Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مریخ کا سفر

وسیم حیدر ہاشمی

مریخ کا سفر

وسیم حیدر ہاشمی

MORE BYوسیم حیدر ہاشمی

    جس روز سے یہ خبر آئی ہے کہ مریخ پر بھی ہم جیسی ہی مخلوق آباد ہیں، ساری دنیا میں خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ رکشہ والے سے لے کر پروفیسر اور سائکل کا پنچر بنانے والے سے ہوائی جہاز بنانے والے تک، گو کہ ہر کس و ناکس ایسا مسرور نظر آ رہا تھا جیسے مدتوں بعد بچھڑے عزیز سے دوبارہ ملنا ممکن ہو گیا ہو۔ اس خبر سے اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن والوں کی بھی خوب بن آئی تھی۔ روز خبروں سے نئی نئی خبریں پیدا ہو رہی تھیں۔ اس سلسلہ کی جو سب سے اہم خبر آئی، وہ یہ ہے کہ امریکہ، روس، جرمنی، برطانیہ، جاپان، فرانس اور چین والے مشترکہ طور پر ایک خلائی طیارے کے ذریعہ مریخ کے سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ خبر تمام دنیا کے لیے تو باعث مسرت تھی ہی مگر اس وقت ہمارے ملک کی خوشی کا بھی ٹھکانا نہ رہا جب اس وفد میں بھارت کا نام بھی شامل کر لیا گیا۔ آج تمام ہندوستانیوں کو حقیقی معنیٰ میں اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ ہمارے ملک نے سائنس کے میدان میں بھی ترقی کی ہے۔ اب تمام دنیا سمیت بھارت والوں کو بھی انتظار تھا تو صرف اس بات کا کہ وہ خلائی طیارہ مریخ پر جائےگا کب؟ کچھ عرصہ بعد ہی وہ خلائی طیارہ بھی تیار کر لیا گیا جس سے اس وفد کو مریخ کا سفر کرنا تھا۔ جانچ پرکھ کی تمام منزلوں سے گزر جانے کے بعد اس طیارے کی پرواز کی تاریخ بھی طے کر دی گئی۔ طیارے کے سلسلہ سے ہر خبر لگاتار اخبار، ریڈیو اور ٹِلیویژن پر آرہی تھیں مگر اب تک یہ خبر نہیں آئی تھی کہ اس تمام سفر کو ٹیلیویژن سے سیدھے دکھایا جائےگا یا نہیں۔ ہر شخص کے دلوں میں اب صرف یہی ایک خلش باقی رہ گئی تھی۔ جب دنیا کے بیشتر ممالک سے یہی مطالبہ کیا جانے لگا تو اس سفر کے آغاز سے صرف تین روز قبل یہ خبر بھی شائع ہو گئی کہ مریخ کے ان مسافروں کی ہر حرکات و سکنات سیدھے، گھریلو ٹیلیویژن سٹوں پر دکھائی جائیں گی۔ اب عوام کو انتظار تھا تو اس معینہ تاریخ کا جس دن وہ خلائی طیارہ اپنے سفر کے لیے روانہ ہونے والا تھا۔

    ہندوستانی وقت کے مطابق شب کے تقریباً ڈھائی بجے امریکہ کے ایک اسپیس اسٹیشن سے اس خاص طیارے کو مریخ کے لیے اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ ملک کے بیشتر عوام آج کی رات اپنے ٹیلی و یژن سِٹ سے آنکھیں گڑائے، پورے طور پر شب بیداری کے لیے تیار تھے۔ ٹیلی ویژن سِٹ پر طیارے اور اس کے مسافروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرائی جا رہی تھیں۔ آخر وہ وقت بھی آہی گیا جس کا انتظار تمام دنیا کو بڑی بے صبری سے تھا۔ انسانی کرشمہ سازیوں کے وہ شاہکار طیارہ، برق دم رفتار سے صدر فضا کو چیرتا، شعلوں کے انتشار سے ذرے کو آفتاب کا ہمسر بناتا اور ہر انسداد راہ کا منہ موڑتا ہواس وسط فضا میں زندگی کا ولولہ اور آغوش آہنی میں کئی آدمیوں کو لیے ہوئے زمین کی تاریخ میں ایک نیا باب ہی نہیں کھولا تھا بلکہ اسرار کائنات کی محراب کے بھی در کھول دیے تھے۔ اپنی ان کارگزاریوں کے ساتھ انسان مزید لائق صد ناز بن گیا۔ پوری دنیا مسرت کے عالم میں جھوم رہی تھی۔ ہر طرف فتح و ظفر کے نعرے بلند تھے۔ اس وقت کسی کے ذہن میں بھی یہ نہ تھا کہ یہ کام امریکہ، روس، چین یا جاپان کا ہے بلکہ انسان کو فخر تھا کہ یہ عظیم کام اس نے کیا ہے جبکہ اس طیارے میں بیٹھے اشخاص کا ماننا تھا کہ یہ کام چند ملکوں کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ اس میں سب سے اہم کردار اس کا ہے اور روس کا خیال تھا کہ اس کا۔ چین، جاپان، جرمنی، برطانیہ اور بھارت،گو کہ کسی کی بھی سوچ اس سے مختلف نہ تھی۔ یہ اختلاف مشترکہ طور پر یکسانیت رکھتا تھا۔

    مختلف فضاؤں اور خلاؤں کا سینہ چیرتا ہوا یہ طیارہ منزل مقصود کی طرف رواں تھا۔ ایک ہفتہ بعد یہ خبر آئی کہ کل وہ طیارہ مریخ پر اترےگا۔ اس خبر کی حقیقتوں سے ہمکنار ہونے کی خاطر بہت سے شوقین لوگوں نے تو اپنے اپنے کاروبار تک بند کر دیے تھے جبکہ بہت سے ملازم پیشہ لوگوں نے چھٹیاں لے لی تھیں کیوں کہ اس طیارے کے مریخ پر اترنے کا منظر بھی سبھی ٹیلی ویژن سٹوں سے دکھایا جانے والا تھا۔ معینہ وقت پر تمام دنیا نے اپنے ٹِلیویژن سِٹ کھول دیے اور ان کی آنکھیں ’اپنے‘ طیارے کو تلاش کرنے لگیں۔ چند منٹوں بعد ہی وہ طیارہ ٹیلیویژن کے پردے پر نظر آنے لگا جس کا انتظار پوری دنیا کو تھا۔ وہ طیارہ مریخ کی فضاکا چکر لگا رہا تھا۔ شاید اسے اترنے کے لیے کسی مناسب مقام کی تلاش تھی۔ اچانک ٹیلی و یژن کے پردے پر آٹھ عدد طیارے اور بھی نظر آنے لگے۔ وہ سب دیکھنے میں اڑن طشتری جیسے لگ رہے تھے۔ ان طیاروں کا انداز ایسا ہی تھا جیسے انہوں نے ہمارے طیارے کا محاصرہ کر رکھا ہو اور اسے اپنی مرضی کے مطابق کسی خاص سمت میں لے جانا چاہتے ہوں۔ ٹیلی ویژن والوں کی کمنٹری سے بھی یہی ظاہر ہو رہا تھا جیسے یہ طیارہ مریخ والوں کی قید میں آ گیا ہو۔ خدا وند کریم کے وجود سے تقریباً منکر ہو چکے اس طیارے پر سوار ہر سائنسداں کی زبان پر اپنے تحفظ کی دعائیں تھیں۔ ان حالات میں کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مریخ والوں سے نجات کیسے حاصل کرے۔ خدا خدا کر کے انہیں ایک مسطح زمین پر بخیریت اتار لیا گیا اور طیارے کا دروازہ کھلنے سے قبل ہی مریخ والوں نے اس طیارے کا محاصرہ کر لیا۔ طیارے کا دروازہ کھلنے کے بعد اس میں سے سبھی خلاباز باہر نکل آئے۔ سب کے سر جھکے ہوئے تھے۔ مریخ والوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر ان کا تعارف چاہا تو سب سے پہلے امریکن سائنس داں نے آگے بڑھ کر کہا۔

    ’’مریخ کے محترم باشندوں! میں امریکہ کا باشندہ ہوں اور آپ لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کے خاموش ہوتے ہی دوسرے نے اپنا تعلق سر زمین روس سے ظاہر کیا تو کسی نے خود کو برطانوی، جاپانی اور ہندوستانی بتایا۔ انہیں میں سے ایک شخص کے تنگ دہانے سے باریک سی آواز آئی کہ ہمارا وطن چین ہے۔ سب کا انداز فخریہ تھا۔ مریخ والے چند لمحہ ان تمام لوگوں کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ ان کے اس بے ہنگم تعارف پر مریخ والوں میں سے ایک نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا۔

    ’’آخر یہ کیا مذاق ہے؟ دیکھنے میں تو تم سب ایک جیسے ہو پھر بھی نفاق رکھتے ہو۔ جن مقامات کے نام تم لوگوں نے ابھی اپنے تعلق سے لیے ہیں، وہ سب کن صبح و شام سے وابستہ ہیں؟ کیا یہ سیارے شمسی نظام سے الگ ہیں۔۔۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم لوگ وہ ’آدمی‘ ہو جن کا تعلق ’زمین‘ سے ہے؟ یعنی اشرف المخلوقات ہو۔‘‘ یہ سن کر زمین والے بہت شرمندہ ہوئے اور قدرے انکسار کے ساتھ کہنے لگے۔

    ’’اپنا تعارف کرانے میں شاید ہم لوگوں سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔ ہم دوبارہ اپنا صحیح تعارف کراتے ہیں۔ بات دراصل یہ۔۔۔!‘‘ بات ختم ہونے سے قبل ہی مریخ کا ایک باشندہ بھڑک اٹھا مگر اپنے غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے کہنے لگا۔

    ’’تمہارے متکبرانہ کلمات سے ہی ہمیں تمہارا تعارف مل گیا ہے۔ تم سب امریکہ، روس، چین اور جاپان وغیرہ سے نہیں بلکہ یقیناً زمین نام کے سیارے سے آئے ہو۔ ایسی نیچ اور غلیظ ذہنیت رکھنے والے بلا شبہ زمین نام کے سیارے سے ہی وابسہ ہو سکتے ہیں، جہاں پیار پر نفرت حاوی ہے۔ یہ جھوٹ ہے کہ تم فہم و فراست میں برتر ہو بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تم سب صداقت گریز ہو۔ تم سب وہی ہو نہ جس نے تمام زمین پر مصنوعی لکیریں کھینچ کھینچ کر ملک و مکان بنا لیے ہیں اور تمھارے تکبر نے ایک دوسرے کو آپس میں جدا کر رکھا ہے۔ حقیقتاً یہ لکیریں تم سب نے آدمیت کی جبینوں پر کھینچی ہیں۔ تم نے کبھی آنکھ کھول کر اپنی زمین پر نظر کی، جہاں افلاس، بھوک، جنگ، تباہی، ہوس، غرور، نفرت، فریب، ظلم اور بیماریاں، فتنہ و فساد کا ہی بول بالا ہے۔ جو لوگ ان غموں کی آنچ میں تپ رہے ہیں کیا وہ تمھارے جیسے ہی نہیں؟ کیا انھیں زندگی کا حق نہیں؟تم لوگوں کے لہو کا رنگ لال نہیں ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر تم لوگوں کو ان کی تباہی کا احساس کیوں نہیں؟ تمھیں انسانیت کی فضیلتوں تک کا پاس کیوں نہیں۔ تمھاری زمین وہی ہے نہ جہاں حق پرست عیسیٰؑ جیسے معصوم پیغمبر کو تم لوگوں نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ بادشاہت کی لالچ میں رامؔ جیسے فرشتے سے چودہ برس تک جنگلوں کی خاک چھنوائی گئی۔ حسینؑ جیسے معصوم فرشتہ سمیت ان کے تمام دوستوں اور رشتہ داروں کو دھوکہ سے مہمان بناکر بلایا اور تین دنوں تک بھوکا پیاسا رکھ کر سب کو جانوروں کی مانند کاٹ کر پھینک دیا ۔ جب اتنے سے بھی تمھیں تسکین نہ ہوئی تو ان کے چھ ماہ کے بھوکے پیاسے بچے تک کو تیر مار کر ہلاک کر دیا۔ اے ذلیل مخلوق، اب یہ بتاؤ کہ یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘

    ’’عالی جناب، ہم لوگ بس آپ سے ملنے کی غرض سے آئے ہیں۔‘‘ بمشکل تمام وہ اتنا ہی کہہ سکا تھا۔

    ’’جھوٹ، ایکدم چھوٹ۔ خودغرضی اور مکاری تو تم لوگوں کی شریانوں میں لہو بن کر دوڑ تی ہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ انسانیت کے برعکس تم سب کو چند تخریب کار مشینوں پر ناز ہے۔ تمھاری سانسوں سے بوئے تنفر آتی ہے۔ اے نام نہاد انسانوں، تم بے غرض کبھی اپنے دوست اور رشتہ دار سے ملنے تو جاتے نہیں پھر ہم سے۔۔۔! ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ تم لوگ ہماری فضاؤں سے پاکیزگی اورمحبت کے نغمے لوٹ کریہاں بھی نفرت کے بیج ڈالنے آئے ہو۔ تم سب تو ایسے مجرم ہو کہ تمھاری گردنیں ہی اڑا دی جائیں یا پھر کم از کم ہاتھ پانوں باندھ کر کوڑے لگائے جائیں۔‘‘ مریخ والوں کا انداز ایسا فیصلہ کن تھا کہ زمین والے تھرتھر کانپتے ہوے ان سے رحم کی بھک مانگنے لگے۔

    ’’اے پاک اور مقدس لوگوں، خدا کے واسطے ہمیں معاف کر دو۔ ہم پر رحم کرو۔۔۔ خدا کے واسطے۔۔۔!‘‘ اس کے آگے ان کے منہ سے کچھ نہ نکل سکا۔

    ’’تم اس لائق تو نہیں ہو کہ تمھیں کائنات کا کوئی بھی قانون معاف کرے۔ انسانیت کا لبادہ اوڑھ کر تو تم گھومتے ہو مگر انسانیت کے نام پر ہم تمھیں معاف کرتے ہیں۔‘‘ اتنا کہہ کر مریخ والوں نے حقارت سے اپنے منہ دوسری جانب پھیر لیے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے