Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دیوار پر جڑی تختیاں

اقبال مجید

دیوار پر جڑی تختیاں

اقبال مجید

MORE BYاقبال مجید

    ایک وقت تھا جب وہ عمارت ایک خاموش اور پرسکون علاقے میں اپنے باغیچے میں ایستادہ عجیب و غریب مجسموں کے ساتھ بڑے احترام کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ جب میں نے جوانی میں نوکری شروع کی تو وہاں کا پر وقار اور عالمانہ ماحول دور دور تک مشہور تھا۔ پہلی منزل پر ایک بڑا کمرہ تھا جس کے دروازے کی اوپری دیوار پر ایک لال بلب بھی لگا تھا۔ دروازے کے پاس ہی ایک بڑی موچھوں والا رعب دار چپراسی بھی بیٹھا کرتا تھا۔ اس بڑے کمرے کے کرسی نشین کے بارے میں مجھے بہت دنوں تک یہ پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب آتا ہے اور عمارت سے نکل کر کب جاتا ہے۔

    البتہ یہ ضرور سنا تھا کہ جب باہر سے کوئی سگار پیتا ہوا یا منھ میں پائپ دبائے یا چوڑی دار سفید پیجامہ اور کالی اچکن پہنے چین دار جیبی گھڑی لگائے بڑی بڑی آنکھوں والا وہاں آتا یا پھر کوئی گوری چٹی بھاری بھرکم عورت آنکھوں پر خوبصورت گاگل لگائے کندھے پر شال ڈالے بڑے تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے حالی موالیوں کے ساتھ اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھتی تو بڑے کمرے کا کرسی نشین اپنے کمرے سے نکل کر زینے کے پاس مؤدب کھڑا ہو جاتا اور اس کا استقبال کر کے بڑے کمرے میں لے جاتا پھر دیوار کی لال بتی جل جاتی۔

    شاید یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس عمارت کے بڑے کمرے میں ہر چیز کی جلالت اور توقیر کا رتبہ طے شدہ معیاروں نے مقرر کر رکھا تھا اور انھیں بدلتی ضرورتو ں کے باعث بار بار نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ اس لیے جلدی جلدی دروازے کی دیوار پر لال بتی بھی نہیں جلتی بجھتی تھی۔

    اب تو ان باتوں کو ایک زمانہ گزر چکا ہے، ان برسوں میں ایسی ہی عمارتیں اسی مقصد کے لیے تھوڑے بہت مقامی فن تعمیر کے فرق کے ساتھ ملک کے کئی بڑے شہروں میں بن گئی ہیں۔ ان نئی عمارتوں میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سبب دورے پر جانے کا موقع بھی مجھے ملتا رہا ہے، جہاں یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اندر سے ان عمارتوں کے کمرے، فرش اور غسل خانے سب ایک ہی سے تھے۔ زیادہ غور سے دیکھنے پر انکشاف ہوا کہ ہر عمارت میں پنکھے ایک ہی رفتار سے چلتے تھے، کھڑکیوں کے شیشے ایک ہی جگہ سے ٹوٹے تھے اور روشن دانوں سے گرا برساتی پانی ایک ہی طرح سے دیوار پر گرتا تھا۔

    وہاں قیام کے آخری دن تک وہ ناقابل یقین مماثلت بھی مجھ پر واضح ہوگئی کہ ان عمارتو ں میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ، ان کی آنکھوں کے چشمے، ان کے پہناوے بات کرنے اور سگریٹ کا گل جھاڑنے کا انداز اور کمرے میں آکر دلیل کے بغیر دعوے کرنے والے پیغمبروں کی لنترانیوں اور آمدو رفت کے باعث بار بار کمرے کی لال بتی کا جلنا بجھنا اور آخرکار فیوز ہو جایا کرنا اور پھر تمام ردیوں کی ٹوکریوں میں پھینکا ہوا سامان نازیبا، وہاں کے بہ ظاہر مہربان، مگر درحقیقت ہلاکت خیز منافق سب ایک سے تھے۔ ویسے ہی جیسے میری عمارت کے۔ کتنی عجیب بات تھی کہ ان سب کا لہجہ، غیبت کا طریقہ، زبان کی موقعہ پرست لکنت بھی ایک سی تھی اور یہی نہیں کونے کھدروں میں چھپے ہونٹوں پر ایک سی مسکراہٹ جمائے رکھنے والے، دھیمی آواز میں بولنے والے کرتے، شیروانی اور واسکٹ کو گلے تک بند رکھنے والے مہذب دلال بھی بالکل ایک سے تھے۔

    ادھر چند برسوں سے خود اپنے یہاں دیکھ رہا ہوں کہ عمارت کے اندر آنے جانے والوں کا بھیڑ بھڑکا بہت بڑھ گیا ہے۔ جہاں Please do not Spit کی تختی لگی ہے، اس کونے میں پان کی پیک کے بدنما اور گندے چکتے روز بہ روز بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں، کانفرنس روم کی گیلری میں ’’دھیرے بولیے‘‘ کی تختی کے باوجود کانفرنس روم سے نکل کر بار بار کسی کو لوگوں کو چپ کرانے کے لیے باہر آنا پڑتا ہے۔ میری یہ فکر روز بہ روز بڑھتی جارہی تھی کہ بار بار الماریاں خریدنے کے باوجود سیکڑوں نئی آنے والی کتابیں جو دستی بھی آتیں اور ڈاک سے بھی فرش پر پڑی رہتی تھیں، پھر لائبریری میں اتنی جگہ بھی نہ رہ گئی تھی کہ ان کے پٹ کھولے جا سکیں۔ آخر کو اور انہیں نشانِ افتخار دیے جانے کے فیصلے سے پہلے ہی ان میں دیمک لگ جایا کرتی۔ اس دوران کئی بار میری ترقی ہوئی اور اب تو مجھے بڑے کمرے کے پاس ہی ایک کمرہ دیا گیا تھا کیونکہ بار بار مجھے بڑے کمرے میں بلایا جاتا تھا۔

    اسی زمانے میں جب بڑے کمرے کے برابر میں بیٹھنے لگا تھا، ہماری عمارت میں پہلی منزل پر آنے کے لیے ایک خاتون نے اسی کروفر اور شان کے ساتھ زینہ چڑھا جیسا کہ برسوں پہلے میری نوکری کے آغاز میں آنے والے چڑھا کرتے تھے۔ میں اتفاق سے اس وقت زینے کی کگار پر کھڑا کسی سے باتیں کر رہا تھا۔ ستائیس اٹھائیس سال کی عمر، رنگ گورا، بال گھونگھریالے، گالوں میں قدرتی گڑھے، ماتھا کشادہ، روشن اور خوش نصیبی کی اجلی چاندنی سے منور، وہ جیسے ہی اوپر آئیں ان کی نظر سامنے ہی لال بلب والے بڑے کمرے کی داہنی دیوار پر پڑی جہاں اب پیتل کے حروف میں لکھی عبارت، چمچماتی لکڑی کی خوبصورت فریم میں جڑی تھی او رپیتل کے حروف براسو سے رگڑ کر چمکائے جاتے تھے۔

    عورت نے اس کے سامنے کھڑے ہوکر بڑی محویت سے عبارت کو پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا، ’’اقتدار مقتدر کو مغرور ہی نہیں خود غرض اور جابر بھی بنا دیتا ہے۔ اقتدار ان کے مفادات سے غافل نہیں رہتا جن سے اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ مقتدر کی سرشت میں قوت کا استعمال شامل ہے اور قوت کے استعمال میں بے انصافی مضمر ہے۔‘‘ عبارت پڑھنے کے بعد عورت کی آنکھیں مسکرائیں، پھر وہ پلٹ کر میری طرف آئی اور مخاطب ہوئی،’’میں سکریٹری صاحب سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘

    ’’جی میں ہی سکریٹری ہوں۔ آئیے۔‘‘ میں انھیں اپنے کمرے میں لے آیا۔ بیٹھنے کے لئے کہا، وہ بیٹھتے ہوئے مسکراکر بولیں، ’’میرا نام مریم زمانی ہے۔ پیتل کے حروف میں یہ عبارت غالباً نیا اضافہ ہے۔‘‘ جواب میں، میں نے انھیں بتایا کہ اب یہ عبارت ہر شہر میں جہاں جہاں یہ عمارت ہے، اس کے بڑے کمرے کی دیوار پر لگا دی گئی ہے۔

    ’’ایسا کیوں ہے؟‘‘ ان کے سوال پر مجھے وضاحت کرنا پڑی، ’’یہ اس لیے کہ لوگ مقتدر سے اس کے اقتدار کو لے کر کوئی بحث و مباحثہ نہ کریں اور ملاقات سے پہلے اس کی حیثیت اور منصب کو سمجھ لیں۔‘‘ پھر مریم زمانی نے جنھیں پینٹنگ سے شوق تھا، بتایا کہ انھیں ملاقات کا وقت دیا گیا ہے۔ میں نے ان کے نام کا کارڈ اندر بھجوا دیا۔ کچھ دیر بعد انہیں بلا لیا گیا۔

    کئی نئی تختیاں جنھیں دیواروں پر لگنا تھا پینٹر کے یہاں سے آئی پڑی تھیں۔ ان میں سے ایک کو تو صدر دروازے پر لگنا تھا، جس میں ہدایت دی گئی تھی ’’عمارت میں حاکم کو تحفے تحائف نہ پیش کریں۔‘‘ بیسوں احکامات کی تختیاں عمارت کی اندرونی دیواروں پر جڑی جاتی تھیں۔ ان میں کئی کا پنٹ بھی کچھ ایسا اکھڑ گیا تھا کہ عبارت کا مطلب ہی خبط ہو چکا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے عمارت میں عجیب نوعیت کے بے مطلب کام بہت بڑھ گیے تھے۔ جن سے اکتاکر میں بےوقت شاعری اور وہسکی پینے لگا تھا کہ میری نظر میں دونوں ہی کام بےضرر تھے۔ بد دلی سے میں نے ایڈمنسٹریٹر کو وہ کام سونپ دیا۔ تھوڑی دیر بعد مریم زمانی بڑے کمرے سے مسکراتی ہوئی باہر آئیں۔ اس کمرے کی خوبی بھی یہی تھی خواتین مسکراتی ہوئی باہر نکلتی تھیں۔ جب مریم زمانی میرے کمرے میں دوبارہ داخل ہوئیں تو مجھے کچھ تعجب ضرور ہوا کیونکہ وہاں سے نکلنے والے عام طور پر سیدھے نیچے اتر جایا کرتے تھے۔ میں نے پھر بٹھایا تو وہ بولیں:

    ’’بھئی وہ توبہت خوش اخلاق ہیں، میرے لیے کافی اور سینڈوچ منگائی، خود لنچ میں ککڑی اور پنیر کے قتلے کھاتے رہے۔‘‘ میں نے انھیں بتایا کہ ڈاکٹروں نے انھیں لنچ میں صرف یہی کھانے کی اجازت دی ہے۔ پھر مریم زمانے نے خاصی دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا، ’’ان کی پیٹھ کی دیوار پر سنہری حرفوں میں ایڈور سعید کا ایک قول لکھا ہے‘‘، ’’دانشوروں کو مکتبی اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

    ’’جی ہاں جی ہاں‘‘ میں نے فوراً حامی بھری اور وضاحت کر دی، ’’جس شہر میں بھی یہ عمارت بنائی گئی ہے وہاں کے بڑے کمرے میں یہ قول بھی چسپاں کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ سن کر خاتون کے چہرے پر الجھن عود کر آئی اور انھوں نے پوچھ ہی لیا۔

    ’’لیکن کیوں؟ میں کچھ سمجھی نہیں۔‘‘

    ’’سچ تو یہ ہے کہ دانشوروں میں یہ غلامی اب شرمناک چاپلوسی کی حد تک بڑھ گئی ہے۔‘‘ میرا جواب سن کرمریم زمانی کو کیسا لگا اس کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن اندر ہی اندر وہ ان کی جس بات سے مرعوب تھیں، اسے انھوں نے مجھ پر عیاں کردی، یعنی ان کی صاف گوئی کی بڑی تعریف کی۔ پہلی ہی ملاقات میں انھوں نے بے تکلف ہوکر مریم کو بتایا کہ انھیں بہت سے لوگ برا سمجھتے ہیں، لیکن وہ اپنی فطرت کی وجہ سے برے نہیں ہیں بلکہ اپنی حیثیت اور مرتبے کی وجہ سے برے ہیں اور اس برائی کی مجبوری یہ ہے کہ یہ غریب، قدیم اور فطری دوستوں کو بھی ایک دوسرے کا حریف بناکر دشمنوں کے طبقات میں تقسیم کر دیا کرتی ہے اور اسی کے نتیجے میں جگہ جگہ آپس میں اندرونی فساد ہوتے بھی چپ چاپ دیکھتی رہتی ہے۔‘‘ مجھے اندازہ ہوا کہ مریم بات کرتے ہوئے ایک نیم واضح پیچ و تاب سے بھی گزر رہی تھیں۔ وہ اپنی جگہ سے ایکا ایک اٹھیں۔ پرس سے ملاقاتی کارڈ نکال کر میرے سامنے رکھا، پھر کارڈ طلب کیا، لمبی سی سانس بھرکر کارڈ پر نظر ڈالی اور رخصت کی اجازت لے کر چلی گئیں۔

    ایک دن مریم زمانی کا فون آیا۔ اس کے گھر پر ایک مشہور پینٹر کی آمد پر اس نے ایک مختصر سی پارٹی رکھی تھی اور انکساری سے میری شرکت کے لیے بھی درخواست کی۔ بعد میں یکایک خیال آیا کہ بڑے کمرے میں بھی فون کیا ہوگا۔ پتا لگا وہاں فون پہلے ہی آ گیا تھا لیکن وہ کہیں اور مصروف تھے۔ میں جاؤں یا نہ جاؤں یہ فیصلہ انھوں نے مجھ پر چھوڑ دیا۔ یہ جان کرمجھے حیرت نہ ہوئی کہ وہ مریم زمانی اور اس کے خاندان وغیرہ کے بارے میں خاصا جانتے تھے اور انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ مریم دوسرے نام سے کبھی کبھی انگریزی نظمیں بھی لکھتی تھیں اور بعض موقعوں پر وہ ان سے مل بھی چکے تھے۔

    پارٹی میں مریم سے ملاقات ہوئی تو عقدہ بھی کھلا کہ اس کے باپ مسلمان اور ماں کرسچین تھیں۔ گھر میں دو گاڑیاں تھیں، کتابوں سے بھری ایک موروثی لائبریری تھی، خوبصورت اور کشادہ لان تھا۔ گھر کے اندر کا ماحول خواب ناک تھا۔ وائلن، پیانو، مرعوب کن علامتی مسیحی صلیب اور کنواری مریم کا جاذب نظر مجسمہ بڑی نفاست اور سلیقے سے آرائش کا حصہ بنائے گیے تھے۔ وہیں کشادہ اور نیم روشن دیوار کی ملگجی روشنی میں ایک پینٹنگ بھی نصب تھی، جس پر اندر داخل ہوتے ہی نظر پڑتی تھی۔ سفید اور ہلکے سرمئی رنگوں کے استعمال کے ساتھ پینٹنگ اس موقعے کا دھندلایا ہوا منظر پیش کر رہی تھی، جب مدینے کے کچھ مسلمان حج کا احرام باندھے ہوئے حدیبیہ کے میدان میں بیٹھے تھے اور اپنے رسول کے ہمراہ کعبے میں داخلے کے لیے قریش سرداروں کے اجازت نامے کے منتظر تھے۔ پوری پینٹنگ کی فضا یاسیت اور حزن بھرے تحمل کی سوگوار دھند میں ڈوبی ہوئی تھی اور عنوان کے جگہ عربی خط میں ’’لبیک لبیک‘‘ لکھا ہوا تھا۔

    مریم زمانی کے صنعت پیشہ باپ اودھ کے مرغوب لباس میں مہمانوں کی تواضع مغلوں کے شاہی دسترخوان کے رنگا رنگ کبابوں سے کر رہے تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی مریم زمانی کی تعلیم و تربیت ان کی ماں کی نگرانی میں اعلیٰ درجے کے پبلک اسکولوں میں ہوئی تھی اور ابھی تک غیر شادی شدہ تھی۔ مریم نے اپنا اسٹڈی روم دکھایا جہاں کتابوں اور رسالوں کا بےترتیب انبار تھا۔ میز پر رکھے کمپیوٹر کے پاس بہت سے کاغذات پھیلے ہوئے تھے۔ ایک کاغذ کے سرنامے پر جلی حروف میں لکھا تھا What is opinion mafia۔ میں تجسس سے اسے دیکھنے لگا تو وہ بولیں، ’’میری ناول کا موضوع اسی سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘

    ’’آپ ناول لکھ رہی ہیں؟‘‘

    ’’لکھ کیا رہی ہوں۔ کچھ دنوں سے جھک مار رہی ہوں۔ لکھا ہوا پڑھتی ہوں پھر آدھا پھاڑ دیتی ہوں، لیکن اسے پھینکتی نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسی۔ ’’کبھی کبھی پھاڑے ہوئے سے بھی کچھ کمپیوٹر کی میموری میں ڈال دیتی ہوں۔‘‘

    میں نے ان سے پوچھ لیا، ’’آپ ناول کو کس طرح محسوس کرتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر وہ اپنی ہنسی روک کر خاصی سنجیدہ ہو گئی، پھر دھیرے سے بولی، ’’میں ناول میں انسان دوستی کے زاویے سے محرکات اور اسباب کی نشاندہی کو اہمیت دیتی ہوں۔‘‘

    مجھے ہمیشہ سے یہ لگتا رہا کہ اس عمارت سے باہر نکل کر میں دوسرا آدمی بن جایا کرتا تھا۔ وہسکی پینا اور اپنے بچوں سے پیار کرنا مجھے اچھا لگتا۔ جب بعض پڑھی ہوئی کتابوں کے تبصرے اخباروں میں دیکھتا تو کبھی کبھی سینے میں گھومتی اور جتن کر کے باہر نکل جانے میں ناکام رہ جانے والی آوازیں ان خوشامدی، منافق اور چالاکی سے پالش کیے لفظوں میں لپیٹ کر پیپ بھرا جھوٹ بیچنے والے گھناؤنے تبصرہ نگاروں کو چیخ چیخ کر گالیاں دیتی تھیں۔ اس غصے کی لپٹیں لگتا تھا میرے جسم کو خاکستر کر دیں گی۔ اس کیفیت میں بکھری نظموں کا مجموعہ چھپ چکا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کا ترجمہ شدہ مجموعہ مریم کے پاس موجود تھا۔ کسی کے ہاتھ میں میرے ہونے کی تھوڑی خوشی مجھے ضرور ہوئی۔

    ’’آپ نے یہ نظمیں پڑھیں؟‘‘ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔

    ’’جی ہاں!‘‘ یہ کہہ کر وہ مجھے دوسرے مہمانوں کے پاس لے آئیں۔ آرٹ پر دھیمے دھیمے باتیں کرنے والوں کے بیچ اچھا وقت گزرا۔ چلتے وقت مریم مجھے صدر دروازے تک چھوڑنے آئیں اور بولیں، ’’ایک خاموش طوفان کے پیش خیمہ جیسا تھا وہ وقت جب سروں پر بے پائلٹ جہازوں سے گرائے گیے بموں کا ڈر نہ تھا۔ سپاہی آپس میں اپنے قبیلے کی عظمت دشمن کو یاد دلاکر ہاتھوں سے لڑتے تھے۔‘‘ پھر اداس لہجے میں کہنے لگیں، ’’اس وقت غصے کی پلیٹ کو ٹھنڈا کر کے کھانا شائد اتنا دشوار نہ تھا۔ سنا ہے رسولؐ نے غصے کی پلیٹ ہمیشہ ٹھنڈی کر کے کھائی ہے۔‘‘ یہ سن کر میں مریم کی آنکھوں میں دو پل دیکھتا رہا۔ یہ جھانکنے کے لیے کہ غصہ ٹھنڈا کر کے کھانے کی ہدایت کہیں وہ میری نظمیں پڑھنے کے بعد تو نہیں دے رہی ہیں۔ لیکن ان کی آنکھیں کسی گہری فکر میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ میں نے پوچھا، ’’آپ کرسچن ہیں یا مسلمان؟‘‘ جواب میں وہ مسکرائیں اور بولیں، ’’پھر کبھی۔۔۔‘‘

    انہوں نے میری گاڑی کا دروازہ کھولا۔ میں بیٹھ گیا، گاڑی بڑھی تو وہ اندر چلی گئیں۔ راستے بھر میں ان کی پینٹنگ کے بارے میں سوچتا رہا۔ شاید گاندھی نے ستہ گرہ کا راستہ حدیبیہ کے میدان سے لیا ہوگا۔ میں نے مریم زمانی سے نہ تو کبھی پھر یہ سوال کیا کہ وہ کرسچین ہیں یا مسلمان۔ نہ انھوں نے کبھی بتایا۔ مجھے وہسکی پینے کے دوران اکثر ایسا لگا کہ مذاہب بھی میری عمارت میں جڑی تختیاں جیسے ہی ہیں۔

    کافی عرصہ گزر گیا مریم زمانی سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔ ایک دوبار میں نے انھیں عمارت کے بڑے کمرے سے باہر نکل کر تیز قدموں سے نیچے جاتے دیکھا۔ ایک بار تو مجھے ایسا لگا کہ کمرے سے باہر نکلنے پر ا ن کا چہرہ شاید غصے سے تمتمایا ہوا تھا۔ وہ میرے کمرے میں نہیں آئیں۔ ممکن ہے اس کے علاوہ بھی کبھی کبھی وہ بڑے کمرے میں آئی ہوں۔ میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ایک دن خبر آئی کہ مریم زمانی کا ناول چھپ گیا ہے۔ طبیعت نہیں مانی تو میں نے انھیں فون کیا تو شام کو کافی ہاؤس میں ملنے کی تجویز انہوں نے رکھی۔ میں پہنچا تو وہ کونے کی میز پر تنہا بیٹھی ہوئی ملیں، لگا کہ ان کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔ پتا چلا کہ ان کی قریبی دوست جو ایک اچھی شاعرہ تھیں گزر گئی ہیں اور وہ وہیں جائیں گی۔ ان شاعرہ کا کلام کبھی کبھی میں نے بھی پڑھا تھا اور مرعوب بھی تھا، افسوس کا اظہار کیا تو وہ بولیں، ’’آپ کی عمارت نے کبھی ان کا اعتراف نہیں کیا۔‘‘

    میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ کیونکہ تنگ آکر برسوں سے ان سوالوں کو بیوی بچوں اور اپاہج باپ کے مسائل کے ساتھ وہسکی میں ڈبو چکا تھا۔

    ’’میں جانتی ہوں کہ opinion Mafia کیسے بنتی ہے اور کس طرح کام کرتی ہے‘‘ شاید وہ خود سے کہہ رہی تھیں۔

    ’’جو دانشور آپ کے مقتدر سے، اس کے وفادار رہتے ہیں، وہ خراج کے طور پر انھیں وفاداروں کو اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے نامزد کرتا ہے۔ ان وفادارو ں کو لگاتار اپنی پناہ میں رکھا جاتا ہے۔‘‘ پھر اس نے اپنی ناول کی ایک جلد میری طرف بڑھائی، ’’اسے پڑھئے۔ جمہوریت کے ضابطے کو دست پناہ بنانے کا کھیل کیسے کھیلا جاتا ہے۔ پھر اقتدار والے کی چہیتی خود مرکزیت کے نازک ہاتھوں کویہ دست پناہ انگاروں سے جلنے سے کیسے بچاتا ہے۔‘‘

    میں نے مریم سے ناول کی دو جلدیں لے لیں۔ ایک سادے کاغذ پر ایک جگہ دستخط کروائی اور وعدہ کیا کہ ان کی ناول صحیح جگہ پر برائے غور پہنچ جائےگی تو وہ تلخی سے بولیں، ’’کیا عمارت کی دیمکیں ابھی بھی بھوکی ہیں؟‘‘

    اخباروں کے تبصروں میں مریم زمانی کے ناول کے اس خیال پر دلچسپ بحث کی گئی تھی کہ کسی فرد یا افراد کے ادارے کو اس لیے حکومتی اختیارات نہ دیئے جائیں کہ وہ انھیں اپنے ہی لوگوں پر استعمال کرے کیونکہ ایسی صورت حال سے ہی جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی پیدا ہوتی ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ان میں سے کئی تبصرہ نگارو ں کو وہسکی کی دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتے دیکھا تھا۔

    دو تین سال گزر گیے لیکن میری عمارت سے مریم زمانی کی ناول کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ایک دن وہ میرے گھر آئیں، باتوں باتوں میں اس کی مرحوم دوست کا ذکر نکل آیا جو شاعرہ تھیں اور جن پر ان دنوں خاصے مضامین چھپ رہےتھے۔ مریم نے بتایا کہ وہ شاعرہ افلاس کی ماری ایک گوشہ نشین خاتون تھی اور اپنے آپ سے بھی ڈری ڈری رہا کرتی تھی۔ ایک بار اس نے مسلمانوں کی ایک برگزیرہ ہستی حضرت امام جعفر کا ایک عجیب و غریب قول سنایا تھا جو مریم کو یاد رہ گیا تھا۔ میں نے اس قول کو جاننے میں دلچسپی لی تو مریم نے سنایا:

    ’’جب تم یہ دیکھو کہ لوگ اس کے حامی ہوں جو غالب آ جائے، چاہے حق پر ہو یا باطل پر۔ جب تم یہ دیکھو کہ لوگوں کی ساری توجہ پیٹ پر اور شرم گاہ پر مرکوز ہو اور ہوائیں منافقوں کے حق میں چل رہی ہوں اور ایماندارو ں کو کچھ حاصل نہ ہو تو ایسے زمانے میں اپنی حفاظت کرو اور خدا سے نجات طلب کرو کہ وہ تم کو مفاسد سے محفوظ رکھے۔‘‘

    یہ سناکر مریم یکایک جذبات سےمغلوب ہوکر بولیں،’’لیکن وہ شاعرہ جو بےنام اور بےشناخت مر گئی، اس نے اپنی شاعری میں عجیب و غریب سوالات پوچھے تھے کیونکہ شاعری کے پاس سوال ہی ہوتے ہیں۔ اس نے پوچھا تھا کہ کیا اب طاقت کا مفہوم بدل نہیں گیا ہے۔ کیا طاقت پر طاقتور اور کمزور دونوں کی اجارہ داری نہیں ہو گئی ہے۔ لیکن اسے یوں نظر انداز کیا گیا کہ اس کے وہ دانت بھی ٹوٹ گیے جن سے سوال کر کے وہ کاٹ لیا کرتی تھی۔ آخر کو اس نے اپنی خوابگاہ کی دیوار پر ایک تختی لگا دی جس پر لکھا تھا:

    ’’انسان اصلاً صاحب ضمیر وجود ہے۔‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ اس ضمیر کی وجہ سے انصاف اور ایمانداری کی گنجائش رہے گی۔ لیکن لوگ آتے تھے اور اس عبارت کو پڑھ کر ہنستے تھے، اچھلتے تھے، تختی پر تکئے اور گدے اچھال اچھال کر مارتے تھے۔ جیسے جوتے اچھالے جاتے تھے اور وہ اکیلی سب سے کٹی ہوئی اپنے ضمیر کی ماری ہوئی اس بھیانک تنہائی سے نجات پانے کے لیے کافی ہاؤس میں دو کافیاں منگاکر ایک کافی اپنے مقابل کی خالی کرسی کے سامنے رکھتی اور دوسری کافی خود پیتی اور جب اس کے بعدبھی تنہائی بلائے جاں بنی رہی تو وہ حضرت امام جعفر کے اقوال کی پناہ میں چلی گئی اورمفاسد سے محفوظ رہنے کی دعائیں مانگنے لگی۔

    مریم خاموش ہوئیں تو میں نے ان سے نظریں نہیں ملائیں۔ میں سمجھا تھا کہ عمارت میں ان کی ناول پر خاموشی کو لے کر شاید وہ مجھ سے بات کریں گی۔ لیکن جب انہوں نے کوئی بازپرس نہ کی تو میں نے ان سے پوچھا، ’’آپ نے ہماری عمارت کے بڑے کمرے میں جاکر کیا پھر کبھی ان سے ملاقات کی؟‘‘

    ’’ہاں کی تھی۔‘‘ وہ بولیں، ’’انھیں یاد دلایا تھا کہ وہ اپنی اجارہ داری کے لئے Despotic rule کو کتنا بڑھاوا اور دیں گے؟ کیا ان کے عمل سے لوگوں میں اعتماد کے بجائے عدم تحفظ نہیں بڑھ رہا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیا بولے؟‘‘ میرے سوال پر پہلے تو وہ خاموش رہیں پھر کہنے لگیں، ’’میری بات پر انھوں نے مجھ سے الٹا سوال کر لیا۔ پوچھا یہ بتائیں عام لوگوں کو تحفظ دینے میں اسٹیٹ اپنی ذمہ داری کتنی نبھاتی ہے۔ ہمیں بدقماشوں سے بچانے میں کیا وہ کامیاب ہوئی ہے۔ وہ افلاس کی گودمیں جرائم پیشہ لوگ تیار کرتی ہے۔ وہ لوٹ مار کرتے ہیں، تو جیلوںمیں بند کرتی ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اپنے لہجے میں شہد گھولتے ہوئے کہا تھا:

    ’’یہ تو آپ دیکھتی ہوں گی کہ ریاست اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو خود ہی انتہائی مضبوط تحفظ مہیا کرتی ہے۔ جو ریاست اجارے داریوں کی حفاظت کرتی ہو وہ ان اجارہ داریوں کو ختم کس لیے کرےگی۔‘‘

    مریم ٹھیک بتا رہی تھیں۔ وہ ایسے ہی بات کرتے تھے۔ تھوڑی خاموشی کے بعد میں نے ہمت کر کے پوچھا، ’’کیا پھر آپ ان سے نہیں ملیں؟‘‘

    ’’کن سے؟‘‘

    ’’بڑے کمرے والے سے۔‘‘ میں نے وضاحت کی تو انھوں نے جواب دیا، ’’میں توملتی ہی رہی ہوں لیکن مجھ سے زیادہ میری ناول ان سے مل کر پوچھتی رہی ہے کہ وہ جو بڑے کمرےمیں ہوتے ہیں، جہاں دروازے کی دیوار پر لال بلب جلتا بجھتا ہے اور اندر ایک بستر لگا کر ٹائرنگ روم بھی ہوا کرتا ہے، جہاں شکم کو تو بس ککڑی اور پنیر کے ٹکڑوں پر ٹرخا کر قیلولہ ہوتا ہے، لیکن بستر سے ٹھیک اوپر نظر اپنے پورے ارتکاز کے ساتھ چھت پر ٹنگی کسی شرم گاہ پر مرکوز رہتی ہے۔ افسوس کہ وہ ہر بار شرمگاہوں سے یوں معاملے کر کے کتنے تنہا رہ جاتے ہوں گے؟ میری ناول ان سے سوال کرتی ہے کہ برسہا برس کلاسیکی شاعری میں عورت کے بال، آنکھیں، ابرو، کمر، سینہ، ناف، زیر ناف، پڑھانے والوں کا جنسی تجربہ کیا وہی ہوتا ہے جو مفاسد سے پناہ مانگنے والی عورت کا، جس کی زندگی کی معیاد کلی کے چٹک کر تبسم کرنے تک ہے۔‘‘

    میرے رٹائرمنٹ میں مشکل سے ایک ہفتہ رہ گیا تھا کہ مریم مجھے فون کر کے کافی ہاؤس میں ملیں۔ اب وہ سگریٹ بھی پینے لگی تھیں۔ وہ بےصبری سے غالباً میری منتظر تھیں۔ ایش ٹرے پر سگریٹ رکھ کر شروع ہو گئیں۔

    ’’مجھے لگتا ہے کہ ا ن حالات میں فسادوں سے اپنی خیر منانا ممکن نہیں ہے۔ خدا بھی ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ ان حالات میں انسان کی بنیادی صفات جنگ کے ذریعے ہی خود کو نمایاں کرتی ہیں اور پروان چڑھتی ہیں۔ لگاتار سب کچھ پرسکون، پرامن اور خوشگوار رہے، یہ محض خواب ہے۔ اگر ہم لکھنے والے اپنی توقیر اور اپنے وقار کی بنیادی شناخت کو بھول چکے ہیں تو ہم کیوں لکھتے ہیں۔ میرا لکھنا جو میرا مذہب ہے، موجودہ حالات نے اسے میری ہی نظر میں گرا دیا ہے۔ جب اندلس میں اسلام کی حکومت بنی اور عیسائیوں پر مسلمانوں کا غلبہ ہوا تو راجدھانی کارڈورا کے بعض عیسائی راہب تڑپ اٹھے۔ وہ اپنے تشخص کو منوانے کے لیے اسلامی عدالتوں میں قاضی کے سامنے کھڑے ہوکر محمدؐ صاحب کی ایسی تضحیک کرتے تھے کہ قاضی انھیں پھانسی پر لٹکا دیتا تھا۔‘‘

    میں مریم کو خاموشی سے تک رہا تھا اور وہ مجھے بتا رہی تھی کہ وہ کل بڑے کمرے میں ان سے ملنے جا رہی ہیں۔ ان کے چہرے پر نہ کالی داڑھی ہوگی، نہ ڈھیلے ڈھالے کپڑے ہوں گے، نہ سرپر صافہ ہوگا نہ ہاتھوں میں اے کے سینتالیس۔ وہ تو صرف اس کمرے میں ایک ایسی چیز میں خود کو کھو دینا چاہتی ہے جو کہیں کھو گئی ہے۔ وہ تو شرمگاہ پر مرکوز رہنے والے ارتکاز سے ایک یادگار ہم بستری کے لیے جارہی ہیں۔ یہ بتاکر مریم چلی گئیں اور میں روکتا ہی رہ گیا۔ میں عمارت کے مسائل کو گھر لے کر نہیں جاتا تھا، مجھے شام کو وہسکی سے شغل، بچوں سے پیار کرنا اچھا لگتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ ا دب اور شاعری کسی کو کارآمد نہیں بنا سکتی، کیونکہ مجھ سے زیادہ تو تھانے میں ایف۔آئی۔ آر۔ درج کرنے والا منشی کارآمد ہوا کرتا ہے۔

    صبح ہوئی تو میرا جی نہ مانا۔ ایک عجیب سا ہول دل پر طاری تھا۔ میں نے مریم کو فون کیا اور ان سے بتایا کہ میں اس کی باتوں سے بہت فکر مند ہوں اور وہ نادانی میں کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے کہ اسے پچھتاوا ہو۔ تو وہ ہنسی پھر فون پر اس کے مسلسل بولتے رہنے کی آواز آئی، الفاظ اور جملے سیلاب زدہ دریا کی طرح بہہ رہے تھے۔

    ’’میں یہ بات جانتی ہوں کہ آپ بھی اس عمارت کا ایک حصہ ہیں۔ شہروں شہروں اس عمارت میں رکھی ردی کی ٹوکریاں ان کے کاغذات، ان میں پھینکی گئی پان کی پڑیاں اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں اور اندام نہانیوں کی طرف سے بھیجے گیے پیغامات کے چاک شدہ رقعے اور سوٹ اور شیروانیوں میں ہانپتے ہوئے بے گناہ اور معصوم لوگ جو بغل میں اپنی کتابوں کے پلندے دبائے زینہ چڑھتے اترتے ہیں وہ سب ہی اس عمارت کا ایک حصہ ہیں اور وہ سب بھی جن کو اس عمارت نے اپنی مصلحت کے تحت سرفراز کیا اور وہ بھی جو ہزیمت شدہ اور تنہا رہ کر ایک کافی خالی کرسی کے سامنے رکھ کر دوسری کافی خود پیتے رہے، سب اس عمارت کی پیداوار ہیں اور یہ عمارت ان بے گناہوں ا ور معصوموں کے بنیادی انسانی اوصاف کو زوال پرستی کی طرف یوں ڈھکیل چکی ہے کہ یہ سب وقت کی موج خرام سے کترے ہوئے گلوں کے نمونے بن چکے ہیں۔

    خود میں بھی جو اندلس کی راجدھانیکا رڈووا کی عدالت میں جلوہ افروز قاضی القضات اور اس کی دیواروں پر جڑی تختیوں کو خاک و خون اور دھویں میں بدل دینا چاہتی ہوں، وہ بھی خرام یار کے قدموں میں کبھی خاک سے زیادہ اور کیا ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر مریم نے سلسلہ منقطع کر دیا۔ ایسا بیان اورمکالمہ اب کان سننے کے عادی نہ رہ گیے تھے۔ کاش مریم خواتین کی پولیس سروس میں چلی گئی ہوتی تو اب تک ڈی آئی جی ہوتی، وہسکی پیتی بچوں سے پیار کرتی۔

    دوسرے دن میں نے سوچا کہ جب میں بڑے کمرے میں داخل ہونگا تو وہاں دھواں بھرا ہوگا۔ زخم خوردہ اور جھلسا ہوا ساز و سامان ہوگا، انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے اعضا ہوں گے اور دھماکے سبب چھت کے مڑے تڑے پنکھے پر دیوار کی وہ تختی اکھڑ کر لٹک گئی ہوگی جس پر لکھا تھا:

    ’’دانشوروں کو مکتبی اور ادارتی منتظمین کا غلام نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ سنا ہے مریم خود کش جہادیوں کی طرح اپنے پیٹ پر بارود کے بجائے اپنی ناول باندھ کر بڑے کمرے میں گئی تھی، لیکن وہاں اسے سمجھا دیا گیا کہ مانا کہ الفاظ بھرے ہوئے پستو ل کے مانند ہوتے ہیں لیکن مریم جنھیں نشانہ بنانا چاہتی ہے وہ کمرے بلٹ پروف ہیں اور ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور وسائل بہت وسیع ہیں، پستول کو گولیوں سے بھر لینا ہی کافی نہیں بلکہ کارگر نشانہ کہاں لگانا ہے، یہ جاننا ضروری ہے۔

    مدت ہوئی میں اس عمارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکا ہوں۔ اب تو اس عمارت کا آپا بھی بدل چکا ہے اور میرے زمانے کی تختیاں بھی اب وہاں سے اکھاڑی جا چکی ہیں اور نئی ہدایتوں کے ساتھ نئی تختیاں لگائی جا چکی ہیں۔ ایک تختی پر اب یہ لکھا ہے: ’’تاریخ میں کوئی بھی دستاویز ایسی نہیں جو دہشت اور بربریت سے عبارت نہ ہو۔ آپ کے سامان کی تلاشی لی جا سکتی ہے، تعاون کیجئے۔‘‘ سنا ہے اب کتابیں بھی برائے غور نہیں بھیجی جاتیں۔ صرف فلیپ پر چھپی آراء کے ساتھ کتابوں کے گرد پوش پیش کیے جاتے ہیں۔ جن گرد پوشوں پر ہیڈ کوارٹر سے Clear (کلیر) کی مہر لگ کر آتی ہے انھیں اگلی کارروائی کے لیے رکھ لیا جاتا ہے۔ اخبارات عمارت کی کارکردگی کی تعریف کر رہے ہیں۔ اب تو وہاں صدر دروازے پر ہی میٹل ڈٹکٹر نصب کر دیا گیا ہے اور دیواروں پر لگے نیم مخفی کیمرے آنے جانے والو ں پر نظر رکھتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان عمارتوں کے مقصد کی حفاظت کے لیے نا چاہتے ہوئے بھی انھیں زیادہ فوجی ساز و سامان کے ساتھ ایک طاقتور عسکری کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور پہلے پھاٹک پر ہی نئی تختیاں بھی جڑی گئی ہیں۔ یہ تو خیر مجھے اطمینان تھا اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا بھی تھا کہ تختیاں کسی روز اکھاڑے جانے کے لئے جڑی جاتی ہیں۔

    مأخذ:

    آگ کے پاس بیٹھی عورت (Pg. 65)

    • مصنف: اقبال مجید
      • ناشر: فائن آفسٹ ورکس، دہلی
      • سن اشاعت: 2010

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے