aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

متھن

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    فنکار کی ناقدری اور اس کے استحصال کی کہانی ہے۔ کیرتی ایک آرٹسٹ کی بیٹی ہے جس کے بنائے ہوئے فن پاروں کو مگن لال کوڑیوں کے مول خریدتا ہے اور انہیں سیکڑوں ہزاروں روپے میں فروخت کرتا ہے۔ کیرتی کی ماں اسپتال میں بھرتی ہوتی ہے، اسے آپریشن کے لئے پیسوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وقت بھی مگن لال اپنے استحصالی رویہ سے باز نہیں آتا اور وہ سیکڑوں روپے کی مورتی کے صرف دس روپے دیتا ہے۔ مگن لال کیرتی کو شہوانی مورتیاں بنانے کےلئے اکساتا ہے اور کیرتی اس سے وعدہ کرکے چلی جاتی ہے۔ اس دوران کیرتی کی ماں مر جاتی ہے۔ کیرتی جب اگلی مرتبہ متھن لے کر آتی ہے تو اس سے ہزار روپے کا مطالبہ کرتی ہے جس پر تکرار ہوتی ہے۔۔۔ مگن جب متھن کو دیکھتا ہے تو اس میں بنی ہوئی عورت کے پردے میں کیرتی کو دیکھ لیتا ہے۔ جس پر وہ اپنے شک کا اظہار کرتا ہہے تو کیرتی اس کے منہ پر تھپڑ مار کر چلی جاتی ہے۔ مرد کا رویہ ایک کمزور عورت کو کس طرح طاقت ور بنا دیتا ہے، یہی اس کہانی کا خلاصہ ہے۔

    بازار ہی لمبا ہو گیا تھا اور یا پھر کاروبار چھوٹا معلوم ہوتا تھا۔ پچھم کی طرف جہاں سڑک تھوڑا اٹھتی، آسمان سے لپٹتی اور آخر ایک دم نیچے گر جاتی ہے، وہیں دنیا کا کنارہ ہے جہاں سے ایک جست کر لیں گے، اس جینے کے ہاتھوں مر لیں گے۔

    دن بھر سر دھننے کے بعد مگن ٹکلے کباڑیے کو دو ہی چیزیں ہاتھ لگی تھیں۔ ایک فلورنٹین اور دوسری جیمنی رائے۔ فلورنٹین کو تو شاید کوئی سر پھرا فلم پروڈیوسر کرایے پر لے بھی جاتا، مگر جیمنی رائے؟ کوئی بات نہیں۔ آج وہ اسے چھپا کر رکھے گا تو کل اس کے پوتے پڑپوتے اس سے کروڑوں کمائیں گے، جیسے آج بھی پچھم میں کسی کے ہاں سے لیورنارڈو کے اسکیچ نکل آئیں تو آرٹ کے بازار میں ان کی بولی لاکھوں تک جاتی ہے۔ ان لاکھوں کروڑوں کے خیال ہی سے مگن لال کی آنکھوں میں بجلیاں کوندنے لگیں اور وہ یہ بھول ہی گیا کہ وہ چالیس سال کا اور ٹکلا۔۔۔ گنجا ہونے کے باوجود کنوارا ہے، اس لئے پوتوں اور پڑپوتوں کی بات ہی نہیں۔

    مگن کرتا بھی کیا؟ وہ ایک عام ہندو تھا، اتنے بڑے فلسفے کا مالک ہونے کے باوجود جس کے اندر کا بنیاپن نہیں جاتا، وہ باتوں میں مایا اِت آدِ کہہ کر اسے پرے دھکیل دیتا ہے لیکن بھیتر سے اسے جی جان سے لگاتا ہے۔ دنیا بھر میں پیسے کی اگر کوئی پوجا کرتا ہے تو ہندو۔ آج بھی اس کے ہاں دیوالی کے روز پرات کے نیچے، جیوتی کے ساتھ، دودھ پانی میں نہایا، سندور میں لگایا ہوا روپیا ملے گا۔ دسہرے کے دن اس کی گاڑی پہ صد برگ کے ہار ہوں گے اور سب نر ناری مل کر لکشمی کے مندر کو جائیں گے۔ پوجا کے لئے، پیسے کے لئے تو وہ یوسف سابَر اور پدمنی ایسی پتنی کو بھی بیچنے کے لئے تیار ہو جائے۔

    اور سامنے تھا سراجا۔۔۔ ایوزبیٹری کا ایجنٹ۔ اس کی دکان تھوڑا پیپل کے گھیرکے پیچھے چھپی ہوئی تھی، لجلجے ہندو جس پہ صبح کے وقت آکر پانی میں ملے دودھ کے لوٹے ڈال جاتے تھے اور دکان اور سڑک کے بیچ کی جگہ کیچ سے اَٹ جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے سراجو کو لجلجے ہندوؤں کی اس رسم کا احترام کرنا ہی پڑتا تھا، البتہ نہیں کرتے تھے تو دوغلے کتے جو دن بھر ٹانگ اٹھا اٹھا کر اس پیڑ پہ پیشاب کرتے رہتے تھے، جس کے بارے میں بھگوان نے کہا تھا۔۔۔ اور ورکشوں میں میں پیپل ہوں۔ ضرور وہ پچھلے جنم میں مسلمان ہوں گے جو سینتالیس کے فسادوں میں ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گئے۔

    سراجا ہمیشہ پیپل کی گولریں کھاتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی وجہ بازار کا مندا ہونا یا بھوک نہ تھی۔ سراجا ہر اس چیز کو کھاتا تھا جو اس کی منی کو مغلظ کر دے۔ ہاں، مسلمان لنگ کٹوں کا یہی ہے نا۔۔۔ کھانا، پینا اور سمبھوگ کرنا۔ وہ دماغی طور پر کوئی ہو بو، کوئی خانہ بدوش ہیں، جو ہندوستان میں رہیں تو پاکستان کی باتیں کریں گے۔ پاکستان میں ہوں گے تو۔۔۔ میرے مولا بلا لو مدینے مجھے۔ انہیں کسی چیز سے لگاؤ نہیں، مگن ٹکلے نے کئی بار اس بارے میں سوچا بھی۔۔۔ ان کا اللہ خوب عیش کرتا ہے۔ ایک اپنا بھگوان ہے، جو نیچے کے بجائے اوپر ترکٹی کے آس پاس ہی منزل ہوتا رہتا ہے۔

    شاید سراجا جانے بوجھے بنا ایک تانترک تھا جو بند دُرکھشا کے لئے کنڈنسی کو جگاتے اور اوپر کا راستہ بناتے تھے۔ وہ عورت کے اندر اکڑے پڑے رہتے، لیکن کسی طرح اپنے جو ہر حیات کو نہ جانے دیتے۔ نجات کو اس خود غرضانہ طریقے سے پانے والوں، عورت کوصرف ایک ذریعہ بنانے والوں نے کبھی یہ سوچا کہ اس بیچاری کی کیا حالت ہوتی ہوگی؟ اسے بھوکا، پیاسا، روتا، تڑپتا رکھ کر کیسے موکش کو پہنچ سکتا ہے کوئی؟ کس پرماتما کو پا سکتا ہے؟ پھر جو نجات بندو سے چھٹکارا پالینے میں ہے۔۔۔ پرش کے لئے، استری کے لئے؟ سواتی بوند توموتی نہیں، نہ سیپی موتی ہے، موتی تو بوند کے گرنے اور سیپی کے اسے اپنے اندر لے کر منہ بند کر لینے میں ہے۔

    رات لپک آئی تھی۔ باہر وہ دنیا کا کنارہ اندھیرے کے ساتھ کچھ اور بھی پاس رینگ آیا تھا۔ ریشم والے ولایتی رام، کشمیری بڈشاہ، حتی کہ اڈپی کے چکر پانی کی دکان بھی بند ہو گئی تھی۔ ہو سکتا ہے مہینے کا دوسرا سنیچر ہونے کی وجہ سے اس کے سب اِدلی دو سے، سانبر رواکسری بک گئے ہوں۔ صرف سراج کی دکان کھلی تھی۔ نہ جانے وہ کس مار پہ تھا؟ شاید اس لئے کہ بیڑی کی ضرورت رات ہی کو پڑتی ہے، مگر وہ صبح، صبح کاذب ہی کو دکان کھول لیتا تھا، جو رات ہی کا حصہ ہوتی ہے، اس کا آخری حصہ۔ ورنہ صبح کہاں کس کی رہی، وہ کمیونسٹوں کی ہولی۔ شاید سراج ٹورسٹ ایجنٹ مائیکل کی انتظار میں تھا تاکہ وہ دونوں مل کر اگلے روزکہیں آگرے کھجوراہو کا پروگرام بنا لیں، تھوڑے پیسے کمالیں۔ نہیں، سراج پیسے کے پیچھے تھوڑا جاتا تھا؟ وہ تو جاتا تھا ان پچھمی عورتوں کے پیچھے جو کثیر الازدواجی کی وجہ سے بھوکی پیاسی آتی تھیں اور یہاں آکر ممتاز کی محبت کو ادھر کے کسی بھی شاہجہاں طبیعت والے مرد پہ آزماتیں اور کھجوراہو کے متھن کو زندہ کرتی تھیں۔

    جبھی سراج کی آواز نے مگن لال کو چونکا دیا، ’’ہیلو، سویٹی پائی۔۔۔‘‘ سراج تقریبا اَن پڑھ تھا، مگر ٹورسٹوں کے ساتھ رہنے سے اتنی انگریزی سیکھ گیا تھا۔ اس کی آوازسے مگن سمجھ گیا، کیرتی آئی ہے۔ وہ سچ مچ کیرتی ہی تھی، جو چھوٹے قد، گٹھے ہوئے بدن اور موٹے نقوش والی ایک اداس لڑکی تھی۔ اس کا رنگ پکا تھا۔ پھر اوپر سے جامنی رنگ کی دھوتی پہن رکھی تھی۔ جب وہ آئی تو یوں لگا جیسے اندھیرے کا کوئی ٹکڑا متشکل ہو کرسامنے آگیا۔ وہ ہمیشہ رات ہی کو آتی تھی، جیسے اسے اپنا آپ چھپانا ہے اور شاید اسی لئے سراجو کی دکان کھلی تھی، وہ ہمیشہ کی طرح سے اس کی طرف دیکھے، اس سے بات کیے بغیر نکل آئی تھی۔ اس کے باوجود سراج سیٹیاں بجا رہا تھا۔

    مگر کیرتی بات ہی کہاں کرتی تھی اس سے، اس سے، کسی سے بھی نہیں۔ اس سے بات کرنے کے لئے سوال کچھ یوں وضع کرنے پڑتے تھے کہ ان کا جواب ہاں ہو یانہ ہو۔ صرف اوپر سے نیچے یا دائیں سے بائیں سر ہلانے سے بات بن سکے۔ سراج کا اسے چھیڑنا مگن کو بہت ناپسند تھا۔ اس نے کئی بار مگن سے کہا بھی تھا۔۔۔ تو کہیں عشق کے چکر میں تو نہیں پڑ گیا؟ جوان لڑکی ہے۔ کھینچ ڈال۔ بہت ادھر ادھر رہالکے کبوتر کی طرح سے تو وہ اڑ جائےگی۔ لیکن مگن نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔

    درحقیقت مگن ٹکلے کا دھندا سد باب ہوتا تھا۔ کیرتی کوئی لکڑی کا کام یا شلپ بنا کر بیچنے کی غرض سے اس کے پاس لاتی تو وہ اس میں بہت کیڑے نکالتا۔ کبھی کہتا ایسی چیزوں کی آج مانگ ہی نہیں اور کبھی یہ کہ وہ فن کے معیار و محک پہ پوری نہیں اترتیں۔ کیرتی اور بھی منہ لٹکا لیتی حالانکہ ان سب باتوں سے مگن لال کا ایک ہی مقصد ہوتا کہ وہ سوکی چیز پانچ دس میں دے دے اور پھر یہ اسے سیزن کر کے سیکڑوں میں بیچے۔

    کیرتی نے یہ کام کسی آرٹ اسکول میں نہ سیکھا تھا۔ اس کا باپ نارائن ایک شلپی تھا جو بھاؤ داجی اور جیمز برگس وغیرہ کے ساتھ نیپال اور جانے کہاں کہاں کہاں ہندوستان کی وراثت کو ڈھونڈتا پھرا تھا جوکہ در اصل لندن کے میوزیم، نیویارک اور شکاگو کی انیٹق کی دکانوں میں رل رہی تھی۔ ہر سال ہمارے مندروں اور صنم خانوں سے سیکڑوں مورتیاں غائب ہوتیں، اور ہزاروں میل دور کیوریو وغیرہ کی دکانوں میں جگہ پاتیں۔ نارائن مسلسل سفر سے تنگ آکر لوٹ آیا تھا اور گھر ہی میں شلپ بنانے شروع کر دیے تھے جنہیں کیرتی بڑے انہماک سے دیکھتی رہتی تھی اور بیچ میں اوزار پکڑانے اور رف ورک کرنے میں باپ کی مدد بھی کرتی تھی۔

    یوں گھر بیٹھ جانے میں نارائن اس بات کوبھول ہی گیا کہ کھویا ہوا ورثہ پائے ہوئے سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کے دوگنے چوگنے ہی نہیں سو گنا دام ملتے ہیں۔ شاید وہ جانتا بھی تھا لیکن وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو پیسے کی ماہیت کو سمجھ جاتے ہیں اور زندگی کے پھیلاؤ میں نہیں دیکھتے۔ وہ شلپ بناتا اور مشکل سے روٹی کماتا تھا۔ آخر ایک دن دو روٹیوں کے درمیان اس کی موت واقع ہو گئی۔

    وہ جگدمبا کا بت بنا رہا تھا جبکہ اس کا اپنا ہی چنرل اس کے ہاتھ میں لگ گیا جس سے اسے ٹیٹانس ہو گیا اور وہ قریب کے چھاؤنی کے اسپتال میں مر گیا۔ کہتے ہیں وہ کتے کی موت مرا۔ کیوں نہ ایسی موت مرتا؟ جب وہ دیوی کا بت بناتا تھا تو دنوں مہینوں اس کی چھاتیوں، اس کے کولہوں اور رانوں پہ ٹھہرا رہتا۔ چھوٹے شلپوں میں تو چھاتیاں خلا میں گھومتے ہوئے لٹو معلوم ہوتی تھیں، لیکن بڑوں میں ٹانگیں اور ٹارسو ایک طرح کی گھڑونچی تھے۔ اصل بات وہ دودھ کے بڑے بڑے مٹکے تھے جو اس پہ رکھے ہوتے تھے اور کولہے ہتھنی کے ماتھے کی طرح سے جس کے نیچے سے ایک کی بجائے دو سونڈیں نکلتی تھیں۔ اس نے درگا کا شلپ بھی بنایا تھا جو بڑی جبر جنگ دیوی ہے۔ ایسی دیویوں کے بدن بناتے ہوئے نارائن کتے کی نہیں تو کیا ہماری آپ کی موت مرتا؟

    ’’کیا لائی ہو؟‘‘ مگن ٹکلے نے کیرتی سے پوچھا۔ کیرتی نے اپنی دھوتی کے پلو سے لکڑی کا کام نکالا اور دھیرے سے اسے مگن کے سامنے رول ٹاپ کی میز پر رکھ دیا، کیونکہ اوپر کی لیمپ کی روشنی میں مرکوز ہو رہی تھی۔ اسے دیکھنے سے پہلے مگن نے ایک بیروق کرسی کیرتی کے سامنے سرکا دی۔ مگر وہ بدستور کھڑی رہی۔

    ’’تمہاری ماں کیسی ہے؟‘‘

    کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ایک بار پیچھے اس طرف دیکھا جہاں سڑک نیچے گرتی تھی اور جب چہرہ مگن کی طرف کیا تو اس کی آنکھیں نم تھیں۔ کیرتی کی ماں وہیں چھاؤنی کے اسپتال میں پڑی تھی، جہاں اس کے باپ نارائن نے دم توڑا تھا۔ بڑھیا کو مقعد کا سرطان تھا۔ اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے ایک نلی لگا دی گئی تھی اور اس کے اوپر ایک بوتل باندھ دی گئی تھی تاکہ بول و براز نیچے جانے کے بجائے اوپر بوتل میں چلے جائیں۔ پہلی بوتل کسی وجہ سے خراب ہو گئی تھی اور اب دوسری کے لئے پیسے چاہئے تھے۔ اگر وہ مگن کو بتا دیتی تو وہ شاید دوسرے طریقے سے بات کرتا، لیکن اس وڈورک کو دیکھ کر وہ ایسے ہی بھڑک گیا تھا۔

    ’’پھر وہی۔۔۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں نے تم سے کئی بار کہا ہے۔ آج کل ان چیزوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ لیٹے ہوئے وشنو، اوپر شیش ناگ۔۔۔ لکشمی پانوداب رہی ہے۔۔۔‘‘ کیرتی نے بڑی بڑی آنکھوں سے مگن کی طرف دیکھا، جن میں سوال تھا۔۔۔ اور کیا بناؤں؟

    ’’وہی۔۔۔ جو آج کل ہوتا ہے۔‘‘

    ’’آج کل۔۔۔ کیا ہوتاہے؟‘‘ کیرتی نے آخرمنہ کھولا۔ مشکل سے اس کی آواز سنائی دی، جیسے کینری (Canary) کی چونچ ہلتی دکھائی دیتی ہے۔ مگر آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگن نے کچھ رکتے، کچھ راستہ پاتے ہوئے کہا، ’’اور کچھ نہیں ہوتا تو گاندھی ہی بناؤ، نہرو بناؤ۔۔۔‘‘ اور پھر جیسے اسے کوئی غلطی لگی۔ وہ اپنے آپ کو درست کرتے ہوئے بولا، ’’کوئی نیوڈ۔۔۔‘‘

    ’’نیوڈ؟‘‘

    ’’ہاں! آج کل لوگ نیوڈ پسند کرتے ہیں۔‘‘

    کیرتی چپ ہو گئی۔ کنواری ہونے کے ناتے وہ شرما سکتی تھی، لجا سکتی تھی مگر یہ سب باتیں اس لڑکی کے لئے تعیش تھیں، اسے فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ مگن اس کے وڈورک کو خریدتا، پیسے دیتا ہے یا نہیں؟ کچھ سوچتے، رکتے ہوئے اس نے کہا، ’’مجھے نہیں آتا۔‘‘

    ’’کیا بات کرتی ہو؟ تمہارے باپ نے بیسیوں بنائے۔‘‘

    ’’وہ تو۔۔۔ دیوی ماں کے تھے۔‘‘

    ’’فرق کیا ہے؟‘‘ مگن ٹکلے نے کہا، ’’دیوی بھی توعورت ہوتی ہے۔ تم وہی بناؤ مگر بھگوان کے لئے کوئی دیو مالا اس کے ساتھ نتھی مت کرو۔ انہی حرکتوں سے ہی تو تمہارے پتا ایسی موت مر۔۔۔ سرگباش ہوئے۔‘‘

    کیرتی نے اپنے جیون کے پچھواڑے میں جھانکا۔ اب جیسے وہ کھڑی رہ سکتی تھی۔ کسی اور خطرے سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا، جیسے وہی جانتی تھی، کوئی دوسرا نہیں۔ پھر بھی وہ بیروق کرسی پر بیٹھی نہیں، اس کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔ اس طرف سے اس کے بدن کے حسین مگر جارحانہ خط دکھائی دے رہے تھے۔ کیا شلپ تھا، جسے اوپر کے نہیں، نیچے کے نارائن نے بنایا تھا۔ مگن لال کے دماغ میں اختیار اور بےاختیاری آپس میں نبردآزما ہو رہے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ برابر والی لڑکی کے اندر بھی وہی چارہ اور لاچاری آپس میں ٹکڑا رہے ہیں۔ اس کا منہ سوکھ گیا تھا۔ کوئی گھونٹ سا بھرنے کی کوشش میں وہ بولی، ’’میں۔۔۔ میرے پاس موڈل نہیں۔‘‘

    ’’موڈل؟‘‘ مگن نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا، ’’سیکڑوں ملتے ہیں۔ آج تو کسی بھی جوان خوبصورت لڑکی کو پیسے کی جھلک دکھاؤ تو وہ ایک دم۔۔۔‘‘ کیرتی نے کچھ کہا نہیں۔ مگر مگن نے صاف سن لیا، ’’پیسے؟‘‘ اور خود ہی کہنے لگا، ’’آدمی پیسہ خرچ کرے، تبھی پیسہ بنا سکتا ہے نا۔‘‘ اس بات نے کیرتی کو اور بھی اداس کر دیا۔ اس کی روح زندگی کے اس جبر کے نیچے پھڑپھڑا رہی تھی۔ پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ عورت کا یہی عالم تو ہوتا ہے، جو مرد کے اندر باپ اور شوہر کو جگا دیتا ہے۔ چنانچہ مگن نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے بازوؤں میں لے لے اور چھاتی سے لگا کر کہے، ’’میری جان، تم فکر نہ کرو۔۔۔ میں جوں۔‘‘ لیکن کیرتی نے اسے جھٹک دیا۔

    مگن کٹ گیا۔ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ترپ اس کے ہتھ میں تھا۔ رول ٹاپ پر سے اس نے وڈورک کو اٹھایا اور اسے کیرتی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا، ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ جب تک کیرتی نے بھی سوچ لیا تھا۔ اس نے پہلے نیچے دیکھا اور پھر ایکا ایکی سر اوپر اٹھاتے ہوئے بولی، ’’اگلی بار نیوڈ ہی لاؤں گی۔ ابھی تم اسے ہی لے لو۔‘‘

    ’’شرط؟‘‘ مگن نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کیرتی نے سر ہلا دیا۔ مگن ٹکلے کا خیال تھا کیرتی ساتھ ہنس پڑے گی مگر وہ توکچھ اور بھی سنجیدہ ہوگئی تھی۔ اس نے رول ٹاپ کو اٹھایا اور میز کے اندر سے دس روپے کا چرمرا سا نوٹ نکالا اور اسے کیرتی کی طرف بڑھا دیا، ’’لو!‘‘

    ’’دس روپے؟‘‘ کیرتی نے کہا۔

    ’’ہاں تمہیں بتایا نا، میرے لئے یہ سب بیکار ہے۔ میں اور نہیں دے سکتا۔‘‘

    ’’ان میں سے تو۔۔۔‘‘ اور کیرتی نے جملہ بھی پورا نہ کیا۔ اس کے اندر گویائی، الفاظ سب تھک گئے تھے۔ پر مطلب صاف تھا۔ مگن سمجھ گیا، ’’اس سے تو بوتل بھی نہ آئےگی۔‘‘

    ’’دوا کا خرچ بھی پورا نہ ہوگا۔‘‘

    ’’روٹی بھی نہ چلے گی۔‘‘ قسم کے فقرے ہوں گے، سب مجبور اور نادار جن کی قے کیا کرتے ہیں۔ اس نے کیرتی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’مجھے بس وہ لادو تو میں اچھے پیسے دوں گا۔‘‘ اور ایسا کہنے میں اس نے ہاتھ کی دو انگلیوں کو چھلا بنایا، تھوڑی آنکھ ماری جیسی ڈوم، سازندے نائیکہ کو داد دیتے ہوئے مارتے ہیں۔

    کیرتی باہر نکلی تو اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ وہ تھوڑا ہانپ رہی تھی۔ لوٹنے پہ کیرتی ہمیشہ الٹی طرف سے جاتی تھی، حالانکہ اس میں اسے میل ڈیڑھ میل کا چکر پڑتا تھا۔ وہ نہ چاہتی تھی سراج سے اس کی ٹکر ہو، لیکن آج وہ اسی طرف سے گئی جیسے اس میں کوئی مدافعت ابھر آئی تھی۔ مائیکل چلا آیا تھا اور سراج کے ساتھ مل کر کچھ کھا رہا تھا، جب کہ کیرتی منہ اوپر اٹھائے، ناک پھلائے ہوئے پاس سے گزر گئی۔ سراج نے کچھ کہا جو مگن کو سنائی نہ دیا۔ کیرتی میں وہ بغاوت ہی کا جذبہ تھا اور یا پھر وہ ان مصیبت زدہ لوگوں میں سے تھی جو دشمن کے ساتھ بھی بنا کر رکھنے کی سوچتے ہیں۔ مبادا انہیں سے کوئی کام آ پڑے۔ شاید یہ عورت کی فطرت کا خاصہ تھا جو اس مرد کو بھی اپنے پیچھے لگائے رکھتی ہے جس سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف اس لئے کہ اسے دیکھ کر ایک بار اس نے سیٹی بجائی تھی یا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر سرد آہ بھری تھی۔

    سراجا ضرور کوئی ’’ایفروڈیزیاک‘‘ کھا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے پائے ہوں جو مائیکل اس کے لئے لایا تھا۔ شاید وہ دونوں مل کر مگن ٹکلے کے پاس آتے اوراسے کچھ داؤ گھات بتاتے، لیکن مگن نے دکان ہی بڑھالی تھی۔ دروازوں کو اندر سے بند کرتے ہوئے اس نے کیرتی کے وڈورک کو دیکھا جو بہت عمدہ تھا۔ شیش ناگ کا نچلا حصہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن اوپر کی چتکبری کھال میں اس نے صرف گودنوں سے رنگ بھر دیئے تھے۔ وشنو میں وہی تھا جو جو کوئی بھی عقیدت مندعورت کسی مرد میں دیکھنا چاہتی ہے۔ البتہ لکشمی ڈھیر سی پڑی تھی اور اس کے بدن کے خط واضح نہ تھے۔ شاید کیرتی لکشمی کو اس کے کسی بھی معنی میں نہ جانتی تھی۔

    حالانکہ اسے روچک بنانا کتنا آسان تھا جب عورت پاؤں دبانے کے لئے جھکتی ہے تو ظاہر ہے اس کے ہاتھ بازو بدن سے الگ ہوتے ہیں اور مخصوص عورت صاف اور سامنے دکھائی دیتی ہے۔ پھر پہلو پہ بیٹھی ہوئی اوپر کی عورت نیچے والی سے کتنی کٹ جاتی ہے اور مرد کی نظروں کو کیا کیا اونچ نیچ سمجھاتی ہے۔ اگر یہ کہیں کیرتی خود عورت تھی، اس لئے اسے عورت کی بہ نسبت مرد میں زیادہ دلچسپی تھی تو یہ غلط ہوگا کیونکہ عورت اپنے حسن کے سلسلے میں اول اور آخر تک خود پرست ہوتی ہے اور جب اس کی یہ خودپرستی اس کے لئے ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو کسی بھی مرد کی مدد سے اسے جھٹک دیتی ہے۔

    مگن نے کیرتی کے وڈورک کو ایک ہاتھ میں لیا اور دوسرے میں چاقو لے کر اس پر ’’سدہم نمہ‘‘ کے الفاظ کندہ کر دیے اور پھر پچھلے کمرے میں پہنچ گیا جہاں کچی زمین تھی، جسے کھود کر اس نے وڈورک کو نیچے رکھا، ایک اور مورتی کو نکالا جو کیرتی ہی کی بنائی ہوئی تھی اور پھر گڈھے پہ مٹی ڈال کر اس پر کتھے کا پانی چھڑک دیا۔ پرانے بت کی مٹی جھاڑ کر اسے دیکھا تو بڑی بڑی دراڑیں اس میں چلی آئی تھیں اور وہ صدیوں پرانا معلوم ہو رہا تھا۔ اگلے دن جب وہ اسے لے کر ٹورسٹوں کے پاس گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مگن نے انہیں بتایا کہ اس کا ذکر کالی داس کے رگھوونش میں آتا ہے۔ رگھوجی نے کونکن کے علاقے میں ترکٹ نام کا ایک شہر بسایا تھا، جہاں سے یہ بت برآمد ہوئے۔ کچھ میسور کے چماراجہ وڈیار کے پاس ہیں اور کچھ اپنے پاس۔ چنانچہ اس بت کو مگن ٹکلے نے ساڑھے پانچ سو روپے میں بیچ دیا جس کے لے اس نے کیرتی کو صرف پانچ روپے دیے تھے۔

    اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر کیرتی نیوڈ لے آئی۔ وہ بدستور بدحواس تھی، اس کی ماں تو بیمار تھی ہی، وہ بھی بیمار ہو گئی تھی۔ اسے قریب قریب نمونیہ ہو رہا تھا۔ وہ کھانس رہی تھی اور باربار اپنا گلا پکڑ رہی تھی، جس پر اس نے روئی کا لوگڑ ایک پھٹے پرانے کپڑے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ کیرتی نے معمول کی طرح سے شلپ کو مگن ٹکلے کے سامنے رکھا۔ اب کے اس نے اسے لکڑی میں نہیں، پتھر میں بنایا تھا۔ اب وہ پھر امید و بیم کے ساتھ مگن کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مگن اگر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا تو بہت بڑا جھوٹ ہوتا۔ اس لئے اس نے نہ صرف اسے پسند کیا بلکہ جی بھرکر داد دی۔ اعتراض تو صرف اتنا کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔ کاش وہ اسے قد آدم میں بناتی تو نہ صرف اسے بلکہ خود مگن کو بھی بہت فائدہ ہوتا۔

    اس نے شلپ یکشی کو ہاتھ میں لیا اور غور سے دیکھا۔ کیرتی پھربھی سچ مچ کا نیوڈ نہ بنا سکی تھی۔ بت کے بدن پہ کپڑا تھا جو گیلا تھا۔ کمال یہ تھا کہ اس کپڑے سے اب بھی پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ کہیں تو بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور کہیں علاحدہ۔ بظاہر چھپانے کے عمل میں وہ عورت کے جسم کو اور بھی عیاں کر رہا تھا۔

    شلپ پر سے نظریں ہٹا کر مگن ٹکلے نے کیرتی کی طرف دیکھا اور بےاختیار اس کے منہ سے نکلا، ’’اوہ!‘‘ کیرتی جھینپ گئی اور اس جامنی ساری کو آگے کھینچنے پیچھے سے ڈھانپنے لگی لیکن مگن سب جان گیا تھا کہ وہ برہنہ ہو کرخود کو آئینے میں دیکھتی اور اسے بناتی رہی ہے۔ کئی بار اس نے کپڑا بھگو کر اپنے بدن پر رکھا ہوگا، جس سے اسے سردی ہو گئی اور اب وہ کھانس رہی ہے۔ یہ صرف پیسے ہی کی بات نہیں۔ عورت میں نمائش اور خود سپردگی کا جذ بھی تو ہے۔ مگن سب سمجھ گیا تھا مگر تجاہل برتتے ہوئے اس نے پوچھا، ’’ماں کیسی ہے؟‘‘

    کیرتی جیسے ایک دم برا فروختہ ہو گئی، اسے کھانسی کافٹ سا پڑا اور خود کو سنبھالنے میں خاصی دیر لگی۔ مگن گھبرا گیا تھا اور شرمندہ بھی تھا۔ اس کے بعد سر ہلاتے ہوئے جو اس نے سوال کیا، وہ بہت غیرضروری تھا، ’’تو موڈل مل گیا تمہیں؟‘‘ کیرتی نے پہلے تو نظریں گرا دیں اور پھر دکان سے باہر اس طرف دیکھنے لگی جہاں سڑک آسمان کو چھوتی ہوئی ایکا ایکی نیچے گرتی تھی۔ مگن نے چاہا کہ اسے اس کمزوری کے عالم میں پکڑ لے اور وہ داد دے جس کی وہ مستحق تھی اور جو شاید وہ چاہتی بھی تھی مگر اس نے سوچا، ایسے میں دام بڑھ جائیں گے۔ اس نے اپنے دل میں اب کے کیرتی کو سو روپے دینے کا فیصلہ کیا۔ بوتل اور باقی کی چیزیں شاید سو کی نہ ہوں، مگر وہ سو ہی دےگا۔ اندر ہی اندر وہ ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں کیرتی زیادہ کا مطالبہ نہ پیش کر دے۔

    ’’کیا دام دوں اس کے؟‘‘ اس نے یوں ہی سرسری طریقے سے پوچھا۔ کیرتی نے اچٹتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور بولی، ’’اب کے میں پچاس روپے لوں گی۔‘‘

    ’’پچاس؟‘‘

    ’’ہاں۔ پائی کم نہیں۔‘‘

    مگن نے تسکین کے جذبے سے رول ٹاپ اٹھایا اور چالیس روپے نکال کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے اور بولا، ’’جو تم کہو۔۔۔ مگر ابھی چالیس ہی ہیں میرے پاس۔ دس پھرلے لینا۔‘‘ کیرتی نے روپے ہاتھ میں لے لیے اور کہا، ’’اچھا۔‘‘

    وہ جانے ہی والی تھی کہ مگن نے اسے روک لیا، ’’سنو!‘‘ کیرتی گت کے بیچ تھم کر اس کی طرف ’مجھے تھام لو‘ کے اندازمیں دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پہ اداسیاں چھٹ جانے کے بجائے کچھ اور کھنڈ گئی تھیں جب کہ مگن ٹکلے نے پوچھا، ’’اتنے پیسوں میں تمہارا کام چل جائےگا؟‘‘ کیرتی نے سر ہلا دیا اور پھر ہاتھ پھیلائے جس کا مطلب تھا۔۔۔ اور کیا کرنا۔۔۔؟ پھر اس نے بتایا۔ ماں کا آپریشن آ رہا ہے، جس کے لئے سیکڑوں روپے چاہئیں۔

    ’’میں تو کہتی ہوں۔۔۔‘‘ اس نے کہا اور پھر کچھ رک کر بولی، ’’ماں جتنی جلد مر جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔‘‘ اور پھر وہ کھڑی پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ آخر وہ خود ہی بول اٹھی، ’’ایسے ایڑیاں رگڑنے سے تو موت اچھی ہے۔‘‘ جب مگن نے اس سے آنکھ ملائی تو کیرتی اٹھارہ انیس برس کی لڑکی کے بجائے پینتیس چالیس برس کی بھرپور عورت نظر آنے لگی جو زندگی کا ہر وار اپنے اوپر لیتی اور اسے بیکار کر کے پھینک دیتی ہے۔

    ’’ایک بات کہوں؟‘‘ مگن ٹکلے نے پاس آتے ہوئے کہا، ’’تم متھن بناؤ۔ آپریشن کا سب خرچہ میں دوں گا۔‘‘

    ’’متھن؟‘‘ کیرتی نے کہا اور لرز اٹھی۔

    ’’ہاں!‘‘ مگن بولا، ’’اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ ٹورسٹ اس کے لئے دیوانے ہوتے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن ۔۔۔‘‘

    ’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ مگن نے سرہلاتے ہوئے کہا، ’’تم نہیں جانتیں تو ایک بار کھجوراہو چلی جاؤ اور دیکھ لو۔ میں اس کے لئے تمہیں پیشگی دینے کو تیار ہوں۔‘‘

    ’’تم؟‘‘ کیرتی نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھرکچھ دیر کے بعد بولی، ’’تم تو کہہ رہے تھے تمہارے پاس اور پیسے نہیں؟‘‘

    مگن نے فورا جھوٹ تراش لیا، ’’میرے پاس سچی پیسے نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’میں نے دکان کا کرایہ دینے کے لئے کچھ الگ رکھے تھے۔۔۔‘‘ پھر اس نے پیسے دینے کی کوشش کی، مگر کیرتی نے اپنے زعم میں نہ لئے اور وہاں سے چلی گئی۔ مگن ٹکلے نے لوٹ کر ’’یکشی‘‘ کو دیکھا اور پھر ایک چھوٹی سی ہتھوڑی لے کر اس کی ناک توڑ دی۔ پھر ایک بازو توڑا۔ پھر ٹانگ توڑی اور اس کے سر کے سنگار پر ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں، جس سے کچھ کرچیں گریں۔ پھر اندر جا کر اس نے اسے رسی میں باندھا اور نمک کے تیزاب میں ڈبو دیا۔ دھوئیں کے بادل سے اٹھے۔ مگن نے رسی کو کھینچا اور یکشی کو نکال کر پانی میں ڈال دیا۔ اب جو اسے نکالا تو ’’یکشی‘‘ کے خدوخال دھندلے ہو گئے تھے اور کہیں کہیں بیچ میں سوراخ چٹاخ سے پڑ گئے تھے۔ اب وہ ہزار ایک روپے میں بکنے کے لئے تیار تھی۔

    اب کے کیرتی جو شلپ لائی وہ متھن ہی تھا۔۔۔ اور قد آدم۔ وہ ایک بوری میں بندھا ہوا تھا اور ٹھیلے پر آیا تھا۔ کچھ مزدوروں نے اٹھا کر مگن ٹکلے کی دکان پر رکھا۔ پھر اپنی مزدوری لے کر وہ لوگ چلے گئے۔ کیرتی اور خود کو تنہا پاکر تیز سانسوں کے بیچ مگن ٹکلے نے بوری کی رسیاں کاٹیں اور کچھ وا رفتگی سے ٹاٹ کو شلپ پر سے ہٹایا۔ اب شلپ سامنے تھا۔ پرفیکٹ۔۔۔ مگن نے اسے دیکھا تو اس کے گلے میں لعاب سوکھ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کیرتی اس کے سامنے اس شلپ کو نہ دیکھے گی مگر وہ وہیں کھڑی تھی۔ اس کے سامنے، کسی بھی ہیجان سے عاری۔ شلپ میں عورت کی تکمیل (Orgasm) کو پہنچ رہی تھی جبکہ مرد خود رفتگی کے عالم میں اسے دونوں کاندھوں سے پکڑے ہوئے تھا، جسے مگن ٹکلے نے توجہ سے نہ دیکھا۔ وہ شاید اسے فرصت میں دیکھنا چاہتا تھا۔

    ’’کتنے پیسے چاہیئں، آپریشن کے لئے؟‘‘

    ’’آپریشن کے لئے نہیں، اپنے لئے۔‘‘

    ’’اپنے لئے؟ ماں۔۔۔‘‘

    ’’مر گئی۔۔۔ کوئی ہفتہ ہوا۔‘‘

    مگن نے اپنے چہرے پہ دکھ اور افسوس کے جذبے لانے کی کوشش کی، مگر شاید کیرتی نہ چاہتی تھی۔ اس کے ہونٹ ویسے ہی بھنچے ہوئے تھے۔ وہ ویسے ہی اداس تھی جبکہ اس نے کہا، ’’میں اس کا ہزار روپیہ لوں گی۔‘‘ مگن بھونچکا سا رہ گیا۔ اس کی زبان میں لکنت تھی، جب اس نے کہا، ’’اس کے ہزار روپے بھی کوئی دے سکتا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ کیرتی نے جواب دیا، ’’میں بات کر کے آئی ہوں۔۔۔ شاید مجھے زیادہ بھی مل جائیں، لیکن میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘

    ’’میں تو۔۔۔ میں تو پانسو ہی دے سکتا ہوں۔‘‘

    ’’نہیں۔۔۔‘‘ اور کیرتی نے مزدوروں کے لئے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ مگن نے اسے روکا، ’’سو ایک اور لے لو۔‘‘

    ’’ہزار سے کم نہیں۔‘‘

    مگن نے حیران ہو کر کیرتی کی طرف دیکھا جس کے آج تیور ہی دوسرے تھے۔ کیا وہ کھجوراہو گئی تھی؟ ٹورسٹوں سے ملی تھی؟ کسی بھی قیمت پہ کلاکار کو اس کی مارکیٹ سے جدا رکھنا چاہئے۔۔۔ مگر خیر۔۔۔ اس نے رول ٹاپ اٹھایا اور آٹھ سو کے نوٹ گن کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے۔ کیرتی نے جلدی سے گنے اور اس کے منہ پرپھینک دیے۔

    ’’میں نے کہا نا۔ ہزار سے کم نہ لوں گی۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ نو سو لے لو۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘

    ’’ساڑھے نو سو۔۔۔ نو سو پچھتر۔۔۔‘‘ اور پھر کیرتی کی نگاہوں میں کوئی عزم دیکھ کر اس نے سو سو کے دس نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیے اور نشے کی حالت میں متھن کی طرف لپک گیا۔ کیرتی کھڑی تھی۔ جیسے وہ اپنے فن کی داد لینے کے لئے ٹھٹک گئی تھی۔ مگن نے متھن میں کی عورت کی طرف دیکھا جو پھر کیرتی تھی۔ اس کی آنکھ میں آنسو کیوں تھے؟ کیا وہ لذت کی گراں باری تھی یا کسی جب جبر کا احساس؟ کیا وہ دکھ اور سکھ، درد اور راحت کا رشتہ تھا جوکہ پوری کائنات ہے؟ پھر اس نے مرد کی طرف دیکھا جو اوپر سے لطیف تھا مگر نیچے سے بےحد کثیف۔ کیوں، کیرتی نے کیوں مرد۔۔۔ انسان کی ’’حماریت‘‘ پہ زور دیا تھا۔۔۔؟ یہ متھن ہے۔۔۔ مگر وہ متھن تو نہیں، جو پرش اور پر کرتی میں ہوتا ہے۔۔۔؟ ٹھیک ہے۔ الٹا زیادہ پیسے ملیں گے۔۔۔

    مگن ٹکلے نے اوپر کی بتی کو کھینچ کر پھر مرد کی طرف دیکھا اور بول اٹھا، ’’یہ۔۔۔ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔‘‘ کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔

    ’’تم۔۔۔‘‘ مگن نے جیسے پتا پاتے ہوئے کہا، ’’تم سراج کے ساتھ باہر گئی تھیں؟‘‘

    کیرتی نے آگے بڑھ کر زور سے ایک تھپڑ مگن ٹکلے کے منہ پر لگا دیا اور نوٹ ہاتھ میں تھامے دکان سے نکل گئی۔

    مأخذ:

    ہاتھ ہمارے قلم ہوئے (Pg. 89)

    • مصنف: راجندر سنگھ بیدی
      • ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی
      • سن اشاعت: 1988

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے