ اس نے آنکھیں موند لیں۔ ذرا دیر بعد کروٹ بدلی، لیکن نیند جیسے بالکل ختم ہو چکی تھی۔ کچھ دیر وہ یوں ہی لیٹا رہا۔ پھر اٹھا اور کھڑکی کے پاس آ کھڑا ہوا۔ باہر اب بھی اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ نگاہ دو قدم نہ جا سکتی تھی۔ ذرا دیر میں اسے لگا اندھیرے کی چادر میں چھید پڑنے لگے ہیں۔ نگاہ لیکن اب بھی زیادہ آگے تک نہیں جا پا رہی تھی۔ پھر بھی اس نے نظر جما کر غور کیا اور اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ نیلم کی گاڑی اپنی جگہ نہیں تھی۔ یک بہ یک اس کی نظر دھندلا گئی۔ اس نے آنکھیں مل کر پھر دیکھا تو دائیں ہاتھ پر گاڑی کا ہیولا سا محسوس ہوا۔ اس نے خود سے پوچھا، اگر وہ چلی گئی تو؟ ایک لمحہ تأمّل کیا پھر پوچھا اور اگر نہیں گئی تو؟

    دونوں میں سے کسی سوال کا جواب اسے نہیں ملا۔

    باہر اندھیرا اور کمرے میں سناٹا ناچ رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے